[کرپٹو کرنسی ہمارے زمانے کا جدید ترین مسئلہ ہے، اس کے سلسلے میں شرعی موقف جاننے سے پہلے خود اسے سمجھنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر وقار انور ماہر مالیات ہیں، انھوں نے اس کی باریکیوں کو سمجھانے کی سعی کی ہے۔ امید ہے اس موضوع پر شرعی رہ نمائی تک پہنچنے میں اس مضمون سے بہت مدد ملے گی، اس کے علاوہ خود دورِ جدید کے نظامِ زر کو سمجھنے کے لیے یہ مضمون فائدہ مند ہوگا۔ کرپٹو کرنسی کے سلسلے میں شریعت کا موقف فقہی اداروں میں ہنوز زیر بحث ہے، کسی نتیجے پر پہنچنے کی صورت میں ہم اپنے قارئین کو ان شاء اللہ اس سے بھی آگاہ کریں گے۔ ادارہ]
اس پورے معاملہ پر گفتگو سے قبل مناسب ہے کہ متعلق موضوعات اور اصطلاحوں کا تذکرہ ہو جائے۔ خصوصاً ڈیجیٹل کرنسی (Digital Currency)، مجازی کرنسی (Virtual Currency)اور کرپٹو کرنسی (Crypto Currency) نئی اصطلاحیں ہیں۔ ان کے درمیان تمیز نہ کرنے کے سبب متعلق موضوع پر گفتگو میں خلط ملط ہونے کےخطرہ ہے اس لیے مناسب ہے کہ ان اصطلاحوں کے درمیان فرق کی وضاحت شروع میں ہی ہو جائے اور کرنسی کے اجرا کا طریقہ کار بھی واضح ہوجائے۔
مختلف ممالک کے سنٹرل بینک کی طرف سے ضرورت کے مطابق متعین مقدار میں کرنسی چھاپی جاتی ہے جو معیشت میں افراد و اداروں کے پاس نقد یا بینک کی تحویل کی صورت میں موجود ہوتی ہے۔ ان دنوں بہت سے افراد و ادارے مختلف پرائیویٹ اداروں کے ویلیٹ(پرس۔(wallet میں کچھ تحویل رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومتیں ضرورت کے مطابق سکہ ڈھالتی رہتی ہیں۔ یعنی نوٹ مرکزی بینک چھاپتا ہے اور سکہ مرکزی حکومت ڈھالتی ہے۔ نوٹ پر مرکزی بینک کی جانب سے تحریری وعدہ طبع ہوتا ہے کہ اس کے حامل کو اس پر طبع رقم دی جائے گی۔ (ایسی کوئی گارنٹی سکہ کے سلسلے میں نہیں ہوتی ہے)۔ اس طرح کسی بینک کے ہر کھاتے دار کو اپنی تحویل کی کل رقم نقد حاصل کرنے کا حق ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی بھی فرد اپنے ویلیٹ کی رقم اپنے بینک اکاؤنٹ میں تبادلہ کر کے نقد حاصل کر سکتا ہے۔ کسی کے پاس جو کاغذی کرنسی ہے وہ اگر بوسیدہ ہو جائے تو مرکزی بینک سے نئے نوٹ حاصل کر سکتا ہے۔ اس نظام کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مرکزی بینک متعین مقدار میں کرنسی چھاپتا ہے اور بوسیدہ نوٹ کی جگہ نئے نوٹ چھاپنے کا سلسلسہ جاری رکھتا ہے۔ نئے نوٹ چھاپنے اور بوسیدہ نوٹوں کی جگہ مزید نوٹوں کے چھاپنے کا کام اور ان کی معیشت میں اجراء و ترسیل کا کام چلتا رہتا ہے جس میں بہرحال کافی خرچ ہوتا ہے۔ اس خرچ کو کم کرنے کے لیے حکومتیں بغیر نقد کی ادائیگی کے نظام (Cashless-System)کو فروغ دیتی ہے۔ بٖغیر نقد کی ادائیگی کے نظام کو فروغ دینے کے دوسرے اسباب بھی ہیں جن میں ادائیگیوں پر نگاہ رکھ کر ٹیکس کی وصولی کو بہتر بنانا شامل ہے۔ اس نظام کو لانے کا ایک طریقہ الیکٹرانک ادائیگیوں کا طریقہ بھی ہے، جیسے ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگیاں۔ البتہ جس شخص کی تحویل ہے اسے یہ حق باقی رہتا ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق نقد کا مطالبہ کرے اور اسے نقد فراہم کیا جائے۔ اس طرح بازار میں کرنسی کی چھپائی کا کام ختم نہیں ہوتا ہے۔ البتہ الیکٹرانک اور ویلیٹ کے ذریعے ادائیگیوں کے سبب بوسیدہ نوٹوں کی جگہ نئے نوٹوں کی چھپائی کی ضرورت کم ہو جاتی ہے۔
ان دنوں دنیا کے کئی ممالک میں یہ بات زیر غور ہے کہ کل کرنسی کا ایک حصہ، مثلاً دس فی صد، نہیں چھاپا جائے اور اتنی رقم ڈیجیٹل (Digital) کی شکل میں ہو۔ یعنی اس کے حاملین کو نقد حاصل کرنے کی سہولت نہ دی جائے۔ اس کے لیے ڈیجیٹل کرنسی کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔ اس کے حق میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ الیکٹرانک ادائیگی کا نظام ترقی پذیر ہے اور بہت سے افراد مختلف پرائیویٹ (یعنی بینک کے علاوہ) ویلیٹ میں بھی رقم رکھتے ہیں جس کے سبب نقد کرنسی فراہم کیے بغیر بھی ملک میں لین دین کا نظام بحسن و خوبی چلتا رہتا ہے۔ اس لیے جس حد تک نقد کے بغیر لین دین کا سلسلہ جاری ہے اس حد تک نوٹ نہ چھاپا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی کے حاملین الیکٹرانک طریقہ سے لین دین کرسکیں گے لیکن اس کے بدلہ میں چوں کہ مرکزی بینک نے کوئی نوٹ نہیں چھاپا ہوگا اس لیے اپنی تحویل کو نقد میں نہیں بدلوا سکیں گے۔ اس طرح ڈیجیٹل کرنسی کا یہ طریقہ مرکزی بینک کے ذریعے منظم ہوتا ہے۔
بازار میں غیر منظم ڈیجیٹل کرنسی بھی موجود ہے جسے مجازی (ورچول )کرنسی کہا جاتا ہے۔ غیر منظم ڈیجیٹل کرنسی یا ورچول کرنسی جسے پراؤیٹ ادارے چلاتے ہیں، کا رواج عام ہونے لگا ہے جس کی ایک قسم کرپٹو کرنسی ہے۔ ان کے اجراء کرنے والے (ڈویلپرز)اسے کنٹرول کرتے ہیں جس پر اعتماد کے سبب ایک مخصوص ورچوئل کمیونٹی کے ممبروں کے درمیان استعمال اور قبول کیا جاتا ہے۔
منظم اور غیر منظم ڈیجیٹل کرنسی میں تمیز کرنے کے لیے اول الذکر کے لیے سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (CBDC)کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
مجازی (ورچوئل )کرنسی کو ‘‘قدر کی ڈیجیٹل نمائندگی’’کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جو کسی مرکزی بینک یا عوامی اتھارٹی کے ذریعے جاری نہیں کیا جاتا، اور نہ ہی لازمی طور پر کسی فئیٹ کرنسی (fiat money)سے منسلک ہوتا ہے۔ لیکن افراد و ادارے اسے الیکٹرانک طور پر ادائیگی کے ایک ذریعہ کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ ورچول کرنسی کی ایک قسم جس میں کرپٹوگرافی تکنالوجی کا استعمال ہوتا ہے، کرپٹو کرنسی کہی جاتی ہے۔ کرپٹو گرافی پیغام رسانی کا ایک خفیہ طریقہ ہے جس میں پیغام کی ترسیل خفیہ الیکٹرانک کنجی کے ذریعے صرف دو ہی افراد تک ممکن ہے۔ کسی تیسرے کی رسائی ممکن نہ ہو۔
کرپٹو کرنسی کی ابتدا کے بارے میں یہ رائے دی جا رہی ہے کہ یہ ساتوشی ناکاموٹو (Satoshi Nakamoto) نام کے ایک شخص کے ایک مضمون سے ہوئی ہے۔ یہ ایک فرضی یا قلمی نام ہے۔ نام سے جاپانی معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس شخص اور اس کے نا معلوم احباب نے اگست 2008 میں bitcoin.orgنام سے ویب سائٹ پر ایک ڈومین(domain) شروع کیا اور ایک نئے الیکٹرانک نقد ادائیگی نظام کو متعارف کیا اور اسے بٹ کوائن کا نام دیا۔
یہ بات توجہ طلب ہے کہ ایک نیا نظام ادائیگی جس کی ابتدا بظاہر بہت سادہ ہے، مقبول کیسے ہو گیا۔ ایک نامعلوم شخص کی ایک مضمون کی شکل میں ایک تجویز نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی اور دیکھتے دیکھتے دنیا کے تقریباً ہر حصہ میں اس کے مطابق کام ہونے لگا اور تجربات کا سلسلہ چل پڑا۔ اس سوال کا قابل فہم جواب یہ ہے کہ اسی زمانہ میں دنیا کو معیشت کی ایک نئی تباہی سے، جسے عالمی معیشت کی سونامی کا نام دیا گیا تھا، واسطہ پڑا۔ مروجہ نظام معیشت اور بینکنگ سیکٹر کی کم زوریاں پوری دنیا پر واضح ہوئی تھیں اور لین دین کے جاری طریقہ کار پر لوگو ں کا اعتماد متزلزل ہوا تھا۔ ایسے ماحول میں کسی درمیانی ادارہ سے واسطہ رکھے بغیر لین دین کا نیا مجوزہ نظام گفتگو کا موضوع بن گیا۔اس طرح بینکنگ سسٹم اور دیگر مالیاتی اداروں کی ناکامی نے نئے اور متبادل نظام کے امکانات پر سنجیدگی سے غور و فکر شروع ہوگیا اور اس نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی۔
2008 میں عالمی معیشت میں جو کچھ ہوا، اس نے مروجہ نظام کے دیوالیہ پن اور کم زوری (bankruptcy and vulnerability)کو نمایاں کردیا۔ خصوصًا اس میں ڈیریویٹیو (derivatives) کے خطرناک رول کو واضح کر دیا۔ Derivativeکاروبار کے خطرات، غیر یقینی صورت حال اور واجب الاداء (liability)کی خرید و فروخت اور ٹرانسفر کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ مزید اس طریقہ سے اثاثوں اور واجب الوصول رقومات کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر واجب الاداء قرض حاصل کرلیا جاتا ہے۔ یہ ایک حسابی (accounting) طریقہ ہے جسے کیپیٹل گیئرنگ(capital gearing) کہتے ہیں۔ اس میں ہمیشہ اثاثوں کے بالمقابل بنائے گئے واجبات زیادہ ہوتے ہیں۔ 2008 میں معیشت کی بدحالی کا سب سے اہم سبب مصنوعی طریقہ سے معیشت پر واجبات کو پیدا کرنا تھا۔ اس کے علاوہ کرنسی کی چھپائی کا مروجہ طریقہ بھی معیشت کی تباہی کا سبب ہے جہاں معیشت میں موجود کرنسی کی بنیاد قابل لحاظ اثاثے نہیں ہوتے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ بینک کے نقصان کی صورت میں اس کی بھرپائی کا طریقہ ہے۔ دو ممکنہ صورتیں ہیں۔ ایک بیل آوٹ (bail-out) اور دوسری بیل ان (bail in)کی۔ پہلے طریقے میں حکومت بینک کو راست فنڈ فراہم کردیتی ہے۔ دوسرے طریقے میں بینک اپنے کھاتہ داروں کی تحویل کم کرکے اپنے خسارے کو پورا کرلیتا ہے۔ 2018 میں پہلے طریقہ پر عمل ہوا تھا اور اس کے بعد کئی ممالک نے دوسرےطریقہ پر عمل کرنے کی کوشش کی لیکن عوامی دباؤ کے سبب بڑے پیمانہ پر اس پر عمل نہیں ہو سکا ہے، گرچہ اس کی تجاویز اکثر ممالک میں تیار ہیں۔ بینکوں کی اپنی کارکردگی کی خرابی اور کاروباری طریقہ کار کے سبب جو نقصان ہوتا ہے اس کو پورا کرنے کے دونوں متذکرہ طریقے عوام الناس کے لیے نامناسب ہیں۔ جہاں تک دوسرے طریقہ کا تعلق ہے وہ راست کھاتے داروں کی تحویل کم کردینے والا ہے۔ پہلے طریقہ میں بھی حکومتیں جو رقومات بینکوں کو فراہم کرتی ہیں وہ بہرحال عوام کے ٹیکس کی رقم ہی ہوتی ہے۔
ان اسباب سے بینکنگ سسٹم اور حکومتوں کے مالیاتی نظام پر اعتماد کا فقدان پیدا ہوا اور ایک ایسے طریقہ کار کی تجویز جس میں لین دین کرنے والوں کے درمیان سے بیچ کے افراد (human interface)، ادارے یعنی بینک، دیگر مالیاتی ادارے(financial intermediaries)، بیچولئے (middle men)اور حکومتوں کی جگہ کمپیوٹر سسٹم نے لے لی۔اسے C3 سسٹم کہتے ہی یعنی کرپٹو گرافی (Cryptography)، کولیبریشن (collaboration)، اور کوڈنگ (coding)۔اس نئے طریقہ کار کی خوبی یہ ہے کہ یہ زیادہ جمہوری اور عالمی ہے جس سے کوئی بھی شخص زمین کے کسی خطہ سے استفادہ کر سکتا ہے۔
یہ بات دل چسپ ہے کہ ساتوشی ناکاموٹو (Satoshi Nakamoto) کے جس مضمون سے اس تحریک کا آغاز ہوا، اس میں اس مجوزہ سسٹم کو peer-to- peer کہا گیا تھا۔ انگریزی زبان میں peer یکساں درجہ کے دو افراد کو کہا جاتا ہے، مثلاًساتھی، بایع و مشتری، عاشق و معشوق، وغیرہ۔ یعنی طالب و مطلوب کے درمیان کا راست رابطہ پیش نظر ہے۔[نہ رقیب، نہ گلی، نہ مجلس اور نہ نامہ بر!] اس سسٹم میں مالی نوعیت کے لین دین میں حتی الوسع تمام مداخلتوں بشمول اداروں اور حکومتوں کو، الگ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ کرپٹو کرنسی یا اس نوع کی تمام چیزوں کا کوئی حسی وجود نہیں ہے جسے چھوکر دیکھا جا سکے۔ یعنی یہ tangible assetنہیں ہے۔یہ صرف کمپوٹر سسٹم اور بجلی کے استعمال سے ایک پیچیدہ حسابی طریقہ سے متعین کیا گیا الیکٹرانک نمبر ہوتا ہے۔ اسے نہ نوٹ کی طرح چھاپا جاتا ہے اور نہ سکہ کی طرح ڈھالا جاتا ہے۔ اس کے لیے کان کنی (mining)کی اصطلاح مستعمل ہے۔ یعنی بجلی، حساب اور کمپیوٹر کی مدد سے کھدائی (کان کنی) کے ذریعے دریافت کی گئی الیکٹرانک کنجی (electronic key)۔
نوٹ چھاپنا اور سکہ ڈھالنا، حکومتوں کا کام رہا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اس نئے سسٹم میں افراد جو اس کام کی صلاحیت رکھتے ہیں از خود ایسی الیکٹرانک کنجی کی کان کنی کر سکتے ہیں۔ اور اس کنجی سے لین دین کے وہ کام کر سکتے ہیں جو سرکاری نوٹوں اور سکوں سے کرتے ہیں۔
ٹکنالوجی(technology) : اسے بلاک چین ٹکنالوجی(block-chain technology)کہتے ہیں۔ یہ حقیقتاً جمہوری طریقہ پر ہر شخص کے لیے ہر مقام پر مہیا ہے اور اس طرح کان کنی کے ذریعے دریافت کی گئی الیکٹرانک کنجی تعمیرکے اصول(architectural principle)کے طور پر کام کرتی ہے جس میں ہر شخص کی رسائی جو اس پر کام کررہا ہے، سسٹم پر موجود ڈیٹا (یعنی اعداد و شمار پر مشتمل معلومات) پر ہوتی ہے۔ معلومات اور عمل میں کسی قسم کی مرکزیت نہیں ہوتی ہے۔ اس طرح یہ لین دین کا عوامی، غیر مرکزی اور عالمی نظام ہے جس میں ہر فریق پورے اعتماد و وثوق کے ساتھ حصہ لیتا ہے۔طریقہ کار یہ ہے کہ تمام کمپیوٹر جس پر لوگ کام کرتے ہیں ایک ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ اس طرح ہر ایک انفرادی کمپیوٹر ایک اکائی ہے جسے نوڈ(Node) کہتے ہیں جو ایک بلاک اور ان سب کا ایک ساتھ جڑا ہونا بلاک چین کہا جاتا ہے۔ حقیقتاً بلاک چین کی اصطلاح بٹ کوائن میں استعمال ہوتی ہے جب کہ دیگر کرپٹو کرنسی الگ اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں۔ البتہ بٹ کوائن کی اس میدان میں اولیت اور مقبولیت کے سبب اس میں مروج اصطلاحیں زیادہ مقبول اور قابل فہم ہیں۔
کمپیوٹر کی ہر اکائی پر تمام لیجر ایک ساتھ موجود ہوتا ہے۔ اسے تقسیم شدہ لیجر (Distributed Ledger)کہتے ہیں۔ یعنی اس میں کوئی مرکزی لیجر نہیں ہوتا ہے۔ اس بات کی اہمیت کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ عموماً اداروں کے ہر شعبہ میں جو لیجر ہوتا ہے اسے اس ادارہ کے ہیڈ کوارٹر میں یکجا کر کے مرکزی حساب تیار کیا جاتا ہے۔ کسی شعبہ کو دوسرے شعبہ کے لیجر اور مرکزی لیجر کے مشملات کا علم نہیں ہوتا ہے۔ کرپٹو کرنسی میں اس مرکزیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔
طریقہ کار
طریقہ کار یہ ہے کہ جب ایک نوڈ سےکسی لین دین کے لیے تجویز دی جاتی ہے تو وہ اطلاع ایک ساتھ تمام نوڈوں پر براڈ کاسٹ ہو جاتی ہے۔ ہر نوڈ کو اس طلب یعنی کسی لین دین کے ارادہ کی اطلاع ایک ساتھ مل جاتی ہے۔ اس طلب کی تمام نوڈیں ایک ساتھ توثیق کرتے ہیں اور اس توثیق کے ساتھ ہی یہ نیا ڈیٹا ایک مستقل بلاک بن جاتا ہے جسے اب ہٹایا یا مٹایا نہیں جا سکتا ہے۔ معلومات کا یہ بلاک پہلے سے موجود بلاکوں کا جزو لا ینفک بن جاتا ہے جس سے کوئی چھیڑ چھاڑ اب ممکن نہیں ہے۔ اس نئے بلاک پر کسی دوسرے نوڈ سے جو جواب آتا ہے اس کی تمام نوڈ توثیق کرتے ہیں اور بھر ایک نیا غیر متبدل بلاک بن جاتا ہے۔ اس طرح دو نوڈوں کے درمیان جو معاملات ہوتے ہیں وہ تمام نوڈوں کے علم میں ہوتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے سسٹم پر محفوظ ہو جاتے ہیں۔
کرپٹو کرنسی کی کل تعداد متعین کردی جاتی ہے۔ اس طرح کرنسی کی رسد کی حد طے شدہ ہوتی ہے۔ مثلاً بٹ کوائن کے تعداد کی اوپری حد 21 ملین ہے۔ اندازہ ہے کہ اوپری حد تک بٹ کوائن کی کان کنی سال 2022 تک مکمل ہو جائے گی جس کے بعد کسی نئے بٹ کوائن کی کان کنی ممکن نہیں ہو گی۔ اسی طرح دیگر کرپٹو کرنسیوں کی کل تعداد پہلے سے متعین کر دی جاتی ہے۔ حکومتوں کی طرح نوٹ چھاپتے جانے اور سکے ڈھالتے جانے کی سہولت کرپٹو کریسی کی کان کنی میں ممکن نہیں ہے۔ البتہ کسی نئی کرپٹو کرنسی کا اجراء ممکن ہے۔ کرپٹو کرنسی کی قدر میں اضافہ کا ایک سبب ایک طرف ان کی رسد پر یہ کنٹرول ہے اور دوسری جانب سرکاری کرنسیوں کے رسد میں مستقل اضافہ ہے۔
خطرات
کرپٹوکرنسی میں اچھے کام کے لیے استعمال کیے جانے اور برے کام کے لیے استعمال کیے جانے کی صلاحیت یکساں طور پر موجود ہے۔ اس کا اچھا استعمال یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس اگر کان کنی کے ذریعے یا کسی اور طریقہ سے کرپٹو کرنسی حاصل ہو جائے تو وہ اس کے ذریعے کوئی اثاثہ خرید کر اپنی دولت میں اضافہ یعنی تکوین ثروت کا کام کر سکتا ہے یا کسی او ر کام کے لیے استعمال کر سکتا ہے کیوں کہ بازار میں اس کی قدر موجود ہے جس کا کسی رقم یا اثاثے کے طور پر استعمال ممکن ہے۔ البتہ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس سسٹم پر کام کرنے والے لوگ زیادہ تر گمنام ہوتے ہیں۔ اور جس شفافیت کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے، وہ کرپٹو کرنسی کے لین دین سے متعلق ہے۔ لیکن یہ شفافیت ان افراد اور اداروں کے سلسلے میں نہیں ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہےکہ دنیا کے چور، ڈاکو، اسمگلر اور دیگر برے لوگ دوسرے نوڈوں پر موجود ہوں۔ ایک طرف تو شفافیت کا یہ عالم ہے کہ ہر ڈیٹا بلاک محفوظ ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف اس کا استعمال کرنے والے پردہ راز میں ہو سکتے ہیں۔ اس طلسم کا ایک بین ثبوت یہ ہے کہ ساتوشی ناکاموٹو (Satoshi Nakamoto)نام کے جس فرد کے مضمون سے اس نئے نظام کی ابتدا ہوئی وہ بھی گمنام ہے۔ نام سے جاپانی معلوم ہوتا ہے، ہو سکتا ہے چینی یا کہیں اور کا ہو۔ یعنی شفاف سسٹم اور گمنام افراد کے تعامل سے اچھا اور برا دونوں کام ہوسکتا ہے۔ اور ایسی اطلاعوں کی نفی کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ اس کا استعمال زیادہ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور برے کاموں کے لیے لیا جا رہا ہے۔
کرپٹو کرنسی میں اس بات کی صلاحیت موجود ہے وہ کسی ملک کی سرکاری کرنسی اور زری پالیسی کے لیے خطرہ بن جائے۔ اس سے ایک طرف معاشی عمل میں تیزی آنے کا امکان ہے تو دوسری طرف سرکاری (fiat) کرنسی اور معیشت کے لیے خطرہ بن جانے کا امکان بھی ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے ملکوں نے اس سے متعلق اپنی پالیسیاں بنائی ہیں اور بنا رہے ہیں۔چند نے پابندی لگا رکھی ہے، چند نےمشروط اجازت دی ہے اور دیگر تذبذب کا شکار ہیں۔ ویسے ابھی اس نوع کی کرنسیوں میں مجموعی لین دین اتنا بڑا نہیں ہے کہ فوری طور پر سرکاری کرنسیوں کو بڑا خطرہ درپیش ہو۔ ایک اندازہ کے مطابق کرپٹو کے لین دین کا مجموعی حجم ایک ٹریلین ڈالر سے متجاوز نہیں ہے جب کہ دنیا کی مجموعی معیشت کا حجم سو ٹریلین سے زائد ہو چکا ہے۔
لین دین سے متعلق قوانین جو ہر ملک میں الگ نوعیت کے ہوتے ہیں ان کی پاسداری اس نئے نظام میں نہیں ہوتی ہے۔ مثلاً آمدنی سے متعلق ٹیکس (income tax)، اثاثوں کے تبادلوں میں نفع سے متعلق ٹیکس (capital gains tax)، اور اشیا کی خرید و فروخت سے متعلق ٹیکس(GST/sales tax/value added tax) جو مختلف ملکوں میں رائج ہیں، کا اثر کرپٹو کے ذریعے لین دین میں نہیں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے لین دین میں تصدیق (authentication)کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً جو چیز کرپٹو کی معرفت خرید لی گئی اس کے مالکانہ حقوق کے تعین کی کوئی قانونی صورت نہیں بنتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے یہ طریقہ کار ان لوگوں کو بھاتا ہے جن کے مشاغل میں قانون کی پاسداری شامل نہیں ہیں!
ایک اور بڑی خرابی یہ ہے کہ کرپٹو کا استعمال زیادہ تر قیاس اور سٹہ کے لیے کیا جارہا ہے۔ حقیقی معاشی عمل اور خرید و فروخت میں اس کا استعمال بہت کم ہو رہا ہے۔ کرپٹو کی قیمت میں قیاس اور سٹہ کی وجہ سے تیز اچھال ہوتا رہتا ہے۔ قیمت کے اتار چڑھاؤکے سبب اسے خریدا اور بیچا جا رہا ہے۔ کہنے کو تو اس سسٹم میں کوئی درمیانی ادارہ موجود نہیں ہوتا ہے لیکن اصلاً اس کی قیمت دیگر سرکاری کرنسیوں خصوصاً امریکی ڈالر میں لگتی ہے۔ کرپٹو سے ڈالر اور ڈالر سے کرپٹو میں تبادلہ کا سلسلسہ چلتا رہتا ہے۔ اس طرح کرپٹو کا استعمال زیادہ تر خود لین دین کی شئے (Commodity) کے طور پر ہو رہا ہے۔ اور جب اس کا استعمال ذریعہ تبادلہ (Medium of Exchange)کے طور پر ہوتا ہے تو زیادہ تر ڈالر یا کسی دوسری سرکاری (Fiat)کرنسی کے حوالے سے ہوتا ہے۔
کرپٹو کرنسی اور حکومتیں
کرپٹو کرنسی کا رواج بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ حکومتوں کے لیے اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ سب اس پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے حالات کے لحاظ سے اس کے متعلق اپنا رویہ متعین کر رہے ہیں۔ چند ممالک نے اس پر قدغن لگا دیا ہے۔ چند نے اس کی مشروط اجازت دی اور بقیہ تذبذب کا شکار ہیں۔ پابندی لگانے والے ممالک میں چین، بنگلہ دیش، قطر، الجیریا، مصر، بنگلہ دیش، مراکش اور سعودی عرب شامل ہیں۔ اجازت دینے والے ممالک میں کناڈا، جاپان، آسٹریلیا، برطانیہ، امریکہ اور سنگاپور ہیں۔
ہندوستان کا رویہ شروع میں تذبذب کا تھا لیکن اب واضح پالیسی بن چکی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے ایک سرکلر کے ذریعے اس پر کچھ روک لگائی تو اس کرنسی کے کاروبار میں لگے لوگوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور یہ دلیل دی کہ یہ کوئی کرنسی نہیں ہے بلکہ ایک جنس (commodity)ہے اس لیے ریزرو بینک کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ ریزرو بینک نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ گرچہ یہ منظم کرنسی نہیں ہے لیکن اس میں کرنسی کی تین صفات پائی جاتی ہیں۔ یعنی یہ حساب کی اکائی، ذریعہ تبادلہ، اور قدر کا خزینہ(Unit of Account, Medium of Exchange and Store of Value)ہے۔سپریم کورٹ نے حکومت کو اسے منظم (regulate)کرنےکے لیے کہا۔ حکومت ہند نے بجٹ برائے مالی سال 23۔2022میں اسے ایک مجازی اثاثہ (virtual asset)کا نام دیا۔ اس طرح اس جنس کو اثاثہ کہہ کر اس کی پوزیشن متعین کردی۔ ایک اثاثے کے طور اس کی فروخت پر جو منافع ہوگا اس پر تیس فی صد ٹیکس لگادیا۔ اگر کسی کو تحفہ میں بھی یہ مجازی اثاثہ ملا ہو تواسے بھی تیس فی صد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ اس منافع کے تعین میں قیمت خرید کے علاوہ کسی اور خرچ کو منہا نہیں کیا جاسکے گا۔ اور اگر اس کے تبادلہ یا فروخت پر کوئی نقصان ہوا ہوا تو اس کا کوئی لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ مزید براں اس سے متعلق تمام ادائیگیوں پر ادا کرنے والے کو ایک فی صد ٹیکس کاٹ کر(TDS)سرکاری خزانہ میں جمع کرنا ہو گا۔ حکومت ہند کا یہ اعلان بہت معنی خیز ہے۔ اس نے کرپٹو کرنسی کی حیثیت مجازی اثاثہ کہہ کر اسے ایک نیا رخ دے دیا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ دیگر ممالک کے لیے اس گتھی کو سلجھانے میں یہ تعین مشعل راہ بن جائے۔
فروری 2021 میں بجٹ کی تقریر میں درج بالا اعلان کے باوجود حکومت ہند نے اس پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ دراصل حکومت ہند یہ چاہتی ہے کہ اس طرز پر عالمی برادری بھی آمادہ ہو جائے تاکہ اثاثہ کے طور پر اس پر کنٹرول ممکن ہو ورنہ دوسرے ممالک کے بینک کے کھاتوں میں عالمی لین دین کی رقومات کو کرپٹو کے ذریعے رکھنے کے عمل کو روکنا آسان نہیں ہوگا۔ ایک ساتھ تمام ممالک اثاثہ کی حیثیت سے اس لین دین پر ٹرانزیکشن اور کیپیٹل گینس ٹیکس (transactions and capital gains tax)لگانا شروع کردیں تبھی متعلق کاروائیاں کام یاب ہو سکتی ہیں۔ اکتوبر 2022 کے اخیر میں حکومت ہند کی وزیر مالیات محترمہ سیتارمن نے ایک تقریر میں اس کا اعلان کیا کہ آئندہ بین الملکی ادارہ G-20 کے اجلاس میں حکومت ہند اس موضوع پر اپنی اس رائے کے حق میں کوشش کرے گی کہ کرپٹو کرنسی سے موسوم شئے کو ڈیجیٹل اثاثہ کی حیثیت سے عالمی برادری قبول کر لے اور اس کے سلسلے میں بین الملکی طریقہ کار کا تعین ہو جائے۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ دسمبر 2022 سے ایک سال کے لیے اس ادارہ کی سربراہی ہندوستان کے پاس ہو گی، یعنی اس اجلاس کے موقع پر یہ ادارہ جو بھی موقف اختیار کرے گا اس سمت میں پیش رفت میں ہندوستان کا کردار اہم ہو گا۔
جی 20 اجلاس میں کرپٹوز سے متعلق فیصلے
انڈونیشیا کے شہر بالی میں 15-16 نومبر 2022 کے اختتام پر جی 20 کے اجلاس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری ہوا اس کے 35ویں پیراگراف کے شروع کے حصہ میں اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے۔ متعلق حصہ درج ذیل ہے۔
We welcome ongoing work by the FSB (Financial Stability Board) and international standard setters to ensure that the crypto-assets ecosystem, including so-called stable coins, is closely monitored and subject to robust regulation, supervision, and oversight to mitigate potential risks to financial stability. We welcome the FSB’s proposed approach for establishing a comprehensive international framework for the regulation of crypto-asset activities based on the principle of same activity, same risk, same regulation. We welcome the FSB consultative report on the review of its high-level recommendations for the regulation, supervision and oversight of “global stable coin” arrangements. We also welcome the FSB consultation report on promoting international consistency of regulatory and supervisory approaches to crypto-assets activities and markets. It is critical to build public awareness of risks, to strengthen regulatory outcomes and to support a level playing field, while harnessing the benefits of innovation.
‘‘ہم،ایف اس بی، (مالیاتی استحکام بورڈ) اور بین الاقوامی معیار کےتعین کے جاری کام کا خیر مقدم کرتے ہیں تاکہ کرپٹواثاثہ جات کے ماحولیاتی نظام، بشمول نام نہاد مستحکم سکےپر سخت نظر رکھی جائے اور ممکنہ خطرات کو کم کرنے کے لیے ان کو مضبوط ضابطے اور نگرانی کے تابع کیا جائے، اور اس طرح مالی استحکام کو ممکنہ خطرات سے محفوظ کیا جاسکے۔ ہم، ایک ہی سرگرمی، ایک ہی خطرہ، ایک ہی ضابطہ، کے اصول پر مبنی کرپٹو اثاثہ کی سرگرمیوں کے ضابطے کے لیے ایک جامع بین الاقوامی فریم ورک کے قیام کے لیے، اف اس بی، کے مجوزہ نقطہ نظر کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم ‘‘عالمی مستحکم سکے’’کے انتظامات کے ضابطے اور نگرانی کے لیے اس کی اعلیٰ سطحی سفارشات کے جائزے پر، اف اس بی، کی مشاورتی رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم کرپٹو اثاثہ جات کی سرگرمیوں اور مارکیٹنگ کے لیے ریگولیٹری اور نگران طریقہ کار کو بین الاقوامی طور پر فروغ دینے کے لیے، اف اس بی کی مشاورتی رپورٹ کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں۔ خطرات کے بارے میں عوامی بیداری پیدا لانے، ریگولیٹری نتائج کو مضبوط بنانے اور نئی ایجادات کے فوائد کو بروئے کار لاتے ہوئے سب کے لیے یکساں مواقع کی حمایت کرنا بہت ضروری ہے۔’’
اس اعلامیہ میں توجہ طلب باتیں درج ذیل ہیں۔
الف] اس اعلامیہ میں کرپٹو اثاثہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرپٹو ٹکنالوجی کے ذریعے کسی نئی کرنسی کے تصور کی بالواسطہ نفی کی گئی ہے۔
ب] ایک عالمی سکہ کے امکانات کو ممکن سمجھتے ہوئے اس کے، مستحکم، ہونے کی شرط لگائی گئی ہے تاکہ کسی بھی فرد یا ادارہ کی جانب سے لفظ ’سکہ‘ کا استعمال کرتے ہوئے کسی آزاد روی کے امکان پر روک لگانا ممکن ہو۔ دراصل بٹ کوائن اور ایسے ہے مماثل نام کے ذریعے سکہ(کوائن) نام کا استعمال کر کے ‘زر’کے معروف تصور کے ذریعے مالیاتی نظام میں کسی نئے انتشار کا جو خطرہ ہے اس پر بند باندھنا ضروری ہے۔
ج] کرپٹو ٹکنالوجی کے ذریعے مالیاتی نظام میں کسی بھی مداخلت کے تمام امکانات کے نتیجہ میں ممکنہ خطرات کم کرنے کی غرض سے سخت نگاہ رکھنے کے لیے اس اعلامیہ میں چند متعین اقدامات کی تجاویز پیش کی گئی ہیں جن میں ان خطرات کے بارے میں عوامی بیداری پیدا کرنے کی اہمیت کا ذکر ہے۔ اس سلسلے میں کرپٹو اثاثہ جات کی سرگرمیوں بشمول ان کی مارکٹنگ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ دراصل اس پورے معاملات میں مارکٹنگ کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کرنے اور حقائق پر پردہ ڈالنے کی جو کوششیں ہوتی رہی ہیں انھیں کے سبب سٹہ کا ماحول بنایا گیا اور کرپٹو کی قیمتوں میں بے محابا اضافہ ہوا اور بعد میں اسی سٹہ کے سبب قیمتیں بے تحاشا گریں اور عوام کو بہت زیادہ مالی نقصانات ہوئے۔ نہ قیمتوں کے اس طرح بڑھنے کا کوئی حقیقی معاشی سبب تھا اور نہ گرنے کا۔ سب سٹے کا کھیل تھا۔
د] کرپٹو اثاثہ جات کے لیے جاری بین الاقوامی فریم ورک کے لیے، ایک ہی سرگرمی، ایک ہی خطرہ اور ایک ہی ضابطہ، (same activity, same risk, same regulation) کا ذکر بہت بامعنی ہے جس کے ذریعے مالی طور پر کم زور ممالک کے خطرات کو کم کیا جا سکے گا۔ ورنہ صورت حال یہ ہے کہ اس نئے طریقہ کے لین دین میں ڈالر اور دیگر مضبوط کرنسی کے حجم میں اضافہ ہو رہا ہے جن کا منفی اثر کم زور کرنسیوں پر پڑ رہا ہے۔
ہ] اخیر میں نئی ایجادات کے فوائد سے سب کے یکساں مستفید ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ نئی ایجادات کو بحیثیت مجموعی نوع انسانی کے لیے سود مند ہونا چاہیے۔ اسے کسی طرح بھی زمین میں فساد کا موجب نہیں بننے دینا چاہیے۔ مصلحت عامہ کو بہرحال اولیت حاصل ہے۔
اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی طور پر تقریباً یہ بات طے شدہ ہے کہ کرپٹو کرنسی اسم بامسمیٰ نہیں ہے۔ اس کی حیثیت زر کی نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ ایک اثاثہ کی ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2023