سوال (ایک غیر مسلم خاتون انڈر گریجویٹ طالبہ کی جانب سے، جس سے ای میل کے ذریعے کئی بار تبادلہ خیال ہوا۔ بعض امریکی نوعمر مسلم بھی اکثر مجھ سے تخلیق کے پس پردہ اسباب کے بارے میں سوال کیا کرتے ہیں۔)
اگر خدا ہر چیز کی ضرورت سے بے نیاز اور ہر قسم کی احتیاج سے مبرا ہے تو پھر اس نے ہمیں پیدا ہی کیوں کیا؟ میرا سوال انسانی زندگی کے مقصد کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ انسان کی تخلیق کے پیچھے خدا کا مقصد کیا ہے۔ اگر خدا کو کسی شے کی حاجت ہی نہیں تھی تو اس نے تمام مخلوقات کو، اور خصوصاً انسان کو، کیوں پیدا کیا؟ معاف کیجیے اگر میرے الفاظ سخت ہوں، آخر خدا کو اس پوری مشق سے کیا حاصل ہوا؟
اس سوال میں ایک خاص قسم کی پیچیدگی ہے۔ انسانوں کے مقصدِ زندگی کے بارے میں گفتگو کرنا آسان امر ہے، اس کے مقابلے میں کہ خدا کو ہماری تخلیق کے نتیجے میں کیا حاصل ہوا۔ جب ہم اول الذکر پر بات کرتے ہیں تو ہمیں زیادہ ٹھوس زمین فراہم ہوتی ہے۔ یہاں ہم تجربے اور عقل سے صحیح تر بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن جب ہم خدائی نقطہ نظر پر گفتگو کرتے ہیں تو اپنی شدید محدودیت اور بے بضاعتی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ ہمارا اپنا تجربہ—جس پر زبان کی بنیاد ہے—الوہیت کے تجربے سے لامحدود طور پر کم ہے۔ خدا کی ہستی، علم، سنت یا اس کی حکمت کے پہلوؤں کی وضاحت کے لیے برتی جانے والی ہر طرح کی لفظیات از بس قیاس ہی ہوسکتی ہیں۔ جہاں تک قرآن کے بیانات کا تعلق ہے تو روایتی حنبلی مکتب فکر نے بھی اس مخمصے کو اپنے اصول ’بلا کیف‘ (’کیسے‘ کے بغیر) کے ساتھ تسلیم کیا ہے۔ اس کی روٗ سے کلام الہی خدا اور اس کے افعال کی صداقتوں کو بیان کرتا ہے لیکن ہم یہ ٹھیک سے نہیں بتا سکتے کہ ان صداقتوں کا حصول یا ادراک کیسے کیا جاتا ہے۔ بہت سے مفسرین نے ان آیات کی تشریح کے لیے تاویل (تمثیٖلی تفسیر) کا سہارا لیا ہے۔ (دیکھیے :انٹروڈکشن ٹو اسلامک تھیالوجی اینڈ لا، از اگناز گولڈزیہر، مترجم اینڈرا و روتھ ہاموری، پرنسٹن، 1981، ص 92-109)
مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ جب پہلی بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا تو میں اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا، کیوں کہ یہ اس قبیل کے سوالات سے مختلف تھا جو مجھے اپنے ملحد ہونے کے دوران درپیش تھے۔ میرے سوالات ایک لحاظ سے زمینی سطح سے تھے۔ خدا کے وجود پر میں نے اپنی بشری بے بضاعتی کے نتیجے میں شک کیا تھا۔ جب کہ مذکورہ استفسار اوپر سے نیچے کی طرف استدلال کی جستجو کرتا ہے، یہ اس الوہی ترغیب پر سوال اٹھاتا ہے کہ ’’اس سے خدا کو کیا ملا؟‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوال میرے لیے اجنبی تھا کیوں کہ جس عقیدے اور ماحول کے ساتھ میری پرورش ہوئی اس میں خدا کی بے نیازی اور ماورائیت سکھائی تو گئی تھی لیکن اس پر بہت زیادہ زور نہیں دیا گیا تھا۔ حضرت مسیح کے خدا کا بیٹا ہونے پر زیادہ زور دیا گیا۔ چوں کہ عیسائیت میں یسوع کی حیثیت خدا اور انسان دونوں کی ہے، اس لیے ان کی بشریت—جو انجیل میں بالکل واضح ہے— اور خدا کی ضروریات کا ہماری طرح ہونے کا خیال زیادہ مستحکم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہی وجہ تھی کہ خدا کی مطلق بے نیازی میرے لیے زیادہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ خدا کی بے نیازی ان نوجوان امریکی مسلمانوں کے لیے بڑا مسئلہ کیوں ہے جنھوں نے مجھے اس بارے میں لکھا ہے۔ خدا کی مطلق حاکمیت اور بے نیازی (عربی میں الغنی) پر قرآن میں بار بار زور دیا گیا ہے۔
ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو۔ اللہ بے نیاز ہے اور برد باری اس کی صفت ہے۔(البقرة: 263)
اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے (آل عمران: 97)
آسمان و زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے اور وہ بے نیاز ہے، ہر تعریف کا مستحق۔(النساء: 131)
لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ سبحان اللہ! وہ تو بے نیاز ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کی مِلک ہے۔ (یونس: 68)
اور جو کوئی شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، ورنہ کوئی نا شکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ بزرگ ہے۔ (النمل: 40)
جو شخص بھی مجاہدہ کرے گا اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا۔ اللہ یقیناً دنیا جہان والوں سے بے نیاز ہے۔ (العنکبوت: 6)
لوگو! تم ہی اللہ کے محتاج ہو۔ اور اللہ تو غنی و حمید ہے۔(فاطر: 15)
اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے۔ لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمھارے لیے پسند کرتا ہے۔ (الزمر: 7)
(آیات البقرة: 267، الانعام: 133، ابراہیم: 8، الحج: 64، النمل: 40، لقمان: 12، لقمان: 26، محمد: 38، الحدید: 24، الممتحنة: 6 اور التغابن: 6 بھی ملاحظہ کیجیے۔)
مجموعی طور پر قرآن میں خدا کی مطلق خود مختاری سے کہیں زیادہ اس کی صفات رحیمی، کریمی، جود و سخا اور شفقت کا تذکرہ ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ تمام صفات بنیادی طور پر متعلقہ انسانی خصوصیات سے مختلف ہیں۔ قرآن میں مذکور الوہی صفات میں کسی طرح بھی حاجت، امید، بے یقینی، عجلت، نقص، درد یا رنج کا کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا جب کہ انسانوں کے لیے یہ ان کے تجربے اور ان کی ترقی کے لیے ناگزیر عناصر ہیں۔ خدا بہرحال تخلیق پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے، اس کی اجازت اور علم کے بغیر کچھ نہیں ہوتا اور سب کچھ اس کے وسیع تر منصوبے کے مطابق وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ اگرچہ خدا جانتا ہے کہ بہت سے لوگ اس سے انکار کی سمت میں بہکائے جائیں گے لیکن وہ اس سے بھی باخبر ہے کہ اس کے کچھ بندے ایسے بھی ہوں گے جو نہیں بہکیں گے۔ (دیکھیے المائدة: 54، الحجر: 39 تا 43، الاسراء: 65) اس کے اپنے رسولوں کے ذریعے بھیجی گئی وحی سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا اپنے بندوں کے انجام سے لاتعلق نہیں ہے، البتہ وہ ان کے عقیدے کا محتاج نہیں ہے۔ خدا کا اپنی مخلوقات کو اپنی صفات و خصوصیات ودیعت کرنا، جن میں بنی نوع انسان بھی شامل ہے، بالکل بے لوث عمل ہے، اس لحاظ سے کہ اس میں اس کی کوئی ذاتی غرض شامل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اوپر مذکور آخری آیت توجہ چاہتی ہے، یہ آیت کسی چیز کے حاجت ہونے اور اس سے راضی ہونے کے درمیان فرق کرتی ہے۔ اسے خدا کے تئیں شکر گزاری کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن میں ایمان والوں سے خدا کی خوشنودی کے بے شمار حوالے موجود ہیں (دیکھیے البقرة: 207، البقرة: 265، آل عمران: 15، آل عمران: 165، آل عمران: 174، النساء: 114، المائدة: 2، المائدة: 16، التوبة: 21، التوبة: 72، التوبة: 100، التوبة: 109، الانبیاء: 28، محمد: 28، الفتح: 18، الفتح: 29، الحدید: 20، الحدید: 27، الحشر: 8، الممتحنة: 1، الجن: 27)۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو بتاتے ہیں کہ خدا کی رضا کا یہ تجربہ آخرت میں ان کے لیے عظیم انعامات میں سے ایک ہوگا۔
تب اللہ فرمائے گا ’’ یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو اُن کی سچائی نفع دیتی ہے، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کام یابی ہے۔ ‘‘ (المائدة: 119)
اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (التوبة: 100)
اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہ کچھ ہے اس شخص کے لیے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو۔ (البینة: 8)
کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ خدا ہر حاجت سے بے نیاز ہے تو پھر اس میں اکثر یہ کیوں وارد ہوتا ہے کہ خدا چاہتا ہے (عربی میں، شاء) اور ارادہ کرتا (عربی میں اَرادَ) ہے۔ قرآن میں اس طرح کی ایک سو سے زیادہ آیات ہیں۔ تاہم ان سے کبھی حاجت، خواہش یا امید کا اظہار نہیں ہوتا، بلکہ وہ ’’ارادہ کرنے‘‘، ’’فیصلہ کرنے‘‘ یا ’’اپنے منصوبے یا مقصد کو عملی جامہ پہنانے‘‘ کا مفہوم دیتی ہیں۔ مندرجہ ذیل مثالیں ملاحظہ کیجیے:
اللہ جو چاہتا ہےکرتا ہے ۔ (البقرة: 253؛ آل عمران: 40؛ ھود: 107؛ ابراہیم: 27؛ الحج: 4- 18; البروج: 16)
اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا (البقرة: 186)
اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (آل عمران: 47; المائدة: 17; النور: 45; القصص: 68; الروم: 54; فاطر: 1; الشوری: 49; الانفطار: 8)
(اے پیغمبر ﷺ) جو لوگ آج کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمھیں آزردہ نہ کریں، یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے۔ اللہ کا ا رادہ یہ ہے کہ اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور بالآخر اُن کو سخت سزا ملنے والی ہے (آل عمران: 176)
اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا، مگر وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے، شاید کہ تم شکر گزار بنو (المائدة: 6)
ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں ہوتا کہ اسے حکم دیں ’’ہو جاؤ ‘‘ اور بس وہ ہو جاتی ہے۔( (النحل: 40)
جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اُس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں (بنی اسرائیل: 16)
قرآن کا ایک اور بیان، جس سے خدا کی ضرورت کا مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے، اکثر نقل کیا جاتا ہے: ’’میں نے جنوں یا انسانوں کو پیدا نہیں کیا سوائے اپنی بندگی کے۔‘‘ لیکن سیاق و سباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندگی انسانوں کی ضرورت ہے، خدا کی نہیں اور کسی دوسرے مقصد کے لیے جینا فرد کی آخرت کی زندگی میں اسی کے لیے تکلیف کا باعث بنے گا۔
البتہ نصیحت کرتے رہو ! کیوں کہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔ میں نے جنوں اور انسانوں کواس کے سوا کسی کام کے لیے پیدانہیں کیا ہے کہ وہ میری ہی بندگی (یعنی نہ صرف پرستش و بندگی بلکہ غلامی و اطاعت بھی ) کریں۔ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزّاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔ پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حصے کا بھی ویسا ہی عذاب تیار ہے جیسا انھی جیسے لوگوں کو ان کے حصے کا مل چکا ہے، اس کے لیے یہ لوگ مجھ سے جلدی نہ مچائیں۔ آخرکو تباہی ہے کُفر کرنے والوں کے لیے اُس روز جس کا انھیں خوف دلایا جا رہا ہے۔ (الذاریات: 55-60)
احادیث سے تخلیق کے پس پردہ الوہی ترغیب پر زیادہ روشنی نہیں پڑتی۔ کم ہی احادیث میں براہ راست اس موضوع سے گفتگو کی گئی ہے، اور بعض احادیث اگر قرآن کے بیانیے سے آگے بڑھتی بھی ہیں تو سند کے اعتبار سے کم زور ہیں۔ چند احادیث میں خدا کی انسانوں سے شفقت و مہربانی کا تذکرہ وضاحت سے آیا ہے۔ (ان میں سے ایک صحیح حدیث اس طرح ہے: حضرت عمرؓ بن الخطاب سے مروی ہے کہ بعض قیدیوں کو رسول اللہ ﷺکے پاس لایا گیا۔ ان میں ایک عورت بھی تھی جو بہت بے قراری سے ادھر ادھر کچھ تلاش کر رہی تھی۔ جب اس کی نظر ایک شیرخوار بچے پر پڑی جو بظاہر اسی کا تھا، تو اس نے اسے اٹھالیا اور جلدی سے اُسے سینے سے چمٹا کر دودھ پلانے لگی۔ اللہ کے رسولﷺ صحابہ کی جانب متوجہ ہوئے اور پوچھا: ’’کیا تم تصور کرسکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینکنے کے لیے آمادہ ہوجائے گی؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا ’’نہیں، یا رسول اللہؐ‘‘ تو آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ شفیق و مہربان ہے جتنا یہ ماں اپنے بچے پر شفیق و مہربان ہے۔‘‘) تاہم بعض احادیث ایسی بھی ہیں جو انسانوں سے خدا کی بے اعتنائی پر دال ہیں۔ (اللہ کے رسول سے مروی ہے کہ ’’اللہ نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کی اور پھر ان کے دائیں پہلو سے سفید نسل کو نکالا گویا وہ سفید موتی ہوں، اور پھر بائیں پہلو سے سیاہ نسل کو نکالا گویا وہ سیاہ کوئلہ ہوں۔ پھر اللہ نے دائیں جانب والوں سے فرمایا: جنت میں داخل جاؤ، میں اس سے بے نیاز ہوں۔‘‘ اور پھر بائیں جانب والے سے کہا،’’جہنم میں جاؤ، اور میں اس سے بے نیاز ہوں۔‘‘)۔ گویا اس مسئلے کی دلیل کے لیے احادیث بظاہر مختلف فیہ ہیں۔
چناں چہ ہمیں قدرے نامکمل جواب حاصل ہوتا ہے کہ تخلیق کے پیچھے خدائی مقصد کیا ہے۔ سوال کا یہ مقدمہ کہ خدا کو کوئی حاجت نہیں ہے، قرآن حکیم سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ انسان کی تخلیق کے پیچھے ہمیں جو ذاتی ترغیب کا اشارہ ملتا ہے وہ قرآن کے ان متعدد بیانات سے متعلق ہے جن میں ایمان والوں سے خدا کے خوش اور ان سے راضی ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ یقیناً ان میں کوئی تضاد نہیں ہے، ہم خود اکثر بلا ضرورت چیزیں بناتے رہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے اس سے کچھ لوگوں کے تجسس کی تسکین نہ ہوسکے، لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا غالباً اس کا پوری طرح ادراک کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ ہم جذباتی ضرورت کے بغیر محبت کا، ہمدردی کے بغیر رحم دلی کا، قربانی کے بغیر انفاق کا، ذاتی صدمے کے بغیر معافی کا، اور مختصراً، کم زوری کے بغیر نیکی کا ادراک کیسے کرسکتے ہیں ؟ اپنی مدرکہ کم زوری سے اوپر اٹھ کر ہی ان صفات میں ہماری ترقی ممکن ہے اور ان کا وجود ہمارے لیے قابل فہم ہے، تاہم ہم خدا کی ان صفات کے خالص، مطلق، بے نقص جوہر کو کیوں کر اپنے محدود حیطۂ فکر میں قید کرسکتے ہیں ؟
وحی اور روحانی تجربے سے پرے خدائی صفات کے بارے میں فہم حاصل کرنے کے ذرائع لامحدود طور پر ناقص ہیں۔ ان میں سے ایک ذریعہ اپنی ذات پر غور و فکر کرنا ہے۔ میں اب یہی کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں اسمائے حسنی کے اس تجربے کی بنا پر جو ہم سب میں کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے، استعمال کرتے ہوئے تخلیق کے خدائی ارادے کی ایک نامکمل جھلک پانے کی کوشش کروں گا۔ جب میں ایسا کروں تو اسے وضاحت کے بجائے محض تمثیل کے طور پر لیا جائے۔
