تاریخ کا تسلسل اور تہذیبوں کی ہم آہنگی

ڈاکٹر جاوید ظفر

؍ اگست کی رات کوجیسے ہی آخری امریکی سپاہی نے افغانستان چھوڑا،  ویسے ہی تاریخ کا ایک باب بند ہوگیاا اور اگلا شروع ہوا۔ افغانستان میں امریکہ اور مغرب کی شکست نے نہ صرف نئے نظریات اور فلسفوں کو جنم دیا ہے بلکہ پچھلے دو سو سال سے قائم نظریات اور فلسفوں پر بھی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ اب دنیا کو مابعد امریکی شکست یا مابعد افغانستان یا قبل از افغانستان کی شکل میں دیکھا جاسکتاہے۔

۱۹۹۸ میں سوویت یونین کی افغانستان سے شکست کے بعد واپسی ہوئی اور پوری دنیا میں کمیونسٹ آئیڈیولوجی کا انحطاط ہوا تو مصنوعی طور سے مغرب (West) نےEnd of History کی سرخی کے ساتھ یہ خبر جاری کی کہ اب تاریخ اس موڑ پر آگئی ہے کہ مغرب کی لبرل جمہوریت اور لبرل معاشی فتح ہی تاریخ کا آخری سچ ہے۔ اس کو مصنوعی اس لیے کہا گیا ہے کہ سوویت یونین کا بکھراؤ مغرب کی لبرل جمہوریت یا لبرل اقدار کی جیت نہیں تھی بلکہ وہ بھی انھی طاقتوں کی جیت تھی جنھوں نے تیس سال بعد اسی افغانستان میں مغرب کو شکست دی ہے۔ یہ سوال الگ ہے کہ وہ طاقتیں (جنھوں نے تیس سال پہلے کمیونزم کو شکست دی تھی) جس طرح تیس سال پہلے اپنی جیت کے اثر اور اس کے بیانیے کو قائم کرنے میں پوری طرح ناکام رہی تھیں، وہ اس بار اپنے بیانیے اور اس کے اثر کو قائم کرنے میں کام یاب ہوسکیں گی یا نہیں؟

سوویت یونین کے سقوط  اور کمیونزم کے تارو پود بکھرنے کے بعد امریکی سیاسی تجزیہ کار فوکویاما نے اپنے تھیسس‘تاریخ کے خاتمے’(End of History) کا اعلان کردیا اور کہا[1]:

What we may be witnessing is not just end of cold war and passing of particular period of cold war history but the end of history as such.That is the end point of mankind’s ideological evaluation and universalisation western liberal democracy as the final form of human government.

حالاں کہ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے مارکس اور ہیگل بھی تاریخ کے خاتمے  کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ دونوں نے اس کی دلیل الگ الگ پیش کی۔ ہیگل نے مسلسل چلے آرہے انسانی شعور (human conscious) کو تاریخ کی اصل طاقت بتایا، مارکس نے اس کے برعکس مادی طاقت (material force) کو تاریخ کی اصل قوت قرار دیا۔ویسے تو  مارکس  بھی مادے کی بالادستی کی بات کرتا ہے، لیکن فوکو یاما نے مارکس کی مادیت کو ایک آئیڈیولوجیکل علامت اور نظام کے طور پر پیش کیا ہے اور ایک اور مغربی آئیڈیا لبرلزم کو مٹیریل ورلڈ سے تشبیہ دی ہے نیز یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک مغربی آئیڈیا مارکسزم دوسرے مغربی آئیڈیا لبرلزم سے ہار گیا، اور یہ تاریخ کا اختتام  ہے۔ حالاں کہ اگر بغور دیکھا جائے تو دونوں ہی  آئیڈیا  مادّے کی زبردست طاقت پریقین رکھتے ہیں، بلکہ مارکسزم میں تو مادّہ ہی تاریخ کو چلانے والی اصل طاقت ہے اور انسانی تہذیب و تمدن کی ہر چیز اسی پر قائم ہے۔ دوسری طرف لبرلزم بھی مادّے کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے، لیکن چوں کہ نچلی سطح پر نتیجوںمیں کمیونزم سیاسی نظام اور نظریہ دونوں ہی منہدم  ہوگئے، تو ایسا کہا جارہا ہے۔

یہ حیرت کی بات ہے کہ ہمیشہ آگے بڑھنے اور ترقی کا نعرہ دینے والا مغرب لبرلزم کو تنقیدی نگاہوں سے دیکھنے کے بجائے اسے ہمیشہ کے لیے انسان کی آخری منزل بتا رہا ہے۔ تاریخ کے خاتمے  کا ایک تصور اسلام بھی پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قرآن کے نزول اور آخری پیغمبر کی آمد کے ساتھ ہی تاریخ اختتام کو پہنچ گئی ہے اور انسانی ہدایت کے لیے آخری رہ نمائی اب صرف قرآن و سنت ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر مغرب اس اعلان کو ترقی کے نظریے کے خلاف بتاتا ہے اور اب لبرلزم کو آخری ہدایت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

اگر ہم الگ طریقے سے سوچیں تو اسلام کےخاتمۂ تاریخ کے اعلان کے بعد تمام آئیڈیاز کا اس سے تصادم رہا ہے، چاہے وہ مارکسزم ہو، فاشزم ہو یا اب لبرلزم۔ کمیونزم کو آئیڈیا کے طور پر اور سیاسی طور پر سرنگوں کرنے میں جو جد و جہد اسلامی آئیڈیا کی ہے وہ مغرب کی نہیں ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ کمیونزم کے زوال کے بعد اسلامی طاقتیں اپنا بیانیہ پیش کرنے اور اسے قائم رکھنے میں ناکام رہی ہیں اور اسلام کو ایک مکمل نظام کے طور پر قائم نہیں کر سکیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا لبرلزم سے بھی مطمئن نہیں رہی اسی لیے الگ الگ سطحوں پر الگ الگ خانوں میں اختلاف کا شکار ہے۔ اب یہ صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ مغرب کا لبرلزم اپنی فوجی اور معاشی طاقت کے بل پر کھڑا ہے اور بہت سارے ملکوںمیں جو لبرلزم کی شکل دکھائی دیتی ہے وہ تھوپی گئی ہے، اور اگر کوئی متبادل نظام کی بات کرتا ہے تو ان سرکاروں کو نہ صرف دھمکایا جاتا ہے بلکہ وہاں انارکی پیدا کرکے ان حکومتوں کو گرا دیا جاتا ہے، جیسے عراق، شام، افغانستان اور افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بہت سارے ملک۔ کئی ملکوں میں بظاہر لبرل ڈیموکریسی ہے لیکن وہ آج بھی طاقت ور مغربی ملکوں کی اجازت کے بغیر اپنے فیصلے نہیں کرسکتے۔

اسلامی آئیڈیا کا تصور ارتقائی (evoluationory) تصور نہیں ہے۔شروع سے لے کر اب تک اس کی بنیادیں مطلق (absolute) رہی ہیں۔ ہاں نچلی سطح پر زمان و مکان کے بدلاؤ کی وجہ سے بہت سارے معاملات میں اس میں ایک ارتقائی عنصر دیکھا جاسکتا ہے، کیوں کہ مادہ پرست تصورات، الگ الگ نام اور شکلوں میں تسلسل کے ساتھ آتے رہے ہیں، اور اسلامی آئیڈیا ہمیشہ اس مادہ پرست سوچ سے نبرد آزما رہا ہے، اس لیے اس میں ایک تسلسل ہے اور اپنے اجتہادانہ ایجادات (ijtehadic innovation) کے ساتھ ہمیشہ اس سوچ کے ساتھ نبردآزما رہے گا۔

مارکس اور ہیگل کے درمیان اصل اختلاف یہ ہے کہ شعور اور مادے میں تاریخ کو آگے بڑھانے کے لیے کون زیادہ بنیادی ہے۔ ہیگل شعور کو ترجیح دیتا ہے اور کہتا ہے کہ :

The notion that mankind has progressed through a series of primitive stages of consciousness on his path to present.

اس کے مطابق ہیگل کے نزدیک شعور ہی مادی دنیا میں انسانی ترقی کی اصل وجہ ہے۔ فوکو یامانے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ شعور علت (cause)ہے اثر (effect) نہیں ہے اور مادّی دنیا میں خود بخود پیدا ہوسکتا ہے اور ترقی پاسکتا ہے۔ لیکن بعد میں مارکس نے اس کو پوری طرح الٹ دیا اور اس بات کو پیش کیا کہ مادّی حالات انسانی رویے کی اصل طاقت ہیں۔ اور شعور مادّی حالات پر منحصر ہے۔ فوکویاما کا کہنا ہے کہ مارکسزم کے زوال کے بعد شعور نے مادّی حالت کے آئیڈیا کو شکست دے دی ہے اور انسان یا انسانیت نظریاتی ارتقا کے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔

طالبان کے ہاتھوں ناٹو اور مغرب کی فوجی قوت کی شکست کو کس طرح دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ شعور اور مادّے یا لبرل اکنامکس (جس کو فوکو یاما خودآگہی  کا ایک بائی پروڈکٹ بتاتے ہیں) میں کس کی فتح ہے، کیوں کہ طالبان اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں اور اسلام میں ایمان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ حالاں کہ اس میں شعور کے عنصر پائے جاتے ہیں لیکن وہ صرف شعور پر ہی منحصر نہیں ہے۔ پچھلے بیس برسوں سے مغربی لبرل جمہوریت کے سب سے طاقت ور نمائندے اپنی معاشی اور عسکری طاقت کے ساتھ طالبان (جو اسلامک آئیڈیا ایمان کی نمائندگی کرتے ہیں) سے جنگ میں مشغول تھے۔ حالاں کہ طالبان نے ( جو مسلمانوں کی مکمل نمائندگی نہیں کرتے ہیں) ناٹو (جو مغربی تہذیب اور مغربی لبرل ڈیموکریسی کی مکمل نمائندہ ہے) کو شکست دے دی ہے، تو سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا ناٹو کی شکست کو مادّہ بمقابلہ ایمان (شعور کی کشمکش) کی طرح دیکھا جاسکتا ہے۔

ایمان انسان کی اس یقینی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان اس بات کو عقلی (reason) اور شعوری (consciousness) طور پر تسلیم کرتاہے کہ خدائے واحد نہ صرف موجود ہے، بلکہ کائنات کا محور و مرکز وہی ہے۔ انسانوں سمیت ہر چیز کو اسی کی طرف لوٹ  کر جانا ہے۔ انسان بھی اسی کی تخلیق ہے اور انسان دنیا میں جو کچھ بھی کرتا ہے اس کاحساب اسے خدا کو دینا ہے۔ایمان کا پیدا ہونا اورپروان چڑھنا مادی حالات سے آزادہے۔ انسانی تاریخ کی ابتدا ہی سے ایمان کا دعویٰ کرنے والے لوگ ایمان کو بنیاد بنا کر ظلم و زیادتی اور استحصال کے خلاف نبردآزما رہے ہیں۔ انسانی تاریخ کے سب سے فیصلہ کن معرکے جنھوں نے تاریخ کوہمیشہ کے لیے بدل دیاہے اور تاریخ پردائمی اثرات چھوڑے ہیں وہ ایمانی شعور اور مادہ پرست آزاد خیالی کے بیچ کش مکش کاہی نتیجہ ہے۔ ابراہیم علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کی نمرود کے خلاف جد وجہد، داؤد علیہ السلام کی جالوت کے خلاف جد وجہد اور فرعون کے خلاف موسیٰ علیہ السلام کی جدوجہد اور آخر میں محمد ﷺ اوران کے پیروکاروں کی جد و جہد اس بات کی تائیدکرتی ہے کہ پچھلے پانچ ہزار سال کی تاریخ میں ایمانی شعور ہی تاریخ کو چلانے والی اور متاثر کرنے والی سب سے طاقت ور وجہ  رہی ہے۔ موجودہ دنیا کی سماجی اور سیاسی جہت جو کچھ بھی ہمیں دکھائی دیتی ہے اور جوکچھ بھی ہورہا ہے اس کی تشکیل اسی جد و جہد کے ذریعے ہوئی ہے۔

تاریخ کو اس طرح دیکھنا کیا اس بات کی علامت ہے کہ انسان ایک آخری حل کی تلاش میں ہمیشہ سے رہے ہیں اور انھیں اپنے آئیڈیاز میں جیسے ہی کچھ استحکام (stability) نظر آتا ہے تو وہ فوراً اس کا اعلان کر دیتے ہیں۔ فوکویاما نے بھی یہی کیا تھا حالاں کہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ فوکویاما کا نظریاتی پس منظر اس طرف اشارہ کرتا ہے۔ شعور اور مادّی حالات کیا ایک دوسرے کی ضد (opposite) ہیں یا تکملہ (compliment) ہیں؟  ایک دوسرے سے آزاد ہیں یا ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں؟  شعور کیا ہے اور اس کا ماخذ (source) کیا ہے اور مادّہ اسے کس حد تک متاثر کرسکتا ہے؟ انھی سوالوں کے جواب سے تاریخ کے دھارے کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ تاریخ کو چلانے والی اصل قوت کیا ہے؟ کیا شعور اور مادے کے علاوہ بھی کچھ طاقتیں ہیں یا باقی عناصر انھیں دو بڑی قسموں میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں؟

کمیونزم کا زوال ہوتے ہی فوکویاما نے مادّےکی  آئیڈیا  پر فتح کو فیصلہ کن قرار دے دیا۔ لیکن مارکس خود اپنے آئیڈیا کو خالص مادّی  بتا چکے ہیں اور ہیگل کے شعور والے آئیڈیا کو مسترد کرکے مادّی حالات کو تاریخ چلانے والی اصل طاقت قرار دے چکے ہیں۔ لبرل اقدار سے مارکس کا ٹکراؤ ہر نکتے پر نہیں تھا اور کچھ معاملوںمیں ان کی رائے ایک سی ہے۔ بعض معاشی اور حکومتوں  کی شکلیں اور حکم رانی کے مسائل پر ان کے بیچ سخت اختلاف پایا جاتا ہے۔ اب جب کہ کمیونزم کا سقوط  ہوا تو اسے مادے کی نظریے پر فتح قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کو بس اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایک مادّی نظریے نے دوسرے مادّی نظریے اور فارم آف گورنمنٹ کو شکست دے دی ہے اور یہ نظریے اور مادّے کے درمیان کش مکش نہیں تھی۔

تو اب طالبان کی فتح کو نظریے کی مادے پر فتح قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ طالبان جس نظریے پر یقین رکھتے ہیں اس میں مادّی حالات کو بنیادی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ طالبان (آئیڈیا) کی فتح کے نتیجے میں  کمیونزم کے سقوط جیسا نہیں ہوا اور لبرل ورلڈ میں کوئی ہلچل نظر نہیں آتی۔ لیکن اس نے ایک نئی حالت multiverse کو پیدا کیا ہے[2]۔

تاریخ کو چلانے والی طاقت میں شعور اور مادّے کو لے کر دونوں کے بیچ اختلاف ہے اور دونوں شعور اور مادّے کو ایک دوسرے سے آزاد سمجھتے ہیں۔ مارکس وجودی اعتبار سے (ontologically) مادّے کوشعور سے پہلے مانتے ہیں اور اس کے لیے دلیل  یہ دیتے ہیں کہ شعور مادّے کے بعد آیا ہے، اور چوں کہ مادّہ پہلے سے ہے اس لیے شعور اس سے متاثر رہا ہے۔ لیکن شعور کے حامی علمیاتی  روسے (epistemologically) ثابت کرتے ہیں کہ شعور مادّے سے آزاد ہے۔ شعور کے حامی، خاص طور پر ہیگل، انسان کو صرف تاریخی عمل (historical process)کا ایک آبجیکٹ مانتے ہیں۔ لیکن مارکس بنیادی طور پر انسان کو سبجیکٹ کی طرح دیکھتے ہیں۔ وہ اس کو آبجیکٹ بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کو آبجیکٹ بنانے میں بھی میٹریل کنڈیشن اورمٹیریل انٹر پلے ذمہ دار ہے۔ اسلام تاریخ کے بہاؤ کو کس طرح دیکھتا ہے یہ ایک لمبی بحث کا موضوع ہے لیکن یہ جہاں دوری ہے وہیں دوری و ترقی پذیر (cyclo-progressive)ہے۔ لیکن اصل بحث یہ ہے کہ تاریخ کو آگے بڑھانے والی اصل طاقت کیا ہے؟  آئیڈیا (شعور) یا مادّی حالت (material condition) یا کوئی خدائی دخل (divine intervention)۔ اور کیا خدائی دخل کو شعور کے قریب مانا جا سکتا ہے یا اس سے تشبیہ دی جاسکتی ہے؟ کیوں کہ اسلام ایک مذہب ہے اور  اس میں خدا کے تصور کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ خدائی دخل کس طرح مادّی حالات اور شعور کو متاثر کرتا ہے۔ اس مادّی اور شعوری دنیا میں اسلام ایک منفرد پوزیشن لیتا ہے اور تاریخ کے ماخذ میں  مادے، شعور اور خدائی دخل تینوں کے دخل اور رول کو واضح کرتا ہے۔ جہاں اسلام خدا کو قادر مطلق اور کائنات کو پیدا کرنے والی، سنبھالنے والی، چلانے والی اور اسے ختم کرنے والی طاقت مانتا ہے،  وہیں انسان کو اس نے اس طرح آزادی دی  ہے کہ وہ تاریخ کے بہاؤ میں ایک سبجیکٹ کا کردار بھی ادا کرسکے اور آبجیکٹ کا بھی۔ یوں تو ہر چیز پر خدا کا کنٹرول ہے لیکن انسان کو آزادی بھی حاصل ہے کہ ایک محدود فریم ورک میں مادّے کی مدد سے اس مادّی دنیا کو مختلف دھاروں میں متاثر کرسکتاہے۔ اس لیے اسلامک تھیوری آف ہسٹری ہیگل اور مارکس کے درمیان ایک بیچ کی مربوط کڑی (integrated bridge) کی پوزیشن رکھتی ہے۔ زیادہ اہم سوال یہ نہیں ہے کہ مادّے اور شعور میں کون کتنا آزاد ہے اور کون پُرانا یا پہلے ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان مادّے سے بنا ہے اور باشعور ہے۔ اس کی اس خاص مادّی بناوٹ اور اس کے شعور کا ماخذ کیا ہے؟ سائنس بھی اس معاملے میں کچھ پہلو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مذہبوں کی رائے بھی اس میں مختلف ہے۔

اس پر بھی بحث کی جا سکتی ہے کہ موجودہ انسان جب سے وجودمیں آیا ہے اس کے شعور میں کوئی بدلاؤ آیا بھی ہے یا نہیں؟  اور اس کی ضرورت میں کیا بدلاؤ آئے ہیں؟ اسی طرح مادی حالات کیا ہیں اور کیا اس میں کوئی بڑا بدلاؤ آیا ہے یا یہ وہی مادی حالات ہیں جن کا انسان نے پہلی بار سامنا کیا تھا اور ان میں کوئی خاص بدلاؤ نہیں آیا ہے؟  اس میں لگتا یہ ہے کہ شروع سے لے کر اب تک نہ انسانی شعور میں کوئی بڑا بدلاؤ آیا ہے اور نہ ہی مادّی حالات میں۔ اور باری باری کچھ خاص حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بار بار پلٹ کر آتے ہیں۔ کیوں کہ یہ عمل کافی سست ہے اور صدیوں پر محیط ہے اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ہر نئی نسل نئے مسائل اور حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ حالاں کہ یہ وہی حالات اور مسائل ہیں جو اس سے پہلے بھی پیدا ہوچکے ہیں۔ بس اس کی شکل بدلی ہے۔

انسان (بحیثیت مادی وجود کے) کس طرح تاریخ کے عمل کو متاثر کرتا اور متاثر  ہوتا ہے، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اب اس کے شعوری وجود (conscious material) کا اس مادّی دنیامیں کیا مقصد ہے۔ سبھی انسانوں کی مادّی بناوٹ تو ایک سی ہے لیکن شعور اتنا مختلف کیوں ہے اور اس لیے اس کے مقاصد بھی مختلف ہیں۔ اسی لیے تاریخ  اتنے دھاروں  میں بنٹی ہوئی ہے۔ ایک جیسی مادّی حالت میں رہنے والے لوگ اتنے مختلف مقاصد کیوں طے کرتے ہیں؟ کچھ لوگ اس کا سراغ ڈسکورس میں لگاتے ہیں جو کہ شعور کے آئیڈیا کے زیادہ قریب ہے۔ لیکن ڈسکورس کا آئیڈیا بھی سبھی سوالوں کا جواب نہیں ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان کا شعور بدلتا رہتا ہے اور اس کے مادّی مقاصد بھی۔ اس لیے تاریخ میں ایک تسلسل ہے جو دَوری (cyclic) اور خطی (linear) دونوں ہے۔ حالاں کہ انسان چاہتا تو یہ ہے کہ اسے آخری مقصد اور آخری حل مل جائے اس لیے وہ بار بار اس کا اعلان کرتا ہے۔ چاہے ہیگل ہو یا مارکس اور فوکویاما۔ اسلام کا موقف تاریخ کو لے کر کبھی نہیں بدلا۔ حالاں کہ وہ بدلتی ہوئی مادّی حالت سے انکار نہیں کرتا اور بدلتی ہوئی مادّی شکلوں کا اعتراف کرتا ہے۔ اس لیے اسلامی تاریخ کے تصور میں جہاں حتمیت ہے وہیں ایک بہاؤ بھی ہے جو دَوری اور خطی ہے۔ اسلام نے قرآن کے مکمل ہونے کے ساتھ تاریخ کے خاتمے  کا اعلان کیا اور کہا کہ انسان کی ہدایت یا شعور (consciousness) کے لیے جو رہ نمائی درکار تھی وہ آخری شکل میں آگئی ہے۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ جہاں اس میں ایک مطلقیت (absoluteness) ہے وہیں اجتہاد کی شکل میں ایک مستقل نیا پن ہے جو اس کے بہاؤ کو جاری رکھتا ہے۔ خدا مطلقیت کی نمائندگی ہے اور اجتہاد انسانوں کی۔ اس لیے تاریخ کے بہاؤ میں خدا اور خلق کے درمیان ایک توازن پایا جاتا ہے جس میں خدا کی مطلقیت کا بھی اظہار ہوتا ہے اور بندے کی آزادی بھی جاری رہتی ہے۔ ان سب کے باوجود انسان کو اتنا آزاد بنایا گیا ہے کہ وہ خدا کا انکار کرکے اپنی مطلقیت اور خود مختاری کا اعلان کر دے۔ اس سے تاریخ کے بہاؤ میں ایک کشمکش پیدا ہوجاتی ہے جو خدا کی مطلقیت اور خود مختاری اور بندے کی اعلان کردہ مطلقیت اور خود مختاری سے پیدا ہوتی ہے۔ اور یہی تاریخ کو آگے بڑھانے والی ایک قوت (force) ہے۔ حالاں کہ طالبان کی فتح کے اثرات کمیونسٹ سقوط کی طرح تو نہیں ہیں لیکن اس نے فوکویاما کے تاریخ کے خاتمے کے بیانیے کو مسترد کردیا ہے اور اس کی محدودیت کو بتا دیا ہے۔ اس نے مغرب کے لبرل ازم کو بے نقاب کردیا ہے کہ اوپر سے کچھ اور نظر آنے والا لبرل ازم کس طرح اپنے وجود کو بچانے کے لیے ریئلزم کی سیاست پر کھڑا ہے جہاں بے تحاشا دولت اور زبردست فوجی طاقت، جھوٹ (میڈیا پروپیگنڈہ)، بلیک میلنگ اور نہ ختم ہونے والی جنگوں کا سلسلہ ہے۔ جس کی کالی پرچھائیاں پوری دنیا میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ طالبان کی فتح کو نہ صرف پوری اسلامی دنیا میں مثبت اندازمیں دیکھا گیا ہے بلکہ اسلام کے علاوہ جو دوسرے تہذیبی دھارے ہیں جیسے چین اور روس نے بھی اس واقعے کو خوش آئند کہا ہے اور مغرب کے لبرل آئیڈیا اور طرز حکم رانی پر سخت تنقید کی ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ فوکویاما کی End of History کے آئیڈیا کو سنجیدہ  چیلنج درپیش ہیں۔

تاریخ کا یہ تسلسل یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ اسلامک آئیڈیا لبرل آئیڈیا سے زیادہ وسیع، زیادہ شمولیت پر مبنی   (inclusive and accommodative) ہے۔ اسلامی آئیڈیا میں لبرل ویلیوز کے لیے ایک فریم ورک کی شکل میں جگہ ہے۔ اسلامک آئیڈیا چوں کہ خدا کی مطلقیت کا اعلان کرتا ہے اس لیے انسان کی آزادی کو ایک فریم ورک سے باہر تسلیم نہیں کرتا اور اسے ایک ڈسپلن میں لاتا ہے۔ لیکن لبرل آئیڈیا کے فریم ورک میں کم زوری یہ ہے کہ وہاں اسلام خاص کر اس کے سیاسی اور اجتماعی پہلو کو نہ صرف نظرانداز کیا جاتا ہے بلکہ اس کی شدید مخالفت بھی کی جاتی ہے۔ طالبان کی فتح نے تاریخ کے تسلسل کو نہ صرف بحال کیا ہے بلکہ ایک مثبت رخ بھی دیا ہے۔ جس میں کئی مختلف اور متضاد خیالات مل کر مغربی لبرل تسلط کو چیلنج کر رہے ہیں۔ چوں کہ ایمانی شعور تاریخ کی سب سے فیصلہ کن طاقت رہی ہے اس لیے  آنے والے دنوںمیں ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا کردار زیادہ واضح (vocal and bold) انداز میں سامنے آئے گا۔ کبھی تھیسس کی شکل میں، کبھی اینٹی تھیسس کی شکل میں اور کبھی سنتھیسس کی شکل میں۔

حواشی

  1. Fuku Yama, F. (1989). The End of History? The National Intrest, 16, 3-18
  2. ملٹی ورس اس سیاسی صورتِ حال (condition) کو کہتے ہیں جب عالمی سیاست میں single polarity، bipolarityیا multipolarity ختم ہوجاتی ہے یاہوجائے گی۔اور ایک ایسا نظام  وجود میں آتا ہے یا آسکتا ہے جس میں مختلف تہذیبی دھارے اپنے اپنے دیار میں باہری دباؤ، اثرات یا مداخلت سے مکمل آزاد ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے متوازی  (parallel) رہتے ہیں اور ایک دوسرے میں مداخلت کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے جڑے (connect) رہتے ہیں اور کش مکش کے بجائے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2021

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau