آدھا انسانی سماج عورتوں پر مشتمل ہے جن کی اصلاح و تربیت کا کام بہتر طریقے سے عورتیں ہی کرسکتی ہیں۔ مسلم خواتین میں دینی کوششوں کا رجحان بڑھا ہے، وہ اسلام کی خدمت میں کئی جگہ پیش پیش نظر آتی ہیں۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے۔
لیکن ان کے درمیان جاری بعض مباحث کو دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر ان مباحث میں الجھ کراصل مقصد سے ان کا دھیان بھٹک گیا توخواتین کی اس بیداری کے متوقع ثمرات حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ اس لیے باربار اصل مقصد اور نصب العین کی تذکیر کرتے رہنا ضروری ہے۔
سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اختلافی نوعیت کے فروعی سوالوں کے جواب حکمت کے ساتھ دیتے ہوئے تمام تر توجہ بنیادی موضوعات پر مرکوز رکھنی چاہیے۔
یہاں ہم صرف ایک بحث کے حوالے سے اپنی بات کو واضح کریں گے۔
مختلف خواتین کے اجتماعات کو خطاب کرنے کے بعد سوال وجواب کی نشست میں اکثر ان کی طرف سےیہ سوال آتا ہے کہ عورتوں کی نماز مردوں کی نماز کی طرح ہے یا اس سے مختلف ہے۔
وضاحت طلب کرنے پراس سوال کی تفصیل اس طرح سامنے آتی ہے کہ مرد جب رکوع سجدہ کرتے ہیں تو دونوں ہاتھ کھول کر کرتے ہیں، جب کہ بہت سی عورتیں رکوع سجدہ کرتی ہیں تو دونوں ہاتھ سمیٹ کر اور زمین پر بچھا کرکرتی ہیں، اسی طرح وہ بیٹھتی ہیں تو دونوں قدم بچھاکر بیٹھتی ہیں۔ یہ کہاں تک درست ہے؟ اللہ کے رسول نے تو عام ہدایت فرمائی تھی کہ (جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھو اسی طرح تم نماز پڑھو) پھر عورتوں کی نماز کا طریقہ الگ کیوں ہے؟ مردوں عورتوں کو ایک ہی طریقے سے نماز پڑھنی چاہیے۔
اندازہ ہوتا ہے کہ بعض خواتین کی طرف سے یہ سوالات خواتین کے اجتماعات اور ملاقاتوں میں مسلسل اٹھائے جاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ان کے درمیان بحث ومباحثہ ہوتا ہے اور کئی بار اس میں شدت بھی آجاتی ہے۔
اس مسئلے کی نوعیت ہم آگے واضح کریں گے لیکن اس سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دینی کوششوں میں ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔
ہماری ترجیحات
ہمارےسامنےیہ بات اچھی طرح واضح رہنی چاہیے کہ ہمیں اصل دین کی تبلیغ کرنی ہے کسی بہت ہی چھوٹے دینی مسئلے کے تعلق سے اپنی رائے منوانے میں اپنے اور دوسروں کے وقت اورتوانائیوں کو ضائع نہیں کرنا ہے۔
ایک بے دین عورت کو دین سے جوڑنے کا کام بہت بڑا کام ہے اور کسی دین دار عورت سے کسی بہت ہی چھوٹے مسئلے پر لمبی بحث کرنا اور اس کو اس کے طریقے سے ہٹاکراپنے طریقے پر لانے کی کوشش کرنا دراصل اپنے اور دوسروں کے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ بڑا مقصد رکھنے والی خواتین کو ہمیشہ یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے وقت اور توانائی کو کہاں لگائیں۔
اس وقت پوری امت کی دینی اور اخلاقی حالت حد درجہ تشویش ناک ہے۔ جسے بہترین امت ہونا تھا وہ برائیوں کے راستے پر چل پڑی ہے۔
