موجود ہ دور میں دنیا میں اسلامی اصولوں پر مکمل کاربند حکومت کا وجو د نہیں ہے ۔ البتہّ گزشتہ ادوار میں ایسی حکومتیں موجود رہی ہیں انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں کے حقوق کا بھی تحفظ کیا۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی حکو مت کی طرف سے غیرمسلم ریاعا کے خلاف کبھی ظالمانہ کارروائی نہیںہوئی نہ انہیں شکایت کا موقع دیا گیا۔جبکہ موجودہ دور میں چند مستشرقین اسلامی حکومتوں کے خلاف طرح طرح کے الزمات لگاتے رہتے ہیں اور بے بنیاد پروپیگنڈے کرتے ہیں ۔ جزیہ کے متعلق الزام ہے کہ یہ غیر مسلموں کے ساتھ نا انصافی ہے جبکہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی اصطلاح میں جز یہ سے مراد وہ رقم ہے جو اسلامی حکومت غیر مسلم رعا یا سے ان کی جان ومال عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے وصول کرتی ہے ۔مزید برآں مسلمانوں پرزکوٰۃ واجب ہے ، جسے حکومت وصول کرتی ہے ، لیکن غیر مسلموں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے اگر ان سے زکوٰۃ وصول کی جاتی تو مذہبی آزادی کے خلاف ہوتا اس مقالہ میں غیر مسلموں سے برتاؤ کے سلسلے میں امام ابو یوسف کی آراء معلوم کی گئی ہیں۔
کتاب الخراج
امام ابو یوسف خلیفہ مہدی ،ہادی ،اور ہارون الرشید کے دور حکومت میں بغداد کے قاضی رہے کتاب الخراج امام ابو یوسف کی اہم تصنیف ہے جو باقی کتابوں سے زیادہ ضخیم ہے ۔یہ کتاب خلیفہ ہارون الرشیدکے دور میںلکھی گئی تھی،اس میں اسلامی تعلیمات کے ذیل میں نظم الدول بالخصوص مالیاتی نظام اور اس سے متعلق بعض اہم معاملات پر بحث کی گئی ہے۔ اہل علم نے اما م ابو یوسف کی اس کتاب کو بہت اہمیت دی ہے۔یہ کتاب امام ابو یوسف کا ایک خط ہے جو انہوں نے خلیفہ ہارون الرشید ؒ کے نام تحریر کیا تھا،اس خط میں انہوں نے حکومت کے مالی وسائل اور زرائع آمدن پر دقیق اور عمدہ بحث کی ہے ۔
کتاب الخراج کےاہم مضامین
1) خلیفہ امیر المؤمنین کو چند نصیحتیں ۔
2) خلیفہ امیر المؤمنین کے لئے چند احادیث ۔
3) تقسیم غنائم ۔
4)عراق وشام کی فتوحات ،خراج کی وصولی اور حضرت عمر کا نظام کار ۔
5) خراج کی شرحیں اور ان میں تبدیلی کا مسئلہ۔
6)عراق کی جاگیر وں کے مسائل ۔
7)عراق اور شام کی جاگیروں کے محاصل اور ان کی مقدار۔
8) عراق اور شام کے علاوہ زمینوں کی نوعیت۔
9)غیر آباد(مردہ) زمینوں کی آباد کاری کا مسئلہ۔
10) اسلام قبول کرنے والوں کےمال و جان کا تحفظ۔
11) باغیوں کے جان و مال کی حیثیت۔
12) زکوٰۃ کےمسائل۔
13) کنوؤں ،نہروں ،دریاؤں ا ور آبپاشی کے بعض مسائل۔
14) عمال خراج کےلیے ہدایات۔
15) غیر مسلموں سے متعلق مسائل ( جزیہ، تجارتی ٹیکس ، مذہبی آزادی کی حدود ، وغیرہ)
16) باغیوں ، وچوروں کی سزا قصاص و حدود کے مسائل۔
17) مرتد ہونے والوں سے متعلق احکام ۔
18) قاضیوں ، عاملوں اور گورنروں کے وظائف ۔
19) سرحدوں کی حفاظت اور جاسوسی سے متعلق مسائل۔
20)مشرکوں اورباغیوں سے جنگ اور متعلق مسائل۔
مندرجہ بالا نکات کو امام ابو یوسف ؒ نے خاص طور پر موضوع بحث بنایا ہے ۔ہم نے یہاں کتاب الخراج کے حوالے سے غیر مسلموں کے متعلق امور مثلاً جزیہ، وضع قطع ،تجارتی ٹیکس وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے۔
جزیہ کن افراد پر واجب ہے
امام ابو یوسف کی رائے کے مطابق جزیہ یہودی ، عیسائی ، مجوسی، صابی اور سامری لوگوں پر واجب ہے ، اور اس سے (معاہدے کے بموجب) صرف اہل نجران اور نصاریٰ بنی تغلب مستثنیٰ ہیں۔
جزیہ وصول کرنے کے شرائط
شریعت اسلامیہ کے عمومی احکام کی ادائیگی کے لئے مکّلف میں اہلیت اور استطاعت کا پایا جانا ضروری ہے، اور اگر کوئی شخص جزیہ دینے کا اہل نہ ہو تو وہ حکم شرعی کا مخاطب نہیں ہوتا ۔ اسلئے امام ابو یوسف نے جزیہ کے وجوب کے لئے اہل ذمہ میں درج ذیل شرائط کےپائے جانے کو ضروری قرار دیا ہے۔
(1) مرد ہونا
جزیہ کی پہلی شرط یہ ہے کہ غیر مسلم شہری مرد ہو۔قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ۔(سورۃ التوبۃ آیت نمبر 29)
’’ ان لوگوں سے لڑو جو اللہ پر آخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور نہ اسے حرام جانتے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور سچا دین قبول نہیں کرتے ان لوگوں میں سے جو اہل کتاب ہیں یہاں تک کہ عاجز ہوکر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں‘‘۔
اگر وہ جزیہ ادا کرتے ہیں تو ان سے جنگ نہ ہو گی بلکہ ا ن کا تحفظ مسلمانوں کے لئے فرض بن جائے گا۔ یہاں لڑائی سے مراد جنگ ہے ۔ جنگوں میں مرد لڑتے ہیں ۔ اس لیے جزیہ بھی صرف اہل ذمہ کے مردوں پر ہی واجب ہوگا۔
اسلام کا جزیہ سے متعلق حکم صرف ان غیر مسلموں کے لیے ہے جو اسلامی ریاست کی سر پرستی قبول کرتے ہوئے اس کے شہری بن جائیں۔
(2)با لغ ہونا
جزیہ کی دوسری شرط بالغ ہونا ہے۔شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کی طرح اہل ذمہ کے صرف بالغ افراد کو شرعی احکام کا مخاطب بنایا ہے۔لہٰذا نا بالغ غیر مسلم اس حکم کا مکّلف نہ ہوگا ۔ اس لئے کسی بچے پر یہ عائد نہ ہوگا ۔ اس بارے میں اما م ابو یوسف کا قول ہے کہ :
’’جزیہ اہل ذمہ کے مردوں پر واجب ہے‘‘۔(کتاب الخراج ،امام ابو یوسف ، ص 253 )
امام ابویوسف کی رائے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بچوں، عورتوں، اور فاتر العقل افراد کو اسکا مکّلف نہیں ٹھہرایا ہے۔
جزیہ صرف صاحب عقل غیر مسلم پر ہی نافذ ہوگا اور جس میں عقل نہ پائی جائےگی اس پر جزیہ کا حکم صادر نہ ہوگا۔ کتاب الخراج، امام ابویوسف ، ص 254
جزیہ سے مستثنیٰ افراد
(1) فقراء و مساکین
امام ابو یوسف لکھتے ہیں کہ :
’’جزیہ اس مسکین سے نہ لیا جائے گا جس پرصدقہ کیا جا سکتا ہے‘‘۔ ( کتاب الخراج ، امام ابو یوسف، ص 253)
ایسے فقراء و مساکین جن کو خیرات دی جاتی ہے ان سے جزیہ نہ لیا جائے گا ۔ امام ابو یوسف کی اس رائے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے فقراء و مساکین جزیہ کے حکم سے مستثنیٰ ہوں گے جن کا کوئی ذریعہ آمدنی نہ ہو، بلکہ اسلامی حکومت ایسے افراد کے اخراجات پورا کرنے میں مالی معاونت کرے گی۔ امام ابو یوسف کے قول کا ماخذ قرآن کی آیت ہے ۔
انما الصدقات للفقراءو المساکین ’’صدقات تو فقراءو مساکین کے لیے ہیں ‘‘۔( سورۃ التوبۃ آیت نمبر 60) فقراء سے مراد مسلمان ہیں اور مساکین سے مراد اہل کتاب ہیں ۔
(2) نا بینا ، دائمی مریض، اپاہج اور بوڑھے
ایسے افراد بھی جزیہ سے مستثنیٰ ہیں جو مادر زاد اندھے ہوں یا کسی بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے ان کی نظر جاتی رہی ہو۔ جو آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ رکھتے ہوں۔اسی طرح ہمیشہ رہنے والے بیمار، اپاہج اور بوڑھے شخص کا معاملہ ہے ، ان افراد کابھی معذورین میں شمار ہوتا ہے۔اسلئے ان پر جزیہ واجب نہ ہوگا۔ البتہ ایسے معذورین ، مفلوج اور نابینا جو خوش حال ہوں اور آسانی کے ساتھ جزیہ ادا کر سکتے ہوں ،تو ان سے جزیہ وصول کیا جائے گا۔(کتاب الخراج ، امام ابو یوسف ،ص253)
(3) مذہبی پیشوا اور راہب
جزیہ سے مستثنٰی افراد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں ،جو عام طور پر عبادت میں ہر وقت مصروف رہتے ہوں یا انہوں نے اپنے آپ کو مذہبی کا موں میں وقف کردیا ہو، ان میں پادری ،پنڈت،راہب، پروہت ایسے لوگ شامل ہیں البتّہ اگر یہ لوگ خوش حال ہوئے تو ان سے جزیہ لیا جائے گا۔ (کتاب الخراج، امام ابو یوسف، ص 253)
جزیہ معاف ہونے کے اسباب
مذکورہ بالا استثنائی صورتوں کے علاوہ دیگر اسباب و موانع بھی ہیں جن کی وجہ سے غیر مسلم شہریوں سے جزیہ معاف ہوتا ہے ۔ ایک سبب قبول اسلام ہے۔
امام ابو یوسف کا قول ہے کہ کسی غیر مسلم نے آزاد مرضی سے اسلام قبول کر لیا،اور پورا سال گزر گیا تب اس سے جزیہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ اگر (قبول اسلام سے قبل) اس پر جزیہ واجب تھا اور وہ ادا کرنے سے پہلے وفات پا گیا تب اسکے وارثوں سے اسکا مطالبہ نہیں کیا جائے گا ۔ (کتاب الخراج ، امام ابو یوسف ،ص 254) امام ابویوسف رائے کا ماخذ یہ آیت ہے :
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَـةٌ اِلٰى حِـمْلِهَا لَا يُحْـمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى(سورۃ فاطر آیت نمبر 18)
’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور اگر کوئی بوجھ والا اپنے بوجھ کی طرف بلائے گا تو اس کے بوجھ میں سے کچھ بھی اٹھایا نہ جائے گا اگرچہ قریبی رشتہ دار ہو‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’مسلمانو ں پر جزیہ نہیں ہے‘‘۔(ترمذی ، کتاب الزکوٰۃ ، باب ماجاء لیس علی المسلمین جزیۃ، ج 3، ص27) عمر بن عبد العزیز کا قول ہے‘‘۔ ایسا غیر مسلم شہری جو فوت ہوجائے یا بھاگ جائے اس پر جزیہ نہ رہے گا‘‘۔آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ’’ غیر مسلم کی موت کے بعد اس کے ورثاء سے جزیہ نہ لیا جائے گا۔اور نہ اسے قرض کی مانند قرار دیا جائے گا ۔( جس کی ادائی وراثت میں سے کی جاتی ہے) اور اس کے اہل و عیال سے نہ لیا جائے گا ۔اگر وہ بھاگ جائے کیوں کہ وہ اس کے ضامن نہ تھے۔
غیر مسلم کے جزیہ دینے پر اس کی جان و مال اور عزّت آبرو کی حفاظت کی جائے گی۔اگر کسی وجہ سے اس کی جان ومال اور عزّت آبرو کو کوئی نقصان پہنچ جائے تو حکومت اسلامی اس سے جزیہ لینے کی حقدار نہ ہوگی۔خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اہل حیرۃ سے معاہدہ کرتے وقت لکھ کر دیا تھا :’’اگر ہم تمہارا دفاع کرسکے تو جزیہ لینا ہمارا حق ہوگااگر نہیں تو نہیں ، تاوقتیکہ ہم تمہارے تحفظ اور دفاع کے قابل ہو جائیں‘‘ ۔ (تاریخ ام و ملوک ج 2، ص 270 )
ابو عبیدۃ رضی اللہ عنہ کی گورنری کے زمانے میں مسلمانوں کو شام کے بعض مفتوحہ علاقوں کو چھوڑ نا پڑا تو آپ نے اپنے امراء کو لکھا کہ جو کچھ تم نے اہل ذمہ سے جزیہ لیا ہے وہ انہیں واپس کردو اور ان سے کہو : ہم تمہارے اموال واپس کرر ہے ہیں کیونکہ ہمیں خبریں موصول ہورہی ہیں کہ ( رومیوں نے ) ہمار ے خلاف افواج جمع کر رکھی ہیں اور تم نے ہمارے ساتھ اس بنیاد پر صلح کی تھی کہ ہم تمہارا دفاع کریں گے ،اس وقت ہم دفاع سے قاصر ہیں اسلئے جو کچھ ہم نے تم سے لیا تھا اسے واپس کر رہے ہیں ۔ (کتاب الخراج ، امام ابو یوسف ، ص 283، 283)
وصولیابی
جزیہ کے وصولیابی سے متعلق امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ جزیہ وصول کرنے میں سختی نہ کی جائے گی۔
امام ابو یوسف کا قول ہے کہ :
’’ جزیہ وصول کرنے کے لیے کسی غیر مسلم کو مارا نہیں جائے گا ، اس کو کسی طرح کی جسمانی تکلیف نہیں دی جائے گی ۔ان پر تشدد کرنا یا کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا جس میں ان کی توہین کا پہلو ہو درست نہیں ہے ،بلکہ ان کے ساتھ نرمی کا برتاو کیا جائے گا ۔ ‘‘ (کتاب الخراج ،امام ابو یوسف ، ص 255 )
امام ابو یوسف کی رائے کا ماخذ یہ حدیث ہے ۔
’’ خبردارجس کسی نے غیرمسلم پر ظلم کیا یا اس کا نقصان کیا یا اس کی طاقت سے بڑھ کر اسے تکلیف پہنچائی یا اس کی دلی رضامندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو قیامت کے دن میں ایسے شخص سے جھگڑا کروں گا ‘‘۔ ( ابو داود ،م۔ن، کتاب الجھاد، باب تعشیر اہل الذمۃ اذا اختلفوا بالتجارات ھ 3، ص 170، ح 3051،نیز دیکھئے کتاب الخراج ،امام ابو یوسف ،ص 258)
ایک دوسری روایت ہے :
’’لوگوں کو بلاوجہ سزا مت دو، کیونکہ وہ لوگ جو دنیا میں لوگوں کو بلا وجہ سزا دیتے پھرتے ہیں قیامت کے دن اللہ تعالٰی بھی انہیں ایسے ہی سزا دے گا‘‘۔
(کتاب الخراج، امام ابو یوسف، ص 255،میں موجود ہے اور یہ حدیث الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ کئی حدیث کی کتابوں میں پائی جاتی ہے۔مثلا مسلم الجامع الصحیح ، کتاب البرو والصلۃ والآداب ، باب الوعید الشدید لمن عذب الناس بغیر حق ، ج 4، ص 2018، ح 2613، ابو داود ، السنن ، کتاب الجھاد ، باب فی التشدید فی جبایۃ الجزیۃ، ج 3،ص 169، ح 3045۔
الغرض اسلامی قانون میں غیر مسلم شہریوں کو بہت رعایت دی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ اسلامی حکومت میں کسی غیر مسلم پر زیادتی نہ کرو۔ایسا کرو گے تو اللہ کےنام پر کیے گئے عہد کو توڑوگے، جس کے ایفا کی ذمہ داری تم نے قبول کی تھی ، اس امر کی سنگینی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
جزیہ میں کمی نہ کی جائے
امام ابو یوسف کی رائے میں والی کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی (مکلف) غیر مسلم کو جزیہ وصول کئے بغیر چھوڑ دے۔ چنانچہ اس میں کمی کی گنجائش نہیں ہے۔والی کے لئے یہ جائز نہیں کہ کسی سے وصول کر لیں ،اور کسی کو چھوڑ دیں ۔اگر وہ جزیہ ادا کریں گے تو اس کے عوض ان کی جان و مال کو محفوظ رکھا جائے گا۔(کتاب الخراج، امام بو یوسف ،ص 258) جزیہ میں وصول کی جانے والی اشیاء :
امام ابو یوسف کا قول ہے کہ جزیہ کی ادائیگی میں یہ لوگ کوئی سامان یا جانور وغیرہ لے آئیں تو ان اشیاء کو بھی ان کی قیمت کے حساب سے قبول کر لیا جائے گا ۔
امام ابویوسف کی رائے کا ماخذ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم اور خلفائے راشد ین کے زمانے میں غیر مسلم شہری سونا، چاندی کی بجائے کوئی اور اشیاء پیش کرتے تو وہ قبول کر لی جاتی تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو انہیں حکم دیا کہ: (الترمذی، الجامع الصحیح،کتاب الزکوٰۃ،باب ماجاء فی زکوۃ البقر، ج 3، ص 20، ح623،)’’وہ غیر مسلم شہریوں کے ہر بالغ شخص سے ایک دینار یا اس کی قیمت کے برابر معافیر ( یمنی کپڑا )جزیہ کی مد میں وصول کریں ‘‘۔اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے صلح کے وقت طے کیا تھا کہ جزیہ میں ان سے سونے چاندی کے بجائے کپڑا اوراسلحہ وصول کیا جائے گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران سے اس بات پر صلح کی کہ وہ مسلمانوں کو ( ہر سال ) دو ہزار حلے(40)دیا کریں گے ۔ نصف صفر میں اور بقیہ نصف رجب میں ،نیز عاریۃًزرہیں 30 عدد ، گھوڑے30 عدد، اونٹ 30 عدد اوراسلحے کی ہر قسم سے 30 عدد جو جنگ میں کام آسکیں ، دیں گے، مسلمان ان کی واپسی تک ضامن ہوں گے۔،، (ابوداؤد ، کتاب الجھاد، باب فی اخذا لجزیۃ، ج 3،ص 167، ح 3041،)
جزیہ میں حرام اشیاء کی ممانعت
امام ابویوسف کہتے ہیں کہ غیر مسلم شہری سے جزیہ میں مردار ،سور، شراب جیسی حرام اشیاء قبول نہیں کی جائیں گی،امام ابو یوسف کے قول کی دلیل یہ روایت ہے : ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بعض عمال حکومت نے غیر مسلم شہریوں سے حرام اشیاء (جزیے میں) قبول کیں تو حضرت عمرؓ نے انہیں روک دیا اور حکم جاری کیا ، کہا کہ یہ اشیاء انہیں واپس کردو، اور ان سے اسکی قیمت وصول کرلو ‘‘ اسلئے ان سے جزیہ میں وہی چیزیں قبول کی جائیں گی ، جو مسلمانوں کے لیے مال کا درجہ رکھتی ہوں ۔ ( کتاب الخراج، امام ابو یوسف ،ص 253)
خلاصہ بحث
1) غیر مسلم جزیہ کی ادائیگی کے بعد اسلامی حکومت کے با ضابطہ شہری بن جاتے تھے ۔جس میں انہیں وہ تمام شہری حقوق حاصل ہوتے تھے جو مسلمان شہری کو حاصل تھے ۔
2) جزیہ غیر مسلم پر کسی طرح کا بوجھ نہیں تھا ،اور نہ ہی کسی طرح کا ظلم روا رکھا جاتا تھا ۔ مسلمانوں پر زکوٰۃ کے ساتھ فوجی خدمت بھی لازم ہوتی تھی ۔ لیکن غیر مسلم فو جی خدمت اور زکوٰۃ سے مستثنیٰ تھے ۔
3) جزیہ ہر غیر مسلم پر واجب نہیں تھا ، بلکہ ان کے صرف عاقل، بالغ ، اور کمائی کرنے والے مردوں پر عائد تھا۔ عورتیں ،بچّے ، بوڑھے، مذہبی پیشوا اور راہب، جزیہ ادا کرنے سے مستثنیٰ تھے۔
4) جزیہ وصول کرتے وقت ہدایت تھی کہ غیر مسلم سے جب جزیہ وصول کیا جائے تو ان کے ساتھ نرمی سے پیش آیا جائے۔ کئی موقعوں پر انہیں جزیہ سے چھوٹ بھی مل جاتی تھی ۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2018