عدل کے تقاضے اور معاشی اصلاحات

اشارات کے صفحات میں، گذشتہ چند ماہ سے وہ موضوعات زیر بحث لائے جارہے ہیں جنھیں اِس وقت ملک میں سیاسی ڈسکورس کے عنوانات بنانے کی ضرورت ہے اور جن کے حوالے سے ہندتو کے علم برداروں سے بھی اور سیکولر اہل فکر کے ساتھ بھی گہرے مذاکرات کی اور ملک کی رائے عامہ میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ ان مباحث کا مرکزی عنوان عدل کا حصول ہے جو اسلام کی ایک نہایت اہم قدر ہے۔ اہل اسلام کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے علم بردار بنیں اور ان کے تئیں ملک کی رائے عامہ کی تربیت کی کوشش کریں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ موجودہ حالات میں عدل و انصاف کے جن تقاضوں کی تکمیل بھی ممکن ہے اس کے لیے سنجیدہ کوشش کریں اور یہی کوشش ان کی ملی کاوشوں کا اصل حوالہ اور عنوان بنے۔

اس ماہ ہمارا موضوع معیشت کے میدان میں مطلوب اصلاحات ہے۔ یہ موضوع نیا نہیں ہے۔ ملک کے معاشی مسائل بھی اور اسلام کی اقتصادی تعلیمات بھی زندگی نو کے قارئین کے درمیان زیر بحث آتی رہتی ہیں۔ اشارات کے اس کالم میں بھی اس موضوع کے کچھ پہلوؤں پر ہم (نومبر 2019 کے شمارے میں) گفتگو کرچکے ہیں لیکن معاشی اصلاحات کو چونکہ ہمارے خیال میں ہمارے ڈسکورس کا ایک اہم عنوان بنانے کی ضرورت ہے، اس لیے اس پر گفتگو کے بغیر ہماری یہ بحث مکمل نہیں ہوگی۔ اس وجہ سے اس موضوع کے کچھ اہم پہلوؤں پر ذیل کی سطروں میں کچھ معروضات پیش کی جارہی ہیں۔

موجودہ صورت حال کا اہم پہلو

دنیا کےمتعدد ممالک کی طرح اس وقت ہمارے ملک میں معیشت کا وہی ماڈل نافذ ہے جس میں سارا زور، ملک کی معاشی ترقی (growth) پر ہوتا ہے۔ اس بات پر بہت کم توجہ ہوتی ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی دولت کس طرح تقسیم ہورہی ہے؟ اگر ملک میں زیادہ سے زیادہ پیداوار (production) ہو اور ذرائع پیداوار کے مالکین کا نفع زیادہ سے زیادہ ہو یعنی ملک کی مجموعی پیداوار (GDP) میں اضافہ ہو تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے خود بخود زیادہ سے زیادہ روزگار پیدا ہوگا اور لوگوں کی ضرورتیں پوری ہوں گی۔ جدید سرمایہ دارانہ فکر کے باوا آدم، ایڈم اسمتھ (Adam Smith d.1790)کے الفاظ میں دولت مند سرمایہ داروں کی دولت بڑھے گی تو اس کا کچھ حصہ ضرور نیچے (ان کے خادموں کو) بھی منتقل ہوگا۔[1] معاشی انتظام کے اس ماڈل میں ملک میں پیدا ہورہی دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے خصوصی پالیسیوں یا اقدامات کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی بلکہ ایڈم اسمتھ اور متعدد کلاسیکی مغربی معاشی مفکرین نےتوعدم مساوات کو ملک کی معاشی ترقی کے لیے مفید قرار دیا تھا۔[2] اس سے آگے بڑھ کرمشہور برطانوی معاشیات داں، جان کینس (J.M. Keynes d. 1946) کے نزدیک مساوات پیدا کرنے کی کوششیں، معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔[3]  ان تصور ات کے اثرات آج بھی موجود ہیں اور ہمارے ملک کے پالیسی سازوں اور پالیسی مشیروں پر عام طور پر یہی سوچ غالب ہے۔ چناں چہ ہر بجٹ کے موقعے پر ’ریفارم‘ کے نام پر جو بحثیں چھڑتی ہیں ان میں زیادہ زور اسی پر ہوتا ہے کہ خسارہ کم کیا جائے، سبسڈیاںکم کی جائیں، ٹیکس کم کیے جائیں اور انفرا اسٹرکچر پر خرچ بڑھایا جائے، بڑے بزنس اور انڈسٹری کو رعایتیں دی جائیں وغیرہ۔

چناں چہ آج دنیا کے کئی ملکوں میں اور خاص طور پر ہمارے ملک میں ناانصافیوں کا ایک بڑا سرچشمہ عدلِ توزیعی (distributive justice)کے تقاضوں کا مجروح ہونا ہے۔ مڈل کلاس اور خوش حال تعلیم یافتہ طبقے کا ذہن اب کچھ اس طرح بن گیا ہے کہ معاشی عدل کی کوششوں کو وہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک کی دولت تو تیزی سے ترقی کررہی ہے لیکن اس دولت کا فائدہ عام آدمی کو بہت کم پہنچ پارہا ہے۔

آزادی کے بعد ہمارے ملک کی جی ڈی پی (موجود قیمتوں کے لحاظ سے) تقریباً دس ہزار کروڑ روپے تھی[4] وہ اب بڑھ کر 147 لاکھ کروڑ ہوگئی ہے[5]یعنی موجودہ قیمتوں کے اعتبار سے قومی پیداوار میں ڈیڑھ ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔ عالمی جی ڈی پی میں ہمارے ملک کا تناسب آزادی کے وقت محض چار فیصد تھا[6] (واضح رہے کہ اورنگ زیب کے زمانے میں یہ تناسب سب سے زیادہ یعنی ستائیس فیصد تھا[7]جو 1980 میں گھٹ کر محض 2.5فیصد رہ گیا۔[8] آج یہ تناسب بڑھ کر تقریباًساڑھے آٹھ فیصد ہوگیا ہے۔[9] اب ہندوستان کی قومی پیداوار برطانیہ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ امریکہ اور چین کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ یعنی 140ارب پتی سرمایہ دار(جن کے پاس سوکروڑ ڈالر یا سات ہزار کروڑ روپے سے زیادہ دولت ہے)اب ہمارے ملک میں ہیں۔ (دل چسپ بات یہ ہے کہ عالمی وبا کے زمانے میں یہ تعداد 102سے بڑھ کر 140ہوگئی!)[10]

لیکن دولت میں اس بے پناہ اضافہ کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ آج بھی دنیا کی غریب ترین آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہمارے ملک ہی میں ہے۔[11] غریبوں اور امیروں میں فرق کی صورت حال یہ ہے کہ ملک کی جملہ آمدنی میں امیر ترین افراد کی آمدنی کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے۔ امیر ترین ہندوستانیوں اور غریبوں کے درمیان دولت کے تناسب کے حوالے سے متعدد مطالعات موجود ہیں۔ کریڈٹ سوئس کی اسٹڈی کے مطابق تو محض ایک فیصد امیر ترین ہندوستانی ملک کی چالیس فیصد سے زیادہ دولت پر قابض ہیں۔[12] اگر ہم نسبتاً زیادہ محتاط ذرائع پر انحصار کرنا چاہیں تو بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک فی صد امیر ترین لوگ بھی پچاس فیصد غریب لوگوں سے کہیں زیادہ یعنی 22فی صد وسائل پر قابض ہیں۔[13]  منسلک چارٹ (1)سے اندازہ ہوتا ہے کہ امیر ترین دس فیصد افراد کی دولت پچاس فیصد غریب عوام کی مجموعی دولت کے مقابلے میں کس تیزی سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔

اس  چارٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر ترین دس فیصد افراد کی دولت کا تناسب اس وقت، ملک کی مجموعی دولت میں تقریباً ستاون فی صد ہے۔ یہ معلوم تاریخ کا سب سے زیادہ تناسب ہے۔ یعنی انگریزوں کے زمانے میں جب ملک کے وسائل پر بڑے بڑےزمین دار، جاگیردار قابض تھے، اس وقت بھی امیری غریبی کا فرق اتنا زیادہ نہیں تھا جتنا آج ہے۔ غریب نصف آبادی، یعنی ستر کروڑ ہندوستانیوں کے پاس مجموعی طور پر ملک کی دولت کا صرف تیرہ فیصد ہے جو اب تک کی تاریخ میں سب سے کم ہے۔ دو سو سال پہلے (1820میں)یہ تناسب 16 فیصد تھا جو آزادی کے بعد بڑھتے بڑھتے 1980میں بائیس فیصد تک چلاگیا تھا اور اب گھٹ کر تاریخ کے بدترین مقام کو پہنچ چکا ہے۔ سب سے خطرناک بات جو اس چارٹ سے واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ صورت حال سال بہ سال تیزی سے خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔[14]

