بلاشبہ بچے ملک وملت کا اصل سرمایہ اور مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ سماج اورمعاشرے کے بنائو اوربگاڑ میں ان کا اہم رول ہوتا ہے۔ والدین کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کا انعام وعطیہ بھی ہیں اور ایک امانت بھی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کررکھی ہے ۔ چنا نچہ والدین اوربچوں کے دیگر سرپرستوں کو چاہیے کہ ان کے سامنے اسلامی زندگی اوراسلامی اخلاق و کردار کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے بچپن ہی سے ان کے اندر عبادات ، تبلیغ دین اور نیابت الٰہی کا شعور پیدا کریں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کے اخلاق وکردار کی تعمیر کی طرف بھرپور توجہ دیتے رہیں۔ متذکرہ ذمے داری باپ اور ماں دونوں پر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ جہاں تک باپ کا تعلق ہے وہ پور ے خاندان کا کفیل ونگراں ہے ۔ تمام ہی اہل خانہ کی تربیت کا وہ ذمے دار ہے ۔ تاہم بچوں کی تربیت کی ذمے داری باپ سے زیادہ ماں پرعائد ہوتی ہے۔ کیوں کہ باپ معاشی دوڑ دھوپ اورضروریات زندگی حاصل کرنے کی تگ ودو میں اتناوقت ہی نہیں پاتا کہ گھر میں قرار سے رہ کر بچوں کی پرورش ونگہداشت اور تعلیم وتربیت اچھی طرح کرسکے۔ لہٰذا یہ ماں کی ذمے داری ہے کہ وہ ان کی تعلیم وتربیت کے لیے ہمیشہ فکرمند اورکوشاں رہے۔ تاکہ بچے خاندان، سماج اور ملک کی بقا اورصحیح تعمیر و ترقی میں وہ کردار ادا کرسکیں جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اوراپنی اور اپنے خاندان کی دنیوی و اخروی فلاح کا ذریعہ بھی بن سکیں۔ فرمایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے : ’’عورت اپنے شوہر کے گھر اوراس کے بچوں کی نگراں ہے، ان سے متعلق اس سے پوچھ ہوگی۔
اس ذمے داری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ذمے داری کے سبب عورت کو تمام سیاسی، سماجی، معاشی اور دیگر باہر کی ذمے داریوں سے بری الذمہ کردیا۔ اورجمعہ وعیدین کی نمازیں اور پنج وقتہ نماز باجماعت کی فرضیت سے بھی اسے مستثنیٰ کردیاگیاہے۔
اولاد کی پرورش وتربیت جیسے کٹھن کام کے سلسلے میں خداوند کریم نے ماں باپ دونوں ہی میں یہ فطری جذبہ رکھا کہ ان کے لیے معاشی دوڑ دھوپ اوربچپن سے لے کربڑا ہونے تک ہر طرح کی تکلیف اور پریشانیاں خوشی خوشی برداشت کرتے ہیں اوراس کام میں معمولی سی ناگواری اور بے چینی بھی محسوس نہیں کرتے۔ باپ اولاد کی خاطر کماتا ہے ۔سردی وگرمی ہو یا برسات یا بیماری ہروقت ہر حال میں ان کے لیے معاشی تگ ودو میں مصروف رہتا ہے۔ ان پر اپنی محنت سے حاصل کی ہوئی دولت خرچ کرکے روحانی سکون حاصل کرتاہے اور ماں حمل سے لے کر پیدائش تک اوراس کے بعد کے بھی ہر طرح کے حالات میں نہایت صبروسکون بلکہ خوشی و مسرت کے ساتھ ان کی پرورش کرتی ہے۔ بل کہ باپ سے زیادہ ہی تکلیفیں و مصیبتیں وہ خوشی خوشی جھیل جاتی ہے۔ خداوندکریم نے اولاد کے تئیں انتہائی صبرو برداشت ، بے لوث محبت اور ایثار وقربانی جیسی صفات سے اسے نواز دیا ہے ۔جو ان کی پرورش وتربیت کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ بہ ہرحال والدین نے بچوں کی پرورش نہایت لگن، ہمت وجانفشانی کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی ان کی اچھی تعلیم وتربیت کا بھی پوری اہتمام کیا جائے۔ بغیرتعلیم وتربیت کے اولاد دنیا وآخرت میں سرخروئی حاصل کرسکتی ہے نہ والدین کے لیے آخرت کا سامان ہی بن سکتی ہے۔ اس سے غفلت کا انجام بڑا بھیانک ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
’’اے مومنو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اورپتھر ہوں گے۔ جس پرنہایت تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیاجاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں‘‘۔ ﴿تحریم: ۶﴾
لیکن فی زمانہ یہ ایک پریشان کن مسئلہ بن گیا ہے کہ آج کے بچے سدھار کم بگاڑ کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ یہ بچپن یا لڑکپن کے زمانے کابگاڑ سن بلوغ تک پہنچنے کے بعد چنگاری سے شعلہ بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بچوں کے بگاڑ کے کیا اسباب ہیں اور قرآن وسنت کی روشنی میں ان کی اصلاح کی کیاتدابیر ہوسکتی ہیں ، ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
سب سے پہلے تو والدین کو چاہیے کہ اپنے بیٹوں کی شادیوں کے لیے نیک سیرت، سلیقہ شعار، دینی اور ضروری عصری تعلیم سے بہرہ مند، خوف خدا سے لبریز اور اپنی دینی واخروی ذمے داریوں کو اچھی طرح سمجھنے والی لڑکیوں ہی کو ترجیح دیں۔ تاکہ ان کی گودوں سے ایسی نسل اٹھے جو دین و ملت کا اثاثہ ثابت ہو، نہ کہ جہیز ودولت کے لالچ میں ایسی لڑکیوں سے اپنے بچوں کی شادیاں کریں جن کی پرورش مادہ پرستانہ اور غیر دینی ماحول میں ہوئی ہو، جو دینی تعلیم اور احکام خدا ورسولﷺ سے بالکل بے بہرہ ہو، جوایک طرف تو والدین اورخاندان اورخود اپنے شوہروں کا سکھ چین چھین لیں اور دوسری طرف اپنی اولاد کی تربیت محض مادہ پرستانہ و خودغرضانہ ذہن کیساتھ کریں۔ جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بچے عموماً ماں ہی سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں ۔ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ بیج تو بوئیں ببول کے اور اگنے لگیں آم کے درخت۔ ظاہر ہے خون بھی اسی کا دودھ بھی اسی کا اورتربیت بھی اسی کی پھر ایسی عورتوں سے آپ نیک سیرت اور لائق و ہونہار بچوں کی تمناکس طرح کرسکتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسی گودوں سے بھی لائق و ہونہار سپوت نکل آتے ہیں ۔ ایسا مشیت الٰہی کے تحت شاذو نادر ہی ہوتاہے۔
اسی طرح بیٹیوں کی شادیوں کے لیے بھی محنتی، با اخلاق اور دیندار لڑکوں ہی کو ترجیح دیں۔ ایسے ہی لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں نہ صرف پرسکون زندگی گزارسکتی ہیں ، بل کہ اپنی اولاد کی پرورش بھی اطمینان کے ساتھ دینی ماحول میں کرسکتی ہیں۔ نہ کہ دولت مند، مادہ پرست اور دین واخلاق سے بیگانہ لڑکوں کے ساتھ۔
دوسرے یہ کہ ہر عورت خصوصاً اپنے زمانۂ حمل اور زمانۂ رضاعت میں حلال کمائی استعمال کرے اور اپنے عادات وخیالات کو بلند وپاکیزہ بنائے۔ اگر ان ادوار میں بھی ماں مادہ پرستانہ وخودغرضانہ خیالات رکھتی ہو، سست وکاہل ہو اپنی دینی واخروی ذمے داریوں سے غافل ہو، شوہر، ساس ،نندوں سے جھگڑنا، تکلیفیں دینا اور دوسروں کی حق تلفیاں اس کا شعار ہو، ریا جھوٹ، غیبت، حسد ، بدگمانی، طعنہ زنی جیسی برائیوں میںملوث ہو تو بچے بھی یقینا وہی نقش لے کر اس دنیامیںآئیں گے اور پھر ان کی اصلاح ایک دشوار ترین امر بن جائے گا۔
یہ بات نہایت قابل غور اور یاد رکھنے کے لائق ہے جو حدیث سے بھی اور سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت ہے کہ بچہّ تقریباً پانچ سال کی عمر تک اپنے اطراف و جوانب جو کچھ دیکھتا اور سنتاہے وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن وقلب پرنقش ہوجاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ چند ماہ کا بھی ہونے نہیں پاتا کہ ٹی وی پر ناچ گانے اور فحش حرکات بڑے مزے سے دیکھتا ہے اور پانچ سال تک تو نہ جانے اپنے گھر اور ماحول کی کتنی برائیاں اپنے اندر جذب کرچکاہوتا ہے۔ ظاہر ہے وہ بچہ کیا بن کر نکلے گا؟
بچوں کو اگر بچپن ہی سے غلط ماحول ملے جہاں حرام حلال کی کوئی تمیز نہ ہو، وہ کسی کے حقوق جانتے ہوں نہ اپنے فرائض سے آگاہ ہوں، گھر کے مکینوں میں آپس میں رنجشیں اور تنائو ہو، شوہر، ساس، بہو اورنندوں کے درمیان میدان کار زار گرم رہے، ہرایک کو بس اپنے مفاد کی فکر ہو دوسروں کو ذلیل کرنا، جھوٹ بولنا، عریاں وفحش فلمیں خود بھی دیکھنا اور بچوں کو بھی دکھانا جن کے مشاغل ہوں، فیشن وبے پردگی جن کو محبوب و مرغوب ہو، باترجمہ وتشریح قرآن وحدیث کا مطالعہ اور دینی احکام جاننے ان پر عمل کی کوششوں اور دینی وتعمیری کاموں میں حصہ لینے کی بجائے رومانی و فحش وناولوں و لٹریچر کا جن کے گھروں میں چرچا ہو، دنیاوی رنگینیوں میںاتنے مست ہوں کہ ذرہ برابر خوف خدا ان کے دلوں میں نہ ہو اور نہ عذاب آخرت سے بچنے کے لیے کوئی فکر وجستجو ہو اور جن کی زندگیوں کا کوئی مقصد ہی نہ ہو،ایسے ماحول سے کیوں کر آس لگائی جائے کہ وہاں بچے نیک وصالح اوربا اخلاق و باکردار بن کر پروان چڑھیں گے۔ بچوں کی تربیت کے لیے تو نہ صرف والدین کا باعمل بننا، تمام برائیوں سے پرہیز کرنا، نمازوں اور دیگرعبادات کی پابندی کے ساتھ ساتھ شریعت کی پوری پوری پابندی کرنالازمی ہے، بل کہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کے پورے ماحول کو بھی دینی وپاکیزہ بنانے کی کوشش کریں۔ ورنہ بچوں کو تونصیحتیں کی جارہی ہیں اور گھر کے لوگوں کے عمل ان کے خلاف ہوں اور پھر آس لگائی جارہی ہے کہ بچے نہ بگڑیں۔
محبت وشفقت سے محرومی بھی بچوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بچو ں کے ساتھ نہایت پیار و محبت و نرمی سے پیش آئیں۔ ان کے آرام وآسائش کا خیال رکھیں۔ کیوں کہ بچے نہایت نازک جذبات و احساسات رکھتے ہیں اور پیار محبت کے بھوکے ہوتے ہیں ۔ ابتدائی عمر میں تو وہ نہایت کمزور و ناتواں، نادان اور بے بس ہوتے ہیں ۔ صرف والدین و دیگرقریبی اعزہ کی محبت، نگہداشت اور حسن سلوک کے سہارے ہی پروان چڑھتے اور پلتے ہیں۔ اب اگر والدین بچوںکو بھرپور پیار نہ دیں تو سچا پیار وہ کہاں سے حاصل کریں گے۔ بچوں سے نفرت وبیزاری ، درشت رویہ، ہمیشہ ڈانٹ پھٹکار، مار پیٹ، لعن طعن، ان کی جائز مطالبوںکو بھی پورا نہ کرنا، ان کے جذبات و عزت نفس کو ٹھیس پہنچانا ان کا دل توڑدیتا ہے۔ ان پر مایوسی و قنوطیت طاری کردیتا ہے اور پھر وہ والدین اور گھر سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر بچے خودسر و باغی ہوجاتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ بچوں کا بجا و بے جا لاڈ ہی کرتے رہیں۔ ان کی ہر ضد پوری کریں اورکبھی کسی غلطی پر بھی ٹوکنے کا نام نہ لیں۔ بے جا لاڈ پیار بھی بچوں کو بگاڑ دیتا ہے اور پھربڑا ہونے پرجانوروں کی طرح مار پیٹ بھی انہیں درست نہیں کرپاتی بل کہ مزید باغی بنا دیتی ہے۔
والدین خصوصاً باپ کو اس بات کا بھی بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ بچوں کی پرورش حرام کمائی سے نہ ہونے پائے۔ حتیٰ کہ زمانۂ حمل ہو یازمانۂ رضاعت ان ادوار میں خود ماں کو چاہیے کہ حرام کمائی سے سختی سے اجتناب کریں اور بعد میں بھی یہی کوشش کی جائے کہ بچوں کے منھ میں ایک لقمہ بھی حرام کا نہ جانے پائے۔ ورنہ بچوں میںبداخلاقی اوربری عادتیں پیداہوجائیں گی۔ فرمایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے: ’’جو گوشت ﴿ جسم﴾ حرام سے پرورش یافتہ ہے اس کاٹھکانا جہنم ہے‘‘ ۔
ظاہر ہے جہنم میں جانے والا جسم کیسے نیک اور صالح بن سکتاہے ؟ لیکن باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کی کفالت خوش دلی سے کرے اور اکل حلال کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ اپنے اہل وعیال اور اہل خاندان جن کی کفالت کا وہ ذمے دار ہے، سے غفلت اور کوتاہی برتنا اپنی ذمے داریوں سے فرار اورسنگین جرم ہے۔
لڑکیوں کی پیدائش پر بھی ناگواری اور ناپسندیدگی کا اظہار نہ کریں۔ ارشاد رسول ﷺ ہے: ’’جب کسی کے یہاں لڑکی پیداہوتی ہے تو اللہ جل شانہ‘ اس کے یہاں فرشتو ں کو بھیجتا ہے جوآکر کہتے ہیں: اے گھروالو! السلام علیکم! فرشتے پیدا ہونے والی لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ ایک ناتواں کمزور جان ہے جو ایک ناتواں اور کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے ، جو شخص اس ناتواں جان کی پرورش کی ذمے داری اٹھائے گا قیامت تک خداکی مدد اس کے شامل حال رہے گی‘‘۔ ﴿المعجم الصغیر للطبرانی﴾
پھر یہ کہ روزی دینے والا تو اللہ ہے خواہ لڑکا ہو یا لڑکی۔ جو بھی دنیامیں آتا ہے اپنی روزی خود لیکر آتا ہے ۔ لڑکیوں کی پرورش کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جس شخص نے دوبیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ دونوںبالغ اورجوان ہوگئیں۔ ﴿اور اپنے گھروں کی ہوگئیں﴾ تو روز قیامت وہ اس حال میں آئے گا کہ وہ اور میں ان دو انگلیوں کی طرح ساتھ ساتھ ہوں گے اور آپﷺ نے اپنی انگلیوں کو ملاکر دکھایا‘‘۔ ﴿ریاض الصالحین/صحیح مسلم﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوہ یا طلاق یافتہ یعنی بے سہارا لڑکی کی کفالت کو بہترین صدقہ قرار دیا۔ فرمایا: ’’میں تمھیں بہترین صدقہ کیوں نہ بتا دوں؟ تمھاری وہ بیٹی ہے جوتمھارے پاس لوٹا دی گئی اور تمھارے سوا کوئی اس کو کماکر کھلانے والا نہ ہو‘‘۔ ﴿ابن ماجہ، جمع الفوائد، باب والدین کا اپنے بچوں میں ایک کو ترجیح دینا اور دوسرے کے ساتھ بے توجہی برتنا بھی بچوں کے بگڑنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس سے ایک بچے کے اندر گھٹن، جلن و حسد، نفرت و مایوسی اور رقابت وبغاوت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور دوسرے میں غرور وبرتری کے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب والدین ہی اپنے بچوں کو ایک نظر سے نہ دیکھیں اوران کے ساتھ لین دین اوربرتائو میں امتیازی سلوک کرنے لگیں تو پھر کس سے وہ پرخلوص محبت اور انصاف کی امید کریں؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والوںکو سخت تنبیہ کی ہے۔ نیز لڑکیوں کو کمتردیکھنا، ان کے ساتھ غلط سلوک کرنا اورلڑکوں کو اہمیت دینا اور بے پناہ چاہنا اس سے بھی خدا اور رسولﷺ نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ بچوں کے سامنے اس طرح کی طنز آمیز باتیں کہ وہ کسی کام کے نہیں ناکارہ و نالائق ہیں، ان کے ذہن و قلب پرمنفی اثر ڈالتی ہیں اور وہ اپنے آپ کو ناکارہ وذلیل سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ وہ اس لائق ہی نہیں کہ کوئی کام کرسکیں یا کچھ سیکھیں یا اپنے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرسکیں۔ پھر وہ تا عمر کچھ کر بھی نہیں پاتے نہ ہی اس کا عزم و حوصلہ ان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ اگران طنزآمیز باتوں کا فوری ازالہ نہ کیا جائے ۔ گو کہ والدین اس طرح کی ڈانٹ پھٹکار یا طنز آمیز باتیں بچوں کی اصلاح کی غرض سے ہی کرتے ہیں، لیکن اس طرح کی باتیں انہیں سدھارنے کی بجائے مزیدناکارہ بنادیتی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان کے اندر کی خوبیوں کو سراہا جائے۔ ان میں خودداری ، جرأت وہمت اور کچھ کرنے کا حوصلہ و لگن پیدا کرتے رہیں۔ غلط حرکات پر تنبیہ ایک الگ چیز ہوتی ہے۔ لیکن اس طرح کی طنز آمیز اور حوصلہ شکن باتیںبچوں پر غلط اثر ڈالتی ہیں۔ لہٰذا اس سے سختی سے پرہیز کریں۔
احساس کمتری بھی خواہ جسمانی ہو یاذہنی یاکسی اور کمزوری یا برائی کی وجہ سے ہو نقصاندہ ہوتی ہے۔ اور یہ اس وقت زیادہ مضر ثابت ہوتی ہے جب اپنوں کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ان کامذاق اڑاتے ہیں یا انہیں حقیر وکمتر سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے والدین اوربڑے بھائیوں اوربہنوں کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو ان کی دوسری خوبیوں کی طرف بھی توجہ دلائیں اور بتائیں کہ اللہ نے تمہیں اس ایک کمی کے ساتھ کئی دوسری خوبیاں بھی دے رکھی ہیں تاکہ وہ احساس کمتری میںمبتلا ہی نہ ہونے پائیں۔ اگر یہ احساس کمتری بری عادتوں کی وجہ سے ہوتو بھی والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھیوں اور دوسرے لوگوں کے سامنے اپنے بچوں کی برائیاں نہ گنائیں۔ نہ ان کی کمزوریوں اور خامیوں کاتذکرہ کریں۔ نہ کسی کے سامنے انہیں ڈانٹیں، جھڑکیں یا شرمندہ کریں۔ بلکہ دوسروں کو اپنے بچوں کی خوبیاںبتائیں۔ ہاںتنہائی میں انھیں ضرور سمجھائیں۔ ضرورت پڑنے پر تنبیہ بھی کریں اوراگرناگزیر ہوتو کبھی کبھی ہلکی مار سے بھی کام لیاجاسکتا ہے۔
بچوںکو سات سال کی عمر سے نماز سکھا دیں اور پڑھنے کی تلقین کرتے رہیں۔ اورجب وہ دس سال کے ہوجائیں اورنماز نہ پڑھیں تو سزا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو جب وہ سات سال کے ہوجائیں۔ اورنماز کے لئے ان کو سزا دو جب وہ دس سال کے ہوجائیں اوراس عمر کو پہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ کردو‘‘۔
بچوں میں اپنے بھائیوں اوربہنوں کے ساتھ آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے بلکہ ایثار و قربانی کابھرپور جذبہ پیداکریں۔ رشتے داروں وپڑوسیوں کے ساتھ اچھے سلوک اوربزرگوں کا احترام کرنے کی تلقین کرتے رہیں۔ ان میں غریبوں اورلاچاروں کے لیے ہمدردی و مدد کے جذبات کو بھی ابھاریے اور کبھی کبھی ان ہی کے ہاتھوں غریبوں ومجبوروں کی مدد کروائیں۔
بچوں کو بچپن میں ڈرانے سے سختی کے ساتھ پرہیز کریں۔ ورنہ یہ بچپن کا ڈر تا عمر ان کے ذہن و دماغ میں بس جاتا ہے اور ان میں بزدلی و پست ہمتی پیداہوجاتی ہے۔
بچوں کو شروع ہی سے باربار نصیحتیں کرتے رہیں کہ وہ کبھی کوئی پڑی ہوئی چیز نہ اٹھائیں۔ کسی کی معمولی سی چیز بھی نہ چرائیں۔ ساتھ ہی انہیں حرام و حلال کی تمیز بھی سکھائیں۔ ورنہ انھیں چوری اورمفت خوری جیسی بری لت لگ جائے گی۔
کاہلی، سستی اورنکما پن بھی بچوں کو بگاڑ دیتا ہے۔ اس لیے شروع ہی سے انہیں حسب عمر و طاقت محنت و مشقت کرنے اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرنے بل کہ بڑوں کی خدمت کرنے کی عادت ڈالتے رہیں۔ ورنہ بعد میں نکماپن اور کاہلی ان کی عادت میںشامل ہوجائے گی اورپھر انھیں موڑنا ناممکن ہوگا۔
بچوں کے بگاڑ کا ایک اہم سبب والدین خصوصاً باپوں کا اپنے بچوں کے سامنے باربار اس طرح کاتذکرہ بل کہ تکرار اور وہ بھی غصہ وجھنجھلاہٹ کے ساتھ کرنا بھی ہے کہ ہم تمھیں کھلا رہے پلارہے ہیں۔ تمھارے سارے اخراجات پورے کر رہے ہیں ۔ اس طرح کا انداز بچوں کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ بل کہ ان میں بیگانگیت پیدا کردیتا ہے ۔ ظاہر ہے والدین ہی بچوں کے ساتھ غیروں وبیگانوں کا سلوک کریںان پراحسان جتائیں تو پھر بچے کسے اپنا کہیں یا سمجھیں گے۔ غلط حرکات پر غصہ وتادیب ایک الگ چیز ہوتی ہے اوراس طرح باربار احسان جتانا ان کی عزت نفس کو مجروح کرنا اور ہی بات ہے۔ پھر بڑاہونے پر وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ اسی طرح یگانگیت کامظاہرہ کرتے ہیں۔ ہاں حکمت کے ساتھ اورغیرمحسوس طریقے سے ان میں یہ احساس ضرور پیداکریں کہ والدین کی ساری محنت دوڑ دھوپ، اپنا سکھ چین وآرام قربان کرکے مصیبتیں اٹھانا تکلیفیں جھیلنا صرف انہیں کی خاطر ہے۔
یہ نکتہ بھی نہایت قابل غور ہے کہ جوبچے پچپن میں اپنی ماں کے ساتھ ان کے باپ، دادا، دادی ، پھوپھی وغیرہ کے مظالم اورنارواسلوک دیکھتے ہیں ان کے ذہنوں میں بھی غم وغصہ اور نفرت اورانتقام کے جذبات پنپنے لگتے ہیں جو ان کی تربیت کے ضمن میں سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بچوں کے بگاڑ کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اکثر بچوں سے صرف ان کے والدین اور نہایت قریبی عزیز ہی محبت کرتے ہیں۔ باقی دیگر رشتے دار و پڑوسی ان سے محبت تو درکنار انہیں پیار کی ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیںکرتے۔ ان لوگوں کے ایسے رویے بھی بچوں میں نفرت و کشیدگی پیداکردیتے ہیں۔ کیوں کہ بچے نہایت حساس پھول ہوتے ہیں جو پیار کی ایک نظر کے بھوکے ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک سے محبت مانگتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج لوگوںکے دلوں میں دوسروں کے لیے محبت تو درکنار رائی برابر ہمدردی کے جذبات بھی پیدانہیں ہوتے۔ کیوں کہ آج کے بڑے ہی کل کے بچے تھے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کو بھی محبت کی نظر سے دیکھیں انہیںبھی جنت کے پھول سمجھیں۔
بچے دوست یا سہیلیوں کی محبت نہ ملنے سے بھی محرومی محسوس کرنے لگتے ہیں اور برے دوستوں یا سہیلیوں کی محبت بھی انہیں بگاڑ دیتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو اچھے بااخلاق اور دیندار بچوں کو دوست بنانے کی ترغیب دیں۔ ہوسکے تو نشان دہی بھی کریں۔ ساتھ ہی ان کے دوستوں کو بھی اچھی نظر سے دیکھیں۔ ان سے بھی محبت کریں۔ اور وقتاً فوقتاً ان کی چائے،ناشتے ، کھانے سے تواضع کریں۔ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا بھی خیال رکھیں اور اپنے بچوں کوبگڑے ہوئے بچوں کی محبت سے بچائیں۔
﴿جاری﴾
مشمولہ: شمارہ اپریل 2013