موجودہ زمانہ میں ترقی یافتہ قومیں تعلیم وتربیت کو اتنی اہمیت دیتی ہیں کہ تاریخ عالم کے کسی دورمیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آج کے بچے کل قوم بنیں گے۔ ضرورت ہے کہ ان کی تربیت کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیاجائے ، کیونکہ اطفال کی تربیت دوسرے لفظوں میں پوری قوم کی تربیت ہے ۔
بچوں کی تعلیم
بچوں کی تعلیم میں لازم ہے کہ معلم ان کے حالات ،رجحانات ،میلانات اورنفسیات کا خیال رکھے ۔ مدرس کو چاہیے کہ وہ شاگر د کی نفسیات سے آشنا ہو، صلاحیتوں سے واقف ہو ، جس سوسائٹی میں رہ رہاہے اسے جانتا ہو ۔ جس ماحول میں اس نے پرورش پائی ہے اسے پہچانتا ہو ۔ اتنی معلومات حاصل کرنے کے بعدمعلم اس قابل ہوگا کہ وہ شاگر دکی سرشت سے اچھی طرح واقف ہوجائے اوراسے وہ چیزیں بتائے جنہیں وہ آسانی کے ساتھ اپنے دل ودماغ میں بیٹھالے ۔ پھر آسانی کے ساتھ وہ غلط ونامناسب امور سے بچوں کو دور رکھ سکتا ہے ، شرط یہی ہے کہ وہ ان کے اخلاق ، شخصیت اورمزاج سے واقفیت پیداکرے ۔ اوران کی کوتاہیوں پر نظر رکھے ۔
بچوں کی تربیت
بچے کو تعلیم دینے کے ساتھ اصلاح وتربیت بھی ضروری ہے ۔ معلم کے لیے ضروری ہے کہ بچہ کی طبیعت اوراس کی عقلی استعدادسے واقف ہو ۔ وہ اس سے باخبر ہو کہ بچے کس بات کو پسند کرتے ہیں اورکسے ناپسند ۔ بچہ کی تربیت آسان کام نہیں ۔ اس کے لئے صبر اورغوروفکر کی ضرورت ہے ۔ دوراندیشی اوراحتیاط سے کام لینا ہوتا ہے ۔ اگر چوک ہوئی تو بچہ بگڑسکتا ہے بچہ کی تربیت تعلیم سے زیادہ اہمیت اختیارکرچکی ہے ۔ بغیر صحیح تربیت کے علم کچھ بھی سود مند نہیں ہوسکتا ۔ بنیاد اوراساس تربیت ہی ہے۔
بچوں کی نگرانی
بچوں اورشاگردوں کو اس طرح آزادی ملنی چاہئے کہ وہ یہ شکایت نہ کریں کہ کوئی ان کے سرپر مسلط ہے ۔ وہ اطمینان ودل جمعی کے ساتھ اپنا کام کریں ، اگر بچہ کو کام کی فرصت نہ دی جائے اوراسے موقع نہ عطاکیا جائے تو وہ صحیح طور پر اپنا کام انجام نہیں دے سکتا ۔ یہ اعتمادگھر اورباہر ہر جگہ ہونا چاہئے ۔
احتیاط
بچے کو برے ساتھیوںبرے ماحول بری صحبت اورفاسدخیالات سے دوررکھنا ضروری ہے ۔ بچہ بہت جلد کسی چیز کا اثر قبول کرتا ہے ۔ اگر اس کو بری عادات واخلاق سے دورنہ رکھا گیا اوراس کی دیکھ ریکھ مناسب نہ ہوئی تو پھر اس کے ذہن پر برے اخلاق کا غلبہ ہوگا جس کی اصلاح مشکل ہوگی۔ بچوں کو بری صحبت ، ماحول اوربرے ساتھیوں سے دوررکھنا ہر استاذ اورماں باپ کا فرض ہے ۔ قرآن مجید میں ہے :
وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُہٗ بِـاِذْنِ رَبِّہٖ۰ۚ وَالَّذِيْ خَبُثَ لَا يَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا (اعراف : ۵۸)
’’ اورجو ستھری زمین ہوتی ہے اس کی پیداوار اللہ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اورجو خراب ہوتی ہے تو اس کی پیداوار ناقص ہی ہوتی ہے ‘‘۔
اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’صرف مؤمن کی ہی صحبت اختیار کرو اورتیرا کھانا صرف پرہیز گار ہی کھائے ‘‘۔(۱)
آپ ﷺ نے بری صحبت کے نتائج سے آگاہ کیا :
’’اچھے اوربرے دوست کی مثال خوشبو اٹھانے والے عطار اوربھٹی پھونکنے والے لوہار کی ہے ۔ عطار یا تو تمہیں عطر ہدیہ کرے گا یا پھر تم اس سے عطر خریدوگے یا اس کی خوشبو سے تمہارا مشام جان معطر ہوگا اوربھٹی پھونکنے والا تمہارا کپڑا جلائے گا یا اس کی بدبودار ہواؤں سے تمہاری ناک میں دم ہوگا ‘‘۔ (۲)
قیامت کے دن بری صحبت کے نتائج پر انسان کف افسوس ملے گا ۔ ارشاد خداوندی ہے :
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْہِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا۲۷ يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا۲۸ لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِيْ۰ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۲۹ (فرقان : ۲۷۔۲۹)
’’اورجس روز ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گا اورکہے گا کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا ۔ ہائے افسوس میری کم بختی ۔ کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس کے بہکاوے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی ۔ شیطان تو انسانوں کو دغادینے والا ہے ‘‘۔
اچھا ماحول
بچوں کیلئے اچھا ماحول ۔ اچھی تربیت گاہ اورصالح دوستوں کا مہیا کرنا ضروری ہے ۔ بچہ اپنے ماحول اوردوستوں کی حرکات وسکنات کی نقل اتارتا ہے ۔ اس لئے بچوں کیلئے اچھے ساتھیوں اوراچھے ماحول کا ہونا ضروری ہے ۔ بچوں کی جسمانی اورنفسیاتی دونوںضرورتوں کا لحاظ کرنا ضروری ہے ، بنیادی ضرورتوں میں کھانا پینا شامل ہے تو بچوں کو کھانے پینے کے آداب کی تلقین کرنی چاہیے ۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے ۔ حضرت عمروبن سلمہ ؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک بچہ کی حیثیت سے حضور ﷺ کی زیر نگرانی پرورش پارہا تھا جب کھانے کے برتن میں میرا ہاتھ گردش کرتا تو مجھے آپ ﷺ اس طرح نصیحت کرتے :
’’اے بچے !بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اوروہی کھاؤ جو تمہارے قریب ہے ‘‘۔ (۳)
اسی طرح طہارت وپاکیزگی اوراسلامی آداب کی تعلیم بچوں کو دینا ضروری ہے ۔ چنانچہ آپ ﷺ بچوں سے نہایت شفقت اورلطف و کرم سے پیش آتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ایک مجلس میں حضرت حسن ؓ کو بوسہ دیا تو ایک صحابی رسول نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میرے پاس دس بچے ہیں ، میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :
’’جورحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیاجاتا ‘‘۔ (۴)
بچپن کی تربیت ، جوانی اوربڑھاپے تک قائم رہتی ہے ۔ تربیت کا تقاضہ ہے کہ علم کے ساتھ عمل کی قدرت بھی حاصل ہوجائے ، بصارت کے ساتھ بصیرت بھی ہو ، دوراندیشی کا جوہر کار فرما ہو ، نیک اورپاکیزہ عادتیں جزوزندگی بن جائیں ۔ کردار میں استحکام ہو ، خوشی وغم میں انسان بے قابو نہ ہو ، امانت ودیانت کا لحاظ کرے ۔ صحت کی فکر ہو ، معقول بات کو مان لینے کی عادت ہو ، ضمیر کی رہنمائی میں چلنے کی سکت ہو ۔ صرف اسی طرح متعلم اپنے علم سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔
حوالہ جات
۱۔ سلیمان بن اشعث ، سنن ابوداؤد ، کتاب الادب ، باب من یؤمر ان یجالس
۲۔ محمد بن اسماعیل ، بخاری شریف ، کتاب الذبائح والصید، باب المسک
۳۔ محمد بن یزید القزوینی ، سنن ابن ماجہ ، کتاب الاطعمۃ ، باب الاکل بالیمین
۴۔ محمد بن اسماعیل ، بخاری شریف ، کتاب الادب ، باب رحمۃ الناس والبہائم
مشمولہ: شمارہ مارچ 2019