جب ہندوستانی مسلمانوں ے بارے میں گفتگو ہوتی ہے توکہا جاتا ہے کہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اِس ذیل میں مُلک کے اجتماعی نظام میں اُن کی کم نمائندگی کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ خود مسلمان بھی اِس سلسلے میں متفکر نظر آتے ہیں اور وہ غیر مسلم احباب بھی جو مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں، اِس سلسلے میں تشویش کااظہارکرتے رہتے ہیں۔اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ نظامِ اجتماعی کے مختلف اداروں میں مسلمانوں کا تناسب ، ملک کی آبادی میں اُن کے تناسب سے خاصا کم ہے۔ اسمبلی اورپارلیمنٹ سے لے کر سرکاری محکموں اور تعلیمی اداروں تک یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں مختلف سطح کے انتخابات میں مسلمانوں کو امیدوار کے طور پر کھڑا نہیں کرتیں۔ اِسی طرح اعلیٰ سرکاری مناصب کے لیے بھی مسلمانوں کا تقرر نہیں کیاجاتا۔
اسباب
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے ترقی نہ کرپانے کے اسباب کیا ہیں؟ اکثر لوگوں کے خیال میں مسلمانوں کی محرومی، کم نمائندگی اور کم موجودگی کا اصل سبب مسلمانوں کے خلاف پایا جانے والا تعصب اور امتیاز ہے جو ملکی فضا کے اندر موجود ہے۔ اُس سے قریبی تعلق رکھنےوالا دوسرا سبب وہ بے اعتمادی ہے جو مسلمانوں کےسلسلے میں پائی جاتی ہے۔ یہ سبب بھی بیان کیا جاتاہے کہ مُلک کی آزادی کے بعد مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے مسلمانوں کی ترقی کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے بلکہ عموماً ان کو نظرانداز کیا، جو سہولتیں بحیثیت شہری اُن کو حاصل ہونی چاہئیں تھیں وہ انہیں فراہم نہیں کی گئیں اور اِس طرح مسلمان ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ اِن اسباب کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب موجود ہے اور وہ حکومت اور حکومتی مشنری کی غفلت اور سرد مہری کے بھی شکار ہیں لیکن کیا مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کی توجیہ محض اِن اسباب کے ذریعے کی جاسکتی ہے؟
ہمارے خیال میں اِس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ مذکورہ بالا اسباب کی تمام تر اہمیت کے باوجود مسلمانوں کی صورتحال کے صحیح تجزیے کے لیے زیادہ گہرائی کے ساتھ اِس معاملے پر غورکی ضرورت ہے۔ اِنسانی سماج میں تعصب کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اِنسانی گروہ ایک دوسرے کے ساتھ متعصبانہ سلوک کرتے رہے ہیں۔ اور ناروا امتیاز بھی برتتے رہے ہیں۔ اگر آج مسلمانوں کو تعصب اورامتیاز سے واسطہ پیش آرہا ہے تو اس پر افسوس تو کیا جاسکتا ہے مگر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی گروہ کارزارِ حیات میں آگے بڑھنا چاہے تو محض تعصبات اس کا راستہ نہیں روک سکتے۔ چنانچہ مسلمانوں کی موجودہ کیفیت کے اصل اسباب کو خارج میں تلاش کرنے کےبجائے خود مسلمانوں کے اندرون میں تلاش کرنا زیادہ سودمند ہوگا۔ مسلمانوں کی نفسیات ، طرز فکر اور محرکات عمل کا مطالعہ کرکے یہ معلوم کیا جانا چاہیے کہ اِن داخلی کیفیات کا مسلمانوں کے عملی رویے پر کیا اثر پڑ تا ہے اورپھر اس رویے کے نتیجے میں مسلمانوں کی صورت حال میں کیا تبدیلی واقع ہوتی ہے اور دنیا مسلمانوں کے بارے میں کیا تاثر قائم کرتی ہے گویا یہ جاننا ضروری ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو اپنے اجتماعی وجود کو اور خارجی دنیا کو کِس نظر سے دیکھتے ہیں۔
اجنبی دنیا
آج کی عالمی فضا میں ایک مسلمان کو (جس میں ہندوستان کا مسلمان بھی شامل ہے) بیک وقت دو دُنیاؤں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک دنیا وہ ہے جو مسلمانوں کے گھروں کے اندر اور اُن کی بستیوں اور محلوں میں موجود ہے۔ اِس میں اِسلامی تصور کائنات اور اِسلامی تہذیب و اقدار کا پرَتو نظر آتا ہے۔ عملی کمزوریوں اور غفلت کےباوجود مسلم معاشرے میں دین سے عمومی و شعوری بغاوت کی کیفیت نہیں پائی جاتی۔ مسلمانوں کی بستی میں مسجدموجود ہوتی ہے اور مرکزی مقام رکھتی ہے ۔ مسلمانوں کی ایک تعداد ، قلیل ہی سہی، مسجد میں نماز کے لیے حاضر ہوتی ہے جِن میں بچے، جوان اور بوڑھے، طاقتور اور کمزور، مالدار اور غریب، تعلیم یافتہ اور ناخواندہ سب شامل ہوتے ہیں۔ مساجد کے اندر اور مساجد کے علاوہ بھی مکاتب موجود ہوتے ہیں، جہاں سے قرآن کی تلاوت کی آواز سنائی دیتی ہے۔ مسلمان خواتین کی ایک قابل ذکر تعداد پردے کا اہتمام کرتی ہے۔ ہر مسلمان فرد پر اس اجتماعی ماحول کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑتا ہے۔ اِسلامی اصطلاحات سے اُس کے کان آشنا ہوتے ہیں، اسلاف کے قصے اُس کی یاد داشت کا حصہ بن جاتے ہیں اور اِسلامی شعائر سے وہ واقف ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کی بستیوں میں دینی اجتماعات اور اِسلامی لٹریچر سے بھی ایک مسلمان کو سابقہ پیش آتا ہے ۔ اِسلامی تہذیب اور روایات سے ایک مسلمان کا جذباتی لگائو اِس ماحول کا فطری نتیجہ ہے۔
لیکن اِس دنیا سے ملحق ایک دنیا اور بھی ہے اور مسلمانوں کو اس سے بھی سابقہ پیش آتا ہے۔ اِس دنیا کے اہم اجزاء جدید ذرائع ابلاغ (اخبارات، ریڈیو، انٹرنیٹ، ٹی ۔ وی) ، تعلیمی ادارے، سیاسی و معاشی ادارے اوراجتما عی زندگی کے دیگر مظاہر ہیں۔ یہ پوری دنیا خدا تعالیٰ کے اِنکار یا اُس سے بے نیازی پر مبنی ’’سیکولر‘‘ دنیا ہے۔ اس کے تصورِ کائنات کی بنیاد الحاد اور مادہ پرستی پر ہے۔ اِس کی قدریں اباحیت، خو دغرضی اور صارفیت ہیں۔ یہاں اصل اہمیت سامانِ زیست کی فراہمی کو حاصل ہے۔ عموماً یہاں اس سے بالاتر کسی مقصدِ زندگی کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ اس دنیا کے کلچر کانمایاں وصف بے حیائی ہے۔ یہاں کامیابی اِس بات کا نام ہے کہ اِنسان وسائلِ حیات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے اور اپنے یا اپنے گروہ کے لیے اُن کو استعمال کرنے پر قادر ہو۔ مسلمان کے مزاج کے لیے یہ ایک اجنبی دنیا ہے۔ اس اجنبی دنیا کا تصورِ کائنات ، اِسلامی تصور سے متصادم ہے۔ اِس کی قدریں، دینی اقدار سے ٹکراتی ہیں۔ اس کاکلچر، اسلامی مزاج کے مغائر ہے اور اس کی پوری فضا مسلمان کی نفسیات سے ٹکراتی ہے۔ اِس تصادم کا مسلم شخصیت پر گہرا منفی اثر پڑتا ہے۔ چونکہ تمام اہم اجتماعی ، معاشی اور سیاسی ادارے اِس دنیا کے تحت ہیں اِس لیے مسلمان اس دنیا سے تعلق تو رکھتا ہے مگر بے دلی اور نیم دلی کے ساتھ۔ اُس کے دل اور دماغ باہم مختلف اور متصادم افکار و اقدار کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔ کائنات کے دو تصورات کے مابین ایک جنگ مسلمان کے اندرون میں برپا ہوتی ہے جو اِس کی شخصیت کو مجروح اور بسا اوقات مفلوج کردیتی ہے۔ مسلمان اپنے آپ سے پوچھنے لگتا ہے کہ ’’میں کون ہوں؟‘‘ اللہ کا بندہ اور اُس کے دین کا پیرو یا دورِ حاضر کی سیکولر تہذیب سے ہم آہنگ ایک فرد۔ اکثر خارجی دنیا بھی اس سے یہ سوال پوچھتی ہے گرچہ پیرایہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً مسلمان سے پوچھا جاتا ہے کہ تم (ملک، سماج یا دنیا کے) اصل دھارے (Main Stream) کا حصہ کیوں نہیں بنتے؟ الگ تھلگ کیوں رہنا چاہتے ہو؟
پیچیدگی
اِسلامی اور جاہلی افکار و اقدار کے مابین کشمکش اور تصادم کی یہ کیفیت ایک مسلمان فرد کو جس اہم عملی سوال سے دوچار کرتی ہے وہ یہ ہے:
- (الف) کیا مجھے بحیثیت مسلمان اِس اجنبی دنیا سے (جس کے نقطۂ نظر سے میں اتفاق نہیں رکھتا) قطعِ تعلق کرلینا چاہیے اور اپنی مسلم دنیا تک سمٹ جانا چاہیے۔ بالفاظ دیگر ، کیا اپنے آپ کو مسلم بستی، محلے اور اُس کی سرگرمیوں پر مشتمل دنیا تک محدود کرلینا چاہیے جو مسجد اور مدرسے کی دنیا ہے۔ اگر میں ایسا کروں تو ذہنی کشاکش سے یقیناً نجات مل جائے گی لیکن وسائلِ حیات سے تقریباً کامل محرومی بھی اِس رویے کا لازمی نتیجہ ہے۔ نہ وہ تعلیم حاصل ہوسکے گی جِس کے ذریعے اِنسان قدرتی وسائل کے استعمال پر قادر ہوتا ہے نہ روزی کمانے کے معقول ذرائع میسر آسکیں گے۔ اِس کےعلاوہ قوت اور اقتدار سے محرومی بھی حصے میںآئے گی۔
- (ب) اگر میں اِس اجنبی دنیا سے قطع تعلق نہ کروں کیا تو پھر مجھے یہ کرناچاہیے کہ خوش دلی کے ساتھ خدا کی منکِر یا اُس سے بے نیاز، اس دنیا کا حصہ بن جائوں اور برضا و رغبت اس کلچر کو اختیار کرلوں جو مادہ پرستی پر مبنی ہے۔ اگر میں ایسا کروں تو اس میں شبہ نہیں کہ راہیں میرے لیے کھل جائیں گی ، ذرائع ووسائل سے فائدہ اٹھانا آسان ہوجائے گا اور قوت و اقتدار تک بھی رسائی ممکن ہوگی۔ لیکن قدم قدم پر اسلامی تعلیمات سے بغاوت کرنی پڑے گی، اپنے ضمیر اور ایمان سے کشمکش کرنی ہوگی، صالح قدروں کو بالائے طاق رکھنا پڑے گا اوربالآخر میری اِسلامی شناخت تک خطرے میں پڑجائے گی۔
مسلمانوں کا عام رویہ
ممکن ہے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے شعوری طور پر مندرجہ بالا تجزیہ نہ کیا ہو لیکن اُن کی نفسیاتی کیفیت اُسی کشمکش کی غماز ہے جو مذکورہ بالا دو ممکن رویوں کے مابین پائی جاتی ہے۔ جرأت کے ساتھ اِس پیچیدگی کا سامنا کرنے کے بجائے مسلمان عموماً بے شعوری کی زندگی گزارنے پرقانع ہیں۔ کبھی وہ پہلے رویے کی طرف جھکتے ہیں اور موجودہ دنیا سے قطع تعلق کی طرف مائل ہوتے ہیں اور کبھی زندگی کی ضروریات مجبور کرتی ہیں تو دوسرا رویہ اپنالیتے ہیں۔ اس ذہنی انتشار کےساتھ مسلمان یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ اُن کے گردوپیش کے حالات خود بخود بدل جائیں گے یا محض بعض نیکیوں کی رسمی انداز میں انجام دہی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اُن کی حالت کو بدل دے گا۔ مگر یہ طرزِ فکر غیر حقیقت پسندانہ ہے اور اس کا نتیجہ مایوسی اوراضمحلال ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان غوروفکر سے کام لے کر اس پیچیدگی سے نکلنے کی کوشش کریں جس میں وہ اپنے آپ کو مبتلا پاتے ہیں۔ بحالتِ موجودہ، مسلمان جدید دنیا میں،ا پنے جسمانی وجود کے اعتبار سے تو موجود ہیں مگر اس دنیا سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور یہ دُنیا اُن سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس کیفیت سے نکلنا ضروری ہے۔
سطورِ بالا میں دو ممکن رویوں کا تذکرہ کیاگیا ہے۔ ایک رویہ بے تعلقی ہے یعنی مسلمان جس دنیا سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتے اُس سے اور اس کے اداروں سے لاتعلق ہوجائیں اور اس دنیا سے جو فائدے مل سکتے ہیں اُن سے محرومی کو گوارا کرلیں۔ دوسرا ممکن رویہ ٹھیک اس کے برعکس ہے یعنی مسلمان (اسلامی اصولوں کو نظرانداز کرکے) موجودہ دنیا کے تمام رنگ ڈھنگ اپنالیں اور اِس طرح اُن فائدوں کو حاصل کرلیں جو مادی و سائل اور قوت و اقتدار کی شکل میں مل سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی تیسری راہ بھی ہے؟
اِسلام اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر مشتمل آفاقی دین ہے اس لیے وہ اِنسانوں کو تمام پیچیدگیوں سے نکلنے کی راہ بتاتا ہے۔ چنانچہ مسلمان اِسلام کی طرف رجوع کرکے وہ راہ عمل دریافت کرسکتے ہیں جو اُن کی موجودہ کیفیت کو بدل دے۔
وَمَنْ يَّـتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۲ۙ وَّيَرْزُقْہُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ فَہُوَحَسْبُہٗ۰ۭ اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ۰ۭ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا۔ (سورہ طلاق،آیات:۲،۳)
’’جوشخص اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا، اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا اور اُسےایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو کوئی اللہ پر توکل کرے، اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ اللہ اپنا کام کرکے رہتا ہے۔ اُس نے ہرچیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے‘‘۔
جناب شبیر احمد عثمانی اِن آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اللہ سے ڈرکر اُس کے احکام کی بہرحال تعمیل کرو خواہ کتنی ہی مشکلات وشدائد کا سامنا کرنا پڑے۔ حق تعالیٰ تمام مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا۔ اللہ کا ڈر دارین کے خزانوں کی کنجی اور تمام کامیابیوں کا ذریعہ ہے۔ اس سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں۔(اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) اللہ پر بھروسہ رکھو، محض اسباب پر تکیہ مت کرو۔ اللہ کی قدرت اِن اسباب کی پابند نہیں۔ جو کام اُسے کرنا ہو، وہ پورا ہوکر رہتا ہے۔ اسباب اُسی کی مشیت کے تابع ہیں۔ ہرچیز کا اُس کے یہاں ایک اندازہ ہے (اور) اُسی کے موافق وہ ظہور پذیر ہوتی ہے‘‘۔
دنیا کو بدلنے کا عزم
اسلامی مزاج مسلمانوں کو ایک تیسری راہ دکھاتا ہے۔ بجائے اِس کے کہ مسلمان اس دنیا سے بے تعلق ہو جائیں یا پھر غلامانہ ذہنیت کے ساتھ سیکولر دنیا کے مقتدی بن جائیں، اُن کو اِس دنیا کو بدلنے کا عزم لے کر اُٹھنا چاہیے۔ اِس راہ کا پہلا قدم یہ ہے کہ مسلمان، جدید دنیا کا مرعوبیت کے ساتھ مطالعہ کرنے کے بجائے اُس کے افکار واقدار پر‘ اِسلامی بصیرت کی روشنی میں، تنقیدی نگاہ ڈالیں۔ سیکولر دنیا کے تصورکائنات اوراقدار کی نشاندہی کرکے اُن کی علمی تردید کریں اور اِس طرح باطل کی ذہنی غلامی سے خود بھی آزادی حاصل کریں اور دنیا کو بھی آزاد کرائیں۔ مرعوبیت سے ذہن آزاد ہوں گے تو مسلمانوں کے لیے اپنے آپ کو پہچاننا ممکن ہوجائے گا اور جس دین سے وہ جذباتی لگائو رکھتے ہیں، اُس پر اُن کو عقلی اطمینان بھی حاصل ہوگا۔
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نورِ سحر سے
خورشید کرے کسبِ ضیا تیرے ہنر سے
روشن تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
دریا متلاطم ہوں تری موجِ گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
ہے تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی
دنیا کو بدلنے کی جانب اگلا قدم یہ ہے کہ اِنسانیت عامّہ کو حق وصداقت سے روشناس کرایا جائے تاکہ اِنسان مادی اور ملحدانہ تصورِ کائنات سے نجات حاصل کرسکیں اور خدائی ہدایت سے فیضیاب ہوسکیں۔ مسلمان یہ رویہ اختیار کریں گے تو مایوسی اور اضمحلال کے جو بادل اُن پر چھائے ہوئے ہیں وہ چھٹ جائیں گے اور اُن کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوجائیں گی۔ ہدایتِ الٰہی کی حیات بخشی کا کرشمہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۔ اُن کی سرگرمیوں میں زندگی اور معنویت پیدا ہوجائے گی۔ اُن کی حیثیت پیچھے رہ جانے والے محروم گروہ کی نہیں ہوگی بلکہ قائد اور رہنما گروہ کی ہوگی۔ کارزارِ حیات میں اُن کی دوڑ دھوپ محض جسمانی چلت پھرت نہ ہوگی بلکہ بامقصد سفر بن جائے گی۔ دو متضاد رویوں کے درمیان ہچکولے کھانے کے بجائے وہ اطمینانِ قلب کے ساتھ صراط مستقیم پر گامزن ہوں گے۔ اخلاقی اقدار کا مقام اُن کی زندگی میں رسمی نہ ہوگا بلکہ اعلیٰ قدریں اُن کے عمل میں فی الواقع جلوہ گر نظرآئیں گی۔
جاہلیت پر مدلل علمی تنقید اور راہِ صداقت کا عمومی تعارف وہ ضروری مراحل ہیں جن کو طے کئے بغیر مسلمان موجودہ پیچیدگی سے نجات نہیں پاسکتے۔ اِن مراحل کو عبور کرنے کے بعد مسلمان اِس پوزیشن میں ہوں گے کہ دنیا کی تعمیر، صالح تصورات کے مطابق کرسکیں۔ اِنسانی زندگی کی تعمیر کے لیے اُن اصولوں پر گہرا یقین درکار ہے جن کی اساس پر تعمیری سرگرمی انجام دی جاسکے۔ یہ اصول اسلام نے فراہم کیے ہیں۔ پختہ یقین سے کسی گروہ میں وہ خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے جو تعمیر نو کے لیے لازمی شرط ہے۔ اصولوں پر ایمان کے علاوہ تعمیر نو کے لیے ہدایت کی بھی ضرورت ہے جو منصوبہ سازی کی بنیاد بنتی ہے۔ اسلام اِنسانوں کی یہ ضرورت بھی پوری کرتا ہے۔ ایک طرف دینِ حق، وہ نشاناتِ راہ دکھاتا ہے جن کو اِنسانی عقل محض اپنی کاوش سے دریافت نہیں کرسکتی۔ (دریافت کر بھی لے تو اُسے ان کی معقولیت پر اطمینان نہیں ہوتا)۔ دوسری طرف اِسلام اُن حدود کی نشاندہی کرتا ہے جن کے اندر اِنسانی سرگرمیوں کو محدود رہنا چاہیے اور تیسری طرف اِسلام اہل ایمان کے اندر وہ اجتہادی بصیرت پیدا کرتا ہے جو نئے حالات میں اِنسانی زندگی کی صالح تعمیر کے لیے نئی راہیں کھولتی رہتی ہے۔
خلاصہ بحث
مندرجہ بالا گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ واقعتاً موجودہ دنیا میں مسلمان پیچھے رہ گئے ہیںاور اُن کے اندر اضمحلال اور بے دلی کی کیفیت نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاصر فضا نے مسلمانوں کو ایک مخمصے (Dilemma) سے دوچار کر رکھا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ آج کی دنیا میں علمی قیادت وسیاسی اقتدار کی کنجیاں خدا سے بے نیاز یا اُس کے باغی عناصر کے ہاتھوں میں ہیں۔ چنانچہ مسلمان خدا کی بندگی پر قائم رہنا چاہیں تو طاقت سے محرومی ان کے حصے میں آتی ہے اور اگر طاقت اور اقتدار کے مراکز سے استفادہ کرناچاہیں تو حدودِ الٰہی کو توڑنا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مخمصے سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟
اِسلامی نقطۂ نظر سے صورتحال کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اِس پیچیدگی پر قابو پانے کے لیے مسلمانوں کو یہ مراحل طے کرنے ہوں گے:
(الف) دورِ جدید کی جاہلیت پر علمی گرفت کی جائے اور اُس کا غیر معقول ہونا ثابت کیا جائے۔ عصر حاضر کا تنقیدی جائزہ بالخصوص مسلمانوں کی نئی نسل کے سامنے آنا چاہیے تاکہ اُن کی خود اعتمادی بحال ہوسکے۔
(ب) اِنسانیتِ عامہ کے سامنے اِسلام کا تعارف کرایا جائے تاکہ دنیا جاہلی افکار اور اِسلام کے امتیاز سے واقف ہوسکے۔
(ج) اِسلامی ہدایات کی روشنی میں اِنسانی زندگی کی تعمیر نو کا منصوبہ بنایا جائے اور اُس کے مطابق عملی سرگرمیاں انجام دی جائیں۔فطری طور پر اِن سرگرمیوں کا اولین دائرۂ کار خودمسلم معاشرہ ہوگا۔
(د) صالح خطوط پر تعمیرِ نوکے کام میں مختلف عناصر کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کیے جانے کا اندیشہ ہے۔ اگر رکاوٹیں اِسلام سے عدم واقفیت یا غلط فہمی کی بنا پر ڈالی جارہی ہو ں تو اِن کا مقابلہ کرنے کے لیے اِسلام کے عمومی تعارف کی مہم کو تیز کیاجانا چاہیے ۔ البتہ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حق کی مخالفت محض غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ وہ شرپسند عناصر بھی حق کی مخالفت کرتے ہیں جو صالح تعمیرِ نو کو اپنے مفادکے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔ اِس نوعیت کی مخالفت سے نبٹنے کے لیے صبرو استقامت کی ضرورت ہے۔ اس سیاق میں صبر کے معنی یہ ہیں کہ مخالفت کےباوجود، حق پسند عناصر تعمیرِنو کے عزم سے دستبردار نہ ہوں، پیغامِ حق کی ترسیل سےباز نہ آئیں، جاہلیت پر گرفت اور اُس پر تنقید کے سلسلے میں کوئی رواداری نہ برتیں اور تعمیر نو کی جانب پیش قدمی کو، رکاوٹوں کے باوجود، جاری رکھیں۔ حق پر قائم رہنے کے عزم کا ارادہ و اظہار اور عملاً راہِ حق پر ثابت قدمی ، وہ رویہ ہے جس کے مقابلے میں کوئی مخالفت نہیں ٹھہر سکتی اور نہ اہلِ حق کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔ باطل پر تنقید، حق کی طرف دعوت، صداقت پر استقامت ، حق کا اعلان واظہاراور تعمیرِ نو کی کاوش پر مشتمل لائحہ عمل — مسلمان اختیار کریں گے تو اُن کا موجودہ پچھڑاپن اور محرومی دور ہوجائے گی جس نے انہیں حیران و پریشان کر رکھا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ۰ۭ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ اَنْ يُّصِيْبَكُمُ اللہُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہٖٓ اَوْ بِاَيْدِيْنَا۰ۡۖ فَتَرَبَّصُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ۔ (سورہ توبہ ،آیت: ۵۲)
(اِن مخالفین حق سے ) کہو ’’تم ہمارے معاملے میں جِس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوںمیں سے ایک بھلائی ہے۔ اور ہم تمہارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دِلواتا ہے۔ اچھا تو اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں‘‘۔
جناب سید ابوالاعلیٰ مودودی اِس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’منافقین حسبِ عادت (غزوۂ تبوک کے) اِس موقع پر بھی کفر واسلام کی اِس کشمکش میں حصہ لینے کے بجائے اپنی دانست میں کمال دانشمندی کے ساتھ دور بیٹھے ہوئے یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اِس کشمکش کا انجام کیا ہوتا ہے۔ رسولؐ اور اصحابِ رسولؐ فتح یاب ہوکر آتے ہیں یا رومیوں کی طاقت سے ٹکراکر پاش پاش ہوجاتے ہیں۔ اِس کا جواب انہیں یہ دیاگیا کہ جن دو نتیجوں میں سے ایک کے ظہورکا تمہیں انتظار ہے، اہلِ ایمان کے لیے تو وہ دونوں ہی سراسر بھلائی ہیں۔ وہ اگر فتح یاب ہوں تو اُس کا بھلائی ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ لیکن اگر اپنے مقصد کی راہ میں جانیں لڑاتے ہوئے وہ سب کے سب پیوندِ خاک ہوجائیں تب بھی دنیا کی نگاہ میں چاہے یہ انتہائی ناکامی ہو ، مگر حقیقت میں یہ بھی ایک دوسری کامیابی ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن۔ سورہ توبہ ،حاشیہ ۵۲)
اہل ایمان سے جو رویہ مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اِنسانوں کو اللہ کی طرف بلائیں۔ اِس دعوت کے پہلو بہ پہلو خود اپنے مسلم ہونے کا اعلان کریں بالفاظِ دیگر حق پر ثابت قدم رہنے کے عزم کا اظہار کریں۔ اِس اعلان واظہارکی ضرورت اِس لیے ہے کہ دعوتِ حق قبول نہ کرنے والوں یا اُس کی مخالفت کرنے والوں کو اہل ِ ایمان کےبارے میں کوئی غلط فہمی نہ رہے۔ اُن کو معلوم ہوجائے کہ اُن کے انکارِ حق یا مخالفت سے مسلمان مرعوب یا دل شکستہ نہیں ہوں گے بلکہ حق پر قائم رہیں گے۔
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۔ (حٰم سجدہ۔ آیت: ۳۳)
’’اور اُس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں‘‘۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی اِس آیت کی تشریح کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’اہلِ ایمان کو بتایا جارہا ہے کہ تم خود نیک عمل کرو ، اور دوسروں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلائو اور شدید مخالفت کے ماحول میں بھی، جہاں اِسلام کا اعلان واظہار کرنا اپنے اوپر مصیبتوں کو دعوت دینا ہے، ڈٹ کر کہو کہ میں مسلمان ہوں— کسی شخص کا اللہ تعالیٰ کو اپنارب مان کر سیدھی راہ اختیار کرلینا اور اُس سے نہ ہٹنا بلاشبہ اپنی جگہ بڑی اور بنیادی نیکی ہے، لیکن کمال درجے کی نیکی یہ ہے کہ آدمی اُٹھ کر کہے کہ میں مسلمان ہوں، اور نتائج سے بے پرواہ ہوکراللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف خلقِ خدا کو دعوت دے اور اِس کام کو کرتے ہوئے اپنا عمل اتنا پاکیزہ ر کھے کہ کسی کو اِسلام او راس کے علمبرداروں پر حرف رکھنے کی گنجائش نہ ملے‘‘۔(تفہیم القرآن۔ حمٰ سجدہ، حاشیہ :۳۶)
جناب شبیر احمد عثمانی اِس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بہترین شخص وہ ہے جو خود اللہ کا ہورہے،اس کی حکم برداری کا اعلان کرے، اُسی کی پسندیدہ روش پر چلے اور دنیا کو اُسی کی طرف آنے کی دعوت دے۔ اُس کا قول وفعل بندوں کو خدا کی طرف کھینچنے میں مؤثر ہو، جس نیکی کی طرف لوگوں کو بلائے بذات خود اُس پر عامل ہو۔ خدا کی نسبت اپنی بندگی اور فرمانبرداری کا اِعلان کرنے سے کسی موقع اورکسی وقت نہ جھجکے‘‘۔
اِسلامی مزاج کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ دنیا جن راہوں پردوڑی چلی جارہی ہے اُن پر مسلمان بھی آنکھیں بند کرکے دوڑنے لگیں (اور جب دوڑ میں پیچھے رہ جائیں تو پریشان ہوں اور شکوہ شکایت شروع کردیں)۔ دنیا کے پیچھے چلنے کے بجائے اِسلام یہ سکھاتا ہے کہ مسلمان دنیا کی رہنمائی کریں، اُس کو وہ راہِ حق دکھائیں جو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ رویہ مسلمان اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ اُن کو اقتدار اور طاقت بھی عطا کرے گا (جس کی طلب میں وہ اِس وقت باطل کی راہوں پر دوڑ رہے ہیں ، مگر محرومی کے سوا اُن کے ہاتھ کچھ نہیں آتا)
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ (سورہ نور،آیت:۵۵)
’’اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اِس دین کومضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے اور اُن کی (موجودہ) حالتِ خوف کو حالتِ امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2014