قرآن فہمی کا پہلا نکتہ : اللہ تعالیٰ اور کلام اللہ کی عظمت کا استحضار
قرآن فہمی کلام اللہ کی گہرائیوں میں اترنے اور اس کی رفعتوں کو چھونے کی کوشش سے عبارت ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اس بحرِ ذخار کی گہرائی اور آسمانِ علم کی اونچائی کا احساس ہونا چاہیے، لیکن ہم یہ بلا مبالغہ عرض کرتے ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک ایسی کتاب ہے جس کی علمی گہرائیوں اور روحانی رفعتوں کی کوئی حد نہیں کیوں کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ خالق کون ومکان اور مالک دو جہان کا کلام ذی شان وعالی وقار ہے جو اسی کی صفات عالیہ میں سے صفتِ کلام سے عبارت ہے۔ یہ کلام اس منبع علم و ہدایت سے نکلا ہے جو آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور جس کے علم کا احاطہ ممکن نہیں۔ یہ کلام خود اپنے منبعِ علم وہدایت سے مربوط ہے بلکہ ہمارے نزدیک صفت وموصوف میں کوئی دوئی ہی نہیں ہے۔ قرآن کریم اس باحجاب نور السمٰوٰت والارض کا بے حجاب قندیلِ نور ہے۔
قرآن فہمی کا دوسرا نکتہ: مظاہر فطرت (Nature)سے دلچسپی اور ان کے براہ ِراست مشاہدہ کی سمجھ
قرآن مجید کی آیات کتابِ الٰہی کی آیاتِ متلوّہ ہیں اور آیاتِ کائنات کتابِ فطرت کی آیات مشہودہ ہیں۔ مطلوب یہ ہے کہ کتاب فطرت کی آیات کے ذریعہ کتابِ الٰہی کا مطلوبہ فہم حاصل کیا جائے۔ غالباً اسی لیے رب کائنات نے عرب کے باشندوں کو اپنے کلام کا پہلا مخاطب بنایا کیوں کہ یہ لوگ فطرت سے قریب ترہونے اور آسمان کی کھلی چھت کے براہ راست نیچے رہنے کی وجہ سے ً کائنات کی اس کھلی کتاب کو زیادہ اچھی طرح پڑھنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ ان میں بدویت بھی تھی جس کی وجہ سے یہ لوگ تہذب و تمدن سے پیدا ہونے والے تصنعات سے دور تھے اور فطرت کی سادگی میں حقائق و معرفت کے گہر گراں مایہ کو چُن لینے کے ہنر سے واقف تھے۔ کلامی اور فلسفیانہ موشگافیاں ان کے ذوق و مزاج سے میل نہ کھاتی تھیں۔ ان کی بدویانہ خوبیوں اور گلہ بانی کی بنیادی صلاحیتوں نے نیز اخذ ہدایت کی قوت اور ترسیل پیغام کی بے مثال اہلیت نے ہی ان کو قرآن حکیم کی معجزانہ جہات کی معرفت عطا کی تھی۔ وہ عقل و وجدان اور لطیف اخلاقی احساسات کو یکساں اہمیت کی نظر سے دیکھتے تھے۔جب قرآن کریم ان کے سامنے آیا تو گویا وہ ان کے ذوق کی تسکین اور ان کی فطرت کا سب سے بڑا آئینہ دار تھا۔ اب بھی قرآن فہمی کا مطلوبہ حصول مقصود ہے تو اس آسمان کے نیچے کھلی بے حجاب فطرت اور اس کے متنوع مظاہر سے سبق حاصل کریں کہ یہی آیات آفاق و انفس ہیں۔
قرآن فہمی کا تیسرا نکتہ: قرآنی متن (Quranic Text)کی اولیت مسلّم ہے۔
بعض لوگ قرآنی آیات میں اپنی فکر اور خیالات کو پڑھنا چاہتے ہیں یا یوں کہیں کہ قرآن ان کو سب کچھ وہی کہتا نظر آتا ہے جو ان کا پسندیدہ نظریہ ہے خواہ وہ کمیونزم ہو یا فاشزم یا امپیریلزم۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ قرآنی متن (Quranic text)کو اولیت نہیں دیتے بس ایک بار سرسری طور پر پڑھ لیا وہ بھی ایسا ترجمہ جو ان کے ذوق کے مطابق ہی تھا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن کلام اللہ ہے یا ا نگریزی میں (Word or speech of Almighty Allah)ہے اور عربی مبین میں ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے معجز نما کلام میں عربی زبان کے موزوں ترین الفاظ و کلمات کو عربی صرف و نحو اورفصاحت و بلاغت کی پوری رعایت کے ساتھ رکھا ہوگا۔ اس لئے قرآن مجید کے متن کو اور اُس میں کلمات وحروف اور الفاظ بلکہ جملوں تک کے حسنِ انتخاب کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ قرآن محض ایک ادبی معجزہ ہی نہیں ہے بلکہ ان حروف پر مشتمل قرآنی تعلیمات بھی اس حیثیت سے معجزہ ہیں کہ اس کتاب نے تاریخ انسانی کا سب سے بڑا، جامع، ہمہ گیر اور مکمل انقلاب برپا کیا۔
قرآن فہمی کا چوتھا نکتہ: سیاقِ کلام کی روشنی ہی میں مراد الٰہی تک پہنچنا ممکن ہے
قرآن مجید عربی زبان کی بلا شبہ ایک شاہ کار کتاب ہے اور زبان و ادب کی کوئی بھی کتاب اپنا ایک موزوں ترین کلامی نظم ضرور رکھتی ہے جب کوئی عام ادبی کتاب بھی منتشر جملوں کا مجموعہ نہیں ہوتی تو قرآن مجید تو عربی زبان و ادب کا ایک زندہ وجاوید معجزہ ہے۔ لہٰذا اس کے بارے میں تو ایسا سوچنا بھی حماقت ہے۔ سیاق کلام سے مراد یہ ہے کہ کسی زیر بحث آیت سے آگے پیچھے کی آیات کی روشنی میں طے کیا جائے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے۔ مثلاً سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۸۵ ’’ وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا ‘‘یعنی ’’ اور یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپؐ جواب دے دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے‘‘ یہاں سوال جس روح کے بارے میں ہے، قرآن میں سائلین کو جواب ملا مگر پھر بھی ہمارے اندر تشنگی باقی رہی کہ وہ کس روح کے بارے میں سوال کررہے تھے؟ آیا کہ روحِ حیات، یا جبرئیلؑ یا وحیِ الٰہی؟ اب ذرا اس آیت کے سیاق (Context)کے تحت اس سے آگے پیچھے کی آیات پر نظر ڈالیں تو آیات ۸۶- ۸۷ میں فرمایا ’’اوراگر ہم چاہیں تو جو وحی آپ کی طرف ہم نے اتاری ہے سب سلب کرلیں تو پھر…‘‘اور اُس سے اگلی دو آیات میں قرآن عظیم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’کہہ دیجیے اگر تمام انسان اور جن مل کر بھی اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو بھی نہیں لا سکتے‘‘ آیت زیر بحث سے دو آیات قبل ارشاد ربانی ہے ’’ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَاھُوَ شِفَآء وَّرَحْمَۃ’‘ یعنی ’’ یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں، مومنوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے‘‘۔ ان آیات کے جھرمٹ میں زیر بحث آیت میں ’روح‘ سے مراد ’’وحیِ الٰہی‘‘ ہی موزوں ترین جواب بنتا ہے۔
قرآن فہمی کا پانچواں نکتہ: قرآن کریم کے معجزانہ اسلوب کلام کا خیال
قرآن کریم کا ا سلوبِ کلام ایجازی بھی ہے اور اعجازی بھی، لہٰذا بعض اوقات وہ ایک ہی لفظ کو استعمال کرکے متعدد اور مختلف معنی مراد لیتا ہے۔ ہم یہاں کلمۂ ’’احصان‘‘ کے قرآن حکیم میں استعمال کی مثال کو لیتے ہیں۔ سورہ النساء کی آیات ۲۴ اور ۲۵ میں یہ اصطلاح بار بار استعمال ہوئی ہے مگر ہر بار اس کے مختلف معانی ہیں۔ اُس مقام پر ’’محصنات‘‘کے چار معانی کی گنجائش ہے (۱) نکاح شدہ عورتیں (۲) آزاد عورتیں (۳) پاکدامن عورتیں (۴) مسلمان عورتیں۔ قرآن فہمی کے ایک نکتہ کے بطور یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ قاری قرآن اور مطالعہ قرآن کرنے والے کو ان چار معانی کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے اور کہاں کون سا معنیٰ مراد ہے وہ بھی غور و تدبر کے بعد طے کرنا ہے اور یہ بات آیت ہی میں کسی قرینہ سے معلوم ہوسکتی ہے البتہ مفسرین کی آرا سے مدد لے کر یہ کام مزید آسان ہوجائے گا۔
آیت یا جزو آیت کی تکرارمیں بھی متعدد حکمتیں پنہں ہوتی ہیں سورہ القمر، سورہ الرحمن، سورہ المرسلات میں بالترتیب یہ ترجیعی آیات یعنی وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ‘‘، ’’ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‘‘ اور وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ‘‘ باربار آ ئی ہیں اور غور وتدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں تکرار محض نہیں ہے اور نہ ہر بار ان آیات کے ایک ہی معانی ناگزیر ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید کی ایک خوبی تصریف آیات ہے جس کے معنی ہیں کہ ایک ہی مضمون کو مختلف انداز میں پیش کیا جائے تاکہ مضمون کے مختلف گوشے سامنے آجائیں۔ قرآن مجید کے اس اعجازی اسلوب کو فہم قرآن میں خصوصی جگہ دینے سے قرآن کریم سے خصوصی تعلق قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
قرآن فہمی کا چھٹا نکتہ: قرآن مجید بیشتر آیات کی تشریح و تفسیر دوسری جگہ خود کرتا ہے
قرآن فہمی اور تفسیر قرآن کا ایک متفقہ اصول ہے کہ قرآن کا بعض حصہ بعض حصے کی تفسیر کرتا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں قرآن فہمی کے لیے اور کسی آیت میں مراد الٰہی تک پہنچنے کے لیے قاریِ قرآن اور طالبِ علم کو معجم المفہرس (Index)کھولنی پڑے گی اور کسی لفظ یا اصطلاح کے قرآنی استعمالات اس میں ڈھونڈھ کر تمام ا ستعمالات کی روشنی میں ایک جامع مفہوم تک پہنچنا ہوگا۔ کیونکہ قرآن مجید ایک موضوعاتی کتاب نہیں ہے بلکہ کتابِ ذکر وموعظت ہے لہٰذا وہ کسی موضوع کے ایک پہلو پر ایک جگہ اور دوسرے پہلو پر دوسری جگہ اسی طرح کہیں اجمالی طور پر اور کہیں تفصیلی طور پر اُسی موضوع کے مختلف گوشوں پر بحث کرتی ہے۔ یہاں تک تو معاملہ تھا دعوت وموعظت سے متعلق موضوعات کا لیکن اگر قانونی اور شرعی احکامات کے تعلق سے قرآنی تعلیمات کو سمجھنا ہو تو ہمیں احادیث نبویؐ اور سنت رسولؐ سے اس شرعی حکم کی تفصیل معلوم کرنی ہوگی۔
قرآن فہمی کا ساتواں نکتہ: قرآن وسنت پر مبنی اسلامی تعلیمات کے خلاف قرآنی آیات کی ہر تفسیر قابل رد ہے
کلام اللہ میں اگر متعدد احتمالات (Alternatives) کی گنجائش ہو تو اس احتمال کو ترجیح دینا چاہیے جس کی نظیر قرآن حکیم میں موجود ہو، یا سیاق وسباق سے جس کی تائید ہوتی ہو یا جو قرآنی محکمات کے موافق اور تکلف سے خالی ہو۔ اس نکتہ کو درج ذیل آیت کے حوالے سے سمجھا جاسکتا ہے:
مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔ [الحج: 52] یعنی ‘‘اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول اور نبی بھی بھیجا تو جب اُس نے کوئی تمنا کی تو شیطان نے اس کی راہ میں اڑنگے ڈالے۔ پس اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسوں کو مٹا دیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی باتوں کو قرار بخشتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے’’۔ جب اس آیت کے متن پر غور کیا جاتا ہے تو چار کلمات اور ان کے مصادر پر ذہن مرتکز ہوجاتا ہے۔ دو کا تعلق ’’امنیۃ‘‘ یا ’’تمنیّٰ‘‘ اور القاء سے ہے تو دو کا تعلق ’’نسخ‘‘ اور ’’حکم‘‘ سے۔ بعد کے دو کلمات پہلے دو کلمات ہی کے تابع ہیں لہٰذا ہمیں غور کرنا تو صرف تمنیٰ اور القاء ہی پر ہے کہ تمنائِ رسول اور القائِ شیطان سے کیا مراد ہے؟ اس میں بظاہر کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے۔ بہرحال ہر طالب علم قرآن کا یہ کام ہے کہ وہ پہلے تو کم از کم قرآن وسنت کے مزاج اور ان کی بنیادی تعلیمات سے واقف ہو کہ یہ تو اس پر عائد کردہ فریضہ ہے اور اس کے بعد یہ بھی اس پر لازم ہے کہ اگر تفسیر میں قرآن و سنت کے مزاج اور اس کی واضح تعلیمات سے ہٹ کرکوئی بات بذریعہ روایت جگہ پاگئی ہو تو اس کو رد کردے اور صرف اسی تفسیری رائے کو تسلیم کرے جس میں اللہ، اس کے رسول اور دین اسلام کی کسی تخفیف وتوہین کا کوئی امکان نہ ہو۔
قرآن فہمی کا آٹھواں نکتہ: قرآن مجید کے شاہانہ اسلوبِ کلام کو سمجھے بغیر گمراہی کا خطرہ ہے
قرآن مجید اللہ رب ذو الجلال والاکرام کا عظیم ا لشان و معجزانہ کلام ہے لہٰذا اس کا اسلوب ہستی باری تعالیٰ کے شایان شان ہے اور جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں شاہانہ اسلوب کا مزید اظہار بھی ہوتا ہے۔ مثلاً جب وہ کبر ونخوت میں چُور سردارانِ قریش یا وقت کے فرعون و قارون، ابوجہل و ابو لہب سے مخاطب ہوتا ہے یا ہٹ دھرم لوگ دعوت حق کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں تو یہ شانِ کلام مزید اجاگر ہوجاتی ہے مگر ایک قا ری قرآن عام طور سے اس پس منظر سے ناواقف ہوتا ہے یا اس کی نظروں سے مستکبرین کا وہ پس منظر اوجھل ہوجاتا ہے تو وہ ایسی آیات کے لغوی مفہوم میں الجھ جاتا ہے، مثلاً سورۃ الاعراف میں ارشاد خداوندی ہے: وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (179) یعنی: ‘‘اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کیے ہیں، جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے، آنکھیں ہیں مگر ان سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ہیں مگر ان سے نہیں سنتے، یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ، یہی لوگ غافل ہیں’’۔ یہاں سمجھنا چاہیے کہ قرآن ’’مغضوب علیہم‘‘ سے خطاب کررہا ہے۔ بطور عمومی اصول اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں بار بار انسان کو خود اختیار اور مکلف مخلوق بتاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ وہ اس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے اور وہ اپنے اعمال وخیالات کے لیے آزاد ہے، اس پر کوئی جبر نہیں ہے، چاہے تو اپنے رب کو اور رب کی تعلیمات کو مان لے اور چاہے تو انکار کردے مگر ان کے نتائج کے لیے جو جنت وجہنم کی شکل میں آخرت میں ظاہر ہوں گے اللہ تعالیٰ کو ذمہ دار نہ ٹھہرائے۔ یہاں ایک بالکل سیدھی سی بات ہے جو اس کلام عالی شان میں اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک انداز میں کہہ دی وہ اگر نہ بھی کہتا تو یہ حقیقت تو نہ بدلتی کہ بعض جن وانس بہرحال اپنے کرتوتوں جہنم میں جائیں گے۔ اب یہ کہنا کہ وہ جہنم کے لیے ہی پیدا کیے گئے ہیں، دراصل خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار ہے کہ جس شاہانہ اسلوب میں ایک شہنشاہِ کائنات اپنے دشمنوں کے انجام کو بتارہا ہے وہ اس کے علم محیط کا ایک پہلو ہے۔
قرآن فہمی کا نواں نکتہ: کسی بھی قرآنی حکم کو صحیح ترین عملی جامہ نبی اکرم محمدؐ ہی پہنا سکتے ہیں
قرآن حکیم کی تفصیلی اور مکمل ہدایت جس کے ہم مکلف ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، سیرت اور فرمودات کے بغیر ہمیں معلوم نہیں ہوسکتی، خاص طور سے ان امور میں اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ طریقہ کہ جن کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ بیسیوں بار اپنے کلام میں یہ حکم دیتا ہے کہ ’’اَقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ‘‘ یعنی نماز قائم کرو جبکہ نماز کے قیام واقامت کی کوئی تفصیل قرآن کریم میں نہیں ملتی۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی یہ منشا اور حکمت واضح ہوتی ہے کہ اس نے اپنی پسند کی عملی شکل کو بتانے کے لیے رسولِ خاتم کو نامزد کردیا ہے۔ اسی نے بار بار اپنے کلام میں ’’اطیعوا اﷲ ‘‘ کے ساتھ’’وَالرَّسُوْلَ‘‘ یا’’اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ‘‘ کا کلمہ استعمال کیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ‘‘( النساء:۸۰) یعنی ‘‘جورسول کی اطاعت کرے اس نے اللہ کی ہی اطاعت کی’’ اس تفصیل سے یہ امر بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ احکامِ قرآنی کی ادائیگی کے لیے مستند عملی شکل سنتِ رسولِ خاتم ﷺ سے ہی معلوم ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم رسولؐ کے واسطہ ہی سے آیا ہے اور اسی کے واسطہ سے اور اس کے مہر استناد(Certification) کے بعد ہی ’’حق و صواب‘‘ کے درجہ کو پاسکتا ہے۔
قرآن فہمی کا دسواں نکتہ: فہم قرآن میں ا قوالِ صحابہؓ کی اہمیت سے ا نکار نہیں
اگر ہم قرآن پاک کو سمجھنے اور بالخصوص اس کی حکمتوں کو جاننے کے لیے ذاتی طور پر ایک استاذ کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو حضورنبی اکرمؐ کے بعد صحابۂ کرامؓ سے بہتر کون سا استاذ ہمیں قرآن فہمی کے لیے مل سکتا ہے۔ البتہ بعض کائناتی امور وہ ہیں جو زمانہ کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں مثال کے طور پر سائنسی علوم کا زمانہ کے ساتھ ارتقا ہورہا ہے لہٰذا قرآنی آیات میں کائناتی امور کو سمجھنے کے لیے ہم صحابہ کرامؓ کی آرا کو ترجیح دینے کے بجائے عصری علوم کے ماہرین کے اقوال کو ترجیح دینے میں حق بجانب ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ اس قرآن مجید کے مخاطبین اولین تھے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ذوق وروایات پر مبنی مثالیں دیں، وہ کائنات کا براہ راست مشاہدہ کرنے کے عادی تھے اور وہ حقیقت میں قرآن مجید کی آیاتِ آفاق وانفس کا وہ درک وفہم رکھتے تھے جو غیر عرب میں کبھی نہیں مل سکتا۔ ہاں البتہ یہ بات بھی اہم ہے کہ صحابہ کرامؓ کے اقوال میں اتنی چھان پھٹک نہیں ہوسکی جتنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات میں ملحوظ رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں تفسیر ابن عباس کے نام سے جو کتاب ملتی ہے وہ ایک ہی آیت کے معاملہ میں بعض اوقات کئی اور متضاد اقوال بھی حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی طرف منسوب کردیتی ہے۔ اگر اس عیب کا ازالہ ہوجائے تو صحابہ کرامؓ کے اقوال پر مبنی تفاسیر سے بہتر کون سی تفسیر ہوگی اور قرآن فہمی میں صحابہ کرام کی اصل رائے سے بہتر کسی غیرصحابی کی رائے نہیں ہوسکتی کیونکہ انھوں نے قرآن مجید براہ راست نبی اکرمؐ سے سیکھا اور حضرات ابی بن کعبؓ، عبداللہ بن مسعودؓ اور عبداللہ بن عباسؓ کے تفسیری اقوال پر تو حضور نبی اکرمؐ کی مہر استناد بھی ثبت ہے۔
