متوازن غذائیں اور انسانی صحت

پروردگار عالم نے اپنی تمام مخلوق میں انسان کو سب سے محترم اور اشرف بنایا ہے اور اسے ہر قسم کی پاکیزہ غذاؤں سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ‘‘وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُم مِّنَ الطَّیِّبٰتِ’’(بنی اسرائیل:  ۷۰)’’بے شک ہم نے آدم کی اولاد کو محترم بنایا اور خشکی وتری میں ان کو سواری دی اور ان کو پاکیزہ رزق عطا کیا۔’’

انسانی زندگی کا انحصار غذاؤں پر ہے، اگر انسان غذا سے محروم ہوجاتا ہے تو صحت سے محروم ہوجاتا ہے۔ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں میں صحت سب سے بڑی نعمت ہے۔ بقول سالک  ؏ تندرستی ہزار نعمت ہے۔

حضرت رسالت مآب محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ‘‘جو شخص اللہ کا تقویٰ رکھتا ہے اس کے لیے مال داری میں کوئی حرج نہیں ہے اور متقی انسان کے لیے صحت مال داری سے بہتر ہے اور نفس کی فرحت بھی ایک نعمت ہے۔ (ابن ماجہ، ابواب التجارۃ، باب الحث علی المکاسب)

صحت مند اور مکمل زندگی کے لیے اچھی اور معتدل غذاؤں کا استعمال بہت ہی ضروری ہے۔ اسی لیے تمام حکماء اور اطباء نے انسانی صحت کے لیے دواؤں سے پہلے غذاؤں کے انتخاب اور استعمال پر زور دیا ہے۔ کیوں کہ مناسب غذاؤں پر ہڈی، خون، اعصاب اور قلب ودماغ کی افزائش کا انحصار ہے۔ طب میں انسانی صحت کی بقا کے لیے چھ ضروری اسباب کو بنیادی حیثیت حاصل ہے جن کو اسباب ستہ ضروریہ کہا جاتا ہے وہ حسب ذیل ہیں:

(۱) ہوائے محیط، (۲) ماکولات ومشروبات، (۳) حرکت وسکون بدنی، (۴) حرکت وسکون نفسانی، (۵)سونا اور جاگنا، (۶)احساس واستفراغ۔ یعنی سانس لینے کے بعد سب سے ضروری چیز کھانے پینے کی ضرورت ہے اور کھانے پینے میں اشیاء خوردنی کی موزونیت اور پاکیزگی کا خیال رکھنا لازم ہے۔ طبی اصولوں کے مطابق غذائیں تین قسم کی ہوتی ہیں:

غذائے لطیف:  یہ لطیف خون پیدا کرتی ہیں۔

غذائے کثیف:  کثیف خون پیدا کرتی ہیں۔

غذائے معتدل:  اس قسم کا خون پیدا کرتی ہیں جس کا قوام نہ زیادہ رقیق ہو اور نہ زیادہ غلیظ ہو۔

ان غذاؤں میں بعض کثیر التغذیہ ہوتی ہیں اور بعض قلیل التغذیہ۔ بعض جید الکیموس اور بعض ردیء الکیموس۔ اس کے لحاظ سے مندرجہ ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: 

غذائے لطیف، کثیر التغذیہ جید الکیموس، مثلاً:  ماء اللحم، زردئ بیضہ، نیم برشت

غذائے لطیف، کثیر التغذیہ ردی ء الکیموس، مثلاً:  کلیجی و پھیپھڑے۔

غذائے لطیف، قلیل التغذیہ جید الکیموس، مثلاً:  پھل، سیب، انار وغیرہ

غذائے لطیف، قلیل التغذیہ ردی  ءالکیموس، مثلاً:  ساگ، سبزی وغیرہ

غدائے کثیف، کثیر التغذیہ جیدالکیموس، مثلاً ابلا ہوا انڈا، بھیڑ کے بچے کا گوشت

غذائے کثیف، کثیر التغذیہ جید الکیموس، مثلاً:  بطخ کا گوشت

غذائے کثیف، کثیر التغذیہ ردی  ء الکیموس، مثلاً:  دبلے بیل کا گوشت

غذائے کثیف، قلیل التغذیہ ردی ء الکیموس، مثلاً:  سوکھا گوشت 

طبیب زکریا الرازی کا کہنا ہے کہ لطیف غذائیں سب سے زیادہ صحت کو محفوظ و برقرار رکھنے والی ہوتی ہیں۔ صحت وتندرستی کو محفوظ وبرقرار رکھنے کے لیے غلیظ قسم کی غذا کا ہمیشہ استعمال نہ کریں۔ اور ردی  ءغذاؤں سے ہر حال میں پرہیز کرنا ضروری ہے۔ خراب اخلاط بنانے والی تمام غذائیں چھوڑ دینا لازم ہے۔ ایسی غذا ؤں میں ترپھل بھی شامل ہے۔ (کتاب الحاوی، ۲۳ حصہ، CCRUM، ۲۰۰۷ء، صفحہ: ۱۵-۱۶)

طبی علوم میں سالم غذا، صحت بخش غذا او رمتوازن غذا (balanced diet) پر کافی توجہ دی جاتی ہے، کیوں کہ سالم غذا کو نظر انداز کرنے سے بہت سی خطرناک بیماریاں جیسے دل ورگوں کی بیماری، ضغط الدم قوی (hypertension)، اسٹیویوروسز(osteoporisis) اور سرطان(cancer) پیدا ہوسکتی ہیں۔ ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ انسان کے بیماری میں مبتلا ہونے کی ایک بڑی وجہ صحت وتندرستی کے لحاظ سے مناسب غذاؤں کا فقدان ہے۔

عالمی تنظیم صحت (world health org.) نے طے کیا ہے کہ ۲۰۲۵ء تک جوانوں میں ذیابیطس، سمن مفرط (obesity) اور بچوں کے اعتدال سے بڑھے ہوئے وزن پر روک لگانا ہے۔ علاوہ ازیں نمک کا عالمی سطح پر ۳۰ فی صد تک استعمال کم کرنا ہے۔

عالمی تنظیم صحت صحت بخش کھانے (healthy diet) کی سفارش کرتاہے۔ یعنی وہ غذا جس میں کافی مقدار میں حیاتین ومعدنیات (vitamins ‘ minerals) پائی جائیں جو  متوسط ہوں اور گوشت، دودھ، اناج، سبزیوں، پھل، مشروب سے حاصل کی گئی ہوں۔ اس طرح کے کھانے بدن کے تحفظی نظام کو زیادہ قوی بناتے ہیں اور بیماریوں جیسے ذیابیطس، کلسٹرول، قلب وعروق کی بیماریوں کو بڑھنے سے روکنے کا اہم ذریعہ بنتے ہیں۔ 

صحت بخش غذا کے لیے عالمی تنظیم صحت نے  درج ذیل نکات تجویز کیے ہیں:  

 توانائی (calories lnergy) کا جسمانی حصول  اور اس کے استعمال کا متوازن ہونا۔ یعنی اگر غیر معمولی وزن سے بچنا ہے تو جتنی توانائی کی جسم کو ضرورت ہے اتنی ہی استعمال کرنی چاہیے۔

شحم (چربی) کا استعمال یومیہ توانائی کی مقدار کے ۳۰ فی صد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اور saturated fats کی جگہ unsaturated fats استعمال کرنا چاہیے۔ اورtran fats(جو تیل کو بار بار استعمال کرنے سے پیدا ہوتاہے) کا استعمال بالکل ختم کردینا چاہیے۔

یومیہ توانائی کی مقدار کے ۱۰ فی صد سے کم شکر کا استعمال صحت بخش غذا کا حصہ ہے اور۵ فی صد تک کم کرنا صحت کے لیے مفید ہے۔

نمک کا  ۵گرام فی یوم سے کم استعمال ضغط الدم قوی، امراض قلب اور سقوط (stroke) سے بچنے میں مددگار ہے۔ اس قدر نمک کا استعمال 1.7 Million/yearاموات کو روک سکتاہے۔

کم از کم  ۴۰۰گرام پھل اور سبزیاں روزانہ استعمال کرنی چاہئیں۔ لیکن آلو کی طرح نشاستہ دار (starchy) نہ ہوں۔ ان سے جسم کو ریشے (dietary fiber) ملتے ہیں۔ اسی وجہ سے پھل، سبزیاں، اناج، پھلیاں (legumes) صحت بخش غذا میں شامل کی جاتی ہیں۔

سالم غذا میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو ضروری غذائی اجزا macronutients (کاربیدات، لحمیات، شحمیات) اور micronutuients (حیاتین ومعدنیات) پر مبنی ہوں اور جسمانی ضرورتوں کو پورا کرتی ہوں۔ یہ سالم غذا جسم کی ضروری غذائی اجزا پانی ومشروب، امینو ایسڈ فینی ایسڈ حیاتین ومعدنیات کے ساتھ ساتھ ضروری توانائی (calories) فراہم کرتی ہے۔ علاوہ ازیں جسمانی سرگرمی اور ورزش صحت وتندرستی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس سے غذاؤں کے استعمال اور نظام ہضم میں توازن برقرار رہتاہے۔

یہ سالم غذا ہزال (malnutrition) اور غیر متعدی امراض (Non-communicable diseases) جیسے کہ امراض قلب وعروق، ذیابیطس، سرطان اور سقوط سے بچنے میں مددگار ہے۔ عمدہ غذائیں (proper nutritious) جسم کے لیے آئندھن کا کام کرتی ہیں۔

زکریا رازی کا کہنا ہے کہ ایسی غذا جس کے بارے میں انسان کو معلوم ہو کہ وہ زیادہ جلدی اور بخوبی ہضم ہوجائے گی،اس کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ جالینوس کا کہنا ہے کہ میں تمام لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ردی ء الاخلاط غذائیں کھانا چھوڑ دیں اگرچہ وہ انھیں بخوبی ہضم کرلیتے ہیں۔ صحت کی حفاظت کے خیال کے پیش نظر لیس دار کھانوں اور جسم کو موٹا کرنے والی غذ۱ؤں کا استعمال نہ کیا جائے بلکہ ان سے گریز کیا جائے کیوں کہ محافظ صحت چیزیں بدن کو موٹا نہیں بناتی ہیں۔ 

کھانے کے بہترین اوقات وہ ہیں جو ٹھنڈے اور معتدل ہوں، گرم اوقات میں کھانا جسم کے لیے غیر مناسب اور بسا اوقات مضر ہوتاہے۔ بقول بقراط موسم گرما میں بالفعل گرم چیز اور موسم سرما میں بالفعل سرد چیزیں نہ کھائی جائیں۔ خراب غذائیں گرچہ ہضم ہوجاتی ہوں مگر ان کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ زیادہ دنوں تک استعمال کرتے رہنے سے جسم کے اندر ردی ء،مائی، خام، گرم اور چریری اخلاط پیدا کردیتی ہیں اور مختلف قسم کے بخارو امراض جنم لیتے ہیں۔ (الحاوی، ص: ۲۱)

مسلسل بدہضمی کا ہونا امراض کی پیدائش کا ایک بڑا سبب ہے۔ خراب کیموس پیدا کرنے والے کھانوں سے لاحق ہونے والی بدہضمی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ کھانا اتنا ہی لینا چاہیے کہ معدے کے اوپر بوجھ نہ بنے اور پانی بھی اسی قدر پینا چاہیے کہ پوری طرح سیرابی نہ ہو اور قراقر شکم کی شکایت نہ پیدا ہوجائے۔ بسیار خوری سے متعدد امراض پیدا ہوتے ہیں جن میں موٹاپا، ضغط الدم قوی، فالج، ذیابیطس،سرطان، دائمی پیچش یا دائمی قبض سرفہرست ہیں۔ پیٹ بھر کر کھانے کی عادت بُری اور خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ خاص طور پر بلغمی مزاج  لوگوں کے لیے کیوں کہ اگر ان غذاؤں کو معدے نے ہضم کرلیا تو رگیں پُرہوجائیں گی اور طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوں گی۔ کھانے کی کم مقدار کو طبیعت ہضم کرلیتی ہے کیوں کہ وہ اس کو ہضم کرنے پر پوری طرح قادر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس زیادہ مقدار میں کھانا گرچہ بہت عمدہ قسم کا ہو طبیعت ہضم نہیں کرپاتی۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحت کا راز کم کھانے میں بتایاہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ‘‘مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنت میں کھاتا ہے’’۔ (سنن ترمذی، ابواب الاطعمہ) 

غذاؤں کی تعیین اور مقدار میں انسانی عمر کے تفاوت کا بڑا دخل ہوتاہے۔ بچوں کے لیے ان کی عمر کے لحاظ سے غذا دی جاتی ہے، جوانوں کو زیادہ غذا کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب کہ بوڑھوں کو نسبتاً کم غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمر کے ساتھ نظام ہضم میں بھی کم زوری واقع ہوتی ہے۔ عام انسانوں کے لیے روزانہ کی شکم سیری فضلات میں اضافہ کرتی ہے اور سدوں وعفونت کی پیدائش کی وجہ بنتی ہے۔ بہترین حرکت کھانے کے بعد ہلکے ہلکے چلنا ہے کیوں کہ یہ ہضم میں مدد کرتاہے۔ اس کے برعکس سب سے غلط تیز تیز اور سخت قسم کی حرکت ہے۔ کھانا کھاتے ہی زیادہ مقدار میں مشروبات لینا معدے کو غذا کی تحلیل سے روک دیتا ہے اس لیے غذا ہضم نہیں ہوتی۔ اگر کھانے کے بعد  پانی پینا ضرور ی ہوجائے تو اسی قدر پانی پئیں جس سے پیاس میں سکون آجائے۔ یہ فضلات کے باہر خارج ہونے کے عمل کو آسان بناتا ہے۔ نہار منھ پانی کا استعمال بدن کو دبلا کرتا ہے اور معدے کی آگ کو بجھاتا ہے اور کھانے کے بعد کا استعمال بدن کو موٹا وفربہ بناتا ہے اور بلغم میں اضافہ کرتا ہے۔

روغنی غذا بہ کثرت کھانے سے سستی اور کاہلی درآتی ہے اور کھانے کی خواہش جاتی رہتی ہے۔ ٹھنڈی چیزوں کا بکثرت استعمال جسمانی خوراک کو کم کرتا ہے اور جسم کو بوجھل بنادیتا اور سستی پیدا کرتا ہے۔ نمکین چیزوں کا بکثرت استعمال بڑھاپا لاتا ہے۔ پانی میں پیدا ہونے والی کسی بھی چیز کو شہد،شکر، غیر پختہ دانوں اور خاص طور پر دودھ کے ہم راہ نہ کھائیں۔ دہی کو مولی اور مرغی کے ساتھ اور مچھلیوں کو سبزی کے ساتھ نہ کھائیں۔ تانبہ اور پیتل کے برتن میں رکھا ہوا گھی نہ کھائیں۔ ایسے برتنوں کی قلعی کرنی چاہیے۔

بسیار خوری، آرام طلب زندگی (sedentary life style) مختلف جسمانی، دماغی اور روحانی بیماریوں کا موجب ہوتی ہے اورمختلف امراض کے لیے بدن کو سازگار کردیتی ہیں۔ مثلاً:  شحم (چربی)، زیادہ نمک،غلیظ غذا (گوشت) کا زیادہ استعمال پھلوں اور ہری سبزیوں کا کم استعمال،بازار کی غذائیں (junk food) کھانے میں food colour (مصنوعی رنگ) اور food additives کا استعمال، تلی ہوئی چیزوں کا کثرت سے استعمال، استعمال شدہ تیل کو متعدد دفعہ استعمال کرنا، پھلوں، سبزیوں اور اناج کا کم استعمال کرنا، شراب نوشی، استعمال شدہ کھانے وغیرہ۔

غذاؤں کے موزوں انتخاب اور استعمال کے ذریعے مختلف قسم کے جسمانی امراض کا علاج کیا جاتا ہے۔ علاج بالتغذیہ دواؤں کے استعمال کو کم کرتاہے اور دواؤں کے منفی اثرات سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ اچھی غذاؤں کے ذریعے ذہنی اور نفسیاتی امراض پر بھی قابو پایا جاسکتاہے۔ آسٹریلیا کی ڈیکن یونیورسٹی میں ڈپریشن ذہنی تناؤ اور مایوسی پر قابو پانے کے لیے غذاؤں کے ذریعے علاج کا ایک تجربہ کیا گیا۔ ڈیکن یونیورسٹی کی تحقیقاتی جماعت کی سربراہ فیلس جیکانے ڈپریشن کے شکار ۶۷ مریضوں کو اپنے مطالعہ اور تجربہ کے لیے منتخب کیا۔ ان میں سے آدھے مریضوں کو صحت کے لیے غذاؤں کے ماہرین کے مشورہ سے مخصوص غذائیں دی گئیں اور باقی نصف مریضوں کو نہیں دی گئیں۔ تین ماہ بعد ان مریضوں کا معائنہ کیا گیا تو یہ نتیجہ سامنے آیا کہ جن مریضوں کو مخصوص غدائیں دی گئیں وہ اچھی غذا نہ ملنے والے مریضوں کے مقابلہ میں زیادہ مطمئن، خوش اور صحت مند ہوگئے۔ ان کا ذہنی تناؤ کم ہوچکا تھا اور وہ ہنس بول رہے تھے۔ اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جن لوگوں کی غذاؤں میں سبزیاں، پھل، مچھلی، اجناس وغیرہ شامل ہوتے ہیں ان افراد کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ مفید اور فرحت بخش غذاؤں کے ذریعے ڈپریشن کے مرض پر قابو پایا جاسکتاہے۔

محققین کا ماننا ہے کہ غذاؤں کا استعمال جسمانی تاثیر کے ساتھ اخلاقی ونفسیاتی برتاؤ میں بھی موثر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں دور حاضر میں لوگوں کی طرزِ زندگی (ورزش نہ کرنا، موٹاپا، تمباکونوشی وغیرہ )بھی صحت وتندرستی کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے جو انفرادی واجتماعی طور پر رہن سہن کے طریقے میں بدلاؤ اور منظم ودائمی پروگرام چاہتاہے۔ نیز بُری عادتیں بھی غذاؤں کے مثبت اثرات میں خلل ڈالتی ہیں۔

غلط اور خراب غذائیت سے ہونے والی بیماریوں کو روکنے اور ان سے مقابلہ کے لیے اسلام اور طب میں موجود اہم غذائی ہدایات، ان کے اوقات، احکامات کا لحاظ کیا جائے تو بہت سی بیماریوں سے انسان محفوظ رہ سکتاہے۔

اسلام میں کھانے کے حصول، استعمال اور انتخاب میں دقت واحتیاط کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اسی طرح ناپاک وحرام کھانے جیسے خون، مردار، سور کے گوشت سے احتراز  اوربسیار خوری سے پرہیز لازم ہے۔ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح سے دھونا اور سکون کے ساتھ کھانے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ بعض غذاؤں کا اثر انسان کے اخلاق وکردار پر ہوتاہے۔ مثلاً:  

اعتدال کے ساتھ گوشت کااستعمال خوش اخلاقی، خود اعتمادی اور شجاعت کا سبب ہے۔ اگر استعمال میں بے اعتدالی برتی جائے تو دل کو سخت کردیتاہے۔  

دودھ  صبر، مہربانی اور سکون کا سبب ہے۔

شہد حافظہ کے تیز اور دل کے شفاء کا ذریعہ ہے۔

انگور غم واندوہ اور افسردگی کو شادابی میں تبدیل کرتاہے۔

خرما صبر، حلم اور بردباری کا باعث ہے۔

زیتون حافظہ کو تیز کرتا ہے اور سیب اعصاب کو قوی بنانے اور چہرے پر شادابی لانے کا ذریعہ ہے۔

مکمل انسانی صحت کے لیے غذاؤں کے انتخاب میں حلال وحرام کی تمیز رکھنا بھی ضروری ہے۔ قرآن مجید میں حلال وطیب غذا کھانے کی تاکید کی گئی ہے۔ اور خبیث وحرام غذا کھانے سے منع کیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  یَسْأَلُونَکَ مَاذَا أُحِلَّ لَہُمْ قُلْ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ(المائدہ:  ۴) ‘‘لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کون سی چیز حلال کی گئی ہے؟ کہہ دیجیے کہ تمھارے لیے سب پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں’’۔ دوسری جگہ ہے:  فَکُلُواْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلالاً طَیِّباً وَاشْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ(النحل: ۱۱۴) ‘‘اے لوگو! خدا نے تمھیں جو حلال اور پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھاؤ (پیو) اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی نعمت کا شکر بھی ادا کرو، اگر تم صرف اس کی عبادت کرتے ہو’’۔ 

انسانی اعضاوجوارح کے خلیات جیسے قلب، دماغ، گردہ، پھیپھڑا، آنکھ، ہاتھ، پاؤں وغیرہ کو اپنی خاص غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے، ان سب کی ضرورت کو کسی ایک غذا سے پرکرنا مشکل ہے۔ اس لیے انسانی جسم کو متنوع غذاؤں کی ضرورت رہتی ہے۔ ایسی متنوع صحت بخش غذاؤں سے اپنے آپ کو محروم نہیں کرنا چاہیے۔ خالق کائنات نے بھی انسانوں کو پاکیزہ غذاؤں کو اپنے اوپر حرام کرنے سے روکا ہے۔ قرآن میں ہے:  قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیَ أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ (الاعراف:  ۳۲)’’ان سے کہہ دو کہ اللہ کی زینت کو جو اپنے بندوں کے لیے اس نے پیدا کی ہے اور پاکیزہ رزق کو کس نے حرام کیاہے’’۔ 

اسلامی تعلیم کے مطابق اچھی غذا وہ ہے جو پاکیزہ، حلال اور نظامِ ہضم کے لیے موزوں ہو، اس کے مقابلہ میں نقصان دہ غذا وہ ہے جو حرام ہو اور نظامِ ہضم کے منافی ہو۔ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر انسان حلال وحرام غذا کی رعایت کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی پاک وحلال غذا کا استعمال کرسکتا ہے اور حرام وکثیف اور بدن کو نقصان پہنچانے والے کھانے سے پرہیز کرکے اپنی صحت وتندرستی کو محفوظ کرسکتاہے۔

موجودہ طبی تحقیقات سے اسلامی تعلیمات کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سالم طرزِ زندگی رکھنے اور بہت سی جسمانی وروحانی وسماجی بیماریوں سے بچنے میں عصری طبی علوم میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ صحیح وسالم طرزِ زندگی کی پیروی کرتے ہوئے مختلف جسمانی ذہنی بیماریوں کو روکنے کے لیے دین اسلام کی ہدایات اور طب میں موجود ہدایات کو اپنانا چاہیے۔ اس پوری بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ متوازن پاک اور صاف غذاؤں کے استعمال سے انسان بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا  اور صحت مند زندگی گزار سکتاہے۔ غیر متوازن غذاؤں سے انسان نہ صرف  اپنی زندگی کو بیماریوں اور خطرات سے دوچار کرتاہے، بلکہ اپنے اہل خانہ کو بھی  مصیبت میں ڈالتاہے۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223