سود خوری یا حرام خوری

جس طرح جسم میں کوئی کینسر کا پھوڑا کسی مریض کو جاںکنی کے عالم میں تڑپا تڑپا کر اس دنیا کو چھوڑ دینے پر مجبور کر دیتا ہے، بالکل اسی طرح کا حال اس ملک کے مظلوم عوام اور خود اس ملک کا اس سود کی لعنت زدہ چلن سے ہوچلا ہے۔ لیکن اس کا احساس نہ اس ملک کو ہے نہ آج کے اس معاشرے کو۔جبکہ سودکی خباثتوں اور ہلاکت خیزیوں کا شکار سوسائٹی کا ہرقابل ذکر طبقہ ہے۔ آج کے اس مادیت گزیدہ ماحول میں جس کا خمیر نفس پرستی سے معنون ہے اور انسان گویا ایک مشین بن چکا ہے،مزید براں’دو گھونٹ چائے، برائے مہمان نوازی ‘بھی اب بھولی بسری یادیں بنتی چلی جارہی ہے۔ کسی کو پل بھر فرصت نہیں رہ گئی ہے کہ وہ اپنے اطراف کے ماحول کا طائرانہ جائزہ بھی لے اور یہ دیکھ سکے کہ اس کے اَقربا،پڑوسی اور ہم کار ساتھی کن آزمائشوں اور دکھ درد میں مبتلا ہیں۔بلکہ قصداً وہ خود بھی نہیں چاہتاکہ اس جانب اس کومتوجہ کیا جائے اور اسے ایثار و قربانی کے انسانیت نواز مراحل طے کرنا پڑے ۔چناںچہ وہ خود بھی کبھی شومئی قسمت سے اس طرح کے دگر گوں حالات سے دوچار ہوجاتا ہے۔ تب جانتاہے کہ کوئی اس پر رحم کی چادر نہیں پھیلائے گا۔ تب ہی توآج گلی گلی سود خوروں کا ایک جال پھیلا ہوا ہے، جو جونک کی طرح معمولی رقوم کے عِوض غیر معمولی سُود در سُود وصولی کی غیر قانونی حکومت چلائے چلے جارہے ہیں اور معاشرے کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے کہ لاتعلقی کا بُت بنا بیٹھا ہے یا جیسے وہ افیونی پینگ میں اپنی ذات کے حصارمیں مدغم بے سُدھ و مدہوش ہو چکاہے۔

سودی قرضوں کی ایک شکل تو وہ ہے جو انتہائی مجبوری اور کسمپرسی کے عالم میں ضروریات نان شبینہ، چھوٹے موٹے کاروبار،بیماری، شادی بیاہ، تجہیز و تکفین وغیرہ اور اس طرح کی دیگر ضروریات کے لیے ایک بے کس اور لاچار انسان لیتا ہے اور اس کی واپسی کے لیے گویا اپنی شہ رگ سے خون کے قطرے قطرے کی شکل میں واپس کرتا ہے اور بعض اوقات ایک قرض کی تکمیل کے لیے مزید ایک قرض کا بوجھ اپنی ناتواں گردن پر سوار کرلیتا ہے۔ گویا یہ ایک ایسا چکر ہے، جو اس کی زندگی کے پل پل کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اس پر سود کی شرح بالعموم ۴۰۰فیصد سالانہ تک پہنچ جاتی ہے۔ آج ملک کے کوشے گوشے میں بیکس و مجبور، مقہور و مظلوم انسانیت سودی ناسور کی انتہائی تکلیف دہ صورت حال سے تڑپ رہی ہے۔ سردی گرمی، دھوپ بارش میں صبح کی اولین ساعتوں سے رات کی سیاہ مہیب چادر پھیلنے تک، اپنے ناتواں جسم کی رگوں میں موجود خون کو ضرورت کی بھٹی میں جلادینے کے بعد حاصل ہونے والی مٹھی بھر رقم سے،جہاں وہ اپنے اہل و عیال کی روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے، تب اسی میں سے وہیں پابندی سے سود خور عفریتوں کی ادائی بھی کرنے پر مجبور ہے۔بالکل اسی نوعیت کا ایک وہ سودی قرض ہے جو چھوٹے موٹے کاروبار کی ابتدا یا ترقی کے نام پر لیا اور دیا جاتا ہے اور اس کی ادائی کی نوعیت بھی من و عن وہی ہے، جس کا تذکرہ اُوپر ہوچکا ہے اور کوئی نہیں ہے جو ان مظلوموںکو اس جنجال سے نکال کر راحت کا سامان کرسکے۔

یہی نہیں بلکہ مڈل کلاس اور اپّر کلاس میں بھی مختلف تجارتی و غیر تجارتی ضرورتوں کے نام پر سودی لین دین کا چلن ایک کینسر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔جانوروں اور کتوں پر ایک پتھر اور ایک لاٹھی برساناآج کے اس معاشرے میں ایک مشکل ترین مرحلہ بن چکا ہے کہ جانوروں اور کتوں کے ہمدرد اور سیاسی شعبدہ باز قائدین اس ظلم وزیادتی پر زمین وآسمان ایک کردیتے ہیں۔لیکن ان سود خور درندوں کی چیر پھاڑ پر انسانیت نوازی کی ہلکی سی رمق بھی کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ بڑے کاروبار، انڈسٹریز اور کمپنیوں کا بھی سودی لعنت سے ایسا ہی یارانہ ہے۔ بلکہ سوددی قرضوں کے حاصل کرنے کی انتہائی منظم و مبسوط شکل یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔ چناںچہ ان سودی قرضوں کی ضرورتوں کو نت نئی شکلیں اور معنی، مفہوم اور اسالیب پہنا کرچند انگلیوں پر گنے جانے والے مٹھی بھر سرمایہ دار اور بزنس آئیکان نہ صرف حکومتوں کے، بلکہ عوامی بچتوں کے بیشتر حصے پر قابض ہوچکے ہیں۔نفع اور سودی منافع کے نام پر سرمایہ کاری کا ایک عشر عشیر بھی ان لیے ہوئے قرضوں پر ان رقوم کے مالکین کو واپس نہیں کیا جاتاہے۔ جب کہ اس کے بالمقابل عام تخیلاتی سرحدوں سے پرے ملک کی کرنسی اور دھن دولت کا ارتکاز ملک کو ایک ایسے بلیک ہول کی طرف کشاں کشاں لیے چلے جارہا ہے، جس کا انجام ایک بھیانک تباہی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ واضح ہونا چاہیے کہ سماجی بے چینی جب انتشار اور انتقام کی کالی دیوی کا روپ دھارن کرلیتی ہے تب خون آشام انقلاب سماج سوسائٹی،حکومتوں مملکتوں کی اینٹ سے اینٹ بجاکر رکھ دیتاہے۔

انفرادی اور اجتماعی سودی قرضوں سے،چاہے وہ ذاتی ہوں کہ تجارتی،کہیں زیادہ تباہ کن وحشت ناک اور ہلاکت خیز وہ سودی قرضے ہیں جو مملکتی قرضے کہلائے جاتے ہیں اور جس کے بے رحم مفادپرست شکاری بین الاقوامی امداد کی سنہری لفاظی کا سہارالے کر حکومتوں اور مملکتوں کو بہ راہِ راست اپنے شکنجوں میں کس لیتے ہیں اور نوبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ بظاہر عہدوں اور مناصب پر فائز افراد دراصل ان بین الاقوامی سود خور وں کی انگلیوں پر ناچنے والے مہرے بن جاتے ہیں۔خود ہمارے پڑوسی ممالک میں اس کی بہترین مثالیں موجود ہیں۔ ملک کے ایک ایک فرد بشر کو ان بیرونی مملکتی قرض اور اس پر ادا کیے جانے والے سود کو اپنی جیب سے ادا کرنا لازم ہوجاتا ہے۔چناںچہ کسی مملکت کی موجودہ آبادی ہی نہیں بلکہ ہر نومولود پر سود کی ادائی کی شکل میں اس ناکردہ گناہ کا کفارہ لازم آجاتا ہے۔

اس ملک کی ترقی کو،جس کی شرح ترقی۸ پوائنٹ کو چھو چکی ہے،ظالمانہ معکوس ترقی کا نام دیا جائے تو کیا یہ غلط یا خلاف حقیقت ہوگا ؟جب کہ اس ملک میں قرضوںپر سود اور اصل کی عدم ادائی کی مشکلات کے پیش نظر ایک دو نہیں ہزارہا انسان خودکشی جیسے انتہا پسندانہ اورمایوسانہ اقدام کرتے ہوئے ملک کی ماباقی آبادی ،حکمرانو ں،سیاستدانوں،تاجروں اور تعلیم یافتہ دانشوروں وغیرہ پر ایک سوالیہ نشان چھوڑے جارہے ہیں اور صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ زندہ ضمیروں کا زندہ رہنا مشکل تر ہوچکا ہے۔ملک کی کتنی ریاستیں اور طبقے ہیں جہاں خودکشی کے ان گنت واقعات نہیں ہورہے ہیں اور بشمول حکومت اور سیاسی شعبدہ باز نام نہاد ہمدردی کا سوانگ رچا کر غیر انسانی تشہر کا سامان کرنے سے نہیں چوکتے ہیں۔

سودی نظام سے بے انتہا رغبت کی وجہ یہ بھی ہے کہ معاشین کی سوچ اور فکر کا عمومی زاویۂ نظردراصل اس تعلیم کا مرہونِ منت یا استخراجی ماحصل ہوتا ہے، جس کی ابجد سے ان کی اُٹھان اور ان کے ذہنی ساخت وپرداخت کے مراحل طے کرائے جاتے ہیں۔چناںچہ سودی نظام کے فوائدِعاجلہ اور امتیازات کے آگے یا اس سے اُونچے اُٹھ کران کی عقل کی گاڑی کوئی واضح جواب دینے سے قاصر ہوتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشیات اور علوم عمرانی میں اجتہادی نکتۂ نظر کو اپنایا جائے اور کسی چھوٹے رقبے، ملک یا وطن کو بحث ونظر کاموضوع بنانے کی بجائے ساری انسانیت کو مطمح نظر بنایا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا انسانیت کو مجموعی حیثیت میں سودی نظام سے واقعی فائدہ ہے ؟۔تاہم انسانی فلاح و بہبود کو بنیاد بنایا جائے تب اس کا جواب ممکن ہی نہیں کہ مثبت برآمد ہو۔ مثلاً آمدنی، منافع اور بچتوں کی سودی سرمایہ کاری ممکن ہے کہ ایک قلیل عرصے کے لیے منافع﴿سود﴾ عاجلہ کی حیثیت میں نتیجہ خیز اور فرحت بخش محسوس ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی بچت یا ’’بچت در بچت‘‘ دراصل کسی ملک کی کل آبادی کی مجموعی قوت خرید کے خسارے اور کمی ہی کی شکل میں سامنے آئے گی گو کہ موقتی طور پر واضح انداز میں اس کا احساس نہ ہوسکے۔ اس طرح کی بچتوں اور پھر اس کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں اگر کسی ایک ملک میں سرمایہ کا بے انتہا اضافے اور چیدہ افراد یا خاندان میں اس کے ارتکاز کے بالمقابل عوام الناس کی قوت خرید زوال پزیر یا منفی ہوتی جائے، تب اس مخصوص ملک کی لعنت کو دوسرے ملک میں فروخت یا منتقل کرنے کی پالیسی اپنائی جانا ہی واحد راستہ باقی بچ جاتا ہے اور آج کے اس دور میں من و عن یہی کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے اس عظیم ملک میں،جو آبادی کے اعتبار سے کنزیومر بیسڈ ملک کہلاتا ہے،بین الاقوامی پروڈکٹس کی بہتات اور پیٹنٹ رائیٹس کے ذریعے منڈیوں اور اشیائ پر قبضہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ عرفِ عام میں طویلے کی بلا بندر کے سر منڈھ دی جاتی ہے۔ غور کیا جائے کہ کیا یہ سب سودی نظام کی خباثتیں نہیں ہیں جس کو ہم سب جبراً لامحالہ جھیل رہے ہیں۔

اشتراکیت جیسے غیر فطری نظام یا سوشلسٹ طرز فکر میں اتنا دم خم ہے ہی نہیں کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام اور سود خوروں نیز انسانیت دشمن دولت کے پجاریوں کی راتوں کی نیند یں حرام کردے یا اس کو چیلنج کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سوشلزم کی کلی نفی نہیں کرتا ہے۔ کیونکہ اس میں خود غرضانہ مفادات کی ہانڈی بڑی سوندھی پکائی جاسکتی ہے ۔ تاہم سودی نظام کو یہ اپنی بقا کے لیے ریڑھ کی ہڈی تصور کرتا ہے۔ بالکل یہی دجہ ہے کہ ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کو کسی اور نظام، دین یا ازم سے خطرہ نہیں ہے سوائے آفاقی نظریہ و فکر کے حامل اسلام کے نظام ہائے حیات کے، جو انسانی برادری کاسچا خیر خواہ اور سودی نظام کا ازلی دشمن ہے اور یہی وجہ بھی ہے کہ سودی و سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے مفاد پرست مذہب اسلام کے محدود اور جامدتصور کو سر آنکھوں پر بٹھانے کو عار نہیں سمجھتے، بلکہ ممکن ہے کہ یوروپین ممالک کی گلی گلیاروں اور وہائٹ ہاؤس کے سبزہ زار پر ایک دو نہیں مہینے بھر افطار و عید ملن پارٹیوں کانظم و انتظام کرتے ہوئے انقلابی نظریہ ہائے حیات کی حامل اُمت مسلمہ کو غفلت کی میٹھی نیند سلادینا چاہتے ہوں۔

