محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلّم کی سیرت ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی پُرانا نہیں ہوتا۔ ہدایت کی طالب سعید روحیں اِس تذکرے میں وہ حیات بخش پیغام پاتی ہیں جو حق کی راہ کو روشن بھی کرتاہے اور اُس پر گامزن ہونے کا حوصلہ بھی عطا کرتا ہے۔ شاعر نے اِسی حقیقت کی عکاسی کی ہے:
سلام اُس پر کہ جس کی بزم میں قِسمت نہیں سوتی
سلام اُس پر کہ جس کے ذِکر سے سیری نہیں ہوتی
اِنسان کامل کے اُسوہ حسنہ سے کماحقہ فائدہ اُٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ سیرت کے مطالعے کا طریق کار متعین کیاجائے۔ غور کرنے سے محسوس ہوتاہے کہ اِس مطالعے میں درجِ ذیل نکات کا لحاظ کیاجانا چاہیے۔
﴿الف﴾ سیرت کے مستند ماخذ پر اِصرار
﴿ب﴾ انبیاء ی مِشن کے جامع تصور کا استحضار
﴿ج﴾ ختمِ نبوّت کے تقاضوں کا فہم
﴿د﴾ قرآنی ہدایات کی درست تعبیر متعین کرنے کی سعی
﴿ہ﴾ سیرتِ صحابہ سے استفادہ
اِن نکات کی رعایت کے علاوہ اِس حقیقت کو بھی سامنے رکھاجانا چاہیے کہ اُمت کے عوام و خواص، صدیوں پر محیط تاریخ کے دوران سیرت سے استفادے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی تحقیق و جستجو سے جو سرمایہ فراہم کیاہے وہ بڑا قیمتی ہے۔ ایک طالبِ حق اِن محققین کے نتائج فکر کو نظرانداز نہیں کرسکتاگرچہ نئے حقائق کی دریافت کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
سیرت کے مستند ماخذ
قرآنِ مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے طرزِ عمل کو اہلِ ایمان کے لیے اُسوہ حسنہ قرار دیتا ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیْرا ﴿سورہ احزاب، آیت:۲۱﴾
’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولوں میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘
آیت کاپیغام عام ہے گرچہ مندرجہ بالا آیت غزوہ احزاب کے سیاق میں نازل ہوئی ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ اسوہ حسنہ کا اتباع اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان کالازمی تقاضا ہے۔ یہ بات معلوم ہوجانے کے بعد فطری طورپر ہر صاحبِ ایمان فرد کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اسوہ حسنہ سے واقفیت حاصل کرے۔ اِس واقفیت کے ذرائع مستند ہونے چاہئیں تاکہ جو معلومات حاصل ہوں وہ قابلِ اعتماد ہوں اور پورے اطمینان کے ساتھ اُن سے رہنمائی حاصل کی جاسکے۔ یہ ذرائع ترتیب کے ساتھ درج ذیل ہیں:
﴿الف﴾ قرآن مجید
﴿ب﴾ صحیح احادیث
﴿ج﴾ معتبر تاریخی بیانات اور تذکرے
سیرتِ طیبہ کا پہلا ماخذ خود قرآنِ مجید ہے۔ اس امتیاز کی وجہ بالکل ظاہر ہے۔ قرآن مجید اپنے الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے اور کلیۃً یہ بات کسی اور ماخذ کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی۔ قرآن مجید میں سیرت کے متعدد اہم واقعات کا تذکرہ موجود ہے یا اُن واقعات کی جانب اِشارے کیے گئے ہیں مثلاً:
٭ نزولِ وحی کی ابتدا۔ ﴿سورہ مزمّل ، مدثّر، علق﴾
٭ نزولِ وحی میں وقفہ۔ ﴿سورہ ضحی﴾
٭ واقعہ ابن ام مکتوم۔ ﴿سورہ عبس﴾
٭ ابوجہل و ابولہب کی مخالفتِ اسلام ﴿سورہ علق، لہب﴾
٭ شق القمر۔ ﴿سورہ قمر﴾
٭ ہجرتِ حبشہ۔ ﴿سورہ نحل، عنکبوت، زمر﴾
٭ غلبہ روم کی پیش گوئی۔ ﴿سورہ روم﴾
٭ واقعہ معراج۔ ﴿سورہ بنی اسرائیل﴾
٭ ہجرتِ مدینہ۔ ﴿سورہ توبہ﴾
٭ تحویل قبلہ۔ ﴿سورہ بقرہ﴾
٭ غزوہ بدر۔ ﴿سورہ آلِ عمران، انفال﴾
٭ غزوہ احد۔ ﴿سورہِ آل عمران﴾
٭ غزوہ احزاب۔ ﴿سورہ احزاب﴾
٭ واقعہ افک۔ ﴿سورہ نور﴾
٭ غزوہ بنی نضیر۔ ﴿سورہ حشر﴾
٭ غزوہ بنی قریظہ ﴿سورہ احزاب﴾
٭ حضرت زینب سے نکاح۔ ﴿سورہ احزاب﴾
٭ صلح حدیبیہ۔ ﴿سورہ فتح﴾
٭ واقعہ تحریم۔ ﴿سورہ تحریم﴾
٭ فتح مکّہ۔ ﴿سورہ نصر﴾
٭ غزوہ حنین۔ ﴿سورہ توبہ﴾
٭ غزوہ تبوک۔ ﴿سورہ توبہ﴾
قرآن مجید کے اوّلین ماخذ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ سیرت کے جو واقعات تاریخ سے ہمارے علم میں آئیں اُن کو قرآنی تصریحات و اشارات کے سیاق و سباق میں سمجھاجائے اور ایسی کسی بات کو بہرحال قبول نہ کیاجائے جو قرآن سے متصادم ہوتی ہو۔ اِس اصول کی ایک مثال غزوہ بدر سے متعلق ہے۔ قرآن مجید میں اِس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١﴾ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ﴿٤﴾ كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ ﴿٥﴾ يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ ﴿٦﴾ ﴿سورہ انفال، آیات:۱ تا۶﴾
’تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو ’یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسول کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس کے تعلقات کو درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم مومن ہو۔‘ سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جِن کے دل اللہ کا ذِکر سُن کر لرزجاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات اُن کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو اُن کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رَب پر اعتماد رکھتے ہیں،جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے ﴿ہماری راہ میں﴾ خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لیے اُن کے رَب کے پاس بڑے درجے ہیں، قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔ ﴿اِس مالِ غنیمت کے معاملے میں بھی ویسی ہی صورت پیش آرہی ہے جیسی اُس وقت پیش آئی تھی﴾ جب کہ تیرا رَب تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکال لایاتھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ سخت ناگوار تھا۔ وہ اس حق کے معاملے میں تجھ سے جھگڑرہے تھے دراں حالیکہ وہ صاف صاف نمایاں ہوچکاتھا۔ اُن کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھتے مَوت کی طرف ہانکے جارہے ہیں۔‘
جناب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اِن آیات کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’قرآن کا یہ اِرشاد ضِمناً اُن روایات کی بھی تردید کررہاہے جو جنگِ بدر کے سلسلے میں عموماً کتبِ سیرت و مغازی میں نقل کی جاتی ہیں، یعنی یہ کہ ابتداً نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین، قافلے کو لُوٹنے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے تھے۔ پھر چند منزل آگے جاکر جب معلوم ہواکہ قریش کا لشکر قافلے کی حفاظت کے لیے آرہاہے تب یہ مشورہ کیاگیاکہ قافلے پر حملہ کیاجائے یا لشکر کامقابلہ؟‘
اِس بیان کے برعکس ، قرآن یہ بتارہاہے کہ جِس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے گھر سے نکلے تھے اسی وقت یہ امر حق آپ کے پیشِ نظر تھا کہ قریش کے لشکر سے فیصلہ کُن مقابلہ کیاجائے۔ اور یہ مشاورت بھی اُسی وقت ہوئی تھی کہ قافلے اور لشکر میں سے کِس کو حملے کے لیے منتخب کیاجائے۔ اور باوجودیکہ مومنین پر یہ حقیقت واضح ہوچکی تھی کہ لشکر ہی سے نمٹنا ضروری ہے، پھر بھی اُن میں سے ایک گروہ اُس سے بچنے کے لیے حجّت کرتارہا۔ اور بالآخر جب آخری رائے یہ قرار پاگئی کہ لشکر ہی کی طرف چلنا چاہیے تو یہ گروہ مدینے سے یہ خیال کرتا ہوا چَلا کہ ہم سیدھے موت کے منہ میں ہانکے جارہے ہیں۔‘ ﴿تفہیم القرآن، سورہ انفال،حاشیہ۴﴾
قرآن مجید کے بعد سیرت کا دوسرا ماخذ احادیث ہیں۔ اُن میں سب سے پہلے اُن احادیث سے استفادہ کیاجانا چاہیے جو سند کے لحاظ سے قوی ترین ہوں۔ سیرت کے اکثر واقعات کا تذکرہ متعدد روایات میں ملتا ہے اور اُن سب کو جمع کرنے سے واقعے کی صحیح تصویر سامنے آسکتی ہے۔ احادیث کے بعد وہ کتابیں بھی سیرت کے واقعات جاننے کاذریعہ ہیں جو تاریخی طرز پر لکھی گئی ہیں۔ اُن سے حاصل ہونے والی معلومات کواحادیث صحیحہ اور قرآن مجید کے سیاق میں سمجھنا اشد ضروری ہے۔ اِس سلسلے میں مولانا مودودی کا بصیرت افزا تجزیہ قابلِ غور ہے جو انھوں نے احادیث اور تاریخ کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
بعض حضرات تاریخی روایات کو جانچنے کے لیے اسماء الرجال کی کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں فلاں راویوں کو ائمہ رجال نے مجروح قرار دیا ہے، اور فلاں راوی جِس وقت کا واقعہ بیان کرتا ہے اُس وقت تو وہ بچہّ تھا یا پیدا ہی نہیں ہواتھا، اور فلاں راوی ایک روایت جِس کے حوالے سے بیان کرتا ہے اُس سے تو وہ مِلا ہی نہیں۔ اِس طرح وہ تاریخی روایات پر تنقید حدیث کے اصول استعمال کرتے ہیں اور اِس بنا پر اُن کو رَد کردیتے ہیں کہ فلاں واقعہ سند کے بغیر نقل کیاگیا ہے اور فلاں روایت کی سند میں انقطاع ہے۔
یہ باتیں کرتے وقت یہ لوگ اِس بات کو بھول جاتے ہیں کہ محدّثین نے روایات کی جانچ پڑتال کے یہ طریقے، دراصل احکامی احادیث کے لیے اختیار کیے ہیں، کیونکہ اُن پر حرام و حلال، فرض و واجب اور مکروہ و مستحب جیسے اہم شرعی امور کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ معلوم کیاجاتا ہے کہ دین میں کیا چیز سنّت ہے اور کیا چیز سنت نہیں ہے۔ یہ شرائط اگر تاریخی واقعات کے معاملے میں لگائی جائیں، تو اِسلامی تاریخ کے اَدوارِ مابعد کا تو سوال ہی کیا ہے، قَرنِ اوّل کی تاریخ کا بھی کم از کم ۰۱/۹ حصّہ غیرمعتبر قرار پائے گا، اور ہمارے مخالفین اُن ہی شرائط کو سامنے رَکھ کر اُن تمام کارناموں کو ساقط الاعتبار قرار دے دیں گے جن پر ہم فخر کرتے ہیں، کیوںکہ اصولِ حدیث اور اسماء الرجال کی تنقید کے معیار پر اُن کا بیش تر حصّہ پورا نہیں اُترتا۔ حَد یہ ہے کہ سیرتِ پاک بھی مکمّل طورپراِس شرط کے ساتھ مرتَب نہیں کی جاسکتی کہ ہر روایت، ثقات سے ثقات نے متّصل سند سے ساتھ بیان کی ہو۔‘ ﴿خلافت و ملوکیت، ضمیمہ﴾
اِس تبصرے سے معلوم ہوتاہے کہ احادیث اور تاریخ کو یکساں درجہ نہیں دیاجاسکتا۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ سیرت پاک سے متعلق بہت سی باتیں وہ ہیں جو عوام میں مشہور ہیں اور واعظین و مقررین، سیرت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اُن کو بیان کرتے ہیں لیکن اُن باتوں کی تائید قرآنی اشارات یا احادیث و تاریخ سے نہیں ہوتی۔ اگر فی الواقع سیرت سے استفادہ پیشِ نظرہے تاکہ اُمت اُس سے رہنمائی حاصل کرسکے تو ایسی بے اصل باتوں کے بیان کرنے کا سلسلہ فوراً بند کیاجانا چاہیے۔ دین کے کسی پہلو پر بھی اظہار خیال کیاجائے وہ پورے احساس ذمّہ داری کے ساتھ ہونا چاہیے۔ احساس ذمّہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ جو بات کہی جائے وہ علم کی روشنی میں کہی جائے اور واقعات سے جو نتائج اخذ کیے جائیں وہ استدلال کی کسوٹی پر پورے اُترتے ہوں۔ دین کے دوسرے پہلوؤں کی طرح یہ اصول سیرت کے معاملے میں بھی صحیح ہے۔ اِس سلسلے میں عوام کے مزاج کی اِصلاح کی ضرورت ہے اور مقررین کے مزاج کی بھی۔
انبیائی مِشن
سیرت کے صحیح فہم کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُس کو غیرمربوط واقعات کا مجموعہ سمجھنے کے بجائے اُس مشن کا شعور حاصل کیاجائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مِشن تھا۔ آپ کی پیغمبرانہ زندگی کا ہر واقعہ اِس مشن سے مربوط ہے اور اس تناظر سے اُس واقعے کو جُدا کردیاجائے تو اس کی ساری معنویت مجروح ہوجاتی ہے۔ سید مودودیؒ اِس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلّم دونوں چونکہ ایک مشن رکھتے ہیں اور ایک مقصد و مدعا کو لیے ہوئے آئے ہیں، اِس لیے اُن کو سمجھنے کا انحصار اِس پر ہے کہ ہَم اُن کے مشن اورمقصد و مدعا کو کِس حد تک سمجھتے ہیں۔ اس چیز کو نظرانداز کرکے دیکھیے تو قرآن، عبارتوں کا ایک ذخیرہ اور سیرتِ پاک، واقعات و حوادث کا ایک مجموعہ ہے۔ آپ لُغت اور روایات اورعلمی تحقیق و کاوِش کی مدد سے تفسیروں کے انبار لگاسکتے ہیں اور تاریخی تحقیق کا کمال دِکھاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کے عہد کے متعلّق صحیح ترین اور وسیع ترین معلومات کا ڈھیر لگاسکتے ہیں، مگرروحِ دین تک نہیں پہنچ سکتے، کیونکہ وہ عِبارات اور واقعات سے نہیں بلکہ اس مقصد سے وابستہ ہے جِس کے لیے قرآن اُتارا گیا اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلّم کو اس کی علمبرداری کے لیے کھڑا گیا۔ اِس مقصد کا تصور جتنا صحیح ہوگا اتنا ہی قرآن اور سیرت کا فہم صحیح ہوگا اور جتنا یہ ﴿تصور﴾ ناقص ہوگا، اتنا ہی اِن دونوں کا فہم ناقص رہے گا۔‘ ﴿’محسنِ انسانیت‘۔ دیباچہ﴾
سیرتِ پاک کے مختلف مراحل کو نبوی مشن کے سیاق میں سمجھنے کی ضرورت واضح ہوجانے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مشن کیاتھا جِس کو آپ کی پیغمبرانہ سعی کا محور قرار دیاجانا چاہیے؟ قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ یہ مشن ’اظہارِ دین‘ تھا۔
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٰ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونo ﴿سورہ توبہ، آیت:۳۳﴾
’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے، خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘
جناب شبیراحمد عثمانی، آیتِ بالا کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’اِسلام کا غلبہ، باقی ادیان پر معقولیت اور حُجت و دلیل کے اعتبار سے، تو ہر زمانے میں بحمدللہ نمایاں طورپر حاصل رہاہے۔ باقی حکومت و سلطنت کے اعتبار سے وہ ﴿غلبہ﴾ اُس وقت حاصل ہواہے اور ہوگا، جب کہ مسلمان، اصولِ اسلام کے پوری طرح پابند اور ایمان وتقویٰ کی راہوں میں مضبوط اور جہاد فی سبیل اللہ میں ثابت قدم تھے، یا آئندہ ہوں گے۔‘
مولانا اشرف علی تھانویؒ ، اِس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’اِتمام، بہ معنی اِثبات و تقویت بالدلائل، تو اِسلام کے لیے ہر زمانے میں عام ہے اور یہی مقابل ہے ’اطفاء‘ بہ معنی رَد کا۔ اور مع اعتبارِ سلطنت، مشروط ہے، اِصلاحِ اہلِ دین کے ساتھ۔‘
جناب سید مودودیؒ ، اِس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’دین کا لفظ… عربی زبان میں اُس نظامِ زندگی یا طریقِ زندگی کے لیے استعمال ہوتاہے جِس کے قائم کرنے والے کو سند اور مُطاع تسلیم کرکے اُس کا اتباع کیاجائے۔ پس بعثتِ رسول کی غرض اِس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ جِس ہدایت اور دینِ حق کو وہ خدا کی طرف سے لایا ہے، اُسے دین کی نوعیت رکھنے والے تمام طریقوں اور نظاموں پر غالب کردے۔ دوسرے الفاظ میں رسول کی بعثت کبھی اِس غرض کے لیے نہیں ہوئی کہ جو نظامِ زندگی وہ لے کر آیا ہے وہ کسی دوسرے نظامِ زندگی کا تابع اور اُس سے مغلوب بن کر اور اُس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں میں سمٹ کررہے۔ بلکہ وہ بادشاہِ ارض و سماء کا نمائندہ بن کر آتا ہے اور اپنے بادشاہ کے نظامِ حق کو غالب دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا نظامِ زندگی دنیا میں رہے بھی تو اُسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجائشوں میں سمٹ کر رہنا چاہیے، جیساکہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذِمّیوں کا نظامِ زندگی رہتا ہے۔‘‘ ﴿تفہیم القرآن، سورہ توبہ، حاشیہ:۲۳﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیغمبرانہ زندگی میں جو کام انجام دیے، وہ سب ’اظہارِ دین‘ کے بنیادی مدعا سے مربوط تھے۔ آپ کی سعی کے مختلف پہلوؤں کا ذِکر قرآن مجید میں کیاگیا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إِلَى اللَّـهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا ﴿سورہ احزاب، آیات:۴۵-۴۶﴾
’اے نبی! ہم نے تمھیں بھیجا ہے گواہ بناکر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر، اللہ کی اجازت سے اُس کی طرف دعوت دینے والا بناکر اور روشن چراغ بناکر۔‘
رسولِ اکرمﷺ کی اِن صفات کی تشریح کرتے ہوئے جناب شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
’آپ اللہ کی توحید سِکھاتے اور اُس کا رستہ بتاتے ہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں، دِل اور عمل سے اُس پر گواہ ہیں اور محشر میں بھی اُمّت کی نسبت گواہی دیں گے کہ خُدا کے پیغام کو کِس نے کِس قدر قبول کیا۔ ﴿یہ معنی ہیں شاہد کے۔﴾
پہلے فرمایاتھا کہ اللہ کی رحمت مومنین کو اندھیرے سے نکال کر اُجالے میں لاتی ہے۔ یہاں بتلادیا ہے کہ اُجالا اِس روشن چراغ سے پھیلا ہے. آپ آفتابِ نبوت و ہدایت ہیں جس کے طلوع ہونے کے بعدکسی دوسری روشنی کی ضرورت نہیں رہی۔ سب روشنیاں اِس نورِ اعظم میں محو و مدغم ہوگئیں۔ ﴿یہ معنی ہیں سراجِ منیر کے۔﴾‘
مولانا اشرف علی تھانوی، اِن آیات کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’آپ کی ہر حالت، طالبانِ انوار کے لیے سرمایہ ہدایت ہے پس قیامت میں اُن مومنین پر جو کچھ رحمت ہوگی وہ آپ ہی کی اِن صفاتِ بشیر و نذیر اور داعی و سراجِ مُنیر کے واسطے سے ہے۔‘
سید مودودیؒ اِن آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’دعوت الی اللہ تو ہر مبلّغ دیتا اور دے سکتاہے، مگر وہ اللہ کی طرف سے اِس کام پر مامور نہیں ہوتا۔ اِس کے برعکس نبی، اللہ کے اِذن (SANCTION) سے دعوت دینے اُٹھتا ہے۔ اُس کی دعوت، نری تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے، اُس کے بھیجنے والے رب العالمین کی فرماں روائی کازور ہوتا ہے۔ اسی بِنا پر اللہ کے بھیجے ہوئے داعی کی مزاحمت، خوداللہ کے خلاف جنگ قرار پاتی ہے، جِس طرح دنیوی حکومتوں میں سرکاری کام انجام دینے والے سرکاری ملازم کی مزاحمت، خودحکومت کے خلاف جنگ سمجھی جاتی ہے۔‘ ﴿تفہیم القرآن، سورہ احزاب، حاشیہ:۴۸﴾
اِن تشریحات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ شہادتِ حق، انذار، تبشیر اور دعوت اُسی کارِ نبوی کے مختلف پہلو ہیں جِس کی جامع تعبیر اظہارِ دین ہے۔
ختمِ نبوّت
سیرتِ پاک کاایک منفرد پہلو یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلّم آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کوئی اور نبی آنے والانہیں ہے۔
مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْْئ ٍ عَلِیْماًo ﴿سورہ احزاب، آیت:۴۰﴾
’محمد تمھارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا عِلم رکھنے والا ہے۔‘
سوال کیاجاسکتاہے کہ ’نبی صلی اللہ علیہ وسلّم پر سلسلہ نبوّت کیوں ختم ہوگیا؟‘ اِس سوال کاجواب دیتے ہوئے جناب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:
’صِرف چار حالتیں ایسی ہیں جن میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں:
اوّل: یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اِس لیے ہوکہ اس میں پہلے کبھی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کاپیغام بھی اُس تک نہ پہنچ سکتاتھا۔
دوم: یہ کہ نبی بھیجنے کی ضرورت اِس وجہ سے ہوکہ پچھلے نبی کی تعلیم بھُلادی گئی ہو، یا اُس میں تحریف ہوگئی ہو اور اُس کے نقشِ قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہاہو۔
سوم: یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعے مکمل تعلیم وہدایت، لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیلِ دین کے لیے مزید انبیاء کی ضرورت ہو۔
چہارم: یہ کہ ایک نبی کے ساتھ اُس کی مدد کے لیے ایک اور نبی کی حاجت ہو۔
اب یہ ظاہر ہے کہ اِن میں سے کوئی ضرورت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد باقی نہیں رہی ہے۔
قرآن خود کہہ رہا ہے کہ حضور کو تمام دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایاگیاہے اور دنیا کی تمدنی تاریخ بتارہی ہے کہ آپ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپ کی دعوت، سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد الگ الگ قوموں میں انبیاء کے آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔
قرآن اس پر بھی گواہ ہے اور اس کے ساتھ حدیث وسیرت کا پورا ذخیرہ ، اِس امر کی شہادَت دے رہاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم، بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے۔ اِس میں مسخ و تحریف کاکوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ جو کتاب آپ لائے تھے، اُس میں ایک لفظ کی بھی کمی و بیشی آج تک نہیں ہوئی، نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔ جو ہدایت آپ نے قول و عمل سے دی، اُس کے تمام آثار آج بھی اِس طرح ہمیں مِل جاتے ہیں کہ گویا ہم آپ کے زمانے میں موجود ہیں۔ اِس لیے دوسری ضرورت بھی ختم ہوگئی۔
پھر قرآن مجید، یہ بات بھی صاف صاف کہتا ہے کہ حضور کے ذریعے سے دین کی تکمیل کردی گئی۔ لہٰذا تکمیلِ دین کے لیے بھی اَب کوئی نبی، درکار نہیں رہا ۔
اب رَہ جاتی ہے چوتھی ضرورت، تو اگر اس کے لیے کوئی نبی درکار ہوتا تو وہ حضور کے زمانے میں آپ کے ساتھ مقرر کیاجاتا۔ ظاہر ہے کہ جب وہ مقرر نہیں کیاگیا تو یہ وجہ بھی ساقط ہوگئی۔‘ ﴿تفہیم القرآن، ضمیمہ سورہ احزاب﴾
یہ بنیادی حقیقت کہ ’حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کی سیرت، آخری نبی کی سیرت ہے‘ اپنے کچھ تقاضے رکھتی ہے جو مطالعہ سیرت سے متعلّق ہیں:
﴿الف﴾ پہلی بات یہ ہے کہ سیرت کے طالب علم کو دعوت کے اُن طریقوں کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے جو آپ نے مختلف اقوام اور گروہوں کو حق کی طرف بُلانے کے لیے اختیار کیے۔ اُسے جاننا چاہیے کہ مدعو ئین کے مخصوص مزاج اور خصوصیات کا آپ نے کِس طرح نوٹِس لیا اور اُن خصوصیات کے پیشِ نظر دعوتی اسلوب میں کِس طرح مناسب تنوع پیدا کیا؟ ایک طالب علم اِن سوالات کو ذہن میں رکھ کر آپ کی دعوتی مساعی کا مطالعہ کرے گا، تو اپنے لیے رہنمائی کا بڑا سامان پائے گا۔ اُس پر یہ حقیقت کھُلے گی کہ ایک عالم گیر دعوت، اگر حق و صداقت پر مبنی ہو، تو تمام اِنسانوں کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ ضرورت صِرف اس بات کی ہے کہ اُس کے داعی، حکمتِ دعوت سے آگاہ ہوں اور اُس حکمت کا استعمال بھی کریں۔
﴿ب﴾نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے پیغام کے عالمگیر ہونے کی بِنا پر جو اُمتِ مسلمہ آپ کے ہاتھوں تشکیل پائی وہ بھی عالمگیر ہے۔ سیرت کے طالب علم کے لیے مطالعے کا دوسرا اہم گوشہ یہ ہے کہ آپ نے نسلی، قبائلی اور قومی عصبیتوں پر کِس طرح قابو پایا اور وحدتِ بنی آدم کے اصول کو عمل کے پیکر میں کِس طرح ڈھالا۔
﴿ج﴾ختمِ نبوّت کی مندرجہ بالا تشریح میں تکمیلِ دین کاتذکرہ کیاجاچکا ہے۔ یہ حقیقت کہ دین مکمل ہوچکا ہے اِس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پیروانِ دین، ہدایت الٰہی کے ابدی اصولوں کو بدلتے ہوئے حالات پر منطبق کرنے کے قائل ہوں اور اِس کام کا سلیقہ اور صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ سیرت کے مطالعے کاایک اہم پہلو اِس امر کی تحقیق ہے کہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ ایمان کے گروہ کو متنوع حالات میں دین کے تقاضے پورے کرنے کا اہل کِس طرح بنایا اور اس سلسلے میں اُن کو کیا ہدایات دیں؟
﴿د﴾سیرت کے طالب علم کے سامنے یہ اہم سوال بھی آنا چاہیے کہ امامتِ عالم کے لیے جوگروہ آپ نے تیار کیا اُس کی اِنسانی صلاحیتوں کو نشوونما دینے کے لیے کیاطریقے اختیار کیے۔ یہ واقعہ ہے کہ آپ کی تربیت کے نتیجے میں عرب کے بادیہ نشیں دنیا کے حکمراں اوررہنما بن گئے جن کی ہمہ جہت شخصیت کی تصویر شاعر نے کھینچی ہے
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں بین وجہاں بان و جہاں گیرو جہاں آرا
قرآنی ہدایات کی تشریح
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم محض پیغامِ حق کو پہنچانے والے مجرّد پیغام بر نہ تھے بلکہ آپ کا منصب معلّم، مربیّ اوررہنما کا تھا۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ کیاگیا ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿سورہ نحل، آیات:۴۳،۴۴﴾
’اے محمد! ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں، آدمی ہی بھیجے ہیں جِن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ اہلِ ذکر سے پوچھ لو، اگر تم نہیں جانتے۔ پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجاتھا۔ اور اَب یہ ذِکر تم پر نازل کیاہے تاکہ تم، لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو اُن کے لیے اُتاری گئی ہے اور تاکہ لوگ ﴿خودبھی﴾ غوروفِکرکریں۔﴾
سیدمودودیؒ آیاتِ بالا کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’تشریح و توضیح ﴿کا جو کام نبی کو کرنا ہے وہ﴾ صِرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی انجام دینا ہے﴾ اور اپنی رہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کرکے بھی اور ’ذکِرالٰہی‘ کے منشا کے مطابق اُس کے نظام کو چَلاکربھی۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہ حکمت بیان کردی ہے جِس کا تقاضا یہ تھا کہ لازماً ایک اِنسان ہی کو پیغمبر بناکر بھیجاجائے۔ ’ذِکر‘ فرشتوں کے ذریعے سے بھیجا جاسکتا تھا۔ براہِ راست چھاپ کر ایک ایک اِنسان تک بھی پہنچایاجاسکتاتھا مگر محض ذِکر بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہوسکتاتھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت و ربوبیت، اس کی تنزیل کی متقاضی تھی۔ اُس مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس ’ذِکر‘ کو ایک قابل ترین اِنسان لے کر آئے۔ وہ اُس کو تھوڑا تھوڑاکرکے لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ جِن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اُس کامطلب سمجھاجائے۔ جنھیں کچھ شک ہو اُن کا شک رفع کرے۔ جو نہ مانیں اور مخالفت و مزاحمت کریں اُن کے مقابلے میں وہ اُس طرح کا رویّہ برت کر دِکھائے جو اس ’ذکر‘ کے حاملین کی شان کے شایاں ہے۔ جو مان لیں انھیں زندگی کے ہر گوشے اور ہرپہلو کے متعلّق ہدایات دے، اُن کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بناکر پیش کرے، اور اُن کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا کے سامنے ایک ایسی سوسائٹی کو بطور مثال رکھ دے جِس کاپورا اجتماعی نظام، ’ذِکر‘ کے منشا کی تشریح ہو۔‘‘ ﴿تفہیم القرآن، سورہ نحل، حاشیہ:۴۰﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا ارشاد کے مطابق اُس ’ذِکر‘ کی تشریح وتوضیح کا کام انجام دیا،جو آپ پر نازل ہواتھا۔ آپ کی تشریحات ﴿قولی ہوں یا عملی﴾ احادیث اور کتبِ سیرت میںموجود ہیں۔ سیرت کے طالب علم کے مطالعے کاایک اہم موضوع یہ ہے کہ وہ قرآنی ہدایات کی اِن تشریحات کو تلاش کرے اور ایک ایک ہدایت کے ذیل میں یہ متعین کرے کہ اُس کا وہ مستند مفہوم کیاہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا عمل سے سامنے آتا ہے۔
اِس نہج پر سیرت کے مطالعے کی افادیت کو ایک مثال سے سمجھاجاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے معاملات کے سلسلے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے:
وَأَمْرُہُمْ شُورَی بَیْنَہُمْ ﴿سورہ شوریٰ، آیت:۳۸﴾
’﴿اہل ایمان﴾ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔‘
اِس ارشاد کی تشریح کے سلسلے میں ایک مشہور سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ کیا امیر یا ذمّہ دار، مشورہ دینے والوں کی متّفقہ رائے کو یا اُن کی اکثریت کی رائے کو رَد کربھی کرسکتا ہے اور ﴿سارے مشورے سُننے اور ان پر دیانت داری کے ساتھ غور کرنے کے بعد﴾ اپنی صوابدید کے مطابق فیصلے کرسکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب دینے کاایک طریقہ یہ ہے کہ سیرتِ رسول سے اُن تمام واقعات کو جمع کیاجائے جِن میں اجتماعی مشورہ کیاگیاتھا پھر دیکھاجائے کہ وہاں فیصلہ کِس طرح کیاگیا؟ اگر مختلف مواقع پر فیصلہ کرنے کے مختلف طرز سامنے آئیں تو پھر اس اختلاف کے اسباب کی تحقیق کی جانی چاہیے یا اُس اختلاف کی کوئی معقول توجیہ سامنے آنی چاہیے۔
معروف طرزپر مرتب کی گئی سیرت کی کتابوں میں آپ کی حیاتِ طیبّہ کے واقعات، زمانی ترتیب کے تحت، ہمارے سامنے آتے ہیں۔ زمانی ترتیب کے بجائے اگر سیرت کامطالعہ اِس طرح ہو کہ قرآنی ارشادات کی تشریحات کو تلاش کیاجائے اور ان کو متعین موضوعات کے تحت جُدا جُدامرتب کیاجائے تو واقعات کی ایک نئی ترتیب سامنے آئے گی۔ مطالعے کی اِس طرز سے امید کی جاسکتی ہے کہ سیرت کے نئے پہلو روشنی میں آئیں گے اور قرآنی اِرشادات کے منشا کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔
اِس طرزِ تحقیق کو اپنانے والا سیرت کا طالب علم یہ محسوس کرے گا کہ اکثر اوقات ایک واقعہ متعدد قرآنی ارشادات کی توضیح کرتاہے چنانچہ معروف زمانی ترتیب ، اُن مختلف پہلوؤں کی نشاندہی سے عموماً قاصر رہتی ہے جو اس واقعے سے متعلّق ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوںمیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محض واقعات نگاری کے بجائے، سیرت کے مطالعے کے لیے تجزیاتی طرز (ANALYTICAL APPROACH)بھی اختیار کیاجانا چاہیے جو زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے۔
سیرتِ صحابہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام کی سیرت، آپ کی سیرت کا پَرتو ہے چنانچہ صحابہ کے حالات کا مطالعہ، خود سیرتِ پاک کے فہم میں ہماری مدد کرنا ہے۔ صحابہ میں خلفائے راشدین اور امہات المومنین خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں۔ خلفائے راشدین کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ اُن کے دور میںاِسلام کا پورا اجتماعی نظام اپنی درخشاں خصوصیات کے ساتھ قائم رہا چنانچہ اُن کی سیرت کے مطالعے سے کوئی طالبِ حق، بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ خلافتِ راشدہ کے دور کے بارے میں سید مودویؒ لکھتے ہیں:
’خلافتِ راشدہ کا یہ دور… ایک روشنی کا معیار تھا جس کی طرف بعد کے تمام ادوار میں فقہائ ومحدثین اورعام دین دار مسلمان ہمیشہ دیکھتے رہے اور اسی کو اِسلام کے مذہبی، سیاسی، اخلاقی اور اجتماعی نظام کے مطالعے میں معیارسمجھتے رہے۔‘ ﴿’خلافت و ملوکیت‘ باب سوم﴾
خلافت راشدہ کا امتیازی وصف بیان کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:
’خلافت راشدہ کی اصل خوبی یہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی مکمّل نیابت تھی۔ خلیفہ راشدہ محض راشد ﴿راست رو﴾ ہی نہ ہوتاتھا بلکہ مُرشد ﴿راہ نما﴾ بھی ہوتاتھا۔ اس کا کام محض مملکت کا نظم ونسق چلانا اور فوجیں لڑانا نہ تھا بلکہ اللہ کے پورے دین کو مجموعی طورپر قائم کرنا تھا۔ اُس کی ذات ایک ہی مرکزی قیادَت تھی جو سیاسی حیثیت سے مسلمانوں کی سربراہی بھی کرتی تھی اور عقیدہ و مذہب ، اخلاق و روحانیت، قانون و شریعت، تہذیب و تمدّن، تعلیم وتربیت اور دعوت و تبلیغ کے تمام معاملات میں، اُن کی اِمامت و رہبری کے فرائض بھی انجام دیتی تھی۔ جِس طرح اِسلام ہر پہلو کا جامع ہے اُسی طرح یہ قیادَت بھی ہر پہلو کی جامع تھی اور مسلمان پورے اعتماد کے ساتھ، اپنی اجتماعی زندگی اس کی رہنمائی میں بسر کررہے تھے۔‘ ﴿ایضاً: باب پنجم﴾
صحابہ کرام میں امہات المومنین کی سیرت کو بھی ایک اہم مقام حاصل ہے اُن کو خطاب کرتے ہوئے قرآن مجید میں اِرشاد ہوا ہے:
وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلَی فِیْ بُیُوتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ اللَّہِ وَالْحِکْمَۃِ انَّ اللَّہَ کَانَ لَطِیْفاً خَبِیْراً ﴿سورہ احزاب، آیت:۳۴﴾
’یادرکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی اُن باتوں کو جو تمھارے گھروں میں سُنائی جاتی ہیں۔ بے شک اللہ لطیف اور باخبر ہے۔‘
اِس آیت کی تشریح کرتے ہوئے سید مودودیؒ لکھتے ہیں:
’﴿اِس آیت میں﴾ لفظ وَاذکُرنَ استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں: ’یاد رکھو‘ اور ’بیان کرو‘۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اے نبی کی بیویو! تم کبھی اِس بات کو فراموش نہ کرنا کہ تمھارا گھر وہ ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیاتِ الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے، اِس لیے تمھاری ذمّے داری بڑی سخت ہے۔ کہیںایسا نہ ہو کہ اسی گھر میںلوگ جاہلیت کے نمونے دیکھنے لگیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ نبی کی بیویو! جو کچھ تم سنو اور دیکھو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتی رہو، کیونکہ رسول کے ساتھ ہر وقت کی معاشرت سے بہت سی ہدایات تمھارے علم میں ایسی آئیں گی جو تمھارے سوا کسی اور ذریعے سے لوگوں کو معلوم نہ ہوسکیں گی۔‘ ﴿تفہیم القرآن، سورہ احزاب، حاشیہ:۱۵﴾
اِس تشریح سے معلوم ہواکہ دین کے فہم کے حصول میں امہات المومنین کی سیرت کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ مطالعہ سیرت سے متعلق مندرجہ بالا مشورے پیش کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اِس موضوع کی لامحدود وُسعت کی طرف اشارہ کردیاجائے۔ اِس سلسلے میں سید مودودیؒ لکھتے ہیں:
’یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن اور سیرتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام، دونوں ہی بحرِناپیدا کنار ہیں۔ کوئی اِنسان یہ چاہے کہ اُن کے تمام معانی اور فوائد و برکات کا احاطہ کرلے تو اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ البتہ جس چیز کی کوشش کی جاسکتی ہے وہ بَس یہ ہے کہ جِس حد تک ممکن ہو، آدمی اُن کا زیادہ سے زیادہ فہم حاصل کرے اور اُن کی مدد سے روحِ دین تک رسائی پائے۔‘ ﴿’محسنِ انسانیت‘ دیباچہ ﴾
مشمولہ: شمارہ فروری 2013