بات 1993 کی ہے۔ مہاراشٹر کا شہر لاتور زلزلے سے دہل گیا۔ کئی دیہات زمیں بوس ہوگئے۔ نہ گھر بچے، نہ اسکول اور بازار۔ پھرشروع ہوا تعمیرِ نو کا سلسلہ۔
ضلعے کے چند دیہاتوں میں متاثرین کی معاشی مدد، اسکولوں کی تعمیر اور کئی بڑے پراجیکٹوں کی ذمہ داری کیرالا کے مادھیمم ٹرسٹ نے اٹھائی۔
مادھیمم۔۔
سیکڑوں کلومیٹر دور اِس نامانوس نام سے ایک غیر ملیالی ریاست کے عوام شاید ہی متعارف تھے۔ریاست کے احباب نے بتایا کہ مقامی عوام کے لیے یہ ایک حیرت انگیز اور خوش گوار تجربہ تھا۔
اخبارات کے لیے چھ سال کی عمر تو بس نوخیزی ہی کہلا سکتی ہےجب وہ بمشکل لڑکھڑا کر چل رہے ہوتے ہیں۔ لیکن مادھیمم نے محض چھ برسوں میں نہ صرف ریاست میں پہچان بنائی، بلکہ اضافی ایڈیشنوں کے اجرا کے ساتھ قارئین کا مضبوط اعتماد پایا اور اس قابل ہوگیا کہ ایک اپیل کے سہارے قارئین کے تعاون کے ساتھ ریاست سے ہزار کلومیٹر دور ریلیف کا ایک بڑا کام انجام دے سکے۔ یہ اعتماد اس وقت بھی قیمتی تھا اور آج بھی ہے۔
1987میں جس اخبار نے اپنے پر عزم سفر کا آغاز کیا تھا آج وہ کئی ملکی و بین الاقوامی ایڈیشنوں، ٹی وی چینل، اور لاکھوں خریداروں کے ساتھ ملیالم زبان کا تیسرا سب سے بڑا اخبار ہے۔ ملک میں جہاں کئی دیگر اصول پسند اخبارات اپنی بقا کے لیے برسر پیکار ہیں، وہیں مادھیمم ہر سال نئے ایڈیشنوں، اضافی ریڈرشپ، اور جدید پروجیکٹوں کی نوید لے کر آتا ہے۔ شجرِ امید کی اس قسط میں آئیے جنوب مغربی افق سے جگمگاتی امید کی اس کرن کی تابانی سمیٹتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں اہم موڑ
‘‘ ذرائع ابلاغ میں اہم موڑ’’ یہ محض کارباوری نعرہ (سلوگن ) نہیں، بلکہ ایک صحافتی قدر، اور ایک نئی شناخت کا اعلان تھا۔ مادھیمم نے اپنے اس اولین اعلان کی ہمیشہ پاس داری بھی کی۔
1980کی دہائی میں ایک طرف سرمایہ دارانہ ذہنیت کا مارا ہوا میڈیا پس ماندہ اور محروم طبقات کے استحصال کو صحافتی میدان سے جواز دینے میں جٹا تھا، وہیں دوسری طرف بائیں بازو سے وابستہ میڈیا گروپ مذہب بیزاری کا چشمہ لگائے ہر قسم کی مذہبی تحریک اور اصولوں کو کھرچنا عین ترقی سمجھتے تھے۔ بالخصوص مارکسیت پسند کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان دیشا بِھمانی اور قومی روزنامہ ماتر بھومی جو کیرالا میں عوامی ترجمان کی حیثیت رکھتے تھے، دونوں ہی اسلامی شریعت کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے میں مسابقت کرنے لگے۔اس اندھی دوڑ نے ریاست کے حق گو اور انصاف پسند لوگوں میں نہ صرف تشویش پیدا کی، بلکہ تلاش حق کی پیاس بھی بڑھائی۔