خدا خالق اکبر ہے، تاہم انسان بھی خدا کے ذریعے پھونکی گئی روح کی بنا پر تخلیقی جوہر رکھتا ہے (الحجر: 29)۔ یہ فطری تخلیقی صلاحیت ایک اور خصوصیت ہے جس کی بنا پر انسان دوسری مخلوقات سے ممتاز ہے۔ اکثر ہم ضرورت کی بنا پر تخلیق کرتے ہیں، جیسا کہ ایک معمار روزی روٹی کمانے کے لیے گھر بناتا ہے، تاہم اکثر ایسا بھی ہوتا ہے جب ہم کسی طاقتور اندرونی خواہش کی وجہ سے کسی سمجھ میں آنے والی ضرورت کے بغیر بھی تخلیق کرتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ سارے یا اکثر تخلیقی نتائج ضرورت پر ہی مبنی ہوتے ہیں، میرے نزدیک تخلیقیت بھی ذہانت یا وجود جیسے بنیادی انسانی خاصوں کی طرح انسانی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے۔
جب میں پرائمری اسکول کا طالب علم تھا تو ریاضی میرے لیے ایک بڑا تخلیقی آؤٹ لیٹ ہوا کرتا تھا۔ میں ریاضی کے سوالات ایجاد کرتا، ان پر قیاس آرائیاں کرتا، نئی نئی تھیوریاں بناتا اور ان کے پروف پر غور کیا کرتا تھا۔ بعد کے درجوں میں یہ تمام پڑھائی گئیں۔ میں اپنے بڑے بھائیوں کی ریاضی کی نصابی کتابیں لے کر پڑھتا رہتا اور ان سے مشقیں کرتا تھا۔ گھر کے لوگ اسے ریاضی کے تئیں میرا جنون سمجھتے اور میں اسے اپنے دوستوں سے چھپاتا تھا۔ ان دنوں ریاضی پر میری محنت محض خالص مسرت کشید کرنے سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔
زندگی بھر ہماری تخلیقی صلاحیتیں کئی شکلیں اختیار کرتی رہتی ہیں۔ بسا اوقات یہ ہماری طرح بالغ اور پختہ تر بھی ہوجاتی ہیں۔ ریاضی میرے لیے تخلیقی صلاحیتوں کا ایک بڑا شعبہ رہا ہے، لیکن تدریس اور تحریر بھی اہم وسیلہ اظہار بن چکی ہیں۔ یقیناً یہ تینوں تخلیقی افعال اب میرے کیریئر سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ ان سے میری محبت عملی مظاہر سے بالاتر ہے۔
جب میں تیس سال کی عمر کو پہنچا تو مجھے ایک ایسی چیز کی تخلیق میں حصہ لینے کی شدید خواہش محسوس ہونے لگی جس میں میرا آپ پوری طرح مشغول ہوجائے۔ یہ امنگ کچھ عرصے تک مجھ میں پنپتی رہی۔ میں ایک ایسے فرد کو وجود میں لانے میں شریک ہونا چاہتا تھا جو میری عکاسی کرے اور وہی تجربہ کرے جس کا میں گواہ ہوں۔ وہ جو میرا حصہ ہو اور میں اس کا حصہ ہوں۔ میری بیوی رضیہ کی بھی یہی تمنا تھی۔ خدا کے فضل سے ہماری پہلی بیٹی پیدا ہوئی اور جب میں نے پہلی بار اسے دیکھا تو مجھے اپنے پورے وجود کے ساتھ اس سے محبت ہوگئی۔ یہی کیفیت اس کی دو بہنوں کی ولادت پر بھی ہوئی تھی۔ اپنی تینوں بیٹیوں جمیلہ، سارہ اور فطین کی پرورش میں، میں ایک بہت بڑے ایسے تخلیقی منصوبے میں مشغول ہوگیا جس کا مجھے کبھی گمان بھی نہ تھا۔ اگرچہ ان کی نشوونما میں میرا—اور میری نشوونما میں غیر ارادی طور پر ان کا—ایک کلیدی کردار ہے، تاہم اپنی دیگر تخلیقات کے برعکس، یہ فیصلہ میں نہیں کرتا کہ وہ کیا بنتی ہیں، یہی بات میرے لیے اس تجربے کو حسین تر بناتی ہے۔ اس کے باوجود اگر غور کروں تو بظاہر مجھے بچوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی—میرا وجود ان پر منحصر تھوڑی تھا—لیکن ان کے ہونے میں، میں نے ایک ایسے داخلی ارادے کو رسپانڈ کیا جسے دبانا شاید میرے بس میں نہیں تھا۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2022