ہر مسلمان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دین کیا ہے، شریعت کیا ہے اور فقہی مسلک کیا ہے؟
دین کیا ہے؟
دین اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا وہ طریقۂ زندگی اور صراط مستقیم ہے جس پر چل کر انسان کام یابی کی منزل پر پہنچتا ہے،کام یابی جو دنیا سے بھی تعلق رکھتی ہے اور آخرت سے بھی، ایسی کام یابی جو پائدار اور لازوال ہے، جو بندے کو خدا سے براہ راست ملاتی اور خوشنودئ ربانی کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے، جو دنیا میں دل کی سکینت اور آخرت میں لازوال مسرتوں کی ضمانت ہے۔ اس دین کا نام اسلام ہے۔ یہ دین اللہ کا پسندیدہ اور اس کی بارگاہ میں مقبول دین ہے۔ اس دین کے علاوہ جو کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا اس کا دین رد کر دیا جائے گا اور اللہ کے یہاں وہ مردود و مقہور اور جہنم کا سزاوار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ الدِّینَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ [آل عمران: 19]
(اللہ کے نزدیک پسندیدہ طریقۂ زندگی اسلام ہے)
وَمَنْ یبْتَغِ غَیرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ [آل عمران: 85]
(اس اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔)
اسلام کے معنی ہیں بلا شرکت غیرے تنہا ایک اللہ کی اطاعت و فرماں برداری اور بندگی۔صرف اسی کی پرستش و پوجا، اور صرف اسی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا، جن باتوں کا اس نے حکم دیا ہے انھیں بے چون و چرا ماننا اور خوش دلی سے انجام دینا اور جن کاموں سے اس نے روکا ہے بلا قیل و قال اور بلا حجت و دلیل اس سے رک جانا اور پوری زندگی کو خدا کے حوالے کر دینا۔
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے، اس خالص خدا پرستی میں کسی اور کی پرستش ذرا سی بھی شامل کی گئی تو یہ بات اللہ کو ہرگز منظور نہیں۔ اس ذرا سی لغزش سے اس بندہء مومن کی ساری عبادتیں اور تمام نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے. اس کے نوافل، اس کی تہجد گزاریاں سب اکارت ہو جائیں گی۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح پینے کے پاک پانی میں تھوڑی سی نجاست ملا دی جائے تو پورا پانی ناپاک ہو جاتا ہے یا تھوڑا سا زہر ملا دیا جائے تو وہ موت کا سبب بن جاتا ہے۔ اس پانی کو متقی و پرہیز گار پیے یا قاتل و بد کار، دونوں پر زہر کا اثر یکساں ہوگا۔
کوئی شخص معذرت پیش کر سکتا ہے کہ بھائی نا دانستگی اور لاعلمی میں مجھ سے یہ خطا سرزد ہو گئی ہے۔ مگر اس جواب سے حقیقت بدل نہیں جائے گی اور زہر اپنا کام کرنا چھوڑ نہیں دے گا۔ لاعلمی اور ناواقفیت نہ تو قانون قدرت کو اپنا کام کرنے سے روک سکتی ہے اور نہ قانون دنیا کو۔ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے، مگر اس کی غفاری ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو اسے بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھیں اور دوسروں کو بھی، اس کا بھی حکم مانیں اور دوسروں کو بھی حاکم سمجھیں، خواہ یہ دیدہ و دانستہ ہو یا نادانستگی میں۔ اگر جان بوجھ کر یہ عمل کیا گیا ہے تو بندہ شرک کے ساتھ سرکشی کا بھی مجرم ہے اور جس نے نادانی میں شرک کا گناہ کیا ہے تو اس کا گناہ بھی اسی وقت قابل معافی ہو سکتا ہے جب کہ وہ سچے دل سے توبہ کر لے اور ایک نئی خالص خدا پرستانہ زندگی کا آغاز کرے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ [القصص: 88]
(اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا یغْفِرُ أَنْ یشْرَكَ بِهِ وَیغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ یشَاءُ وَمَنْ یشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِیمًا [النساء: 48]
اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا، اس کے سوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے اور کوئی شریک ٹھہرایا اس نے تو بہت بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔
یہ دین اسلام، جو اللہ کے نزدیک بندوں کے لیے پسندیدہ طریقۂ زندگی ہے، کوئی نیا دین نہیں ہے جو پہلی بار حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا ہے۔ نہیں، بلکہ یہی دین حضرت آدم علیہ السلام پر بھی نازل ہوا تھا اور دوسرے انبیا علیہم السلام پر بھی نازل ہوتا رہا۔ دین شروع سے ایک رہا ہے۔ اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ یہ دین اس تاکید کے ساتھ نازل ہوا ہے کہ اسے قائم کرو، اپنی زندگی اور اپنے معاشرے میں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّینِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِی أَوْحَینَا إِلَیكَ وَمَا وَصَّینَا بِهِ إِبْرَاهِیمَ وَمُوسَى وَعِیسَى أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیهِ [الشورى: 13]
(اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا، اور جسے( اے محمد) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسی اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔)
شریعت کیا ہے؟
شریعت دراصل قانون، ضابطہ اور طریقہ کو کہتے ہیں۔ شریعت اسلامی کا مطلب یہ ہوا کہ وہ قوانین، ضابطے اور طریقے جو اللہ و رسول ﷺ کے توسط سے ہمیں ملے اور جو قرآن و حدیث میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ یہ قوانین ہمیں بندگی کے آداب سکھاتے ہیں، یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کیسے خدا کی عبادت کرنی چاہیے، کیسے خاندانی اور معاشرتی زندگی گزارنی چاہیے، معیشت اور تجارت کے ہمارے اصول و آداب کیا ہوں، ہماری حکومت و سیاست کا طریقہ کیا ہو، جرم و سزا کے قوانین کیا ہوں اور عدل و انصاف کا نظام کیسا ہو اور امن و جنگ کے قوانین پر عمل آوری کی صورت کیا ہو وغیرہ۔ شریعت ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ فرض کیا ہے اور نفل کیا، معروف کیا ہے اور منکر کیا، حلال کیا ہے اور حرام کیاہے۔ شریعت یہ بھی بتاتی ہے کہ فرائض کو انجام نہ دینے پر انسان گنہ گار ہوتا ہے، منکرات اور حرام کاموں سے نہ بچنے کی صورت میں وہ قابل سزا مجرم قرار پاتا ہے۔ قرآن میں شریعت کے یہ احکامات بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں جو زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں اور قرآن میں بیان کردہ احکام و قوانین کی توضیح وتشریح اور عملی تفسیر رسول اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ سے ہوتی ہے۔ قرآن و حدیث دونوں مل کر اسلامی شریعت کی تکمیل کرتے ہیں۔ شریعت اسلامی کی یہ رہ نمائی اتنی تفصیل سے بیان ہوئی ہے کہ انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک اس کے جملہ انفرادی و اجتماعی اعمال کا کوئی گوشہ اس کی رہ نمائی سےباہر نہیں رہتا ہے۔ خدا کی طرف سے عطا کی جانے والی یہ آخری شریعت اتنی جامع ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی، ان کی تمام مشکلات و مسائل میں، رہ نمائی کرتی رہے گی۔ جس طرح ہمارے رسول حضرت محمد ﷺ خدا کے آخری رسول ہیں اسی طرح آپ پر اتاری ہوئی شریعت بھی آخری شریعت ہے۔ یہ شریعت اس عالمی معاشرہ (global society)کے لیے ہے جس سے آج ہمارا واسطہ پڑ رہا ہے۔ آگے چل کر جب انسان سارے فاصلوں کو عبور کر کے فضاؤں اور خلاؤں میں ایک نئی دنیا آباد کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگا، ان شاءاللہ اس وقت بھی یہ شریعت انسانوں کی رہ نمائی کے لیے کافی ہوگی۔
اس سے پہلے جو شریعتیں انبیا علیہم السلام پر نازل ہوئیں وہ اتنی تفصیلی نہیں تھیں۔ پہلے انسانوں سے آباد دنیا چھوٹی تھی۔ اس لیے مسائل بھی کم تھے اور اسی اعتبار سے انھیں شریعت بھی عطا ہوتی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح دین ہمیشہ سے ایک رہا ہے اس طرح شریعت ہمیشہ یکساں نہیں رہی ہے بلکہ اس میں تھوڑا بہت فرق ہوتا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اَلْیوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِینَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیكُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا [المائدة: 3]
(آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔)
اس آیت کریمہ میں یہ جو فرمایا گیا کہ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے تو یہاں دین سے مراد شریعت ہے۔ دین تو ہمیشہ سے ایک ہی رہا اور ہمیشہ مکمل ہی رہا۔ کسی نبی کو غیر مکمل دین نہیں دیا گیا، البتہ شریعتیں ہر نبی کو اس زمانے کے احوال اور ضروریات کے مطابق دی گئیں اور ان میں تھوڑا بہت فرق ہوتا رہا ہے۔ سب سے آخر میں جب کہ پیغمبر آخر الزماں آ گئے تو شریعت اسلامی کی بھی تکمیل کر دی گئی جو قیامت واقع ہونے تک انسانوں کی رہ نمائی کرتی رہے گی۔ دراصل اس آیت کریمہ میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
مسلک کیا ہے؟
قرآن کریم اور احادیث کے وسیع ذخیرہ کے گہرے مطالعہ، دقیق غور و فکر اور تحقیق و چھان پھٹک کے بعد شرعی احکام و قوانین کا استنباط تاکہ ہر مسلمان ان احکام پر آسانی سے عمل کر سکے۔ یہ کام ہر کسی کے لیے آسان نہیں ہے۔ وہی شخص اس کام کو کر سکتا ہے جو تفقہ فی الدین یعنی دین کو سمجھنے کے لیے اپنی زندگی وقف کردے اور اپنے اندر تفقہ فی الدین کی اختصاصی صلاحیت پیدا کرے۔ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں انھیں فقیہ کہا جاتا ہے۔ دین کے احکام پر غور و فکر اور تدبر و تفقہ کرنے والے علما اپنی قابلیت کے لحاظ سے مختلف سطحوں اور درجوں کے ہوتے ہیں۔ جن کی سطح بہت اونچی ہوتی ہے وہ امام کے لقب سے پکارے جاتے ہیں۔
جب مختلف فقہا قرآن و حدیث پر غور کر کے مسائل معلوم کرتے ہیں تو ان کی آراء کا ایک دوسرے سے تھوڑا بہت مختلف ہو جانا کوئی غیر فطری بات نہیں ہے اور نہ گناہ ہے۔ سبھی فقہا نے پوری ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ قرآن و حدیث سے شریعت کے احکام اور مسائل معلوم کرنے کی کوشش کی ہے اور جس رائے کو جس نے سب سے زیادہ صحیح سمجھا ہے وہ بیان کردیا ہے۔ قرآن و حدیث سے احکام و مسائل کے استنباط میں فقہا کے درمیان رایوں کا جو اختلاف ہوا ہے اس کی بنیاد پر مختلف مسالک بنے ہیں۔ ان تمام مسالک کی پشت پر کتاب و سنت کی اتباع کا جذبہ کار فرما رہا ہے۔
ویسے تو فقہا بہت گزرے ہیں مگر ان میں چار سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ (اللہ کی رحمتیں ہوں سب پر)۔ یہ وہ ہیں جن کے مسلک کی پیروی کرنے والے دنیا میں سب سے زیادہ پائے جانے ہیں۔ ان ائمہ کے مسالک کی پیروی کرنے والے ان کے ناموں سے منسوب ہوتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے مسلک کی پیروی کرنے والے حنفی کہلاتے ہیں، امام مالک کی پیروی کرنے والے مالکی، امام شافعی کی پیروی کرنے والے شافعی اور امام احمد بن حنبل کی پیروی کرنے والے حنبلی کہے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک اچھی خاصی تعداد اہل حدیث حضرات کی ہے جو کسی امام کی پیروی نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ خود براہ راست شریعت کے احکام و مسائل حدیث سے معلوم کرتے ہیں، اور اس وجہ سے وہ اہل حدیث کہے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ کام ان کا ہر عامی نہیں کرتا بلکہ ان کے علما اور فقہا ہی کرتے ہیں اور عملاً یہ بھی ایک مسلک ہی کی صورت بن جاتی ہے۔ پھر بھی ائمہ کی پیروی کرنے والوں کو وہ مقلد اور اپنے آپ کو غیر مقلد کہتے ہیں۔ بہرحال مشہور ترین یہ پانچ مسالک حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور اہل حدیث ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔ جو مسلمان دین پر عمل کرنے کے لیے شریعت کے جس طریقے کی پیروی کرنا چاہے انشراح صدر اور اطمینان قلب کے ساتھ کرے۔ مسلک دین نہیں ہے بلکہ دین پر عمل کرنے کے لیے قرآن و حدیث کے احکام کی تشریح و توضیح میں اختلاف کی مختلف شکلیں ہیں۔ اس اختلاف سے پریشان نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ یہ دین کا اختلاف نہیں ہے، عقائد کا اختلاف نہیں ہے، اجماع امت کا اختلاف نہیں ہے بلکہ شریعت کی توضیح و تشریح کا فطری اختلاف ہے، اور دیانتداری اور نیک نیتی کی بنیاد پر اس اختلاف کا ظہور ہوا ہے۔
مختلف فروعی اور فقہی رائیں دراصل دین پر عمل کرنے کی راہیں کشادہ کرتی ہیں، راستے کی مشکلات دور کرتی ہیں اور منزل پر پہنچنے کے لیے نئے راستے بھی بناتی ہیں۔ یہ سب فقہی اختلاف کے نتیجے میں فطری طور سے ہوتا ہے۔ اس طرح دین پر عمل کرنے والوں(ہر کم زور و ضعیف) کے لیے آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
مسلک کا اختلاف ایک جزوی اور فروعی اختلاف ہے، یہ عقائد اور دین کا اختلاف نہیں ہے، اس لیے مسلک کی تبلیغ کے لیے جماعت سازی اور مسلکی گروہ بندی بھی صحیح نہیں ہے۔ اور مسلک کوئی ایسی چیز ہے بھی نہیں کہ اس کی تبلیغ کی جائے۔ دین کی تبلیغ کے بجائے مسلک کی تبلیغ میں وقت لگانا وقت کو برباد کرنا اور تبلیغ دین کی اہمیت کو کم کرنا ہے۔ اس مسلک پر چلیں یا اس مسلک پر چلیں، اصل مقصد تو شریعت کی پیروی ہے۔ اس لیے جو کوئی بھی جس مسلک پر چل کر دین و شریعت کی پیروی کر رہا ہے وہ اپنی جگہ پر کام یاب ہے اور اپنی منزل مقصود کو پا رہا ہے۔ اگر کسی کو اس بات پر اطمنان نہیں ہے اور وہ صرف اپنے ہی مسلک کی پیروی کو حق سمجھتا ہے تو وہ بتائے کہ اگر سب لوگ اس کا مسلک اختیار کرلیں تو اس سے کون سا انقلاب آجائے گا؟ مثال کے طور پر اگر سب لوگ حنفی ہوجائیں یا شافعی، یا مالکی یا حنبلی ہو جائیں یا سب لوگ اہل حدیث ہو جائیں تواس سے کیا فرق پڑے گا۔ کیا دین آسمان کی بلندیوں پر پہنچ جائے گا، کیا دین مغلوب سے غالب ہو جائے گا، اور کیا ملت کا انتشار اتحاد میں بدل جائے گا ؟ کیا مسلمانوں کے بگڑے ہوئے عادات و اطوار سدھر اور سنور جائیں گے؟ ہرگز نہیں۔
کسی مسلک کے غالب ہونے سے دین غالب نہیں ہو سکتا ہے بلکہ دین کو غالب کرنے سے دین غالب ہوگا، اس لیے مسلک کو غالب کرنے کے بجائے دین کو غالب کرنے کی جد و جہد کرنا چاہیے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دین کی تبلیغ کے بجائے مسلک کی تبلیغ کا کوئی جواز نہیں ہے، مسلک کی بنیاد پر جماعت سازی کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔ مسلک مسلک کرنے سے نہ ملت کی ترقی ہوگی اور نہ دین کی اقامت۔ دین کی اقامت و سر بلندی اور ملت کی ترقی تو جب ہوگی جب مسلمان ایسی جماعت بنائیں جو اسلام کے احیا اور سر بلندی کے لیے کام کر رہی ہو اور جس میں ہر مسلک کے ماننے والے بخوشی شامل ہوں۔ اس طرح مسلمان مسلک کے نہیں دین کے مبلغ بن جائیں گے۔ اور مسلمانوں کو مسلک کا نہیں، دین ہی کا مبلغ بننا چاہیے، یہی خدا و رسول کا حکم ہے۔ اسی واسطے اللہ نے امت مسلمہ کو امت وسط اور خیر امت بنایا ہے۔ یہ وہ اصل کام ہے جسے بھول کر امت مسلمہ نہ جانے کن بھول بھلیوں میں گم ہو گئی ہے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2022