مشترکہ انسانی مسائل، تکثیری معاشرہ اور اسلامی تعلیمات

(1)

مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں۔ مختلف زبانوں کے بولنے والے موجودہیں، مختلف تہذیبی وقومی پس منظر رکھنے والے موجود ہیں۔یہ سب مل کر ایک ملک بناتے ہیں جس کا نام بھارت یا ہندوستان ہے ۔ یہاں چار ہزار پانچ سو ننانوے مختلف قومیں پائی جاتی ہیں۔ تین سو پچیس زبانیں اورایک ہزار چھ سو باون بولیاں بولی جاتی ہیں۔  ہندوستان دنیا کا سب سے بڑاجمہوری ملک ہے ۔ اس کا اپنا ایک آئین ہے ، جس میں یہاں کے باشندوں کویکساں طورپر تمام بنیادی ، انسانی اور سماجی حقوق حاصل ہیں۔

تکثیری سماج کے مسائل:

ہندوستان کے آئین اوردستور میں اگرچہ یہاں کے تمام باشندوں کوبرابر حقوق حاصل ہیں اور آئین میں اس کی ضمانت دی گئی ہے کہ سب کوبرابر امن وسکون اورخوش حالی فراہم کی جائےگی اورسب کے انسانی اورسماجی مسائل حل کیے جائیں گے ، مگر اس کے باوجود یہاں کی بعض آبادیاں ، قومیں، گروہ اور طبقات مختلف قسم کے اجتماعی مسائل سے دوچار ہیں ۔ ان میں کچھ سماجی مسائل ہیں تو کچھ معاشی اورکچھ مسائل کا تعلق عام انسانی زندگی سے ہے ۔مثال کے طور پر سماجی نا برابری ، عدل وانصاف کی عدم دست یابی ، غربت وافلاس ، گدا گری ، بچیوں کے ساتھ تفریق ، دلہن سوزی ، گھریلو تشدد ، خودکشی ، ایڈس اوردیگر امراض ،جرائم اورفسادات۔  اسلام ان مشترکہ انسانی مسائل کے تعلق سے کیا تعلیم پیش کرتا ہے اورایک تکثیری سماج میں ان کوحل کرنے کے لیے ہدایات دیتا ہے ۔ زیر نظر مضمون میں اس موضوع کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔ سب سے پہلے مذکورہ مسائل کی تھوڑی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ، پھر ان کے پس منظر میں اسلامی تعلیمات پیش کی جائیں گی۔

سماجی نا برابری:

ہندوستان ایک کثیر مذاہب ملک ہے لیکن یہاں کی اکثریت ہندومت سے وابستہ ہے ۔ ہندومت سے منسوب کتاب منوسمرتی میں زندگی سے متعلق احکام وہدایات ہیں ،  اس کا سب سے نمایاں عنصر ذات پات کا نظام، ورن آشرم اورطبقاتی امتیاز کی تعلیم ہے ۔ یہ تقسیم کیسی  ہے اس کا اندازہ منوسمرتی کے اشلوکوں سے ہوسکتا ہے ۔ ذیل میں چند اشلوکوں کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے :

ترقی عالم کے واسطے برہمانے منہہ (مکھ) سے برہمن کوبانہہ سے کشتری کوجانگھ سے ویش کو اور پاؤں سے شودر کوپیدا کیا ۔(ادھیائے ،۱/۳۱) ؎ ۱

اس پوری کائنات کی حفاظت کے لیے مہا تیجسوری (بڑے مرتاض) برہمانے منہ، بانہہ ، جانگھ، چرن (پاؤں ) سے پیدا ہوئے چار ورنوں کے کرم الگ الگ مقرر کیے ۔(ادھیائے ،۱/۸۷)

وید پڑھنا ، وید پڑھانا ، یگیہ کرنا ، یگیہ کرانا دان دینا ، دان لینا یہ چھ کرم براہمن کے لیے بنائے۔ (۱/ ۸ ۸)

رعایا کی حفاظت کرنا ، دان دینا ، یگیہ کرنا ، وید پڑھنا ، دنیا کی نعمتوں میں دل نہ لگانا یہ پانچ کرم کشتری (چھتری ) کے لیے مقر ر کیے ۔)۱/۸۹(

چار پایوں کی حفاظت کرنا ، دان دینا ، یگیہ کرنا ،وید پڑھنا ، تجارت کرنا ، سود بیاج لینا، کھیتی کرنا ، یہ سات کام ویش کے لیے مقرر کیے ۔)۱/۹۰(

شودر کے لیے ایک ہی کرم پر بھونے ٹھہرایا صدق دل سے ان تینوں ورنوں کی خدمت کرنا ۔ )۱/۹۱(

دنیا میں براہمن بوجہ دوم کے سب سے افضل ہے ۔ اس لیے کہ نہایت پاک عضو منہ سے پیدا ہوا ہے اور وید کا استعمال رکھتا ہے ۔)۱/۹۳(

براہمن کے نام میں لفظ منگل یعنی خوشی اور کشتری کے نام میں لفظ بَل یعنی طاقت اورویش کے نام میں لفظ دھن یعنی دولت اورشودر کے نام میں لفظ نندا یعنی تحقیر شامل کرنا چاہیے۔ )۲/۳۱(

شودر اگر مستطیع ہوتب بھی دولت جمع نہ کرے کیوں کہ شودر دولت پاکر برہمن کوہی تکلیف دیتا ہے ۔ )۱۰/۱۲۹(

شودر خریدا گیا ہویا نہ خریدا گیا ہواس سے غلام کا کام کرانا چاہیے، کیوں کہ براہمن کی غلامی کے واسطے شری برہما جی نے شودر پیدا کیا ۔)۸/۴۱۳(

یہ امر قابل ذکر ہے کہ گاندھی جی نے شودروں کی خاطر بہت سے رفاہی کام کیے اور ان کا نام اچھوت سے تبدیل کرکے ہر یجن رکھا اوراسی ہریجن کے نام سے ایک اخبار جاری کیا، بمبئی اوردہلی کی بھنگی کالونیوں میں جا کر ٹھہرے اوروہاں فضلہ صاف کیا ، ۲۰/ستمبر ۱۹۳۲ء کو’’ ہریجن سیوک سنگھ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس کے علاوہ بھی ہریجنوں کی فلاح وبہبود کے لیے بہت سے کام کیے  اس کے باوجود خود گاندھی جی ورن آشرم کوتسلیم کرتے تھے ۔ وہ لکھتے ہیں۔

’’سارے انسان اپنی پیدائش اورخلقت کے اعتبار سے برابر نہیں ہیں ، بلکہ چار ورنوں میں تقسیم ہیں‘‘۔   ؎ ۱

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:

ورن آشرم ( یعنی اونچ نیچ ) انسان کی فطرت میں شامل ہے ، ہندودھرم نے اسے ہی سائنٹفک طورسے عزت دی ہے ۔ پیدائش ہی سے ذات بنتی ہے خواہش کرکے اسے بدلا نہیں جاسکتا ‘‘ ۔  ؎ ۱

عدل وانصاف کی عدم دست یابی:

قانون جس شکل میں بھی موجود ہے اگروہ نافذ ہواوراس کے نفاذ میں عدل وانصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں توکثیر قومی معاشرے کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ، مگر ایک تو خودقانون ہمہ گیر نہیں، دوسرے یہ کہ اس کے نفاذ میں ناانصافی کی جاتی ہے بلکہ بوجوہ اس کو نافذ ہی نہیں کیا جاتا۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ اس کی زد میں حکومت اوراس کے افراد آرہے ہوں، سیاسی مصلحتیں اورسیاسی مداخلت بھی قانون کے نفاذ میں مانع ہوتی ہے ۔ ذاتی مفاد کی بنیاد پر بھی اس سے پہلو تہی کی جاتی ہے ۔ جہاں تک نانصافی کا سوال ہے توموجودہ دور میں جس طرح ہرچیز خریدی جاتی ہے اسی طرح انصاف بھی خریدا جاتا ہے ۔ قانون کے نفاذ میں بے توجہی اورنا انصافی رنگ ونسل اورمذہب کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے ، مثال کے طور پر ہندوستان میں مسلمانوں اور پس ماندہ طبقات کے ساتھ تعصب قانون کے نفاذ میں بھی برتا جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ مقدمات کے فیصلے غیر معمولی تاخیر سے ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے عدل وانصاف ملنے میں برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ مجموعی طورپر پورے ملک کی بارہ ہزار آٹھ سو بائیس عدالتوں اور ماتحت عدالتوں اور اکیس ہائی کورٹوں اورسپریم کورٹ میں دو کروڑ انتالیس لاکھ مقدمات التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔  ؎ ۲

غربت وافلاس :

غربت یا مفلسی کسے کہاجاتا ہے اس تعلق سے ماہرین سماجیات نے مختلف انداز سے تعریف بیان کی ہے ۔ جیسے گزر بسر کے لیے مطلوبہ رقم کا نہ ہونا ، کم از کم ضروریات کی عدم تکمیل یا رائج الوقت معیار زندگی سے پست زندگی گزارنا ، خوش حال لوگوں کے مقابلے میں کافی کم معیار زندگی ہونا وغیرہ ۔ ہندوستان میں ایک اندازے کے مطابق آدھی آبادی غربت میں مبتلا ہے ۔ 77فی صد عوام کی یومیہ آمدنی محض ۷۰روپے ہے ۔ حکومتیں ازالۂ غربت کے لیے متعدد کوششیں کررہی ہیں ۔ پنج سالہ منصوبہ اس ضمن میں حکومت کا ایک ٹھوس قدم مانا جارہا ہےجس کا آغاز ۱۹۵۱ء سے ہوا تھا ، اب تک کئی پنج سالہ منصوبے بنائے گئے ۔ ۱۹۷۵ء میں بیس (۲۰) نکاتی پروگرام بنایا گیا ۔ قحط زدہ علاقوں کی ترقی کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کی گئی ۔ حال میں جواہر روز گار یوجنا جیسے اقدامات بھی کیے گئے مگر اس کے باوجود ملک کے بعض علاقے انتہائی غربت میں مبتلا ہیں ۔ خصوصاً بہار، جھارکھنڈ، اڑیسہ ، یوپی ، مدھیہ پردیش ،  وغیر ہ ۔

بہار کے 37اضلاع میںسے 27غربت کے دائرے میں آتے ہیں ، ان میں سے 36اضلاع میں بچوں کے لیے طبی سہولیات نہیں ہیں۔ 31اضلاع میں بنیادی تعلیم کے لیے اسکولوں کی کمی ہے ۔ جھارکھنڈ میں 22اضلاع  میں غربت ہے ، جب کہ ان میں 10اضلاع انتہائی غربت کے شکارہیں۔ اتر پردیش کے 70اضلاع میں سے 23غربت کے دائرے میں آتے ہیں ۔ مدھیہ پردیش کے 45اضلاع میں سے 22انتہائی غربت میں مبتلا ہیں۔ اروناچل پردیش کے 14اضلاع میں سے 3انتہائی غربت کے شکار ہیں۔ 9اضلاع میں بھوکے لوگوں کی کثرت ہے ۔ 8میں طبی سہولیات کا فقدان ہے اور 7میں ناخواندگی کا تناسب زیادہ ہے ۔ غربت کی وجہ سے ملک میں ہر سال ہزاروں کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ صحت عامہ انتہائی خراب ہےاوربچے اورعورتیں نقص تغذیہ کی وجہ سے فقر الدم (اینیمیا ) کی شکار بن رہی ہیں۔

گدا گری :

غربت وافلاس جب اس درجے کو پہنچ جائے کہ اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے لوگوں کے سامنے دست سوال وراز کرنا پڑے تواس کو گدا گری کہا جاتا ہے ۔ ہندوستان میں مجموعی طور پر تہتر (۷۳)لاکھ افراد گدا گری کرتے ہیںاور ملک کے بڑے شہروں میں گدا گری کی تعداداس طرح پائی جاتی ہے ۔ دہلی میں ساٹھ ہزار ، ممبئی میں تین لاکھ ، کولکاتہ میں پچھتر ہزار ، بنگلور میں چھپن ہزار اورحیدرآباد میں گیارہ ہزار افراد گداگری سے منسلک ہیں۔ گداگروں کی مختلف قسمیں ہیں، یعنی لوگ مختلف حالات میں گداگری اختیار کرتے ہیں ۔ جسمانی طور پر معذور افراد، صحت مند گدا گر، جعلی گدا گر، شہ زور گدا گر ، غلام گداگر ، پیدائشی گدا گر ، اسٹریٹ چائلڈ ، اسٹریٹ ہاکر وغیرہ۔گدا گری کے مختلف اسباب ہیں ، مگر ان میں غربت وافلاس ، جنگ اور قدرتی آفات ، بے روز گاری ، گھریلو تشدد ، معذوری ، اچھی تعلیم وتربیت کا فقدان ، مذہبی وسماجی روایات خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔

ہندوستان میں گداگری کے انسداد کے لیے مختلف قوانین بھی وضع کیے گئے مگر گداگروں پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا اورحسبِ معمول وہ گداگری میں مشغول ہیں۔

لڑکیوں کےساتھ بے جا تفریق:

سائنس نے چاہے جتنی ترقی کرلی ہو اورانسان چاہے چاند اورمریخ پر کیوں نہ پہنچ گیا ہو، مگرانسانی معاشرے میں بعض برائیاں ویسی ہی موجود ہیں جوجاہلی دورمیں موجود تھیں ، مثال کے طور پر بیٹیوں اورلڑکیوں کے ساتھ تفریق اوران کا قتل کیا جانا وغیرہ لڑکیوں کوغیر مفید اورنامطلوب تاریخ کے ہر دور میں سمجھا گیا ہے ۔ اسی وجہ سے عرب کے جاہلی دور میں انہیں زندہ در گور کردیا جاتا تھا ۔ آج بھی یہ برائی اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے ۔ عہد جاہلی میں انہیں پیدا ہونے کا موقع دیا جاتا تھا لیکن آج انہیں پیدا ہونے تک نہیں دیاجاتاہے اوران کی ماؤں کے رحم ہی کوان کے لیے قبر بنادیا جاتا ہے ، خصوصاً ہندوستانی معاشرہ اس میں کچھ زیادہ ہی آگے ہے۔ اس کا اندازہ مختلف سروے رپورٹوں کے ذریعے ہوتا ہے ، جوذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ پنجاب، ہریانہ ، دہلی اورہماچل پردیش میں۱۹۹۱ء کی مردم شماری کے مطابق ایک ہزار لڑکوںکے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 875تھی اور 2001ء کی مردم شماری میں یہ تعداد گھٹ کر اور کم ہوگئی اور 793ہوگئی ۔  ؎   ۱   اس کا اصل سبب اسقاط حمل ہے۔  اس کے آٹھ ہزار واقعات میں سے صرف ایک ایسا تھا جولڑکے کی وجہ سے کیا گیا باقی تمام صورتوں میں حمل گرائے جانے کی وجہ ماں کے پیٹ میں پل رہی بچی تھی ۔  ؎ ۲    ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر سال ایک کروڑ پچاس لاکھ لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں جن میںسے پچاس لاکھ بچیاں اپنی عمر کی پندرہویں سال گرہ سے پہلے ہی مار دی جاتی ہیں ان اموات میں سےبہت سی ان کی زندگی کے پہلے سال ہی واقع ہوتی ہیں اوران کا سبب بچیوں کے ساتھ امتیاز ہے ۔  ؎  ۳                         (جاری)

مشمولہ: شمارہ فروری 2016

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223