مجھے کیرلا کے مسلم نوجوانوں کے اس اجتماع سے خطاب کرنے کا موقع دیا گیا۔ میں اسے اپنے لیے باعث افتخار سمجھتا ہوں۔ یہاں ہمیں جس چیز نے یکجا کیا ہے وہ تحریک اسلامی سے ہماری وابستگی اور ہمارا یہ جذبہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو پیغام خداوندی کے حقیقی علم بردار بنا سکیں۔ لہذا یہ بات اس موقع کے عین مطابق ہوگی کہ ہم اس موضوع پر غور و فکر کریں کہ اپنے ملک کی تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر ہم کیا رول ادا کر سکتے ہیں۔
ہمارے ملک کے ساٹھ کروڑ عوام نہ صرف آزاد ہیں بلکہ انھیں اس بات کا پورا شعور و احساس بھی ہے کہ وہ ایک نئی سوسائٹی کی تعمیر و تشکیل میں مصروف بھی ہیں اور اپنی قسمت کے آپ معمار بھی۔ چناں چہ یہ نہ صرف پیغام خداوندی کے لیے مناسب لوگ ہیں بلکہ اس دعوت کو ان تک پہنچانے کا یہی مناسب ترین وقت بھی ہے۔ اگر ہم نے یہ لمحہ ضائع کر دیا اور الگ تھلگ بیٹھے رہے تو خدا اور تاریخ دونوں کے نزدیک قابل مواخذہ قرار پائیں گے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر اس وقت ہم کچھ نہ کر سکے تو آئندہ جب کہ لوگ اپنے نظریات میں اور بھی پختہ ہو جائیں گے اور دور رس نتائج کے حامل بہت سے ناقابل ترمیم فیصلے ہو چکے ہوں گے تو یہ کام محال ہو جائے گا۔
ہندوستان میں مستقبل کا سماج کن خطوط پر تعمیر کیا جا رہا ہے؟ بلاشبہ ہمارے ذہن میں جو نقشہ اور جو ہیولی ہے وہ ایک ایسے سماج کا ہے جس میں انسان آزاد ہو۔ اسے ساری سہولتیں دستیاب ہوں اور جہاں آزادی اور سماجی انصاف کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی کی ضمانت بھی ہو، یہ ایک شریفانہ تخیل ہے جسے پورے طور پر اسلام کی بھی تائید و حمایت ہے۔
امر واقعہ تو یہ ہے کہ ابتدائی چند دہوں میں اسلام کے ذریعہ جو تبدیلیاں آئیں ان میں یہ خصوصیات بہت ہی نمایاں تھیں۔ چناں چہ یہی بات تحریک اسلامی اور حرکت و عمل کے وطنی محرکات اور امنگوں کے درمیان نقطہ اتصال بن سکتی ہے۔ مقاصد کی یکسانیت نے ہمیں جو موقع فراہم کیا ہے آئیے ہم اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور اپنے لیے وہ رول منتخب کریں جو اس صورت حال کے عین مطابق ہو اور اس سے امکانی حد تک بھرپور استفادہ کا موقع فراہم کرے۔
اس سلسلے میں ہمارے لیے یہ بات بھی مفید ثابت ہوگی کہ ہم دیکھیں کہ لوگ ان مقاصد کے حصول کے لیے کون سی راہیں اختیار کرتے ہیں۔ اگر ہم اسلام کی کام یابیوں کے اسباب پر نظر ڈالیں تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ آزادی، مساوات، عدل اجتماعی، حتی کہ اقتصادی ترقی بھی اس عظیم تر تبدیلی کا نتیجہ تھی جو حیات و کائنات کے بارے میں انسان کے نقطہ نظر میں پیدا ہوئی تھی۔
توحید کا یہ بنیادی اسلامی عقیدہ ہی تھا جس نے لوگوں کو اخوت اور مساوات کا درس دیا۔ انسان کو حقیقی آزادی جھوٹے خداؤں کی غلامی سے نجات اور اس حقیقت کے ادراک کے بعد ہی ملی تھی کہ وہ صرف ایک خدا کا بندہ ہے اور اس کے سوا کسی دوسری طاقت کی اطاعت ضروری نہیں۔ اخوت کی اس بنیاد پر جو معاشرہ وجود میں آیا اس میں عدل اجتماعی خود بخود قائم ہو گیا۔ کیوں کہ ان کی زندگیاں اعلی قدروں کے لیے وقف تھیں اور ہیئت اجتماعیہ اسی فکر کی دین تھی۔ معاشی فلاح کی فطری خواہش کو غربت اور جہالت کی بیخ کنی کے پیغام سے دلی وابستگی سے تقویت ملی۔ سماجی مقاصد کی تکمیل پر بھی پوری توجہ دی گئی کیوں کہ اس کی بنیادیں اعتقادات میں پیوست تھیں۔ اس طرح اسلام نے جو بلند تر مقاصد سامنے رکھے وہ نہ صرف دنیاوی فلاح سے ہی متعلق تھے بلکہ ان کا تعلق تو بعد میں آنے والی زندگی سے بھی تھا۔ حقیر مفادات اور وفاداریوں کے تنگ دائرے، بلند سماجی مقاصد اور ہمہ گیر وفاداریوں میں ضم ہو گئے۔
حاکمیت الہ اور انسانی اخوت کی طاقتور تحریک نے قبائلی، علاقائی، نسلی اور لسانی اختلافات کی بنیاد پر انسانی معاشرے کو تقسیم کرنے والے محرکات پر بند باندھ دیا۔ یہ سب صرف اس لیے ممکن ہوا کہ اس فلاحی معاشرے کی بنیاد ٹھوس روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر رکھی گئی تھی۔
ہندوستان کا معاملہ ہم اس کے بالکل برعکس پاتے ہیں۔ یہاں اعلی اقدار کی جڑیں انسانی ذہنوں میں پیوست نہیں ہیں۔ یہاں اقتصادی بہتری کی سیکولر اپیل کے سہارے سماجی مقاصد کے حصول کی کوشش کی جارہی ہے۔ اقتصادی ترقی کی تیز تر رفتار کو قومی منزل قرار دیا گیا ہے اور اسی بنیاد پر عوام سے حرکت و عمل کی توقع کی جا رہی ہے۔
علاقائیت، ذات پات، زبان اور فرقہ واریت کے خطرات کے مقابلہ اور ان کے خاتمہ کے لیے قومی اتحاد اور قومی یکجہتی کے سلسلے میں تشویش کو ہی کافی سمجھ لیا گیا ہے۔ کیا یہ توقعات پوری ہوں گی؟ کیا معاشی فلاح پر ضرورت سے زیادہ زور جس کے حصول کا تمام تر انحصار اشیاء اور خدمات کی بڑھتی ہوئی سپلائی پر ہے خود اپنے اندر محدود اور گروہی وفاداریوں کی تقویت کا سامان نہیں رکھتا؟ آخر فرد سماج کے لیے خود اپنی زیادہ سے زیادہ مادی فلاح اور خوشحالی کو قربان کیوں کرے؟ جب عدم مساوات ہی ایک فرد یا اس کے فرقے کے اپنے مفادات کی ضامن ہو، تو پھر وہ مساوات کے لیے جدوجہد کیوں کرے؟
ان تینوں سوالات کے اطمینان بخش جوابات ابھی تک تلاش نہیں کیے جا سکے ہیں۔ نتیجے کے طور پر سماجی فلاح اور سماجی مقاصد کے حصول کے بلند و بانگ دعووں کے پس پردہ ساری جدوجہد اور تمام کوششیں ذاتی یا گروہی مقاصد کی تکمیل کے لیے وقف ہیں۔ انسانی اخوت کے تصویر کو بروئے کار لانے کے لیے گروہی تشخص کو ختم کرنا بہر حال ضروری ہے۔ وہ لوگ جو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ آزادی کے خواہاں ہیں وہ وہی حق دوسروں کو دینے کے لیے سب سے کم آمادہ نظر آتے ہیں۔ آزادی، مساوات اور انصاف کو محض نعروں کی حیثیت دے دی گئی اور محدود مالی مفادات کے حصول کے لیے ان کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ عام فلاح کا چند لوگوں کو ہی خیال ہے۔ قوم کی صلاحیت اور قوت کو قومی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کی نہ تو کوئی طاقتور مہم چل رہی ہے اور نہ ہی قابل لحاظ جوش و خروش کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ لاتعلقی اور کاہلی آج بھی ہمارے عوام کی امتیازی خصوصیت بنی ہوئی ہے۔ بیس سال کی نعرہ بازی کے باوجود ترقی کے عزم کا فقدان آج بھی نمایاں ہے۔ وہ محرکات جو انتشار و فشار کا سبب بن سکتے ہوں، اتحاد و یک جہتی کے داعیوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ مؤثر اور طاقتور ہیں۔ قربانی کا جذبہ برائے نام اور کرپشن کی وبا بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ بلاشبہ ان علامتوں کو اس بہتر سماج کی تعمیر کے لیے نیک شگون نہیں کہا جاسکتا جو مبینہ طور پر ہمارے ذہنوں میں پرورش پا رہا ہے اور جس کے لیے ہماری ساری کوششیں وقف بتائی جا رہی ہیں۔
بنیادی سبب
اس خرابی کا بنیادی سبب دراصل یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کے ذہن پر دنیاوی نقطہ نظر مسلط ہے اور یہ انداز فکر محدود اور گروہی اخلاقی معیار کو ہی جنم دے سکتا ہے۔ چناں چہ اس پر قطعی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ چند کے علاوہ باقی سارے لوگ اب تک کی ترقیات کے ثمرہ سے محروم ہیں اور جدید تعلیم اور دولت بھی ان لوگوں کو جنھیں پیدائشی طور پر اچھوت اور قابل نفرت قرار دیا گیا ہے، سماجی مساوات کی ضمانت دلانے میں ناکام رہی ہے۔ مشینی کھیتی، ۔ ۔۔ اسٹیل ملوں کے سہارے سماج میں باہر سے تبدیلی لانے کی کوئی کوشش کام یاب نہیں ہو سکتی۔ یہ ان کوششوں کے نتیجے میں دولتمندوں کی دولت میں اضافہ طاقتور اور بااختیار لوگوں کی طاقت اور اثر و رسوخ مین اضافہ ہوگا۔ قانون کے سہارے ہیئت اجتماعیہ کو بدلنے یا اس کی اصلاح کی کوشش کے نتیجے میں دوسری جگہوں کی طرح یہاں بھی ایک “نیا طبقہ” ہی وجود میں آئے گا۔
اعلی اقدار اور سماجی مقاصد کو زندہ رکھنے اور انھیں مزید قوت پہنچانے کے لیے آج جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ روحانی اور اخلاقی بنیادیں ہیں۔ کیوں کہ اس کے فقدان کے سبب آج نہ تو ان کا کوئی وزن رہ گیا ہے نہ اثر۔ یہی وہ خلا ہے جو چیخ چیخ کر اپنے آپ کو پر کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔ اور اس ضمن میں آپ کو اپنا رول ادا کرنا ہے۔ قرآن نے کہا ہے “تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے اٹھایا گیا ہے، تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔”(سورہ بقرة)
آپ کو اپنے ہم وطنوں کو یہ بتانا ہوگا کہ بے ضابطہ طریقہ کار قدروں کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان لوگوں کو یہ بھی سمجھانا ہوگا کہ ہندوستانی معاشرہ میں آج جو روحانی الجھن اور اخلاقی بے ضابطگی ہے، وہ ہر قسم کی ترقی کی راہ کی رکاوٹ ہے۔ ان لوگوں کو اس بات پر ابھارنا ہوگا کہ وہ خدا اور اس کی رہنمائی کی طرف لوٹ جائیں اور اس یقین کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں جو ہمارے ملک کے لوگوں کو بڑی قدروں سے ہم آہنگ کر دے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ کوشش ان مخلص لوگوں کی طرف سے کی جانی چاہیئے، معاشرہ کے لیے جن کی خدمات دستاویزی ثبوت رکھتی ہیں۔ اگر ایک مرتبہ آپ کے ملک کے لوگوں نے آپ کی بات سن لی تو مادہ پرستی کے علاوہ جو سنجیدہ مسائل ہیں وہ ان کے متعلق بھی سوچنے لگیں گے۔ زندگی کی جدوجہد میں انسان آنے والی زندگی کے بارے میں اپنے خالق کی طرف سے واجب کردہ فرائض کے بارے میں بھول جاتے ہیں۔
اس موقع پر ان حالات کا تذکرہ کرنا بہتر ہوگا جن سے مغربی سماج گزر رہا ہے۔ تکنیکی اور صنعتی ترقی کی معراج پر پہنچ کر بھی انسان مایوسیوں میں گھرا ہوا ہے۔ آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی روحانی خلا، قدروں کے تنزلی، گھر بار سے بے تعلقی، غیر محفوظ سڑکوں، اجنبی نسلوں اور غیر مطمئن ذہنوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔ یہ کام ہمارا ہے کہ ہم ترقی کا ایک ایسا متوازن طریقہ کار اپنا کر برائیوں کو دور کریں جس سے مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی اور اخلاقی پہلو بھی اجاگر ہوں۔
ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اسلام انصاف کے ساتھ ترقی کرنے کی پوری طرح حمایت کرتا ہے، اس لیے ہم اسلامی تحریک سے متعلق ہو کر ایک اچھا معاشرہ تخلیق کرنے سے علیحدہ نہیں رہ سکتے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں چاہیئے کہ ہم اقتصادی ترقی، آمدنی و دولت کی یکساں تقسیم اور دوسرے پروگرام جو چلائے جا رہے ہیں ان کی پوری حمایت کریں اور ان کاموں میں تعاون کریں۔ یہ بات اس وقت اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ہے جب ہم چاہیں کہ ہماری بات سنی جائے اور ہمارے پیغام کو قبول کیا جائے۔
اس لیے میں مسلمان نوجوانوں پر زور دوں گا کہ وہ متذکرہ بالا مشنری کام کے ساتھ ساتھ محنت کرنے، قومی مقاصد حاصل کرنے، منصوبوں کو پورا کرنے، تعلیم کے لیے مقرر کیے گئے نشانوں کو مکمل کرنے میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ تعاون کریں۔ ہم یہ کام خود مسلمانوں کا سرگرم تعاون حاصل کیے بغیر بمشکل ہی کر سکتے ہیں۔ یہ وہ کردار ہے جو مسلمان صرف اجتماعی طور پر ادا کر سکتے ہیں۔ ہم دوسروں کو اسلامی پیغام کی حقیقت سے، اچھے معاشرہ کی تخلیق میں اس کی تاثیر سے اور انصاف کے ساتھ ترقی کرنے کی تلقین سے اس وقت تک متاثر نہیں کر سکتے جب تک خود مسلمان گم راہ رہیں گے اور وہ مہیب تصور پیش کرتے رہیں گے جو وہ اس وقت کر رہے ہیں اور جو ان کے مشن کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس وقت فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ اچھے مستقبل کے لیے ملت کو پہلی صف میں لانے کے لیے ملت کو زندگی بخشی جائے، ایک ایسے مشن کا احساس جو ایک طبقہ کی بجائے تمام طبقوں سے متعلق ہو۔ اس بات کا احساس کہ ملت کی تعریف صرف چند دنیاوی مقاصد جیسے اقتصادی، سیاسی، لسانی اور یہاں تک کہ ثقافتی سے نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کی تعریف خود مشن سے کی جا سکتی ہے۔ یہ ہیں وہ چیزیں جو مسلمانوں کو اس دلدل سے نکالیں گی جس میں وہ دھنس رہے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کے لیے بنیادی کام یہ ہے کہ وہ اس قسم کا احساس پیدا کریں۔
مشن
تعلیم یافتہ مسلم نوجوان روحانی مشن سے ہم آہنگ کرنے میں مسلمان طبقہ کی مدد کر سکتے ہیں۔ دل کی صفائی، ذہن کی کشادگی، کردار کی بہتری اور قوت عمل کے اسلامی معیار تک ملت کو لانے کے لیے مسلم نوجوان کو محنت کرنی چاہیے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو ملت کو اس مشن کے مطابق بنا سکتی ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے مسلم عوام کے اندر اسلامی تعلیمات کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد آپ کو مسلمانوں کے ذہنوں سے بعض وہ غیر ملکی نظریات بھی نکالنے پڑیں گے جن کا ان کے ذہنوں پر اثر ہو گیا ہے۔ آپ کو مسلمانوں سے تمام لوگوں کی ترقی کے لیے محنت اور سخت محنت کرانی ہوگی۔ ان کاموں کو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود بھی اسلام کا بہ نظر غائر مطالعہ کریں اور اسلامی قدروں کو اپنائیں تاکہ آپ کے کردار سے ان کا ظہور ہو۔
مندرجہ بالا تین کام اس وقت نہایت کام یابی کے ساتھ کیے جا سکتے ہیں۔ جب ایک ایک کرکے انھیں کیا جائے۔ کوئی بھی شخص ان پسماندہ لوگوں کی تبلیغ پر کان نہیں دھرے گا جو خود کو ملک کی اقتصادی، سماجی اور سیاسی زندگی سے الگ رکھتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی بات سنیں تو آپ کو چاہیے کہ خود کو اقتصادی طور پر مضبوط بنائیں، سماجی طور پر مفید بنائیں اور سیاسی طور پر بااثر بنائیں۔ ملت کے احیا کے لیے جو تین کام بتائے گئے ہیں ان میں جٹ جائیے۔ قومی معاملات میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لیجئے اور نظریات کی تبلیغ کیجیئے۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کی کوشش آپ کی بہترین صلاحیتوں کو اجاگر کرے گی۔
تحریک
کردار اور شخصیت کی تعمیر کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ پورے خلوص کے ساتھ اس مشنری، تبلیغی اور ترقی پسند پروگرام کو لے کر چلا جائے۔ تاریخ اسلام میں مخلص ترین اور شریف ترین کرداروں کی تخلیق انسانی مقاصد کی تحریک کے دوران ہوئی ہے۔ داخلیت پر مبنی غیر محرک ڈھانچہ نے کردار کی تعمیر پر مضامین تو شائع کیے ہیں لیکن یہ ڈھانچہ چند اسلامی شخصیتوں کی تخلیق میں ناکام رہا ہے۔ اگر آپ اس پروگرام پر عمل کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں تو آپ ایک ایسا بے مثال گروپ بن جائیں گے جو سچائی ثابت کرنے اور اچھائی پھیلانے والا ہوگا۔ لوگوں پر اثر انداز ہونے اور دوست بنانے کا یہ یقینی طریقہ ہے۔
میری دعا ہے کہ آپ اس مشکل لیکن قابل اقدام کام میں تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھیں۔ (سہ روزہ دعوت، ۲۸ مئی ۱۹۷۱)
مشمولہ: شمارہ فروری 2023