اسلامی شریعت میں بچوں کے حقوق

ڈاکٹر انعام اللہ اعظمی فلاحی

بچے اللہ کی نعمت ہیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے:   لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ(سورة الشورى 49-50)

’’اللہ  زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہےجسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملاکر دیتا ہےاور جسےچاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور ہرچیزپرقادرہے‘‘۔

بچے والدین کےلئے اللہ کی عطا کردہ امانت ہیں اور یہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتے ہیں، انہیں مومن یا کافر، نیک یا بدکار، صالح یافاسق بنانے میں والدین کا بڑا کردار ہوتا ہے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:   ’’ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)

بچے آنکھوں کا نور، دل کا سرور ہوتے ہیں اللہ نے انہیں آزمائش قرار دیا فرمان باری تعالی ہے:إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ(سورةالطلاق15) ’’يقيناً تمہارا مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں‘‘۔دوسری جگہ ارشاد فرمایا:  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُم(سورةالطلاق14) ’’اے اہل ایمان تمہاری بیویوں اور تمہارے اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں ان سے چوکنا رہو‘‘۔

اسلامی شریعت میں بچوں کے حقوق ہیں۔ جن کا ادا کرنا ضروری ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (سورة الأحزاب ٧٢)’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو اٹھانے کےلئے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اٹھالیا۔ بےشک وہ بڑا جاہل اور ظالم ہے‘‘۔

والدين كو چاہیے کہ وہ اپنے بچوںکا خیال رکھیں انکے حقوق ادا کریں ان کی بہتر ین تربیت کریں اللہ تعالی کا ارشاد ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ(التحريم 6)’’اپنے کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی  آگ سے بچاؤ جس كا ايندهن انسان اور پتھر ہیں‘‘۔ جہنم کی آگ سے اسی وقت بچا جاسکتا ہے جب انسان خود دین پر عمل پیراہو اور شریعت کی روشنی میں بچوں کے حقوق ادا کرے دینی تعلیم اور بہترین تربیت کے ذریعہ بچوں کو اسلامی احکام کا عادی بنائے ۔

شريعت اسلامی نے   بچوں کو فقرو فاقہ کے ڈر سے قتل کرنے سے منع کیا ہے  اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا(الإسراء: 31)’’اپنے بچوں کو فقرو فاقہ کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے او ر تمہیں بھی۔ یقینا انہیں قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے‘‘۔

امام ابن قیم اس کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے شریعت کے مطا بق بچوں کے حقوق ادا نہیں کیا ان کی دینی تربیت نہیں کی،صحیح تعلیم نہیں دلوائی، ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ، قرآن وسنت کے آداب نہیں سکھائے اور شریعت کا پابند نہیں بنایا تو یہ بھی قتلِ اولاد میں داخل ہے۔  مشاہدہ میں یہ بات آتی ہے کہ والدین نے اولادکے حقوق کما حقہ ادا نہیں کئے تو اولاد بھی اُ ن کے حقوق صحیح سےادا نہیں کرتی ہے ۔  بچوں کے حقوق ادا کرنا والدین پر واجب ہے ان کی اسلامی تربیت بہت ضروری ہے تاکہ بچوں کی دنیا وآخرت دونوں سدھر جائے۔

تاریخ کا مشہور واقعہ ہے ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اپنے بیٹے کی نافرمانی اور بد سلوکی کی شکایت کی  ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے  اس کے بیٹے کو بلاکر تنبیہ کی کہ دوبارہ ایسامت کرنا وہ لڑکا کہنےلگا  اے امیر المومنین آپ نے ہمیں ہمارے حقوق بتادیئے لیکن کیا والدین کے بچوں پر کچھ حقوق نہیں ہیں تو امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے فرمایاکیوں نہیں نیک ماں کا انتخاب کرنا اچھے نام رکھنا اور قرآن کی تعلیم دینا بچوں کے حقوق میں سےہے تو وہ لڑکا بولا  میرے باپ نے ان میں سے کوئی حق نہیں ادا کیا اس نے بدچلن مجوسی عورت سےشادی کی میرا خراب نام رکھا اور مجھے ایک حرف کی تعلیم نہیں دی تو عمربن خطاب اس کے باپ سے مخاطب ہوئے  اور کہا  تومیرے پاس اپنے بچےکی بدسلوکی کی شکایت کرتا ہے جب کہ تونے پہلے اس کے  ساتھ بدسلوکی کی اور اپنے حقوق ضائع ہونے سے پہلے ہی تو نے اپنے لڑکے کے حقوق ضائع کیے۔

اسلامی شریعت میں بچوں کے حقوق  یہ ہیں ۔

پیدائش سے پہلے بچوں کے حقوق

۱- صالح شوہر اور صالح بیوی کا انتخاب کرنا

خاندان، شوہر بیوی اور بچوں سے عبارت ہے یہ معاشرہ کا پہلا زینہ ہے جب شوہر بیوی صالح ہوں گے تو اسلامی شریعت کے مطابق بچوں کے حقوق ادا کریں گے۔خاندان کی ابتدا شادی سے ہوتی ہے۔ مرد کو چاہئے کہ وہ اپنے لئے نیک بیوی کا انتخاب کرےاسی طرح بچیوں کے والدین کوچاہئے کہ وہ ان کےلئے نیک شوہر کا انتخاب کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمہارےپاس کوئی دیندار اور بااخلاق شخص  شادی کا پیغام لےکر آئے تو اپنی بچیوں کو اس کی زوجیت میں دےدو ایسا نہ کرنے کی صورت میں زمین میں فتنہ وفساد برپا ہوجائےگا‘‘۔(ترمذی حدیث 1085)شارح ترمذی شیخ مبارکپور ی اس حدیث کی تشریح میں رقمطراز ہیں:  اگر والدین دیندار صالح اور بااخلاق لڑکوں سے اپنی بچیوں کی شادی نہیں کریں گے صرف خاندان خوبصورتی اورمالداری کی بنیاد پر شادی کریںگے تو ہوسکتاہے کہ اکثر عورتوں کی شادی نہ ہو اور اکثر مرد بغیر بیویوں کے رہیں جس کے نتیجے میں زنا عام ہوجائےگا لوگوں کے نسب کا علم نہیں ہوسکےگا بےحیائی عام ہوجائےگی اورزمین میں فتنہ وفساد برپا ہوجائےگا۔ (تحفة الأحوذي ج4/173)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک بیوی کے اوصاف میں ارشاد فرمایا: ’’عورت سے نکاح چار اسباب سے کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندان کی وجہ سے، اس کے حسن وجمال کی وجہ سےاور اس کے دین کی بنا پر، پس تجھے دیندار کو حاصل کرنا چاہیے ‘‘۔ (متفق علیہ) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کامیاب زندگی اس شخص کی ہوگی جس کے گھر میں دیندار بیوی آئے۔ ایک دوسری حدیث میں آپ صلی  اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:   ’’مومن نے اللہ تعالی کے تقوی کے بعد نیک بیوی سے زیادہ بہتر چیز حاصل نہیں کی، اگر وہ اسے حکم دیتاہے تو اس کی اطاعت کرتی ہے اگر اس کی طرف دیکھتا ہے تو اسے خوش کردیتی ہے  جب وہ اس کی تائید  کےبھروسے  پر قسم کھالیتاہے تو وہ اس کی قسم پوری کرنے میں مددکرتی ہے او رجب وہ اس سے غیر حاضر ہو تو اس کے مال اور اپنے آبرو کی حفاظت کرتی ہے‘‘۔ (ابن ماجہ رقم 1857)ايك اور حديث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:  ’’ساری دنیا سامان زندگی ہے اور اس متاع دنیا میں سب سے بہتر نیک عورت ہے‘‘۔

۲- دعا کا اہتما م کرنا

بیوی سے جماع کے وقت خاص دعا کی تلقین کی گئی  ہے جس کا اہتمام ہر مسلمان کو کرنا چاہئےرسول اللہ  ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جماع کی نیت سے آئے تو  یہ دعا پڑھے:’’اللہ کے نام سے ، اے اللہ ہم کو شیطان سے بچا اور شیطان کو ہماری اولاد سے دور رکھ‘‘۔ (متفق علیہ) رسول الله صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس دعا کو پڑھ لینے کے بعد اگر اللہ تعالی نے انہیں اولاد عطا فرمائی تو وہ شیطانی اثرات سے  پاک ہوگی۔

اسی طرح ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ شادی کے بعد  اللہ تعالی سے نیک اولاد کے لیے  دعائیں مانگےرَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان ٧٤)’’ اے اللہ میری بیویوں اور میری اولا د کو میری لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنا ‘‘۔

قرآن کریم  سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاءکرام نے اللہ تعالی سے دعائیں مانگیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا مانگی: رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ (الصافات 101,100)’’اے اللہ مجھے نیک اور صالح اولاد عطا فرما ہم نے انہیں نہایت صبر والے لڑکے کی بشارت دی‘‘۔ اس دعا کے نتیجے میں اللہ تعالی نے انہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں مطیع وفرمانبردار لڑکا عطا کیا۔حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا مانگی : رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ (آل عمران38) ’’ميرے پروردگار مجھے اپنے پاس سے ایک پاکیزا اولاد عطا فرما بے شک تو دعائیں سننے والا ہے‘‘۔

حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ ماجدہ  جب حاملہ ہوئیں انہوں نے اسی وقت سے نذر مانی کہ وہ ہونے والی اپنی اولاد کو اللہ کے نام پر بیت المقدس کی خدمت کےلئے وقف کردیںگی۔ ارشار بانی ہے:

’’جب عمران كی عورت نے کہا: ’’اے میرے پروردگار میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں وہ تیرے ہی کام کے لئے وقف ہوگا میری اس نذر کو قبول فرماتو سننے اور جاننے والا ہے۔ جب انہوں نے اس بچی کو جنم دیا تو کہا ’’مالک! میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہو گئی ہےحالانکہ جو کچھ اس نے جنا تھا، اللہ کو اس کی خبرمخفی اور لڑکا لڑکی کی طرح  نہیں ہوتا۔ ، میں نے اس کا نام مریم  رکھ دیا ہے اور میں اسے اور اس کی آئندہ نسل کوشیطانِ مردود کے فتنے سے تیری پناہ میں دیتی ہوں‘‘۔ آخر کار اس کے رب نے اس لڑکی کو قبول فرما لیا۔ اُسے بڑی اچھی لڑکی بناکر اُٹھایا اور زکریّا کو اس کا سرپرست بنادیا ۔ زکریاجب کبھی اس کے پاس محراب میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا۔ پوچھتا مریم ! یہ تیرے پاس کہا ں سے آیا؟  وہ جواب دیتی اللہ کے پاس سے آیا ہے۔ اللہ جسے چاہتاہے بے حساب  دیتا ہے‘‘۔

(آل عمران35-37)

پیدائش کےبعد بچوں کے حقوق

۱-نئے بچہ کی ولادت پر خوشی کا اظہار

مسلمان کے لئے مستحب ہے کہ نئے بچہ کی آمد پر دوسرے مسلمان بھائیوں کو خبر دے اس سے آپسی محبت والفت بڑھتی ہے۔قرآن کریم میں متعدد مقامات پر نئے مولود کی خوشخبری دی گئی ہے  ۔ ارشاد باری تعالی ہے: فَنَادَتْهُ الْمَلائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِنَ اللَّهِ(آل عمران39)’’فرشتوں نے آواز دی جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑہ رہا تھا کہ: ’’اللہ تجھے یحیی کی خوشخبری دیتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے ولا بن کر آئے گا‘‘۔

بچہ اور بچی دونوں کی پیدائش کے وقت خوشی کااظہارہونا  چاہئے ایسا نہ ہو کہ بچہ کی پیدائش پراس کی خبر دی جائے اور بچی کی پیدائش پر چہرےپرمنحوسیت چھاجائے جیسا کہ دور جاہلیت میں عام بات تھی وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (النحل 58-59)’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر منحوسیت چھاجاتی ہے اور وہ بس خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے لوگوں سے چھپتا پھر تا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے ۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لئے رہے یا مٹی میں دبا دےیہ لوگ کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں‘‘۔یہ کفار ومشرکین کی حالت ہوتی ہے یا ان لوگوں کی جو اسی طرح کا مزاج رکھتے ہیں۔

2- كان میں اذان کہنا

پیدائش کے بعد بچہ کے دائیں کان میں اذان دیں اور بائیں کان میں اقامت کہیں جیسا کہ حدیث میں ہے:  ’’ ابورافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے کان میں جب وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے پیدا ہوئے نماز کی اذان جیسی اذان کہی‘‘۔(ابوداؤد/ترمذی وقال حسن صحیح)

امام ابن قیم لکھتے ہیں کہ دنیا میں آنے کے بعد بچہ کے کان میں سب سے پہلے رب العالمین اور کلمہ شہادت کی صدا گونجے یہ گویا اس کے دنیا میں آنے کے بعد شہادتین کی تلقین ہے جیسے کہ اس وقت شہادتین کی تلقین کی جاتی ہے جب ایک مسلمان دنیا سے آخرت کے سفر پر روانہ ہوتا ہے۔اس میں اللہ تعالیٰ کاذکرہے  ا س کے دین کی دعوت ہے اور عقیدۂ توحید کی تلقین ہے یہ اس لئے ضروری ہے کہ شیطان اذان کے کلمات سن کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے، وہ اس کی ولادت کے انتظار میں کھڑا رہتا ہے تاکہ جونہی وہ پیدا ہو تو اس کو چھوئے، اور شیطان اذان کے کلمات سنتا ہے تواسے ناگوار گزرتا ہے توگویا یہ اذان شیطان اور نفسانی خواہشات کوبچے سے دور رکھنے کا اہتما م ہے جب بچہ اس دنیا میں قدم رکھتاہے‘‘۔ (تحفة المولود ص31)

3- تحنیک

تحنیک (گھٹی) کا مطلب کھجور کو اچھی طرح چباکر بچہ کے منہ میں ڈالنا اور ہونٹوں پر رگڑنا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی صالح شخص کے پاس بچے کو لے جایا جائے اور اس کے ذریعہ تحنیک اور برکت کی دعا کرائی جائےاور نام رکھوایا جائےاگر کھجور نہ ملے تو کسی میٹھی چیز سے تحنیک کرائی جا سکتی ہے۔ تحنیک سنت سے ثابت ہے: ’’ حضرت موسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے یہاں لڑکا ہوا میں اسے رسول اللہﷺ کے پاس لیکر گیاآپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا کھجور سے اس کی تحنیک کی اور اس کے لئے برکت کی دعا کی پھر میرے حوالہ کیا‘‘۔(بخاری5467 مسلم2145)

’’اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچوں کو لایا جاتا تھا تو آپ ﷺ ان کے لئے برکت کی دعاء کرتے اور انہیں گھٹی دیتے تھے۔ چنانچہ ایک بار ایک بچے کو لایاگیا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر پیشاب کردیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگایا اور پیشاب کی جگہ پرچھینٹا مار دیا اور اسے دھویا نہیں ‘‘۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے نومولود بچوں کو لاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں گھٹی دیتے تھے ۔

4- بچوں کا بہترین نام رکھنا

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:  ’’سب سے بہترین نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں‘‘۔ (احمد)

اسلام نے برا نام رکھنے سے منع کیا ہے کیونکہ انسان برے نام سے تکلیف محسوس کرتا ہے جب کہ اچھے نام سے خوش ہوتا ہے کیونکہ اس میں انبیاء اور صالحین کی اقتداء ہے۔

۵- سر منڈانا

بچہ پیدا ہونے کے ساتویں روز بچے کے سر کے بالوں کو منڈا کر چاندی کے برابر تول کر اس چاندی کو صدقہ و خیرات کرناسنت ہے: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے حسن رضی اللہ عنہ کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح کی ۔اور فرمایا اے فاطمہ رضی اللہ عنہا! اس کا سر منڈاؤ اور اس کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کردو سو انہوں نے بالوں کا وزن کیا تو وہ ایک درہم کے برابر، یا کچھ کم نکلے ۔جس کے برابر چاندی صدقہ کر دی گئی‘‘۔(ترمذی 1519وقال حسن غریب)

6- عقیقہ

اسلام نے بچے کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کو مشروع قرار دیا ہےاگر کسی کے پاس استطاعت ہو تو پیدائش کے ساتویں دن لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرے۔ اس میں فقراء ومساکین ، اقارب اور نیک لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے جس سے مسلمانوں کے درمیان ربط محبت اور بھائی چارگی بڑھتی ہے اور بچہ سے مصیبت دور ہوتی ہے ۔ عقیقہ کرنا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام سے صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے :

’’حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ’’لڑکے کے لئے عقیقہ ہے ،سو اس کی طرف سے جانور کی قربانی دو اور گندگی  (سر کے بالوں )  کو صاف کرو ‘‘۔ (بخاری:5471)

’’سمره رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ہونے تک گروی رکھا ہوا ہے۔ساتویں روز اس کی طرف سے کوئی جانور ذبح کیا جائے اور اسی دن اس کا نام رکھا جائے اور اس کے بالوں کو مونڈ دیا جائے‘‘۔(ترمذی 1522)

حضرت ام کرز الکعبیہ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’لڑکے کی جانب سے دو ہم عمر بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ہے عقیقہ کے جانور چاہے بکرے ہوں یا بکریاں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا‘‘۔(احمد وترمذی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ‘‘لڑکے کی جانب سے دو ہم عمر بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ہے‘‘۔(احمد وترمذی)

ساتویں دن عقیقہ کرنا مستحب ہے اگر ساتویں دن ممکن نہ ہو چودہویں اور اکیسویں دن بھی جائز ہےاگر کوئی پیدائش کے چوتھے، یاآٹھویں،  یا دسویں دن ، یا  اس کے بعدبھی عقیقہ کرتا ہے تو بھی   درست ہوگا۔

7- ختنہ

ختنہ لغت میں اس زائد چمڑی کو کاٹ دینے کہتے ہیں جو مرد کے عضو تناسل کے سرے پر ہوتی ہے۔ ختنہ کرنا سنت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  ’’فطری امور پانچ ہیں یا پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں ختنہ کرنا اور زیر ناف کے بال مونڈنا اور ناخن کاٹنا اور بغل کے بال اکھیڑنا او رمونچھ کاٹنا‘‘۔(متفق علیہ)ختنہ  ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی سال کی عمر میں اپنا ختنہ کروایا‘‘۔(متفق علیہ)

8- نفقہ

جب تك بچے باپ کی کفالت میں ہوں ان کا  نان نفقہ اور مالی ذمہ داری باپ پر واجب ہے چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’آدمی کو گناہ گار بنا دینے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ اپنی یا اپنے متعلقین کی روزی کو ضائع کردے‘‘۔ (ابوداود)

9- رضاعت

بچے کو شیر خوارگی کے زمانے میں دودھ پلانا بھی ضروری ہے ۔کیونکہ ارشاد اِلٰہی ہے:وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (البقرة 233)’’جو باپ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد پوری مدت رضا عت تک دودھ پئے ۔تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں اس صورت میں اس کے باپ کو معروف طریقے سے انہیں کھانا کپڑا دینا ہو گا‘‘۔

اسلام نے یہ بھی اجازت دی ہے کہ والدہ کے علاوہ دوسری عورت بھی بچہ کو دودھ پلا سکتی ہے۔ ماں بیماری اور نقاہت کی صورت میں بچے کی عام دودھ سے نشو و نما بھی کر سکتی ہے۔بہر حال مقصد بچے کو معینہ عرصہ تک دودھ پلانا ہے ،تاکہ اس کی مناسب نشو و نما ہو ۔مندرجہ بالا آیت کی رو سے شیر خوار گی کی مدت دو سال ہے اگر بچہ خدا نخواستہ ماں اور باپ دونوں سے محروم ہو جائے تو اس کے ورثا کو دودھ پلانے کا انتظام کرنا چاہیے ۔

10- بچوں کے درمیان انصاف کرنا

بعض بچوں کو بعض پر ترجیح دینے سے نفرت، حسد اور بغض جیسی بیماری پیدا ہوتی ہے جو خاندانی تعلقات کو خراب کرتی ہے جس کی اسلام نے بڑی حفاظت کی ہے۔اسلام نے عدل کاحکم دیا ہے:  ’’نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد ان کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا:’’میں نے اس لڑکے کو ایک غلام دیا ہے ‘‘ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم نے سارے لڑکوں کو اسی طرح دیا ہے‘‘؟ انہوں نے کہا :نہیں، پھر آپ نے فرمایا:’’تم اپنا عطیہ لوٹالو‘‘۔(متفق علیہ)

دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’كيا تم نے اپنے تمام لڑکوں کے ساتھ ایسا کیا ہے انہوں نے کہا نہیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف سے کام لو پھر میرے باپ نے وہ عطیہ لوٹا لیا‘‘۔(مسلم1623)

11- بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت

بچوں کو صحیح تعلیم وتربیت دینا والدین کی ذمہ داری ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:   ’’اللہ تعالی ہر نگراں سے اس چیز کے متعلق پوچھے گا جس کا اسے نگران بنایا کہ اس نے اس کی حفاظت کی یا برباد کیا‘‘۔(ترمذی)

12- حلال رزق سے بچوں کی  پرورش

رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا:’’قیامت کے دن بندے کے قدم اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک کہ اس سےچار چیزوں کے بارے میں سوال کرلیا جائے عمر کس چیز میں لگائی، علم جو سیکھا تھا کتنا عمل کیا، مال کہاں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا، او رجسم کہاں فنا کیا‘‘۔(ترمذی)

لہٰذا بچوں کو حلال کمائی کی حلال غذا مہیا کرائی جائے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن  ابی وقاص سے فرمایا ’’اپنا کھانا حلال کرلو تمہاری دعا قبول ہوگی‘‘۔

13- بچوں کو نماز کا عادی بنانا

ارشاد ربانی ہے:وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى(طه132)’’الله تعالی فرماتا ہےاپنے اہل وعیال کو نماز کی تلقین کرو او رخود بھی اس کے پابند رہو ہم تم سے کوئی رزق نہیں چاہتے رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں او رانجام کی بھلائی تقوی ہی کےلئے ہے ‘‘۔اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہوجائیں تو ان کو مارو  اگر وہ نماز نہ پڑھیں اور ان کے بستروں کو الگ کردو‘‘۔(ابوداود495)

لہٰذا باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو نماز کا عادی بنائے اور سب سے بہتر  یہ ہے کہ بچپن سے ہی بچوں کو مسجد اور عیدگاہ  ساتھ لے جائے جس سے بچے خود بخود نماز کے عادی ہوجائیں گے۔

14- بچوں کو روزے کا پابند بنانا

جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ بلوغت سے پہلے بچوں کو روزے کی مشق کرانا اور اس کی عادت ڈالنا مستحب ہےبخاری کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کی صبح میں اعلان کیا کہ جو لوگ رزے سے ہوںوہ روزہ مکمل کرلیں  اور جو روزے سے نہیں ہیں وہ  دن کے باقی حصے میں روزہ رکھیںیہ سننے کے بعد صحابہ کرام نے روزہ رکھا اوران کے بچوں نے بھی روزہ رکھا اور وہ لوگ مسجد گئے ۔ اگر کوئی بچہ بھوک کی وجہ سے رونے لگتا تو اسے کھانا دے دیا جاتا اور یہ معاملہ افطار کے وقت تک چلتا رہا ۔

حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی شرح میں لکھا  ہے کہ اس حدیث سے  بچوں کو روزے کی عادت ڈالنے کی مشروعیت  کا ثبوت ملتا ہے۔

15- لڑکیوں کو پردے کی تعليم

والدين كی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لڑکوں کو غیر محرم عورتوں کی طرف نظرڈالنے سے روکیں اور لڑکیوں کو غیر محرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم دیں کیونکہ اس سے ان کی عزت اور شرافت محفوظ  رہتی ہے اس سلسلے میں قرآن وحدیث کی دلیلیںموجود ہیں  اللہ تعالی فرماتا ہے: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا(الأحزاب 59)’’اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہدو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالی غفور ورحیم ہے ‘‘۔ الله تعالی نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا:وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ(الأحزاب ٥٣)’’نبی کریم ﷺ کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کےلئے زیادہ مناسب طریقہ ہے‘‘۔

اسلامی شریعت میں بچوں کے حقوق  میں سے  قرآن وسنت کی روشنی میں چند حقوق کا ذکر یہاں کیا    گیاہے ہر شخص کو بچوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرنی چائیے کیونکہ غفلت برتنے کی صورت میں ان کی دنیا وآخرت کی بربادی کااندیشہ ہے۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2018

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau