سیرت سرور عالم ایک مطالعہ
اردو سیرت نگاری بڑی حدتک علامہ شبلی نعمانیؒ(۱۸۵۷ء۔۱۹۱۴ء) اوران کے شاگرد رشید سید سلیمان ندویؒ (۱۸۸۴ء۔ ۱۹۵۳ء) کی مرہون منت ہے ۔ جدید اردو سیرت نگاروں نے کسی حدتک انہی دونوں ائمہ کی پیروی کی ہے ۔ ان میں سے بیش تر نے علامہ شبلی نعمانیؒ اور سید سلیمان ندویؒ کے مواد منہج کو اپنے الفاظ میں پیش کردیا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ء۔ ۱۹۷۸ء) ان سیرت نگاروں میں اس حیثیت سے ممتاز ومنفرد ہیں کہ انہوںنے نقش شبلی اوررنگ سلیمانی سے اکتساب توکیا مگر اپنے علم ومطالعہ ، فہم وذکا، نقد وتبصرہ ،تجزیہ کی جدید تکنیک اورتنقیح واستدراک کا قدیم طرزاپنا کر اپنی دل کش اورخوبصورت تحریر کے ذریعہ ’’سیرت سرور عالم‘‘ کو انفرادیت بھی عطا کی۔
’’سیرت سرور عالم‘‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی باقاعدہ تصنیف نہیں ہے بلکہ وہ ان کی تفسیر ’’تفہیم القرآن ‘‘ اور دوسری تحریروں میں بکھرے ہوئے مواد سیرت پر مشتمل ایک مجموعہ ہے ، جس کو مولانا نعیم صدیقیؒ (۱۹۱۶ء۔ ۲۰۰۲ء) اورمولانا عبدالوکیل علوی نے نگارشات مودودی کے عظیم ووسیع ذخیرے سے مرتب کیا ہے ۔ نعیم صدیقی’’سیرت سرور عالم‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں :
’’اس کتاب کواس طرز پر مرتب کیا گیا ہے کہ جناب موصوف کے مقالات اورمختلف عبارات کو مختلف عنوانات کے تحت ایسی شکل سے ترتیب دیا جائے کہ مضمون پوری طرح مربوط ہو اورضروری معلومات مناسب ترتیب کے ساتھ سامنے آتی جائیں۔ تھوڑے سے مقامات ایسے بھی ہیں جہاںمرتبین کواپنی طرف سے یا کسی کتاب سے اخذ کرکے کوئی زائد عبارت شامل کرنی پڑی۔ (اس کا حوالہ بھی دےدیا گیا ) حواشی دو قسم کے ہیں: ایک وہ جومحترم مولف کی اپنی ہی تحریروں پر مشتمل ہیں اور دوسرے وہ ہیں جومرتبین کی طرف سے لکھے گئے ہیں ۔ ان دونوں صورتوں کوالگ الگ واضح کردیا گیا ہے ۔ خود مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ہمارے کئے ہوئے کام کو پڑھ ڈالا اورمختلف مقامات پر ترامیم بھی کیں۔‘‘(۱)
سیرت سرور عالم کے مواد کو بنیادی طور سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ کتاب کا ایک حصہ اصولی مباحث سے متعلق ہے اور اصولی مباحث کا تعلق سیرت نگاری سے نہیں ہوتا ہے ۔ بلکہ اس کی بحثیں اسلامی فکر وفلسفہ کے ذیل میں آتی ہیں۔ ان اصولی مباحث کے سیرت سرور عالم کو بہتر طور سے سمجھنے اور فہم و استدراک پیدا کرنے میں مدد تو ملتی ہے مگر وہ سیرت نبوی کے دائرے سے بہر حال باہر ہیں ۔ اسی لئے مشہور تجزیہ نگار ڈاکٹر انور محمود خالد نے لکھاہے:
’’سیرت سرور عالم کی جلد اول حقیقی معنوں میں سیرت کی کتاب نہیں بنتی۔‘‘ (۲)
سیرت سرور عالم کی جلد دوم بھی مکمل سیرت نبوی پر مشتمل نہیں ہے اس میں بھی چند ابواب اصولی مباحث سے متعلق ہیں لیکن زیادہ تر ابواب خالصتاً سیر ت نبوی سے متعلق ہیں ۔ مثال کے طور پر باب دوم، سوم ، چہارم ، ہفتم، ہشتم، نہم، دہم، یازدہم، دوازدہم ، سیزدہم ، چہاردہم اور پنج دہم وغیرہ ابواب خالص سیرت نبوی پر محیط ہیں ۔ اس جلد کے دو ابواب پنجم وششم دعوت حق کی ہدایات الٰہی اور دعوت اسلامی کی حقیقی نوعیت پر مشتمل ہیں اورکل ۷۶۳ صفحات میں سے نصف سے زائد کو محیط ہیں ۔ اصل کتاب سیرت صرف نصف حصے پر مشتمل ہے۔
مآخذ و مصادر
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے سیرت سرور عالم میں قدیم اور بنیادی مصادر سے مواد لینے کے ساتھ ثانوی اورجدید مآخذ سے بھی استفادہ کیا ہے ۔ لیکن ہم عصر سیرت نگاروں کی تحریروں سے استفادہ کی کوشش نہیں کی ہے ۔ سید مودودیؒ کے یہاں بنیادی مآخذ میں اولیت قرآن کریم کی آیات کوحاصل ہے۔ جن واقعات ونظریات کا حوالہ قرآن پاک میں موجود ہےان تمام واقعات یا ان میں بیش تر متعلقہ آیات کریمہ کووہ متعلقہ باب میں جمع کردیتےہیں ۔ دوسرے درجے میں الجامع الصحیح للبخاری اور الجامع الصحیح للمسلم ا وردوسری کتب حدیث کی روایات سے استفادہ کرتے ہیں۔ قدیم ترین اوربنیادی کتب سیرت تو لازمی طور سے ان مآخذ میں شامل ہوتی ہیں ۔ ان کے علاوہ بہت سی جدید اورثانوی کتب سیرت سے بھی ر وایات نقل کرتے ہیں ۔ مولانا مودودیؒ نے سابقہ کتبِ آسمانی توریت، زبور، انجیل وغیرہ سے بھی روایات واقتباسات لئے ہیں۔
بحیریٰ راہب کے قصے میں ترمذی، بیہقی کے دلائل ، ابن عساکر ، حاکم ، ابونعیم ا ورابن ابی شیبہ کی روایات کے علاوہ ابوسعید نیسا پوری کی شرف المصطفیٰ کے حوالے سے اصابہ اورذہبی کی تجرید الصحابہ کی روایات موجود ہیں۔(۳)
’’قریش کے تمام خاندانوں کودعوت‘‘ کی مختصر فصل بخاری ، مسلم، مسند احمد، ترمذی، نسائی اور تفسیر ابن جریر کی روایات واحادیث پر مبنی ہیں ۔(۴)
سیرت سرور عالم کے تمام ابواب میں کثرت مآخذ کا ثبوت ملتا ہے ۔ جدید اردو سیرت نگاروں میں مولانا مودودیؒ مآخذ کی جامعیت کے اعتبار سے سر فہرست نظر آتے ہیں ۔ شاید ہی کسی سیرت نگار نے ان کی طرح دستیاب مآخذ سے استفادہ کیا ہو۔
مواد کی جامعیت
سیرت نگار کی حیثیت سے مولانا مودودیؒ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ متعدد مآخذ سے بکثرت روایات لیتے ہیں اور پھران کی بنیاد پر ایک جامع، ہمہ گیر اورکامل بیانیہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر حضرت خدیجہ سے نکاح کے بعد بالعموم سیرت نگار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد امجاد کاتذکرہ نہیں کرتے لیکن مولانا مودودیؒ نے حضرت خدیجہؓ کے بطن سے آپ کے دو فرزندوں حضرت قاسمؓ اورحضرت عبداللہ ؓ اور چار صاحب زادیوں حضرت زینب ؓ، حضرت رقیہ ؓ، حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ کا ذکر ایک جامع انداز میں کیا ہے اوران کے اولاد نبوی ہونے پر بحث کی ہے اس کے بعد ازدواجی زندگی اورخوش حالی کا دور اور آپؐ کے اخلاقی فضائل کے نمایاں ہونے پر گفتگو کی ہے ۔ ان میں حضرت خدیجہؓ کے ساتھ پچیس سالہ رفاقت کا جامع تجزیہ کیا ہے اور تعدد ازدواج پر ایک علمی گفتگو بھی کی ہے ۔ دوسری فصل کے حوالے سے آپ کی معاشرتی زندگی کا عمدہ اورجامع نقشہ پیش کیا ہے ۔(۵)
دعوت عام کے باب میں مولانا مودودیؒ نے دوسرے سیرت نگاروں کے روایتی طریقے سے ہٹ کر مختلف مباحث کو پیش کیا ہے اوران کوایک تاریخی اور منطقی ترتیب کے ساتھ اس طرح پرودیا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے وابستہ وپیوستہ نظر آتے ہیں ۔ نماز اعلانیہ کے ذریعے اظہار اسلام ، قریب ترین اعزہ کودعوت اور قریش کی دعوت عام کو اسی سے وابستہ کیا ہے ۔ اسلام اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ابولہب ہاشمی کا کردار ، عداوت اورکرتوتوں کا اتنا جامع ومدلل اورمفصل بیان دوسری کسی کتاب سیرت میں نہیںملتا۔ تبلیغ عام کی بحث بھی جامع و مدلل اورمفصل ہے اوروہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغی مساعی اور صحابہ کی جاں فشانی کا عمدہ تذکرہ پیش کرتی ہے ۔(۶)
مولانا مودودیؒ کی سیرت نگاری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ متعدد مآخذ سے بکثرت روایات جمع کرنے کے بعد ان روایات سے حاصل شدہ نتیجہ اور فکر بھی پیش کرتے ہیں مثال کے طور پر شق صدر کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اپنے مختصر حاشیہ میں لکھتے ہیں:
’’واضح رہے کہ یہ شق صدر کا واقعہ اسرا رالٰہی میں سے ہے جس کی کنہ کو انسان نہیں پہنچ سکتا۔ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ایسے عجیب واقعات بے شمار پیش آئے جن کی کوئی توجیہہ نہیں کی جاسکتی ، لیکن توجیہہ کا ممکن نہ ہونا اس کے لئے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ ان کا انکار کردیا جائے ۔‘‘ (۷)
روایات کا محاکمہ
سیرت سرور عالم کی یہ خصوصیت بھی نمایاں طور پر واضح ہےکہ مولانا مودودیؒ نے سیرت کی مختلف اورمتصادم روایات کا موازنہ اورمقابلہ کرکے صحیح روایت کو ترجیحی بنیاد پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ وصف سیرت سرور عالم کے تقریباً تمام ابواب میں جا بجا پایا جاتا ہے ۔ کعبہ کی مرکزیت اورحضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیلؑ کی اس سے وابستگی اورذبح اسماعیل کے اثبات پر آپ کی بحثیں اس کی مثال ہیں ۔ دونوں عظیم انبیاء کے ضمن میںانہوں نے یہودی اورمسیحی روایات پر محاکمہ کرکے ان میں سے بیش تر کو غلط ثابت کیا ہے اورقرآن وحدیث اورعربی روایات کی بنیاد پر حضرت اسماعیلؑ کے ذبیح ہونے کواصل واقعہ قرار دیا ہے ۔ ان مسلمان علماء ومفسرین پر جو حضرت اسحاقؑکے ذبیح ہونے کے قائل ہیں مولانا مودودیؒ کا تجزیہ قابل تعریف ہے ۔(۸)
اسی طرح تاریخ نزولِ قرآن کے بارے میں معتبر احادیث کے عنوان سے مختلف کتب احادیث سے روایات نقل کی گئی ہیں ۔ قرآن مجید کا واضح بیان ہے کہ اس کے نزول کا سلسلہ لیلۃ القدر میں شروع ہوا ۔ نزول قرآن کی پہلی رات تو لیلۃ القدر تھی مگروہ رمضان کی کون سی رات تھی اس پرروایات کا اختلا ف ہے ۔ اس میں ۲۷؍ویں شب کی روایات زیادہ ہیں اورمتعدد روایات میں۲۱؍ویں ، ۲۵؍و یں، ۲۷؍ ویں اور ۲۹؍ویں شب کے لیلۃ القدر ہونے کا امکان بتایا گیا ہے ۔ مولانا مودودیؒ نے روایات پر محاکمہ کرکے واضح کیا ہے کہ ۲۷؍ویں رات ہی لیلۃ القدر ہوتی ہے، کیوں کہ علمائے سلف کی بڑی تعداد یہی سمجھتی ہے ۔
نقد و استدراک
سیرت سرور عالم کا بنیادی اور عظیم ترین وصف مولانا مودودیؒ کا مختلف روایات ومرویات پر نقد و استدراک ہے ۔ سیرت نبوی کے پس منظر میں اولین نقد واستدراک کا عمدہ ترین نمونہ حضرت ابراہیمؑ وحضرت اسماعیلؑ کے حوالےسے بائبل کی ان روایات وبیانات میں نظر آتا ہے جویہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ کی شادی ان کی اپنی سگی بھتیجی سے ہوئی تھی اوران کا باپ آزر ان کے ساتھ ہجرت میں شریک تھا ۔(۱۰)
تاریخی واقعات میں حضرت عائشہؓ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح پر مولانا مودودیؒ کا نقد واستدراک آب وتاب سے نظر آتا ہے ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اس قسم کے اعتراضات صرف اس صورت میں پیدا ہوتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت عائشہؓ کے نکاح کو ایک عام مرد اورایک عام لڑکی کا نکاح سمجھ لیا جائے حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول تھے جن کے سپرد انسانی زندگی میں ایک ہمہ گیر انقلاب برپاکرنا اورمعاشرے کواس انقلاب کے لیے تیار کرنا تھا اور حضرت عائشہؓ ایک غیر معمولی قسم کی لڑکی تھیں جنہیں اپنی عظیم ذہنی صلاحیتوں کی بنا پر اس انقلابی معاشرے کی تعمیر میں حضورؐ کے ساتھ مل کر اتنا بڑا کام کرنا تھا جتنا دوسری تمام ازدواج مطہرات سمیت اس وقت کی کسی عورت نے نہیں کیا ۔ اسے مبالغہ پر محمول نہیں کیا جانا چاہیے کہ دنیا کے کسی رہنما کی بیوی اپنے شوہر کے کام کی تکمیل میں ایسی زبردست مددگار نہیں بنی جیسی حضرت عائشہؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد گار ثابت ہوئیں ۔(۱۱) اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے ایک ایک اعتراض کا جواب دیا ہے اورناقدین پر ان کا نقد لوٹا دیا ہے ۔
زبان وبیان
سیرت سرور عالم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے مصنف کی زبان نہایت شیریں سلیس ، فصیح وبلیغ ، سادہ اوردل چھولینے والی ہے ۔ اس خوبی نے سیرت سرور عالم کودوسری کتب سیرت کے مقابلے میں ممتاز کردیا ہے اوراس پر کشش ، دل پذیر اورمعنیٰ آفریں زبان نے ایک مخصوص طرز تحریر اورمعیاری اسلوب کا روپ دھارا ہے اوربجا طور پر اسے مودودی اسلوب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس اسلوب پر تبصرہ کرتے ہوئے کرنل محمد خاں لکھتے ہیں:
’’برصغیر میں بے شمار اچھی نثر لکھنےوالے ہیں اس ضمن میںہر قاری کی اپنی پسند ہے ۔ میرے پسندیدہ نثرنگار دو۲ ہیں۔ مولانا مودودیؒ مرحوم اورسید ضمیر جعفری ۔ دونوں کے موضوع مختلف ہیں۔ مولانا کا دین اورضمیر کا نیا اورہر دونے بالترتیب دین ودنیا کواس قدر حسین ودل نشین نثر میں پیش کیا ہے کہ جی چا ہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دونوں کو اپنے دیگر اعمال صالح کے علاوہ ایسی لازوال اردو نثر لکھنے کا اجر دے ۔‘‘ (۱۲)
کتاب سیرت میں دین ودنیا سے زیادہ اس ذات گرامی سے ربط خاص ہوتا ہے جوہر مسلمان کے دل میں خون حیات افزا کی مانندرواں دواں رہتا ہے ۔ قدم قدم پر محبت وعقیدت سے آپؐ کے اعلیٰ مقام ومرتبہ کا خیال رکھنا ہر مصنف کے لئے ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ زبان میں جمال اور بیان میں کمال پیدا ہوتا ہے ۔ مولانا مودودیؒ اپنی نثر میں زبان و اسلوب کے تمام تر معیار پر کھرے اترتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ولادت نبوی کی تمہید مولانا مودودیؒ یوں حوالۂ ناظرین کرتے ہیں:
’’آخر کار وہ وقت آپہنچا جس کے لیے حضرت ابراہیمؑ نے اپنی ذریت کے ایک حصے کو مکے کی بے آب وگیاہ وادی میں لا کربسایا تھا اورجس کے لئے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت انہوں نے اوران کے صاحب زادے حضرت اسماعیلؑ نے دعا مانگی تھی :
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ(البقرہ:۱۲۹)
’’اے ہمارے رب! اورتو ان لوگوں میں خودانہی کی قوم سے ایسا رسول اُٹھائیوجوانہیں تیری آیات سنائے ۔ ان کوکتاب وحکمت کی تعلیم دے اوران کی زندگیاں سنوارے۔‘‘(۱۳)
سیرت سرور عالم کا مطالعہ کسی بھی زاویہ سے کیا جائے تواس میں نہ تو الفاظ و تراکیب کی غرابت ملتی ہے اورنہ ثقیل عربی تعبیرات کی ثقالت۔ پوری کتاب خالص اردو نثر کی منفرد کتاب ہے اوریہی بات کتاب کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب کوبھی مؤقر ومحترم بنادیتی ہے۔
حوالہ جات
(۱) نعیم صدیقی، دیباچہ سیرت سرور عالم ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی۱۹۸۹ء ، ج ۱ ، ص ۱۲۔۱۱
(۲) ڈاکٹر انور خالد محمود، اردو نثر میں سیرت رسول، اقبال اکادمی ، لاہور پاکستان ۱۹۸۹ء ، ص ۷۳۶
(۳) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، سیرت سرور عالم ، مرکزی مکتبہ اسلامی ، دہلی ۱۹۸۹ء ، ج ۲ ، ص ۱۰۶
(۴) نفس مصدر، ص ۴۹۶ (۵) نفس مصدر ، ص ۱۱۴۔ ۱۱۹
(۶) نفس مصدر،ص ۴۹۳۔۵۰۴ (۷) نفس مصدر ، ص ۹۷ حاشیہ :۱
(۸) نفس مصدر، ص ۴۹۔۷۳ (۹) نفس مصدر، ص ۱۴۲
(۱۰) نفس مصدر، ص ۵۱ (۱۱) نفس مصدر، ص ۶۳۰
(۱۲) کرنل محمد خاں، (دیباچہ ) اڑتے خاکے ، سید ضمیر جعفری، ایک کارنر جہلم، ۱۹۸۵ء ، ص ۱۴۔۱۵
(۱۳) مولانا سید ابوالاعلیٰ مود ودی ، سیرت سرور عالم، حوالہ بالا ، ج ۲ ، ص ۹۳)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2016