(مخالفت کرنے والے علمائے کرام اور جماعت اسلامى ہند کے اکابر کا بلند روىہ)
انسانی سماج میں اختلافات کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے۔ فکری تحریک کو علمی و فکری نوعیت کے اختلافات سے زیادہ سابقہ پڑتا ہے۔ یہ اختلافات کبھی اپنے حدود سے تجاوز کرکے مخالفت اور بسا اوقات شدید مخالفت کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند جس فکر اور تحریک کو لے کر اٹھی ہے، ابتدا سے ہی مختلف جماعتوں اور بعض علمائے کرام کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی ہے۔ بعض لوگوں کی طرف سے اس مخالفت میں شدت بھی سامنے آئی۔ جماعت اسلامی کے ذمے داران نے مخالفت کے طوفان کا سامنا جس کشادہ ظرفی اور مثبت روی سے کیا وہ جماعت اسلامی کی تاریخ کا روشن باب ہے۔ ذمہ داران جماعت یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ جماعت کا کوئی فرد علمائے کرام کے خلاف کوئی ناروا بات کہے، بلکہ وہ اپنے ارکان کو مخالفت کرنے والے علمائے کرام پر منفی تبصرے کرنے سے روکتے اور دعوت و تبلیغ میں سرگرم دیکھنا چاہتے تھے۔ یہاں پر کچھ واقعات درج کیے جاتے ہیں جن سے جماعت اسلامی ہند کی یہ خوبی ابھر کر سامنے آتی ہے۔
قائدین میں نوک جھونک کا ایک حسین واقعہ
یہ ۱۹۵۷ کی بات ہے۔ جماعت اسلامی ہند، حلقہ جنوبی بہار کا اجتماع تھا۔ قاعدے کے مطابق حلقہ جنوبی بہار کی رپورٹ سنانے کے لیے امیر حلقہ انیس الدین احمد ؒکھڑے ہوئے۔ ان کی رپورٹ میں مخالفین جماعت کے ناروا سلوک پر بطور احتجاج یہ جملہ سامعین کو سننے میں آیا کہ “ آج علما کی روش ایسی ہے کہ کبھی کبھی دامن صبر ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور طبیعت آپے سے باہر ہو جاتی ہے” امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ رپورٹ پر تبصرہ کے لیے کھڑے ہوئے تو فرمایا “چترپور کی رپورٹ اور خصوصًا امیر حلقہ کی رپورٹ میں جو باتیں مقامی علما کے خلاف کہی گئی ہیں اور جس انداز میں ان کا تذکرہ کیا گیا ہے انھیں سن کر مجھے بڑی تکلیف ہوئی۔ اس طرح کے الفاظ امیر حلقہ کی طرف سے کسی طرح مناسب نہیں”۔ امیر حلقہ نے بھی مائک پر آکر قدرے جوش میں فوراً جواب دیا “بہرحال یہ اعتراض ایسا ہے کہ اس پر مزید باتیں ہو سکتی ہیں، لیکن ابھی اس کا موقع نہیں ہے!‘‘ امیر جماعت پھر مائک پر تشریف لائے اور اپنے مخصوص انداز میں تیور بدل کر پوری ذمہ داری کے ساتھ کہنا شروع کیا کہ “میں نے مبہم الفاظ میں اس طرز گفتگو پر تنقید کی تھی! لیکن اب میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے اس طرح کے الفاظ پر سخت اعتراض ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس پر اسی وقت کھل کر باتیں ہو جائیں کیوں کہ میرے خیال میں یہ باتیں تحریک اسلامی کے ایک ذمہ دار کی طرف سے اس کے شان سے فروتر ہیں”! بھرے اجتماع میں مائک پر دو اکابر کا یہ مکالمہ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا تھا۔ رفقا اور حاضرین جماعت حیران و پریشان تھے۔
ڈائس پر امیر جماعت کے پیچھے مولانا حبیب اللہ صاحب بھی کھڑے تھے، انیس الدین احمد صاحب جب صفائی میں مولانا کے اعتراضات کا دوبارہ جواب دے کر پیچھے پلٹے تو ان کی نظر مولانا حبیب اللہ صاحب ؒکی اشکبار آنکھوں پر پڑی تو انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور پلٹ کر فوراً مولانا ابو اللیث صاحب امیر جماعت سے اس طرح کھل کر مخاطب ہوئے “مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور اب میں اس گفتگو کے سلسلے میں معافی کا خواستگار ہوں!” پھر تو پورے اجتماع کا رنگ ہی بدل گیا! اور جماعت اسلامی کی ساکھ مزید بڑھ گئی! اجتماع ختم ہوتے ہی امیر جماعت نے فرمایا “چلیے انیس صاحب ڈیرہ چلیں” اور دونوں چل دیے جیسے کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ اس کا تمام حاضرین پر گہرا اثر پڑا۔ شرکا کو آج تک وہ تاریخی اجتماع یاد ہے حتی کہ مجسٹریٹ اور سی آئی ڈی افسران بھی اس نرالے اجتماع اور عجیب و غریب مکالمے سے بے حد متاثر ہوئے۔ (انیس الدین احمد مرحوم کی تحریکی زندگی۔ ص ۱۰۶ قلمی مسودہ بقلم عبدالباری ایم اے)
افضل حسین مرحوم کی سخت تنبیہ
حجاب کے بانی مدیر اور تحریک اسلامی کے عظیم مربی مولانا مائل خیر آبادی مرحوم بیان کرتے ہیں:
مکان جب کوئی تعمیر ہوتا ہے احمد
ہر ایک اینٹ عمارت کی چوٹ کھاتی ہے
افضل حسین صاحب ارکان جماعت کی تربیت میں ایسا ہی انداز رکھتے تھے۔ جہاں ضرورت ہوتی پوری اینٹ نصب کر دیتے اور جہاں ضرورت سمجھتے اینٹ پر کری چوٹ مارتے اور بڑی باریکی سے نوک پلک درست کرتے تھے۔ اس تشبیہی اور تمثیلی تمہید کے بعد وہ بات سنیے، جسے سن کر ایک بار بڑی سختی کے ساتھ مجھے مخاطب کیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب جواہر لال نہرو نے جماعت اسلامی کو اینٹی نیشنل کا معزز خطاب عطا فرمایا تھا میرے دل پر اس کا بہت برا اثر تھا۔ سب ہی لوگ جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی کو یہ “خطاب” کن مہربانوں “کی مہربانی” سے ملا تھا تو ایک بار میں نے بے تکلف رفقا کے درمیان کہا: جمعیۃ العلماء اور کانگریس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بھوکی لومڑی تھی۔ اسے کھانے کو کچھ نہ ملا۔ اچانک اس نے ایک سانڈ کو دیکھا۔ سانڈ میدانی علاقے میں چَر چُگ کا جنگل کو واپس جارہا تھا۔ لومڑی نے اس تگڑے سانڈ کو دیکھا اس کے پیچھے ہولی۔ سوچتی جارہی تھی کہ اس کا گوشت کیسے ملے؟ حملہ کرنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ پیچھے چلتے چلتے اس نے سانڈ کی رانوں کے بیچ لال لال ایک لوتھڑا لٹکتے دیکھا۔ امید بندھی کہ یہ لوتھڑا آگے چل کر کہیں نہ کہیں گر جائے گا مگر وہ لوتھڑا نہ گرا۔ سانڈ جنگل کے اندر چلا گیا اور لومڑی تکتی رہ گئی۔
یہی حال جمعیۃ العلما کا ہے۔ کانگریس کے پیچھے پیچھے ہے اور امید کرتی رہی کہ شاید کبھی کانگریس مسلمانوں کے کام آجائے مگر اس کانگریس کے ذریعے مسلمانوں کا استحصال ہوتا رہا۔ میری یہ بات افضل حسین صاحب تک پہنچی۔ پھر جب میں ان سے ملا تو:
“خوب چٹکلے فرمائے جاتے ہیں”۔ پھر مولانا مدنی رحمۃ اللہ کا نام لیا اور پوچھا، کیا یہ عظیم مولوی کانگریس کا زلّہ باش تھا؟” حکیم اجمل خان مرحوم کا نام لیا اور پوچھا “ کیا یہ کانگریس کے چمچوں میں سے تھے۔ کیا قائد اعظم محمد علی جناح اور مولانا محمد علی جوہر کانگریس کے پٹھو تھے۔ مولانا افضل حسین یہ فرما رہے تھے اور میں ان کا تیور دیکھ دہا تھا۔ آخر میں انھوں نے جو کچھ فرمایا، یہ وہی کہہ سکتے تھے فرمایا: “جمعیۃ العلما کا کارنامہ یہی کیا کم ہے کہ اس نے ملک آزاد کرالیا۔ جماعت اسلامی تو ہنوز لوگوں کے ذہن کو مطمئن کرنے میں لگی ہے۔ مرحوم کا یہ بے لاگ تجزیہ ۱۹۵۴ کے ابتدائی دنوں کا ہے۔ میں دم بخود تھا کہ جس مکتب فکر کے علما جماعت اسلامی کو سولی پر چڑھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے، انھی کے بارے میں جماعت اسلامی کے ذمے دار کس درجہ فراخ دل ہیں۔
اسی طرح کی بات میں نے ایمرجنسی کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاصاحبؒ کی شان میں کہی تھی۔ کچھ باتیں ایسی تھیں کہ مجھے بڑا دکھ ہوا تھا، میں نے غصہ میں یہ طریقہ اختیار کیا کہ حضرت شیخ کی کتاب تبلیغی نصاب کی کہانیاں اپنے ماہنامہ حجاب میں نقل کرکے ان کا مذاق اڑایا تو افضل صاحب برہم ہو گئے۔ مرحوم نے حکمًا یہ سلسلہ بند کرادیا۔ (حجاب، افضل حسین نمبر، ستمبر ۱۹۹۰، ص۱۰۵-۱۰۷)
ذمہ داران جماعت نے موقع بہ موقع رفقائے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ جو علما کرام جماعت کی مخالفت کرنے میں لگے ہیں انھیں ہمیں معذور سمجھنا چاہیے اور ان کے لیے دعائے خیر کرنی چاہیے۔ اور مخالفت میں بھی اعتدال کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
مولانا ابواللیث مرحوم کی تربیتی گفتگو
۱۹۵۱ میں شہر رامپور میں جماعت اسلامی ہند کا پہلا اجتماع عام ہوا۔ اس میں رپورٹیں سننے کے بعد امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
اس ضمن میں یہ محسوس کر کے مجھے مسرت ہوتی ہے کہ عام طور سے حضرات قیمین نے علما کی مخالفت کا تذکرہ جو یقیناً ان کے لیے ایک رنج کی بات ہے بہت شائستہ انداز میں کیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے رفقا میں بحمد اللہ رفتہ رفتہ یہ ذہنیت مستحکم ہوتی جارہی ہے کہ وہ مخالفین کے ذکر میں بھی حدودِ اعتدال سے متجاوز نہ ہوسکیں لیکن اسی کے ساتھ مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ بعض حضرات کا لب ولہجہ ویسا نہیں رہا ہے جیسا ہونا چاہیے۔ اس میں تلخی اور ناگواری کا کچھ اثر نمایاں ہوگیا ہے، ہمارے رفقا کو اس میں احتیاط کرنی چاہیے۔ علما بحیثیت عالم دین ہماری عزت و احترام کے مستحق ہیں اور اگر ان کا کوئی رویہ قابل شکایت یا ان کے منصب کے منافی ہو بھی تو ہمیں ہر حال میں اپنے صحیح اصولوں کی پیروی کرنی چاہیے اس بارے میں ان کا کوئی غلط رویہ ہمارے لیے اسوہ نہیں بن سکتا۔ جہاں تک علما کی مخالفت کا ذکر ہے یہ بات یوں یاد رکھنی چاہیے کہ علما بحیثیت جماعت ہمارے خلاف نہیں ہیں خود جماعت میں بہت سے علما داخل ہیں جو کسی خاص درس گاہ یا مکتب فکر و خیال سے تعلق نہیں رکھتے ہیں بلکہ مختلف مشہور درس گاہوں اور مکاتب فکر سے چھٹ چھٹ کر آئے ہیں۔ اور ایسے علما کی تعداد تو بہت زیادہ ہے جو عملاً کسی وجہ سے ہمارا ساتھ نہ دے رہے ہوں لیکن وہ ہمارے کام کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور ان کے علاوہ جو علما ہیں ان میں ایک طبقہ تو ان علما کا ہے جو کسی وجہ سے ابھی تک ہماری دعوت سے واقف ہی نہ ہو سکا اس لیے نہ وہ ہمارے مخالف ہیں اور نہ موافق اور دوسرا طبقہ جو واقفیت رکھتا ہے ان میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جن کو ہم سے اس بنا پر اختلاف ہے کہ ابھی ہماری اصل دعوت اچھی طرح سمجھ نہیں سکے ہیں اور اس بنا پر وہ کچھ غلط فہمیوں یا شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں اور ان کے بارے میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ جونہی ہم ان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں کام یاب ہو گئے۔ ان شاء اللہ ان کی مخالفت تائید و حمایت میں بدل جائے گی جیسا کہ ان میں سے بہتوں کے ضمن میں عملاً ہم نے مشاہدہ کیا ہے اورکچھ لوگ ایسے ہیں جو ہم سے چند جزئی مسائل میں اختلاف رکھتے ہیں یا وہ جماعت سے وابستہ لوگوں سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں اس لیے وہ ہم سے الگ تھلگ ہیں لیکن یہ دونوں قسم کے علما اس طرح کا اختلاف نہیں رکھتے ہیں کہ وہ ہماری اصل دعوت کو غلط یا خلاف اسلام سمجھتے ہوں۔ پوری تحقیق کے بغیر اس طرح کا کوئی فیصلہ کر لینے کو پہلا گروہ تقوی و دیانتداری کے خلاف سمجھتا ہے اور دوسرا اپنی تحقیق کے بموجب اس طرح کے کسی فیصلے کے لیے کوئی جائز وجہ نہیں پاتا۔ پس جب علما میں اتنی قسم کے علما موجود ہیں جو یا تو براہ راست یا بالواسطہ آپ کی دعوت کے حامی ہیں یا کم از کم اس سے کوئی اصولی اختلاف نہیں رکھتے تو یہ فرض کرلینا کہ علما کی پوری جماعت آپ کے مخالف ہے یا آپ کے کام کو غلط سمجھتی ہے، کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ علما یا علما کا ایک خاص گروہ ایسا ضرور ہے جو دانستہ ہماری مخالفت پر کمر بستہ ہے اور یہ کبھی شخصیتوں کی آڑ لے کر اور کبھی جزوی اختلافات کو بہانہ بنا کر اصل دعوت ہی کی طرف سے لوگوں کو متنفر کر دینا چاہتا ہے اگر چہ وہ صاف صاف اس دعوت کو نشانہ مخالفت بنانے کی جماعت نہیں کرتا ہے۔ ایسے حضرات کو معذور سمجھنا چاہیے اور ان کے بارے میں ہمارا بہترین رویہ یہی ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے لیے اور ان کے لیے دعا کریں۔ (روداد جماعت اسلامی رامپور، و۱۴۴-۱۴۶)
مولانا جلیل احسن ندوی کی نصیحت
جب دار العلوم دیوبند سے تحریک اسلامی کے خلاف کچھ فتوے نکلے تو مولانا جلیل احسن ندویؓ نے اپنے رفقا کے نام ایک خط لکھا جس میں انھوں نے رفقا سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس فتوی بازی کے ماحول میں آپ اپنی دعوت وتبلیغ کے کام کی رفتار کو اور تیز کر دیں۔ اور اشتعال کے بجائے دلسوزی و ہمدردی کا مظاہرہ کریں۔ خط کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
آپ کو غالبًا اطلاع ہوگی کہ دار العلوم دیوبند کے دار الافتا سے جماعت کے خلاف فتاوی نکلے ہیں اور مختلف اصحاب کے نام سے شائع ہوئے ہیں اور انھیں بہت تیزی کے ساتھ ملک میں پھیلایا جا رہا ہے۔ آپ کے حلقے میں بھی یہ پہنچیں گے اور بندگان خدا کو دعوت سے دور کرنے اور جماعت کی طرف سے بدگماں کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ میں اس موقع پر آپ کو آپ کا موقف یاد دلانا چاہتا ہوں۔ آپ کا فرض ہے کہ اس طرح کے اشتعال انگیز مواقع پر ایک بار پھر ان تمام ہدایات کو اپنے ذہن میں تازہ کر لیں جو روداد حصہ دوم اور دوسری کتابوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ بالخصوص تفہیم القرآن میں سورہ اعراف کی آیت “خذ العفو وأمر بالعرف” کے تحت جو کچھ لکھا گیا ہے۔
بلاشبہ ان فتووں میں جو کچھ کہا گیا ہے بے بنیاد ہے۔ اور بے بنیاد باتوں کو…بالخصوص جب کہ ان کے مصنفین علما ہوں سن کر طبائع میں اشتعال پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ لیکن غور کیجیے آپ کی دعوت کا تقاضا کیا ہے؟ صبر و تقوی یا اس کے سوا کچھ اور؟ پھر یہ کہ کیا قرآن کی سورہ یوسف آپ نے نہیں پڑھی؟ کیا اس سے یہ سبق نہیں ملتا کہ :
اللہ تعالی جو کام کرنا چاہتا ہے وہ بہرحال پورا ہوکر رہتا ہے انسان اپنی تدبیروں سے اس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کبھی کام یاب نہیں ہو سکتا بلکہ بسا اوقات انسان ایک کام اپنے منصوبے کی خاطر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک نشانے پر تیر مار دیا مگر نتیجہ میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے اسی کے ہاتھوں سے وہ کام لے لیا جو اس کے منصوبے کے خلاف اور اللہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کو کنویں میں پھینک رہے تھے تو ان کو گمان تھا کہ ہم نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹادیا لیکن فی الواقع انھوں نے یوسف علیہ السلام کو اس بام عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں لا کھڑا کیا جس پر اللہ تعالی ان کو پہنچانا چاہتا تھا اور اپنی اس حرکت سے انھوں نے خود اپنے لیے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف علیہ السلام کے بام عروج پر پہنچنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی کی ملاقات کو جاتے انھیں ندامت و شرمساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔
محترم ساتھیو!
ان فتووں میں آپ کے خلاف بہت کچھ کہا گیا ہے ان میں آپ کو گم راہ کہا گیا ہے، ان میں مسلمانوں کو آپ کے خلاف اکسایا گیا ہے، ان میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ آپ کے پیچھے نماز نہ پڑھیں، ان میں آپ کی سعی اقامت دین کو گناہ کا کام قراد دیا گیا اور اس “فتنہ” کو مٹانے کا وعظ کیا گیا ہے۔ کاش یہ سب سن کر آپ کے اندر اشتعال کے بجائے دلسوزی و ہمدردی کا جذبہ ابھرے۔ میں آپ کے لیے اور اپنے لیے خدا سے اس کی دعا کرتا ہوں۔ آپ اپنا کام کیجیے۔ دعوت و تبلیغ کی رفتار تیز تر کر دیجیے۔ جو لوگ اپنے اس مبارک مشغلہ میں انہماک رکھتے ہوں ان سے نہ الجھیے، جو شخص حقیقت حال کو سمجھنے کے لیے آئے اس کو صحیح نتیجہ تک پہنچنے میں پوری مدد کیجیے۔ علما امت کے احترام کے سلسلے میں آپ کی کتابوں میں جو کچھ ملتا ہے اس کا پورا لحاظ کیجیے کہ یہ تمام فتاوے سہارن پور کے خیر خواہ سرکار۔ ۔۔ میں چھاپے گئے ہیں! یہ آپ کے کرنے کا کام ہے۔ رہے ہم تو آپ کو معلوم ہے کہ ان فتووں پر حضرت الاستاذ مولانا اعزاز علی صاحب کے بھی دستخط ہیں اور انھوں نے قادیانیوں کو ہمارے “اسلاف” کا لقب دیا ہے۔ میں خاص طور سے انھیں خطاب کرکے ان پر حقیقت واضح کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ کل حساب کے دن وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ حقیقت حال دنیا میں ان پر مخفی رہ گئی تھی اور اس جماعت میں جو میرے شاگرد داخل تھے انھوں نے اپنا حق شاگردی ادا کرنے میں کوتاہی کی۔ اللہ علیم و خبیر ہے وہ جانتا ہے میں یہ سب کچھ چیلنج کے طور پر کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ جلیل احسن عفا اللہ عنہ۔ سرائے میر اعظم گڑھ (الانصاف، ۱۳ مئی ۱۹۵۱ء)
مولانا ابواللیث مرحوم کا اندازِ مخاطبت
جماعت اسلامی ہند کی تشکیل کے تین سال بعد امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ نے جمعیۃ العلماء کے امیر مولانا حسین احمد مدنیؒ سے خط کتابت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس مراسلت میں مولانا ابواللیثؒ نے جس ادب واحترام کا اظہار کیا ہے، وہ مولانا کی شخصیت کا قابل تقلید پہلو ہے۔
“یہ بات میں نے اظہار واقعہ کے طور پر لکھی ہے، اس سے کچھ جناب کی شکایت مقصود نہیں ہے۔ آپ میرے بارے میں کچھ ہی تصور فرمائیں، میں خود اپنی نگاہ میں اتنا حقیر ہوں اور اس کے ساتھ ہی آپ کا مرتبہ میری نگاہ میں اتنا اونچا ہے جو اور کسی بات کا نہیں، بلکہ آپ کے ذاتی کمالات و خصوصیات اور علم و تقوے کے احساس کا نتیجہ ہے کہ میں اس خواہش کو آپ کی شان میں گستاخی سمجھتا ہوں کہ آپ کبھی ہم ہیچ میرزوں کے یہاں قدم رنجہ فرمائیں۔ آپ کے سلسلے میں تو میں اپنے شرف وعزت کے لیے اتنی ہی بات کافی سمجھتا ہوں کہ آپ اپنی خدمت میں حاضری کا موقع عنایت فرمائیں جس کی بار بار درخواست بھی اب تک شرف پذیرائی حاصل نہیں کر سکی ہے۔ اسی بنا پر ابھی پچھلے دنوں آپ رامپور تشریف لے آئے تو مجھے اس کی مطلق شکایت نہیں ہوئی کہ آپ نے یہاں قدم رنجہ نہیں فرمایا البتہ اس کا افسوس ضرور ہوا کہ وقت پر اطلاع نہ ملنے کی وجہ سے میں خود حاضر خدمت نہیں ہو سکا۔ چناں چہ جوں ہی مجھے تشریف آوری کی اطلاع ملی میں نے تحقیق کے لیے ادھر ادھر آدمی بھیجے لیکن معلوم ہوا کہ آپ اس سے پہلے ہی واپس ہو چکے ہیں۔”(مولانا ابو اللیث ندویؒ اور مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی مراسلت، ص۲۶)
“میں آخر میں با ادب درخواست کرتا ہوں کہ آپ کا احترام اور عزت میرے دل میں کما حقہ ہمیشہ کی طرح اب بھی موجود ہے اور میں نے حتی الوسع اس خط میں بھی اس کو پوری طرح ملحوظ رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن اگر بہ تقاضائے بشریت اس میں کوئی کوتاہی سرزد ہو گئی ہو تو امید ہے کہ آپ اپنے معروف عفو و حلم کی بنا پر اسے معاف فرمادیں گے۔ میں آپ سے اپنے لیے دعا کا طالب ہوں اور خود آپ کے لیے بھی دعا کرتا ہوں۔
اس خط کے مکمل ہو جانے کے بعد آں جناب کا ایک “ بصیرت افروز ” بیان دیکھنے کا شرف حاصل ہوا جو حالیہ فتووں کے خاص مرکز یعنی سہارنپور سے شائع ہوا ہے۔ اس بیان میں جو ۱۳ ذی الحجہ ۱۳۶۹ھ کا تحریر کردہ ہے اور اب بہ تقاضائے ضرورت شائع کیا گیا ہے، جو الفاظ مثلًا ٹٹ پونجیے، کم بخت، خبیث اور مخالف اہل اسلام اور مخالف اہل سنت وغیرہ استعمال کیے گئے ہیں ہم اپنے کو ان کا مورد تو نہیں سمجھتے کیوں کہ ہم ان باتوں سے بری سمجھتے ہیں جن کی بنا پر یہ شائستہ الفاظ ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ لیکن چوں کہ یہ الفاظ لکھتے وقت جناب والا نے ہم خادمان جماعت ہی کو مراد لیا ہے۔ اس لیے ہم اپنے اور آپ دونوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے عفو و مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔”
(مولانا ابو اللیث ندویؒ اور مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی مراسلت، ص۵۸)
یہ کچھ نمونے ہیں جو بتاتے ہیں کہ جماعت اسلامی ہند کے اولین ذمے داروں اور مربیوں نے رفقائے جماعت کی کیسی تربیت کی تھی اور انھیں اخلاق فاضلہ کے کن زیوروں سے آراستہ کرنے کی سعی فرمائی تھی۔
جماعت اسلامی ہند کا اپنے شدید ترین مخالفین کے ساتھ بھی جو مثبت اور عمدہ رویہ رہا ہے وہ یقینًا ایک اعلی قدر ہے جس کی حفاظت ہونی چاہیے۔
جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ
مشمولہ: شمارہ فروری 2024