تہذیبوں کا تصادم یعنی “clash of civilizations” کا بیانیہ ایک نظریہ ہے جسے ماہر سیاسیات صموئیل ہنٹنگٹن (Samuel P Huntington) نے اپنے 1993 کے ایک مقالے میں پیش کیا تھا، بعد میں 1996 میں شائع ہونے والی اس کی کتاب “The Clash of Civilisations and the Remaking of World Order” میں اس کی تفصیل کی گئی تھی۔ ہنٹنگٹن کا مذکورہ مقالہ یہ دعوی کرتا ہے کہ مستقبل کے تنازعات بنیادی طور پر نظریاتی یا معاشی نہیں بلکہ ثقافتی نوعیت کے ہوں گے۔ اس نظریہ کو مختلف سیاسی گروہوں نے اپنے نظریات اور پالیسیوں کو درست ثابت کرنے کے لیے اہمیت دی ہے۔ ہندوستان میں ہندوتو کی تحریک نے جو ہندو اقدار اور ثقافت کے فروغ کی وکالت کرتی ہے، ہنٹنگٹن کے مذکورہ بیانیہ کو دیگر تہذیبوں، خاص طور پر اسلام اور مغربی اثرات سے لاحق خطرات کے خلاف اپنا موقف مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
ہنٹنگٹن کا یہ نظریہ عالمی مسائل اور الجھنوں کی پیچیدگیوں کو سمجھنا آسان بناتا ہے اور معاشی و سیاسی عوامل کو نظر انداز کرتے ہوئے ثقافتی و مذہبی اختلافات پر زیادہ زور دیتا ہے۔ کچھ مفکرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ ایک منقسم عالمی نظریہ کو فروغ دیتا ہے۔ یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ہندوستان میں اس بیانیہ کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نظریہ کو ہندو تو کی جانب سے کئی طریقوں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
تہذیبی شناخت اور قوم پرستی: ہندوتو کے حامی اکثر ہندوستانی تہذیب کے مخصوص ہونے پر زور دیتے ہیں، جو اپنی بنیادوں میں اسلامی اور مغربی تہذیبوں سے مختلف ہے۔ یہ بیانیہ ہنٹنگٹن کے تہذیبی شناخت کے تصور سے مطابقت رکھتا ہے جو عالمی سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ کرسٹوف جفرلوٹ (Christophe Jaffrelot) نے اپنی کتاب ““Hindu Nationalism: A Reader” میں اس بات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ وی ڈی ساور کر اور ایم ایس گولوالکر جیسے ہندو تو رہ نماؤں نے ہندو شناخت کو مسلم اور مغربی شناختوں کی مخالفت میں تشکیل دیا ہے۔
تاریخی تنازعات کو تہذیبی تصادم کے پس منظر میں پیش کرنا: ہندوتو تحریک اکثر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تاریخی تنازعات کو ایک گمبھیر تہذیبی تصادم کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ نقطہ نظر ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کے خلاف موجودہ سیاسی اور سماجی اقدامات کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تھامس بلوم (Thomas Blom Hansen)کی کتاب “The Saffron Wave: Democracy and Hindu Nationalism in Modern India” میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کو یقینی بنانے کے لیے تاریخی بیانیے کی کیسے از سرنو تشریح کی جاتی ہے۔
ثقافت کو خطرہ لاحق ہونے کا دعوی اور اس کے لیے دفاعی طریقہ کار اپنانا: ہندوتو کے علم بردار دعوی کرتے ہیں کہ ہندو تہذیب کو اسلامی بنیاد پرستی اور مغربی ثقافتی سامراج دونوں سے خطرہ لاحق ہے۔ وہ ہندو اقدار کے دفاع اور ہندوستانی تہذیب کے تحفظ کے ایک ذریعہ کے طور پر ہندو ثقافتی بالادستی کے دوبارہ اعادہ کی وکالت کرتے ہیں۔ Chetan Bhatt کی کتاب “Hindu Nationalism: Origins, Ideologies and Modern Myths” اس بابت کافی روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح ہندوتو ثقافتی خطرے کی داستان کو اپنے حق میں حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
عالمی تناظر میں حمایت کا حصول: ہندوتو تحریک اکثر خود کو دوسرے ممالک یا رہ نماؤں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتی ہے جو اس سے ملتے جلتے تہذیبی بیانیے کی توثیق کرتے ہیں، مثلا اسرائیل یا بعض دورانیوں میں امریکہ نے بھی انھیں مشترکہ تہذیبی خطرات کے خلاف عالمی جدوجہد میں اتحادی کے طور پر دیکھا ہے۔ ایان ہال (Ian Hall) کی کتاب “Modi and the Reinvention of Indian Foreign Policy” اس امر کا تجزیہ کرتی ہے کہ نریندر مودی کے تحت ہندوستان کی خارجہ پالیسی کیوں کر ہندوتو کے تہذیبی تناظر کی عکاس ہے۔
اس سلسلے میں ہندو ازم کی ثقافتی تمثیلات میں تحریف اور انھیں توڑ مروڑ کر من مانے انداز میں پیش کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
سیاق وسباق سے ہٹ کر تشریح: ہندوتو کے حامی اکثر ان تمثیلوں سے منتخب اقتباسات استعمال کرتے ہیں اور چُنے ہوئے الفاظ کو سیاق و سباق سے ہٹا کر ہندو بالادستی اور دوسرے مذاہب کے ساتھ متصادم بیانیہ کی شکل دیتے ہیں۔
شعاری علامات پر قبضہ: وہ اکثر شخصیات کی شناختی علامتوں جیسے گاندھی کا چرخہ یا وویکانند کے زعفرانی لباس کو اپنی تحریک کا اٹوٹ حصہ بنالیتے ہیں، جب کہ دوسری جانب انھی شخصیات کے پیش کردہ بنیادی فلسفوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔
تاریخ کو از سر نو رقم کرنا: ہندوتو کے علم بردار تاریخ سے وابستہ کلیدی واقعات اور ان شخصیات کی جدوجہد کو ایک طے شدہ بیانیہ کے مطابق بنانے کے لیے تاریخ کی از سرنو تشریح کرتے ہیں تاکہ ان واقعات کو ہندو تہذیب اور بیرونی خطرات کے مسلسل ٹکراؤ کی شکل دے کر پیش کیا جاسکے۔
ثقافتی قوم پرستی: ہندو تو کے حاملین ثقافتی قوم پرستی کی ایک ایسی شکل کو فروغ دیتے ہیں جو تاریخ ہندوستان میں ہندو ثقافت کی اہمیت اور اس تکثیری اور متنوع ورثے کے انمول ہونے پر زور دیتی ہے۔
ہندوستان کی ثقافتی اور تہذیبی تمثیلوں کے خیالات ونظریات کو غلط طریقے سے پیش کرتے ہوئے ہندوتو تحریک اپنے ”تہذیبوں کے تصادم“کے بیانیہ کو برحق ٹھہرانے کی کوشش کرتی ہے۔ ان غلط بیانیوں کو پہچاننا، انھیں چیلنج کرنا اور ہندوستان میں اسلامی تہذیبی تمثیل کی بلند و بالا شخصیات کا ہندو تہذیبی تمثیل کے افکار کے ساتھ تقابلی تجزیہ کرنا، ان کے حقیقی ورثے اور ہندوستانی تہذیب کی تکثیری نوعیت کے تحفظ کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اسی تناظر میں، اس مضمون میں ہم علامہ اقبال اور سوامی وویکانند کے نظریات کا موازنہ اور تقابل کریں گے۔
دو تہذیبی آئیکون (Icons)
علامہ اقبال اور سوامی وویکانند مشرق کی فکری اور روحانی تاریخ کے دریچے میں دو اہم ستونوں کے طور پر نظر آتے ہیں۔ دونوں ہی کی تحریروں نے نہ صرف اپنی اپنی ثقافتوں پر بلکہ تہذیب اور روحانیت سے متعلق وسیع تر مباحث پر بھی گہرا اثر مرتب کیا ہے۔ اقبال ایک فلسفی شاعر تھے جنھوں نے ایک متحرک اسلامی تہذیب کا تصور پیش کیا، جب کہ وویکانند ایک روحانی پیشوا تھے جنھوں نے ویدانت کی عالمگیر ہمہ گیریت کی وکالت کی۔ اس مضمون کا مقصد ان دونوں شخصیتوں کی پیش کردہ تہذیبی تمثیلوں کا تقابل و موازنہ، ان کے بنیادی اصول، ثقافت اور روحانیت کے تئیں موقف، ان کے اثرات اور آج کے قومی وعالمی تناظر میں ان کے نظریات کی مطابقت کو تلاش کرنا ہے۔ نیز ہندوتو کے ذریعے وویکانند کی تعلیمات کو جس طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے اس کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور اقبال کے ‘‘اسلامی فکر کی نشاة ثانیہ’’ کی بصیرت پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔
علامہ اقبال اور سوامی وویکانند دونوں ہی نے تعلیم کی گہرائیوں اور خودی کی دریافت کے سفر کا آغاز کیا۔ دونوں تاریخ کا جزو لاینفک بن چکے ہیں اور دنیا بھر کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اقبال کی روشن خیالی کی راہ علم کی انتھک جستجو اور عمیق روحانی بیداری سے عبارت تھی۔ اقبال سنہ 1877 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، انھیں روایتی اسلامی تعلیم اور جدید مغربی فکر دونوں سے روشناس کرایا گیا۔ علم کی جستجو انھیں یوروپ لے گئی جہاں انھوں نے کیمبرج میں تعلیم حاصل کی اور میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ مشرقی روحانیت اور مغربی فلسفے کے اس امتزاج نے اقبال کے اندر ایک منفرد وژن کو جنم دیا۔ اقبال کے لیے بطور خاص اسپین میں قرطبہ کی مسجد کا دورہ ایک ہمہ گیر تبدیلی کا پیش خیمہ تھا جہاں وہ دریائے کبیر کے کنارے کھڑے ہوکر اسلامی تہذیب کی شان و شوکت پر غور کرر ہے تھے اور مستقبل میں اس کی نشأة ثانیہ کا تصور کرر ہے تھے۔ گہری سوچوں پر مبنی اس لمحے نے ان کے شاعرانہ اور فلسفیانہ کلام کو تقویت بخشی جس کے باعث وہ مسلمانوں کی نوخیز نسل کو علم اور روحانی بیداری پر آمادہ کرنے کے لیے کمربستہ ہوئے۔ نوجوانوں کے لیے اقبال کا پیغام نہایت واضح تھا: ایک منصفانہ اور روشن خیال معاشرے کی تعمیر کے لیے اپنے روحانی ورثے اور جدید علم دونوں کو گلے سے لگائیں۔
سوامی وویکانند کا سفر روحانیت کی تلاش اور انسانیت کی خدمت کے تئیں عزم مصمم کے ساتھ شروع ہوا۔ نریندر ناتھ دتا 1863 میںکلکتہ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک ذہین طالب علم تھے جو فلسفے میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ ان کی روحانیت کے تئیں جستجو انھیں رام کرشن پرم ہنس تک لے گئی جن کے آفاقی تصور اور اس پر مبنی تعلیمات نے نریندر ناتھ دتا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ وویکانند کی ذات میں انقلاب تب آیا جب انھوں نے 1893 میں شکاگو میں منعقدہ عالمی مذہبی پارلیمنٹ میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ عالمی بھائی چارے اور مذہبی رواداری پر ان کی مؤثر تقریر نے سامعین کو مسحور کردیا اور انھیں ایک عالمی سطح کے روحانی پیشوا کی حیثیت عطا کی۔ اس کے باعث وویکانند نے اپنی زندگی ویدانت کے پرچار اور سماجی اصلاح کی کوششوں کے لیے وقف کردی۔ انھوں نے ان گنت نوجوانوں کو روحانی روشن خیالی کے حصول اور انسانیت کی خدمت کے لیے خود کو وقف کردینے کی ترغیب دی۔ ان کا موقف یہی رہا کہ حقیقی روحانیت مذہبی حدود وقیود سے بالاتر ہے اور اس کی جڑیں دراصل اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر بے لوث ہمدردی میں پیوست ہیں۔
دونوں کے تہذیبی پیراڈائم کے بنیادی اصول
اقبال نے اپنے خطبات (The Reconstruction of Religious Thought in Islam) میں ایک ایسی اسلامی تہذیب کا تصور پیش کیا ہے جو متحرک، ترقی پسند اور روحانی و اخلاقی اقدار سے جڑی ہوئی ہو۔ وہ مسلمانوں کو عصری علوم اور چیلنجوں کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کی از سرنو تشریح کرنے کی ضرورت پر زور دیتے۔ اقبال کا خیال تھا کہ اسلام اتحاد، اخلاقیات اور انصاف پر اپنی توجہ کے ساتھ عالم انسانیت کو ایک منصفانہ اور عدل پسند عالمی نظام کے زیر سایہ رکھنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ ان کا ‘‘خودی’’ کا تصور ذاتی و معاشرتی ترقی کے حصول کے لیے خود آگہی اور با اختیار بنانے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
دوسری طرف، سوامی وویکانند کا تہذیبی ماڈل ویدانت کی تعلیمات پر مبنی ہے، جو انسانیت کے اتحاد پر زور دیتی ہیں۔ انھوں نے ایک ایسے معاشرے کا تصور پیش کیا جہاں روحانی احساس کی روز مرہ کی زندگی میں شمولیت ہو اور اخلاقی اقدار کا فروغ ہو۔ وویکانند کا تعلیم اور سماجی بہبود پر زور ان کے اس یقین کی عکاسی کرتا ہے کہ عالمی ہم آہنگی اور امن کے حصول کے لیے معاشرے میں روحانی بیداری از بس لازمی ہے۔ روحانیت کے تئیں ان کے آفاقی نقطہ نظر کا مقصد مروجہ ثقافتی اور مذہبی حدود وقیود کا عبور تھا، جو انسانی ترقی کے ایک جامع نظریہ کی وکالت کرتا تھا۔
سوامی وویکانند کا روحانی تصور “وحدت الوجود” یا وجود کی یکسانیت، ادویتا ویدانتا فلسفے سے گہرا تعلق رکھتا ہے جسے انھوں نے فروغ دیا۔ یہ تصور کہتا ہے کہ تمام وجود بنیادی طور پر ایک ہے اور دنیا کی ظاہر ہونے والی تنوع ایک وہم (مایا) ہے۔ یہ نوٹ کرنا اہم ہے کہ جب وویویکانند نے ویدانتا کو مغربی سامعین کے لیے پیش کیا تو انھوں نے اس کے زیادہ پیچیدہ پہلوؤں کو سادہ بنایا تاکہ یہ ان لوگوں کے لیے زیادہ قابل فہم اور دل کش بن سکے جو بھارتی فلسفے سے واقف نہیں تھے۔
ایک اہم تنقید وویکانند کی تعلیمات کی فلسفیانہ ہم آہنگی کے گرد گھومتی ہے۔ ویدانتا کو عملی سماجی اصلاح کے ساتھ ملا کر، وویکانند نے کچھ تضادات پیدا کیے ہیں۔ ادویتا ویدانتا کی غیر دوئیت اور دنیا کے وہم ہونے پر زور، سماجی اقدامات اور اصلاحات کی ضرورت کے ساتھ متصادم ہو سکتا ہے۔ کچھ اہلِ علم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ دنیا کو مایا (وہم) قرار دینے کے خیال کو فوری سماجی اصلاحات کی ضرورت کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے، جن کی وویکانند نے فعال طور پر حمایت کی۔ ان کے مابعد الطبیعیاتی تصورات اور عملی اطلاقات کے درمیان یہ تناؤ ایک متنازعہ نقطہ رہا ہے۔
بہرحال، اس مضمون میں سوامی وویکانند کے وحدت الوجود سے متعلق خیالات سے تعرض نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ سماجی بہبود کے حوالے سے ان کی اپروچ اور مطالبات کو سراہا گیا ہے۔ ویدانت اور اسلام کے درمیان بنیادی فرق بہرحال پیش نظر رہنا چاہیے۔
ثقافتی اور روحانی بہبود وترقی سے متعلق دونوں کے نقطہ نظر
ثقافتی اور روحانی بہبود کے لیے اقبال نے اپنے نظریہ کو اپنی تخلیقات میں تفصیلی طور سے بیان کیا ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ تہذیب کی زندگی کا دارومدار اس کی اس صلاحیت پر ہوتا ہے کہ وہ نئے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے بنیادی اصولوں کی از سرنو تشریح کرنے کے قابل ہو۔ اقبال کا ثقافتی تجدید کا مطالبہ مسلم دنیا کی نوآبادیاتی محکومیت اور مسلم معاشرے کی تنزلی دونوں ہی عوامل کا ردعمل تھا۔ انھوں نے ایک ایسی فکری بیداری کی وکالت کی جس میں روحانیت اپنی تمام تر گہرائیوں کے ساتھ سائنسی عقلیت سے ہم آہنگ ہو، جس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کو فروغ دینا ہو جو عقلیت اور روحانیت دونوں میں توازن رکھتا ہو۔
اسی طرح، سوامی وویکانند نے ثقافتی بہبود وترقی میں روحانیت کے اٹوٹ کردار پر زور دیا۔ ان کا خیال تھا کہ ویدانت فردی و معاشرتی بہبود و ترقی کے لیے ایک عالمگیر دائرہ کار مہیا کرتا ہے۔ وویکانند کا ماننا ہے کہ روحانیت محض مذہبی رسومات و عبادات تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے جس کے باعث افراد کو معاشرے کے لیے بے لوث طریقے سے اخلاقی جدوجہد کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ ان کے مطابق تعلیم فرد کو بااختیار بنانے اور معاشرے کی ترقی کے لیے ایک اہم وسیلہ ہے۔ انھوں نے معاشرے میں ایسی اصلاحات کے نفاذ پر زور دیا جو سماجی نا انصافی کا خاتمہ کرکے ہم آہنگی کو فروغ دینے میں مددگار ہوں۔
موجودہ قومی اور عالمی سیاق وسباق میں ان کی معنویت
اقبال نے اپنے خطبات (ری کنسٹرکشن آف ریلیجیس تھاٹ) میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، جدید دنیا میں اسلام کے کردار کے تئیں عصری مباحث میں ان کی گونج ہنوز سنائی دیتی ہے۔ روایت اور جدیدیت کے درمیان متوازن نقطہ نظر اپنانے کا جو مطالبہ وہ کرتے ہیں، وہ ان مسلم معاشروں کے لیے ایک بصیرت افروز مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے جو اس وقت اپنی شناخت، حکم رانی اور ترقی کی مسابقتی دوڑ میں گوناگوں مسائل سے دوچار ہیں۔ سماجی و سیاسی ترقی کی بنیاد کے طور پر اخلاقی و روحانی تجدید پر اقبال نے جو زور دیا ہے وہ آج بڑی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ کیوں کہ مسلم ملّتیں اس وقت داخلی چیلنجوں سے نمٹنے اور قومی وبین الاقوامی مسائل و بحرانوں میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔
روحانیت اور سماجی اصلاح پر وویکانند کی تعلیمات آج کے قومی اور بین الاقوامی سیاق وسباق سے ہم آہنگ نظر آتی ہیں۔ معاشرے میں روحانیت بیدار کرنے کے تئیں ان کا تصور جو مذہبی وثقافتی حدود سے ماور ا ہے، جدید عصری مسائل جیسے عدم مساوات، تنازعات اور ماحولیاتی انحطاط سے نمٹنے کے لیے ایک فریم ورک مہیا کرتا ہے۔ وویکانند کی تعلیمات اور زندگی میں اخلاقیات کی اہمیت دنیا بھر میں سماجی انصاف اور ہمہ گیر ترقی کے لیے تحریکوں کو تقویت دیتی ہے۔ ہندوستان میں ویکانند کی تعلیمات و ملفوظات کو اکثر قومی یکجہتی اور سماجی ترقی پر مباحث میں شامل کیا جاتا ہے، جس میں اجتماعی بہبود اور روحانی ترقی کی ضرورت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
ہندوتو کے ذریعے سوامی وویکانند کے تہذیبی شاکلے کا غلط استعمال
گذشتہ برسوں میں ہندوتو کے نظریہ کا ہندو احیا پسند تحریکوں خاص کر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی جانب سے بھرپور پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے۔ اس قوم پرست نظریے کی حمایت میں سوامی وویکانند کی تعلیمات کا خصوصی طور پر انتخاب کیا گیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں نظریات میں زمین و آسمان کا تفاوت نظر آتا ہے۔ بین المذاہب روحانی اتحاد اور رواداری پر وویکانند کا زور دینا ہندوتو کے نظریہ سازوں کے انتہاپسندانہ اور بعض اوقات عسکریت پسندانہ اقدامات سے سراسر متصادم ہے۔ ہندوتو کے علم بردار اکثر سوامی وویکانند کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں تاکہ اپنے ہندو قوم پرست تصورات کے لیے جواز پیش کرسکیں، تاہم اس کے باوجود وہ ذات پات کے تئیں ان کے تنقیدی نظریے اور مذہبی ہم آہنگی اور سماجی مساوات کے لیے ان کی اپیلوں اور مطالبات کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ سوامی وویکانند نے اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے تمام پس ماندہ طبقات کی ترقی کی حمایت کی ہے اور روحانی اصولوں کے عالمگیر اطلاق پر زور دیا ہے جو ہندوتو کے تقسیم انگیز اور استثنائی مواقف سے بالکل متصادم ہیں۔
جیوتی رمایا شرما اپنی کتاب “ A Restatement of Religion: Swami Vivekananda and the Making of Hindu Nationalism” میں رقم طراز ہیں :
ہندوتو کے علمبرداروں نے سوامی وویکانند کی تعلیمات کو مسخ کر دیا ہے اور ان کے جامع نظریے کو ایک ایسے کوتاہ دامن نظریے میں تبدیل کر دیا ہے جو ان کے تنگ نظر فرقہ وارانہ عزائم کی حمایت کرتا ہے۔
شرما نے اپنی تنقیدی نگاہ کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ وویکانند کا حقیقی پیغام عالمگیر بھائی چارے اور روحانی روشن خیالی پر مبنی تھا، ہندوتو کے ذریعے فروغ پانے والی قوم پرستی کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا۔
حرف اختتام
علامہ اقبال اور سوامی وویکانند دونوں ہی اپنے اپنے تہذیبی گہوارے سے وابستہ عمیق ایجابی تصورات پیش کرتے ہیں۔ جہاں اقبال کا ماڈل ایک اخلاقی اور مبنی برانصاف عالمی نظام کی قیادت کرنے کے لیے اسلام کے موثر کردار پر زور دیتا ہے، وہیں ویویکانند کا ویدانت پر مبنی وژن عالمی ہم آہنگی کے لیے روحانیت کے عالمگیر اطلاق کو فروغ دیتا ہے۔ دونوں مفکرین معاشرتی بہبود و ترقی کے لیے ثقافتی اور روحانی اقدار کی تجدید نو پر زور دیتے ہیں۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ وویکانند کی تعلیمات کا ہندوتو نظریہ کے حاملین کی جانب سے بے جا استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ان بااثر شخصیات کے فلسفوں پر تنقیدی نگاہ ڈالی جائے اور ان کی درست تشریح کی جائے تاکہ ان کی اصل میراث محفوظ ر ہے۔ دونوں ہی مفکرین کا روشن خیالی کا سفر دنیا بھر کے نوجوانوں کو علم حاصل کرنے، روحانی اقدار کو اپنانے، اور ایک انصاف پر مبنی اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ دنیا کی تشکیل کے لیے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ n
حوالہ جات
- Huntington, S. P. (1996). The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order. Simon & Schuster.
- Jaffrelot, C. (2007). Hindu Nationalism: A Reader. Princeton University Press.
- Hansen, T. B. (1999). The Saffron Wave: Democracy and Hindu Nationalism in Modern India. Princeton University Press.
- Bhatt, C. (2001). Hindu Nationalism: Origins, Ideologies and Modern Myths. Berg Publishers.
- Brookings Institution. (2020). India’s citizenship law, in tandem with national register of citizens, could make BJP’s discriminatory targeting of Muslims legal. Retrieved from https: //www.brookings.edu
- Hall, I. (2019). Modi and the Reinvention of Indian Foreign Policy. Bristol University Press.
- Iqbal, M. (1986). The Reconstruction of Religious Thought in Islam. Kitab Bhavan.
- Iqbal on the reconstruction of the world order. (n.d.). Retrieved from https: //www.allamaiqbal.com
- Religions. (n.d.). Was Swami Vivekananda a Hindu supremacist? Revisiting a long-standing debate. Retrieved from https://www.mdpi.com
- Swami Vivekananda’s vision of Hinduism is endangered by Hindutva. (n.d.). Retrieved from https: //www.nationalheraldindia.com
- Who is a Hindu?: Swami Vivekananda’s Vedanta vs Savarkar’s Hindutva. (n.d.). Retrieved from https: //www.indiatodayne.in
مشمولہ: شمارہ جولائی 2024