’’عصرِ حاضر کیا ہے؟‘‘اس سوال پر متعدد پہلوؤں سے غور کیا جاسکتا ہے۔ ایک اعتبار سے عصرِ حاضر ٹکنالوجی کی غیر معمولی ترقی کا دور ہے۔ اور یہی اِس عہد کی اصل امتیازی خصوصیت ہے۔ بعض تجزیہ کرنے والے ٹکنالوجی کی اس ترقی کے چند اہم عناصر کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ مثلاً الیکٹرانک ٹکنالوجی، ابلاغ کی تکنیک، خلائی ٹکنالوجی، نیوکلیر ٹکنالوجی، ذرائع آمدورفت، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور جدید اسلحہ جات۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹکنالوجی کی یہ غیر معمولی ترقی اپنے ساتھ کوئی چیلنج بھی لائی ہے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ ٹکنالوجی کی اس ترقی کے ساتھ تین بڑے چیلنج سامنے آئے ہیں: ﴿الف﴾ ٹکنالوجی کے ضرورت سے زیادہ استعمال کا چیلنج ﴿جسے ٹکنالوجی کا ’’نشہ یا ’’لت‘‘ Addiction کہا جاسکتا ہے﴾، ﴿ب﴾ ٹکنالوجی کی بنا پر طاقتور اور کمزور کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کا چیلنج اور ﴿ج﴾ ٹکنالوجی کی روز افرزوں ترقی کی وجہ سے قدرتی نظام کے توازن میں خلل اور آلودگی کا مسئلہ۔
’’عصرِ حاضر کیا ہے؟‘‘ اس سوال کے ایک جواب کا اوپر تذکرہ کیا گیا، وہ یہ کہ عصرِ حاضر ’’ٹکنالوجی کا دور‘‘ ہے۔ اس سوال کا ایک اور جواب یہ ہے کہ عصرِ حاضر گلوبلائزیشن کا دور ہے۔ اس دور میں دنیا سکڑ کر ایک بستی بن گئی ہے۔ چنانچہ ملکوں اور قوموں کے درمیان سرحدوں کی موجودگی کے باوجود ایک دوسرے سے اُن کا ارتباط اس درجے بڑھ چکا ہے کہ کوئی ملک عالمی تبدیلیوں سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ گلوبلائزیشن کے اس مظہر نے بھی نئے چیلنج پیدا کیے ہیں۔ ان میں تین چیلنج بنیادی ہیں: پہلا چیلنج یہ ہے کہ دنیا بہت عرصے تک الگ الگ سیاسی یونٹوں میں منقسم نہیں رہ سکتی۔ اُس کو ایک عالمی ریاست بننا ہوگا۔ اس عالمی ریاست کی فکری بنیادیں کیا ہوں گی؟ یہ ایک حل طلب سوال ہے۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ جب تک یہ عالمی ریاست وجود میں نہ آئے اس وقت تک ایک صاف ستھرے مبنی بر انصاف بین الاقوامی قانون کی ضرورت ہے۔ جو ملکوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا احترام سکھائے۔ یہ قانون کیسے مرتب کیا جائے اوراس کے لیے درکار قوتِ نافذہ کہاں سے آئے گی؟ تیسرا چیلنج یہ ہے کہ قدرتی ماحول کے توازن کو کیسے بحال کیا جائے اور توازن کی بحالی کے اس مشکل کام میں روئے زمین کی تمام قوموں اور ملکوں کا تعاون کیسے حاصل کیا جائے؟
عصرِ حاضر کی حقیقی ماہیت
’’عصرِ حاضر کیا ہے؟‘‘ اس سوال کے دو مقبول ترین جوابات آپ کے سامنے آئے۔ ایک جواب یہ ہے کہ عصرِ حاضر کی اصل خاصیت ٹکنالوجی کا غیر معمولی ’’عروج‘‘ ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ عصرِ حاضر کی اصل روح ’’گلوبلائزیشن‘‘ ہے۔ بلاشبہ یہ دونوں جوابات جزوی طور پر صحیح ہیں۔ یعنی یہ عصرِ حاضر کے ظاہری پہلوؤں میں سے دو نمایاں ترین پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ لیکن عصرِ حاضر کی اصل حقیقت دریافت کرنے کے لیے ہمیں محض اس کے ظاہر کا تجزیہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اُن افکار و خیالات کا گہرا جائزہ لینا چاہیے، جن سے عصرِ حاضر کی تشکیل ہوئی ہے۔ زندگی، تمدن اور تہذیب کا ظاہری ڈھانچا بلاشبہ اہمیت رکھتا ہے، لیکن اس ظاہری ڈھانچے کی حیثیت صرف قالب کی ہے، اس قالب کے اندر جو روح موجود ہے وہ افکار و خیالات کی روح ہے۔ چنانچہ عصرِ حاضر کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ وہ تصورات کون سے ہیں جن کی بنیاد پر عصرِ حاضر کی غالب تہذیب — مغربی تہذیب — کی تعمیر ہوئی ہے۔
مغربی تہذیب کے افکار و نظریات بہت سے ہیں۔ فلسفے میں ہیومانزم (Humanism) اور وجودیت (Existentialism) اجتماعیات میں سیکولرزم اور جمہوریت، اخلاقیات میں افادیت (Utilitarianism)اور اضافیت(Relativism)،معاشیات میں آزاد مسابقت (Free Competition)، تصورِ کائنات میں مادیت (Materialism) اور بخت و اتفاق (Chance) اور جانداروں کی دنیا میں نظریہ ارتقا (Evolution) اس تہذیب کے مشہور نظریات ہیں۔ ان نظریات میں باہم بہت سے اختلافات ہیں، لیکن ان سب کے درمیان ایک مشترکہ رجحان (Common Trend) موجود ہے۔ اس رجحان کو سادہ الفاظ میں ’’غیب کا انکار‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
’’غیب کے انکار‘‘ کے رجحان کے اتباع میں جو نقطۂ نظر وجود میں آیاہے، اُسے آج کل ’’سائنسی نقطۂ نظر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق ’’حقیت صرف وہ ہے، جسے انسان اپنے حواس کی مدد سے اپنی گرفت میں لے سکے، جو دیکھی جاسکے، سنی جاسکے اور جس کی پیمائش ہوسکے۔‘‘ اگر کوئی چیز اس قسم کی نہیں ہے تو پھر وہ حقیقت نہیں ہے بلکہ محض واہمہ ہے۔ سائنسی نقطہ نظر (Scientific World View) کے مطابق معلومات کی فراہمی کے لیے ایک سائنسی طریق کار (Scientific Method)بھی تجویز کیا گیا ہے۔ وہ طریق کار یہ ہے کہ انسان اپنے حواس کی مدد سے معلومات اکٹھا کرے اور پھر اپنی استدلالی قوتوں سے کام لے کر ان معلومات کو منظم انداز میں مرتب کرے ۔ اس طریقے کے علاوہ کسی اور منہج کو مستند تسلیم نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ’’عصرِ حاضر کیا ہے؟‘‘ اس سوال کا حقیقی جواب یہ ہے کہ ’’عصرِ حاضر اجتماعی زندگی کی اُس شکل سے عبارت ہے جو غیب کے انکار کی بنیاد پر قائم ہے۔‘‘
یہ ایک پہلو سے منفی جواب ہے۔ اگر اس سوال کا مثبت جواب دیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ ’’عصرِ حاضر سائنسی نقطہ نظر کے مطابق انسانی زندگی کی تنظیم کا نام ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ غیب کے انکار کا یہ اساسی رجحان — جو عصرِ حاضر کی روح ہے ۔ انبیاء ی تعلیمات کے لیے ایک چیلنج ہے، اس لیے کہ انبیاء ی تعلیم کی اساس ہی یہ ہے کہ ’’امورِ غیب پر ایمان‘‘ لایا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے جو تعلیمات اپنے قول و عمل سے پیش کی ہیں، اُن میں ہمیں عصرِ حاضر کے اس چیلنج کا جواب ملتا ہے۔ آپﷺ پر ایمان لانے والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس چیلنج کو قبول کریں اور انسانوں کو اس مقبول عام گمراہی سے نجات دلائیں۔ ’’غیب کے انکار‘‘ کے اس غلط رجحان کا مقابلہ عقلی و استدلالی سطح پر بھی کیا جانا چاہیے اورنفسیاتی و جذباتی سطح پر بھی ۔لیکن اس سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ’’غیب‘‘ سے مراد کیا ہے؟
غیب کا مفہوم
سورہ فاتحہ کے فوراً بعد قرآن مجید میں اُن لوگوں کا تعارف کرایا گیا ہے، جو اس کتاب سے ہدایت پاسکتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر ہدایت یابی کے لیے ضروری شرائط بیان کردی گئی ہیں:
الٓمٓ o ذٰلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَo والَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ أُنْزِلَ اِلَیْْکَ وَمَآ أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَo أُوْلٰ ئِٓکَ عَلیٰ ہُدًی مِّنْ رَّبِّہِمْ وَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo ﴿البقرۃ:۱-۵﴾
’’الف۔ لام۔ میم۔ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے اُن پرہیزگارلوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے ﴿ قرآن﴾ اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، اُن سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
اِن آیات میں ہدایت پانے کے لیے چھے ﴿۶﴾ شرائط کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ تقویٰ، غیب پر ایمان، اقامتِ صلوٰۃ، اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرنا، اللہ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان اور آخرت پر یقین۔ ان میں دوسری شرط ’’غیب پر ایمان‘‘ ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ آیاتِ بالا کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’غیب سے مراد وہ حقیقتیں ہیں، جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں اور کبھی براہِ راست عام انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہیں آتیں مثلاً خدا کی ذات و صفات، ملائکہ، وحی، جنت، دوزخ وغیرہ۔ ان حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی ان کی خبر دے رہا ہے، ایمان بالغیب ہے۔ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کے لیے تیار ہو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ماننے کے لیے دیکھنے اور چکھنے اور سونگھنے کی شرط لگائے، اور جو کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا جو ناپی اور تولی نہ جاسکتی ہو تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پاسکتا۔‘‘
﴿تفہیم القرآن، سورہ بقرۃ، حاشیہ:۴﴾
انکارِ غیب کی دلیل
غیب کا مفہوم جان لینے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’غیب‘‘ موجود نہیں ہے، اُن کے اِس دعوے کے دلائل کیا ہیں؟
اس سوال کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ منکرینِ غیب کے پاس اپنے موقف کے لیے ’’دلائل‘‘ موجود نہیں ہیں۔ بلکہ صرف ایک ’’دلیل‘‘ ہے، وہ یہ کہ ’’جن امور کو غیب کہا جاتا ہے ﴿مثلاً ملائکہ، وحی، جنت، دوزخ وغیرہ﴾ وہ چونکہ ہمیں نظر نہیں آتے، اس لیے موجود نہیں ہیں۔‘‘
لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا مندرجہ بالا بیان فی الواقع کوئی دلیل ہے یا محض ایک دعویٰ ہے جو خود دلیل کا محتاج ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ سائنسی نقطہ نظر کے قائلین خود ایسی بہت سی چیزوں کے قائل ہیں، جو انسانی حواس کے ذریعے کیے گئے، مشاہدے کی گرفت میں نہیں آتیں، لیکن اُن کے وجود کو محض عقلی استدلال کی وجہ سے مان لیا جاتا ہے۔ مثلاً:
- ﴿الف﴾ سائنسی نقطہ نظر کے حاملین عام طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ کائنات کے مختلف اجزاء کے درمیان کشش اور انجذاب جیسی طاقتیں موجود ہیں، جو ان اجزاء کو باہم وابستہ رکھتی ہیں اور کائنات میں ہونے والی تبدیلیوں کا سبب ہیں۔ لیکن انِ طاقتوں کا براہِ راست مشاہدہ کسی انسان نے نہیں کیا۔ محض ان کے مظاہر اور اثرات کو دیکھا ہے۔
- ﴿ب﴾ سب جانتے ہیں کہ کائنات میں کچھ اشیاءجاندار ہیں اور کچھ غیر جاندار۔ لیکن جان یا زندگی کا براہِ راست مشاہدہ کسی نے نہیں کیا۔ جب جان نکل جاتی ہے تو ایک ذی روح مرجاتا ہے اور پھر اس کے بچے کھچے ڈھانچے کی خصوصیات وہی ہوتی ہیں، جو عام بے جان اشیاء کی ہوا کرتی ہیں۔ جس طرح ہم پانی کی بوتل سے پانی نکلتے ہوئے دیکھتے ہیں، اسی طرح کسی ذی روح کے مرتے وقت اُس کے جسم سے جان نکلتے ہوئے نہیں دیکھتے، لیکن اس عدم مشاہدہ کے باوجود نہ کوئی ’’جان‘‘ کا انکار کرسکتا ہے نہ ’’جان کے نکلنے‘‘ کا۔
- ﴿ج﴾ عموماً اہلِ سائنس اس کے قائل ہیں کہ کائنات قوانین کی پابند ہے۔ لیکن جیسا کہ سب جانتے ہیں قانونِ فطرت بہرحال کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قابلِ مشاہدہ ہو۔ صرف قوانین کے مظاہر کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انکارِ غیب کا موقف درحقیقت بہت کمزور ہے اور اس کے حق میں کوئی واقعی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس لیے نبی ﷺ نے جو کلامِ الٰہی انسانوں کے سامنے پیش کیا اس میں انکارِ غیب کی اِس دلیل ﴿ ’’دلیل عدمِ مشاہدہ‘‘﴾ کی کسی تردید کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔ البتہ اس امر کی طرف اشارہ کردیا گیا کہ انسانوں کا موت پرقابو نہ پاسکنا عالمِ غیب کی موجودگی پر صاف دلالت کرتا ہے:
فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَo وَأَنتُمْ حِیْنَئِذٍ تَنظُرُوْنَo وَنَحْنُ أَقْرَبُ اِلَیْْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِن لَّا تُبْصِرُوْنَo فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْْرَ مَدِیْنِیْنَo تَرْجِعُوْنَہَآ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَo ﴿الواقعۃ:۸۳- ۸۷﴾
’’اب اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو اور اپنے اس خیال میں سچے ہو، تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور تم آنکھوں دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مررہا ہے، اُس وقت اُس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے؟ اس وقت تمہاری نسبت ہم اُس سے زیادہ قریب ہوتے ہیں، مگر تم کو نظر نہیں آتے۔‘‘
انکارِ غیب کے موقف کی کمزوری سامنے آچکی ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو غیب پر ایمان کے مثبت دلائل بھی موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب — قرآنِ مجید— ایمان بالغیب کے لیے مثبت بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ انبیاء پر اعتماد ایسی ہی مثبت بنیاد ہے۔
انبیاء پر اعتماد
انسان ہمیشہ امورِ غیب کے بارے میں جاننے کا خواہش مند رہا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ خالقِ کائنات کون ہے، اُس کی صفات کیا ہیں اور اُس کا اپنے بندوں سے کیا تعلق ہے؟ ملائکہ کون ہیں اور اُن کی خصوصیات کیا ہیں۔ وحی کی کیفیت کیا ہے؟ عالمِ آخرت میں انسان کو کن حالات سے سابقہ پیش آنے والا ہے؟ ان سوالات کا اور اس طرح کے دیگر سوالات کا جواب ہمیں انبیاء ی تعلیمات میں ملتا ہے۔ لیکن انبیاء ی تعلیمات پر غور سے پہلے ایک اور بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ انسان نبیوں کی بات اطمینان کے ساتھ کیوں مان لے؟
قرآنِ مجید نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام سچے اور دیانت دار انسان ہوتے ہیں۔ وہ جھوٹ نہیں بولتے، اس لیے اُن کی دوسری باتوں کی طرح اُن کا دعویٰ نبوت بھی سچا ہے۔ اُن کی صداقت و دیانت پر اُن کی قبل از نبوت کی پوری زندگی گواہ ہوتی ہے۔
وَاِذَا تُتْلیٰ عَلَیْْہِمْ اٰ یَاتُنَا بَیِّنَاتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْْرِ ہٰذَآ أَوْ بَدِّلْہُ قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْ أَنْ أُبَدِّلَہُ مِن تِلْقَآئِ نَفْسِیْاِنْ أَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوحیٰٓ اِلَیَّ اِنِّٓیْ أَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍo قُل لَّوْ شَآء اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہُ عَلَیْْکُمْ وَلآَ أَدْرَاکُم بِہٰ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُراً مِّنْ قَبْلِٓہٰ أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَo فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَریٰ عَلَی اللّٰہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ باٰ یَاتِہٰ اِنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَo ﴿یونس: ۱۵-۱۷﴾
’’جب انہیں ہماری صاف صاف باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ ’’اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ۔ یا اس میں کچھ ترمیم کرو۔‘‘اے نبی! ان سے کہو: ’’میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر و تبدل کرلوں۔ میں تو بس اس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔‘‘ اور کہو: ’’اگر اللہ کی مشیت یہی ہوتی تو میںیہ قرآن تمہیں کبھی نہ سناتا اور اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ پھر اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے۔ یقینا مجرم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔‘‘
ایک شخص یہ بات سن کر کہہ سکتا ہے کہ ممکن ہے ایک شخص صادق و امانت دار ہو،لیکن اس کی عقل متاثر ہوگئی ہو اور وہ ناسمجھی کی باتیں کرنے لگا ہو۔ قرآن مجید نے اپنے مخاطبین کو اس امکان پر بھی غور کرنے کی دعوت دی ہے اور پوری قوت کے ساتھ یہ کہا ہے کہ مدعی نبوت محمد ﷺ انتہائی عاقل و دانا انسان ہیں۔ اُن کے اندر بے عقلی یا ناسمجھی کا کوئی شائبہ تک نہیں ہے۔ تم اس پہلو سے اُن کے متعلق خوب چھان بین کرسکتے ہو۔ تم اُن کو ایک انتہائی فہیم اور سمجھ دار شخصیت پاؤگے۔
قُلْ اِنَّمَآ أَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ أَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنیٰ وَفُرَادیٰ ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا مَا بِصَاحِبِکُمْ مِّنْ جِنَّۃٍ اِنْ ہُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْْنَ یَدَیْْ عَذَابٍ شَدِیْدٍo ﴿سباء : ۶۴﴾
’’اے نبی! ان سے کہو کہ ’’میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں ۔ خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دودو مل کر اپنا دماغ لڑاؤ اور سوچو، تمہارے صاحب میں آخر کون سی بات ہے جو جنون کی ہو؟ وہ توایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنبہ کرنے والا ہے۔‘‘
مولانا مودودیؒ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’یعنی اغراض و خواہشات اور تعصبات سے پاک ہو کر خالصتاً للہ غور کرو۔ ہر شخص الگ الگ بھی نیک نیتی کے ساتھ سوچے اور دو دو چار چار آدمی سر جوڑ کر بھی بے لاگ طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ بحث کرکے تحقیق کریں کہ آخر وہ کیا بات ہے، جس کی بنا پر آج تم اُس شخص کو مجنون ٹھہرا رہے ہو جسے کل تک تم اپنے درمیان نہایت دانا آدمی سمجھتے تھے۔ آخر نبوت سے تھوڑی مدت پہلے کا تو واقعہ تھا کہ تعمیرِ کعبہ کے بعد حجرِ اسود نصب کرنے کے مسئلے پر جب قبائلِ قریش باہم لڑ پڑے تھے توتم ہی لوگوں نے بالاتفاق محمد ﷺ کو حکم تسلیم کیا تھا اور انھوں نے ایسے طریقے سے اس جھگڑے کو چکایا تھا، جس پر تم سب مطمئن ہوگئے تھے۔ جس شخص کی عقل و دانش کا یہ تجربہ تمہاری ساری قوم کو ہوچکا ہے، اب کیا ایسی بات ہوگئی کہ تم اسے مجنوں کہنے لگے؟ ہٹ دھرمی اور ضد کی بات تو دوسری ہے مگر کیا واقعی تم اپنے دلوں میں بھی وہی کچھ سمجھتے ہو جو اپنی زبانوں سے کہتے ہو؟‘‘ ﴿تفہیم القرآن، سورہ سبا، حاشیہ۶۶﴾
اجر کا طالب نہ ہونا
یہ بات ہمارے سامنے آچکی ہے کہ انبیاء کا صادق و امانت دار ہونا اور عقل و دانائی میں کامل ہونا شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ چنانچہ امورِ غیب کے بارے میں اُن کی بیان کردہ خبروں پر شک کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ البتہ ایک شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے شروع میں بلاشبہ بے داغ کردار کے مالک تھے۔ لیکن ہوسکتا ہے بعد میں وہ اپنی کسی غرض کی بنا پر کچھ باتیں گھڑ کر لے آئے ہوں اور انہیں حقائق کے طور پر پیش کرنے لگے ہوں۔
قرآن مجید ہمیں اس امکان پر بھی غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خوب باریک بینی کے ساتھ انبیاء کی سیرت کا جائزہ لو۔ تم کسی ایسی ’’غرض‘‘ کی نشاندہی نہیں کرسکتے جس کے لیے انبیاء کام کررہے ہوں۔ وہ انسانوں سے کسی بھی قسم کے ’’اجر‘‘ کے طالب نہیں ہوتے:
وَاِلَی عَادٍ أَخَاہُمْ ہُوْداً قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰ ہٍ غَیْْرُہ، اِنْ أَنْتُمْ اِلاَّ مُفْتَرُوْنَo یَا قَوْمِ لآَ أَسْأَلُکُمْ عَلَیْْہِ أَجْراً اِنْ أَجْرِیَ اِلاَّ عَلَی الَّذِیْ فَطَرَنِیْٓ أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَo ﴿ہود: ۵۰،۵۱﴾
’’اور عاد کی طرف ہم نے اُن کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے کہا: ’’اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو۔ تمہارا کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے۔ تم نے محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں۔ اے برادرانِ قوم! اس کا م پر میں تم میں سے کوئی اجر نہیں چاہتا۔ میرا اجر تو اس کے ذمہ ہے، جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے۔‘‘
أَمْ تَسْأَلُہُمْ خَرْجاً فَخَرَاجُ رَبِّکَ خَیْْرٌ وَہُوَ خَیْْرُ الرَّازِقِیْنَo وَاِنَّکَ لَتَدْعُوْہُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo ﴿المومنون: ۷۲۔۷۳﴾
’’اے نبی! کیا آپ اُن سے کچھ مانگ رہے ہیں؟ آپ کے لیے تو آپ کے رب کا دیا ہوا ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔ اور ﴿واقعہ یہ ہے کہ﴾ آپ تو اُن کو سیدھے راستے کی طرف بلا رہے ہیں۔‘‘
وَمَآ أَرْسَلْنَاکَ اِلَّا مُبَشِّراً وَنَذِیْراًo قُلْ مَآ أَسْأَلُکُمْ عَلَیْْہِ مِنْ أَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَائَ ٓ أَنْ یَتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہٰ سَبِیْلاً o ﴿الفرقان: ۵۶۔۵۷﴾
’’اے نبی! تم کو تو ہم نے بس ایک بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔ ان سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کرلے۔‘‘
اس طرح قرآن اپنی حجت تمام کرتا ہے۔ جو نیک نفس انسان سچے اور امانت دار بھی ہوں،عقل اور دانائی میں بھی کامل ہوں اور اپنی کوئی ذاتی غرض بھی نہ رکھتے ہوں، اُن کی باتوں پر یقین نہ کرنے کی آخرکیا وجہ ہوسکتی ہے؟ چنانچہ انبیاء امورِ غیب کے بارے میں جو کچھ بتاتے ہیں اُس پر ایمان لانا عقل کا عین تقاضا ہے۔
بعض حقائقِ غیب کا مشاہدہ
مندرجہ بالا دلائل کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کرام کو بعض حقائقِ غیب کا مشاہدہ بھی کرادیتا تھا تاکہ وہ پورے اطمینان کے ساتھ لوگوں کو امورِ غیب کے بارے میں بتاسکیں اور اُن سے ایمان بالغیب کا مطالبہ کرسکیں۔ چنانچہ قرآن اُس موقعے کا تذکرہ کرتا ہے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل فرشتے کو دیکھا اور انھوں نے اللہ کی وحی آپ تک پہنچائی:
اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُوْحیٰo عَلَّمَہُ شَدِیْدُ الْقُویٰ o ذُوْ مِرَّۃٍ فَاسْتَویٰ o وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلیٰo ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ أَوْ أَدْنٰیo فَأَوْحیٰٓ اِلیٰ عَبْدِہِ مَآ أَوْحیٰo مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَیo أَفَتُمَارُوْنَہ‘ عَلیٰ مَا یَریٰo وَلَقَدْ رَاٰ ہُ نَزْلَۃً أُخْریٰo عِندَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہیٰo عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَأْویٰo اِذْ یَغْشیٰ السِّدْرَۃَ مَا یَغْشیٰo مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغیٰo لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰ یَاتِ رَبِّہٰ الْکُبْریٰo ﴿النجم: ۴ -۱۸﴾
’’یہ تو ایک وحی ہے جو اُس پر نازل کی جاتی ہے۔ اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے ﴿یعنی جبریلِ امین نے﴾۔ وہ سامنے آکھڑا ہوا جب کہ وہ بالائی افق پر تھا۔ پھر قریب آیا اور اوپر معلّق ہوگیا۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اُس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔ تب اُس نے اللہ کے بندے پر وحی پہنچائی جو وحی بھی اسے پہنچانی تھی۔ نظر نے جو کچھ دیکھا، دل نے اُس میں جھوٹ نہ ملایا۔ اَب کیا تم اُس چیز پر اُس سے جھگڑتے ہو، جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اور ایک مرتبہ پھر اُس نے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اس کو اترتے دیکھا۔، جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے۔ اُس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا۔ نگاہ نہ چوندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی۔ اور اُس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘
واقعہ معراج کے موقع پر نبی ﷺ نے بہت سے امورِ غیب کا مشاہدہ کیا:
سُبْحَانَ الَّذِیْٓ أَسْریٰ بِعَبْدِہٰ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصیٰ الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ اٰیَاتِنَا اِنَّہ‘ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُo ﴿بنی اسرائیل:۱﴾
’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اُس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔‘‘
ایمان بالغیب کی دعوت
عصرِ حاضر کے چیلنج کی نوعیت سمجھ لینے کے بعد اُمتِ مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سارے انسانوں کو عموماً اور اہلِ مغرب کو خصوصاً ’’غیب پر ایمان لانے‘‘ کی دعوت دے۔ یہ واقعہ ہے کہ غیب پر ایمان سے جو چیز اہلِ مغرب کو روکتی ہے وہ کوئی عقلی استدلال نہیں ہے بلکہ ’’مذہب کا خوف‘‘ ہے۔ اُن کے نزدیک مذہب نام ہے اندھ وشواس کا، بے بنیاد عقائد کا اوہام و خرافات کا، نامعقول رسوم و رواج کا، پجاریوں اور پروہتوں کی انسانوں پرحکومت کا اور غیر منصفانہ قوانین کا۔ اگر ایسے ’’مذہب‘‘ سے وہ نہ بھاگیں تو کیا کریں۔
ایسے حالات میں اہلِ مغرب کو یہ بتایا جانا چاہیے کہ اسلام اُس قسم کا ’’مذہب‘‘ نہیں ہے، جس سے وہ خوف زدہ ہیں۔ اُس نے جن باتوں پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ انتہائی معقول ہیں اور انسانی فطرت کو اپیل کرتی ہیں:
یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا اٰ مِنُوْآ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٰ وَالْکِتَابِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٰ وَالْکِتَابِ الَّذِیْٓ أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ یَکْفُرْ بِاللّٰہِ وَمَلَآئِکَتِہٰ وَکُتُبِہٰ وَرُسُلِہٰ وَالْیَوْمِ الاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً بَعِیْداًo ﴿النساء : ۱۳۱﴾
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے رسول پر اور اُس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کرچکا ہے اور جس نے اللہ اور اُس کے ملائکہ اور اُس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔‘‘
اسلام میں کسی ایسے مذہبی اجارہ دار طبقے ﴿Clergy﴾ کی کوئی گنجائش نہیں، جو اللہ کی ہدایت کی من مانی تشریح کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔
وَمِنْہُمْ أُمِّیُّوْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ الْکِتَابَ اِلآَّ أَمَانِیَّ وَاِنْ ہُمْ اِلاَّ یَظُنُّوْنَ o فَوَیْْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِأَیْْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ہٰ ذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٰ ثَمَناً قَلِیْلاً فَوَیْْلٌ لَّہُم مِّمَّا کَتَبَتْ أَیْْدِیْہِمْ وَوَیْْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَo ﴿البقرۃ:۷۸،۷۹﴾
’’اُن میں ایک گروہ امیوں کا ہے جو کتاب کو تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔ پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں۔ اُن کے ہاتھوں کا یہ لکھا ہوا بھی اُن کے لیے تباہی کا سامان ہے اور اُن کی یہ کمائی بھی اُن کے لیے موجبِ ہلاکت۔‘‘
آخر میں اہلِ مغرب کو یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کی آمد کی ایک غرض یہ ہے کہ دنیا سے تمام نامعقول رسوم و رواج کا اور غیر منصفانہ قوانین کا خاتمہ کردیا جائے:
الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الأُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہُ مَکْتُوْباً عِندَہُمْ فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالاِنْجِیْلِ یَأْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْْہِمُ الْخَبَآئِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْْہِمْ فَالَّذِیْنَ آمَنُوْا بِہٰ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِی أُنْزِلَ مَعَہُ أُوْلٰ ئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo﴿الاعراف: ۱۵۷﴾
’’﴿آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے﴾ جو اس پیغمبر نبی اُمّی ﴿ﷺ ﴾ کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور اُن پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے، جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اُس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اُس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
مشمولہ: شمارہ فروری 2012