 سودی نظام معیشت اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داریاں

سود کی ہلاکت خیزی اور انسانیت کے لیے اصلاً نقصان رساں ہونے نیز سودی لین دین کے سبب ذہن و فکر میں مفاد پرستی،بخل اور حرص اورمادّہ پرستی جیسے اسفل و رذیل صفات اور کردار کی پرورش ہونے پر خودبنی نوع انسان اپنے تجربات و مشاہدات کی بنا پرگواہ ہے۔ مناسب ہوگا کہ اس پر مزید گفتگو سے پہلے دو ایک باتوں پر غور و فکر کرلیا جائے۔

مقام و منصب کا اِدراک

سب سے پہلی بات ملت اسلامیہ کے مقام و منصب کا اِدراک ہے۔ ختم نبوتﷺ کے سبب اُمت مسلمہ دراصل ایک ذمے دارانہ اہم اور نازک مقام و منصب پر فائز کردی گئی ہے کہ وہ دعوت و تبلیغ،انذار و تبشیر، تربیت و تزکیہ اور اقامت دین کے انبیاءی مشن کو جاری و ساری رکھے گی۔چنانچہ انفرادی اصلاح و تربیت ہو کہ اجتماعی جدوجہد،مقامی و ملکی مسائل ہو ں کہ بین الاقوامی دائرہ کار، غرض شعبہ ہائے حیات کے جملہ امور بشمول مشاکل و مسائل میں رہنمائی کے علاوہ خالق ارض و سمٰوات ہی کی مرضیات کی عملداری اور اسی کا کلمہ اونچا ہونا چاہیے۔

تحفظ ختم نبوتﷺ کی ذمہ داریاں

چنانچہ اس حقیقت کا اظہار صحیح تر ہوگا کہ تحفظ ختم نبوتﷺ کی ذمے داریوں میں جہاں قادیانیت کے نفوذ اور اثر پزیری کی جڑوں کا کاٹنا شامل ہے وہیں پر اَوّلاً نبی آخر الزماںﷺ کے مبارک ہاتھوں عطا کیے گئے قران وسنت کی تعلیمات کا عملاًزندہ رہنا بھی ہے اور ان تعلیمات کے کسی ایک پہلوپر بھی آنچ آجاتی ہے یا وہ صرف قلم و قرطاس کی زینت بن کر رہ جاتا ہو یا جدید دور کے شاطر دانشور اس کو دقیانوسی یا ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے قرآن و صاحب قرآن کے خلاف سازشی میکانزم ڈیولپ کرتے ہوں۔ تب اس کا نظری و عملی جواب، مشاکل و مسائل کا حل اور اس کا احیا و جاری کرنابھی اسی ذمے داری ہی کا حصہ بن جاتا ہے۔چناچہ ذمے داران و محافظان دین و ملت اگر نرم نرم کو بن چبائے نگل جائیں، لیکن دانتوں کی آزمائش جیسے مسائل سے پہلو بچائیں، آسان راہیں اپنائیں اور اگر یہ وطیرہ بن جائے،تب یہ انداز فکر و عمل، من حیث الاُمّہ، خود ایک جواب طلب سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے۔

بے حسی ایک غیر شریفانہ طرز عمل

سودی معاملات ومعیشت میں تقابلی طورپرسودی قرضوں کا کاروباربھی ہے۔مختلف ضروریات کے تحت مجبوراً سود پر قرض لینا جہاں ناپسندیدہ ہے۔ اس کے بالمقابل معاشرے کے کتنے کالے ناگ ہیں، جو سود کی کمائی کو ذریعہ تجارت بنائے اپنی کریہہ پھنکاروں سے ابنائے وطن اور فرزندانِ ملت کو زندہ درگور کیے چلے جارہے ہیں۔قلب پر گناہوں کا سیاہ دھبہ توبہ و انابت سے دُھل جاتاہے لیکن جب دِل سارا کا سارا رنگِ سیاہ اور ’’ کالا تَوّا‘‘ بن جائے تب حیوانی خصلتوں کے ببول آزارِ مجسم بن جاتے ہیں۔ چنانچہ آج سودی غلاظت کو منافع سمجھ کر کھانے والے سود خور جنگلی جانور قریہ قریہ شہر شہر،کہیں چھپے تو کہیں کھلّم کھلّا پائے جاتے ہیں۔جب کہ شریفانہ طرز عمل کے جدید معنی و مفہوم اب یہ ہو چکے ہیں کہ ظلم و برائی کو روبرو دیکھ کر شتر مرغ کی طرح بزدلی کی ریت میں اپنے سر دھڑ کو چھپا لیا جائے۔

سفید پوش سود خور

سود خوری کی لت کا ایک گھناؤنا روپ یہ بھی ہوگیا ہے کہ اس گندے نالے میںشریف اور اُجلے دامن کے صاحب حیثیت بھی پیراکی کرنے لگے ہیں۔ ایک ہلکی سی تحقیقی نظر ان کو اس حمام میں ننگا کر دینے کے لیے کافی ہے۔سود پر رقم لینے والوں کو بڑی اچھی طرح واقفیت ہے کہ بستی اور شہر میں کون کتنے فیصد عیوض پر کتنی رقم دے سکتا ہے۔اتنا ہی نہیں اب تو یہ بھی ہونے لگا ہے کہ بعضے عبادت گزار سمجھے جانے والے بھی سود پر قرض کے کاروبار میں ملوث پائے جاتے ہیں۔بنکوں میں فکسڈ ڈپازٹ کی رقموں سے اولاد کی شادی بیاہ کی پلاننگ، بچوں کی اعلیٰ تعلیم، یا ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر آسان زندگی گزارنے کی عادت اب کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے۔اس طرح کا معاملہ کمپنی ڈبنچرس کابھی ہوگیا ہے کہ شیئر مارکٹ میںگہری نظر رکھی جاکر سود پر رقم کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔بزنس مین اشیاے ضروریہ کی احتکاری معمولات میں بھی ملوث ہونے کو عار نہیں سمجھتے ہیں۔

 مجرمانہ خاموشی اور غفلت سے پرہیز

معاشرے اور ملک کی اس تشویش ناک صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنا، ایسا ہی ہے جیسے کشتی کے بعضے مسافر کشتی کی تہہ میں سوراخ کریں اور باقی ماندہ اس پر عافیت اسی میں سمجھیں کہ ان کو اس سے کیا لینا دینا ہے۔لیکن حقیقت یہی ہے کہ بالعموم معاشرہ اس پر مجرمانہ خاموشی اور غفلت کاشکار ہے۔بالعموم ایک محب وطن شہری کے اور بالخصوص دین حنیف کے علمبردار ہونے کے مسلم امت کو اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرنا چاہیے۔انسانی برادری اصلاً ایک خاندان کے مماثل ہے اور اسلامی اخوت کا تقاضا ہے کہ بیکس و مجبور اورپریشان حال ملت محمدیہﷺ کے دکھ درد کا مداوا بنیں۔بالخصوص مال و دولت کی نعمتوںسے جو نوازے گئے ہیںوہ ان کی اپنی ’’کسب‘‘سے زیادہ حقیقت میں ایک ’’عطاے خداوندی‘‘ہے بلکہ وہ ایک امتحان و آزمائش ربانی ہے جس کے پل پل کا اور جس کے ذرہ ذرہ کا جواب دینا ہے۔ بالکل یہی حال ان کا ہے جن کو شعور ورفہم اور علم و وجدان سے سرفراز کیا گیا ہے۔

 زکوٰۃ اور انقاق کا التزام

اہل ثروت پر لازم ہے کہ وہ اپنے مال و جائداد میں سے زکوٰۃ کی ادائی کا التزام کریں اور درجہ بہ درجہ مستحقین تک اس کو پہنچائیں۔ زکوٰۃ کی ادائی ایک فریضہ ہے اور اس پر اکتفا کرنا اس صورتحال کے سدھار کے لیے مددگار ضرور ہے لیکن مجموعی موجودہ صورتحال کا حل نہیں ہے۔چناچہ لازم ہے کہ انفاق اور خیر خیرات میں اپنے ہاتھوں کو اپنے گلے سے نہ باندھ لیں۔ موقتی قرضوں کے بلا سودی لین دین کو عام کریں اور بعضے قرضوں کے ڈوب جانے کاغم کرنے کی بجاے وسعت قلبی اور فیاضی اپنی سوچ اور فکرو عمل کا محور بنائیں۔احتیاط کے دائرے میں رہتے ہوئے بعض نادار اور مجبور و بیکسوں کے قرضوں کو معاف بھی کردیں۔

