دعوت اور داعی

(2)

جتنی اہمیت دعوتِ دین و اشاعت اسلام کے وجوب و ناگزیری کے جاننے، اسے اپنی زندگی کی ضروری مصروفیات و مشاغل میں شامل کرنے اور اس کی ادائی میں اپنا سب کچھ لگا دینے کی ہے، اتنی ہی اہمیت اس بات کی ہے کہ اس بات کو جانا جائے کہ اس کام کو کس طرح انجام دیا جائے۔ تاکہ یہ کام بہتر، احسن اور مؤثر انداز سے انجام پاسکے اور اس بات کو بھی سمجھاجائے اوراس کے لیے تربیت حاصل کی جائے کہ ایسا کون سا منہج اور اسلوب اختیار کیا جائے کہ داعی کی بات مدعو کے دل میں گھر کرجائے اور وہ بہ رضا ورغبت ہماری دعوت کو قبول کرنے کے لیے مضطرب ہوجائے۔

دعوت کے لیے اسلوب، منہج اور طریقۂ عمل کی سب سے پہلی رہ نمائی تو ہمیںقرآن مجید کی اُس آیت میں ملتی ہے ، جس میں فرمایا گیا ہے کہ لوگوں کو اپنے رب کی طرف حکمت و دانائی اور موعظۂ حسن کے ساتھ بلایا جائے اور اپنی بات ان تک خوب صورت اور دل کش انداز میں پہنچائی جائے:

اُدْعُ اِلِٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَن۔ ﴿النحل: ۱۲۵﴾

اس آیت میں نہایت واضح طور پر دعوت وتبلیغ کے بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں اوربتایا گیا ہے کہ داعی کو چاہیے کہ وہ حکمت و تدبر،فہم ودانائی اور طریقِ حسن کا رویہ اختیار کرے۔ جس وقت مدعو کو مخاطب کرے اس کے لہجے میں نرمی، گفتگو میں شیریں کلامی اور شایستگی و شگفتگی ہو۔ تلخی ، ترشی اور طنزیہ لہجے سے پرہیز کرے۔ خالص مشفقانہ و ہم دردانہ انداز میں اسے مخاطب کرے۔ تاکہ اُسے قبول حق کی مہمیز مل سکے۔ یہ بات بھی دعوت و تبلیغ کے بنیادی اصولوں میں ہے کہ مدعو کے فہم ، معیار اور اس کے مزاج و طبیعت کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت پیش کی جائے۔ زبان صاف ، سادہ اور سلیس استعمال کی جائے اور طول بیانی و کثرتِ خطاب سے گریز کیاجائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمنے متعدد بار فرمایا کہ لوگوں سے ان کی عقل وفہم کے مطابق گفتگو کرو۔ آپﷺ  نے ہمیشہ ناغے کے ساتھ صحابہ کرامؓ  کو خطاب فرمایا اور اُنھیں تلقین فرمائی کہ وہ بھی ناغے کے ساتھ وعظ و ارشاد کا سلسلہ رکھیں۔ تو اترو تسلسل اور ہمہ وقت اور موقع بے موقع و عظ وتلقین سے پرہیز کریں۔ یہ چیز دعوت وتبلیغ اور تربیت وتلقین کے لیے مفید نہیں ہے۔ آپ نے جب حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن کی جانب دعوتِ دین کے لیے روانہ کیا تو فرمایا:

بشروا وَلاَ تنفروایسرا ولاتعسرا۔

’’لوگوں کو بشارتیں بھی سنانا صرف عذاب کا ذکر کرکے نفرت نہ دلانا ، نرمی کا برتائو کرنا، سختی نہ کرنا ‘‘۔

یہ بات بھی اصولِ دعوت کے خلاف ہے کہ داعی لوگوں کو صبر وتحمل کی تلقین کرے اور خود عجلت وجذبات سے کام لے اور لوگوں کو رفق ومروت کا درس دے اور اپنا معاملہ اس کے برعکس ہو۔

قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرات موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو حکم دیا:

اِذْہَبَآا الی فِرْعَوْنَ انَّہ‘ طَغَٰی۔فَقُولَا لَہ‘ قَوْلاً لَّیِّناً لَّعَلَّہ‘ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَٰی۔  ﴿طٰہٰ:۴۴﴾

’’تم دونوں فرعون کے پاس جائو، اس نے بڑی سرکشی کر رکھی ہے، اُسے نرمی سے سمجھائو شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے‘‘۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج دعوت کیا تھا اور آپﷺ  نے کفارِ مکہ اور یہودِ مدینہ کے ساتھ کس احسن طریقے سے گفت و شنید کیا اور کس درجہ رفق و مروت اور حسنِ اخلاق سے ان کے ساتھ پیش آئے، یہ چیز بھی داعی کے سامنے رہنی چاہیے ۔ اگر اِسے نہ اختیار کیاگیا تو دعوت و تبلیغ کا کام مؤثر اور مفید ہونے کی بہ جائے انتشار وخلفشار کا سبب بن جائے گا۔

داعی کے کردار، اخلاق اور اس کے رویے سے مدعو کو یہ تاثر بھی ملنا چاہیے کہ اس کی ساری جدوجہد اور جدال و مذاکرہ کا مقصود صرف اور صرف رضا ئے حق ہے اور جو کچھ کہا جارہا ہے، اِسی مقصود کی وضاحت اور حصول کے لیے کہا جارہا ہے ۔ اس میں کسی انا یا ذاتی تفوق و برتری کا شائبہ تک نہیں ہے۔

دعوت اور علما

یہ بات گزشتہ سطور میں بتائی جاچکی ہے کہ دعوت وتبلیغ اوراشاعت دین کی ذمے داری اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہر مومن و مسلم پر عائد ہوتی ہے اور اپنی حیثیت، صلاحیت اور استطاعت کے مطابق سب کو اس کے سلسلے میں اللہ کے حضور جواب دہ ہونا ہے۔ لیکن چوںکہ علماء  سب سے زیادہ جاننے اور سمجھنے والے ہوتے ہیں، وہ دین کے احکام و مطالبات سے بھی باخبر ہوتے ہیں اور عام انسان کی نفسیات اور تقاضوں سے بھی اور ان کے ذہن ومزاج سے بھی، اس لیے یہ ذمے داری ان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور عام لوگوں کے مقابلے میں ان کی جواب دہی بھی سنگین ہوتی ہے۔ اسی اعتبار سے قرآن مجید اور احادیث رسولﷺ  میں ان کی اہمیت و فضیلت بھی مذکور ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

انَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعلماء ۔ ﴿فاطر:۲۸﴾

’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں صرف علم والے ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔

ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا:

قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ انَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ ۔ ﴿الزمر:۹﴾

’’﴿اے نبی﴾ ان سے پوچھیے کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:

قال أبوالدرداء فانی سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول من سلک طریقاً یطلب فیہ علماً سلک اللہ بہ طریقا من طرق الجنۃ والملائکۃ تصنع أجنحتھا رضا لطالب العلم وان العالم یستغفرلہ من فی السماوات ومن فی الارض والحیتان فی المائ وفضل العالم علی العابدکفضل القمرلیلۃ البدر علی سائرالکواکب ان العلماء  ورثۃ الأنبیائ ان الأنبیائ لم یورثوا دیناراً ولادرھماً وأورثوا العلم فمن أخذہ أخذ بحظ وافر۔

﴿أخرجہ ابن حیان فی صحیحہ وابن ماجہ وابوداؤد والدارمی عن طریق عبداللّٰہ بن داؤد عن عاصم بن رجائ بن حبوہ عن داؤد بن جمیل عن کثیربن.﴾

’’حضرت ابودرداءرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے کسی راہ میں نکلا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ کو آسان فرما دے گا۔ فرشتے طالب علم سے خوش ہوکر اپنے پروں کو اس کے لیے پھیلا تے ہیں اورعالم کے لئے زمین وآسمان کی تمام مخلوقات اور سمندر کی مچھلیاں مغفرت کی دعا کرتی ہیں۔ ایک عالم کو ایک عابد پر اتنی ہی فوقیت حاصل ہے جتنی کہ چودہویں کے چاند کو ستار وں پر۔ علماء  انبیاء  کے وارث ہوتے ہیں اور انبیاء  دینا ر ودرہم کا وارث نہیں بناتے، بل کہ علم کا وارث بناتے ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس وراثت کا حقدار بناتو اس نے نہایت عظیم شئے حاصل کرلی‘‘۔

