آٹھ سال کے وقفے کے بعد جماعت اسلامی ہند کے ارکان کا کل ہند اجتماع نومبر ۲۰۱۰ کے اوائل میں دہلی میں منعقد ہونے جارہاہے۔ اِس موقعے پر مناسب معلوم ہوتاہے کہ جماعت کی بنیادی خصوصیات کو ایک بار ذہن میں تازہ کرلیاجائے۔
جماعت اسلامی کے بنیادی لٹریچر کے مطالعے سے اِس جماعت کی پانچ بنیادی خصوصیات ہمارے سامنے آتی ہیں:
﴿الف﴾ ماضی کی تحریکاتِ اسلامی سے ہم آہنگی کاشعور
﴿ب﴾ اُمّت کے ساتھ یک جہتی کااحساس
﴿ج﴾ فرقہ بندی سے اجتناب
﴿د﴾ شورائیت اور احتساب کی روایات کی تجدید
﴿ہ﴾ اُمّتِ مسلمہ اور عالمِ انسانیت کے درمیان تعلق کی نشان دہی
ماضی کی اِسلامی تحریکات
جماعت اسلامی کا تاسیسی اجتماع لاہور میں ۱۹۴۱ میں منعقد ہوا۔ اُس وقت تک مُلک تقسیم نہیں ہواتھا۔ جماعت کے اس تاسیسی اجتماع میں جو پچہتر﴿۷۵﴾ افراد شریک ہوئے، وہ پورے مُلک سے آئے تھے ۔ جماعت کا جو دستور انھوںنے بنایا وہ ایک عالمی جماعت کا تھا۔ اِس دستور میں جماعت اسلامی کا دائرۂ کار کسی ایک مُلک تک محدود نہیں کیاگیاتھا۔ یوں تو تاسیسی اجتماع کے تمام شرکاء کو جماعت کابانی کہاجاسکتا ہے، لیکن اُن میں کلیدی شخصیت مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی تھی۔ مولانا نہ صرف اِس اجتماع کے داعی تھے ،بلکہ وہ جماعت کی بنیاد جن افکار وخیالات پر رکھی گئی، اُن کو ایک مرتب لٹریچر کی صورت میں پیش کرنے والے مفکر بھی تھے۔
مولانا مودودیؒ کی ایک اہم کتاب ’تجدید و احیائے دین‘ ہے۔ کتابی شکل میں شائع ہونے سے قبل یہ کتاب ماہ نامہ ’الفرقان‘ کے ’شاہ ولی اللہ نمبر﴿۱۹۳۵﴾‘ میں ایک مضمون کی شکل میں چھپ چکی تھی۔ محترم مصنف نے اِس کتاب میں اُن تحریکات کا اِجمالی تذکرہ کیا، جو خلافتِ راشدہ کے بعد مختلف ادوار میں اٹھیں اور انھوں نے اُمتِ مسلمہ کو دوبارہ اُس کے اصل مقام پر کھڑاکرنے کی کوشش کی۔ تجدیدی تحریکات کا یہ تذکرہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے شروع ہوتاہے اور شاہ ولی اللہؒ کے کام پر ختم ہوتا ہے۔ اِن مجددین محترم کے کارناموں کے تعارف سے قبل مولاناؒ نے خود کارِ تجدید کا تعارف کرایا ہے۔
مولانا مودودیؒ نے یہ بات واضح کی ہے کہ کارِ تجدید کا اصل منشاء جاہلیت کے تسلّط کو ختم کرنا ہے۔ یہ وہی کام ہے جو انبیاء علیہم السلام انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ مولانا نے نبی اور مجدد کے کام میں جو مماثلت پائی جاتی ہے، اُس کی واضح نشاندہی کی ہے۔ مولانا نے بتایا ہے کہ مجدد نبی تو نہیں ہوتا اِس لیے کہ نبوت کا دروازہ بندہوچکا ہے، لیکن وہ اپنے مزاج میں مزاج نبوت سے بہت قریب ہوتا ہے۔ اِسے اللہ ایسی بصیرت عطا کرتاہے کہ وہ حالات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اِس وقت جاہلیت کی گرفت کہاں تک پہنچ چکی ہے۔ اِس جائزے کے بعد وہ یہ سوچتا ہے کہ اب کِس جگہ ضرب لگائی جائے کہ جاہلیت کی گرفت ٹوٹے اور دین کے احیاء کے لیے راہ ہموار ہو۔
مولانامودودیؒ نے اپنی کتاب ’تجدید واحیائے دین‘ میں جو تاریخی تجزیہ پیش کیا، وہ جماعت اسلامی کے قیام کے لیے پس منظر کی حیثیت رکھتا ہے۔ مولانا نے جِس نئی جماعت کے قیام کی دعوت دی، اس کا کام اس کارِ تجدید کاتسلسل ہے، جو امت کے ماضی کے اندر انجام پاتا رہاہے۔ جماعت اسلامی کے وابستگان کو ماضی کے اِن تجربات سے حوصلہ حاصل کرنا ہے، بزرگوں کی قربانیوں کے اعلیٰ نمونوں سے اپنے جذبات کو جِلادینی ہے، اُن کے اچھے اقدامات کی اپنے حالات کے مطابق پیروی کرنی ہے اور اُن کی لغزشوں سے بچنا ہے۔ یہ سارے کام اُس وقت ہوسکتے ہیں، جب جماعت اسلامی کے کام کو امت کی تاریخ کے اندر جاری تحریکاتِ تجدید کے سلسلے کی ایک کڑی سمجھاجائے۔
جماعت اسلامی کے دستور میں عقیدہ لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ کی تشریح کے ذیل میں بنیادی اصولوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ اِن اصولوں میں ایک اہم اصول ‘معیارِ حق’ کی اِصطلاح کے متعلق ہے۔ جماعت کے فہم کے مطابق صحیح اسلامی رویّہ یہ ہے کہ یہ طے کرنے کے لیے کہ کون سا نقطۂ نظر اور رویہّ برحق ہے اور کون برسرِحق نہیں ہے، صرف کتاب و سنت کو معیار بنایاجائے۔ اس اصول کے مطابق انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کوئی فرد بھی ایسا نہیں ہے، جِس کے کام کو کتاب و سنت کے معیار پر نہ پرکھاجاسکتا ہو۔ اِس اصول کا انطباق جس طرح حال کی شخصیات اور افراد پر ہوگا، اُسی طرح ماضی کی شخصیات پر بھی ہوگا۔ اگر ماضی کی تحریکاتِ تجدید اور مجددین کرام کے کارناموں سے فی الواقع فائدہ اٹھانا ہے تو اس اصول کا استعمال ضروری ہے۔
چنانچہ اس اصول کا استعمال کرتے ہوئے خود مولانا مودودیؒ نے ماضی کی تحریکات کا دیانت دارانہ جائزہ لیاہے اور جہاں جہاں کمزوریاں اور لغزشیں محسوس ہوئیں، اُن کی صاف صاف نشاندہی کی ہے۔ اِس ضمن میں مولانا مودودیؒ نے ولی اللٰی تحریک اور تحریک شہیدین کے سلسلے میں تین باتوں کا تذکرہ کیاہے، جن کے سلسلے میں ان تحریکات کامطالعہ کرنے والے ہر طالب علم کو فی الواقع تردد محسوس ہوتاہے:
﴿الف﴾ ’مغربی طاقتوں خصوصاً انگریزوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجوہات کیا ہیں اور اس طاقت کے پیچھے کون سے سماجی وتاریخی عوامل کارفرما ہیں‘ اِس امر کی کوئی تحقیق ’تحریک شہیدین‘ کے قائدین نے نہیں کی۔
﴿ب﴾ مسلمانوں میں جاری روایتی تصوف کی کمزوریوں سے واقف ہونے کے باوجود اِس تصوف کی رائج اِصطلاحات سے پرہیزنہیں کیاگیا، جب کہ احتیاط کا تقاضا یہ تھا کہ جرأت کے ساتھ مروجہ تصوف میں اِصلاح کی جاتی۔
﴿ج﴾ سرحد کے علاقے میں عملی اقدام کرنے سے قبل اُس علاقے کے عوام کو اِصلاحی انقلاب کے لیے تیار نہیں کیاگیا۔ گویا سماجی تبدیلی سے پہلے، قبل از وقت سیاسی اقدام کردیاگیا۔
جماعت اسلامی کے وابستگان کو یہ بات یاد رکھنی ہے کہ ماضی کی تجدیدی کوششیں اُن کے لیے نمونہ بھی ہیں تاکہ اُن سے فائدہ اٹھایاجائے۔ لیکن جو غلطیاں ماضی کے کاموں میں نظرآئیں اُن سے انھیں بچنا بھی ہے۔
اُمّت سے تعلّق
اُمت کے ماضی سے تعلّق کے علاوہ اُمت کے حال سے تعلق کااظہاربھی جماعت کے قیام کے دوران پیش کردہ امور سے ہوتاہے۔ تاسیسی اجتماع میں مولانا مودودیؒ نے یہ پہلو واضح کیاتھا۔ انھوں نے بتایاکہ اِس نئی جماعت کے قیام کی دعوت دینے سے قبل انھوں نے مُلک میں موجود مسلمانوں کی اہم تنظیموں کو اصل اسلامی نصب العین یاد دِلایا اور اُن سے اپیل کی کہ وہ مسلمانوں کے وقتی مسائل کے حل کے لیے کام کرنے کے بجائے بنیادی اِسلامی نصب العین کے لیے کام کریں۔ اِسی طرح مولانانے یہ اپیل بھی کی تھی کہ مسلمانوں کو مختلف وقتی مقاصد کی طرف بلانے کے بجائے مسلمانوں کی جماعتوں کو یہ چاہیے کہ وہ ’الھدیٰ‘ اور دینِ حق کی طرف مسلمانوں کو اور تمام انسانوں کوبلائیں۔ یہ اپیل کامیاب نہیں ہوئی۔ مسلمانوں کی قابل ذکر جماعتوں کے نزدیک مسلمانوں کے مسائل نیز آزادی وطن اور قیام پاکستان کے مقاصد کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ وہ جماعتیں اس کے لیے آمادہ نہ ہوسکیں کہ حالاتِ حاضرہ کے پیدا کردہ وقتی مسائل سے قطع نظرکرکے اصل اِسلامی نصب العین کے لیے براہِ راست کام کریں۔ اِسی طرح یہ جماعتیں اِس بات کے لیے بھی آمادہ نہ ہوسکیں کہ ’الہدیٰ‘ اور ’دین حق ‘ کی طرف مسلمانوں اور انسانوں کو دعوت دیں۔ بجائے اِس کے کہ آزادی وطن یا قیامِ پاکستان کو اصل دعوت قرار دیں۔
مسلمانوں کی جماعتوں نے جو رویّہ اختیار کیا، اُس کی بِنا پر مولانا مودودیؒ کو یہ قدم اٹھاناپڑا کہ وہ ایک ایسی نئی جماعت کے قیام کی دعوت دیں جو براہِ راست اِسلامی نصب العین کے لیے کام کرے۔ اِس نئی جماعت کی تاسیس کے باوجود امت کے حالات اور مسائل سے جماعت نے ہمیشہ سرگرم دلچسپی لی اور ساتھ ہی یہ کوشش بھی ہرمرحلے میں جاری رکھی کہ مسلمانوں کی اہم جماعتیں اور ادارے اصل اِسلامی نصب العین کو اختیارکرلیں اور اپنی تمام دلچسپیوں کو اِس بنیادی نصب العین کے تابع رکھیں۔ امت کے حالات سے سرگرم تعرّض کا کام مولانا مودودیؒ نے جماعت کے قیام سے قبل ہی شروع کردیاتھا۔ اِس کی پہلی مثال ’الجہاد فی الاسلام‘ کی تصنیف ہے۔ اِسلام کے تصور جہاد پر عیسائی، آریہ سماجی اور دوسرے حلقوں کی طرف سے جو اعتراضات کیے جارہے تھے، مسلمانوں کی طرف سے اُن کا کوئی معقول و مدلّل جواب نہیں دیاجارہاتھا۔ اِسی خاموشی کی بنا پر مسلمانوںمیں معذرت خواہانہ ذہنیت بد دِلی اور Demoralization کی کیفیت پیداہورہی تھی۔ مولانا کی کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ نے جو ۱۹۲۷ میں شائع ہوئی اِس فضا کو ختم کیا اور مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے کا اعتماد اِسلام پر بحال کرنے میں اہم رول ادا کیا۔
دوسرا فکری چیلنج جو سامنے تھا وہ اُن موضوعات سے متعلق تھا، جن میں اِسلام اور فکرِ مغربی کا نقطہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ بلکہ متضاد ہے مثلاً سود، پردہ، ضبطِ ولادت، سیکولرزم اور نیشنلزم۔ مولانا نے اِن سب موضوعات پر لکھااور فکرِ مغربی پراتنی معقول و مدلّل تنقید کی کہ اِس فکر کا طلسم ٹوٹ گیا اور مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے کی ایک بڑی تعداد کا اِسلام پر یقین بحال ہوا۔ مولاناؒ کے اِس کارنامے کا اعتراف اُن دینی حلقوں نے بھی کیا،جو جماعت سے کسی نوعیت کا اختلاف رکھتے رہے ہیں۔ بعد میں مولانا کی یہ تحریریں ہندستان سے آگے بڑھ کر عالمِ اسلام کے ہرگوشے میں پہنچیں۔ انگریزی ، عربی اور دوسری زبانوں میں ان کے ترجمے ہوئے اور ہندستان کی طرح دوسرے ممالک کے مسلمانوں پر مغربی فکر کے اثرات کا ازالہ کرنے میں مولانا کی اِن تحریروں سے غیرمعمولی مدد مِلی۔
مسلمانوں کے سامنے ایک اور چیلنج داخلی تھا۔ ایک طرف مغربی تہذیب اور فکر نے مسلمانوں کے ذہنوں کو منتشر کررکھاتھا اور اُن کے ایمان کی بنیادوں کو متزلزل کردیاتھا، دوسری طرف خودمسلمانوں کے معاشرے کے داخلی مسائل حل طلب تھے۔ مولانا مودودیؒ نے مسلمانوں کے اہلِ علم و فکر کو توجہ دِلائی کہ مسلمانوں کے معاشرے میں جو اِصلاحات مطلوب ہیں، اُن کو اپنے غور وفکر کا موضوع بنائیں۔ مولانا کی کتاب ’حقوق الزوجین‘ اِس کوشش کی آئینہ دار ہے۔ اِس کتاب میں جو اِصلاحات تجویز کی گئی ہیں، اَب تک ہمارا مسلمان سماج اُن کی طرف توجّہ نہیں کرسکا ہے۔ اِسی طرح مولانا نے مروجّہ نظامِ تربیت ﴿تصوف﴾ کے متبادل کو موضوعِ گفتگو بنایا۔ مولاناؒ نے اِس موضوع پر صِرف اشارے کیے لیکن جماعت کے دوسرے وابستگان نے اِس پر مبسوط انداز میں لِکھا۔ اِس سلسلے میں مولانا امین احسن اِصلاحی کی تصنیف ’’اِسلامی تزکیہ نفس‘‘ مولانا صدر الدین اِصلاحی کی ’اساسِ دین کی تعمیر‘ اور ڈاکٹر محمدعبدالحق انصاری کی ’مقصدِزندگی کا اسلامیِ تصور‘ کاذکر کیاجاسکتاہے۔ البتہ اُمت کے عام اہلِ علم نے جماعت کے اہل قلم حضرات کی اِن کاوشوں کا عام طورپرکوئی نوٹس نہیں لیا۔ جماعت فکر مغربی کو شکست دینے میں تو کامیاب ہوئی لیکن وہ داخلی محاذ پر اِس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکی کہ مسلمانوں کے رائج عائلی نظام اور نظامِ تربیت میں ضروری اِصلاحات کرسکے۔
آزادی سے قبل امت مسلمہ کی جو سب سے بڑی خدمت مولانا مودودیؒ نے انجام دی وہ یہ تھی کہ اپنی کتابوں ’مسئلہ قومیت‘ اور ’سیاسی کش مکش‘ کے ذریعے مسلمانوں کو کانگریس کی تحریک میں ضم ہونے سے بچایا اور اُن کے اجتماعی ذہن کو اِس کے لیے آمادہ کردیاکہ وہ اپنی مستقل ملّی حیثیت پر اِصرار کریں اور اپنی تحریکات کو اِسی انداز میں چلائیں۔
امت کے مسائل اور حالات سے ایجابی تعلق اور اِصلاحِ حال کی تدابیر اختیارکرنے کا یہ رویّہ جو جماعت نے تقسیم ہند سے قبل اختیار کیاتھا، وہ تقسیم کے بعد بھی جاری رہا۔ جماعت اسلامی ہند نے اس سلسلے میں متعدد کام کیے۔ مثلافساد زدہ مسلمانوں کے حوصلے کی بحالی اور اُن کی رہ نمائی، دینی تعلیم کا نظم، دینی تعلیمی کونسل کا قیام، فساد زدگان میں ریلیف ورک، پرسنل لا کے تحفظ کے لیے بورڈ کے قیام میں سرگرم شرکت اور مسلمانوں کی تنظیموں کے مشترک پلیٹ فارمس کا قیام۔ اِسی طرح جماعتِ اسلامی پاکستان نے ’نظامِ اسلامی‘ کے قیام کامطالبہ کیا۔ علماء کی مدد سے مشترک نکات منظورکرائے اور پھر اِسلامی دستور منظور کرانے کے لیے کوشش کی۔ پاکستان میں ابھرنے والی علاقائی تحریکوں کا مقابلہ کیا۔ قادیانیت کی روک تھام کے لیے عوام وخواص اور حکومت کو توجہ دِلائی اور موثر اقدامات کیے۔ اِسی طرح فتنہ انکارِ حدیث کا بھی مقابلہ کیا۔
مندرجہ بالا روایت کو باقی رکھتے ہوئے جماعت کے وابستگان کو اِس کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ امت کے مسائل، مسلمانوں کے حالات اور ان کے اداروں سے جماعت کاگہرا تعلق قائم ہو اور قائم رہے۔ جماعت کا رول یہ ہونا چاہیے کہ وہ مسلمان سماج کے اندر پیدا ہونے والے تمام رجحانات سے باخبر رہے، منفی رجحانات کا بروقت تدارک کرے ،اچھے رجحانات کو پروان چڑھائے اور اِس سلسلے میں امت کے تمام صالح عناصر کا تعاون حاصل کرے۔
فرقہ بندی سے اجتناب
جماعت اِسلامی کے تاسیسی اجتماع کے موقعے پر ہی مولانا مودودیؒ نے شرکاء اجتماع کو باخبرکردیاتھاکہ اِس جماعت کو فرقہ نہیں بنناہے۔
‘‘فرقے کیسے بنتے ہیں؟’’ اِس سوال پر بھی مولانا مودودیؒ نے روشنی ڈالی۔ مولانا نے بتایاکہ فرقہ بننے کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ امت کا کوئی گروہ اپنی دعوت میں کسی ایسے جز کااضافہ کردیتا ہے جو اصل اسلامی دعوت میں موجود نہیں ہوتا یا اِسلامی دعوت کے کسی جز کو حذف کردیتا ہے۔ کچھ گروہ ایسا کرتے ہیں کہ وہ اجزاء دعوت میں تو کوئی کمی بیشی نہیں کرتے، لیکن دین میں اُن کی اہمیت کو گھٹا بڑھادیتے ہیں۔ مولاناؒ نے تنبیہ کی کہ جماعت اِس سلسلے میں محتاط رہے۔ وہ دعوتِ اسلامی کے مختلف پہلوؤں میں اہمیت کی جو ترتیب پائی جاتی ہے اُس کو علیٰ حالہ برقرار رکھے۔ اگریہ احتیاط ملحوظ رکھی جائے تو فرقہ بن جانے کاخطرہ ختم ہوجاتا ہے۔
مولانا نے فرقہ بننے کی ایک دوسری وجہ بھی بتائی ہے۔ وہ یہ ہے کہ نبی کے بعد کسی شخصیت کو یہ مقام دے دیاجائے کہ اُس پرکسی حیثیت سے ایمان لاناضروری ہو۔ ماضی میں یہ غلطی بعض گروہوں نے کی ہے کہ اپنے رہ نماؤںکو ’مہدی‘ قرار دے کر اسی حیثیت میں اُن کی شخصیت کی طرف مسلمانوں کو دعوت دی۔ اگر اِس نوع کی کوئی غلطی کی جائے تو وہ گروہ فرقہ بن جاتاہے۔ مولانا مودودیؒ کی ہدایت کے مطابق جماعت نے اِس غلطی سے بچنے کا پورا اہتمام کیا ہے۔ دستور میں وضاحت کی گئی ہے کہ جماعت کی دعوت اپنے امیر کی شخصیت کی طرف نہ ہوگی بلکہ جماعت کے نصب العین کی طرف ہوگی۔ اِسی طرح امیرِ جماعت یا کسی اور شخصیت کو یہ مقام نہیں دیاجائے گاکہ اُس پر کسی حیثیت یا کسی پہلو سے ایمان لایاجائے۔ وابستگانِ جماعت سے جماعت کا مطالبہ جو کچھ ہوگا وہ صرف امیر کی اطاعت فی المعروف کا ہوگا۔
امت مسلمہ کے اہل علم میں تین موضوعات پر شروع ہی سے اختلافات رہے ہیں:
﴿الف﴾ اِسلامی قانون کی تفصیلات۔ اِس موضوع کو اِصطلاحاً ’فقہ‘ کہاجاتاہے۔
﴿ب﴾ نظامِ تزکیہ و تربیت کی تفصیلات۔ اِس موضوع کو ہماری روایت میں تصوف کہاجاتاہے۔
﴿ج﴾ اِسلامی عقائد وتصورات کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے طریقِ استدلال کی تفصیلات۔ یہ موضوع ’کلام‘ کہلاتاہے۔
مولانا مودودیؒ نے تاسیسی اجتماع میں یہ بات واضح کی کہ جماعت، بحیثیت جماعت فقہی اور کلامی مسائل میں ایساکوئی موقف اختیار نہیں کرے گی، جِس کی پابندی تمام ارکانِ جماعت کے لیے لازم ہو۔ بالفاظِ دیگر اِن موضوعات کے سلسلے میں ارکانِ جماعت کو اجازت ہوگی کہ وہ کتاب و سنت کی روشنی میں خود غورو فکر کریں یا امت کے اندر موجود معروف مکاتبِ فکر میں سے کسی مکتب فکر سے وابستگی اختیارکریں۔مولانامودودیؒ خود فقہی اور کلامی مسائل پر لکھتے رہے اورآپ نے یہ کہاکہ گفتگو کی یہ آزادی سب ارکان کو حاصل ہے اور رہنی چاہیے۔ ارکانِ جماعت اِن موضوعات کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ کے موقف یا نقطہ نظر کے پابند نہیں ہیں۔
جماعت نے مسلمانوں سے صاف طورپر یہ بات کہی کہ اقامتِ دین کے مقصد کے لیے سارے مسلمان متفق ہوکر کوشش کریں اور جن اختلافات کی دین میں گنجایش موجود ہے، اُن اختلافات کو گواراکریں۔ یہی صحیح دینی مزاج ہے اور جماعت کا یہ مزاج برقرار رہنا چاہیے۔
شورائیت اور احتساب
دورِاوّل کے بعدمسلمان سماج میں جن پہلوؤں سے زوال آیا، اِن میں نمایاں ترین ’شورائیت‘ اور ’احتساب‘ کے پہلو ہیں، جو دورِ اوّل کے معاشرے کے امتیازی اوصاف ہواکرتے تھے۔
مسلمان معاشرے کے لیے ’امرہم شوریٰ بینہم‘ قرآن مجید کی واضح اور دائمی ہدایت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات ہمیں روایات سے معلوم ہوتی ہے کہ آپﷺکثرت سے مشورے کااہتمام کرتے تھے۔ آپﷺکا یہ اُسوہ ہردور میں امت کے لیے اور امت کے ہر گروہ کے لیے واجب الاتباع ہے۔ خلافتِ راشدہ میں ہمیں اِسی اُسوۂ نبوی کے مطابق شورائیت کا اہتمام نظرآتا ہے۔ حکومت و ریاست کے معاملات کے علاوہ شورائیت کا اصول زندگی کے دوسرے میدانوں سے بھی متعلق ہے۔ مثلاًخاندانی نظام کے اندر بھی شورائیت کے تقاضے پورے کیے جانے چاہییں۔ دورِ اوّل کے معاشرے میں ہمیں زندگی کے تمام پہلوؤں میں شورائیت کی اسپرٹ کارفرما نظرآتی ہے۔
دورِ اوّل کے بعد جب مسلمانوں میں ملوکیت کا دور آیا تو حکمراں مطلق العنان ہوگئے اور شورائیت کا اصول فراموش کردیاگیا۔ مولانا مودودیؒ نے اِس تبدیلی پر ’خلافت و ملوکیت‘ میں وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ اِس تبدیلی کا اثرپورے معاشرے پر پڑا اور اِصلاحی و تربیتی اِدارے بھی اِس فضا سے متاثر ہوئے۔ جو اِصلاحی کام حکومت کے اثرات سے آزاد تھے، اُن میں بھی اجتماعی کوششوں اور شورائی نظم کی بجائے ہمیں عموماً انفرادی کوششیں نظرآتی ہیں۔ سرگرم افراد کے دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ عموماً یہ تعمیری کوششیں بھی ختم ہوجایاکرتی تھیں۔ اس تاریخی پس منظر کی موجودگی میں جماعت اسلامی نے شورائیت کے اصول کو عملاً زندہ کیا۔ اُس نے اپنے نظم اور تحریک کے ڈھانچے کو شورائی بنیادوں پر مرتب کیا اور عملاً پالیسی سازی اور منصوبوں پر عمل درآمد میں شورائیت کے اصولوں کو برت کردکھایا۔ جماعت کے اِس رویّے کا مثبت اثر امت کے عام اداروں اور تنظیموں پر بھی پڑنا چاہیے تھا۔ اس سلسلے میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
تنقیدو احتساب ایک باشعور مسلمان معاشرے کی پہچان ہے۔ دورِ اوّل میں افراد کے اندر نہی عن المنکر کی اسپرٹ زندہ تھی اور حکمراں اس جذبے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ملوکیت کے دور میں تنقید اور احتساب کی فضا مضمحل ہوگئی۔ حکمرانوں نے بسااوقات اُن افراد پر سخت مظالم ڈھائے جنھوں نے اُن کو غلط باتوں پر ٹوکنے کی جرأت کی تھی۔ زوال کی اِس فضا نے خانقاہوں کو بھی متاثر کیاچنانچہ مرشد اور شیخ کی شخصیت کو عملاً تنقید سے بالاتر قرار دیاگیا۔ مرید اور عقیدت مند عموماً اِس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ اپنے مرشد کے افعال واقوال پر تنقیدی نگاہ ڈالیں۔
جماعت نے تنقید واحتساب کے اِسلامی اصول کو بھی زندہ کیا اور صحت مند روایات کو قائم کرنے کی کوشش کی۔ اِس سلسلے میں جو بات قابلِ غور ہے، وہ یہ ہے کہ جماعت کے اندر تنقید احتساب کے عمل کو فی الواقع زندہ رکھنے اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے تین امور کی ضرورت ہے:
﴿الف﴾ جماعت میں ایسی فضا بنائی جائے جِس میں تنقید و احتساب کی آزادی ہو اور اُس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو۔
﴿ب﴾ تنقید واحتساب کے آداب سے لوگ واقف ہوں اور اُن کا لحاظ کریں۔
﴿ج﴾ تنقید و احتساب کے لیے ہرسطح پر باقاعدہ مواقع فراہم کیے جائیں اور تمام ارکان کومتعین وقفوں کے بعد یہ ملتے رہیں۔
اِس وقت جماعت کے لٹریچر کے اثرات کی بِنا پر پہلی دوشرطیں توپوری ہوتی ہیں، لیکن تیسری بات کا اہتمام ﴿سوائے مقامی احتسابی اجتماع کے﴾ نہیں کیاجاسکاہے۔ اِس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
عالمِ انسانیت سے تعلق
جماعت نے اپنی تاسیس کے وقت سے ہی مسلمانوں کے علاوہ عام اِنسانوں کو بھی مخاطَب بنایا۔ یوں تو دعوت الی اللہ مسلمانوں کی ذمّے داری ہے اور تاریخ کے ہر دور میں مسلمان کچھ نہ کچھ اس کی طرف توجہ کرتے رہے ہیں۔ ﴿اِس طرح کی کوششوں کے تسلسل کا ایمان افروز تذکرہ مولانامودودیؒ نے ’اسلام کا سرچشمہ قوّت‘ میں کیاہے۔﴾ لیکن عموماً مسلمانوں کی جماعتوں نے اِس فریضے کی جانب توجّہ نہیں دی تھی۔ جماعت اسلامی نے دعوت الی اللہ کی اِس روایت کو زندہ کیا۔ جماعت کے بنیادی لٹریچر میں کئی کتابیں ایسی ہیں، جن میں مسلمانوں کے علاوہ عام انسانیت کو خطاب کیا گیا مثلاً سلامتی کاراستہ، بناؤ بگاڑ، زندگی بعد موت توحیدو رسالت کا عقلی ثبوت، اسلام اور جاہلیت وغیرہ۔ جماعت اسلامی ہند نے اس فہرست میں نئی دعوتی کتب کااضافہ کیا۔ اب جماعت کی یاد دہانی کے نتیجے میں ہندستان کے دوسرے دینی حلقے بھی فریضہ دعوت کی جانب متوجہ ہونے لگے ہیں۔
جماعت کے آفاقی مزاج کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ ارضی و سماوی آفات کے مواقع پر جماعت نے جو خِدمات انجام دیں، اُن میں صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ تمام مستحقین کی مدد کی۔ یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی بلکہ اِسلام کے مزاج کا عین تقاضا تھا۔ لیکن موجودہ حالات میں یہ مزاج ایک اجنبی مزاج بن چکا ہے۔ اِس لیے اِسلامی مزاج کی تجدید کی بڑی معنویت ہے۔
اب جماعت نے اپنی تاسیس کے بعد سے ستّرسال کا سفر پورا کرلیاہے۔ اِس موقع پر مناسب ہے کہ جماعت اپنی امتیازی خصوصیات اپنے وابستگان کو یاد دِلائے اور اِن خصوصیات کو زندہ رکھنے کا عملاً اہتمام بھی کرے۔ اگر جماعت نے اِس سمت توجہ کی تو توقع ہے کہ امت کے مجموعی مزاج میں بھی مثبت اور صحت مند تبدیلیاں لاسکے گی اور عالمِ انسانیت پر بھی اچھے اثرات ڈالے گی۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2010