ہم اپنے قریب کے ماحول میں دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے سماج کواصلاح، تربیت اور دعوت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اسلام پسند خواتین کو عورتوں کے سماج کی اصلاح میں اپنا اہم رول ادا کرنا ہے۔ یہ کام کتنا بڑا ہے اور اس کام کی ضرورت کتنی شدید ہے، اس کا انھیں بخوبی اندازہ ہونا چاہیے۔
مسلم خواتین کی بہت بڑی تعداد کلمہ طیبہ کے مفہوم اور اس کے تقاضوں سے ناواقف ہے۔
ان کی خاصی تعداد قرآن مجید کی تلاوت تو کرتی ہے لیکن بہت بڑی تعداد قرآن مجید کو سمجھ کر نہیں پڑھتی ۔
ان کے یہاں حدیث وسیرت کی کتابوں کو پڑھنے کا رجحان نہ کے برابر ہے۔
بزرگ خواتین نماز کی پابند ہوتی ہیں لیکن نئی عمر کی لڑکیاں نماز سے بہت زیادہ غفلت برتتی ہیں۔
دینی کتابوں کامطالعہ نہیں کرنے کی وجہ سے ان کا دینی شعور ترقی نہیں کرتا ہے۔
بہت سے گھروں میں بدعات و خرافات کا دور دورہ ہے اور بہت سے گھروں میں مغرب سے آنے والے لائف اسٹائل کا غلغلہ ہے۔
دینی شعور کی پختگی کے بغیر اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ عصری تعلیم گاہوں میں ان کے قدم پھسل جائیں اور وہ الحاد کے دلدل میں جاپھنسیں، دین سے منحرف ہوجائیں یا کسی بڑے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھیں۔
قرآن و سنت سے دوری اور جاہلیت کے سوتوں سے قریب رہنے کی وجہ سے دینی واخلاقی حالت بگڑتی جاتی ہے۔
ایسے میں اگر ان کے دین کی حفاظت کرنے اور انھیں دین کے سرچشموں سے جوڑنے کے بجائے چھوٹے چھوٹے مسائل پر اپنی توانائیاں صرف کی جائیں گی تو یہ دین کے مقاصداورعقل و حکمت کے تقاضوں کے خلاف ہوگا۔
اختلافی مسائل کے تئیں وسعت ظرفی
امت میں بہت سی بدعات و خرافات رواج پاگئی ہیں۔ ان کو مٹانے کی کوشش ہمیں ضرور کرنی ہے۔ امت میں بہت سے غیر اسلامی رسم و رواج عام ہوگئے ہیں۔ ان کا ازالہ بھی ضروری ہے۔
لیکن ہمیں ایک حقیقت سامنے رکھنی چاہیے۔ وہ یہ کہ امت میں دینی مسائل کے سلسلے میں مسلکی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان اختلافات کی پشت پر نہ تو بدعت ہے اور نہ جہالت۔ بلکہ یہ اختلافات امت کے اکابر علما ئے دین کے اختلافات ہیں اور ان کی پشت پر علم و تحقیق کی بہت سی مضبوط بنیادیں ہیں۔ان اختلافات کا جائزہ لیں گے تو قرآن و حدیث کے دلائل بھی ملیں گے اور اصول فقہ، مقاصد شریعت اور قواعد فقہیہ کے علمی حوالے بھی ملیں گے۔
غرض ہمیں فرق کرنا چاہیے ان اختلافات میں جن کی پشت پر بدعت و جہالت ہے اور ان اختلافات میں جو علمی نوعیت کے ہیں اور جن میں امت کے صالحین کی ذہنی کاوشیں شامل رہی ہیں۔
بے شک ہم دلیل کی بنیاد پر کسی بھی قول یا رائے سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ علمی محاکمے کے ذریعے ایک رائے کو غلط اور دوسری رائے کو صحیح قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن علمائے امت کے اختلافات کے تئیں ہمارے اندر وہ سختی اور شدت نہیں ہونی چاہیے جو جاہل اور گم راہ لوگوں کی باتوں کے سلسلے میں ہوتی ہے۔
امت کے اکابر علمائے دین آپس میں اختلافات کے باوجود جس طرح ایک دوسرے کا احترام کرتے اور ایک دوسرے کے لیے اختلاف کرنے کا حق تسلیم کرتے تھے، ہمیں بھی اس شان دارروایت کی پاس داری کرنی چاہیے۔
اختلاف رکھتے ہوئے متفقہ راہِ عمل
اگر ہم یہ چاہیں کہ پہلے ہمارے درمیان تمام مسائل میں اتفاق ہوجائے اس کے بعد ہم مقصد کے حصول کے لیے آگے بڑھیں گے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ دین کی چھوٹی جزئیات میں ہمیشہ اختلاف رہے گا۔ اس اختلاف کے ساتھ ہمیں مل جل کر وہ بڑا کام کرنا ہوگا، جس کے عظیم تر ہونے پر ہمارا اتفاق ہے۔ اگر کسی اختلاف کے بارے میں یہ بات ہمارے ذہنوں میں واضح رہے کہ وہ بہت ہی چھوٹی باتوں میں ہے، تو وہ اختلاف ہمارے ذہنوں پر سوار نہیں ہوگا، ہماری گفتگو کا موضوع نہیں بنے گا اور ہمارے تعلقات میں تلخیاں گھولنے کی وجہ نہیں بنے گا۔
چھوٹے مسائل اور بڑے مسائل میں فرق
ایک اہم بات یہ ہے کہ چھوٹے مسائل اور بڑے مسائل کے فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ایک شخص نے جلدی جھٹ پٹ نماز پڑھ لی، اللہ کے رسول نے اسے نماز دہرانے کے لیے کہا۔ دوسرے صاحب نے صف سے پہلے ہی رکوع کرلیا پھر چلتے ہوئے صف میں آکر شامل ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ دوبارہ ایسا مت کرنا۔
نماز میں بعض خرابیاں ایسی ہوسکتی ہیں جن کے ہوتے نماز فاسد ہوجاتی ہے، اس لیے ان پر تنبیہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی نہیں ہوتیں کہ ان سے نماز پر اثر پڑے اس لیے ان پر زیادہ زور دینا اورانھیں آپس کے اختلاف کی وجہ بنانا نہیں چاہیے۔
ہمیں اس سلسلے میں قرآن و سنت سے تعلیم لینی چاہیے۔قرآن مجید میں بہت زیادہ زور نماز کی روح یعنی خشوع پر دیا گیا ہے۔ نماز خشوع کے ساتھ پڑھی جائے ، اس کی ہمیں خود بھی کوشش کرنی چاہیے اور اس کی تبلیغ بھی کرنی چاہیے۔
کئی صورتوں کی گنجائش
جن لوگوں کی نگاہ احادیث اور فقہ کے ذخیرے پر ہے، وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہرعبادت کااصل طریقہ تو ایک ہوتا ہے اور اس کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا ہے، البتہ عبادت کےاس متفق علیہ طریقے کی چھوٹی جزئیات میں اختلاف ہوتا ہے اور اس اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے اسی لیے اختلاف ہوتا ہے۔ ان اختلافات میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک صورت بالکل صحیح اور باقی دوسری تمام صورتیں بالکل غلط ہوں۔ ایسا بہت ہوتا ہے کہ وہ تمام صورتیں صحیح ہوتی ہیں۔ ایسےمیں تمام صورتوں کے لیے اپنے دل میں گنجائش رکھنی چاہیے اور کسی ایک کو درست اور دوسری تمام کو غلط کہنےسے بچنا چاہیے۔
مسئلے کو اچھی طرح سمجھنے سے اعتدال پیدا ہوتا ہے
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ کسی مسئلے سے سرسری انداز سے واقف ہوتے ہیں اور اس طرح قطعیت کے ساتھ اپنے موقف کا اظہار کرتے ہیں گویا کہ وہ اس مسئلے سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔اسی طرح بعض لوگ مسئلے کے صرف ایک پہلو سے واقف ہوتے ہیں باقی پہلو ان کی نگاہ سے اوجھل ہوتے ہیں اور اسی لیے وہ اس معاملے میں غیر معتدل بلکہ انتہا پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔
جس مسئلے کی طرف ہم نے شروع میں اشارہ کیا، اس کے بارے میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے۔ آپ نے کسی بیان میں یہ سن لیا کہ مردوں اور عورتوں کی نماز ایک جیسی ہونی چاہیے کیوں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: ’’جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھو اس طرح نماز پڑھو‘‘ یہ حکم سب کے لیے ہے اس لیے سب کو ایک سی نماز پڑھنی چاہیے۔ یہ بیان سننے کے بعد اب آپ کو ہر اس خاتون کی نماز غلط اور سنت کے خلاف لگنے لگی جس کی نماز میں مردوں کی نماز سے ذرا بھی فرق دکھائی دیا۔ یہ رویہ درست نہیں ہے اور اس سے بڑے بڑے فتنے جنم لیتے ہیں۔ سب سے بڑا فتنہ تو یہی ہے کہ اصل کام سے دھیان ہٹ جاتا ہے۔
لیکن جب آپ کے سامنے اس مسئلے کی حقیقت آجائے گی تو امید ہے کہ آپ کا موقف نرم ہوجائے گا۔ ہم ذیل کی سطور میں اس کی وضاحت کریں گے۔
ہمارا مقصد اس مسئلے کو طول دینا نہیں بلکہ سمیٹنا ہے اور یہ واضح کرنا ہے کہ ایک کم اہم مسئلے کو کتنی زیادہ اہمیت دے دی گئی۔ تحریکی خواتین کے اجتماعات اور ملاقاتوں میں جب اس طرح کا سوال اٹھے تو اس کی مختصر تفہیم کراکے اہم موضوعات کی طرف توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔
عورتوں کی مستوریت کا اعتبار
اس بات پر سبھی لوگوں کا اتفاق ہے کہ مردوں اور عورتوں کی نماز بنیادی طور پر ایک جیسی ہے۔ تاہم سبھی لوگ یہ مانتے ہیں کہ ان کی نماز میں کہیں نہ کہیں کچھ فرق بھی ہوتا ہے۔ فرق کی تعداد میں اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن فرق کی موجودگی تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کی اصل وجہ عورتوں کی مستوریت کا اعتبار ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ مردوں کے لیے نماز میں سرتاپیراپنےپورے جسم کو ڈھانپنا ضروری نہیں ہے، ناف سے گھٹنے تک کی ستر پوشی کافی ہے۔ جب کہ عورت کے لیے اپنے پورے جسم کو مستور رکھنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ بات صرف جسم کی ستر پوشی تک نہیں ہے بلکہ عورت کی شخصیت کے دیگر پہلو بھی اس میں آتے ہیں۔
چناں چہ اسی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورت کا اذان دینا، اقامت کہنا، امامت کرنا، عورت کا مردوں کے ساتھ ایک صف میں کھڑے ہونا، جہری نماز میں عورت کا آواز کے ساتھ قراءت کرنا (خاص طور سےجب کہ دوسرے مرد وہاں موجود ہوں)، عورت کا امام کو سبحان اللہ کہہ کر لقمہ دینا، وغیرہ کے بارے میں جمہورعلمائے اسلام کا موقف یہ ہے کہ عورتوں کےاحکام مردوں سے مختلف ہیں۔ ایسے تمام مسائل میں مرد اور عورت میں فرق کی اصل وجہ عورت کے تئیں مستوریت والے پہلو کی رعایت ہے۔
اسی مستوریت والے پہلو کی رعایت کرتے ہوئے عورت کے رکوع، سجدہ اور قعدہ کی کیفیت میں بھی فرق برتا گیا۔ مردوں کے سلسلے میں سنت تجافی ہے۔یعنی جسم کے اعضا کو ایک دوسرے سے الگ رکھا جائے۔ رکوع میں ہاتھ پہلوؤں سے الگ ہوں، سجدے میں پیٹ زانو سے الگ اور ہاتھ پہلوؤں سے الگ ہوں۔ اس سے مستعدی کے ساتھ ان ارکان کی ادائیگی کا اظہار ہوتا ہے۔
لیکن عورتوں کے معاملے میں مستعدی کے اظہار سے زیادہ اہمیت مستوریت کے پہلو کو دی گئی ہے۔
رکوع میں وہ اپنے ہاتھوں کو جسم سے قریب رکھے، سجدے میں اس کے ہاتھ جسم سے لگے رہیں اور جسم زمین پر بچھا رہے، قعدے میں اس کے قدم زمین پر بچھے رہیں، غرض ان ساری حالتوں میں اس کے جسم کے اعضا الگ دکھائی دینے کے بجائے ایک دوسرے سے ملے رہیں۔جسم کی ہیئت جسم کو دکھانے والی نہیں بلکہ چھپانے والی ہو۔
