فرقہ وارانہ تکدّر کی موجودگی ہمارے لیے عمل کی محرک ہونی چاہیے نہ کہ مایوسی اور دل شکستگی کی۔ جب شرّ و فساد کا مٹانا ہی آپ کا مقصود ہے اور اسی بنا پر آپ خیر و صلاح کی دعوت لے کر اٹھے ہیں اور آپ اپنی جگہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اس مرض کا علاج درحقیقت آپ ہی کے پاس ہے تو اس صورت میں آپ کا گھروں میں بیٹھ رہنا کسی طرح صحیح نہیں ہوگا۔ آپ کو باکل بے خوف ہو کر گھروں سے نکلنا چاہیے اور اس مرض کے ازالہ میں اپنی پوری قوت صرف کر دینی چاہیے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھیے کہ فرقہ وارانہ تلخیاں لوگوں کے لیے رکاوٹ ہوں تو ہوں لیکن جہاں تک ہمارے طرز پر کام کرنے والوں کا تعلق ہے ان کے لیے یہ بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ یہ بہت جلد اور آسانی سے ان کے سامنے سے ہٹ سکتی ہیں بشرطیکہ آپ اپنے اصولوں کو شدت کے ساتھ اختیار کریں اور اپنی زندگیوں کو اچھی طرح ان کے مطابق ڈھال لیں۔ آپ کے سامنے کوئی ایسا کام نہیں ہے جس میں آپ کی کوئی قوم پرستانہ یا فرقہ وارانہ غرض شامل ہو۔ آپ ایسے اصولوں کے داعی ہیں جو پوری انسانیت کی سعادت و فلاح کا باعث ہیں۔ ایسی دعوت اور اس کے پیش کرنے والوں کی مخالفت شروع شروع میں غلط فہمی کی بنا پر ضرور کی جاسکتی ہے لیکن غلط فہمی دور کر دی جائے تو مخالفت کا یہ رویہ فوراً بدل سکتا ہے۔
(روداد اجتماع رام پور، ۱۹۵۱، ص ۱۴۱)
مشمولہ: شمارہ فروری 2023