دینی تعلیم میں عصری علوم

جس طرح جسمانی صحت کے لیے مناسب غذا ضروری ہے، اسی طرح تعلیم کے لیے بھی مناسب نصاب لازمی ہے۔ غذا سے جسم کی تندرستی وابستہ ہے اور تعلیم سے روح کی زندگی اور بالیدگی۔ غذا کی طرح نصاب تعلیم میں بھی مزاج و ماحول کی رعایت اور زمان ومکان کے فرق کالحاظ ضروری ہے۔ ان کو نظرانداز کرکے جو تعلیم دی جائے گی، اس سے دنیا و آخرت کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔

مسلمانوں میں رائج نظام تعلیم پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ دینی اور دنیوی تعلیم کی تفریق سے عاری تھا۔ ہر طرح کے فائدہ مند علوم اس میں شامل تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے :

’’علوم پانچ ہیں، دین کے لیے ‘علم فقہ’ ،جسم کے لیے ‘علم طب’ ﴿میڈیکل سائنس﴾، تعمیرکے لیے ‘علم ہندسہ’ ﴿انجینئرنگ﴾، زبان دانی کے لیے ‘علم نحو’ اور وقت جاننے کے لیے ‘علم نجوم’۔ ﴿احیائ علوم الدین ۱/۲۲﴾

امام شافعی ؒ کا قول ہے: علم دو چیزوں کا نام ہے جسم کے لیے ‘علم طب’ اور دین کے لیے ‘علم فقہ’ ﴿مفتاح السعادۃ ۱/۲۶۷﴾

امام غزالی احیاے علوم الدین میںبڑی حسرت کے ساتھ کہتے ہیں کہ لوگ ‘علم فقہ’ پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ کیونکہ اس کی وجہ سے قاضی بننے کی راہ ہموار ہوجاتی ہے اور یتیموں اور لاوارثوں کے مال و جائداد کی تولیت مل جاتی ہے۔ وہ اختلافی مسائل میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔ مگر کسی کو ‘علم طب’ کی طرف توجہ کی فرصت نہیں ہے۔ مسلمانوں کے شہروں میں غیرمسلموں کے سوا کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ حالانکہ بہت سے ایسے طبی مسائل ہیں، جن میں غیرمسلم ڈاکٹر کی رائے اور گواہی معتبر نہیں ہے۔

فقہا نے اس طرح کے علوم کو‘فرض کفایہ’ قرار دیاہے۔ علامہ زیلعی لکھتے ہیں:

‘فرض کفایہ ہر وہ علم ہے، جس پر دُنیوی زندگی کادارو مدار ہو، مثلاً: ڈاکٹری، حساب، لغت، وراثت کی تقسیم، کتابت، اسی طرح سے علم آثار و تاریخ اور علم رجال اور صناعات کی بنیادی چیزیں جیسے کھیتی، پارجہ بافی وغیرہ ﴿ردالمختار۱/۲۹﴾

‘درس نظامی’ کے نام سے ‘ہندی مسلمانوں’ کے درمیان جو نظام تعلیم معروف و مشہور ہے، اس میں بھی دینی اور دنیوی تعلیم کی کوئی تفریق نہیں تھی۔کتاب وسنت کے ساتھ ساتھ حساب، ہیئت، قدیم سائنس ﴿منطق و فلسفہ﴾ کی کتابیں بھی نصاب میں شامل تھیں۔ ملکی اور سرکاری زبان کی حیثیت سے فارسی پڑھائی جاتی تھی اور جو لوگ ان مدرسوں سے پڑھ کر نکلتے تھے وہی مسند دعوت وارشاد پر فائز ہوتے تھے اور ایوان حکوت کی زینت اور رونق بھی انھی کے دم سے قائم تھی۔ امامت وخطابت کافریضہ بھی یہی لوگ انجام دیتے تھے اور حکام یاآفیسر بھی یہیں سے فراہم ہوتے تھے۔ غرض کہ ‘استعمار’ سے پہلے دین و دنیا دونوں کی ضرورت کی تکمیل انھی مدرسوں سے ہوتی تھی۔ لیکن استعمار کا سورج کے غروب ہونے کے بعد جب اس نظام تعلیم پر نظرثانی کئی گئی تو فائدہ مند علوم کو رفتہ رفتہ نکال باہر کیاگیا اور ‘ازکار رفتہ’ اور ‘آثار قدیمہ’ جیسے علوم کو باقی رکھاگیا۔

ایک زمانہ تھا کہ الحاد اور باطنیت کے علم بردار منطق وفلسفہ کے ہتھیار سے لیس ہوکر اسلام کے معتقدات پر حملہ آور ہوئے۔ علماے اسلام نے ان سے مقابلے کے لیے ان علوم کو سیکھا، ان کو نکھارا اور سنوارا۔ اس قدر اضافہ کیاگیاکہ اگر ان علوم کے مدون زندہ ہوتے تو رشک و حیرت کی نگاہ سے دیکھتے۔ ابن حبان، ابن رشد، رازی اور غزالی نے جس طرح سے ‘فلسفہ و منطق’ کو ترقی دی اور ان کی کمیوں پر تنقید کی وہ ارسطو اور سقراط کی پہنچ سے باہر ہے۔ انھوںنے الحاد اور زندقہ کی طرف دعوت دینے والے علم کو اس طرح پیش کیاہے کہ وہ اسلامی علوم کا ایک حصہ نظرآنے لگا۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ان علوم کے متعلق فرمایا:

’’ہم تو جیسابخاری کے مطالعے میں اجر سمجھتے ہیں ، میرزاہد امور عامہ کے مطالعے میں بھی ویسا ہی اجر سمجھتے ہیں۔ کیوںکہ اس کاشغل بھی اللہ کے واسطے ہے اور اس کا بھی ۔‘‘ ﴿النور، ربیع الثانی ۱۳۶۱﴾

آج یہ علوم غیرضروری ہوچکے ہیں اور سائنس و حساب اور تاریخ نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ آج ان علوم کو وہ درجہ کیوں نہ دیاجائے جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے میر زاہد کو دیاتھا۔

دورحاضر میں سماجیات، سیاسیات، معاشیات ایسے علوم ہیں، جن کاجدید ذہن کی تشکیل میں بہت بڑا کردار رہاہے اور ڈارون، فرائڈ اور کارل مارکس نے انسانیت کو گمراہ کرنے میں شیطان کو بھی شرمسار کردیاہے۔ جس طرح سے ہمارے اسلاف نے منطق اورفلسفے جیسے ‘الحادی علم’ کو اسلامی سانچے میں ڈھال کر پیش کیا، ضرورت ان کے جانشینوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ بھی ان علوم سے آگاہی حاصل کریں۔ انھیں اسلامی سانچے میں ڈھالیں اور انھیں ‘مسلمان بناکر’ ان سے اسلام کے دفاع، تحفط اور اشاعت کا کام لیں۔ ان علوم کو نظرانداز کرکے اور اسلام کی روشنی میں ان کی تحلیل اور تجزیے کے بغیر اسلام کی حفاظت و اشاعت مشکل ہے۔ جو کہ مدارس کے قیام کا اصل مقصد ہے۔ مولانا محمدیوسف بنوریؒ لکھتے ہیں:

’’علم کلام جدید، فلسفہ جدید، علم الاقتصاد اور بعض جدید علوم سے قدیم نصاب کادامن خالی ہے اور آج اس کی ضرورت محسوس ہورہی ہے ، جس طرح پہلے جہمیہ ، حشویہ، خوارج، معتزلہ وقدریہ مسلک سے ہٹے ہوئے تھے اور باطل فرقے پیدا ہوئے اور جس طرح ان کے عقائد اور ان کی تردید دین کااہم جزتھا، اسی طرح آج لادینی نظامِ حیات ،اشتراکیت و فسطائیت وغیرہ کے مسائل پر قواعد اسلام کے پیش نظر نقد و تبصرہ دین کااہم جز ہے۔ آج اگر ہمارے اسلاف زندہ ہوتے تو جس طرح سے اس وقت فرق باطلہ کی تحقیق و تنقیح کے بعد امت کے لیے اسلحہ تیار کرکے دیا اسی طرح آج بھی جدید اسلحہ دفاع کے لیے تیار کرتے اور علوم کا بیش بہا اضافہ کرتے۔

﴿دینی مدارس کانصاب /۲۳۰

منطق قدیم ،فلسفہ قدیم کلام قدیم اور ہیئت قدیم میں بہت سرسری معلومات بھی کفایت کرسکیںگی اور ان کی جگہ کی تکمیل کے لیے جدید علم کلام، جدید علم ہیئت، ریاضی و اقتصادیات کو دینا چاہیے۔ ﴿حوالہ مذکور /۲۳۶

 علامہ انور شاہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ اپنے بعض تلامذہ کو سائنس اور دوسرے جدید علوم کی کتابیں پڑھاتے تھے ۔ ان کاکہناتھا کہ اب علما کو قدیم فلسفہ و ہیئت کے ساتھ جدید فلسفہ و ہیت کا بھی علم حاصل کرنا چاہیے۔ ﴿سوانح قاسمی/۳۰۱﴾

فارسی زبان ایک مشرک قوم اور مسلم دشمن کی زبان تھی۔ لیکن مسلمانوں نے اس کے ساتھ کبھی امتیازی سلوک نہیں کیا۔ بلکہ اسے سیکھا اور کتاب و سنت کی تعلیمات سے اسے آراستہ کیا۔ یہاں تک کہ ایک دور ایسا بھی آیاکہ عربی زبان کے بعد اسلامی علوم کا سب سے بڑا ذخیرہ فارسی زبان میں تھا اور آج حال یہ ہے کہ فارسی زبان سیکھنے کے لیے اسلامی اصطلاحات کاجانناضروری ہے۔ اس لیے کہ اسلام کسی خاص زبان کا پابند نہیں بلکہ وہ ایک پیغام کانام ہے اور اس پیغام کو عام کرنے کے لیے ہر اس زبان کا سہارا لیاجاسکتا ہے، جو ملکی اور بین الاقوامی پیغام رسانی کاذریعہ ہو اور یہی وہ حکمت ہے، جس کی وجہ سے ہر رسول اپنی قوم کے سامنے اس کی زبان میں ’’امانت الٰہی’’ کی تبلیغ کرتا ہے۔ ﴿وماارسلنا من رسول الابلسان قومہ﴾

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ‘بھارتی مسلمان’ تعلیمی اعتبار سے پستی کی انتہا کو چھور ہے ہیں اور مدارس اسلامیہ سے جڑنے والے طلبا کی تعداد چار فیصد سے بھی کم ہے اور ان میں بھی مقامی طلبا کی نمائندگی ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے وہ ہے تعلیم میں دین و دنیا کی تفریق۔ ضرورت ہے کہ اس فرق کو مٹایاجائے اور درس نظامی سے حساب وغیرہ کو جو نکال باہر کیاگیاہے، اسے دوبارہ شامل کیاجائے اور قدیم منطق اور فلسفے کی جگہ جدید سائنس کو دی جائے اور انگریزی زبان جو ملکی اور بین الاقوامی ربط اور پیغام رسانی کاذریعہ ہے، اسے وہی حیثیت دی جائے جو قدیم نصاب میں فارسی زبان کو دی گئی تھی۔ دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور زندہ قومیں وقت کی رفتار کے ساتھ چلتی ہیں۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau