’دعوت‘ عربی کا لفظ ہے۔ یہ لفظ متعدد معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’دعوتُ اللہ‘ اس کے معنی ہیں ’میں نے اللہ سے گریہ وزاری کے ساتھ مانگا ،یا ’دعوتُ حامداً‘ اس کے معنیٰ ہیں، میں نے حامد کو بلایا یا میں نے حامد کی توجہ چاہی، دعا بالشئی دعوۃً ودُعائً ودعوی کے معنی ہیںکسی چیز کو طلب کرنا یا اسے پیش کرنے کا مطالبہ کرنا۔ دعا بالکتاب کے معنی ہیں انھوں نے کتاب منگوائی یا کتاب پیش کرنے کو کہا، دَعَا فلاناً کے معنی ہیںکسی کو آواز دینا یا بلانا، دعا ای الشئی کے معنی ہیںکسی کو کوئی کام کو کرنے کے لیے اُبھارنا، آمادہ کرنا یا ترغیب دینا۔ جیسے کہاجاتا ہے: دعاہ ای القتال، ای الصلاۃ، ای الدین انھوں نے فلاں کو قتال پر اُبھارا، خود کو نماز کے لیے آمادہ کیا یا فلاں کو دین کی ترغیب دی۔ دعالہ کے معنی ہیںکسی کے لیے خیر کی دُعا کرنا یا اس کے لیے اچھی آرزو کرنا۔ دعا علیہ کے معنی ہیں کسی کے لیے بددعا کرنا یا کسی کا برا چاہنا۔ دعا فلاناً کے معنی ہیںکسی سے خواہش کرنا کہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھائے۔ یہ بڑا وسیع المفہوم لفظ ہے۔ اس سے اور بھی مفاہیم نکلتے ہیں۔ لیکن اِس کا اصطلاحی مفہوم دعوتِ الی الدین ہے، جس کے معنیٰ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی شریعت کی کامل پیروی کے مطالبے کے ہیں۔ اس کی اساس قرآن مجید کی یہ آیت ہے:
قُلْ ہٰذِہٰ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْآ اِلٰی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ﴿یوسف:۱۰۸﴾
اے نبی! آپ ان سے صاف کہہ دیجیے کہ میرا راستا تو یہی ہے۔ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستا دیکھ رہاہوں اور میرے متبعین بھی۔
بعض علما نے دعوت الی الدین کامطلب علما اور دینی علوم کے حامل افراد کا عام انسانوں کو دینی ودنیوی نفع ونقصان سے باخبر کرنا بتایا ہے اور بعض نے عامۃ الناس کو گم راہی اور شر سے بچانا اور بعض نے اس کے معنیٰ انسانوں کو خیر وہدایت کی ترغیب وتعلیم دینے، بھلائیوں کی طرف بلانے اور برائیوں سے روکنے کے بتائے ہیں۔ لیکن لفظی فرق وتفاوت کے ساتھ سب کا مقصد ومدعا ایک ہی ہے۔ کتاب وسنت کے روشن دلائل کی روشنی میں اِس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ دعوت الی الدین ،ایمان باللہ اور اتباع رسول امت پر فرض کفایہ ہے۔ قرآنِ مجید کی اس آیت سے اِس نظریے کی تصدیق ہوتی ہے:
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً ط فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْاْ قَوْمَہُمْ تِذَا رَجَعُوْا اِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ۔ ﴿التوبہ﴾
اور کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے۔ مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے کہ وہ ﴿غیر مسلمانہ روش سے﴾ پرہیز کریں۔
اور جب منکرات کو غلبہ حاصل ہوجائے، لوگ ذوق وشوق اور دل چسپی کے ساتھ برائیوں کی طرف بڑھنے لگیں، معروفات مغلوب ہوجائیں اور معاشرے میں انھیں کھلم کھلا ترک کیا جانے لگے تو دعوت فرض عین کے درجے میں آجاتی ہے۔ اس سے انکار یابے توجہی اللہ کے حکم سے انکار اور بے توجہی ہوگی ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اُدْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ ﴿النحل﴾
اے نبی! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیجیے حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کیجیے ایسے طریقے پر جو بہتر ہو۔
یہاں امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ یہی دلیل وجوب ہے۔ اسی سے اس کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاے کرام علیہم السلام کی سیرتوں سے بھی اس وجوب اور فرضیت کی سند ملتی ہے۔ قوم نوح کا شرک وگم راہی میں ملوث ہونا اور حضرت نوح علیہ السلام کا دعوت الی الدین کا فریضہ انجام دینا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد اور قوم کے مشرکین کو دعوت الی الدین پیش کرنا اور بتوں کو پاش پاش کرنا، حضرت ہود اور حضرت صالح حضرت شعیب علیہما الصلوٰۃ والسلام کا فریضہ دعوت الی الدین انجام دینا، حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کا دربار فرعون میں جاکر دعوتِ توحید پیش کرنا اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کفارِ مکہ کو بلا کر انھیں دعوتِ توحید پیش کرنا اور کھلم کھلا اعلاے کلمۃ الحق کرنا یہ سب دعوت کے وجوب اور فرضیت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ایسی صورت میں ہر مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق اللہ کے عائد کردہ اِس اہم فریضے کی ادائی کی کوشش کرے۔ تاکہ اپنے خالق ومولا کے سامنے اسے سرخ روئی حاصل ہوسکے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلیٰ الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ۔ ﴿آل عمران ﴾
تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں، جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں ۔
قرآن مجید کی اسی سورۃ میں آگے ایک جگہ اور فرمایا:
کُنتُمْ خَیرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ ۔ آل عمران:﴾
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو، جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لیے میدان میں لایاگیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت مشہور حدیث ہے:
من رأی منکم منکراً فلیغیرہ، بِیَدِہٰ، فاِن لم یَسْتَطِعْ فبلسانہ، وان لم یستطع فبقَلْبِہٰ وذالک اضعف الایمان۔
تم میں کا جو شخص بھی کوئی غلط کام ہوتا ہوا دیکھے ،ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اُسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اُسے زبان سے روک دے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو وہ دل سے اُسے برا سمجھے۔ البتہ یہ کم زوریِ ایمان کادرجہ ہے۔
قرآن مجید کی مندرجہ بالاآیات اور رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور ومعتبر حدیث سے اس نتیجے تک بہ آسانی پہنچاجاسکتا ہے کہ دعوتِ دین ایک ایسا فریضہ ہے، جس سے کسی بھی مسلمان کو مجالِ انکار وروگردانی نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک ایسا فریضہ ہے، جو تمام انبیاء ورسل پر عائد ہوتا رہا ہے اور سب نے اس کی ادائی کی بھرپور جدوجہد کی ہے۔
قرآنِ مجید کی ایک آیت ہے:
یٰآََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لاَیَضُرُّکُمْ مَنْ ضَ لَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ ط اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعاً فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴿المائدہ﴾
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گم راہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا، اگر تم خود راہِ راست پر ہو۔ اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے۔ پھر وہ تم کو بتادے گا کہ تم کیاکرتے رہے ہو۔
بعض لوگ اِس آیت سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صرف اپنی ہی اصلاح کی کوشش کافی ہے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکرضروری نہیںہے۔ یہ نتیجہ نکالنا قطعی درست نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں اِذَا اھْتَدَیْتُمْ کا ٹکڑا اس نقطہ نظر کی تغلیط کے لیے کافی ہے۔ اس آیت کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ آدمی بس اپنی نجات کی فکر میں رہے، اپنی ہی اصلاح وتربیت اس کی زندگی کا مقصد ہو اور دوسرے کیا کچھ کررہے ہیں یا ان کی زندگی کس راہ پر گام زن ہے، اس سے اُسے کسی قسم کا تعلق نہ ہونا چاہیے۔ بل کہ اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ آدمی کسی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی ٹوہ میں نہ رہے۔ خواہ مخواہ کسی کی ذاتی زندگی میں گھسنے کی بہ جاے وہ اپنی فکر کرے اور اپنے اعمال کو درست رکھنے کی کوشش میں لگا رہے اور اس کے ذمّے اللہ اور رسول کی طرف سے جو ذمے داریاں عائد ہوئی ہیں، ان کی فکر سے بھی غافل نہ رہے۔ اگر لوگ سمجھانے، بجھانے اور تعلیم وتلقین کے باوجود نیکی اور بھلائی کا راستا نہ اختیار کریں، اپنی کج روی پر قائم رہیں تو یہ تمھارے لیے کوئی نقصان کی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ تم خود راہِ راست پر ہو اور نیکی وتقویٰ کی زندگی بسر کررہے ہو۔ خلیفہ اوّل سیدناحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت سے متعلق لوگوں کی غلط فہمی کی تردید کرتے ہوے ایک خطبے میں فرمایا:
’’لوگو! تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اِس کی غلط تاویل کرتے ہو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوے سنا ہے کہ جب لوگوں کا یہ حال ہوجاے کہ وہ برائی کو دیکھیں اور اس کو بدلنے کی کوشش نہ کریں، ظالم کو ظلم کرتے ہوے پائیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو بعید نہیں کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے۔ خدا کی قسم تم پر لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔ ورنہ اللہ تم پر ایسے لوگوں کو مسلط کردے گا، جو تم میں سب سے بدتر ہوں گے اور وہ تم کو سخت تکلیفیں پہنچائیں گے۔ پھر تمھارے نیک لوگ خدا سے دُعائیں مانگیں گے ،مگر وہ قبول نہ ہوں گی۔ ﴿ترجمہ قرآن مجید، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ﴾
خواتین اور دعوتِ دین
ایک عام رجحان یہ بھی بن چکا ہے کہ دعوت وتبلیغ اور اشاعت دین کی ذمے داری صرف مردوں پر ہے۔ عورتوں پر اس کی کوئی ذمے داری نہیں عائد ہوتی۔ ان کا کام تو صرف یہ ہے کہ وہ گھرکی چہار دیواری کے اندر چولھے چکی میں لگی رہیں، بچوں کی تعلیم وتربیت پر زور دیں اور نماز اور روزے کے ذریعے اپنی زندگی سنوارتی رہیں۔ باہر کے سارے کام مردوں ہی کے لیے ہیں۔ جب کہ کتاب وسنت میں جو بھی احکام آئے ہیں بالعموم ان کے مخاطب مرد اور عورت دونوں ہیں۔ یہ بات متعدد علما نے صراحت سے لکھی ہے کہ شریعت میں جو احکام مطلقاً بہ صیغۂ مذکر آئے ہیں اور ان میں صیغہ مونث کا استعمال نہیںہوا ہے، وہ مرد اورعورت دونوں کے لیے ہیں۔ اس لیے کہ اجتماع جنسین کی صورت میں مذکر کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید کی یہ آیت:
یٰآَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ۔ ﴿البقرہ:﴾
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرؤں پر روزے فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقوے کی صفت پیدا ہوگی۔
اس آیت میں گرچہ خطاب بہ صیغۂ مذکر ہے، لیکن یہاں مراد مرد اور عورت دونوں ہیں۔ اِس طرح کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اِس سے یہ بات دو اور دو چار کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ دعوت وتبلیغ اور اشاعت دین کی ذمے داری اپنی اپنی صلاحیت واستعداد کے مطابق مرد اور عورت دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰنِسَآئ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النساء اِنِ اتَّقَیْْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٰ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاًمَّعْرُوْفاً ﴿الاحزاب:﴾
اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑجائے، بل کہ صاف سیدھی بات کرو۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوْفاً، کی تفسیر میں فرماتے ہیںکہ اس سے مراد ہے: بھلائیوں کا حکم دو اور برائیوں سے روکو۔
قرآن مجید میں ایک جگہ آیا ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ۔ ﴿التوبہ﴾
مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
رواہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: کلکم راع، وکلکم مسئول عن رعیتہ، فالامام راع وھو مسئول عن رعیتہ، والرجل راع علی أھل بیتہ وھو مسئول عن رعیتہ، والمرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا وھی مسئولۃ عن رعیتھا والرجل راع فی مال ابیہ وھو مسئول عن رعیتہ، فکلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ۔ ﴿رواہ البخاری ومسلم﴾
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں کا ہر شخص راعی ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ وہ امام جو لوگوں کا راعی ہے، وہ اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ وہ مرد جو کہ اپنے گھروالوں کا نگراں ہے، وہ اپنے گھروالوں کے بارے میں جواب دہ ہے۔ وہ عورت، جو اپنے شوہر کے گھر والوں کی ذمے دار ہے، وہ اپنے شوہر کے گھر اور آل اولاد کے بارے میں جواب دہ ہے۔ وہ فرد جو کہ ذمے دار ہے، اپنے باپ کے مال کا، وہ اپنے باپ کے مال اور رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے۔ پس تم میں کا ہر شخص نگراں وذمے دار ہے اور ہر شخص اپنی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔
جب ہم صحابیات سے متعلق کتابیں پڑھتے ہیں اور ان کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں بے شمار ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ انھوں نے دعوت دین اور اشاعت اسلام کو ایک اہم فریضہ سمجھ کر اُسے ترجیحی طور پر اپنی زندگی میں شامل کیا اور اپنی حیثیت وبساط کی حد تک اُسے ادا کرنے کی کوشش کی۔
دعوتِ حق: اہمیت وضرورت
گزشتہ سطور میں مذکور آیات قرآنی اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دعوت دین کی اہمیت وضرورت صاف اور واضح طور پر سامنے آجاتی ہے۔ موجودہ سطح کے سماجی اور معاشرتی حالات نے اس کی اہمیت وضرورت کو دوچند کردیا ہے۔ اس وقت پوری دنیا عجیب قسم کی اخلاقی وروحانی بے راہ روی ، ذہنی وفکری بگاڑ اور دینی ومذہبی طور پر گم راہی وکج فکری سے دوچار ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے تمام مسلمانوں خصوصاً علما اور دانشوروں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اُٹھ کر انسانوں کو صحیح سمت دیں اور اُنھیں اس راستے پر گام زن کریں، جو ان کی فلاح وکام رانی کا راستا ہے۔ اِس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس حدیث کو خصوصیت کے ساتھ سامنے رکھیں ، جس میں آپ نے فرمایا ہے: الدّین النّصیحۃ﴿دین خیر خواہی کا نام ہے﴾ جب یہ بات آپ نے تین بار فرمائی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس کے لیے؟ آپ نے فرمایا: اللہ ،اس کے رسول اور عام مسلمانوں کے لیے ۔ آپ کا یہ مبارک قول بھی ہمیشہ ملحوظ رہناچاہیے:
بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْاٰیَۃ۔
اگر تمھیں میری ایک حدیث بھی معلوم ہوتو اسے لوگوں تک پہنچادو۔
یہ حدیث بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے:
لتأمُرُوْنَ بالمعروف وَیَنْھَوْنَ عن المنکر اَوْ یسلطن اللّٰہ علیکم شرارکم فیدعوا خیارکم فلایستجاب لھم۔
تم بھلائیوں کا حکم کرو، برائیوں سے روکو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تمھارے اوپر شریروں کو مسلط کردے۔ پھر تمھارے نیک لوگ دُعائیں کرتے رہیں مگر ان کی دُعائیں قبول نہ ہوں۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عم زاد وداماد اور دعوتِ حق کی راہ میں ہر طرح سے معاون ومددگار رہنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
یا علی لان یھدی اللّٰہ بک رجلاً واحداً خیرلک من حمرالنعم۔ ﴿باب مناقب علی، بخاری﴾
اے علی! اللہ تمھارے ذریعے سے اگر ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو وہ تمھارے لیے دنیا کے نفیس سیم وزر سے بہتر ہے۔
یہ سب وہ چیزیں ہیں جن سے دعوتِ دین کی اہمیت وضرورت واضح ہوتی ہے۔ یہ اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ہر مسلمان کو اپنی حیثیت واستطاعت کے مطابق پوری تن دہی اور اخلاص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے عائد کردہ اس ذمے داری میں لگ جانا چاہیے۔ بہ صورت دیگر اللہ تعالیٰ کی سخت باز پرس سے نہیں بچا جاسکتا۔
﴿جاری﴾
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2012