دعوت دین اور مسلمان

توحید اور رسالت کی گواہی کے بعد، فرض عبادات جیسے نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کی صحیح طریقے سے ادائیگی مسلمانوں پر لازم ہے۔ فرض عبادتوں کی پابندی کرنے والوں کی تعداد مسلمانوں کے اندر کچھ زیادہ نہیں ہے، بلکہ ان سے غفلت اور کوتاہی برتنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن جو مسلمان ان میں کوتاہی کرتے ہیں وہ کم از کم یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ فرض عبادتوں کو بلا کسی عذر کے ترک کرنے کی وجہ سے وہ گناہ گار ہورہے ہیں۔

ان فرض عبادتوں کی طرح ایک اہم فریضہ دین کی دعوت کا ہے، لیکن بہت بڑا المیہ ہے کہ اکثر مسلمان بالعموم اس فریضے کی ادائیگی سے غافل رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ حتی کہ دین دار مسلمانوں میں بھی بہت بڑا طبقہ دعوت دین کے سلسلے میں کوتاہ ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جب دین کی دعوت کو فریضہ ہی نہیں سمجھا جائے، تو اس کی ادائیگی کا سوال کہاں سے پیدا ہوگا؟ دعوت کی فرضیت کے سلسلے میں قرآن اور حدیث میں واضح ہدایات ہیں، دعوت سے غفلت کے ہولناک نتائج کا ذکر ہے، اور اسے انجام دینے والوں کے لیے بشارتوں کا تفصیلی تذکرہ ہے۔

پیغمبروں کو اللہ تعالی نے دنیا کے مختلف خطوں اور مختلف ادوار میں قوموں کی ہدایت کے لیے بھیجا۔ نبوت اور رسالت کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا۔ لیکن دین کی دعوت جو نبیوں اور رسولوں کی عظیم ترین سنت، اور ان کا بنیادی کام ہے، قیامت تک جاری رہنے کے لیے ہے۔ دعوت کا بنیادی مقصد اللہ کے بندوں کو الحاد، شرک اور کفر سے بچاکر انہیں صحیح راہ پر لگانے کی کوشش کرنا ہے اوراس کی ضرورت قیامت تک باقی رہے گی۔

دعوت سے مراد

دعوت سے مراد اللہ کے تمام بندوں (مرد و خواتین) کو اللہ تعالی کی مکمل بندگی اختیار کرنے کی طرف بلانا اور ماسوا اللہ تعالی کے کسی کی بندگی اختیار نہ کرنے کی تلقین کرنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کی دعوت کو دلائل اور حکمت کے ساتھ پیش کیا جائے۔ فریضہ دعوت کی ادائیگی کے سلسلے میں تفہیم کا سارا کام ایک ہی نشست یا چند نشستوں میں کرلینا ممکن نہیں ہوتا بلکہ مدعو سے بار بار ملا قات اور گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے۔ دعوت دینے والے کو نتیجہ حاصل کرنے میں عجلت نہ کرنی چاہیے، بلکہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہنا چاہیے۔ مدعو کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی سے دعا بھی ضرور کرنی چاہیے۔ کیوں کہ پیغام پہنچانا بندوں کا اور ہدایت دینا اللہ تعالی کا کام ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر کسی کو ہدایت نہیں مل سکتی ہے۔

فریضہ دعوت

دعوت ایک اہم فریضہ ہے۔ یہ ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ نماز روزہ اور دیگر فرائض کی طرح فریضہ دعوت کی ادائیگی بھی مسلمانوں پر ضروری ہے۔ دعوت کو ترک کرنے کے بعد اس کی ادائیگی سے حاصل ہونے والے دنیوی فوائد، برکتوں اور اخروی کامیابیوں کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اتنا ہی نہیں، دنیا میں ترک دعوت کے وبال اور مہلک نتائج سے بچنا بھی ممکن نہیں، اور سب سے زیادہ ڈرنے کی بات یہ ہے کہ دعوت سے غفلت برتنے پر آخرت میں اللہ تعالی کی شدید ناراضی اور باز پرس سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس ضمن میں قرآن مجید کے ارشاد پر غور فرمائیں:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (سورۃ البقرہ:۱۵۹)

جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ کہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کرچکے ہیں، یقین جانو اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔

دعوت کی تاکید رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ فرمائی ہے آپ کا دعوتی اسوہ کتب سیرت اور کتب احادیث میں محفوظ ہے۔

دعوت کے ضمن میں قرآن اور حدیث کی تعلیمات پر عمل کرکے صحابہ کرام نے واضح نمونہ بعد والوں کے لیے چھوڑا ہے۔ تابعین اور تبع تابعین کی پاکیزہ زندگیوں میں دعوت کے بہترین نمونے موجود ہیں۔ ان عظیم ہستیوں نے دعوت دین کے لیے دنیا کے مختلف حصوں کے کٹھن سفر کیےاور دنیا کی مختلف اقوام کو اسلام کی دعوت دی۔

دنیا کے بیشتر ممالک، قوموں اور آبادیوں میں اسلام دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گیا۔ کوئی پہاڑ، صحرا اور سمندر اس دعوت کو نہ روک سکا۔ بڑی بڑی سلطنتیں صدیوں سے جمی ہوئی تھیں، لیکن وہ اس دعوت کو روک نہ سکیں۔ اس کے فروغ کے نتیجے میں ایمان، خداپرستی، صلہ رحمی، انسان دوستی، اخلاق اور روحانیت کی بہار آئی۔ انسانیت کا باغ لہلہا اٹھا۔ ظلم وستم، کفر وشرک، الحاد، بےانصافی اور جنگ وجدال کے طوفانی بادل تھم گئے۔ عدل وانصاف قائم ہوا اور امن وامان کی حکمرانی قائم ہوئی۔ ایک چھوٹے سے شہر مکہ اور چھوٹے سے ملک عرب سے نکل کر یہ دعوت ایک عالم گیر اور آفاقی دعوت بن گئی اور اس کے ماننے والے محض عرب نہیں رہے بلکہ ایک عالمگیر وآفاقی امت وجود میں آئی ‘‘امت مسلمہ’’۔

صحابہ کرام کی دعوت کے نتیجے میں دنیا کی مختلف قوموں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے انسان ایک عالمی برادری کے پیکر میں ڈھل گئے، جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔

دعوت کا محرک

دعوت کا حقیقی محرک انسانوں سے ہم دردی اور اللہ کی رضا جوئی ہے۔ داعی دعوت کے ذریعہ ہدایت سے محروم انسانوں تک ہدایت پہنچا کر انہیں جہنم کی خوف ناک آگ سے بچانے کی تڑپ رکھتا ہے۔

دعوت کے اس پاکیزہ اورعظیم محرک کے علاوہ کوئی اور محرک نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ دعوت سے مسلمانوں کی تعداد بڑھانی مطلوب ہے، جب کہ بعض دوسرے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ دعوت کے نتیجے میں مسلمانوں کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے خیالات بے بنیاد اور غلط ہیں۔ دعوت کے محرک کے ضمن میں درج ذیل حدیث پر غور کریں، تاکہ یہ اہم نکتہ اچھی طرح واضح ہوجائے: حضرت ابن عباس سے روایت ہے، رسول اللہﷺ کے سامنے قریشی لیڈروں نے پیش کش کی کہ آپﷺ مال، قیادت اور اقتدار قبول کرکے اس دعوت سے دست بردار ہوجائیں، آپ نے جواب میں فرمایا: جو تم پیش کر رہے ہو، مجھے اس چیز کی قطعا حرص نہیں ہے۔ جو دعوت میں تمہارے سامنے پیش کررہا ہوں اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ میں مال جمع کرنا چاہتا ہوں، یا شرف وعزت کا طالب ہوں، یا تم پر حکومت واقتدار کا بھوکا ہوں، بلکہ اللہ تعالی نے مجھے تمہارے پاس نبی بنا کر بھیجا اور کتاب اتاری، اس نے مجھے حکم دیا کہ میں غلط طریق زندگی کے عواقب اور نتائج سے آگاہ کردوں اور جو لوگ مان لیں انہیں کام یابی کی خوش خبری دوں۔ تو میں نے اپنے رب کے پیغامات تم تک پہنچا دئے اور خیر خواہی سے سمجھادیا۔ اگر تم میری دعوت کو اپنالو تو یہ تمہاری خوش نصیبی ہوگی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ (مولانا جلیل احسن ندوی، سفینہ نجات، صفحہ 164)

دعوت اسلامی کا جامع تعارف

دعوت اسلامی دنیا اور آخرت دونوں پر محیط ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی تاریخ میں بالعموم جن انسانی نظریات، فلسفوں اور مذاہب کی دعوت انسانوں کو دی گئی وہ ہمیشہ نامکمل، ناقص اور ادھوری رہی ہے۔

معروف عالم دین مولانا جلیل احسن ندوی دعوت اسلامی کا جامع تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

حضرت مغیرہ بن شعبہ نے ایرانی سپہ سالار اور اس کے فوجی کمانڈروں کی غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے کہا: ہم تاجر لوگ نہیں ہیں، ہمارا مقصد اپنے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنا نہیں ہے، ہمارا نصب العین دنیا نہیں، بلکہ آخرت ہے، صرف آخرت۔ ہم حق کے علم بردار ہیں اور اسی کی طرف لوگوں کو بلانا ہمارا مقصد ہے۔ یہ سن کر رستم نے کہا: وہ دین حق کیا ہے؟ اس کا تعارف کراؤ۔ تب حضرت مغیرہ نے فرمایا: ہمارے دین کی بنا اور مرکزی نکتہ جس کے بغیر اس دین کا کوئی جزء ٹھیک نہیں ہوتا، یہ ہے کہ آدمی اس حقیقت کا اعلان کرے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔(مطلب یہ کہ توحید کو اپنائے اور محمد کی رسالت، قیادت اور رہ نمائی تسلیم کرے) ایرانی سپہ سالار نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی تعلیم ہے۔ کیا اس دین کی کچھ اور تعلیم بھی ہے؟ حضرت مغیرہ نے فرمایا: اس دین کی تعلیم یہ بھی ہے کہ انسانوں کو انسان کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لایا جائے۔ ایرانی سپہ سالار نے کہا: یہ بھی اچھی تعلیم ہے۔ کیا تمہارا دین کچھ اور بھی کہتا ہے؟ حضرت مغیرہ نے فرمایا: ہاں ہمارا دین یہ بھی کہتا ہے کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں، پس وہ سب کے سب آپس میں بھائی ہیں، سگے بھائی، ایک ماں باپ سے پیدا ۔

اسی سپہ سالار کے سامنے حضرت ربعی بن عامر نے اپنے مقصد کی ترجمانی ان الفاظ میں کی: ‘‘اللہ نے ہم کو اس بات پر مامور کیا ہے کہ وہ جن کو توفیق دے انہیں ہم انسانوں کی بندگی سے نکالیں اور اللہ کی بندگی میں داخل کریں اور دنیا کی تنگی سے نکال کر وسیع و کشادہ دنیا میں لائیں اور ظالمانہ نظام ہائے زندگی سے نکال کر اسلام کے عدل و انصاف کے سائے میں بسائیں، پس اللہ نے ہمیں اپنا دین دے کر اپنی مخلوق کے پاس بھیجا ہے، تاکہ ہم لوگوں کو اس کے دین کی طرف بلائیں۔’’

ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ اسلام میں حقوق العباد کا دائرہ پوری نوع انسانی پر پھیلا ہوا ہے۔ دوسری اہم بات وہ ہے جس کا اعلان حضرت ربعی بن عامر نے کیا ہے، وہ یہ کہ امت مسلمہ کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالے اور اسلام کا نظام عدل قائم کرے، تاکہ ظلم وجور کی ماری ہوئی دنیا نظام عدل کے سائے میں امن سکون سے رہ سکے۔ (سفینہ نجات، ص 169 ۔ 170)

سماجی بگاڑ اور اخلاقی خرابیوں کا حل

دعوت کا اہم پہلو مسائل کا حل بھی ہے۔ درحقیقت اسلام انسانی زندگی کے جملہ مسائل کا مثالی حل پیش کرتا ہے۔

دعوت اسلامی کو پیش کرنے کا موثر طریقہ، سماجی بگاڑ اور اخلاقی خرابیوں پر تنقید اور دعوت کو اس کے واحد حل کے طور پر پیش کرنا ہے۔ ہم انبیاء کرام کی سیرتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی دعوتی کوششوں میں اس کا ذکر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ یعنی وہ اپنی قوم کے اندر پائی جانے والی سماجی اور اخلاقی خرابیوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔ اللہ تعالی پر ایمان لانے، اس کی کامل بندگی اختیار کرنے اور اللہ کا تقوی اختیار کرتے ہوئے اپنی (یعنی پیغمبر کی) اطاعت کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ بگاڑ کو دور کرنے اور سماجی واخلاقی خرابیوں کی اصلاح کا یہ انبیائی نسخہ کام یاب ترین نسخہ تھا۔

کچھ نبیوں کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے، تاکہ اس نکتہ کی اچھی طرح وضاحت ہوسکے۔ حضرت صالح کی دعوتی کوششوں کا تذکرہ قرآن ان الفاظ میں کرتا ہے:

وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ( سورۃ نمل:۴۸)

اور اس شہر میں نو جتھے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے تھے اور کوئی اصلاح کا کام نہیں کرتے تھے۔

یعنی حضرت صالح کی قوم میں فساد برپا تھا۔ امن وامان رخصت ہوچکا تھا۔ حضرت صالح نے قوم کو توحید اختیار کرنے، شرک سے باز آنے، اللہ کا تقوی اختیار کرنے اور اپنی اطاعت کرنے کی دعوت دی۔ اس قوم کو اللہ تعالی نے ہر طرح کی مادی خوش حالی عطا کی تھی اور اسے نعمتوں سے نوازا تھا۔ پیغمبر کی دعوت کے جواب میں قوم نے سرکشی کی، چنانچہ اللہ کا عذاب آیا اور قوم ثمود، جس میں حضرت صالح دعوت کا کام کر رہے تھے، صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی۔

حضرت لوط جس قوم کی طرف بھیجے گئے تھے وہ ہم جنسیت والی بدکاری، رہ زنی اور مجلسوں میں کھلی فحاشی میں مبتلا تھی۔ حضرت لوط نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی، شرک کی خرابی اور اس کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں اللہ کا تقوی اختیار کرنے اور اپنی اطاعت کرنے کی طرف بلایا۔ ساتھ ہی انھوں نے قوم کی اخلاقی حالت پر شدید تنقید کی۔ قران مجید میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:

أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ (العنكبوت: (29

کیا تمہارا حال یہ ہے کہ تم مردوں کے پاس جاتے ہو اور رہ زنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کرتے ہو۔

حضرت شعیب کی قوم مدین کے ایک نہایت زرخیز اور سرسبز وشاداب علاقے میں آباد تھی۔ معاشی خوش حالی کے عروج پر تھی، لیکن شرک کی بنیادی خرابی کی وجہ سے اس کے اندر تجارت میں بے ایمانی، رہ زنی اور ناجائز خراج کی وصولی جیسی بڑی بڑی خرابیاں موجود تھیں۔ قرآن نے ان کی. خرابیوں پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:

وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ  (الأعراف: 85)

اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے برادران قوم! اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا کوئی تمہارا خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح رہ نمائی آگئی ہے، لہذا وزن اور پیمانے پورے کرو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے۔ اس میں تمہاری بھلائی ہے، اگر تم واقعی مومن ہو۔

حضرت شعیب کی قوم نے ان کی دعوت کو جھٹلا دیا اور بڑے تکبر اور رعونت کا مظاہرہ کیا، بلکہ اپنے پیغمبر سے عذاب لانے کا مطالبہ کیا۔ بالآخر اللہ کا عذاب آگیا اور قوم تباہ و برباد کردی گئی۔

انبیاء کرام کی دعوتی کوششوں کا یہ سلسلہ طویل ہے۔ آخر میں حضرت محمدﷺکی دعوتی کوششوں کو دیکھیے۔

نبوت سے پہلے حضرت محمد ﷺ اپنی قوم کی خرابیوں اور بدحالی پر کڑھتے تھے، اس ماحول سے دور رہ کر غور و فکر کرتے۔ حق کی طلب اور جستجو میں غار حرا کی تنہائیوں میں کئی کئی دن بسر کرتے تھے۔ نبوت ملنے کے بعد آپ ﷺ نے اپنی قوم کو شرک اور اس کی ہلاکت خیزی سے خبردار کیا، سماج میں پائی جانے والی تمام خرابیوں پر تنقید فرمائی اور اصلاح کی دعوت دی۔

آج کے دور میں بھی انسانی سماجوں میں شرک جیسی بنیادی خرابی کے ساتھ لاتعداد سماجی برائیاں موجود ہیں، اور اخلاقی بگاڑ نہ صرف پایا جاتا ہے، بلکہ اس میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ آج کا دور اس لحاظ سے ممتاز ہے کہ ماضی کے برعکس آج تعلیم عام ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی عروج پر ہے۔ علوم وفنون بلندی پر پہنچ چکے ہیں۔ قانون موجود ہے، عدالتیں کام کر رہی ہیں، جیل اور پولیس کا نظام ہے، لیکن ان سب کے باوجود انسانی زندگی زبردست بحران سے دوچار ہے۔ کوئی حل کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ تعلیم، قانون اور عدالتوں کی ضرورت مسلم ہے لیکن اس کے باوجود عدل قائم نہیں ہو رہا ہے۔

حضرت محمدﷺ کی دعوت کا نمونہ آپ کی سیرت مبارکہ میں محفوظ ہے۔ آپ نے عرب میں پائی جانے والی برائیوں اور بگاڑ کے خاتمے کے لیے توحید کی دعوت بلند کی۔ آپ نے کہا کہ اللہ کو معبود وحدہ لاشریک تسلیم کرو، اس کی کامل بندگی اختیار کرو، اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور اس کے دیے ہوئے قانون زندگی پر عمل کرو، تم اس دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں فلاح یاب ہوگے۔

چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ اسی دعوت کے ذریعہ سے آپ ایک پرامن صالح انقلاب لے آئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عرب میں اس دور کی پائی جانے والی برائیوں کا خاتمہ ہوگیا۔ امن و امان، صلہ رحمی اور عدل وانصاف قائم ہوا۔ خوش حالی اور ترقی کے نتیجے میں عام لوگوں کو فائدہ ہوا، کوئی فرد محروم نہیں رہا۔

ایک داعی کو لوگوں سے ملاقات اور گفتگو کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ داعی کو ان سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بالعموم لوگ اپنی ملاقاتوں اور مجلسوں میں حالات کے بگاڑ، سنگین مسائل اور اخلاقی خرابیوں پر تنقید کرتے ہیں اور سماج کا ہر فرد ان خرابیوں سے نئی نسل کے متاثر ہونے کا رونا روتا ہے، اور عوام وخواص کی گفتگو میں حل کے طور پر نئی قانون سازی، نئے ضابطے اور تعلیم کے فروغ وغیرہ جیسی تدابیر کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو آج قوانین وضوابط کی کوئی کمی نہیں۔ تعلیم عام ہے، اور مزید عام ہوتی جارہی ہے۔ تاہم کوئی اصلاح دور دور تک ہوتی نظر نہیں آتی، یہاں تک کہ بعض جرائم اور خرابیوں میں پڑھے لکھے لوگ زیادہ ملوث ہیں۔ ایسے مواقع تقاضا کرتے ہیں کہ لوگوں کے سامنے دین حق کا داعی حکمت اور داعیانہ درد وسوز کے ساتھ اپنی دعوت پیش کرے۔ لوگوں کے دلوں میں دنیا کی بے ثباتی کا تصور اور فکر آخرت پیدا کرنا داعی کا بنیادی کام ہونا چاہیے۔ خوف خدا ہی کے نتیجے میں فرد اور معاشرہ کی حقیقی اصلاح ممکن ہے۔

حضرت محمدﷺ نے دعوت حق کی بنیاد پر عرب کی پرانی جاہلیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں نئے انسان، نئے خاندان اور نئے معاشرہ کو وجود بخشا۔ آج بھی نئی جاہلیت کے اس دور میں اگر فرد، خاندان اور معاشرے میں خوش گوار تبدیلی چاہیے تو دعوت حق کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2020

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau