مسلم امت کی تعمیر و ترقی

ہندوستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں

امت کی تعمیر و ترقی کے اصل موضوع پر گفتگو سے پہلے ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ امت کیا ہے اور امت کا مقصدِ وجود کیا ہے؟

اس سلسلے میں کلامِ باری تعالیٰ،سورة البقرة آیت نمبر۱۴۳ ہماری واضح رہ نمائی کرتی ہے:

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیكُونَ الرَّسُولُ عَلَیكُمْ شَهِیدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِی كُنتَ عَلَیهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن یتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن ینقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَیهِ

(ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امتِ وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول ﷺ تم پر گواہ ہو۔۔۔)

قرآنِ مجید نے امت کے مقصدِ وجود کو اور اس کی تفصیلات، توضیح اور تشریح کو بہت سی آیات میں بیان کیا ہے۔ ایک دوسرے مقام، سورِہ آلِ عمران کی آیت نمبر 110 میں فرمایا گیا ہے:

كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ

( دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔)

قرآنِ مجید میں بعض دوسرے مقامات پر اس کی مزید تفصیل بیان کی گئی ہے، سورہ الصف میں کہا گیا:

هُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ

(وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے چاہے مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو )

اور اسی سلسلے کی ایک اور بات سورة الحدید کی آیت نمبر 25 میں بیان کی گئی ہے:

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَینَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِیدَ فِیهِ بَأْسٌ شَدِیدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیعْلَمَ اللَّهُ مَن ینصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَیبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِی عَزِیزٌ

(بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزانآ اتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا اتارا، اس میں بڑی قوت ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں اور تاکہ اللہ اس شخص کودیکھے جو بغیر دیکھے اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، بیشک اللہ قوت والا، غالب ہے ’’اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔ اور لوہا اتارا جس میں بڑے منافع ہیں لوگوں کے لیے۔ یہ اس لیے تاکہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے،یقیناً اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ )

ہم نے قرآن کے مختلف مقامات سے یہ جو مختلف آیات ذکر کی ہیں،ان میں اللہ تعالیٰ نے امت کی ذمہ داریاں اور کام بتائے ہیں۔ ان سے امت کے متعلق ہمارا تصور واضح ہوتا ہے، چوں کہ ہم امت کی تعمیرو ترقی پر گفتگو کر رہے ہیں۔ اس لیے پہلے اس امت کے بارے میں قرآن میں اللہ نے کیا بیان کیا ہے وہ واضح ہونا ضروری ہے۔ یہ امت شہادت علیٰ الناس کا فریضہ انجام دینے والی امت ہے۔ یہ امت خیر امت ہے، تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے برپا کی گئی ہے، نیکیوں کا حکم دینے والی ہے، برائیوں کو روکنے والی ہے۔ یہ امت دنیا کے تمام ادیان پر اللہ کے اس دین کو، اس کے پسندیدہ دین کو غالب کرنے اور اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرے والی امت ہے۔اور اس امت کا فریضہ ہے کہ وہ تمام انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام کے لیے کوشش کرے۔ ان آیات سے امت مسلمہ کی اس امتیازی خصوصیت کا پتہ چلتا ہے۔ امت کی تعمیرو ترقی کے عنوان پر غور کرتے ہوئے ہمارے ذہنوں میں امت کےسلسلے میں اس بنیادی تصور کا واضح ہونا نہایت ضروری ہے۔

ان آیات سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ امت کی تعمیر و ترقی اصل میں وہی ہوگی جس کی وجہ سے امت میں اتنی قوت و طاقت پیدا ہو، اتنی خوبیاں اس کے اندر پروان چڑھیں، اس کے اندر اتنی صلاحیتیں فروغ پاجائیں کہ وہ اپنے اس مقصدِ وجود کی احسن طریقے سے تکمیل کر سکے۔ اپنے مشن، اپنے نصب العین اور اس فریضے کی ادائیگی کے لیے جن قوتوں، صلاحیتوں اور خوبیوں کی ضرورت ہے ان کو حاصل کرنا اور ان کی حامل بننا، اس کی تعمیر و ترقی کا سب سے اہم مقصد ہے۔

اس سلسلے کی دوسری بات ترقی کے متعلق ہمارا تصور ہے۔ کیوں کہ تعمیر و ترقی کی جب بھی بات ہوتی ہے تو فوری جو بات ذہن میں آتی ہے، وہ مادی ترقی ہے۔  امت کو شان و شوکت حاصل ہوجائے، اس کے پاس آرام و سکون ہو، بے شمارسہولتیں مہیاہوں، دولت کی ریل پیل ہو، وسائل میں حصہ داری ہو وغیرہ۔  ساری دنیا میں اسی کو ترقی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک امت کی تعمیر و ترقی سے مراد صرف مادی ترقی نہیں ہے۔ امت کی دینی و روحانی ترقی، اخلاقی ترقی، اقدار پر مبنی ترقی اور مادی ترقی، غرض یہ ساری چیزیں مطلوب ہیں۔ ہمیں دونوں قسم کی ترقی مطلوب ہے۔ مادی ترقی بھی مطلوب ہے اور روحانی و اخلاقی ترقی بھی مطلوب ہے تاکہ اس تعمیرو ترقی کے بعد امت اپنے مشن کو احسن طریقہ سے دنیا میں انجام دے سکے۔ اس لیے مادی دنیا میں جس ترقی کو ترقی سمجھا جاتا ہے ہم بھی صرف اسی کو ترقی سمجھیں یہ صحیح نہیں ہے۔ترقی کے متعلق ہماری سوچ میں بڑی انفرادیت ہے۔  یہ ایک مختلف آئیڈیا ہے ترقی کا، اس لیے ہمیں روحانی اور مادی ترقی میں ایک توازن کے ساتھ آگے بڑھنا ہے کیوں کہ یہ امت ایک نصب العین کے ساتھ ایک مشن پر فائز ہے۔  اگر وہ ترقی کرلے لیکن اس کی زندگی سے وہ نصب العین اور مشن نکل جائے تو اس کی یہ ترقی کسی کام کی نہیں ہے۔ اور وہ نصب العین اقامت دین ہے۔ہمیں اسی دائرے میں رہتے ہوئے امت کی تعمیر و ترقی کا کام کرنا ہے۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ امت کی ترقی باقی لوگوں کی ترقی کے ساتھ ہی ممکن ہے اسی لیے امت کے علاوہ باقی تمام لوگوں کی تعمیر و ترقی کو بھی اپنے پیش نظر رکھنا ہوگا۔ہمیں امت کو یہ بات بھی سمجھانی ہوگی کہ اس کی ترقی سب کے لیے خیر کا باعث بننی چاہیے، امت اگر ترقی کرے گی تو وہ انسانوں کی زیادہ بہتر طریقے سے خدمت انجام دے سکے گی۔ اس لیے امت کی اس ترقی سے کسی کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں تعمیر و ترقی کا یہ تصور لے کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

امت اور اس کی تعمیر و ترقی کے متعلق ان بنیادی تصورات کی وضاحت کے بعد ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ اب دنیا میں تعمیر و ترقی کے لیے اس امت کو کن پیمانوں سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور اسے کیا کیا کام انجام دینے ہوں گے۔  امت کی تعمیر و ترقی کا یہ پروگرام کن نکات پر ہو؟ وہ کون سے میدان ہیں جن میں انھیں اس وقت بہت زیادہ توجہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے؟ آگے کی گفتگو میں انھی امور پر روشنی ڈالی جائے گی۔

اس سلسلے میں اولین کام یہ ہے کہ مسلمانوں کی تمام جماعتیں، تنظیمیں اور اداروں کو مل کر امت کومایوسی کے گرداب سے نکالیں اور اپنی حقیقی حیثیت کا ادراک کروائیں ۔ امت کے افراد میں اس شعور کو زندہ کیاجائے کہ وہ کون ہیں اور اللہ نے ان کو کیا منصب عطا کیا ہے۔ ان میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ محض اپنے لیے جینے والی قوم نہیں بلکہ سارے انسانوں کے نجات دہندہ ہیں۔ لوگوں کی دنیا و آخرت سنوارنے کی کوشش کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ انصاف کے لیے کھڑا ہونا ان کا فریضہ ہے۔ شہادت حق اور نظام عدل و قسط کا قیام ان کا اصل کام ہے۔ یقیناً اس وقت مسلمانوں کے لیے حالات بہت تنگ ہیں، آزمائشوں کا سامنا ہے اور مزید آزمائشیں بھی آسکتی ہیں، ان کے لیے زندگی اور بھی تنگ ہوسکتی ہے،لیکن ہمارا یقین ہے کہ،مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے، کے مصداق اسی طوفان کی تہہ سے ایک نئی نسل اٹھے گی اور ایک نئی قیادت ابھرے گی جو نہ صرف اپنی بلکہ اس ملک کی تعمیر نوبھی کرےگی۔ اس کے لیے ضروری ہےکہ پہلے مسلمانوں کو احساسِ مایوسی اور احساس مظلومی سے نکالا جائے۔احساسِ مایوسی حرکت و عمل کا خاتمہ کردیتی ہے۔امت کا تحفط و بقا وغیرہ جیسی دفاعی پوزیشن سے امت کو اقدامی کیفیت میں لانے کا کام کرنا چاہیے۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ میں حقیقت سے آنکھیں چرارہا ہوں، حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں کررہا ہوں۔ ایسا نہیں ہےمجھے اندازہ ہے کہ حالات کیسے ہیں بلکہ یہ بھی اندیشہ ہے کہ حالات اس سے بھی بدتر ہوسکتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم اس احساس محرومی و مظلومی سے باہر نکل آئیں اور اقدامی طور پر کچھ کرنے کا عز م اپنے اندر پیدا کریں۔ یہی ہماری ترقی کا راز ہے۔جماعت کو من حیث الجماعت اور ارکان کو انفرادی طور پر اپنے اپنے دائرہ کار میں اس کام کو انجام دینے کی ضرورت ہے۔

امت کی تعمیر و ترقی کا دوسرا اسب سے اہم کام امت کے اجتماعی اخلاق کی تشکیل اور اس کےاجتماعی کردار کی تعمیرہے۔ اس کے لیے توجہ طلب پہلو اور ترجیح اول ان کے اندرایمان کی مضبوطی پیدا کرنا ہے۔ امت میں دین کا شعور بیدار کرنا اور دین سے گہری واقفیت پیدا کرناہے۔انھیں اس کے لیے آمادہ و تیار کرنا ہےکہ امت کا اجتماعی کردار اسلام کے اصولوں پر تشکیل پائے۔مسلمانوں کا رہن سہن، ان کی تہذیب و ثقافت، ان کے تعلیمی ادارے اور ان کا تدریسی نظام، ان کے تاجر، ان کے اساتذہ، ان کے کاریگر،ان کے آجرین، ان کے ملازمین ان کے خاندان اور ان کے محلے اور بستیاں سب کے سب اسلامی اخلاق و کردار کی گواہی دینے والی ہوں۔ اور عام لوگوں کے لیے ان میں وجہ کشش پائی جائے۔ان کےاندر اخلاق و کردار کی قوت پیدا کی جائے۔ امت کے افراد کی ایسی تربیت ہوکہ امت کا اخلاقی وجود نمایاں ہو کر سامنے آئے کہ یہ صداقت کے، دیانتداری کے، انصاف کے، خدمت کے، محبت کے، ہمدردی کے، سخاوت کے علم بردار ہیں۔ یہ یتیموں کے محافظ،کم زوروں کے محافظ، مظلوموں کے مددگارہیں۔

اس سلسلے میں دو بنیادی باتیں خاص طور پر پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے: اولاً خود مسلمان آپس میں ایک دوسرے کےساتھ مل کر اس ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کاموں کو سراہنے اور تحسین کی نظر سے دیکھنے والے بنیں۔ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہانہ رویہ اختیار کریں۔ایک بات اس سلسلے میں یہ بھی کہی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف طبقات کےدرمیان اتحاد ہونا چاہیے۔  اس مقصد پر سب کا اتفاق ہے۔ لیکن اتحاد کا کیا مفہوم ہے اس کا ادراک بہت ضروری ہے۔ کیا سارے مسلمان ایک جیسے ہوجائیں یاان کے درمیان ہر قسم کا اختلاف ختم ہوجائے اسی کو اتحاد کہا جائے گا؟ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو یہ کبھی ممکن نہیں ہوسکے گا۔ ہمیں اس بات پر بھی یکسو ہونے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا کیا مطلب ہے۔ میرے خیال میں اتحاد کے حوالے سے اتنی بات ضروری اور کافی ہے کہ مسلمانوں کے تمام طبقات ایک دوسرے کے کاموں کی مخالفت نہ کریں بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ ان کی سرگرمیاں ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں اور وہ سب مل کر اس مقصد کے حصول کی سمت میں پیش رفت کرسکتے ہیں۔

اس سلسلے کی دوسری بات، جو امت کے اجتماعی کردار کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں بسنے والے انسانوں کے تئیں ان کا ذہن اسلامی اصولوں کی بنیاد پر استوار ہو،ان کے ذہنوں میں مختلف طبقات کے لیے جوابی نفرت، تعصب اور دشمنی کے جذبات کی جگہ محبت، اصلاح اور خیرخواہی کے جذبات پیدا کیے جائیں۔ یہ کام سب لوگوں کو مل کر کر نا چاہیے۔ یقیناً یہ بہت مشکل کام ہے کہ آپ ان لوگوں کے تئیں محبت کا اظہار کریں جو دشمنی کرنے والے ہوں۔لیکن اسلام کی تعلیم اور ہمارے آقا حضرت محمدﷺ کی سنت یہی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس وقت جومنفی پروپیگنڈا اور جو اسلامو فوبیائی بیانیہ جاری ہے اس کا صحیح جواب بھی یہی ہے۔

امت کی تعمیر و ترقی کے لیے تیسرا اہم کام امت کو تعلیم یافتہ بنانا ہے۔ امت کو تعلیم کے میدان میں بہت آگے آنے کی ضرورت ہے۔تعلیم اور علم کی کمی بے شمار خرابیوں کو جنم دیتی ہے اور امت کی تعمیر کے ایجنڈے کی تکمیل میں ایک بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔انھی خرابیوں میں غربت بھی ہے۔ جہالت غربت کا سبب بنتی ہے اور غربت قوم کو مزید جاہل بناتی ہے۔ ایک باوقار امت بننے کے لیے ضروری ہے کہ علم کے میدان پر بہت زیادہ توجہ دی جائے۔تمام لوگ مل کر اس بات کی کوشش کریں کہ پوری قوم کے ذہن میں حصول علم کا سودا سماجائے۔علم و تحقیق کی جستجو ان کے دلوں میں بھر دی جائے وہ علم کے پیاسے ہوجائیں۔انھیں بحیثیت مجموعی ایک نالج کمیونٹی میں تبدیل ہونا چاہیے۔ میکالے کی تھیوری کے برخلاف ہمیں پوری امت کو تعلیم یافتہ بنانا ہے،صرف elite یا دولت مند طبقے کا تعلیم یافتہ ہونا کافی نہیں ہے بلکہ امیج یہ بن جائے کہ مسلمان ایک نالج کمیونٹی ہیں۔

یقیناً تعلیم کے میدان میں مسلمان ترقی کررہے ہیں، مسلمان طلبہ و طالبات کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔مختلف شعبوں میں وہ آگے آرہےہیں۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے۔ لیکن ابھی بھی مسلم معاشرے میں تعلیم کی جو بہار نظر آرہی ہے وہ مجموعی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔آج بھی مسلمانوں میں ناخواندگی کا تناسب ملک کی تمام اقوام میں سب سے زیادہ ہے۔ مسلمانوں کی 40 فیصد سے زائد آبادی ان پڑھ ہے۔ حالیہ دنوں کی رپورٹ یہ ہے کہ مسلمانوں میں آٹھ فیصد ڈراؤپ آوٹ ہوا ہے۔ مسلمان طلبہ اعلیٰ تعلیم میں صرف 5.5 فیصد ہیں جب کہ وہ ہندوستان کی جملہ آبادی کا تقریباً 15 فیصد ہیں۔ پھر یہ تناسب ان ریاستوں میں اور بھی بہت خراب ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ کیرالہ کے سوا وہ تمام ریاستیں جہاں مسلمان 18 سے 33فیصد رہتے ہیں، جیسے اترپردیش، بہار، بنگال اور آسام وغیرہ میں مسلمانوں کا تعلیمی تناسب بہت ہی تشویشناک ہے۔

یہ بات ہمیں تسلیم کرنی چاہیے کہ تعلیم اور حصول علم بحیثیت مجموعی پوری امت کے اہم ترین ایجنڈے کا حصہ نہیں بن سکا۔ انفرادی و اجتماعی سطح پر ان کی اولین ترجیحات میں بھی تعلیم شامل نہیں ہوسکی۔ اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر امت کی دولت کہاں صرف ہوتی ہے۔آپ جائزہ لے کر دیکھ لیں۔ کھانے پینے، پہننے رہنے،عالی شان مکانات، فضول رسوم و رواج اور شاندار تقریبات وغیرہ میں جو خرچ ہوتا ہے اس کا کتنا تناسب حصول علم کے لیے کیا جاتا ہے۔جو لوگ دین دار ہیں، مذہبی تنظیموں سے وابستہ ہیں ان کے اللہ کی راہ میں خرچ کیے جانے والی دولت کا بڑا حصہ مساجد کی تزئین و آرائش، عمارات کی تعمیر و زیبائش وغیرہ جیسے کاموں پر صرف ہوجاتا ہے۔ آپ تمام بڑے شہروں کے مسلم آبادیوں والے علاقوں کا مشاہدہ کریں۔ وہاں آپ کو ہوٹل، چائے خانے، کپڑوں و جوتوں کی دکانیں کثرت سے ملیں گی، تعلیمی ادارے، ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، اچھے معیاری اسکول،خال خال ہی نظر آئیں گے۔ شہر کے وہ علاقے جہاں دوسری کمیونٹی کے لوگ رہتے ہیں وہاں کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ، کوچنگ سینٹر اور دیگر اداروں کی بھرمار ہوتی ہے۔ ہوٹل اور کھانے پینے کے مرا کز بس ضرورت کے مطابق اور وہ بھی سادہ، لیکن مسلم اکثریتی علاقے ہوٹلوں، اور کپڑوں، جوتوں کی دکانوں سے اٹے پڑے ہیں۔  ہماری پہچان ہی ایک ایسی قوم کے طور پرہوئی ہے جس کے ہاں لذید کھانے تیار ہوتے اور کھائے کھلائے جاتے ہیں۔ رمضان آتا ہے تو اسی حوالے سے اخبارات خصوصی اسٹوری کور کرتے ہیں۔ ہمیں اس امیج کوبدلنے کی ضرورت ہے۔ یہی حال ہماری مساجد، تنظیموں کے دفاتر اور دیگر اداروں کا بھی ہے۔جتنا سرمایہ ان کے ظاہری حسن کو بڑھانے میں خرچ ہوتا ہے اس کے بالمقابل انسانی وسائل کی تیاری پر بہت کم خرچ ہوتا ہے۔ مساجد سے تعلق اور اس کی تزئین و آرائش سے دل چسپی یقیناً دین سےوابستگی کا ایک مظہر ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس میں اعتدال رہے۔صورت حال یہ ہے کہ ان مساجد میں تمام سہولتیں تو ہوتی ہیں لیکن حصول علم کی سہولتیں بالعموم نہیں ہوتیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے سارے ادارے، تمام مساجد اور سبھی تنظیمیں امت میں حصول علم کے جذبے کو بیدار کریں، اس امر کی کوشش کریں کہ وہ پڑھیں، تحقیق کریں اور اپنے اعلیٰ علمی کاموں سے انسانوں کو مستفید کریں۔ امت کا علمی بلند بلند ہو تاکہ دیگر قومیں امت کی طرف متوجہ ہوں۔

یہ مشکلات سے بھرا کام ہے۔ اس پر سب کو مل کرکوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف اداروں اور تنظیموں کے کاموں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ لوگ الگ الگ کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے کاموں کی تکمیل کرنے والے بنیں۔ اس وقت ملک کی تمام ریاستوں میں تعلیمی صورت حال یکساں نہیں ہے۔ جنوبی ہند کی ریاستوں میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب سوائے کیرالہ کے زیادہ تر شہری علاقوں میں مرکوز ہے، جب کہ شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں مسلمان دیہی علاقوں میں بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ اس صورت حال کا اثر ان کی تعلیمی کیفیت پر بھی پڑا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے ایک اور فرق یہ ہے کہ جنوبی ہندوستان بالخصوص تلنگانہ، آندھرا، کرناٹک، مہاراشٹرا وغیرہ میں اوسط سطح تک کی تعلیم عام ہے لیکن ان علاقوں میں اعلیٰ تعلیم کا رجحان بہت کم ہے۔ جب کہ شمالی ہندوستان خاص طور پر بہار اترپردیش وغیر میں اوسط تعلیم کا تناسب کم ہے لیکن جو لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ بہت اعلیٰ سطح تک پہنچتے ہیں۔

اس بات کی کوشش ہونی چاہیے کہ شمال کی ریاستوں میں اوسط تعلیم کو بھی بڑھایا جائے،وہاں بڑے پیمانے پرنجی سطح کے تعلیمی اداروں کو قائم کیا جائے اور مسلمانوں کی بڑی آبادی کوتعلیم سے بہرہ ور کیا جائے۔ دوسری طرف جنوب کی ریاستوں میں جہاں اوسط تعلیم عام ہے وہاں اعلیٰ تعلیم کا رجحان پیدا کیا جائے۔لوگ محض انجینئر نگ یا میڈیکل کی ڈگری لے کر مطمئن نہ ہوجائیں بلکہ وہ ان میدانوں میں اعلیٰ سطح تک پہنچیں۔اس کام کے لیے حکومتی اقدامات سے جس قدر استفادہ کیا جاسکتا ہو کیا جائے لیکن خود کمیونٹی کے اندر ہونے والے اقدامات کو بھی اس کے لیے اسٹریم لائین کرنا ضروری ہے۔ جماعت اسلامی ہند یا امت کے دیگر ادارےاور افراد اس پر جوتوجہ دے رہے ہیں وہ ہماری ضرورتوں سے بہت کم ہے۔ اس اجتماع ارکان سے ہمیں یہ پیغام لے کر جانا چاہیے کہ اس کام کی رفتار کو تیز کرنا ہے اور اس کے اسکیل کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسپیڈ اور لارج اسکیل ان دونوں پر توجہ کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر امت کی طاقت کو بڑھانےکا ایک اہم ذریعہ تعلیم ہے تو اس کو بہت بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر امت کے ارباب حل وعقد کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور جماعت اسلامی ہند کو اس معاملے میں پیش قدمی کرنا چاہیے۔

امت کی تعمیر و ترقی کےلیے ایک اور کام جو ہمیں کرنا ہے وہ امت کی اس ملک کے وسائل میں متناسب حصہ داری کے حصول کےلیے کوشش ہے۔ہمیں اس کو بھی جانچنے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بیروکریسی، میڈیا، انڈسٹری اور ایگریکلچر، پرائیویٹ سیکٹر اور پبلک سیکٹر، جیسے مختلف شعبہ ہائےحیات میں مسلمانوں کی حصہ داری کیا ہے اس کا جائزہ بھی ہو اور اس بات کی بھی کوشش ہو کہ ان میں مسلمانوں کی حصہ داری میں اضافہ کیا جائے۔کیوں کہ امت کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کے بعد معاشی ترقی و استحکام کا پہلو بہت اہم ہے۔ اس وقت ملک میں مسلمانوں کی 90٪ آبادی چھوٹے کاروباری، دکاندار، خوانچہ والے، پھیری لگانے والے، کم ہنر والی ملازمت کرنےوالے، دہاڑی مزدوروں وغیرہ پر مشتمل ہے۔ ان کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کو کوئی سماجی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر بیماری میں مبتلا اور قرضوں میں ڈوبے رہتے ہیں۔مسلمانوں کی جو روایتی صنعتیں ہیں، یعنی چمڑے، تانبے، پیتل، ہینڈلوم. تالے، چوڑیوں وغیرہ کی صنعتیں، وہ بازار کے بدلتے رخ، نئی ٹیکنالوجی کی آمد، نئی مصنوعات کی درآمداور حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ختم ہوچکی ہیں اور اس صورت حال نے مسلمانوں کے خوش حال طبقے کی معاشی کمر توڑ دی ہے۔

زراعت کے شعبے میں دیہی علاقوں کے مسلمانوں کے پاس زمین نا کے برابر ہے۔ صرف 5٪ مسلمان ایسے ہیں جن کے پاس 5 ایکڑ یا اس سے زائد زمین ہے اور 95٪ بے زمین مزدور ہیں۔ چوں کہ صرف کھیتی باڑی سے گزر بسر نہیں ہوتی ہے، اس لیے ان علاقوں کے مسلمان دیگر ریاستوں اور شہروں میں روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔اس وقت کھلے بازار اور گلوبلائزیشن کے دور میں سرکاری سیکٹر کا دائرہ سکڑتا جارہا ہے۔ جو لوگ اعلی تعلیم یافتہ یا ہنر مند ہیں وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں چلے جاتے ہیں۔ مسلمانوں میں چوں کہ اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی کمی ہے اس لیے وہ ان مواقع سے پورا فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں۔

سرکاری نوکری صرف مستقل آمدنی کا ذریعہ ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ سماجی اثرات کے فروغ کا ذریعہ بھی ہوتی ہے۔  صورت حال یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں 4.9٪ اور سرکاری کارخانوں میں 7.2٪ مسلمان نوکری میں ہیں. اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آئی ایس آفیسروں میں اور دوسری سرکاری نوکریوں میں محض دو سے تین فیصد تک مسلمان ہیں جب کہ ان کی آبادی 15 فیصد ہے۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے اور اسے حل کرنے کی ہمیں کوشش کرنی ہوگی۔ امت کے دولت مند طبقے کو تجارت میں،صنعت میں اور دیگر سرگرمیوں میں اپنی دولت کو مشغول کرکے تکوین ثروت کے اس پورے پروسس میں مسلمانوں کو شامل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے امت کی استعداد کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔  میرے خیال میں مسلمان بن کر رہنے اور انسانوں کے سامنے اسلام کی قولی و عملی شہادت دینے اور بالآخر دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اپنی معاشی حالت کو بھی بہتر بنائیں اور معاشی طور پر وہ مضبوط بنیں۔ اسلامی تحریک کو اپنے افراد کی تربیت اور مسلمانوں کو اسلام پر کاربند ہونے کی تلقین میں اس ہدف کو بھی غیر معمولی اہمیت دی جانی چاہیے کیوں کہ ہمارا مقصد، سیاسی و معاشی نظام سمیت انسانی معاشرہ کی اسلامی تشکیل نو ہے اور اس کے حصول کے لیے معاشی قوت بھی ایک ناگزیرضرورت ہے. اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم

1- علم و ہنر میں اضافہ کی مہم چلائیں

2 – معاشی سرگرمی کے لیے وسائل فراہم کرنے کا نظم کریں

الحمد للہ تحریک اسلامی کی جانب سے رفاہ چیمبر آف کامرس، سہولت مائکرو فینانس، سیوا بنک، زکوة سینٹر آف انڈیا اس سلسلے میں کوشاں ہیں. لیکن یہ امت کی ضروریات کے اعتبار سے بہت کم ہے۔ اس محاذ پر شہر شہر، گاؤں گاؤں، گھر گھر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سب کاموں کا بھی راست تعلق اقامت دین کے نصب العین سے ہے۔ جب ہماری صلاحیتیں بڑھیں گی اور امت بااختیار ہوگی، خوشحال اور طاقتور ہوگی تو امت کی طاقت وصلاحیت کا امت کے نصب العین کے لیے استعمال ہوگا۔ اس لیے یہ صحیح ہے کہ جب ہم تعلیم پر توجہ دیں تو تعلیم کے بارے میں اسلامی تصورات پر بھی توجہ دیں۔ تعلیم کے سلسلے میں قرآن و سنت کے جو بنیادی تصورات ہیں وہ بھی زیر بحث آئیں اور تعلیم سے طاقت کا اور مستحکم معیشت کا جو رشتہ ہے اس پر بھی ہم توجہ دیں۔

امت کی تعمیر و ترقی سے متعلق ایک اہم چیز سیاسی قوت و ترقی بھی ہے۔سیاست میں ہم کہاں کھڑے ہیں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ چاہے وہ مرکز کا نظام حکومت ہو یا ریاستی اسمبلیاں اور وہاں کی بیورکریسی ہو، با اثر اور با نفوذ ہونے کے لیے منظم اجتماعی جد وجہد کی ضرورت ہے۔ مسلمان یہاں کے برادران وطن کے ساتھ مل کر ملک کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں۔ تعمیرو ترقی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ملک کے مسائل میں بھی ہم حصہ لینے والے بنیں۔ غربت اور بے روزگاری، جہالت، معاشی نا ہمواری، کسانوں کی خودکشی، اونچ نیچ، چھوت چھات، فحاشی و عریانی، عورتوں پر بڑھتے مظالم، بچیوں کا رحم مادر میں قتل، ناانصافی و استحصال، کرپشن و بدعنوانی، قتل و غارت گری اور جرائم کی بھرمار، ٹوٹتے بکھرتے خاندان، صحت عامہ کو درپیش خطرے، بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی وغیرہ۔ یہ وہ مسائل ہیں جنھوں نے ملک کے عزیز کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ اس پر مزید فرقہ ورانہ منافرت، فرقہ پرست طاقتوں کا غلبہ، سرمایہ دارانہ استعمار، غرض اس پوری صورت حال میں خیر امت کی حیثیت سے تمام انسانوں کو ان مسائل سے نکالنے کے لیے ان کے ساتھ مل کرشانہ بشانہ قدم بقدم اجتماعی جدوجہد کرنے کا جذبہ ہمارے اندر پیدا ہونا چاہے۔یقیناً ان کاموں کے لیے سیاست کا میدان ایک اہم میدان ہے۔سیاست سے مراد انتخابی سیاست بھی ہے اور اس کے باہر کی روزمرہ سیاست بھی۔ میرا خیال ہے کہ پچھلے تیس چالیس برسوں کے دوران ملک کی مسلم سیاست صرف اس ایجنڈے پر چلتی رہی ہے کہ یہاں فسطائیت کو برسر اقتدار آنے سے روکا جائے۔ یہ کوئی ایجابی نہیں بلکہ سلبی ایجنڈا تھا۔ یقیناً کبھی کبھی ہمیں اس طرح کی حکمت عملی کو بھی اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن سلبی ایجنڈے کی بنیاد پر کی جانے والی سیاست کا کوئی خاص نتیجہ برآمدنہیں ہوتا۔چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ اس ملک میں خود مسلمان اپنے نظریے اور مثبت پروگرام کے تحت کبھی سیاسی میدان میں سرگرم عمل نہیں ہوئے۔ حالیہ عرصے میں بھی مسلمانوں میں جو مسلم سیاست مقبول عام ہورہی ہے اس کی بنیادیں بھی سلبی ہیں۔ اور میرا احساس ہے کہ یہ سیاست ملت کو ایک بند گلی میں لے جارہی ہے۔ ہمیں اس سلبی سیاسی ایجنڈے کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری کوشش محض اپنے حقوق اور صرف اپنے لیے انصاف کے لیے نہ ہو، بلکہ ملک کے تمام مظلوموں کے حقوق اور ان کے لیے عدل و انصاف کے حصول کے لیے ہو۔ ہم لوگوں کو حقوق دلانے والے بنیں۔آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بڑی عجیب اور غیر حقیقت پسندانہ بات ہے کہ جہاں خود مسلمانوں کا جینا دوبھر ہے اور جہاں خود ان کے حقوق پامال ہورہے ہیں وہاں آپ دوسروں کو انصاف فراہم کرنے اور حقوق دلانے کی بات کررہے ہیں۔لیکن میرا یہ یقین ہے کہ یہی راستہ مسلمانوں کو یہاں عزت و احترام بھی دلائے گا اور ان کے لیے نئی راہیں بھی کھولے گا۔آج کی سیاست کی پوری کوشش یہی ہے کہ منفی پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو حاشیے پر کردیا جا ئے، انھیں سماج سے خارج کردیا جائے، وہ سماج میں الگ تھلگ اور تنہا ہوجائیں تو اس کا جواب یہی ہے کہ وہ سیاست،حقوق کی لڑائی، لوگوں کے لیے انصاف کی فراہمی اور صحافت، جیسے ہر میدان میں مثبت بنیادوں پر اپنی موجودگی درج کراتے رہیں۔ یقیناً اس میں مشکلات آئیں گی، آزمائشیں بھی آئیں گی لیکن مسئلوں کا حل بھی اسی سے ہوگا اور سرخروئی بھی اسی راستے سے حاصل ہوگی۔ یہی ہمارے آقا کی سنت ہے۔ہمارے سامنے وہ واقعہ ہے جب مکہ کے ابتدائی دور میں آپ ؐ پر زندگی تنگ کی جارہی تھی، مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا گیا تھا لیکن جب آپ کے سامنے ایک لٹا پٹا مسافر اپنے حق کی دہائی دیتا ہےاور کہتا ہے کہ ابوجہل سے میرا حق دلوائیے، سوچیے ابوجہل آپ کا سب سے بڑا دشمن تھا، مکہ کی ایک بڑی آبادی آپ کی مخالف تھی لیکن آپ بلاکسی خوف و تردد اس کا حق دلانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔یہ نہیں کہا کہ اس وقت تو ہم ہی پریشان ہیں، ہم پر ہی مصیبت پڑی ہوئی ہے ہم آپ کا حق کیسے دلوائیں یا یہ کہ ابو جہل تو ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے وغیرہ وغیرہ۔  بس آپ اس کا حق دلانے کے لیے تیار ہوگئے۔ یہ وہ کردار ہےجو آج ہمیں اختیار کرنےکی ضرورت ہے۔ آج بھی بے شمار انسانوں کے حقوق تلف کیے جارہے ہیں۔ وہ مظلوم ہیں۔ ان پر بے تحاشاظلم ہورہا ہے۔اگر ان کو حق دلانے کے لیے مسلمان کھڑے ہوجاتے ہیں تو یقین جانیےان کے اپنے مسائل انھیں چھوٹے لگنے لگیں گے۔ہمیں اس راستے میں کسی کو یہ احساس نہیں دلانا چاہیے کہ ہم کم زور ہیں یا دشمن کے شوروغوغا سے دب گئے ہیں۔ یہ راہ کٹھن ضرور ہے لیکن کام یابی بھی اسی میں ہے۔کیوں کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔جو لوگ اس کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں وہ ان کے لیے راہیں کھول دیتا ہے۔سیاست کے میدان میں امت کو ایک طویل مدتی جدو جہد کے لیے تیار کرنا اس کی تعمیر و ترقی کا ایک اہم جزو ہے۔

ہم نے اپنی گفتگو میں امت کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے کچھ اہم باتیں آپ کےسامنے رکھی ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کے جو حالات ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہیں۔ان حالات میں سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ امت اگر اپنی حیثیت کے شعور کے ساتھ آگے بڑھے گی، بھارت کے تمام شہریوں کو ایک عادلانہ،منصفانہ، کام یاب، خوشحال اور انسانی خوبیوں سے مالا مال سماج دینے کے لیے، امت تعمیرو ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھے گی تو اس کی تعمیر وترقی سارے سماج کے لیے خیرو بھلائی کا سبب بنے گی۔  اللہ کی مدد شامل حال رہے۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2025

مزید

حالیہ شمارے

فروری 2025

شمارہ پڑھیں

جنوری 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223