اسی دوران یہ خبر پھیل گئی کہ تریوندرم کے بیما پلی محلے کی ایک خاتون پر کسی وجہ سے محل جماعت والوں نے شرعی سزا جاری کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ کیرالا میں، خصوصاً جنوبی علاقوں میں، مساجد سے مربوط کمیٹیوں کا نظام ہے، جسے محل جماعت کہتے ہیں۔ جماعت کا نام آتے ہی ان تمام گروپوں اور اخبارات نے اپنی ترش تنقیدوں کا رخ موڑ دیا اورغلط بیانی سے کام لینے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے خلاف ایک تیز پروپیگنڈا مہم چھیڑ دی۔ یہی نہیں بلکہ اس دوران شاہ بانو کیس سمیت کچھ ایسے اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے جن کے سہارے زہر اگلنے کا عمل اور تیز ہو گیا۔ تشویش کی بات یہ تھی کہ مسلم اقلیت کے پاس اپنی مدافعت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔
جو رسالے شائع ہوتے تھے ان کی اشاعت مختصر اور اثرات بہت محدود تھے۔
اس نازک صورت حال کے پیش نظر کیرالا میں تحریکِ اسلامی نے ایک روزنامے کے بارے میں بہت سنجیدگی کے ساتھ سوچنا اور امکانات تلاش کرنا شروع کیے۔ ہرچند کہ اس وقت پروپیگنڈےکا ہدف بالعموم اسلام اور مسلمان تھے، تاہم تحریک اسلامی کے پیش نظر ایک اسلامی یا مسلم اخبار کا تصور نہیں تھا، بلکہ ایک قومی میڈیا کا منصوبہ تھا۔ پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ جو قوم الزامات اور پروپیگنڈے کا نشانہ بنی ہوئی ہے، حق و انصاف اور بھائی چارے اور رواداری کی تعلیمات کا خزانہ رکھتے ہوئے محض صحافت سے محرومی کی وجہ سے بے زبان بن کر رہ گئی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اٹھے اور تمام بے زبانوں کی آواز بنے۔ محروم سماج کی بڑے پیمانے پر نمائندگی اور ترجمانی کے لیے پوری ریاست کے عوام کا ترجمان اخبار ضروری تھا۔ یوں شروعات ہوئی اقدار پر مبنی صحافت کی ایک نئی تاریخ کی۔ جسے اپنے ابتدائی ایام میں جناب کے سی عبداللہ مولوی، جناب وائیکوم محمد بشیر، اور جناب پی کے بالاکرشنن جیسی قابل شخصیات کی دانش ورانہ سرپرستی میسر رہی۔
جھوٹ سے پاک، سچ کا بے باک اظہار، عام انسانی اقدار پر مبنی مواد کی اشاعت اور غیر اخلاقی اشتہارات سے اجتناب کی جس پالیسی کا اعلان مادھیمم نے روز اول کیا تھا، اس پر وہ ہمیشہ قائم رہا۔
ترقی اور مقبولیت
واقعہ یہ ہے کیرالا کے عام سماج نے مادھیمم کو اپنے دل کی آواز سمجھا اور تہہ دل سے استقبال کیا۔ اخلاقی اقدار کا حامی، مظلوموں کی آواز اور تعصب سے پاک پہچان کے ساتھ مادھیمم بہت تیزی سے مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھتا رہا۔ اپنے سفر کے محض 31 برسوں کے دوران بیس لاکھ قارئین اور کئی ایڈیشنوں کا اعزاز مادھیمم کو مقبول و منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ( ٹیبل )
یکم جون1987کو کالی کٹ سے اس کا اجرا ہوا۔ 1993 میں دوسرا ایڈیشن کوچین سے جاری ہوا، اور 1996 میں تریوندرم سے تیسرا ایڈیشن بھی جاری ہوگیا۔ خلیجی ممالک میں مقیم لاکھوں ملیالم پڑھنے والوں کے لیے1999 میں گلف مادھیمم جاری ہوا۔ اس وقت کیرالا سے اس کے نو ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔ ممبئی، منگلور اور بنگلور ایڈیشن علیحدہ ہیں۔ قارئین کی مجموعی تعداد 22 لاکھ سے متجاوز ہے۔ گلف مادھیمم واحد ملیالم اخبار ہے جو تمام خلیجی ممالک میں دستیاب ہے، اور قارئین کی تعداد کے لحاظ سے اول مقام رکھتا ہے۔گلف مادھیمم سعودی عرب کے چار بڑے شہروں کے علاوہ دبئی، مسقط، بحرین، قطر اور کویت سے بھی شائع ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مادھیمم سے کھلی دشمنی رکھنے والے سیاسی لیڈر بھی روزنامے کی خبروں اور تجزیوں سے باخبر رہنا اہم اور ضروری سمجھتے ہیں۔ بسا اوقات مادھیمم نے مسلم جماعتوں کے موقف پر کھلی تنقید سے بھی گریز نہیں کیا۔ تنقید کے سلسلے میں مادھیمم خیرخواہی اور انصاف پسندی کو رہ نما اصول مانتا ہے۔
مادھیمم، اسکے ایڈیٹر اور صحافیوں کی ٹیم کو ملنے والے مختلف قومی و بین الاقوامی اعزازات اس کے معیار و مقبولیت کی دلیل ہیں۔ ای ایس آر ورلڈ جرنلزم ایوارڈ (2007)، پی یو سی ایل کا ‘‘جرنلزم فار ہیومن رائٹس ایوارڈ’’ ( 2003)، دی اسٹیٹسمین ایوارڈ فار بیسٹ رورل رپورٹنگ ( 2007)، رام ناتھ گوئنکا ایوارڈ (2007-08) کے بشمول کئی ریاستی ایوارڈ اور پریس کلب ایوارڈ مادھیمم کے قابل صحافیوں کے حصے میں آئے۔
مادھیمم کی خصوصیات
مشہور صحافی تھامس جیکب کہتے ہیں کہ مادھیمم کسی مخصوص سماجی طبقے کی نمائندگی نہیں کرتا۔
جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے جولتن عبدالحلیم کہتے ہیں، مادھیمم ہندوستان کی مسلم جماعتوں، دلتوں، آدی باسی طبقوں اور خواتین کے مسائل پیش کرتا ہے۔ ان کی آواز کو جگہ دیتا ہے اور ایڈیٹوریل، خبروں اور مضامین میں تکثیریت کے تقاضے ملحوظ رکھتا ہے۔ کالی کٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق مادھیمم ماحولیاتی ایشوز پر کوریج اور فریکوئنسی کے حوالے سے زیادہ ذمہ دارانہ رول ادا کرتا ہے۔ ( ملاحظہ فرمائیے
News Programming Content: Practices and Readers’ Preferences- A Study of Malayalam Newspapers. By M.S. Harikumar
قومی اہمیت رکھنے والی خبروں کے سلسلے میں نہ تو مادھیمم نے سرکاری ترجمان بننا گوارا کیا، اور نہ ہی نیوز ایجنسیوں پر انحصار کیا بلکہ اپنے ذرائع پیدا کیے اور میدانی صحافت کا اعلیٰ معیار قائم کیا۔
بین الاقوامی مسائل، سرمایہ داروں اور کارپوریٹ کے استحصال کے خلاف عوامی احتجاج، جمہوریت کی پامالی کے خلاف عوامی جنگ وغیرہ امور جو ملکی پریس کی نظر میں بالعموم قابل اعتنا نہیں ٹھہرتے، انھیں موزوں مقام دے کر عوام میں متوازن شعور پیدا کرنے کا سہرا مادھیمم کے سر جاتا ہے۔ بین الاقوامی مشہور صحافی اور عسکری رپورٹر روبرٹ فسک کو ملیالم قارئین میں مادھیمم نے ہی متعارف کروایا۔
ریاستی سطح کے کئی معاملات میں سرکار اور سرکاری اداروں کے ساتھ عوامی ذہن کی اصلاح میں مادھیمم اہم رول ادا کرتا رہا۔ خواہ وہ ریزرویشن کی تحریک ہو، ہلکے اور سخت فرقہ وارانہ رجحانات ہوں، سیاسی دشمنی اور حادثات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے معاملے ہوں، سیاسی جائزے ہوں یا صحت وعلاج کے سلسلے میں استحصال کی بات، کسی بھی سماجی محاذ پر مادھیمم کا رول نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مادھیمم کا تعمیری رول اب جنوب مغرب میں واقع ایک مختصر علاقے تک محدود نہیں رہا، بلکہ جمہوریت، مذہبی رواداری اور متبادل سماجی افکار کے حامی کئی صحافیوں کو قومی سطح پر ہم آواز بنانے کی اس کی کوششیں بھی رنگ لارہی ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے باشعور سماجی کارکنوں میں ملیالم زبان کا یہ اخبار مانوس پہچان رکھتا ہے۔
کچھ اور چہرے
آئیڈیل پبلیکیشن ٹرسٹ کے تحت مادھیمم کا کامیاب سفر جاری ہے۔ سفر کے ہر پڑاؤ پر نہ صرف تعداد اور ایڈیشن بڑھتے ہیں بلکہ اسکے بازو ؤں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مادھیمم نے اپنی صحافتی تحریک میں تادم تحریر حسبِ ذیل بیش قیمت اضافے کیے۔
ہفتہ وار مادھیمم: سماجی، تہذیبی، ثقافتی اور ادبی میدانوں میں موثر نمائندگی کے لیے مادھیمم ویکلی جاری کیا گیا۔ ملیالم ادب وثقافت کے نام ور قلم کار اس ہفت روزہ میگزین کا حصہ ہیں۔ اس ادبی شمارے کے ذریعہ میدان ادب میں کئی نئے چہرےمتعارف ہوتے رہے۔
مادھیمم کڑومبم: یہ ایک فیملی میگزین ہے جو گذشتہ تین سال سے شائع ہورہا ہے، امور خانہ داری، صحت، گھریلو اقتصادیات، شخصیت کا ارتقا، پکوان وغیرہ موضوعات رنگین کاغذ اور معنی خیز و خوب صورت گرافکس کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔ ہر طبقے کے متوسط گھرانوں میں مادھیمم کڑومبم نے خوب مقبولیت پائی۔
میڈیا وَن چینل: روزنامہ مادھیمم کے ساتھ ساتھ میڈیا وَن چینل الیکٹرانک میڈیا میں بہت کم عرصے میں مثبت پہچان اور اچھی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ چینل کا آغاز ہوئے ابھی محض چھ سال ہوئے ہیں، تاہم اپنے پروگراموں کے اعلیٰ معیار اور اثرات کے لحاظ سے ملیالم زبان کے اہم ترین چینلوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
مادھیمم ہیلتھ کیٔر: مادھیمم کی کامیاب پیش رفت اور عوامی مقبولیت کے پیش نظر یہ پروگرام شروع کیا گیا۔ پیچیدہ امراض میں مبتلا غریب و مستحق لوگوں کی امداد کے لیے ماہر ڈاکٹروں کے تعاون کے ساتھ اس پروگرام کا آغاز ہوا۔ اشتہار اور مارکیٹنگ چینل کے بغیرعام افراد اور سماجی ادارے مادھیمم ہیلتھ کیٔر کے توسط سے تعاون کرتے ہیں، اور ہزاروں غریب لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں۔
مادھیمم آن لائن: 2003 سے مادھیمم آن لائن ایڈیشن شروع کیا گیا ہے، اہم خبریں اور تجزیات فوراً قارئین تک پہنچانے میں آن لائین پورٹل خاصا فعال اور مددگار ہے۔
مادھیمم ٹیکنولوجیز :2007 میں قائم کردہ مادھیمم ٹیکنولوجیز نہ صرف میڈیا بلکہ عمومی سافٹ ویر ضروریات کے تحت مختلف میدانوں میں خدمات فراہم کرتا ہے۔
ایم بی ایل میڈیا اسکول: 2010 میں قائم ہونے والے میڈیا اسکول نے بصری میڈیا کے میدان میں شان دار صلاحیتوں کو ڈھالنے کا حیرت انگیز کام کیا۔
مادھیمم کے یہ تمام کامیاب تجربات اپنے آپ میں علیحدہ کیس اسٹڈی ہوسکتے ہیں جو میڈیا اور جرنلزم سے وابستہ پر عزم نوجوانوں کے لیے سیکھنے کے کئی روشن اسباق پنہاں رکھتے ہیں۔ ممکن ہوا تو اسی سلسلے کے تحت چند اداروں کا تفصیلی احاطہ آئندہ کیا جائے گا۔
پیغام عمل
مادھیمم کا کامیاب سفر تمام قارئین اور بالخصوص صحافت سے وابستہ دوستوں کے لیے کئی خاموش پیغام رکھتا ہے۔
1) مادھیمم کا قیام ایک اجتماعی کاوش کا نتیجہ ضرور ہے، لیکن اس کی حیثیت ایک پیشہ ورانہ ادارے کی ہے جو اپنے وسائل کا خود ذمہ دار ہے۔ ادارے اگر اپنی کسی سرپرست تنظیم کو بیساکھی بنالیں توکئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سبسڈیز اور امداد ہی ان کے لیے آکسیجن بنے رہتے ہیں۔ یہ مدد سرکاری محکموں کی طرح انھیں ترقی اور توسیع کی تمام پیشہ ورانہ کاوشوں سے بے نیاز بنا دیتی ہے۔ ہمارے ادارے اگر ایسی ہی ترقی چاہتے ہوں تو ضروری ہے کہ خود مکتفی بننے کی راہ اپنائیں۔
2) مادھیمم نے نہ صرف خود کو عوامی اخبار قرار دیا بلکہ اس دعوے کو عملاً ثابت بھی کیا۔ تکثیری مزاج، پروفیشنلزم، قارئین کی اکثریت کے بشمول تقریباً نصف عملہ برادران وطن پر مشتمل، اور اخبارکے متوازن مشمولات مادھیمم کو ممتاز مقام دیتے ہیں۔ ملک کے دیگر مسلم میڈیا گروپ تمام اخلاقی اقدار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس اپروچ کو اپنائیں تو عوامی نفوذ ممکن ہوسکتا ہے۔ ایک بڑی اکثریت کے مسائل اور دل چسپیوں کو نظر انداز کرکے عوامی قبولیت کی تمنا عبث ہوتی ہے۔
3) بات صرف مسلم میڈیا کی نہیں بلکہ ملک میں پرنٹ اور بالخصوص مین اسٹریم الیکٹرانک میڈیا، ٹی آرپی جرنلز م کااسیر بن چکا ہے۔ نیوز روم میں پنچایت سجا کر غیر اہم مسائل پر غیر ضروری لوگوں کی لمبی اور لا حاصل کج بحثی آج میڈیا کی قابلیت کا سب سے بڑا پیمانہ بن چکی ہے۔ چار دیواری میں قید صحافت نے اس پیشے کو بہت بدنام کیا ہے۔ مادھیمم اس حوالے سے مختلف ہے۔ میدانی صحافیوں کا ملک و بیرون ملک وسیع نیٹ ورک، اہم امور و مسائل پر باریک نظر، مدلل تجزیے اور سماج میں گفتگو (ڈسکورس )کا رخ متعین کرنا، مادھیمم کی پہچان رہی۔سچ یہ ہے کہ عوامی صحافت کے بغیر کسی میڈیا گروپ کے لیے بڑی کامیابی ممکن ہی نہیں۔
4) مادھیمم نے ہمیشہ حقیقی حالات سے باخبر کروانے کی ذمہ داری قبول کی۔چند چالاک سیاست دانوں کے طے شدہ ایجنڈے کو جانے انجانے آگے بڑھانا وہ سادہ لوحی ہے جس کا شکار اکثر چھوٹے بڑے میڈیا گروپ اور صحافی ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں آئے دن نان ایشو کی آڑ میں بڑے بڑے حقیقی مسائل اور ہمالیائی دھاندلیاں بآسانی نگل لی جاتی ہیں۔مخالفین بھی مانتے ہیں کہ مادھیمم نے اس محاذ پر ہمیشہ مثبت رول ادا کیا۔ مویشی اسکینڈل، شراب لابی کی دھوکہ دھڑی، ملٹی لیول مارکیٹنگ کمپنیوں کے ہتھکنڈے، بڑے کارپوریٹ گھرانوں کی لوٹ، جھوٹےحکومتی الزامات کی مدلل نفی، ماحولیاتی موضوعات، دلت آدی واسی اور محروم طبقات کے مسائل جیسے امور پر مادھیمم کا رول تاریخی و انقلابی رہا۔ انصاف پسند صحافیوں کے لیے مادھیمم کےدانش ورانہ تجزیات بہت کچھ سیکھنے کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
5) باصلاحیت افراد کے بغیر ادارے بہت جلد اَپاہَج بن جاتے ہیں۔قحط الرجال بپا ہوتو خلوص، وسائل، عزائم سب کچھ دھرا رہ جاتا ہے۔ مادھیمم اس محاذ پر نہ صرف بیدار بلکہ فعال رہا۔ یہی سبب ہے کہ پے درپے نئے ایڈیشنوں، نئے میگزینوں، چینل اور پورٹل کے باوجود انھیں درکار صلاحیتیں بروقت دستیاب ہوتی ر ہیں۔اس کا بڑا سبب مادھیمم کے افراد ساز ادارے ہیں۔ ایم بی ایل میڈیا اسکول، میڈیا وَن اکیڈمی آف کمیونکیشن کا شمار ریاست کے بہترین میڈیا اسکولوں میں ہوتا ہے جہاں کنوَرجینس جرنلزم، ویژول کمیونکیشن، ٹیلی وژن پروڈکشن سمیت کئی جدید کورسوں کی تربیت انتہائی عصری ٹیکنولوجیوں سے لیس میڈیا لیب میں فراہم کی جاتی ہے۔ میڈیا اداروں کی منصوبہ بندی بھی اِنہی خطوط پر ہونی چاہیے کہ کسی مرحلے پر صلاحیتوں کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے جو بسا اوقات لمبے سفر کو یو ٹرن دے کر اسی نقطۂ آغاز پر پہنچا دیتا ہے۔
6 وسائل کا چند ہاتھوں میں سمٹاؤ، اقتدار کا بڑھتا دباؤ اور مارکیٹ کے بدلتے رجحانات نے من جملہ اچھے بھلے میڈیا گروپس کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ کل تک جو غیر جانب داری کا سوانگ رچائے ہوئے تھے، وہ بھی گذشتہ کچھ برسوں میں اپنا اصل رنگ دکھانے لگے۔ اقتدار کی چاپلوسی، دھونس، بلیک میلنگ اور اوٹ پٹانگ فحش اشتہارات کے سہارے منافع خوری وغیرہ، یہ تمام طریقے اب اکثر اخبارات کے لیے کوئی ممنوعہ چیز نہ رہیں۔ ایک مین اسٹریم اخبار کی شناخت کے ساتھ مادھیمم نے ان خباثتوں سے خود کو دور رکھنے میں کامیابی پائی۔ نہ فحش اشتہارات کے لیے یہاں جگہ ہوتی ہے اور نہ قارئین کی مصنوعی تعداد بڑھانے کے لیے انعامات اور آفروں کا لالچ۔
7) اخبارات، میڈیا یا کسی بھی پر عزم پراجیکٹ کی ترقی کے لیے مستقبل کا روڈ میپ اور اس منصوبے کا مستقل جائزہ لیتے رہنا ضروری ہوتا ہے۔ 2009 میں مادھیمم کے چیف ایڈیٹر جناب او عبدالرحمان نے ریڈِف کے لیے معروف قلم کار ڈاکٹر یوگندر سکند سے بات کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ مادھیمم کے عزائم میں ایک ٹیلی وژن چینل، میڈیا اسکول، نئے مقامات سے مزید ایڈیشنوں اور انگریزی روزنامے کا ملک کے کئی بڑے شہروں سے اجرا شامل ہیں۔آج دس سال بعد دیکھیے تو اس منصوبے میں بڑی حد تک رنگ بھرنے میں مادھیمم ٹیم کامیاب رہی۔ روڈ میپ واضح ہو، عزائم مضبوط ہوں اور ٹیم باصلاحیت اور مخلص ہو تو کامیابی مشکل نہیں ہوتی۔
آخر میں مادھیممم کے ان خوابوں کی تکمیل کے لیے ہماری نیک خواہشات جو ہنوز تشنۂ تعبیر ہیں۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2020