صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات
طب کا موضوع انسان کا بدن ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر صحت حاصل ہے تو اس کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے اور اگر زائل ہوگئی ہے اور کوئی مرض لاحق ہوگیاہے تو صحت کو دوبارہ بحال کرنے کی سعی کی جائے۔ یہ کام مختلف تدابیر کے ذریعہ ہوسکتاہے اور اس کے لیے دوائوں کے استعمال کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ چنانچہ علاج معالجہ ابتدا ہی سے انسان کی ضرورت رہی ہے۔ علاج کے مختلف طریقوںاور دوائوں کا علم انسان کو الہام کے ذریعہ بھی ہواہے اور مشاہدات اور تجربات کے ذریعہ بھی اس نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ علاج معالجہ نے فن کی صورت اختیار کی تو اس کے کچھ آداب اور اخلاقیات مرتب کی گئیں اور ان کی پاس دار ی طبیب کا فرض قرار دیاگیا۔ آج پوری دنیا میں اخلاقیاتِ طب کا جو دستور رائج ہے وہ بابائے طب بقراط سے منسوب ہوکر حلف نامۂ بقراط کہلاتاہے۔ اردو زبان میں طبی اخلاقیات پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن ایسی کتابیں شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہیں جن میں اس موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی گئی ہو اور حفظان صحت اور علاج معالجہ سے متعلق قرآن و حدیث کی تعلیمات پیش کی گئی ہوں۔
لانا سید جلال الدین عمری ایک ممتاز عالم دین ہیں۔ اسلامیات کے مختلف پہلوؤں پر ان کی تصانیف کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں عصری مسائل پر اسلام کی روشنی میں بحث کی ہے اور اس کی حقانیت و صداقت کو دلائل سے ثابت کیاہے۔ ان کی علمی کاوشوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں عقائد، دعوتِ اسلامی ، خدمتِ خلق ، اخلاق،سیاست اور قانون جیسے موضوعات شامل ہیں۔ اسلامی معاشرت پر انہیں اختصاص حاصل ہے۔ انسانی حقوق آج کا زندہ موضوع ہے۔ اس پران کی کئی کتابیں ہیں۔ ان کی متعدد کتابوں کے دیگر زبانوں میں ترجمے ہوگئے ہیں اور ان سے بڑے پیمانے پر استفادہ کیاجارہاہے۔ عصری اہمیت کے حامل ایک اہم موضوع پر ان کی زیر نظر کتاب بھی ہے۔
یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۹۴ء میں ادارئہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ سے شائع ہوئی تھی۔ ادارہ ہی سے اس کا دوسرا ایڈیشن بھی آیا۔ پھر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے اس کی اشاعت ہوئی۔ پاکستان کے ایک ادارے نے بھی اسے شائع کیا۔ اب مصنف کی نظرثانی اور کسی قدر حذف و اضافہ کے بعد مرکزی مکتبہ سے اس کاتازہ ایڈیشن کمپیوٹر کتابت اور دیدہ زیب طباعت کے ساتھ منظر عام پر آیاہے۔
کتاب کی پہلی بحث تمہیدی نوعیت کی ہے۔ اس میں موجودہ دور میں صحت و مرض کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ آج کل شہروں کی وسعت، صنعتوں کی کثرت ، فضائی آلودگی، ورزش اور محنت کی کمی ،ذہنی اضطراب، خاندانی نظام کی ابتری، منشیات کا استعمال، اخلاقی بگاڑ،متوازن غذاکی کمی، علاج کا گراں ہونااور غلط منصوبہ بندی وہ چند اہم اور بڑے مسائل ہیں جن کی وجہ سے طرح طرح کے امراض پیداہورہے ہیں اور ہزار کوششوں کے باوجود ان پر قابو نہیں مل پارہاہے۔اسی ذیل میں جدید طب کی بعض خامیوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے ۔
اس تمہیدی بحث کے بعد موضوع سے متعلق براہِ راست قرآن و حدیث کی تعلیمات پیش کی گئی ہے ، جو دو ابواب پر مشتمل ہیں: (۱)صحت اور اس کے اصول و آداب(۲) مرض اور اس کے احکام و مسائل۔ ہر باب کے تحت کئی مباحث ہیں۔ باب اول کی ابتداء میں صحت کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیاہے کہ اسلام نے صحت کو اللہ تعالیٰ کی نعمت قرار دیا ہے اور تاکید کی ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے، اس سے فائدہ اٹھایاجائے اور اسے غنیمت سمجھاجائے۔ ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ حالت ِ صحت میں زیادہ سے زیادہ کارِ خیر انجام دینے کی کوشش کی جائے اور طاقت و قوت کو دوسروں پر ظلم و زیادتی کا ذریعہ نہ بنایاجائے۔ آگے طہارت و نظافت کی بحث ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے واضح کیاہے کہ اسلام نے پاکی اور صفائی کا بہت اعلیٰ تصور پیش کیاہے۔ اس نے عبادت کے موقع پر اسے لازم قرار دیاہے اور زندگی کے عام معمولات میں بھی بدن ،لباس، گھروں، راستوں اور عبادت گاہوںکوصاف ستھرا رکھنے کی تاکید کی ہے۔ اگر پانی دست یاب نہ ہوتو اسلام نے تیمم کا حکم دیاہے۔ تیمم کا عمل بہ ظاہر نظافت کے منافی معلوم ہوتاہے۔ مصنف نے اس کی بڑی عمدہ توجیہ کی ہے:’’تیمم سے طہارت نہیں حاصل ہوتی، البتہ طہارت کا تصور زندہ رہتاہے اور یہ بات ذہن میں تازہ ہوتی رہتی ہے کہ آدمی جیسے ہی پانی کے استعمال کے قابل ہوجائے اسے وضو اور غسل کے حکم پر عمل کرناہے‘‘۔(ص۶۸)
اس کے بعد غذا کے احکام اور کھانے پینے کے آداب بیان کیے گئے ہیں۔ مولانا نے لکھاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجا تو اس کی غذائی ضروریات بھی پوری کیں۔ البتہ اس نے پاک چیزوں کے استعمال کا حکم دیا اور جو چیزیں مادی یاروحانی طور پر اس کے لیے ضرر رساں تھیں، انہیں حرام قرار دیا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر بجالائے، حلال اور پاک چیزوں کا استعمال اعتدال کے ساتھ کرے ،فضول خرچی سے بچے اور حرام چیزوں سے اجتناب کرے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے ارشادات میں کھانے پینے کے آداب بہت تفصیل سے بیان کیے ہیں اور ان پر عمل کرکے دکھایا ہے۔ اس بحث میں احادیث کی روشنی میں ان آداب کو تفصیل سے بیان کیاگیاہے اور شارحین ِحدیث کے حوالےسے ان کی حکمتوں کو بھی واضح کیاگیاہے۔
حفظانِ صحت کے لیے ورزش بہت ضروری ہے۔ اس سے جسم میں توانائی باقی رہتی ہے اور امراض سے بچاجاسکتاہے۔ اس بحث میں کھیل کود، تیر اندازی، گھڑسواری اور ان کے مقابلوں پر اظہار خیال کیا گیاہے اور بتایاگیاہے کہ حدودِ شریعت میں رہتے ہوئے ان کا موں کی اجازت ہے۔ رسول اللہﷺ کی موجودگی میں صحابہ کرام ؓ ان سے شغل رکھتے تھے۔ باب کے آخر میں خوشی و مسرت کے مواقع پر ہلکی پھلکی تفریحات کے جواز سے بحث کی گئی ہے۔
کتاب کا باب دوم مرض کے احکام و مسائل سے متعلق ہے۔ اس کی ابتدامیں علاج کی شرعی حیثیت واضح کی گئی ہے اور بتایا گیاہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی مشیت سے امراض پائے جاتے ہیں اسی طرح اس نے ان کے علاج کے لیے دوائیں بھی پیداکی ہیں اور انہیں اختیار کرنے کی تاکید کی ہے۔ اس لیے مرض چھوٹاہو یا بڑا، اس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، بلکہ صحیح علاج کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج علاج معالجہ کے میدان میں جتنی تحقیقات ہورہی ہیں اور جو نئی نئی دوائیں ایجاد ہورہی ہیں وہ سب اسی تاکید و ترغیب کا نتیجہ ہے۔ اس ضمن میں مولانا نے علاج معالجہ کی فقہی حیثیت سے بحث کی ہے۔ بعض روایات سے بہ ظاہر معلوم ہوتاہے کہ بیماری لاحق ہونے پر علاج نہ کرانا زیادہ پسندیدہ ہے۔ انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ صحیح احادیث میں علاج نہ کرانے کی کوئی فضیلت نہیںبیان کی گئی ہے ،بلکہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایات سے علاج کرانے کاثبوت ملتا ہے اور آپؐ کا اسوۂ اس کی تائید کرتا ہے۔ بیماریوں کے پھیلنے کا ایک بڑا سبب تعدیہ(Infection) ہوتاہے۔ اس سے بحث کرتے ہوئے ان احادیث کا صحیح مفہوم واضح کیاگیاہے جن میں بہ ظاہر اس کی نفی کی گئی ہے۔
کتاب کی ایک قیمتی اور معرکہ آرا بحث خودکشی اور قطع حیات (Euthanasia) کے موضوع پرہے۔ اگر مرض کی شدت ناقابل برداشت ہوجائے اور اس سے افاقہ بھی نہ ہوپارہاہوتو کیا مریض خود کشی کرسکتاہے؟ یا اس کے رشتے دار یا ڈاکٹر اس کی زندگی ختم کرنے کا اقدام کرسکتے ہیں؟فاضل مصنف نے پہلے اس نقطۂ نظر کے حامیوں کے دلائل پیش کیے ہیں، پھر تفصیل سے محاکمہ کرکے انہیں ردکیاہے۔ ان کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب زندگی انسانوں کی عطاکردہ نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کا انعام و احسان ہے تو انہیں اسے چھیننے کا بھی حق نہیں ہے، بلکہ ایسے موقع پر صبر کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھنی چاہیے۔
اسی طرح ایک سوال یہ بھی سامنے آتاہے کہ اسلامی شریعت میں جن چیزوں کو حرام قرار دیاگیاہے ۔ کیا وقتِ ضرورت بہ طور علاج ان کا استعمال کیاجاسکتاہے؟ اس پر مولانا محترم نے بہت تفصیل سے بحث کی ہے، فقہا ء کے اختلافات کا ذکر کرکے ان کا تجزیہ کیاہے، آخر میں خلاصۂ بحث ان لفظوں میں بیان کیاہے کہ اگر کسی مرض کا علاج مباح چیزوں سے نہ ہوپارہاہوتو ماہر اطباء کے مشورے سے بہ قدر ِ ضرورت محرمات سے استفادہ کیاجاسکتاہے۔(ص۳۲۳)
کتاب کا ایک عنوان ’روحانی علاج ‘ ہے۔آج کل روحانی علاج کے نام سے بڑی بڑی دوکا نیں سجالی گئی ہیں اور ان کے تحت جائز ناجائزہر طرح کے کام انجام دیے جاتے ہیں۔مولانا نے علمی انداز میں اس موضوع سے بحث کی ہے۔ اس کے تحت قرآن کی تلاوت ، قرآن دم کرنا ، آیاتِ قرآنی دھوکر پلانا،قرآنی تعویذ وغیرہ کے موضوعات پر اظہار خیال کیاہے اور ان کے جواز کی بعض صورتوں کی نشان دہی کی ہے۔
کتاب کے آخر میں موضوع کی مناسبت سے بتایاگیاہے کہ اسلامی شریعت کے احکام میں مرض کی رعایت رکھی گئی ہے۔ چنانچہ وضو اور غسل میں پانی کے استعمال سے ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہوتو تیمم کا حکم دیاگیاہے، نماز کی ادائیگی میں دشواری ہو تواس کے لیے بعض سہولتیں دی گئی ہیں۔روزہ رکھنا ممکن نہ ہوتو قضا کی اجازت ہے۔ حالت ِ احرام میں وقت ِضرورت سر کے بال منڈوائے یا ترشوائے جاسکتے ہیں۔ جسم میں خارش یا کوئی اور مرض ہوگیاہوتو ریشمی لباس، جو عام حالات میں ناجائز ہے، استعمال کیاجاسکتاہے اور جہاد سے معذوروں اور مریضوں کو مستثنیٰ رکھاگیاہے۔ اسی طر ح ایک بحث کا عنوان ہے: عیادت کے احکام۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مریض کا حق ہے کہ اس کی عیادت کی جائے،اس کی دل جوئی کی جائے اور اس کی صحت یا بی کے لیے دعاکی جائے۔ احادیث میں عیادت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اوراس ذیل میں رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام کا اسوۂ مبارک پیش کیا گیا ہے۔
فاضل مصنف کا قابل ِقدر اسلوب یہ ہے کہ وہ اپنی ہر بحث کی بنیاد قرآن وسنت پر رکھتے ہیں۔ مفسرین و محدثین نے جو تشریحات کی ہیں ان کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ کسی معاملہ میں اگر فقہاء کے درمیان اختلاف ہے تو ہر نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے ساتھ اس کے دلائل بھی نقل کرتے ہیں، پھر ان کا محاکمہ کرتے ہوئے اس نقطۂ نظر کو ترجیح دیتے ہیں جو موجودہ زمانے کی ضروریات اور حالات سے ہم آہنگ ہو۔ اس اندازِ تحقیق سے اگر چہ بحث طویل ہوجاتی ہے اور عوام کے لیے اس میں کشش اور افادیت کم محسوس ہوتی ہے، لیکن اس کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ بحث کا ہر پہلو منقح ہوکر سامنے آجاتاہے اور قاری کو ترجیح کردہ پہلو پر اطمینان اور شرح صدر حاصل ہوتاہے۔
اس کتاب کی اولین اشاعت(۱۹۹۴ء) کے بعد ایک تقریب ِاجراء آرٹس فیکلٹی لائونج،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں منعقد کی گئی تھی، جس میں یونی ورسٹی کے متعدد موقر اساتذہ نے شرکت کی تھی۔انہوں نے کتاب پر اپنی پسندیدگی کا اظہار اور اس کی قدر و قیمت کا اعتراف کیاتھا۔ مشہور ماہر امراض قلب پروفیسر محمد احمد نے فرمایاتھا کہ ڈاکٹر ہونے کے باوجود حفظان ِصحت اور علاج معالجہ کے بعض وہ پہلو میرے ذہن میں نہیں آسکے تھے جو اس کتاب میں زیر بحث آئے ہیں۔ حکیم پروفیسر مودود اشرف صاحب نے فرمایا تھا کہ طب نبوی پر یوں تو روایتی انداز میں بہت سی بحثیں کی گئی ہیں، لیکن اس کتاب میں زیادہ وسیع اور جامع انداز میں اظہار خیال کیاگیاہے۔ اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے مشہور علمی مجلہ ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور کے نائب مدیر جناب مسلم سجاد صاحب نے لکھاتھا:
’’اگرچہ یہ کتاب عام مطالعے کے لیے ہے اور اس اعتبار سے اپنے موضوع پر معلومات افزا اور دل چسپ ہے، تاہم مسلمان ڈاکٹروں اور طبیبوں کے لیے اس کی حیثیت خصوصی رہ نماکی ہے۔ ہمارے ملک میں نصابات کی اسلامی تشکیل کے ضمن میں یہ گفتگو رہی ہے کہ ایم بی بی ایس وغیرہ کے لیے اسلامیات کا نصاب ، روایتی انداز کے بجائے طلبہ کی پیشہ وارانہ ضروریات کے لحاظ سے مرتب کیاجانا چاہیے۔تبصرہ نگار کی نظر میں یہ کتاب اس طرح کی ضرورت کوپوراکرتی ہے۔‘‘
ہم بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ اسے اسلامی نقطۂ نظر جاننے کے لیے غیر نصابی کتب کا حصہ ہونا چاہیے۔
خلاصہ یہ کہ یہ کتاب فن ِطب کے وابستگان اور اس سے دل چسپی رکھنے والوںکے علاوہ عام قارئین کے لیے بھی مفیدہے کہ اس سے صحت و مرض کے سلسلے میں مستند اسلامی تعلیمات سے واقفیت ہوجاتی ہے۔
یہ کتاب مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ صفحات:۳۸۴۔ قیمت:۲۵۰ /روپے
مشمولہ: شمارہ اپریل 2016