قرآن فہمی کا گیارہواں نکتہ: حکمت تدریج کا صحیح علم ضروری ہے
انبیاء و رسل کی بعثت اور کتب سماویہ کے نزول کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین کی زمانی ومکانی تشریح بھی تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رفتہ رفتہ تہذیب وتمدن میں جِلا پیدا کی اور انسانوں کو نئے نئے کائناتی علوم سے آشنا کرایا جس کے نتیجہ میں نئے نئے مسائل وجود میں آئے۔ اس تغیر پذیر دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دین اسلام بھی تکمیل کی طرف گامزن رہا یہاں تک کہ نبی خاتم کے دست مبارک سے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ منتہائے کمال اور پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اور شریعت محمدؐی کی آخری شکل کو حتمی منظوری عطا کردی گئی۔ تیئیس سالہ دورِ رسالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے پرمشقت احکامِ اسلامی میں اور انسانی ذوق ومزاج خصوصاً روایات عرب کے خلاف امور کے تعلق سے قرآنی تعلیمات کے نفاذ میں تدریج کا طریقہ اختیار کیا یعنی اصلاح معاشرہ اور تزکیہ نفس کے لیے جن آفاقی احکام کی ضرورت تھی ان کو بتدریج نافذ کرایا۔ اللہ رب العزت نے گزشتہ شریعتوں کے مزاج کے علی الرغم ’’یُسْر‘‘ یعنی دین میں آسانی کو شریعت محمدؐی کا طرۂ امتیاز بنایا۔ مثال کے طور پر روزہ، وصیت، میراث، بدکاری کی سزا، سود وغیرہ کے احکام کے سلسلہ میں تدریج کے ان مراحل کو قرآن کریم کی آیات کے ذریعہ جستہ جستہ پیروانِ محمدؐ رسول اللہ تک پہنچایا گیا۔
قرآن فہمی کا بارہواں نکتہ: قرآن حکیم ایک ابدی معجزہ ہے جس کی نوع بنوع جہات کی جستجو مستحسن ہے
قرآن مجید ایک ایسا زندہ جاوید اور ابدی معجزہ ہے جس کے لا متناہی معجزانہ پہلو ہیں۔ گزشتہ چودہ سو سالوں میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتابوں میں اس کے نوع بنوع معجزاتی پہلوئوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس سے زیادہ اہم یہ امر ہے کہ ہر صدی میں ایک دو نہیں بلکہ متعدد ایسے کائناتی مظاہرسامنے لائے گئے جو گزشتہ صدیوں میں دنیائے انسانیت کوقرآن حکیم کے معجزانہ پہلو کی حیثیت سے معلوم نہیں تھے۔ مثلاً گزشتہ ایک صدی کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ سائنس اور ریاضیات کے ماہرین یا وہ علما جنھوں نے ان مضامین میں درک حاصل کرکے جب قرآن مجید کے اعجاز پر تحقیق و جستجو کی تو ا یسے عجیب وغریب انکشافات کیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
ہمارا یقین ہے کہ وقت کے گزرنے اور علوم کے ارتقا کے ساتھ قرآن کریم کے نئے نئے معجزانہ پہلو مسلسل سامنے آتے رہیں گے۔ فی الوقت اس نکتۂ قرآن فہمی کو پیش کرکے ہم طالبانِ قرآن کو یاد دلانا اور مہمیز دلانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی اپنے اپنے مضامین کی روشنی میں قرآن حکیم کے نوع بنوع معجزانہ جہات کے انکشاف میں اپنا مثبت رول ادا کرنے کی سعی کریں تاکہ فہم قرآنی کی نوع بنوع جہات میں ان کا بھی حصہ قائم ہوجائے۔
قرآن فہمی کا تیرہواں نکتہ: تفہیم کلام میں مخاطب ِاصلی کا تعین بھی مفید ہوتا ہے
قرآن فہمی کی بہتر سمجھ کے لیے بالخصوص قرآنی آیات کے مجموعہ یا چھوٹی سورتوں میں بہتر فہم کلام کے لیے بعض اوقات اصل مخاطب اور زمانہ نزول کا تعین بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ مثلاً سورہ الماعون کے آغاز میں ارشاد ربانی ہے ’’اَرَأَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ‘‘ یعنی ’’کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو روزِ جزا کو جھٹلاتا ہے‘‘ اور پھر اس کردار کے کئی اوصاف قبیحہ کا تذکرہ کیا گیا کہ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر دوسروں کو نہیں ابھارتا۔ قرآن حکیم بیشک آفاقی کتاب ہونے کی حیثیت سے عقیدۂ آخرت کے منکرین کا آفاقی جہات پر مبنی ایک ادبی خاکہ پیش کرتا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ محض تصوراتی اور تخیلاتی منظر کشی ہے بلکہ زمانۂ نزول قرآن میں اس کے مخاطب اصلی، زندہ اور حقیقی کردار تھے، عوام ان کی زندگی کے ہر ظاہری گوشہ سے واقف تھے اور ان کی زندگیوں کو سیرت کی کتابوں میں بھی محفوظ کردیا گیا ہے۔
قرآن فہمی کا چودہواں نکتہ: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ بعض اوقات محاوراتی زبان کی رعایت سے کلام کرتا ہے
قرآن مجید عربی زبان و ادب کا بہترین شاہ کار ہے اور ادب کی یہ خوبی اور طرۂ امتیاز ہوتا ہے کہ ادبی چاشنی کو قائم کرنے کے لیے بعض اوقات محاوراتی زبان اختیار کی جائے۔ ہم یہاں قرآن مجید کے ایک مقام سے ایک مثال پیش کریںگے۔ وہ سورہ البقرہ کی دو آیات نمبر ۲۴۳ اور ۲۴۴ ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’کیا تم نے ان لوگوں پر غور نہیں کیا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کردیا بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں‘‘۔ یہاں بات ’’اَلَمْ تَرَ‘‘ سے شروع ہوئی جس سے یہ واقعہ تمثیلی نہیں بلکہ حقیقی ہونا اغلب قرار پاتا ہے اور اگر یہ حقیقی واقعہ ہے تو اس کا ذکرتاریخ کی کتابوں اور روایتوں سے ثابت ہوگا لیکن خرقِ عادت موت کا ایسا واقعہ تاریخ وروایت سے ثابت نہیں ہے تو لا محالہ اس اسلوب بیان کو محاوراتی اسلوب سمجھا جائے گا جہاں ’’زندگی اور موت‘‘ لغوی اعتبار سے مراد نہیں ہیں بلکہ قوموں کی موت و حیات یعنی عروج وزوال مراد ہے۔ بہرحال ہماری حقیر رائے یہ ہے کہ اس معاملہ میں بے لچک (Rigid)رویہ کے بجائے اعتدال کی وہ راہ اختیار کرنا چاہیے جو قرآن مجید کے حُسن بیان کی غمازی کرے۔
قرآن فہمی کا پندرہواں نکتہ: قرآن مجید کی تفسیر و تشریح میں مخاطب کے مزاج کو اولیت حاصل ہے
یہ مسئلہ خصوصاً قرآن کی ان آیات میں اولیت حاصل کرلیتا ہے جن میں قرآن کریم موٹے طور پر مخاطبین کا تعین کردیتا ہے۔ مثلاً ’’یَسْئَلُوْنَکَ‘‘ سے شروع ہونے والی یا ’’یَسْتَفْتُوْنَکَ‘‘ سے شروع ہونے والی آیات یا’’اِذَا سَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ‘‘ والی آیت میں سارے مخاطبین اولین زمانۂ نزولِ قرآن کے عرب ہیں۔ مؤخر الذکر دو قسم کی آیات میں تو صحابۂ کرام ہی ہیں ہاں البتہ ’’یَسْئَلُوْنَکَ‘‘ میں اس امر کی گنجائش ہے کہ عرب کے بعض غیر مسلم لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ سوالات پوچھے ہوں اور وہ سنجیدگی سے اسلامی نقطۂ نظر معلوم کرنا چاہتے ہوں۔ زیر بحث نکتہ میں یہ بتانا مقصود ہے کہ چونکہ سائلین ومخاطبینِ قرآن متعین ہیں لہٰذا قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت اور اس کے تقریری اسلوب کا تقاضا تھا کہ سوال میں اختصار سے کام لیا جائے اور جواب میں ان کے مزاج وروایات کی رعایت ہو۔ لیکن آج جب ہمارے سامنے قرآن مجید کی وہ آیات آتی ہیں تو وہ منظر وپس منظر ہمارے ذہن سے عموماً اوجھل ہوجاتا ہے اور ہم اپنے زمانہ اور اپنے مزاج کے لحاظ سے اُن آیات کو سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ اس وجہ سے قرآن مجید کا اعجازی وصف اور اُس زمانی ومکانی پس منظر سے اس کے آفاقی پیغام تک پہنچنا ہمارے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ تفصیل کا موقع نہیں، یہاں صرف یہ یاد دہانی مقصود ہے کہ راست ودرست یعنی مطلوبہ قرآن فہمی کے لیے مخاطبین اولین کے ذوق ومزاج اور ان کی روایات ورسوم کو سمجھنا بھی ضروری ہے اور اُس زمانہ میں پائے جانے والے ان مخاطبین کے عقائد ونظریات کو بھی۔
قرآن فہمی کا سولہواں نکتہ: معجزہ کے تعلق سے متوازن رویہ مطلوب ہے
معجزہ کے تعلق سے امت مسلمہ میں بے انتہا اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہم اس بحث کو طوالت کی وجہ سے چھوڑتے ہوئے پہلے یہ عرض کردیں کہ معجزہ قرآنی اصطلاح ہی نہیں ہے بلکہ معجزات کے بجائے قرآن میں آیت کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ جب کہ علامہ ابن الجوزی نے بعض مفسرین کے حوالہ سے بتایا ہے کہ قرآن میں آیت کے چھ معانی ہیں: نشانی، معجزہ، کتابِ الٰہی، امرو نہی، عبرت اور قرآن کا مختصر حصہ۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی آیتوں یعنی نشانیوں کی چھ اقسام کا ذکر کرتے ہیں: (۱) کائنات کی نشانیاں (۲) انسانی ساخت ووجود میں نشانیاں (۳) انسانی شعور، وجدان، اخلاقی تصورات میں نشانیاں (۴) انسانی تاریخ کے تجربات میں نشانیاں (۵) انسان پر آفاتِ ارضی وسماوی کے نزول میں، اور (۶) وہ آیات جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعہ سے بھیجیں جن کو عام طور سے معجزہ کہا جاتا ہے۔
اس حوالے سے سب سے واضح وعیاں ’’آیات‘‘ کو عموماً لوگ بھول جاتے ہیں یعنی قرآن مجید کی چھ ہزار سے زائد وہ آیات ہیں جن کو سب لوگ آیات قرآنی کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ قرآن کی ہر آیت معنوی طور پر نشانی، عبرت وسبق سے عبارت ہے۔ بہرحال کسی بھی آیت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اعجوبہ ہی ہو بلکہ یہ انسان کی اپنی کیفیتِ قلبی کا معاملہ ہے کہ وہ کس چیز سے سبق لے کر اپنی زندگی کو سنوارلے یا ڈھیٹ بن کر خارقِ عادت، عظیم الشان معجزات کو بھی جادو قرار دے کر رد کردے۔ ان معجزات کے صدور کے تعلق سے ہمارا رویہ بھی بہرحال اعتدال پسندی کا ہونا چاہیے۔
قرآن فہمی کا سترہواں نکتہ: علمی وسعتوں کے ساتھ جائز حدود میں تفسیری وسعتوں سے استفادہ
اللہ تعالیٰ کا مقصود ہے کہ کائنات کی کھلی کتاب کے آئینہ میں کتابِ آیات یعنی قرآن مجید کو پڑھا جائے۔ اب چونکہ کائناتی علوم میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے لہٰذا کائنات کے ظاہر کو پڑھنے اور پرکھنے والے ان علوم کو علوم حقائق کے سر چشمہ سے جوڑنا امتِ مسلمہ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ مزید برآں علومِ ظاہر کا علم بردار فی زمانہ مغرب ہے اور اکثر مسلمان ان علوم کو ترجیحی بنیادوں پر حاصل نہیں کرتے۔ لہٰذا قرآن فہمی کے لیے اِن علوم سے استفادہ کرنا ان کے لیے محال ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک علوم کسبی جو ’’عَلَّمَ بالْقَلَمِ‘‘ سے ماخوذ وعبارت ہیں، ان کی مدد سے علوم وہبی کو جن کا محفوظ ومستند نمائندہ قرآن کریم ہے، اس کو سمجھنے کی کوشش کرنا خود تقاضائے قرآن حکیم ہے۔ علاوہ ازیں قرآن کریم ایک کتاب دعوت وانقلاب اور مخزن علم بھی ہے۔ تمام دنیائے انسانیت اس کتابِ ہدایت کی مخاطب ہے۔ البتہ امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کو لے کر نکلے تبھی یہ خیر امت ہونے کا استحقاق رکھتی ہے۔
ہمیں مخالفین و معترضین کے سوالوں کو بھی سمجھنا ہے اور اپنے جوابوں کو بھی ان کے اسالیب و دلائل کے مطابق ڈھالنا ہے۔ در اصل ان کے سوالوں کا تسلی بخش جواب براہ راست قرآن کی تعلیمات سے دینا ایک بڑا کام ہے لہٰذا جائز حدود میں تفسیری وسعتوں کو اپنے قلوب میں جگہ دینی ہوگی۔ قرآن مجید کو پہلے خود اس طرح سمجھنا ہوگا کہ ایک غیر مسلم اس پر فلاں اعتراض وارد کرسکتا ہے اور اس کے جواب کے لیے ہمارے پاس قرآن مجید ہی کی تعلیمات کی روشنی میں کیا دلائل ہیں۔ اگر ہم عصری علوم بشمول علمِ سائنس سے اس سلسلہ میں کوئی مدد لے سکتے ہیں تو ضرور لیں کیونکہ معاملہ مدعو کو مطمئن کرنے کا ہے۔ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ عصری علوم کی بنیادی خامیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انہی کی زبان واصطلاحات اور انہی کے قائم کردہ پیمانوں سے ان کو مطمئن کریں۔ قرآن فہمی کی یہ راہ اور طریقہ وقت کی ضرورت ہے۔
قرآن فہمی کا اٹھارہواں نکتہ: شک اور پہلو تہی سے اجتناب ضروری ہے
ہم اپنی زندگی میں بہت سے مسائل سے دو چار ہوتے ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہمارے ہر مسئلہ کا حل ہے لیکن معاملہ اسلام کے احکام پر عمل کرنے کا آتا ہے تو ہم اس میں اگر مگر، یہاں وہاں اور یہ زمانہ اور وہ زمانہ جیسی شیطانی تاویلات کرکے اسلامی حکم پر عمل کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں بلکہ نظام باطل کے دیے ہوئے طریقے اختیار کرلیتے ہیں مگر وائے افسوس! ہم اس وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سے دینی احکام اور اپنے رب کے حکم کے خلاف کتنی بڑی جسارت کا صدور ہوا اور اس گناہ کا خمیازہ ہم اِس دنیا میں بھگتتے ہیں اور آخرت تو اسی لیے ہی بنائی گئی ہے۔ بہرحال خمیازہ کی متعدد شکلیں ہوسکتی ہیں لیکن ایک چیز جس میں شک کی گنجائش نہیں ہے وہ یہی کہ جس نے قرآن کریم میں شک کیا اور پہلو تہی کی اس کی اصل برکتیں ہماری زندگی سے نکل جاتی ہیں جب تک کہ توبہ نہ کی جائے۔
قرآن فہمی کا انیسواں نکتہ: قرآن مجید کی آیات میں ہدایت ربانی کی آفاقی جہات کی تلاش
قرآن مجید کے طالب علم کو اپنے ذہن میں یہ مستحضر رکھنا چاہیے کہ نبی خاتم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی یہ کتاب بیک وقت دو بڑے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے نازل کی گئی۔ اس کا ایک مقصد تو نبی خاتم کو قرآنی تعلیمات پر مبنی تحریک کو برپا کرنا اور اس وقت کے مکانی حالات میں بر وقت اپنے نبی کو قرآنی کمک پہنچانا تھا۔ اور دوسرامقصد تھا لوحِ محفوظ میں موجود قرآن مجید کے ذریعہ دنیائے انسانیت کو ابدی وسرمدی پیغامِ ہدایت پہنچانا۔
حقیقت یہ ہے کہ ترتیب مصحفی میں ہی اس قرآن کی آفاقیت پوشیدہ ہے یا یوں کہیں کہ قرآن مجید کا آفاقی پیغام بہتر طریقہ سے اسی مصحفی ترتیب میں مدون کردیا گیا ہے۔ آفاقی پیغام حاصل کرنے کے لیے ہمیں مصحفی ترتیب ہی کی حقانیت وآفاقیت پر یقین رکھنا ہوگا اور اس کے حصول کے لیے ہمیں علیحدہ سے کوشش کرنا ہوگی۔
قرآن فہمی کا بیسواں نکتہ: سورہ کے مرکزی موضوع اور پس منظر سے آگاہی
ہر سورہ کا ایک مستقل موضوع ہوتا ہے یعنی اس کا ایک مرکزی مضمون ہوتا ہے اور اس مرکزی موضوع کی جستجو فہم قرآن کی ایک اہم ضرورت ہے۔ قرآن مجید کی سابق ولاحق سورتیں اپنی مصحفی وتوقیفی ترتیب میں ناگزیر طور پر قرآن مجید کے آفاقی پیغام پر دلالت کرتی ہیں۔ لہٰذا قرآن کی کئی ملحقہ سورتوں کو پڑھ کر زیر بحث سورہ کا داخلی پس منظر اور اس کا مرکزی موضوع معلوم کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی مجموعۂ آیات میں آفاقی پیغام ان کے سیاق اور اس سورہ کے مرکزی مضمون سے مربوط ہونا چاہیے۔
قرآن فہمی کا اکیسواں نکتہ: قرآن کریم کی معرفت اس پر عمل کے بقدر ملتی ہے
قرآن فہمی کے تئیں اخلاص کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن مجید کو نہ صرف طلب ہدایت کے لیے بلکہ اس کے مطابق اپنی زندگی کو سنوارنے کے لیے پڑھا جائے۔ ایسے مخلص اشخاص پر ہی قرآن کریم اپنی معرفت کے دروازے کھولتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی حقیقتاً یہ چاہتا ہے کہ اس پر قرآن کے معانی ومعرفت کا فیضان ہو اور اس کو عجائبات قرآن میں سے کچھ نہ کچھ حصہ ملے تو پھر اس کو قرآن حکیم کا مطلوبہ میدان عمل اختیار کرنا ہوگا یعنی پہلے تو اُسے قرآنی اوامر ونواہی کا پاس ولحاظ رکھنا ہوگا اور اس سے آگے بڑھ کر ایسے شخص کو قرآنی تحریکِ دعوت و انقلاب میں عملاً شمولیت اختیار کرنی ہوگی۔ صحابہ کرامؓ نے قرآن فہمی کی یہی عملی راہ اختیار کی تھی۔ چنانچہ ان میں سے بعض صحابۂ کرام کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے سورۃ البقرۃ سات سال میں سیکھی اور اس کی تشریح یہی کی جاتی ہے کہ وہ پہلے ایک آیت کو پڑھ کراس کو اپنی عملی زندگی کا جزو لاینفک بنالیتے تھے، اس کے بعد دوسری آیت پر تدبر کی نظر ڈالتے تھے۔ احقر چونکہ سائنس کا طالب علم ہے لہٰذا وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ سائنس کتابوں سے زیادہ معملوں (Laboratories)میں سمجھ میں آتی ہے۔ قرآن فہمی کے تعلق سے یہ بحث ان کلمات پر ختم کی جاتی ہے کہ مطلوبہ فہم ومعرفت قرآنی اسی شخص کو حاصل ہوسکتی ہے جس نے قرآن کو جز وقتی پروگرام کا حصہ نہ بنایا ہو بلکہ قرآن کا وہ کل وقتی طالب علم ہو اور اس کا اوڑھنا بچھونا ہی گویا قرآن بن گیا ہو۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2020