ہم جانتے ہیں کہ چاروں مسلکوں میں بہت سے اختلافات بھی ہیں لیکن خاص بات یہ ہے کہ اس معاملے میں چاروں مسلکوں میں اس رجحان پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ چاروں مسلکوں کا موقف یہ ہے کہ عورتوں کو مستوریت کے اس پہلو کی رعایت کرنی چاہیے۔ چاروں مسلکوں کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت کا اپنے آپ کوسمیٹ کر اور بچھ کر سجدہ کرنا اس کی مستوریت کے لیے زیادہ مناسب ہے۔
مستوریت والی بات کو امام شافعی نے بڑی خوب صورتی سے سمجھایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے عورتوں کو مستوریت کا ادب سکھایا ہے اور یہ ادب اللہ کے رسول نے بھی انھیں سکھایا ہے۔ مجھے یہ بات پسند ہے کہ عورت سجدے میں ہو تو اپنے آپ کو باہم سمیٹ کر رکھے، اور اپنے پیٹ کو اپنے زانو سے چپکالے اورجتنی زیادہ مستوریت کے ساتھ سجدہ کرسکے کرے۔ اسی طرح سے رکوع اور قعدے اور پوری نماز میں مجھے یہ پسند ہے کہ وہ جتنی زیادہ مستوریت کے ساتھ ادا کرسکے کرے۔مجھے یہ بھی پسند ہے کہ وہ اپنی اوپر کی چادر (جلباب) کا اپنے گرد گھیرا بنالیا کرے اور اسے رکوع اور سجدے میں جسم سے کچھ الگ رکھے تاکہ اس کے کپڑے اس کے جسم کے خدوخال واضح نہ کریں۔
اس کے بعد امام شافعی نے اعتدال کی ایک اور راہ روشن کرتے ہوئے کہا : میں نے جو تفصیلات بیان کی ہیں وہ مردوں اور عورتوں کے لیے اختیاری ہیں، وہ جیسے بھی سجدہ و رکوع کریں جائز ہے اگر ستر کو کوئی حصہ نہیں کھلتا ہے۔(کتاب الأم)
اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ مستوریت کا یہ پہلو بعد میں فقہا نے پیدا کردیا ہے۔فقہا کو تو نماز عملی تواتر کے ساتھ سنت متواترہ کی صورت میں ملی۔ انھوں نے اپنی طرف سے کوئی ہیئت تجویز نہیں کی بلکہ جو ہیئت انھیں تواتر کے ساتھ ملی اس کے اندر اس حکمت کا مشاہدہ کیا۔
اگر ہم منقول دلائل کی بات کریں تو بعض روایتوں میں ہمیں اس فرق کا ذکر ملتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ان روایتوں میں سند کے پہلو سے کچھ کم زوریاں ہیں۔ لیکن چھوٹی جزئیات کے سلسلے میں ذرا کم زور سند والی روایتیں بھی اپنا وزن رکھتی ہیں۔ خاص طور سے اگر وہ بات کسی قطعی ہدایت سے ٹکراتی نہ ہو اورجب کہ وہ بات شریعت کی حکمتوں سے ہم آہنگ بھی ہو۔
اس سلسلے میں ایک مشہور روایت محدث ابوداود نے اپنی کتاب المراسیل میں ذکر کی ہے۔
یزید بن ابی حبیب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول کا گزر دو عورتوں کے پاس سے ہوا، وہ نماز پڑھ رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کے کچھ گوشت کو زمین سے ملادو۔ عورت اس معاملے میں مرد کی طرح نہیں ہے۔‘‘
اس روایت پر اعتراض یہ ہے کہ یزید بن ابی حبیب صحابی نہیں تھے تابعی تھے، اس لیے انھوں نے رسول اللہ سے براہ راست یہ بات نہیں سنی تھی۔ لیکن دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ وہ ثقہ اور قابل اعتماد تابعی تھے۔ اس لیے ان کی روایت بالکل بے وزن قرار نہیں دی جاسکتی۔اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ عام راوی نہیں تھے بلکہ اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم تھے۔ اس دور کے اکابر علما نے ان کے علمی مرتبے کی گواہی دی ہے۔اتنے بلند پایہ عالم سے یہ بات بعید ہے کہ وہ اللہ کے رسول کی طرف ایسی بات منسوب کرے گا جو سنت سے ٹکراتی ہو۔
اس روایت کو پڑھتے ہوئے ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس دور میں کپڑوں کی اتنی زیادہ بہتات نہیں تھی کہ ہر فرد کو وافر مقدار میں لباس میسر آجائے۔ سلے ہوئے کپڑوں کا میسر ہونا تو اور بھی زیادہ مشکل کام تھا۔ ایسے میں تن کو مکمل طور سےڈھانپنے کے معاملے میں خود جسم کی ہیئت کو بہت دخل ہوجاتا ہے۔آج کی خواتین جب ڈھیلا ڈھالا اور کشادہ جلباب پہن کر نماز ادا کرتی ہیں تو جسم کی ہیئت کیسی بھی ہو، پورا جسم مستور رہتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ ہمارے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ دور رسالت کی خواتین مردوں کی طرح سجدہ اور قعدہ کرتی تھیں۔ امہات المومنین اور صحابیات کے بارے میں تاریخ بالکل خاموش ہے۔ البتہ یہ حقیقت معلوم ہے کہ دور اول میں چاروں مسلکوں کے مردوں اور عورتوں کی نمازوں کے درمیان اس طرح کےفرق پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ فرق پوری امت میں رائج تھا اور ظاہر ہے کہ یہ رواج صحابیات کے عمل کو دیکھ کر ہی پوری امت نے اختیار کیا تھا۔
لیکن ہم یہ بھی قطعیت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ پوری امت کی تمام خواتین فرق کے ساتھ رکوع اور سجدہ کرتی تھیں، بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر فرق کے بھی کچھ عورتیں نماز پڑھتی تھیں لیکن ان کی تعداد کافی کم تھی۔ چناں چہ حضرت ابودرداء ؓکی بیوی ام درداء ؒکے بارے میں تابعی مکحولؒ روایت کرتے ہیں کہ وہ فقیہ تھیں اور وہ نماز میں مردوں والا بیٹھنا بیٹھتی تھیں۔( كانت أم الدرداء تجلس فی صلاتها جلسة الرجل وكانت فقیهة۔) واضح رہے کہ ابودرداءؓ کی دو بیویوں کی کنیت ام درداء تھی۔ بڑی والی ام درداءؓ صحابیہ تھیں، چھوٹی والی تابعیہ تھیں۔ یہ روایت چھوٹی والی کے بارے میں ہے۔
اس روایت میں جلسة الرجل (مردوں والا بیٹھنا) کے الفاظ قابل غور ہیں۔ ان الفاظ سےیہ معلوم ہوتا ہےکہ اس زمانے میں مردوں کے بیٹھنے کا انداز الگ تھا جسے جلسة الرجل کہتے تھے اور عورتوں کے بیٹھنے کا انداز الگ تھا۔ البتہ ام درداء مردوں کے بیٹھنے والا انداز اختیار کرتی تھیں۔ شیخ ناصر الدین البانیؒ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور اسے دلیل بناکر یہ کہا ہے کہ مردوں اور عورتوں کی نماز یکساں ہوگی بغیر کسی فرق کے۔ لیکن شیخ البانی کی توجہ جلسة الرجل کے الفاظ کی طرف نہیں ہوئی، ورنہ وہ دونوں طریقوں کے لیے گنجائش رکھتے۔
اس کے علاوہ ابن القاسمؒ کی روایت کے مطابق امام مالک ؒنے بھی مردوں اور عورتوں کے سجدے اور قعدے کو یکساں بتایا ہے۔ جب کہ ابن زیادؒ کی روایت کے مطابق انھوں نےفرق کیا ہے۔ بہرحال مالکی مسلک میں فرق والے موقف کو اختیار کیا گیا ہے۔
اس مسئلے میں سب سے اہم دلیل عملی تواتر کی ہے جسے ہم نے اپنی کتاب ’’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ دور اول میں جب مسلکوں کی تدوین ہورہی تھی اور نماز کے طریقے ڈاکومنٹ کیے جارہے تھے، پوری امت میں عورتیں عام طور سے مردوں سے ذرا فرق کے ساتھ رکوع سجدہ اور قعدہ کرتی تھیں۔ امت کے مشہور اماموں نے اسی عمل کو ڈاکومنٹ کیا۔ امت کی خواتین میں یہ عمل صحابیات اور پھر تابعیات کی پوری نسل کے ذریعہ پہنچا تھا۔ یہ کوئی بدعت نہیں تھی جو دور اول کی مسلم خواتین نے ایجاد کرلی تھی، بلکہ یہ متواتر سنت تھی جس پر پوری امت کی خواتین بڑے اہتمام اور پورے اطمینان کے ساتھ عمل کررہی تھیں۔
ہم خود سوچیں کہ ایسا تو نہیں ہوسکتا ہے کہ پوری امت کی خواتین بغیر فرق کے نماز ادا کررہی ہوں اور امت کے تمام فقہائے کرام فرق کے ساتھ نماز پڑھنے کو سنت قرار دے دیں اور اس پر امت میں کوئی احتجاج نہ ہو۔ ایسا بھی نہیں ہوسکتا ہےکہ اللہ کے رسول نے بغیر فرق کے نماز پڑھنے کی تاکید کی ہو اور صحابیات کی پوری نسل نے بغیر فرق کے نماز پڑھی ہو اور صحابیات کے فورا بعد ہی امت کی تمام خواتین بغیر کسی وجہ کے فرق کے ساتھ نماز پڑھنے پر متفق ہوجائیں۔
جہاں تک صَلُّوا كَمَا رَأَیتُمُونِی أُصَلِّی اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔(صحیح البخاری)، کی بات ہےتو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ نماز کی بنیادی ہیئت کے بارے میں ہے نہ کہ تمام جزئیات کے بارے میں۔ اسے سمجھنے کے لیے ایک مثال کافی ہونی چاہیے۔ ام المومنین حضرت میمونہ بنت حارثؓ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کوالگ الگ کردیتے یہاں تک کہ آپ کے پیچھے والے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھ لیتے۔(إِذَا سَجَدَ جَافَى حَتَّى یرَى مَنْ خَلْفَهُ وَضَحَ إِبْطَیه)صحیح مسلم۔ظاہر بات ہے کہ اس روایت کی بنیاد پر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ نماز میں بغلوں کی سفیدی نظر آنی چاہیے۔ عورتوں کے بارے میں تو ہرگز نہیں کہہ سکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ مستوریت کے پہلوکا لحاظ رکھتے ہوئے اس کی بھی گنجائش موجود ہے کہ عورتیں مردوں کی طرح رکوع سجدہ اور قعدہ کریں خاص طور سے اگر وہ گھر کے اندر نماز ادا کررہی ہوں لیکن اگر وہ مذکورہ فرق کے ساتھ کرتی ہیں تو یہ کوئی غلط طریقہ یا بدعت کی بات نہیں ہے،پہلے زمانے سے امت میں یہ فرق رائج رہا ہے۔
ضروری بات یہ ہے کہ یہ اور اس طرح کے بہت سے مسائل اتنے اہم نہیں ہیں کہ ان پر محنت صرف کی جائے۔ بار اس طرح کے موضوعات میں الجھنا ، دوسروں کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرنا اور ان پر لمبی بحثیں کرنا ان خواتین کو بالکل زیب نہیں دیتا جو اپنے سامنے ایک بڑا مقصد رکھتی ہیں۔ بڑا مقصد رکھنے والے چھوٹے مسائل پر زیادہ توانائی اور وقت نہیں لگاتے ہیں۔ اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کے لیے اگر محنت کرنے کی توفیق ملتی ہے تو اسے اللہ کی بہت بڑی نعمت سمجھنا چاہیے۔اخلاص اور یکسوئی کے ساتھ شہادتِ حق اور اقامتِ دین کے بڑے محاذوں پر محنت کرنی چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2025