اعتکاف: عبادت اور رضائے الہٰی کی غرض سے مسجد میں گوشہ گیر ہوجانے کو کہتے ہیں۔ رب ذوالجلال سے یکسوئی کے ساتھ لو لگانے کا یہ طریقہ پچھلی شریعتوں میں بھی مشروع رہا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبوت سے قبل غار حرا میں معتکف رہنا اسی قبیل سےہے۔نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد اسےآپ نے شریعت اسلامی کا شعار بنایا اور خصوصیت کے ساتھ اس کا اہتمام فرمایا۔ ہجرت کے بعد رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں آپ لازماً اعتکاف فرماتے۔ آپ یک و تنہا گوشہ گیر نہ ہوتےبلکہ منادی بھی کراتے کہ ‹› میرے ساتھ جو اعتکاف کرنا چاہتا ہے، عشرہ اخیرہ میں آسکتا ہے›› (صحیح بخاری 2027/2036)آپ کے متواتر عمل اور ترغیبات کی وجہ سے امت میں اس عظیم سنت کو قبول عام حاصل ہوا۔ اس وقت سے تواتر کے ساتھ اس کا اہتمام ہورہا ہے،بلکہ اس کا رواج روزافزوں بڑھ رہا ہے۔ ہر سال رمضان المبارک میں ہزاروں لاکھوں افراد اس سنت شریفہ کو ادا کرتے ہیں۔
مسنون اعتکاف کے مقاصد بہت واضح اور متعین ہیں۔اس میں کسی طرح کا کوئی اختلاف رائے نہیں پایا جاتا۔ مقاصد میں توبہ و انابت، رضائےالہی کا حصول، ذکرِ الہی کے لیے یکسوئی، نفوس کا تزکیہ، لیلۃ القدر کی تلاش اور رب ذو الجلال سے انس شامل ہے۔ بندہ دنیاوی مصروفیات سے قطع تعلق کرکے خانہ خدا میں گوشہ گیر ہوکر بس اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے اور اپنے خالق ومالک کو راضی کرنے کے لیے وہ کچھ کرتا ہے جو کرسکتا ہے۔ نماز، تلاوت، تدبر، اذکار، استغفار خود کا محاسبہ، ترک معاصی کا عہد اور آئندہ کی زندگی کو رب کی مرضی کا تابع بنانے کا عزم اور تیاری وغیرہ۔ یہ سب کچھ بندہ کبھی تنہا اور کبھی دوسروں کی مدد سے کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اعتکاف انفرادی عبادت ہے۔ بندہ یک وتنہا جب رب سے لولگاتا ہے،اس کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ مگر اعتکاف کی روز افزوں بڑھتی مقبولیت کی وجہ سے ایک مسجد میں یکا وتنہا رہ جانا ممکن نہیں رہا۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ تقریباً تمام مساجد خواہ وہ گاؤں میں ہوں یا شہر میں۔ ہرجگہ ایک سے زیادہ معتکف جمع ہوجاتے ہیں اور وہ انفرادی عبادات کے ساتھ اخذ و استفادہ کی غرض سے کچھ معمولات مل جل کر بھی کرلیتے ہیں۔ اس طرح اس کی حیثیت انفرادی کے ساتھ اجتماعی بھی ہوجاتی ہے۔ گویا مسجد کے کسی گوشہ میں اکیلےپڑے رہنے کے مواقع کم ہوتے جارہے ہیں اور ہر جگہ اس سنت کی مقبولیت نے اجتماعیت کا رنگ اختیار کرلیا ہے۔ بڑی بڑی اعتکاف گاہیں بن رہی ہیں، جن میں تزکیہ نفوس کا نظام چلایا جارہا ہے۔حرمین شریفین میں اعتکاف کی فضیلت وثواب صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اس لیے ان مقامات مقدسہ پر ہزاروں افراد کا اژدہام ہوتا ہے۔ ارباب احسان وسلوک نےبھی اپنے عقیدت مندوں کی تربیت و تزکیہ کے لیے اس موقع کو غنیمت جانا۔ انھوں نے بھی مرکزی مساجد میں گرانڈ اعتکاف کاسلسلہ شروع کردیا ہے۔ہند و پاک کی بعض مساجد میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں اور مشائخ سے مستفیض ہوتے ہیں۔ ایسے تمام مقامات پر انفرادی عبادات کے ساتھ کچھ وقت تربیت و تزکیہ پر بھی صرف ہوتا ہے اور معتکفین بڑے شوق کے ساتھ ان مواقع سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ اب یکسوئی کی جگہ اژدہام نے لے لی تو کچھ لوگوں کو اعتکاف کا مقصد فوت ہوتا نظر آیا۔کئی لوگوں نے اس پر «بدعت» کا فتویٰ بھی لگا دیا۔ بات جب دیوبند،بریلی اور اہل حدیث کے معتبر دار الفتاوی تک پہنچی تو انھوں نے غور و فکر کے بعد اس نظام کی افادیت کو تسلیم کیا اور اسے سنت کے مطابق قرار دیا اور بدعت یا نئی ایجاد کے الزام کو دلائل کے ساتھ ردکردیا۔
جماعت اسلامی ہند کا شعبہ تربیت ارکان و کارکنان کی تربیت کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے اور طرح طرح کے مفید پروگرام بھی منعقد کرتا رہتا ہے۔ اعتکاف تزکیہ نفوس کا سب سے اہم ذریعہ ہے، اس لیے مقامی سطح پر اس کی ترغیب بھی کی جاتی ہے۔ جماعت کے شعبہ تربیت کو اعتکاف کا اجتماعی نظام مفید لگا،تو اس نے رائے مشورہ کے ساتھ رواں میقات میں اعتکافی تربیت گاہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔اس میں ملک گیر سطح پرجماعت کے کیڈر سے شرکت کی خواہش کی گئی۔ اس کے علاوہ مقامی آبادی سے بھی جولوگ استفادہ کرنا چاہتے تھے،انھیں بھی موقع فراہم کیا گیا۔بحمد اللہ یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا۔
ہر سال اعتکاف کے موسم میں یہ آواز بلند ہونی شروع ہوجاتی ہے، اعتکاف تنہائی اور یکسوئی کی عبادت ہے۔ اجتماع اور تربیتی خطابات کا شور و غوغاں اس کے مقصد پر اثر انداز ہوتا ہے، یہ صلحا کے طریقہ کے منافی ہے۔ یہ سلسلہ جب جماعت نے شروع کیا تو جماعت کے اندر سے بعض احباب نے توجہ دلائی کہ اس عبادت کو اپنے خالص طریقہ پر باقی رہنے دینا چاہیے۔ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اٹھا لینا مناسب بات نہیں۔ یہ ایسے اعتراضات تھے، جنھیں یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چناں چہ اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی گئی۔
اعتراض میں پہلی بات یہ تھی کہ آیا یہ اقدام از قبیل بدعت ہے یا نہیں؟ معتبر دارالفتاوی کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ اعلی درجے کے مفتی صاحبان دلائل کے ساتھ اس الزام کو خارج کرچکے ہیں اور وہ اس کی افادیت کے قائل ہیں۔ پھر وہ عمل کیونکر بدعت ہوسکتا ہے،جس کا سلسلہ خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع کیا ہو۔بخاری شریف کی روایت کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ اعتکاف کے لیے منادی کراتے تھے اور آپ کے ساتھ اس چھوٹی سی مسجد میں متعدد صحابۂ کرام اعتکاف کیا کرتے تھے۔ظاہر ہے جب دوچار یا دس بیس لوگ جمع ہوگئے تو اجتماع کی شکل اپنے آپ بن جائے گی۔محض بھیڑ کے جمع ہونے سے یکسوئی کافور ہونے کا اندیشہ بھی اندیشۂ محض ہے،اس طرح تو مسجد نبوی بھی شور و ہنگام کا مرکز بن جاتی رہی ہوگی۔اس لیے کہ دس روز تک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے یکسرلاتعلق نہیں رہتے رہے ہوں گے اور نہ ہی دس روز تک تلاوت آیات،تعلیم کتاب اورتزکیہ نفوس جیسا اہم کار نبوت معطل رہتا رہا ہوگا۔ وہ بھی اس وقت جب آپ نے خود لوگوں کو اپنے ساتھ اعتکاف کے لیے بلا رکھا ہو۔گویا اجتماعی اعتکاف کوئی نئی چیز نہیں بلکہ اس کی طرح عہد نبوی میں پڑگئی تھی۔ اسی سنت کے اتباع میں اگر ارباب تصوف نے تربیت و تزکیہ نفوس کی غرض سے اسے اجتماعی شکل دے دی تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے بلکہ مستحسن اقدام ہے اور اگر جماعت اسلامی نے بھی اس عظیم سنت نبویہ کو اختیار کرلیا ہے تو یقیناً اس کا اقدام بھی استقبال کرنے کے لائق ہے۔محض تصوراتی الجھن سے مروج نظام کو سوال کے دائرے میں کھڑا کردینا مناسب نہیں ہے، بلکہ پہلے اس نظام کے خد و خال کو قریب سےسمجھنا چاہیے۔جو لوگ نظام چلارہے ہیں،ان سے رجوع کرنا چاہیےاور جو لوگ اس نظام سے فیض یاب ہوچکے ہیں،ان کے تجربات معلوم کر کے کوئی نتیجہ حاصل کیا جائے تو بہتر ہوگا۔
اس پروگرام کے روح رواں اور مربی جناب ایس امین الحسن صاحب ہیں۔ اس موضوع پر ان کی مفصل تحریر موجود ہے۔ وہ اس کی غرض و غایت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: “رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا ایک سنت ہے اور بیشتر مساجد میں اس کا اہتمام ہوتا ہے۔ اکثر معتکفین مسجد میں دس دن کا قیام کرتے ہیں، جس میں کھانا پینا اور سونا سب شامل ہے۔ کچھ بندے اپنی معلومات کی حد تک عبادات میں مشغول رہتے ہیں۔ مگر ان دس دنوں اور راتوں کا بہترین مصرف کیا ہو اور ان روحانی ساعتوں سے زندگی کے لیے برکتیں کیسے کشید کی جائیں؟ یہ کسی کے سکھانے سے سیکھی جاتی ہیں۔ جب انسان زندگی کے چھوٹے اور معمولی کاموں کے لیے بھی مربی اور مینٹور کی ضرورت محسوس کرتا ہے، تو روحانی ترقی، حالات کی بہتری، اوقات کے بہترین مصرف اور زندگی کی کایا پلٹ کا فن اور گُر سیکھنے کے لیے تربیت گاہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ افراد کی تربیت کے لیے مختلف قسم کی تربیت گاہیں تو منعقد ہوتی ہی ہیں مگر اعتکافی تربیت گاہ کی بات ہی کچھ اور ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے شعبہ تربیت نے اس مقصد کےلئے مسجد اشاعت میں اسلام رمضان کے آخری عشرے میں تربیتی اعتکاف کا اہتمام کیا۔ پورے ملک سے تقریباً 75 افراد شریک ہوئے۔ شرکا میں تحریک کا کیڈر بھی تھا اور مقامی بستی کے افراد بھی تھے۔ آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے سابق ہیڈ آف دی پارٹمنٹ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے فارماکولوجی کے پروفیسر بھی تھے، وہ بھی تھے جن کے وسیع کاروبار ہیں اور وہ بھی جو چارٹرڈ اکاؤنٹنسی کے امریکن سرٹیفیکیشن کے کورس چلاتے ہیں۔ کسی کا پرسنالٹی ڈیولپمنٹ اور لائف کوچنگ کا ادارہ ہے تو کسی کا اپنا قائم کردہ اسکول ہے۔ علمائے کرام، ائمہ مساجد اور حفاظ قرآن سے لے کر طلبہ اور کسان تک اس پروگرام میں شریک تھے۔ گو کہ ہر کوئی مختلف میدان سے متعلق تھا مگر سب کی دو ضرورتیں مشترک تھیں۔ سب روحانی پیاس لے کر آئے تھے اور چاہتے تھے کہ انھیں بتایا جائے کہ سیرابی کیسے حاصل ہو۔ ہر فرد کے دل کی یہ تمنا تھی کہ وہ اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنائے، مقصد واضح ہو، منزل متعین ہو، اس تک پہنچنے کی راہ ان پر کھلے اور اس کے سنگ ہائے میل کی نشان دہی ہو۔”
مربی محترم کی وضاحت سے اس کی افادیت تو اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے، مگر یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ یہ عبادت جو مکمل یکسوئی چاہتی ہے،کہیں وہ ختم تو نہیں ہوجاتی؟یہ سوال بھی منتظمین کےپیش نظررہا ہے۔ اس کی وضاحت بھی موصوف کی ایک تحریر میں مل جاتی ہے: “معتکفین کے چوبیس گھنٹوں میں سے صرفِ دو گھنٹے ان کے اجتماعی پروگرام کے لیے لیے جاتے ہیں۔ باقی 22 گھنٹے وہ انفرادی عبادت میں گزارتے ہیں۔ دوپہرمیں سوال جواب ہوتا ہے۔ پھر رات میں ایک گھنٹے کا سیشن ہوتا ہے جس میں زندگی کی منصوبہ بندی سکھائی جاتی ہے۔
اس تربیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اعتکاف کے بارے میں یہ کہہ کر بے رخی برت لی جاتی ہےکہ یہ ایک انفرادی عبادت ہے۔ مگر انفرادی عبادت کو کیسے موثر بنایا جائے، اعتکاف کے دوران فرد کن کن مشاغل میں وقت گزارے؟ کیسے وہ اس زریں موقع کو اپنے لیے مفید ثابت بنائے؟ اس پر کوئی رہ نمائی نہیں کی جاتی۔ ہمارے اعتکاف میں انھیں بتایا جاتا ہے کہ ہر دن کم سے کم پچیس امور پر انفرادی طور پر آپ نگاہ رکھیں۔ قرآن کی سورتوں کو تجوید اور خوش الحانی سے پڑھنا سیکھیں۔ اس کے لیے لوگ خود گروپ بنالیتے ہیں اور تجوید کو درست کرنے کے چارٹ دیے جاتے ہیں۔ لوگ ذکر اللہ کرنے کے عادی بنیں۔ اس کے لیے انھیں کچھ کلمات سکھائے جاتے ہیں اور اس کی ایک شیٹ دی جاتی ہے۔ لوگ عموماً دعا رسمی طور پر کرتے ہیں۔ اللہ کی تعریف کیسے بیان کی جائے، اللہ سے کیسے گفتگو کی جائے اس کے طریقے انھیں سکھائے جاتے ہیں اور لوگ دس دن تک اس کا تجربہ کرتے ہیں اور خوشگواری محسوس کرتے ہوئے اعتکاف سے اٹھتے ہیں۔ اس ضمن میں انھیں کچھ دعاؤں کی کتابیں دی جاتی ہیں اور لوگ اعتکاف سے اٹھتے ہوئے دس بیس دعاؤں کو یاد کرکے اٹھتے ہیں۔ قرآن کی تلاوت کریں تو اس میں اپنے آپ کو تلاش کریں۔ یہ ایک مرتبہ انھیں بتا دیا جاتا ہے۔ اور دس دن کی تلاوت کے دوران لوگ اپنے آپ کو قرآن میں تلاش کرتے ہیں اور دوران تلاوت رقت بھی پیدا کرتے ہیں۔یہ سب باتیں روزانہ دوپہر کے ایک گھنٹے کے سیشن میں سکھائی جاتی ہیں۔”
ان اقتباسات سے واضح ہوا کہ اجتماعی نظام کی الگ افادیت ہے اور افراد کا انبوہ جمع ہونے کے باوجود انفرادیت اور یکسوئی کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اعتکاف کے ساتھ یکسوئی یکسوئی اور یکسوئی کا قرآن وحدیث کے حوالے سے جو ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے۔کیاواقعی قر آن اور حدیث میں اس طرح کی مردم بے زاریکسوئی کی تعلیم ملتی ہے؟ اگر ہر طرح کی مشغولیات اور پورے انسانی معاشرے سے یکسر قطع تعلق مطلوب ہوتا اور مسجد میں موجود افراد اور اہل خانہ سے بات چیت بھی جرم ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کنگھا کیسے کراتے؟چلتے پھرتے مریضوں کی عیادت کیسے کرلیتے؟امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ کیسے انجام دیتے؟
الغرض اعتکاف کے لیےیکسوئی بنیادی شرط تو ہے۔مگر رہبانیت کی طرح یکسر قطع تعلق مطلوب نہیں ہے۔فقہانے حالت اعتکاف میں بہت سے کاموں کی اجازت دی ہے، جن میں درس و تدریس، اخذ و استفادہ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر وغیرہ مندوب ہیں۔ مردم بے زاریکسوئی نئےمفتیان کرام کی جولانی طبع کا شاخسانہ ہے، شریعت اسلامی کا مطالبہ نہیں۔
دو تین برس پہلے خاکسار کو اپنے محلے کی مسجد میں تنہا اعتکاف کی سعادت حاصل ہوئی۔ توجہ و انابت کی جو صورتیں ہو ممکن تھیں، بس بھرکرتا رہا، مگر یہ خلش رہی کہ کاش کوئی مربی ان شب و روز کو مزید کارآمد بنادیتا۔ اعتکاف کا اجتماعی نظام در اصل اسی خلش کے ازالہ کے لیے ہے۔
اعتکاف کی انفرادی شکل کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے، مگر جدید اجتماعی نظام نے اس کی افادیت میں مزید اضافہ کردیا ہے، بالخصوص مسجد اشاعت اسلام، نئی دہلی میں اسے اعتکافی تربیت گاہ قرار دے کر محدود اور متعین تعداد کے ساتھ خاص انداز اور نظام سے چلانا، شرکا کو انفرادی عبادات اور ذکر و اذکار کے بھرپور مواقع بہم پہنچانا، اعتکاف کی روح اور تقاضوں کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے تربیت کا خصوصی اہتمام کرنا بہت مستحسن قدم ہے۔ اللہ تعالی منتظمین کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے اور اس نظام کی افادیت کو عام کرے،آمین۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2023