اس طرح سے اور بھی متعدد احادیث میں علماء  کی اہمیت وفضیلت کا تذکرہ ہے۔جب ہم اس پہلو سے اسلامی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ الحمد للہ ہر دور میں ایسے علما اور دانش ور موجود رہے ہیں، جنھوں نے نامساعد حالات میں اور سخت سے سخت مشکلات ومصائب کا مقابلہ کرکے تعار ف اسلام کا کام کیا اور اعلاے کلمۃ الحق کے لیے اپنی پوری قوت صرف کردی۔ انھوں نے کسی بھی رکاوٹ یا مخالفت کی پروا نہیں کی، اپنی حیثیت اور بساط کی حد تک باطل کو پسپا کرنے کی جدوجہد کی اور دونوں جہاں کی کامیابی وسرخ روئی سے ہم کنار ہوئے۔

داعی کے اوصاف

دعوتِ دین کی اہمیت، افادیت اور ناگزیری کی یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے اور یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کام کے ساتھ ساتھ کام کو انجام دینے والے کی بھی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ کوئی بڑا اور اہم کام کسی چھوٹے یا غیر اہم شخص کے ذریعے نہیں انجام دیا جاسکتااور بڑا اور اہم وہی شخص ہوگا ، جو اس بڑے اور اہم کام کے لیے خود کو تیار کرے۔اس کے اصول اور ضابطے سے صرف واقف ہی نہ ہو، بل کہ ان اصولوں اور ضابطوں کو برتنے کا اُسے سلیقہ بھی ہو۔ اسلام نے اپنے داعیوں کے کچھ اوصاف مقرر کیے ہیں۔ کوئی بھی داعی ان اوصاف سے آراستہ ہوئے بغیر دعوت کے کارِ عظیم کو نہیں انجام دے سکتا۔ میں نہایت اختصار کے ساتھ ان میں سے چند صفات کاتذکرہ کروں گا،جوبہ ہرحال داعی کے لیے ناگزیر ہیں۔

اخلاص

اخلاص داعی کی ایک اہم صفت ہے ۔ اِسے دعوت وتبلیغ میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی دعوت کا مقصد نام ونمود، عزت وشہرت، مال و دولت یا جاہ ومنصب نہیں بل کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کا حصول ہونا چاہیے۔ اُسے اللہ کے اس فرمان کو اپنا نصب العین بنانا چاہیے:

قُلْ انَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْن۔﴿الانعام: ۱۶۲﴾

’’اے نبیﷺ! آپ فرمادیجیے بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادات ، میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کے لیے ہے، جو سارے جہاں کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کاحکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں‘‘۔

داعی کا مطمحِ نظر صرف اجر وثواب کا حصول ہونا چاہیے۔ ریا کاری، خود نمائی، شہرت طلبی یا مادی منفعت یا لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہرگز نہ ہونا چاہیے۔ داعی کے دل میں یہ اعتقاد راسخ ہو کہ کوئی بھی عمل نیت صالحہ اور اتباع شریعت کے بغیر قابل قبول نہ ہوگا۔ جس کام کی انجام دہی میں اتباع شریعت کا خیال رکھا جائے گا اور نیت صالح ہوگی وہی کام قبول بارگاہِ حق ہوگا۔

انماالاعمال بالنیات وانما لکل امریٔ مانویٰ۔  ﴿بخاری﴾

’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کو نیت ہی کے مطابق اجر حاصل ہوتا ہے‘‘۔

لہٰذا داعی کو خلوص وللہیت کے ساتھ اپنی دعوت کے عمل کو انجام دینا چاہیے۔ تاکہ اس کی دعوت لوگوں کے لیے مؤثر اور خود اس کی ذات کے لیے ذخیرۂ آخرت ثابت ہو۔

معیت الٰہیہ کا احساس

داعی کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ اللہ اپنے علم و ادراک کے لحاظ سے ہمہ وقت اس کے ساتھ ہے، وہی اس کی اِلتجا ؤں اور فریادوں کو سنتا ہے، اس کے جملہ احوال وکوائف کو دیکھتا ہے، اس کی مشکل کشائی کرتا ہے اور اُسے دشمنوں کے مکرودجل سے محفوظ رکھتا ہے اور وہی تن تنہا ہرچیز پر قادر ہے ۔ اللہ کی اس معیت کے احساس میں داعی کی کامیابی کا راز پنہاں ہے ۔ یہ احساس داعی کے اندر عزم و حوصلہ، شجاعت و بہادری، ثابت قدمی اور کلفتوں پر صبر کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ جب کہ اس احساس سے عاری شخص بزدلی، پست ہمت، ڈر، خوف اور بے صبری کا شکار ہوجاتا ہے۔ انبیاے کرام ؑ  کی سیرتوں کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ وہ کامل عزم وہمت اور خداے واحد کی نصرت پر یقین کے ساتھ جابرو ظالم قوموں کو دعوت دین پہنچاتے رہے اور ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کرتے رہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت مدینہ کے وقت غار حرا میں روپوش ہیں۔ مشرکین مکہ آپﷺ  کی تلاش میں غار کے دہانے تک پہنچتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ  کے ہم راہ ہیں۔ کہتے ہیں اے اللہ کے رسولﷺ ! اگر ان میں سے کوئی بھی اپنی نگاہ اپنے قدم کی جانب ڈالے گا تو ہمیں ضرور دیکھ لے گا۔ آپﷺ  نے فرمایا:

ابوبکر غار میں ہم دو آدمی ہیں۔ ہمارے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔ وہ ہماری حفاظت فرمائے گا۔

غزوۂ حنین کے موقعے پر یکایک تیروں کی بوچھار کی تاب نہ لاکر صحابہ کرامؓ  کچھ دیر کے لیے پیچھے ہٹتے ہیں لیکن خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ اشعار پڑھتے ہوئے پوری شجاعت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں:

أنا النبی لاکذب
أنا ابن عبدالمطلب

’’﴿یاد رکھو﴾ میں جھوٹا نبی نہیں ہوں ۔ میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں‘‘۔

نبیﷺ  کا اللہ کی ذات پہ کامل اعتماد اور رب کی معیت کا احساس ہر داعی کے لیے اسوہ ہے۔ لہٰذا ہر داعی کو اپنے اندر یہ وصف پیدا کرنا چاہیے۔ تاکہ دعوت کا کام بلا خوف و خطر پوری شجاعت کے ساتھ انجام پاسکے۔

صدق بیانی

داعی کے اوصاف میں ایک اہم وصف یہ بھی ہے کہ وہ سچا ہو، جھوٹ سے اجتناب کرتا ہو۔ اس کا ظاہر وباطن یکساں ہو۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے آپ کو اس وصف سے متصف فرمایا ہے:

مَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللّہِ حَدِیْثاً۔  ﴿النساء :۸۷﴾

’’اللہ سے زیادہ سچی بات کرنے والا اور کون ہوگا‘‘۔

اس نے اپنے انبیاء  علیہم السلام کا بھی یہی وصف ذکر فرمایا ہے:

ہَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُون۔    ﴿یٰسین:۵۲﴾

’’یہی وہ چیز ہے ،جس کااللہ نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا‘‘۔

اسی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بھی اس وصف سے متصف ہونے کا حکم دیا ہے:

یَآأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُواْ اتَّقُواْ اللّٰہَ وَکُونُواْ مَعَ الصَّادِقِیْن۔   ﴿توبہ: ۱۱﴾

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو‘‘۔

سچائی کی صفت ہر داعی کے لیے ضروری ہے۔ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پڑھتے ہیں تو صدق گوئی اور حق بیانی کاایک بہترین نمونہ ملتا ہے۔ پوری زندگی آپﷺ  صادق و امین کے لقب سے ملقب رہے۔ دوست، دشمن سب کی نظر میں آپﷺ سچے اور دیانت دار تھے۔ آپﷺ  کا کردار وعمل اور قول وفعل ان کے سامنے آئینے کی طرح صاف وشفاف تھا۔ آپﷺ  کی قوم نے آپﷺ  کے بارے میں کہا:

ماجربنا علیک کذبا‘‘

’’ہم نے کبھی آپﷺ کو جھوٹ بولتے ہوئے نہیں پایا ‘‘۔

ابوجہل جیسے دُشمنِ اسلام نے آپﷺ  کے بارے میں کہا:

انا لانکذبک ولکن نکذب بہ ماجئت بہ۔   ﴿رواہ الترمذی﴾

’’ہم آپﷺ کی تکذیب نہیں کرتے ہیں بلکہ آپ کی لائی ہوئی شریعت کی تکذیب کرتے ہیں‘‘۔

علامہ ابن القیم رحمتہ اللہ علیہ نے صدق بیانی کے بارے میں لکھا ہے:

بہ تمیز أھل النفاق من أھل الایمان ومکان الجنان من أھل النیران‘‘۔﴿مدارج السالکین:۲/۲۶۸﴾

’’اسی سچ گوئی کے ذریعے مومن اور منافق جنتی اور جہنمی کے درمیان فرق کیا جاتا ہے ۔

صدق بیانی داعی کا نمایاں وصف ہے ، اُسے چاہیے کہ وہ سب سے پہلے صدق مقالی کی صفت اختیار کرے۔ اور کذب، افترائ، جعل سازی، فریب کاری اور بدعہدی جیسی قبیح خصلتوں سے پرہیز کرے۔ تاکہ اس کی شخصیت لوگوں کی نگاہوں میں محترم اور باوقار ہوسکے اور اس کی باتوں میں اثر پذیری کا جوہر نمایاں ہو۔ ایسی صورت میں اس کی باتیں غور سے، توجہ سے اور عزت واحترام سے سنی جائیں گی۔دل پر انھی باتوں کا اثر ہوتا ہے، جو غور سے اور عزت واحترام کے ساتھ سنی جائیں۔

نرم خوئی

داعی کے اندر رحمت و رافت ، رفق و سہولت کا وصف بھی ہوناچاہیے۔ تاکہ یہ وصف اسے بھلائی کی اشاعت اور کمزوروں کی اعانت پر آمادہ کرلے اور دلوں میں لوگوں کی ہدایت کی حرص اور ان کے عذاب میں مبتلا ہونے کا خوف پیدا کرسکے۔ نرم خوئی اسلام کا نہایت قیمتی جوہر ہے۔ دعوت وتبلیغ کی راہ کا یہ تیر بہ ہدف ہتھیار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہاں کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔ فرمایا:

وَمَا أَرْسَلْنَاکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْن۔ ﴿الانبیاء :۱۰۷﴾

’’ہم نے آپﷺ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے‘‘۔

اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر انتہائی رحیم ومہربان تھے۔ فرمایا:

لَقَدْ جَآئ کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ۔﴿توبہ :۱۲۸﴾

’’تمھارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے جو تمھاری جنس سے ہیں جن کو تمھاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمھاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں۔ ایمان داروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق ومہربان ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مختلف پیرائے سے رحم وکرم کی ترغیب دی ۔ فرمایا:

’’الراحمون یرحمہم الرحمٰن ارحموا أھل الارض یرحمکم من فی السمائ‘‘۔ ابوداؤد، باب فی الرحمۃ‘‘۔

’’ رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے تم اہل زمین پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘۔

فرمایا:

ان اللّٰہ رفیق یحب الرفق ویعطی علی الرفق مالایعطی علی العنف ومالا یعطی علی سواہ‘‘۔  ﴿مسلم باب فضل الرفق﴾

’’ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ وہ نرمی پر وہ اجروثواب عطا فرماتا ہے جو سختی یا اس کے علاوہ چیزوں پر عطا نہیں فرماتا‘‘۔

اس مشہور واقعے سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی ظاہر ہوتی ہے کہ ایک دیہاتی آیا اور مسجد نبویﷺ  کے ایک گوشے میں پیشاب کرنے لگا۔ صحابہ کرام ؓ  اسے ڈانٹنے لگے۔ آپﷺ  نے منع کرتے ہوئے فرمایا: اسے پیشاب کرلینے دو اور پھر ایک ڈول پانی بہا دو، اس لئے کہ تم لوگ نرمی کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہو۔ سختی کرنے والے نہیں‘‘۔ ﴿بخاری، کتاب الوضوء﴾

نرمی، شفقت اور مہربانی داعی کے لیے نہایت ناگزیر صفت ہے۔ یہ صفت راہِ دعوت میں نہایت مفید ہے۔ جب کہ سختی اور تلخی سے شر پیدا ہوتا ہے۔ دعوت سے دوری و نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ خواہ داعی اپنی دعوت یا مشن میں کتنا ہی سچا اور مخلص ہو۔

خاکساری

تواضع وخاکساری انسانی اخلاقیات کا ایک اہم گوشہ ہے۔ یہ کبروغرور کی ضد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولﷺ  کو خاکساری کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

وَأَخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤمِنِیْن۔   ﴿حج:۸۸﴾

’’ آپ مومنوں کے لیے اپنا بازو جھکاتے رہیں‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:

ان اللّٰہ أوحی الیی اُن تواضعوا حتیٰ لایفخرأحد علیٰ أحد ولا یبغیٰ أحد علیٰ أحد۔    ﴿رواہ مسلم﴾

’’اللہ نے میری جانب وحی کی ہے کہ تم خاکساری اختیار کرو۔ یہاں تک کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر ظلم کرے‘‘۔

لہٰذا کسی بھی داعی کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا یہ تابناک پہلو نہ صرف فروگزاشت نہیں کرناچاہیے بلکہ اسے عملی طور پر اپنی زندگی میں جگہ دینا چاہیے۔ اگر ہم سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آئے گی کہ آپ ﷺ  نے اپنے اندر خاکساری وتواضع کی تمام صفات کو یکجا کردیا تھا۔ قدم قدم پر اس کے نمونے سامنے آئیں گے۔ آپﷺ  اپنی تمام تر عظمتو ںاور بلندیوں کے باوجود سلام میں پہل کرتے تھے۔ جب کسی بھی چھوٹے یا بڑے سے مصافحہ کرتے تو اپنا ہاتھ اس وقت تک اس سے نہ کھینچتے جب تک کہ وہ خود نہ کھینچتا یا کھینچنے کی کوشش نہ کرتا۔ ضروری خریدوفروخت کے لیے بازار جاتے تو اپنا سامان خود اٹھاتے۔ ہر کس وناکس کی پکار پر کان دھرتے۔ اس کی باتوں کو تفصیل سے سنتے اور اس کے مسائل سے دل چسپی لیتے۔ اپنے جوتے خود سیتے۔ کپڑوں میں خود پیوند لگاتے اور اپنے خادم یا کسی بھی خرد و بزرگ کے ساتھ اکل وشرب میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔

ہمارے اسلاف کرام نے آپﷺ  کے اسوۂ حسنہ کو عملی جامہ پہنایا ہے اور تواضع و خاکساری کے اعلیٰ نمونے پیش کیے ہیں۔ وہ سیرت رسول ﷺ  کے مظہر معلوم ہوتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ  خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد بھی اپنی اونٹنیوں کی خود دیکھ ریکھ کرتے تھے۔ غریب ویتیم بچوں کو حسب ضرورت خودکھانا پکاکر کھلاتے تھے۔

حُکما کا قول ہے کہ عزت خاکساری میں ہے۔ کبروغرور میں عزت ڈھونڈنا پانی میں آگ ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا داعی کو چاہیے کہ وہ اخلاق ومحبت اورخاکساری وتواضع کا پیکر ہو۔ تواضع یا خاکساری شرف واکرام کی بات ہے۔ جب کہ اس کے برعکس کبروغرور میںسراسر ذلت وخواری ہے۔ یہ احساس کم تری کا مظہر ہے ۔اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اس لیے کہ اس سے داعی اور مدعو کے درمیان ایک خلیج حائل ہوجاتی ہے۔ یہ خلیج اس کی دعوت کو بے اثر کردیتی ہے۔

﴿جاری﴾

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2012

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau