رسائل و مسائل

محمد رضی الاسلام ندوی

میت کو دوبارہ غسل دینے کی ضرورت نہیں

سوال: میت کو غسل دینے کے بعد اسے کفن پہنادیا گیا۔ اس کے بعد پیشاب پاخانہ یا کچھ نجاست جسم سے نکلی تو کیا دوبارہ غسل دینا ضروری ہے؟

جواب: اسلامی شریعت میں میت کو غسل دینے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ حضرت ام عطیہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی صاحب زادی حضرت زینبؓ کا انتقال ہوا۔ انھیں ہم غسل دے رہے تھے توآپؐ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا:

‘‘اسے پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ طاق (یعنی تین یاپانچ) مرتبہ غسل دو۔ آخر میں کافور ملالو۔’’(بخاری: ۱۲۵۳)

میت کو غسل دینے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے کسی تخت پر لٹاکر تمام کپڑے اتار دیے جائیں، سوائے لباسِ سترکے، پھر نہلانے والا اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر (جدید دور میں میڈیکل دستانے پہن کر) اسے استنجا اور وضوکرائے۔(کلی کرانے اور ناک میں پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں)،پھر سر اور داڑھی کے بال دھوئے،پھر اسے بائیں کروٹ پر لٹاکر سر سے پاؤں تک پانی بہایا جائے۔ اسی طرح اسے دائیں کروٹ لٹاکر کریں۔ پھر میت کو ٹیک لگاکر بٹھائیں اور نرمی سے پیٹ پر ہاتھ پھیریں۔اگر کچھ خارج ہو تو اسے دھو ڈالیں۔ آخر میں پورے بدن پر پانی بہادیں۔ اس کے بعد کفن پہنادیں۔

اگر میت کو کفن پہنانے کے بعد اس کے بدن سے کچھ نجاست نکلے اور کفن میں لگ جائے تو نہ میت کو دوبارہ غسل دینے کی ضرورت ہے، نہ کفن بدلنے کی، بلکہ اتنا کافی ہے کہ نجاست صاف کردی جائے اور کفن کا جو حصہ آلودہ ہوا ہو  اسے دھو دیا جائے۔

کیا نماز جنازہ میں پانچ تکبیریں کہنے سے نماز ہوجائے گی؟

سوال: یہاں ایک نماز جنازہ کے موقع پر ایک صاحب نے نماز پڑھائی۔ اس میں انھوں نے غلطی سے پانچ مرتبہ تکبیر کہی۔ اس پر شور اٹھا۔ کسی نے کہا:  نماز نہیں ہوئی۔ کسی نے کہا:  ہوگئی۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں۔ اگرنمازِ جنازہ میں امام پانچ تکبیریں کہہ دے تونماز ہوجائے گی یانہیں؟

جواب: نماز جنازہ میں رسول اللہﷺ کتنی تکبیرات کہتے تھے؟ اس سلسلے میں تین (۳) سے لے کر نو (۹) تکبیرات کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ صحیح مسلم میں پانچ (۵) تکبیرات کاذکر ہے۔(حدیث نمبر۹۵۷) لیکن جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ رسول اللہﷺ کاآخری عمل چار(۴)تکبیرات کہنے کاتھا۔(مستدرک حاکم)

صحیح مسلم کی جس حدیث میں پانچ تکبیرات کا ذکر ہے اس کی شرح میں امام نوویؒ نے لکھا ہے:

‘‘دلّ الاجماع علی نسخ ھذا الحدیث، لأنّ ابن عبد البر وغیرہ نقلوا الاجماع علی أنّہ لایکبّر الیوم الا أربعاً۔’’(المنھاج شرح صحیح مسلم)

‘‘(صرف چار پر) اجماع ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔ ابن عبدالبر اور دیگر علما نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اب صرف چار تکبیریں کہی جائیں گی۔‘‘

البتہ اگر امام بھول کر پانچ تکبیریں کہہ دے تو بھی نمازِ جنازہ درست ہوگی۔ فقہا نے لکھا ہے کہ مقتدی پانچویں تکبیر میں امام کی اتباع نہیں کریں گے، بلکہ خاموش کھڑے رہیں گے، پھر امام کے ساتھ سلام پھیریں گے۔  اگر امام کے ساتھ مقتدی بھی پانچویں تکبیر کہہ لیں تب بھی نماز جنازہ ہوجائے گی۔(الدرالمختار وحاشیہ ابن عابدین:  ۲؍۲۱۴)

اس کے علاوہ اگر مذکورہ بالا احادیث کی بنا پر کسی امام کا مسلک پانچ تکبیرات کے جواز کا ہے، اور وہ پانچ تکبیرات کے ساتھ نماز پڑھاتا ہے تو اس کے پیچھے بھی نماز درست ہوجائے گی۔

امام ترمذی لکھتے ہیں:

وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ إِلَى هَذَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِی صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ:  رَأَوْا التَّكْبِیرَ عَلَى الجَنَازَةِ خَمْسًا “، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ:  إِذَا كَبَّرَ الإِمَامُ عَلَى الجَنَازَةِ خَمْسًا فَإِنَّهُ یتَّبَعُ الإِمَامُ۔ (سنن ترمذی:  حدیث نمبر ۱۰۲۳)

‘‘صحابہ میں سے بعض اہل علم کی رائے یہ تھی کہ جنازہ میں پانچ تکبیرات ہوں گی۔  (امام) احمد اور (امام) اسحاق نے کہا:  اگر امام جنازے میں پانچ بار تکبیرات کہے تو امام کی پیروی کی جائے گی۔’’

 

 کیا مصنوعی طریقے سے استقرارِ حمل جائز ہے؟

سوال: مصنوعی استقرار حمل intra-uterine insemination جدید میڈیکل سائنس کا ایک ایساطریقہ ہے جس کے ذریعے حمل کی استعداد پیداکی جاتی ہے۔ اس طریقے میں مرد کے نطفے کو مصنوعی طریقے سے خاتون کے رحم(uterus)میں ڈالا جاتا ہے۔ کیا یہ طریقہ شرعی طورپر جائز ہے؟

جواب:  تولیدِ انسانی کا فطری طریقہ مرد اور عورت کا جنسی اتصال(sexual relationship)ہے۔ مرد کے جنسی اعضاسے نطفہ (sperm)نکلتاہے، جو جماع(intercourse)کے ذریعے عورت کے رحم سے ہوتاہواقاذفین(fallopian tubes)میں پہنچتاہے۔ وہیں عورت کے جنسی اعضاسے نکلنے والا بیضہ (ovum)پہنچتا ہے۔ اسی مقام پر دونوں کا اتصال ہوتاہے اور عملِ بارآوری(fertilization) انجام پانے کے بعد رحم میں جنین(foetus)کی پرورش ہوتی ہے۔

اگر شوہر کا نطفہ اس کی قوتِ مردمی میں کمی یا کسی اور نقص کے سبب طبعی طور پر بیوی کے رحم اور قاذفین میں نہ پہنچ سکے توشرعی طور پر اس کے لیے کوئی مصنوعی طریقہ(artificial insemination)اختیار کرنا جائز ہے۔

طلاقِ کنایہ

سوال:  زوجین کے درمیان مزاجی ہم آہنگی نہیں ہے۔ ان کے درمیان تکرار اور جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ اگر بیوی کسی موقع پر شوہر سے کہے کہ مجھے چھوڑ دیجیے۔ اس پر شوہر کہے کہ جاؤ، چھوڑ دیا، تو کیا اس سے طلاق ہوجائے گی؟ جب کہ اس وقت شوہر کے دل میں طلاق کی نیت نہ ہو؟

جواب: طلاق کے لیے کون سے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں؟ اس اعتبار سے طلاق کی دو قسمیں ہیں: اوّل طلاق صریح، دوم طلاق کنایہ۔

طلاق صریح یہ ہے کہ کوئی شخص طلاق دیتے وقت صاف الفاظ میں لفظ ‘طلاق’استعمال کرے، مثلاً کہے کہ میں نے طلاق دی۔ اس صورت میں چاہے شوہر کی نیت طلاق کی ہو یا نہ ہو، طلاق واقع ہو جائے گی۔

لیکن اگر شوہر لفظ‘ طلاق’ کا استعمال نہ کرے، دوسرے الفاظ کہے، مثلاً میں نے تمھیں چھوڑ دیا، اب تم سے میرا کوئی تعلق نہیں، اپنے میکے چلی جاؤ، اب میرے پاس نہ آنا، اب میں تمھیں گھر میں نہیں رکھ سکتا، وغیرہ، تو اس کی نیت کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر شوہر نے ان میں سے کوئی جملہ کہتے وقت طلاق کی نیت کی تھی تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی۔ لیکن اگر اس کی طلاق کی نیت نہیں تھی تو طلاق نہیں ہوگی۔

طلاق بائن کا مطلب یہ ہے کہ اب رجوع کے لیے ان دونوں کا از سر نو نکاح ہوگا، جس کے لیے عورت کی مرضی ضروری ہوگی اور نیا مہر طے ہوگا، البتہ پچھلے نکاح میں جو طلاق ہوگئی ہے اس کا شمار ہوگا۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2022

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau