قوموں کی تاریخ اور ان کی عقلی و روحانی تحریکوں کی نشوونما اور عروج و زوال کے اسباب میں حیرت انگیز حد تک مشابہت اور مماثلت ہوتی ہے۔ جس طرح مسلمانوں میں دوسری صدی ہجری میں تصوف وجود میں آیا، بعینہٰ اسی طرح عیسائیوں میں دوسری صدی کے دوران ‘عارفین’ کا فرقہ وجود میں آیاتھا۔ اس فرقے سے وابستہ لوگ غورو فکر اور مراقبے پر زور دیتے تھے، ان کا عقیدہتھاکہ غورو فکر اور مراقبے سے انسان کو وصال الٰہی حاصل ہوتاہے اور اس طرح اسے خدا کے ساتھ مل کر اتحاد اور وصل کی نعمت نصیب ہوتی ہے۔ تارک الدنیا عارفین کائنات میں قوائے ربوبیت کو مسیح کا نام دیتے تھے اور ان میں سے جن لوگوں کو گمان ہوتاتھاکہ ہم نے نظام عالم کی تمام قوتوں اور طاقتوں کو سمیٹ لیاہے، وہ ‘انا المسیح’ کا دعویٰ کرتے تھے۔ عارفین کا خیال تھا کہ انھیں ماورا الادراک حقیقتوں کا عرفان حاصل ہے۔ (History of christianity London 1929 pp434-440.)
یہی دعویٰ مسلمان صوفیہ نے بھی کیاہے کہ وہ معرفت کی دولت سے مالامال ہیں۔ عارفین کافرقہ وجود میں آیا تو رہبانیت نے عیسائی مذہب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
عیسائی مذہب کے اندر رہبانیت پیدا ہونے کے دو اسباب تھے۔ ایک یہکہ عیسائی علمائ نے دنیا کے ساتھ سمجھوتا کیاتھا اور دوسرا سبب یہ کہ دین کے حاملین نے مذہب کو بطور پیشہ دنیا کمانے کاذریعہ بنایا۔ رہبانیت اس بگڑتی صورت حال کے خلاف صدائے احتجاج تھی۔یہ تحریک اپنے وجود اور نشوونما کے لیے چرچ کی بالکل محتاج نہیں تھی۔ مصر کے صحرائوں میں اس کی ابتدا ہوئی، جہاں ایک نوجوان سینٹ الظوفی نے اپنا گھر بار چھوڑکر رہبانیت اختیار کی۔ ایک مدت تک وہ ویرانوں اور کھنڈروں میں گھومتا رہا بالآخر اس نے مشرقی نیل کے نزدیک بحراحمر کے قریب جبل قلزم پر پانی اور سایہ والی جگہ پر گوشہ نشینی اختیار کرلی:
(Edward Gibbon, The Decline and Fall of the Roman Emipre, New York, vol.2nd.p.361.)
مصر کے بعد اس تحریک نے فلسطین اور شام کا رخ کیا۔ سینٹ ہلاریون ﴿م۳۲۸﴾ نے فلسطین میں رہبانی نظام کی بنیاد ڈالی، میلان میں سینٹ ایمبروس نے ایک خانقاہ قائم کی اور سینٹ آگسٹاین نے افریقہ میں اس تحریک کو تقویت بخشی۔﴿History of christianity,p.496﴾
سینٹ جروم نے فلسطین میں رہبانیت کو فروغ دیا۔﴿History of christianity,p.496﴾
سینٹ پاش میوس ﴿م۳۴۶﴾ نے پہلا سلسلہ قائم کیا۔﴿History of christianity,p.496﴾
اس وقت تک راہب کسی سلسلے سے وابستہ نہیں ہوتے تھے۔ سینٹ بینڈکٹ نے روم اور نیپلز کے درمیان اپنی خانقاہ قائم کی ہے اور ۹۲۵ئ میں اس نے اپنا مشہور نظام تیارکیا، جس میں رہبانیت کے اصول وضوابط طے کیے گئے۔﴿History of christianity,p.509.﴾
ایک مورخ کے بقول رہبانیت کی تحریک وبا کی طرح پھیل گئی۔ صرف مصر میں ۶۷ ہزار راہب اور ۷۲ ہزار راہبات تھیں۔
John william Draper, A History of the Intellectual Development of Europe,
London 1891, vol: 1st p.432
سینٹ پاش میوس نے چوتھی صدی عیسوی کے آخر میں اپنا سلسلہ قائم کیا تو ایک مختصر مدت میں ان کے پیروکاروں کی تعداد سات ہزار تک پہنچ گئی۔
William Edward Hartpole lecky, History of European Morals, London 1930, vol, 2nd.p.45.
مصر میں ہی ایک بڑے راہب کی ماتحتی میں پانچ ہزار راہب تھے۔مصر کا ایک شہر تیس ہزار کنواری راہبات اور دس ہزار راہبوں سے بھرا پڑاتھا۔سینٹ جروم ﴿م ۵۴۳ئ﴾ کے عہد میں ایسٹر کے مواقع پر پچاس ہزار راہب جمع ہوئے تھے۔Hisory of European morals, vol.2nd.p.45.
رہبانیت نے معاشرے کے ہر طبقے کو بُری طرح اپنی گرفت میں لیا۔ عورتیں، کسان، مزدور، امرائ اور شرفائ سب ایک ہی کشتی پر سوار ہورہے تھے۔ مائیں باپ کی عدم موجودگی میں اپنے بچوں کوراہبانہ زندگی گزارنے کے لیے رہبانوں کے حوالے کرتی تھیں۔ امرا اپنی دولت کو راہبوں کے سپرد کرکے خانقاہی نظام کو ترجیح دیتے اور غریب اپنی غربت اور افلاس سے تنگ آکر راہب بنتے تھے۔ ایک دفعہ دشمن نے حملہ کیاتو لوگوں میں مشہور ہوگیاکہ دنیاکاخاتمہ قریب ہے۔ خوف کے مارے جھنڈ کے جھنڈ خانقاہوں میں جمع ہوگئے۔
ترک دنیا کرنے والے ان سادہ لوح انسانوں کی زندگی عجیب و غریب ہوتی تھی۔ وہ معمولی غذا پر گزراوقات کرلیتے تھے۔ راہب عام طورسے خشک پھل کی معمولی مقدار اور پانی استعمال کرتے تھے۔ گرم پانی کا استعمال دنیا داری کی علامت تصور کیاجاتاتھا۔ ایک راہب تیس سال تک جوکی روٹی کھاتا اور کیچڑ آلود پانی استعمال کرتارہا۔ ایک دوسرا راہب ایک غار میں رہ کر روزانہ صرف پانچ انجیرپر گزارا کرتارہا۔ ایک اور تارک دنیا سینٹ پولوس ساٹھ سال تک آدھی روٹی پر گزراوقات کرتارہا۔﴿ایضاً﴾
ایک اور راہب کو جب دوسرے راہب نے پرندے کا گوشت پیش کیا تو اس نے صاف صاف کہاکہ جب سے میں راہب بناہوں، گوشت نہیں کھایاہے۔ سینٹ سبابیوس بہ طورغذا اناج استعمال کرتے جو ایک ماہ تک پانی میں سڑکر تباہ ہوچکاہوتا۔ عراق اور شام کے ایک علاقے میں راہبوں کا ایک بڑا طبقہ ایساتھا جو جنگلی جانوروں کی طرح مادرزاد عریاںہوکر چلتاتھا۔ یہ راہب پہاڑوں اور بیابانوں میں درندوں کے ساتھ گھاس چرتے تھے اور رات کو کسی درندہ جانور کے غار میں یا کسی چٹان پر لیٹ جاتے تھے۔ راہبوں کا یہ طبقہ دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر جنگلی چوپایوںکی طرح چلتااور ان کے جسموں پر سوائے ان کے لمبے الجھے بالوں کے کوئی لباس نہیں ہوتاتھا۔ لوگ انھیں Grazers ﴿چرندے﴾ کے نام سے پکارتے تھے۔
The Decline and Fall of Roman Empire, vol.2nd.p.361.
غلاظت اور گندگی کو تقدس کی علامت اور روحانی پاکیزگی کی نشانی ماناجاتاتھا۔ راہبوں کے بدن پر میل کچیل کی وجہ سے جویں پیداہوتی تھیں، جنھیں Pearls of godکہاجاتاتھا۔ پانی کو چھونا یا بدن پر تیل کی مالش کرنا گناہ سے کم نہیں تھا۔ سینٹ جینمس کو مثالی راہب ماناگیاہے، اس نے زندگی میں نہ کبھی غسل کیا، نہ تیل کی مالش کی اور نہ زندگی بھر اس کے سرپر استرا پھیراگیا۔
History of European Morals vol.2ndp.45.history of European Morals, vol.2nd.p.47.
ایک اور راہب کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اس نے زندگی میںکبھی کپڑے نہیں دھوئے اور نہ انھیں تبدیل کیا۔ یہاں تک کہ اس کا چولاچیتھڑے بن کر ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اس کے بدن پرسے زمین پر گرگیا۔ سینٹ ابراہیم رہبانیت اختیارکرنے کے بعد بیس سال زندہ رہا۔ اس دوران اس نے نہ کبھی منہ دھویا اور نہ پیر۔راہبوں میں اس کی بزرگی کی شہرت تھی۔ اس کے چہرے کی نورانیت کو اس کے روح کی پاکیزگی کی علامت سمجھاجاتاتھا۔ سینٹ ایمن نے کبھی اپنے پیر نہیںدھوئے تھے اور پانی سے غسل کاذکر سنتے ہی ان کے بدن پر لرزہ طاری ہوتاتھا۔ ایک مشہورراہبہ ساٹھ سال تک سوائے انگلیوں کے اپنے جسم کاکوئی حصہ دھونے سے انکار کرتی رہی۔ سینٹ الیکزینڈر نے ایک دفعہ صفائی کی طرف راہبوں کے میلان پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے اسلاف نے کبھی اپنے منہ پانی سے نہیں دھوئے تھے ، لیکن آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہم حمام میں جاتے ہیں۔ایک دفعہ صحرا میںپانی کی زبردست کمی ہوئی، خانقاہ کے بڑے راہب نے دعا کی تو ایک ندی بہنے لگی، راہبوں نے اصرار کرکے بڑے راہب کو غسل خانہ بنانے پر آمادہ کیا، غسل خانہ بنا مگر جوں ہی راہبوں نے نہایادھویا، ندی خشک ہوگئی، دعائیں کی گئیں اور روزے رکھے گئے، مگر پانی ندارد۔ پورا سال گزرگیا، آخر میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ غسل خانہ کی تعمیر سے خدائی قہر نازل ہواہے۔ چنانچہ غسل خانہ مسمار کیاگیاتو ندی بہنا شروع ہوئی۔ زہد و پرہیزگاری کے باوجود علم بیزاری کامرض تھا۔ سینٹ جروم نے صاف صاف کہاکہ ایک راہب کافرض علم سکھانا نہیں، بل کہ رونا ہے۔ پورے دوسال تک نفس کشی اور مجاہدہ کو روحانیت کی معراج سمجھاگیا۔ تعذیب نفس کے نت نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔مورخین نے راہبوں کے مجاہدات کے بارے میں جو واقعات نقل کیے ہیں، انھیں پڑکر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سینٹ بیساریوں کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اس نے چالیس دن اور راتیں جھاڑوں میں گزاردیے۔ چالیس سال تک زمین پر پہلونہیں ٹیکا۔ سینٹ جان پورے تین سال تک ایک چٹان پر سرجھکائے دعا میں کھڑا رہا۔ اس دوران نہ وہ کبھی زمین پر بیٹھا اور نہ لیٹا۔ اسکندریہ کانیسٹ میکاریوس چھے ماہ تک ایک دلدل میں اس حال میں سوتا رہاکہ اس کے ننگے جسم پر زہریلی مکھیاں پوری آزادی کے ساتھ ڈنک مارتی تھیں۔ وہ ہر وقت اسّی پونڈ وزن کا لوہا اپنے جسم پر لادے رہتاتھا۔ اس کامرید ایسویس ایک سوپچاس پونڈ وزنی لوہا اپنے جسم پر اٹھائے چلتاتھا۔ اس نے پورے تین سال تک ایک خشک گڑھے میں گزارے۔Hisory of European morals, vol.2nd.p.46.
راہبوں کے نحیف وزار جسم لوہے کی صلیبوں، کنگنوں، چوڑیوں، زنجیروں اور پٹوں سے ہر وقت دبے رہتے تھے۔ جسمانی ریاضتوںکی تاریخ میں سینٹ سایمن کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ خوفناک جسمانی ریاضتوں کے عجیب و غریب طورطریقوں نے اسے رہبانیت کی تاریخ میں لافانی مقام عطا کیا ہے۔ اس نے اپنے جسم کے چاروں طرف رسی اس طرح لپیٹی تھی کہ جسم کا گوشت سڑکررسی کے اوپر آگیاتھااور رسی مکمل طورپرجسم میں دھنس گئی تھی۔ جس سے جسم سڑگیا اور کیڑے پیدا ہوئے۔ جب وہ جنبش کرتاتو کیڑے فرش پر آکر گرتے۔ جسم کے سڑے ہوئے گوشت سے پیدا ہونے والی بدبو تماشائیوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی تھی۔ کبھی کبھی وہ خانقاہ کے ایسے گڑھوں میں سوتاتھا، جو بدروحوں اورجناتوں سے آباد ہوتی تھیں۔ اس نے تین ستون بنائے تھے۔ ان میں ایک ۰۶ فٹ لمبا اور صرف دو فٹ گھیرائو کاتھا۔ زندگی کے تیس سال اس نے اس ستون پرگزارے۔ کسی بھی موسم میں وہ چاہے کتنا ہی ناسازگار کیوں نہ رہاہو، نیچے نہیں آیا۔ اس دوران وہ مسلسل کھڑے ہوکر اپنے پائوں پر جھکنے کی مشق کرکے عبادت کرتارہا۔ ایک تماش بیں نے اس کی حرکات کو گننے کا ارادہ کیا مگر ایک ہزار دوسوچوالیس حرکات کو شمارکرکے تھک ہار بیٹھا۔ پورے ایک سال تک وہ ایک ٹانگ پر کھڑا رہا، جب کہ اس کی دوسری ٹانگ پیپ دار پھوڑوں سے گھنائونا منظر پیش کررہی تھی۔ اس کے جسم کے کیڑے نیچے گرتے تھے تو انھیں اٹھاکر پھر زخموں پر رکھ دیاجاتاتھا اور سینٹ کیڑوں سے کہتے ‘کھائوخدا نے جو کچھ تمہیں دیاہے۔’
History of European Morals, vol.2nd.pp47-48.
The Decline and Fall of Roman Empire, vol.2nd.p.362.
سینٹ سائمن کو ایک مثالی راہب ماناجاتاہے۔ بہت سے راہبوں نے اس کی تقلیدکی کوشش کی ہے۔ سینٹ ہلاریون نے اسی جذبے کے تحت اپنی زندگی کے اڑتالیس سال ناقابل بیان جسمانی ریاضتوں اور مشقتوں میں گزاردیے۔ایک راہب کے بارے میںمشہور ہے کہ اس نے نوے سال تک کسی انسان کے ساتھ کلام نہیں کیا۔ اپنے آپ کو خاموشی کاخوگر بنانے کے لیے ان لوگوں نے عجیب وغریب طریقے ایجاد کرلیے تھے جو ایک انسان کے لیے ناقابل عمل اور برداشت سے باہر تھا۔History of the Intellectual Development of Europe,vol.1st.p.427.
رہبانیت میں نکاح کو ایک ایسی مضبوط زنجیر سمجھاجاتاہے، جو انسان کو دنیا کے ساتھ باندھے رکھتی ہے۔ چناں چہ رہبانوں اور سنیاسیوں میں تجرد یا ترک نکاح کو ایک مستحسن عمل سمجھا جاتاہے۔ ہندو مذہب میں ایک انسان کی زندگی کاچوتھا دور یا مرحلہ اس وقت شروع ہوتاہے، جب اس کے بچوں کی شادی ہوجاتی ہے اور وہ باپ سے دادا بن جاتاہے۔ اس مرحلے پر وہ گھرگرہستی چھوڑکر جنگل کی راہ اختیارکرلیتاہے اور وہی اپنی روح کی نجات کے لیے مراقبہ اور مجاہدہ کا عمل شروع کرکے سنیاسی بن جاتاہے۔ تاہم اس مذہب میں دوسرے مذاہب کے مقابلے میں جنسی عمل سے احتراز پر بہت کم زور دیاگیا ہے۔ بل کہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں جنس کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔
(A.L.Basham The Wonder that was India Rupa and co.1991.pp.159-160,171-173.)
بودھ مذہب میں بودھ سلسلہ سانگھ میں داخل ہوتے وقت نووارد کو دس یا اصولوں کی پابندی کا عہد کرناپڑتا ہے۔ ان میں تیسرا ترک نکاح سے متعلق ہوتاہے، البتہیہ عہد سالک کی تمام زندگی پر قابل نفاذ نہیں ہوتا۔ جین مت میںایک سادھو کو ان پانچ چیزوں سے باز رہنے یا انھیں ترک کرنے کا وعدہ کرنا پڑتا ہے۔﴿۱﴾قتل ﴿۲﴾چوری ﴿۳﴾جھوٹ ﴿۴﴾جنسی عمل ﴿۵﴾جائیداد کی ملکیت۔ The Wonder that was India.pp.294.
عیسائی رہبانوں نے تمام حدود کو پھلانگ کر ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ مورخ انگشت بدنداں رہ جاتاہے۔ ان میں شادی ایک قابل نفرت عمل ہے، جسے سخت مجبوری اور گناہ سے بچنے کے لیے ہی روا رکھاجاسکتا ہے۔ سینٹ آگسٹائن ﴿م۳۵۴﴾ کے نزدیک جنسی عمل بہ جائے خود گناہ آلودعمل ہے، جو صرف اس لیے معاف کیاجاسکتا ہے کہ اس سے افزایش نسل مقصود ہو۔ چناں چہ اس کے نزدیک جنسی عمل حیوانی شہوت ہونے کی بنا پر روحانیت کی نفی کرتاہے۔ سینٹ کے افکار ہزار برس تک مسیحی دنیا پر چھائے رہے۔ عورت کے بارے میں عیسائی مذہب کا تصور انتہائی پست، خوفناک اور بھیانک رہاہے۔
سینٹ سیبیوس کو آخر عمر میں کمزوری کی بنا پر مشورہ دیاگیاکہ صحرا کو چھوڑکر آبادی میں رہے، مگر وہ اس مشورے پر عمل کرنے سے صرف اس لیے باز رہا کہ آبادی میں رہ کر عورت پر نظر پڑے گی۔ چناںچہ بیمار اور کمزور راہب نے اس ڈر سے صحرا ہی میں جاں جاں آفریں کے سپردکردی۔ راہبوں کے دلوں میں صرف اجنبی عورتوں سے نفرت موجود نہ تھی۔ بل کہ وہ اس نفرت کا مظاہرہ ان رشتوں کے معاملے میں بھی کرتے تھے، جہاں سنگ دل انسانوں کا دل محبت سے پگھل کر موم بن جاتاہے۔ ایک راہب سینٹ جان کے ساتھ اس کی بہن بہت محبت کرتی تھی۔ اس کی تمنا تھی کہ مرنے سے پہلے ایک بار اپنے تارک الدنیا بھائی کا چہرہ دیکھ لے مگر سینٹ نے انکارکیا، اس پر بہن نے لکھاکہ اچھا میں صحرا میں آپ کی زیارت کو آئوںگی۔ آخرکار بھائی نے لکھاکہ وہ اس صورت میںملاقات کرنے کو اس کے پاس آئے گا اگر بہن اپنا ﴿صحرامیں آنے کا﴾ ارادہ ترک کردے۔ چناںچہ سینٹ نے بھیس بدل کر بہن کے پاس جاکر اس کے ہاتھ سے ایک پیالہ پانی پی لیا لیکن بہن اسے پہچان نہ سکی۔ بہن نے جب سینٹ کو لکھاکہ تم وعدہ کرنے کے باوجود نہیں آئے تو اس نے جواب میںلکھاکہ بے شک آپ کے پاس آیا، مگر مسیح کا فضل و کرم شامل حال رہاکہ آپ مجھے شناخت نہ کرسکیں۔Hisory of European morals, vol.2nd.p.54.
رضائے الٰہی طلب کرنے والے راہبوں کا رویہ اپنی مائوں کے ساتھ حد درجہ افسوس ناک ہوتاتھا۔ ایک راہب اپنی ماں کے ساتھ سفر کررہاتھا، راستے میں دریا حائل تھا، راہب نے اپنے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹا، جب ماں نے حیران ہوکر پوچھاکہ وہ کپڑا کیوں ہاتھوں پر لپیٹ رہاہے تو اس نے جواب دیاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ندی پارکرتے ہوئے آپ کے جسم سے میرا ہاتھ لگ جائے اور میں اپنا توازن کھوبیٹھوں۔﴿ایضاً﴾ ایک عورت کے کئی بیٹے خدا کی تلاش میں صحرا میں جاکر رہبان بن گئے۔ عورت ممتا سے مجبور ہوکر اپنے بیٹوں کو ایک نظر دیکھنے کے لیے آئی تو اس کے بیٹوں نے ملاقات نہیں کی، ماں نے دودھ کا واسطہ دیا لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔﴿ایضاً﴾
عورت تو عورت عیسائی راہبوں نے اولاد اور بچوں کی محبت سے بھی دلوں کو خالی کردیاتھا۔ میوشیس نامی ایک عیسائی تارک الدنیا حلقے میں شمولیت کی غرض سے خانقاہ آیاتو اس کے ساتھ اس کا اکلوتا لڑکاتھا جس کی عمر آٹھ سال تھی۔ راہبوں نے اس کا بیٹاچھین لیا۔ اسے گندے کپڑے پہنائے اور باپ کے سامنے اسے بری طرح زدو کوب کرنا شروع کیا۔یہ سلسلہ روز چلتارہا۔ یہاں تک کہ معصوم بچے کی حالت دردناک ہوگئی۔ باپ یہ سب کچھ دیکھتا، اسے اپنے اکلوتے بچے کی حالت دیکھ کر غصہ بھی آتا۔ ناگفتہ بہ حال دیکھ کر آنکھوں سے آنسو بھی بہتے لیکن تذکرہ نگار کے بقول اس کا دل عیسیٰؑ کی محبت سے اس قدر معمور تھا کہ اسے بلکتے بچے پر کوئی رحم نہیں آیا۔ آخرکار بڑے راہب نے اسے حکم دیاکہ اپنے بچے کو دریا میں پھینک آئو۔ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس کے لیے تیار ہوگیا، مگر دریا کے کنارے پہنچ کر راہبوں نے اسے بچالیا۔ آگے چل کر یہ شخص مشہور راہب بنا۔ ایک اور عیسائی خانقاہ میں بڑے راہب نے اہل و عیال کے بارے میں سوال کیاتو اس نے جواب دیا: ‘صرف ایک لڑکا ہے’ راہب نے کہا: پہلے اسے دریا میں پھینک دو تب راہب بن سکتے ہو۔ اس نے بے دریغ اپنے بچے کو دریا میں پھینکنے کی کوشش کی، لیکن اسے روک دیاگیا۔ ایک اور راہب نے اپنے تین بچوں کو چھوڑکر خانقاہ کی راہ لی۔ ایک دن گھر آیا تو دو مرچکے تھے۔ چھوٹا بچہ زندہ تھا، اسے وہ اپنے ہاتھوں میں لے کر بڑے راہب کے پاس آیا۔ اس نے پوچھا: ‘کیا تمھیں یہ بچہ عزیز ہے’ یہ سن کر برے راہب نے حکم دیا۔ جائو اسے آگ کے اس الائو میں پھینک دو۔ باپ نے بچے کو آگ کے الائومیں پھینک دیا، لیکن اسے کوئی گزند نہ پہنچی۔ ﴿ایضاً﴾
اوپرکہاگیاہے کہ عورتوں کے بارے میں عیسائیوں کا تصور بہت ہی پست رہاہے۔ حضرت عیسیٰؑ کے بعد وہ سینکڑوں برس تک عیسائی عورت کے بارے میں کوئی واضح نظریہ قائم نہ کرسکے۔ ان کی کونسلوں میں بحث اس پر ہوتی تھی کہ عورت انسان ہے یا نہیں؟ یا عورت میں روح ہوتی ہے یا نہیں؟ اس کے باوجود راہبات کے لیے خانقاہوں کے دروازے کھلے تھے اور رہبانوں کے بڑے بڑے پیشوا راہبہ کو ‘مسیح کی دلہن’ کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ بعض اوقات راہبہ کے گھر والوں کو بھی اس کے لیے راضی کیاجاتاتھا۔ سینٹ جروم نے ایک راہبہ کو حلف دلاتے وقت اس کی والدہ کو لکھا:
‘کیاتم اس سے اس لیے ناراض ہوکہ اس نے بادشاہ ﴿مسیح﴾ کی بیوی بننا پسند کیا، اس نے تمھیں بڑا اعزاز بخشا ہے۔ اب تم خدا کی ساس بن گئی ہو۔’
(Bertrand Russel, A History of western philosphy, u.k.1984.p.342)
رہبانیت کی وبا عیسائی مردوں اورعورتوں میں اس قدر عام تھی کہ عیسائی دنیا کا کوئی جنگل اور صحرا اس سے محفوظ نہ تھا۔ اس سے بڑھ کر المیہ یہ تھا کہ رہبانیت کے نتائج شرمناک نکلے۔ تجرد کی زندگی گزارنے کا حلف اٹھانے کے باوجود رہبان نفس پرستی کا شکار ہوگئے اور بدکاری میں ملوث ہوگئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدکاری کے واقعات میں اضافہ ہوتارہا، خفیہ بدکاری کے نتیجے میں ناجائز اولاد کی تفصیلات سامنے آئیں۔ بڑے بڑے راہبوں کی سیاہ کاریوں نے پوری تاریخ کو داغ دار کردیا۔ مورخین نے رہبانیت کی تاریخ بیان کرنے کے دوران جو شرمناک واقعات تحریر کیے ہیں، ان کو پڑھ کر شیطان کاسر بھی شرم سے جھک جاتاہے۔ تجرد کی زندگی غیرفطری تھی، انسان کو راس نہ آئی، لیکن رہبانیت کے علمبرداروں نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ رہبانی حلقوں میں آج بھی ایسے واقعات کو دبانے کی کوششیں ہورہی ہیں، جن کا تعلق رہبانوں سے ہوتاہے۔ پیران کلیسا کی طرف سے پوری کوشش کی جاتی ہے کہ ایسی خبروں پر روک لگائی جائے، جن سے چرچ کی بدنامی ہو۔ اس کے باوجود آئے دن پادریوں کی سیاہ کاریوں کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پادریوں کے ذریعے بچوں کے جنسی استحصال کی جو خبریں ذرائع ابلاغ میں کئی دنوں تک گشت کرتی رہیں، انھوںنے پوری انسانیت کو شرمسار کردیاہے۔ پادریوں کا یہ شیطانی عمل پچھلے تیس برسوں سے زیادہ عرصے تک جاری رہا ہے اور کیتھولک چرچ کے ذمّے دار مجرم پادریوں کے سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈالتے رہے ہیں۔ شرمناک اسکینڈل نے پوری دنیا میں عیسائی مذہب کے ماننے والوں کو رسوا کردیا ہے۔ یورپ نے اس کے لیے بچوں سے معافی مانگی ہے۔
پادریوںکی اس سیاہ تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ عیسائیوں میں رہبانیت کس انتہائی درجے پر پہنچی تھی۔ بعد میں رہبان خود بھی رہبانیت کاحق ادا کرنے سے قاصر رہے۔ چناںچہ ان کی بدعنوانیوں کی اپنی الگ تاریخ ہے۔ دوسری صدی عیسوی سے لے کر آٹھویں صدی عیسوی تک مصر، شام، فلسطین اور افریقہ میںاس کازبردست زور رہا۔ مسلسل کئی صدیوں تک انسان رہبانیت کی زنجیروں کے تلے دبا رہا۔ کائنات کی ہرنعمت سے اس نے اپنے آپ کو محروم کر رکھاتھا۔ اس کی زندگی میں سوائے کرب و آلام اور رنج و بیزاری کے کوئی چیز باقی نہیں رہی تھی۔ عام لوگ ان الم رسید راہبوں کو ہمدردی اور احترام کی نگاہوں سے دیکھتے تھے کہ خدا کے نیک بندے ہیں، کائنات سے بے زار، عیش وعشرت سے محروم اور رونق سے دور ہیں۔ ان کے لیے سب سے زیادہ باعث تسکین یہ خیال تھا کہ روحانی پاکیزگی کی بنا پر وہ روئے زمین کی مخلوق سے برترہیں اور پاتال سے لے کرثریا تک ، پوری کائنات ان کے سروں پر قائم ہے۔ ان حالات میں رہبانیت روز بروز بڑھتی رہی۔ عیسائی دنیا کا چپہ چپہ بھیک مانگنے والے رہبانوں، مجذوبوں اور درویشوں سے بھرگیا۔ ہر زبان پر رہبانوں کے کرتوت اور کرشموں کے چرچے تھے۔ انسان زندگی سے فرار اختیار کررہاتھا، زندگی چیخ رہی تھی کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں سحر کی سپیدی نمودار ہوئی اور فاران کی چوٹیوں سے ایک آواز آئی:
‘اور انھوںنے رہبانیت کو خود ایجا کیاتھا، ہم نے اسے فرض نہیں کیاتھا، ہم نے صرف اللہ کی رضا جوئی فرض کی تھی۔ پھر انھوںنے اس کی وہ رعایت بھی نہیں کی جیسی کہ کرنی چاہیے تھی۔’ ﴿حدید:۲۷﴾
یہ آوازرہبانیت کی بڑھتی ہوئی گمراہی کے خلاف ایک احتجاج ہی نہیں، بل کہ ایک للکارتھی کہ جس کو تم فقمنتہایمقصود سمجھ بیٹھے ہو، وہ تمھارے نفس کی کارستانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو وہ چیز مطلوب ہی نہیں ہے۔ عیسائی رہبانیت کی پوری تاریخ کو سامنے رکھ کر ہی اس آیت کریمہ کی وسعت، جامعیت اور معنویت کااندازہ لگایاجاسکتا ہے۔
رہبانوں کے سیاہ کرتوتوں کے تناظر میں اسلام کی روشنی اور فطری تعلیمات کو دیکھیے ، رسول اللہ کاارشاد ہے: لاصرورۃ فی الاسلام﴿اسلام میں تجرد نہیں ہے﴾
آپ نے مسلمانوں کو تبسّل سے منفع فرمایا۔ حضرت ابوذر عکاف بن بشرتمبی نے استطاعت کے باوجود نکاح نہیں کیا۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺنے پوچھا: ‘عکاف کیا تمہاری بیوی ہے؟’ جواب دیا: ‘نہیں’ آپﷺنے پوچھا: ‘کوئی لونڈی ہے’ جواب دیا:‘نہیں’ آپﷺنے پھر پوچھا: ‘تم مالدار ہو’ اس نے کہا: ‘ہاں’ آپﷺنے فرمایا: ‘تب تو تم اخوان الشیٰطن ہو’۔ اگر نصاریٰ میں سے ہوتے تو ان کے پادری ہوتے، ہماری سنت نکاح ہے۔ تمھارے کنوارے تمھارے بدترلوگ ہیں، جن کی موت بھی بدتر ہے۔ تم شیطان کو کیوں موقع دیتے ہو؟ صالحین کے لیے اس کامہلک ترین ہتھیار عورت ہیں۔ شادی شدہ لوگ ہی پاک و صاف ہیں، افسوس اے عکاف! ایوب، دائود، یوسف اور کرفس کو ان سے واسطہ پڑا ہے، بشربن عطیہ نے سوال کیا: ‘یا رسول اللہﷺکرفس کون تھے؟’ آپﷺنے فرمایا: ایک ﴿یہودی﴾ شخص تھا جو ساحل سمندر پر تین سو سال تک صائم النّہار اور قائم اللیل بن کر خدا کی عبادت کرتاتھا، اس کے بعد ایک عورت کے عشق میں گرفتار ہوا اور کفر کی نوبت آگئی۔ عبادت بھی بھول گیا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسے توبہ کی توفیق بخشی۔ عکاف! نکاح کرو ورنہ تمھارا شمار گنہ گاروں میں ہوگا۔ عکاف نے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ! میرا نکاح کیجیے۔ آپﷺنے اس کا نکاح کریمہ بنت کلثوم حمیری سے کیا۔
﴿حافظ نورالدین علی بن ابی بکر الہیشمی-جمع الزوائد ومنبع الفوائد، مکتبہ القدسی قاہرہ۔ کتاب النکاح ۴:۵۰-۱۵۲﴾
عیسائیت نے عورت کو گناہ کی جڑ قرار دیا اور اسے پیدایشی اور فطری گنہ گار کہہ کر اس کی تذلیل کی، جب کہ اسلام نے عورت کی پیدایش کو آیات الٰہی میں سے ایک نشانی قرار دیا اور اس کا مقام بلند کیا، اسلام نے طہارت اور پاکیزگی کو ایمان کا جزقراردیا، رسول اللہ کا ارشاد ہے: ‘چارچیزیں مرسلین کی سنت ہیں۔ حیا، خوشبولگانا، مسواک کرنا، نکاح کرنا۔’ جب کہ عیسائیت کو پاکیزگی سے ازلی بیر رہاہے۔ پادریوں نے فریڈرک ثانی ﴿۱۲۱۲-۱۲۵۰﴾ پرجو الزام لگائے تھے، ان میں ایک الزام یہ تھا کہ یہ شخص روزانہ غسل کرتاہے ۔ اتوار کے دن بھی ناغہ نہیں کرتا۔ سقوط غرناطہ کے بعد پادریوں کے حکم پر اسپین کے شہروں میں غسل خانے اور حمام توڑدیے تھے ۔ تاکہ صفائی کی سہولت کاوجود ختم ہو اور عیسائیوں کے لیے نہانے دھونے کی کوئی سبیل باقی نہ رہے۔
رہبانیت کے اس سرسری جائزے سے قارئین کو اندازہ ہوگاکہ اپنے نتائج اور اثرات کے لحاظ سے انسان کے لیے بے حد مضر اور نقصان دہ ہے۔ رہبانوں کی نفس کشی اپنے اندر عام لوگوں کے لیے کشش ضرور رکھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے انسان اپنی قوت بازو پر اعتماد کرنے کے بہ جائے دوسروں کی خیرات پر بھروسہ کرکے گزراوقات کرلیتاہے۔ رہبانیت میں کشف و کرامات کے نام بہت سے توہمات پیدا ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی سے اعتدال رخصت ہوجاتاہے اور آبادی سے دور رہ کر انسان کے اندر بدخلقی اور قساوت قلبی پیداہوتی ہے۔ چناں چہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ رہبان عیسائیت نے پیدا کیے ہیں اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ ظالم اور درندے بھی اسی مذہب نے پیدا کیے ہیں۔ یورپ کی تاریخ دیکھیے تو اخلاقی لحاظ سے اس کا ایک ایک صفحہ تاریک اور سیاہ ہے۔ رہبانیت، پاپائیت اور بادشاہت کے جھگڑے، محکمہ احتساب، اعتراف سری، دولت کی لالچ اور ہرناجائز طریقے سے اسے جمع کرنا، ذہن اور اعلیٰ دماغوں کو زندہ نذر آتش کرنا، سائنس کی مخالفت، لاشوں کو قبروں سے نکال کر آگ میں جلانا، کراماتی شہادتوں پر انحصار کرکے لوگوں کو موت کے منہ میں جھونک دینا، دوسری کمزور قوموں کے وسائل کو لوٹنے کے لیے مذہبی احکام جاری کرنا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانا، ویتنام کی جنگ، مشرق وسطیٰ کے ممالک کے وسائل کو لوٹنا، الجزائر کاقتل عام، سیاست میں جھوٹ، مکاری، وعدہ خلافی سے کام لینا عیسائی تاریخ کے افسوس ناک باب ہیں۔ رہبانوں نے خدا کی تلاش میں صحرانوردی اختیار کی تھی، مگر واپس لوٹے تو خود شیطان بن گئے تھے۔ ان کے افعال شنیعہ کی وجہ سے آج عیسائیت کو سب سے زیادہ ناکام مذہب ماناجاتاہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2011