جب تجارت عبادت بن جاتی ہے

مفتی فیاض احمد

تجارت کے پیشے کا تعلق عہدقدیم سے ہے۔ اسلام کی صبح صادق سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں بھی تجارت کا عام رواج تھا۔عربوں کے قافلے اونٹوں اور گھوڑوں پر سامان تجارت لاد کر کئی کئی دنوں تک میلوں کا سفر طے کرتے تھے۔یہ قافلے سمندری سفر کے ذریعے اپنا سامانِ تجارت ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرتے تھے۔ مکہ میں بھی ہر سال کچھ میلے ہوا کرتے تھے،جن میں بڑے بڑے بازار لگا کرتے تھے، اور دور دور کے تاجر اس میں دکانیں لگانے آتے تھے۔ ان میں مشہور میلے کا نام عکاظ تھا۔خود اہل مکہ بھی اپنا سامان دوسرے شہروں میں لے جا کر فروخت کرتے تھے۔ آپ ﷺ بھی صغر سنی میں اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ ایک تجارتی قافلے میں ملک شام تشریف لے گئے تھے۔ خدیجہ بنت خویلد مکہ کی ایک بہت بڑی مالدار اور نہایت شریف خاتون تھیں، وہ ہر سال کچھ لوگوں کو اپنا مال دے کر تجارت کے لیے شام وغیرہ بھیجا کرتی تھیں۔ انھوں نے ایک مرتبہ آپ ﷺ کو بلا بھیجااور کہا کہ میں نے آپ کی سچائی ،امانت داری اور نیکی کی شہرت سنی ہے، اس لیے میں آپ کو اپنا تجارتی مال دے کر بھیجنا چاہتی ہوں اور جتنا نفع دوسروں کو دیتی ہوں آپ کو اس سے دوگنا دوں گی۔ آپ ﷺ نے اس مال کو لے جا کر تجارت کی اور نفع حاصل کیا۔اس سے پتا چلتا ہے کہ تجارت کا پیشہ کوئی نیا نہیں،بل کہ زمانۂ قدیم سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ لیکن آمدِاسلام اور بعثتِ نبوی کے بعد تجارت وکاروبار کو ایک نیا رخ عطاکیا گیااور ایسے اصول مرتب کیے گئے، جو صرف مذہب ِاسلام کی ہی خصوصیت ہے۔ ارشاد باری ہے:

یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلاَّ آَٔن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ  ﴿النساء:۳۰﴾

’’اے مومنو! تم ایک دوسرے کا مال چوری ، دھوکا دہی ، جوا، سود اور دیگر حرام طریقوں سے نہ کھایا کرو، البتہ جو مال تمھیں آپسی رضامندی کے ساتھ تجارت کے ذریعے حاصل ہووہ تمھارے لیے حلال اور جائز ہے۔‘‘

آج پوری دنیا میں کسبِ معاش کے جتنے ذرائع اور وسائل ہیں ان میں تجارت کا پیشہ بہت ہی اعلیٰ اور معیاری پیشہ ہے۔ اگرچہ تجارت کے علاوہ زراعت، صناعت اورملازمت جیسے ذرائع بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں، اس کے باوجود فقہائ کی ایک جماعت نے تجارت کو سب سے افضل قرار دیا ہے ۔ چنانچہ صاحب اعانہ فرماتے ہیں ’’أفضل المکاسب الزراعۃ…ثم التجارۃ قال جمع: ھی أی التجارۃ أفضلھا‘‘کہ کمائی کے ذرائع میں سب سے افضل کھیتی باڑی پھر تجارت ہے لیکن فقہا کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ تجارت سب سے افضل ہے﴿اعانۃ الطالبین :۲/۴۵۵﴾ تجارت ہی کادوسرا نام خرید وفروخت ہے،اس لیے کہ ہر قسم کی تجارت میں خرید وفروخت کا معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ شریعت ِ اسلامیہ میں جس طرح ارکانِ اسلام سے لے کر دیگر عبادات کے متعلق امور پر روشنی ڈالی گئی ہے،اسی طرح خریدوفروخت، لین دین، تجارت اور تجارت سے متعلق تمام چیزوں کے اصول وضوابط کو بیان کیا گیا ہے،حدیث وفقہ کی کتابوں میںاس سے متعلق مستقل طور پر ’’ کتاب البیع‘‘ کے عنوان سے ایک باب قائم کیا گیا ہے، جس میں خریدوفروخت ، تجارت اور کاروبار کے بارے میں کلی وفروعی مسائل کو بالترتیب بیان کیا گیا ہے، جس کا ماحصل یہی ہے کہ ہر وہ معاملہ جو دھوکا اور فریبپر مبنی ہو وہ شرعا حرام اور ناجائزہے،اور جو اس سے پاک ہو وہ حلال اور مباح ہے۔

ایک سچے اور اچھے تاجر کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی کو دھوکا نہیں دیتا۔وہ دنیا کے نقصان کو آخرت کے نقصان پر ترجیح دیتا ہے۔ وہ آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ کو نمونہ اور اسوہ بناتاہے، وہ اپنے اور اپنے اہل وعیال کے پیٹ کو حرام مال کی غلاظت سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ حلال طریقے سے آنے والا مال کم ہی کیوں نہ ہو اس میں برکت ہوتی ہے، اور حرام مال کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو وہ بے برکت ہوتا ہے۔وہ عبادت کو تجارت پر مقدم رکھتا ہے ۔ اس کے دماغ میں قرآنِ کریم کی وہ آیت ہمیشہ گردش کرتی رہتی ہے جس میں عبادت کو تجارت پر مقدم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے:

’’ فاذا قضیت الصلٰوۃ فانتشروا فی الأرض وابتغوا من فضل اللہ‘‘﴿الجمعہ : ۱۰﴾

’’جب نماز ہوجانے کے بعد تم اپنے کاروبار اور دنیوی مشاغل میں مصروف ہوسکتے ہو۔‘‘

ایسا تاجر آپ ﷺ کے ان فرمودات کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھتا ہے جن میں آپﷺ نے لین دین میں مجبوراور تنگ دست لوگوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنے کی ترغیب اور صاحب حق کو اس کے حق سے زیادہ حق دینے کی تاکید کی ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں: ’’آپﷺ نے ان سے ایک اونٹ خریدا اور آپ نے ان کو اس کی مقررہ قیمت سے زیادہ قیمت ادا کی۔‘‘﴿ مسلم :۵۰۱۴ ﴾ آپ نے اس تاجر کو بشارت سنائی جو لوگوں کے ساتھ لین دین میں نرمی کا معاملہ کرتا ہے۔ فرمایا:

من أنظر معسرا أو وضع لہ أظلہ اللہ یوم القیامۃ تحت ظل عرشہ یوم لا ظل الا ظلہ  ﴿ترمذی :۱۳۰۶ ﴾

’’ جو کسی تنگ دست کو مہلت دے یا اس کو معاف کردے اللہ تعالی اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سایے میں جگہ دے گاجس دن اس سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘

اسی طرح دوسری ایک روایت میں آپ نے فرمایا:

’’ رحم اللہ رجلا سمحا اذا باع واذا اشتری واذا اقتضیٰ‘‘﴿بخاری : ۲۰۷۶﴾

’’اللہ تعالی اس شخص پر رحم فرمائے جو خریدوفوخت کے وقت اور قرض کی وصولی کے وقت نرمی کا معاملہ کرتا ہے۔‘‘

مذکورہ احادیث کا تعلق عام لین دین سے ہے، لیکن تجارت ایک ایسی چیز ہے جس میں بہت سے معاملات ادھار ہوتے ہیں ،خصوصا غریب ونادار لوگ ادھار ہی معاملہ کرتے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ آج مسلمان تجارت میں دوسری قوموں سے پیچھے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر علاقوں کے بازاروں اور مارکیٹوں میں غیر مسلم حضرات کا قبضہ ہے، اور وہ مکمل طور پر تجارتی معیشت کو اپنے قابو میں کیے ہوئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی تجارت آٹے میں بال کے برار ہے۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان تاجر اپنی تجارت کو اسلامی اصولوں اور طرزنبوی کے خلاف فروغ دینے کی ایسی کوشش کرتے ہیں کہ خود مسلم قوم بھی ان کے پاس لین دین کا معاملہ کرنے سے گریز کرتی ہے، جب کہ خوفِ خدا اور اطاعتِ خداوندی کے بغیر تجارت بے سود اور ضرر رساں ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’ یا معشر التجارتبعثون یوم القیامۃ فجارا الا من التقی اللہ وبر وصدق‘‘ ﴿ سنن ترمذی:۱۲۱۰﴾

’’ اے تاجروں کی جماعت تم کو قیامت کے دن فاجر بنا کر اٹھایا جائے گامگر یہ جس نے اللہ کے ڈر ، سچائی اور بھلائی کے ساتھ تجارت کی۔‘‘

آج جس طرح مسلم قوم کو ایسے ڈاکٹر، اساتذہ، اور دیگرخدمت گزاروںکی ضرورت ہے جو مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایماندار ی ، صداقت ، قوم کی ہمدردی اور ملت اسلامیہ کی خدمت جیسی صفات سے متصف ہوں، اسی طرح ایسے تاجروں کی بھی ضرورت ہے، جو مسلمان بھی ہو لیکن صادق وامین بھی، جن سے لین دین میںہر کوئی اپنے آپ کو دھوکے سے مامون سمجھتا ہو۔ تاکہ ہم بھی اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ تجارت میں برابر کے شریک ہوںاور ہماری تجارت ان کے سامنے مذہبِ اسلام کی ترجمانی کرے۔جس کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ہم معاملات میں ایسا طریقہ اختیار کرے کہ وہ ہمیں ایک سچا اور ایماندار تاجر سمجھے اور ہم اس حدیث کے مصداق بن جائیں جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:

’’ التاجر الصدیق الأمین مع النبین والصدیقین والشھدائ

﴿ترمذی : ۱۲۰۹﴾

’’ کہ سچا اور امانت دار تاجر انبیائ ، صدیقین اور شہدائ کے ساتھ ہوگا۔‘‘

یہ بات خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رہے کہ ہماری تجارت ہمیں عبادات اوراعمال صالحہ سے غافل نہ کرے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیںاور ہمارادیا ہوا مال خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جو خسارہ اور نقصان سے پاک ہے۔‘‘

مشمولہ: شمارہ مئی 2011

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau