مجھے ایسا لگا کہ میں آسمان کی بلندیوں سے یک لخت زمین کی پستیوں میں جاگرا۔ میں اپنے ہی گھر کے ایک کونے میں منہ چھپائے بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ یہ سب کس طرح ہوگیا؟ ایسا کیسے ہوا؟میرے علم کوآج کیا ہوا؟ کہاں پر دھوکہ ہوا؟ جس علم پر مجھے ناز تھا وہی علم کیوں کر میرا ساتھ چھوڑ گیا؟ میں فکروں کے انھی صحراؤں میں بھٹکنے لگا۔ جب بھی کسی سراب کے قریب جاتا تو فریب کھانے کا اذیت ناک احساس میرے کرب کو بڑھادیتا۔
علم کے سرابوں نے میرے اندر کرب و بے چینی پیدا کردی اور پھرتنہائی کے اس ماحول کی وحشت سے گھبرا کر اس بے آ ب و گیاہ صحرا سے خیالات کے جنگل میں جا پہنچا۔ ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے صحرا کی تمام تلخیاں بھلا دیں اور میں اپنی ناکامیوں کے بارے میں پھر سے غور و فکر کرنے لگا مگر یہاں بھی میرے علم نے کچھ فائدہ نہ دیا۔ تپتے ہوئے صحراؤں سے نکل کر میں خار دار جھاڑیوں سے اُلجھتا رہا مگر میرا علم مجھے ذرا سکون نہ دے سکا۔ جب میں نے جنگل کی دوسری سمت نگاہ دوڑائی تو زہریلے پودے، خوشنما دھوکہ دینے والے پھل پھول نظر آ رہے ہیں جو دور سے بھلے معلوم ہوتے ہیں اور اس سنّاٹے میں دور سے کہیں جنگلی جانوروں کی دہاڑنے اور کبھی غُرّانے کی آوازیں بے سمت سے آنے لگیں۔ حشرات الارض کی آواز وں نے الگ پریشان کر رکھا تھا۔
سکون کی تلاش میں جس علم پر میں بھروسا کرکے نت نئی آرائش و زیبائش،مختلف طور طریقوں کو ترتیب دیتا رہا۔ اسی سکون کی خاطرضمیر کی چبھن کو مٹانے کے لیے کبھی موسیقی، ناچ گانے تو کبھی شراب میں اپنے آپ کو ڈبوتا گیا۔ اسی راہ نے اور کئی در کھلوادیے۔ انسانی عیش پرستی کو خوب بلکہ بہت خوب ترقی ملتی گئی۔
آج یہی علم مجھ پر سوار ہوکر مجھے ڈرانے لگا۔ سوچتا ہوں جس علم پر اتنا بھروسا کیا۔ اس حد تک اس کو چاہا۔ اس کی خاطر مذہب سے لڑ پڑا۔ دنیا جہان سے اختلاف کرتا رہا۔ اپنے آپ سے زیادہ اسی علم پر بھروسا کیا ..مگر آج اس نے میرا ساتھ نہ دیا اور میں اس سے جدا ہوکر خود پر غور وفکر کرنے والی تنہائی میں پہنچ گیا۔ اپنی ان سوچوں میں غرق، فکر کی وادیوں میں بھٹکتا پھرتارہا۔ کہیں بھی کوئی منزل کوئی نشانِ راہ، دور دور تک نہیں دکھائی دے رہا تھا۔
میرا علم بھی بے بسی کے عالم میں حیران و پریشان مجھے چھوڑ کر خود بھی مغالطے میں رہ گیا۔ میں سوچتا ہوں جس علم کی روشنی سے دنیا کے اندھیرے کو میں نے دن کے اُجالوں کی طرح روشن کردیا،اپنے سفر کو مختصر مفید بنانے کے لیے ہوائی جہاز بنالیے، سمندر کی آرام پُر کیف فضاؤں میں سفر کے لیے پُر لطف جہاز بنالیے۔ انسانی سہولتوں سے آراستہ کاریں بنالیں، ٹرینیں دوڑادیں۔ بڑے بڑے کارخانے مشکل ترین پُلوں اور انسانی تصور سے بلند ترین عمارتیں تعمیر کرتا گیا۔ تمام دنیا اور اس کے کاروبار کو اُنگلیوں کے اشار ے پر نچانے لگا اوراسی علم کے خمار میں اپنے میں مگن بے سمت پرواز میں مشغول رہا۔
انسا نی علم نے بغیر کسی بنیاد کے صرف تخیل پر سوا ر ہو کر اپنے سفرکا آغاز کیا۔ پھروہ آسمانوں کی بلندیوں پر اُڑنے لگا، خلاؤ ں سے بھی پرے اُونچی اُڑان بھری، آسما ن پر علم کا جال پھیلا یا۔ چاند تک رسائی پالی بلکہ خلا میں ٹھکانا بھی بنایا۔ اس کے آگے مریخ پر کمندڈالی۔ اس علم کی کام یابی نے مجھ میں غرور و تکبر پیدا کیا،اسی غرور و تکبر نے کچھ آگے بڑھ کر خدا سے بغاوت کروادی، پھراسی ترقی کی انانیت نے فطرت میں تبدیلی کے لیے بضد کردیا۔ اورمیں شیطان کی ہر بات پر سرِ تسلیم خم کرتا چلاگیا، یہی میری سب سے بڑی بھول تھی۔ میرا نفس ہمیشہ سبز باغ ہی دکھاتا، نت نئے آرزوؤں اور تمناؤں میں مبتلا کرتاگیا۔ پھر اپنی خواہشات کی تکمیل پر عیش پرستی کی طرف ڈھکیلتا رہاتاکہ میں حقیقت سے غافل ہی رہوں۔
دراصل شیطان کے پرستار نفس نے اس ترقی کی بنیاد خدا سے بغاوت پر رکھی تھی۔ اسی نے مجھے ‘‘ڈالی’’ بنانے پر اُکسایا اور میں جب اس میں کام یاب ہوا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا۔ میں یہ بھی بھول گیا کہ خدا بھی کوئی ہستی ہے۔ میرا یہ علم اب اور سہولتوں کے لیے بضد تھا۔ میں ‘‘روبوٹ’’بنا کر بھی مطمئن نہ رہا بلکہ شیطانی اُکساہٹ اور اس کے بار بار ملنے کے اثرات نے مجھے ‘‘صوفیہ ’’ بنانے پر مجبور کردیا اور میں بالکل انسانی نما روبوٹ بنا کر اپنی کم علمی کی تشہیر کرنے لگا۔
مگر یہ بھی سچ ہے کہ علم کے اس خمار کے باوجود میرے اندر ایک طرح کی بے چینی ہمیشہ رہی۔ میرے علم میں جیسے جیسے وسعت آتی گئی،ا س کائنات کی تخلیق اور اس کا نظم و ضبط دیکھ کر میری حیرانی بھی بڑھتی گئی۔ ہر نئی ایجاد کی تہہ میں ایک خالق کی گواہی ضرور ملتی۔ مگر میں دنیا میں اپنے مقام و مرتبے کے دباؤ میں اس گواہی کا اعلان کرنے سے اپنے آپ کو روکتا رہا۔تاہم موقع موقع سے کسی طرح دبی دبی آواز میں ضمیر کی کرب کا اظہار بھی کرتا رہا۔ کبھی کہتا یہ کائنات ایک منظم نظام ہے۔ بہترین نظم و ضبط میں جکڑی ہے اور اسی کے تحت یہ اپنا کام انجام دے رہا ہ اور کبھی یہ کہتا کہ ایک طاقت ہے جو اس کائنات کو چلا رہی ہے۔ اس کے پیچھے ایک نا معلوم پاور فورس زبردست طریقے سے کام کر رہی ہے۔ یہ میرے اندرونی خلفشار کا اثر تھا یا نا معلوم اندرو نی طاقت یا پھر ایک چبھن جو ضمیر کی آواز اور اس کے اظہار کا حصہ بنتی گئی۔ ایک اَنہونی قوت، ایک آواز جس کو میں روک نہ سکا اور نہ میری کوئی چیز اس کو دبا سکی۔
ضمیر کو جاگتا دیکھ کرنفس نے میری سوچ کو پھر سے ترقی کی طرف گامزن کیا اور کہا تو نے علم کی بدولت اتنی ترقی کرلی کہ تو ایک مقام پر بیٹھ کر ہر ملک کی حرکت، اس کی ترقی، ہر فرد کے نقل ِ مقام کو معلوم کرسکتا ہے۔ دنیا کا کوئی مقام تیری دسترس سے باہر نہیں ہے۔
مگر میں کائنات کے رازوں کو جاننے کے غرور میں یہ بھول گیا کہ میں ہر پَل ہر لمحہ کسی کی نگاہ میں ہوں، کوئی میر ی حرکت بلکہ سوچ و فکر اور اِرادے سے بھی با خبر ہے۔ علم کے نشے نے مجھے خود فراموش سے احسان فراموش بنادیا۔ خدا کی طرف سے میرے لیے تنبیہات بھی آتی رہیں، مگرانسا نی عقل گم راہ کرتی رہی کہ اچھے برے دن آتے رہتے ہیں۔ زندگی میں جب پریشانیاں کم ہوتی ہیں تو کچھ آسانیاں بھی بڑھنے لگتی ہیں۔ اس طرح خدائی تنبیہات کو نظر انداز کر دنیا میری عادت بن گئی۔ کبھی ‘‘ڈینگو’’ نے مجھے بے بس کردیا تو کبھی ‘‘سوائن فلو’’ نے چیلنج کیا۔ تب بھی میری چھٹی حِس نے اس ‘‘دستک ’’ کو نہ جانا۔
میں بارہا یہ سوچتا کہ یہ علم کس کام کا جو معمولی سردی بخار جیسے التہابی امراض پر بھی قابونہ پاسکا۔ میرا علم تو آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ مگر یہ کیا کہ اپنی مکمل صحت کا انتظام ہی نہ کرسکا۔ میں ایک مچھر کے آگے بے بس ہو گیا۔ ایک مچھر نے مجھے میری اور میرے علم کی اوقات بتادی۔ مجھے وبائی امراض نے یہ سکھایا کہ میرے ہاتھ میں کچھ نہیں۔
مگر میری عقل پر پڑا پردہ اس مرض کے پھیلنے کے بعد چاک ہونے لگا۔ نہ میری دور اندیشی کام آئی۔ نہ میری مستقبل فہمی کام آسکی۔ اب لاک ڈاؤں ہے اور میں تنہائی میں قید ہوں، لیکن میرا احساس آزادی محسوس کررہا ہے۔ اب میں کائنات کی دستک کو سن رہا ہوں۔ میں سمجھ چکا ہوں کہ خدا جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ بندوں کو ایک حد تک ہی ڈھیل ملتی ہے اورایک مدت بعد اس کی پکڑ بھی سخت ہوتی ہے۔میرے دل پر یہ الہی فرمان دستک دے رہا ہے:
‘‘خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے۔ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے ان کو اُن کے بعض اعمال کا شاید کہ وہ باز آئیں۔’’ (سورۃ روم: ۴۱)
یہ بات بالکل ہی سچ ثابت ہوئی۔ میں نے اللہ کے عائد کردہ حدود سے تجاوز کرکے اپنے اوپرہی نہیں بلکہ تمام انسانوں پر ظلم ڈھایا۔ اللہ نے جینے کا طریقہ، کھانے کا سلیقہ اوراس میں حلال اور حرام کی تمیز بھی بتائی تھی۔ اس کو میں خاطر میں نہیں لایا۔جب کبھی میں اللہ کے قائم کردہ حدود سے آگے بڑھا،مصیبتیں میرے گلے پڑتی گئیں اور میں نے فطرت کے خلاف جاکر ‘‘امراض خبیثہ’’ کو اپنا مقدر بنالیا۔ خاندانی حقوق پامال کرکے اولاد کو مصیبت بنا لیا اور خود بھی اولاد کے لیے وبال ِ جان بن بیٹھا۔
میں آہستہ آہستہ فکر کی ٹھوکریں کھاتا ہوا حقیقت کی طرف گامزن ہونے لگا۔ میری فکر ی ٹھوکریں سامنے آتی گئیں اور ہر غلطی کا احساس ضمیر کے پاس جاکر نادِ م ہوتا رہا اور پھر ضمیر نے ایک حقیقت پسندانہ بات کہہ دی اوراس حقیقت کو آشکار کر دیا کہ یہ ‘‘دستک ’’ دنیائے زوال کی ‘‘دستک ’’ ہے۔ دنیا کے اختتام اور اس کے آخری پڑاؤ کی طرف اشارہ ہے۔ میری چھٹی حِس کہہ رہی ہے کہ یہ بھی ضرور ہونے والا ہے۔ انسان بہت جلد اپنی پسند اور ضروریات کی چیزوں سے محروم ہو جائے گا۔ خدایہ ضرور بتائے گا کہ انسان کتنا بے بس اور لاچار مجبور ہے۔ اس کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں۔ ایک دن ایسا ہونے والا ہے اورایک دن ایسا ضرورآئے گا۔ کوئی نہ کوئی حادثہ پیش ہو گا۔
دل میں یہ اندیشہ بار بار آتا ہے کہ آب و ہوا میں نا گہانی ایسی ہونے والی ہے کہ سیٹیلائٹ کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ یہ آپس میں ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ اپنا کام کرنا یک لخت بند کر دیں گے۔ یہ قیامت سے پہلے قیامت ہوگی۔ لوگوں کے اوسان خطا ہوجائیں گے۔ ان کی سوچ و فکر کی قوت ختم ہو جائے گی۔ نہ سیل فون اورنہ انٹر نیٹ کا م کرے گا۔اس سے وابستہ تمام چیزوں کا نظام ٹھپ ہو جائے گا۔ انسان بے بسی کے عالم میں کچھ سمجھنے کے قابل نہ ہوگا۔ وہ یہ سمجھ ہی نہ سکے گا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ شاید کہ جب ‘‘توبہ ’’ کا وقت انسان کے پاس کم سے کم رہے گا۔
میں فکر و تدبر کی لہروں کے ساتھ خیالات کے سمندر میں غوطے لگاتے ہوئے حقیقت کے ساحل کی طرف بڑھنے لگا۔ ضمیر کی چبھن،ندامت، شرمندگی، اندرونی خلفشار نے ان فکروں سے آزادہونے نہ دیا۔ ایک طائرانہ نظر ماحول پر ڈالتا ہوں تو پھر وہی سناٹا، خاموشی چھائی تھی۔ تیرے گناہ گار بندے کو شرمندگی نے گھر سے باہرنہ نکلنے دیا۔ اسی تنہائی سے تو میں سدا گھبرا تا۔ ہمیشہ بچنے کی کوشش کرتا رہا۔ یہ ضمیر تو ہے جو تنہائی کی چبھن سے بیدار ہوتا ہے، نفس لوامہ کی ہربات پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہوتاہے۔ یہی تو میری اناکو ہرا چھائی پر ابھارتا رہتا ہے۔ اس تنہائی کا مجھ پر احسان ہے کہ دل کے دروازے پر ہونے والی دستک سنائی دے رہی ہے۔ میں آج اپنی ہر غلطی کا اعتراف کر رہا ہوں۔ مجھے تیری طرف لوٹنے کے سوا کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔ تو عفو و درگزر کرنے والا غفور ورحیم ہے۔ گناہوں کو معاف کرنے والا، توبہ سے خوش ہونے والا ہے۔ اے خدا تیری ذات با کمال ہے، تیری صفات لا محدود، تیری بخشش کی کوئی انتہا نہیں۔ تیری رحمت کی کوئی حد نہیں۔ تیرے کرم و عنایت کا کوئی پیمانہ نہیں۔ تو یکتا ہے، واحد ہے، لا شریک ہے، توجبّار بھی ہے قہّار بھی، تمام کائنات کا خالق ہے، رازق ہے، پالن ہار بھی ہے۔ اے رب کسی بہانے ہی سہی شیطان کے فریب اور اس کی چالوں کو سمجھنے کی توفیق تو ملی۔ عاجزی، انکساری کے ساتھ اب میں تیری طرف آیا ہوں۔
یہ علم جو لوگوں کو بھٹکا تا رہا ہے آج وہی علم پوری عاجزی اور بےبسی سے بندوں کے سامنے تیری حقیقت، تیری سچائی، پاکی و بزرگی، تیری طاقت و قدرت کو بیان کررہا ہے۔ اس سچائی سے مجھے انکار نہیں کہ دنیا اب تیزی سے آخر ی مرحلے میں جاپہنچی ہے۔ بالکل سچ فرمایا ہے تیری طرف سے خبر دینے والے نے کہ :
‘‘دنیا اور آخرت بڑی تیزی کے ساتھ اپنے مقام سے کوچ کرچکے ہیں۔’’
یا اللہ، میں وقت کے تھپیڑے کھاتا ہوا کفِ افسوس ملتا ہوا تیرے حضور میں آرہا ہوں۔ اے خدا مجھے مہلت دے کہ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرسکوں۔ میں اپنے کیے پر پشیماں ہوں۔ اپنے اعمال پر شرمندہ ہوں۔ تیری رضا کی اُمید لیے تیرے حضور آیا ہوں۔ اپنی بے پناہ رحمتوں سے نواز دے۔
آمین…… یا رب العالمین۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2021