بِلا سودی قرضوں کا میکانزم

تاجر برادری اپنی تجارت کی ضروریات کے لیے بلا سودی قرضوں کا میکانزم ڈیولپ کریں۔ امداد باہمی طرز کی سوسائٹیز کے چلن کو عام کیا جائے۔ روزانہ اور ہفتہ واری اور ماہانہ وصولی و ادائی کا موثر نظم ایک بڑی با برکت اور مددگار عنصر ہے۔تجارت میں موقتی شراکت بھی اس کا ایک حل ہوسکتا ہے جب کہ اس کاچلن ابھی ایک نئی جہت ہے۔اس طرز کے بلا سودی قرضوں کے نظام میں ممکنہ تنازعوں کی یکسوئی کے لیے کسی فرد یا افراد کے گروپ کو باہمی رضامندی سے حکم بھی بنایا جاناچاہیے اور اس کے فیصلے کو تسلیم کرنے کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔ منفی نتائج سے گھبرا کر برا بھلا کہنا یا خیرباد کہہ دینا کوئی مثبت طرز عمل نہیںکہلایا جائے گا۔ کسی ایک سسٹم اور میکانزم کے عام طور پر تسلیم کیے جانے یا ’’عُرف‘‘بننے کے لیے تھوڑا بہت وقت بہرحال لگتا ہی ہے۔ لیکن جب یہ عرف بن جاتا ہے، تب سبھی اس پر آسانی سے بلاچوں و چرا عمل درآمد کرنے لگتے ہیں۔ اس صبر آزما مرحلے سے گزرے بغیر سودی لعنت سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔معاشرے میں بلاسودی کمیٹیوں اور سوسائٹیز کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے۔اہل ثروت سے جن کے پاس فاضل رقم ہو طمانیت اور موعودہ وقت پرواپسی کی ضمانت کے عوض مشروط قرض حاصل کیا جائے۔ اور مختلف گارنٹیوں کے بدلے بلا سودی قرض کا اجرا عمل میں لایا جائے۔اسی طرح خواتین میں بھی اس سسٹم کو لاگو کیا جاسکتا ہے۔ تاکہ بلاسودی قرضوں کے سسٹم کے علاوہ’’ بچت کی عادت‘‘ کا فائدہ بھی اُٹھایا جاسکے۔

بلا سودی بنکوں کا قیام

بلا سودی بنکوں کا قیام اور اس کا نظم و انصرام سودی لعنت اور سودی معیشت کے خاتمے کے لیے ایک بہت ضروری اقدام ہے۔ آج کے اس جدید دور میں بنک کاری کا نظام تجارت و معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مانندہے۔ملکی و بین الاقوامی معاملات کا تعلق بھی اسی نظام سے جُڑا ہوا ہے۔درآمد و برآمدایک وسیع بزنس کی شکل اختیار کرچکا ہے۔بلکہ صحیح معنوں میںزندگی کے بیشتر معاملات کہیں نہ کہیں بنک کاری کے نظام سے جڑ جاتے ہیں۔چنانچہ مختلف متنوع خدمات کے لیے بنک کی نوعیتیں بھی بدل جاتی ہیں۔جہاں حکومت کے راست کنٹرول بنک کاری کا نظام موجود ہے،وہیں پر پرائیویٹ سیکٹر میں بھی مختلف کمپنیز بنکنگ سیکٹر میں اپنے ذاتی بنک کھول کرچلا رہے ہیں۔ لیکن ان تمام کا تعلق سودی لین دین سے ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلاسودی نظریات پر مشتمل گروپس بلا سودی بینکنگ نظام میں داخل ہوں۔حکومت کو یقن دلائیں کہ سودی بینکنگ کی طرح بلا سودی بینکس بھی ریزرو بنک آف انڈیا کے رولس اینڈ ریگولیشنس کی پابندی کرتے ہوئے ایک مثالی بنک قائم کرسکتے ہیں۔

علماء اور مذہبی جماعتوں کی ذمے داری

سودی لین دین کے سدِّباب کی بابت ایک اہم ذمے داری مذہبی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔جمعہ کا فریضہ سماجی اورمعاشرتی نظم و ضبط کے اعتبار سے اُمت مسلمہ پر ایک فضلِ بے پایاں ہے اور جمعہ کے خطبہ و نماز کے لیے اُمت کی ایک کثیر تعداد مسجدوں کو حاضر ہوتی ہے۔ چنانچہ جمعہ کے خطبوں میں بیانات اور تقاریر کے ذریعے سودی لین دین کی دینی و دنیوی ہلاکت خیزی اورقباحتوںسے متعلق توجہ دلائی جاتی رہنی چاہیے۔علاوہ ازیں جماعتوں،تنظیموں اور خانقاہوں کو سودی خباثتوں کے خلاف ایک متحرک عامل کی حیثیت میں ذہن سازی اور میدان عمل کی جہد کاری کے لیے تیار کیا جانا چاہیے۔سود سے متعلق قرآنی تعلیمات اور اُسوۃالنبیﷺ و احادیث مبارکہ کا ایک تسلسل کے ساتھ بیان و تذکرہ ہوتا رہنا چاہیے۔

نظری و فکری توضیح و تشریح

سودی نظام معیشت نے انسانیت کو مجموعی حیثیت میں جہاںبڑے کرب اور تکالیف میں مبتلا کردیا ہے وہیں پردور ِحاضر میں نظری و فکری اعتبار سے بلا سودی نظام معیشت کی قابل عمل توضیح و تعارف اُمت مسلمہ کے لیے ایک چیلنج ہے ۔چنانچہ اس کو اس امت نے اس حیثیت سے حالیہ نصف صدی میں قبول بھی کیا ہے۔بین الاقوامی طور پر جہاں اس بابت کوشش کی جاتی رہی ہے وہیں پر ہمارے اس ملک ہندستان میں بھی اس سمت پیش رفت ہوئی ہے۔ ہندستان میں کچھ جماعتیں اور گروہ بالخصوص جماعت اسلامی ہند نظری و عملی اقدامات کرتے ہوئے میدان عمل میں سعی و جہد میں مصروف ہے ۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ کسی ایک جماعت کی بجائے ساری ملت اسلامیہ کا نہ صرف مشترکہ ایجنڈا بن جائے بلکہ اس کو امت اور ملک کے سامنے وسیع حیثیت میں پیش بھی کیا جائے اور استفادے کے لیے آمادہ بھی کیا جائے۔

معاشی ماہرین بنام بلا سودی نظام معیشت

انسانیت سارے انسانوں کی مشترکہ میراث ہے، اسی طرح بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود بھی مشترکہ ذمے داریوں ہی کا حصہ ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کی قباحتوں سے دور جدید کے لوگ ناواقف نہیں ہیں۔دولت کا مٹھی بھر ہاتھوں میں ارتکاز اور باقی ماندہ ساری انسانی آبادی کی نان شبینہ کے لیے گدھوں کے بوجھ ڈھونے جیسی محنت و مشقت کے علاوہ ایک کثیر آبادی کی فاقہ کشی و بھکمری کی حد تک معیار زندگی کو جدید دور کے معاشی ماہرین اور دانشور اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اس کڑوے نیم چڑھے کریلے کا ذائقہ بھی بالفعل چکھ رہے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے بالمقابل مخلوط طرزمعیشت اور اشتراکی نظام معاشرت و معیشت کو دنیا نے ان موجودہ صدیوں میں برت کر دیکھا لیاہے اور مسترد بھی کردیا ہے۔اشتراکیت اپنے معٰنی و مفہوم کے لحاظ سے زمانہ ہوئے ڈھیر ہوکر سرمایہ دارانہ نظام کی چوکھٹ پر پیر چاٹتی پھر رہی ہے اور مخلوط نظام معیشت نے بھی سرمایہ دارانہ نظام کے لبادے کو جنتی پیرہن سمجھ کر اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکی ہے۔ اس کے برعکس تاریخ نے اسلامی طرز ہاے زندگی بشمول اسلامی نظام معیشت کے علاوہ تہذیب و تمدن کاانسانیت نواز سکھ اور چین جیسا ایک طور طریقے کو نہ صرف پیش کیا ہے بلکہ عملاً برت کر یہ بھی ثابت کردیا تھا کہ انسانوں کی فطرت سے ہم آہنگ، افراط و تفریط سے پاک اس سے بہتر اور کوئی نظام اس دنیا میں ممکن نہیں۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ دور جدید کے ماہرین او ر دانشورانِ معیشت تعصب کی عینک کو اپنے ذہن و فکر سے اُتار کر رکھ دیں ۔اور ساری انسانیت کے دکھ کے مداوے کے پیش نظر معروضی و تاریخی نقطہ نظر سے اسلامی معیشت کے اُصول و فکر کا جائزہ لیں۔ تاہم روایتی ذہن و فکر کے اندھے کنویں سے اُوپر نکل کراُصول و نظام معیشت میں اجتہادی جرأت وہمت ہی اس بات کی سزاوار ہے کہ وہ نئے اُفق کی زندگی بخش قوس قزح کی نیرنگیوں سے انسانیت کو نواز سکے۔ چنانچہ لازم ہے کہ اسلامی نظام معیشت کا معروضی جائزہ لیا جائے۔

سُودِ حرام کا حلالہ اور مسئلہ دارالحرب

نام نہاد دارالحرب کو بنیاد بنا کر حرام سود کا حلالہ کرنے کے فتنے میں مبتلا اصحاب کی حالانکہ کوئی شرعی‘اخلاقی یا اُصولی بنیاد نہیں ہے لیکن دارلحرب کو بنیاد بناکر آج تک بھی بعض گوشوں سے سود کے لین دین کی حرام خوری ڈکار لیے بِنا جاری ہے۔ واضح ہونا چاہیے کہ دین ومذہب کی اُصولی ومعروضی بنیادیں ہوتی ہیں۔چنانچہ ہمارا یہ ملک جس کوایک آزاد و خود مختاروفاقی مملکت کے بنانے میں اوراس کی مرکزی، ریاستی اور مقامی حکومت سازی میںدیگر اَبنائے وطن کی طرح جب مسلم قوم بھی بغیرکسی امتیاز و تفاوت کے برابرکی شریک ہے اور ملک کا دستور اور عدلیہ و قانون حقوق اور ذمے داریوںکے تناظر میں، نظری طور پر،شہریوں کے مابین مذہب کی بنیاد پر کوئی تخصیص نہیں کرتا۔ مقام غور یہ بھی ہے کہ جب مسلم اُمت کسی ملک و مملکت سے عملاً یا معروضاً حالت جنگ میں بھی نہیں ہے کسی گئے گزرے دورکے ایک فتویٰ کو بنیاد بناتے ہوئے سُود ِ حرام کو حلال کرلینا نہ صرف خود کو دھوکہ دینا ہے بلکہ اپنی آخرت کوبھی کھوٹاکرلینا ہےِ۔

بین الاقوامی کوششیں اور مسلم ممالک کی ذمے داریاں

صنعتی یوروپی انقلاب نے گزشتہ دو تین صدیوں میں ترقی و آسائش کے جن مراحل کو طے کیا ہے اور جن ایجاد و فوائد سے آج دنیا مستفید ہورہی ہے، اس کو تسلیم نہ کرنا گویا اُسی ظلم کے مماثل ہے جوما قبل صنعتی انقلاب چرچ اور اس کے کرتا دھرتاؤں نے اہل علم و دانش پرظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے تھے۔اس حقیقت کو مسلم دنیا کو قبول کرنا پڑے گا کہ اس سارے منظر نامے کی؛ ایک طرح کی؛ اخلاقی ذمے داری اہل اسلام پر بھی عائد ہوتی ہے۔جب کہ اسلامی تعلیمات کے خوشہ چیں انھی بحر زخار سے وہ موتی ڈھونڈ نکالے جن کی بنیادوں سے صنعتی وعلمی انقلاب کی ایک نئی صبح طلوع ہوئی۔لیکن اس مثبت پہلو کے پہلو بہ پہلو سرمایہ دارانہ عفریت اور سودی آکٹوپس کے منفی و انسانیت گزیدہ نظام نے دولت و سرمایہ کے ارتکاز کو بنیاد بناتے ہوئے ایک ایسے استعمار کو جنم دیا جس نے بنی نوع انسان کو بالعموم ایک لامتناہی کرب و الم میں مبتلا کر رکھا ہے اور جس کی ترجیحی پہلی کوشش یہی کہ اس کے بالمقابل کوئی متبادل سر نہ اُٹھا سکے۔ آج دنیا میں اسلام کے خلاف جتنی سازشیں ہو رہی ہیں اس کے پس پردہ بنیادیہی ہے۔جب کہ دنیا منتظر ہے کہ بنی نوع انسان کو سکون و راحت پہنچانے والا انسانی فطرت سے ہم آہنگ کوئی متبادل نظام معاشرت و معیشت سامنے آئے۔ چنانچہ بلا سودی نظام معیشت اور بلا سودی نظام بنک کاری کا بین الاقوامی لیول پر ’’تعارف ، توضیح اور نفاذ‘‘ وقت کی اہم ترین ضرورت بن گیا ہے ۔ اس ذمے داری کا کما حقہ حصہ ادا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ مسلم ممالک کو خالق ارض و سمٰوات نے مادّی وسائل اورسلطنت و دولت فیاضانہ عطا کیے ہیں۔ علاوہ ازیںعلم و ہنر، دانش وفہم سے مسلم ملت بالکل ہی بانجھ بھی نہیں ہے۔اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے مقصد وجود کے تقاضوں کو پورا کرے اور انسانیت کے خادم کی حیثیت میں اس کی تمام ضروریات بشمول بلا سودی نظام معیشت و معاشرت اور بلاسودی بنک کاری وغیرہ کی تکمیل کے لیے آگے آئے۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2011

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223