اس صورت حال کا اصل سبب، جیسا کہ اوپر کی سطروں میں واضح کیا گیا، کلاسیکی مغربی معاشی مفکرین کا یہ مفروضہ ہے کہ ترقی اور مساوات کے تقاضے باہم متضاد ہیں۔ اس سوچ کا اثر یہ ہے کہ ملکوں کی معیشت میں زیادہ تر توجہ یا تو ترقی پر دی جاتی رہی یا مساوات پر۔ ہمارے ملک میں آزادی کے بعد سوشلسٹ پالیسیوں کے زیر اثر مساوات پر توجہ مرکوز کی گئی تو نتیجہ یہ نکلا کہ 1980میں ملک میں گذشتہ دو سو برسوں میں سب سے زیادہ مساوات تھی (چارٹ 1 ملاحظہ فرمائیں) لیکن ٹھیک یہی وہ سال تھا جب عالمی جی ڈی پی میں ہمارے ملک کا تناسب معلوم تاریخ میں سب سے کم تھا۔ معاشی ترقی نہ ہو تو مساوات بے فیض ہوجاتی ہے۔ جب ملک میں دولت کی پیداوار ہی کم ہوگی تو یہ معمولی دولت مساوی تقسیم ہوکر بھی شہریوں کی خوش حالی کا ذریعہ نہیں بن سکے گی۔ مساویانہ تقسیم کے باجود سبھی غریب رہیں گے۔ ستّر اور اسّی کے دہے زیادہ تر اسی صورت حال سے عبارت تھے۔ اس کے مقابلے میں آج ملک کی دولت میں بے نظیر اضافہ ہورہا ہے اور عالمی جی ڈی پی میں ہماراتناسب آزادی کے بعد سب سے زیادہ ہے، لیکن معاشی عدم مساوات بھی معلوم تاریخ میں اب تک کی سب سے زیادہ ہے۔ ملک میں بے پناہ دولت آئے اور کروڑوں کی آبادی میں چند افراد تک محدود رہے تو ایسی دولت کا کیا فائدہ؟ اور اسے کیسے ملک کی ترقی قرار دیا جاسکتا ہے؟ ایک ناگوار انتہا سے نکل کر اب ہم گویا دوسری ناگوار انتہا پر پہنچ چکے ہیں۔

لیکن کیا واقعی مساوات اور ترقی ایک دوسرے کے متضاد ہیں؟ اب مغربی معاشیات میں بھی یہ سوچ تیزی سے بدل رہی ہے۔ پہلے تو نیا کلاسیکی (neoclassical economics) نقطہ نظر وجود میں آیا جس کے مطابق مساوات اور ترقی دو الگ الگ چیزیں ہیں اور دونوں میں باہم کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی سوسائٹی تیزی سے ترقی بھی کرے اور وہاں مساوات بھی ہو۔

گذشتہ چالیس برسوں میں مغربی معاشیات میں ایک بالکل مختلف سوچ پروان چڑھی ہے جس کے مطابق مساوات، ترقی میں رکاوٹ نہیں بلکہ معاون ہے۔ اوڈیڈ گیلر(Oded Galor, b.1953) جوزف زیرا [15](Joseph Seira, b.1950) وغیرہ ماہرین معاشیات نے مختلف ماڈلوں سے یہ بات ثابت کی ہے کہ ملک میں مساوات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم، پورے ملک کی ترقی میں نہ صرف مددگار ہے بلکہ ضروری ہے اور عدم مساوات دیگر خرابیوں کے ساتھ معاشی ترقی کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ نوبل انعام یافتہ فرانسیسی ماہر معاشیات تھامس پکیٹی (Thomas Pickety, b. 1971) نے ایک حد میں عدم مساوات کو فطری قرار دیا ہے لیکن جب عدم مساوات اس حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ پورے ملک کی ترقی کے لیے رکاوٹ بن جاتی ہے۔[16]

بدقسمتی سے یہ اہم معاشی نظریات ابھی تک سیاسی سطح پر مقبول نہیں ہوسکے ہیں اور اہم ملکوں کی سیاسی قیادتیں اور ان کےدقیانوسی معاشی مشیر ابھی بھی مساوات کو ترقی کا حریف ہی سمجھتے ہیں اور اپنے معاشی تجزیوں اور معاشی منصوبہ بندی کے لیے زیادہ تر سرمایہ دارانہ معیشت کے اُسی فرسودہ ڈی ایس جی ای (dynamic stochastic general equilibrium model) ماڈل پر انحصار کرتے ہیں جس پر، مشہورنوبل انعام یافتہ امریکی ماہر معاشیات رابرٹ سولو نے امریکی پارلیمان کی ایک خصوصی تفتیشی کمیٹی کے سامنے انتہائی سخت اورتہلکہ خیز تنقید کرتے ہوئے کہا تھا:

’’ڈی ایس جی ای اور اس جیسے ماڈل، سونگھنے کے ٹسٹ میں ٹھہر نہیں سکتے (یعنی معمولی مشاہدہ بھی ان کو ناقص ثابت کرنے کے لیے کافی ہے) ..اس کے حامی بے شک جو کہہ رہے ہیں اس پر(ایمانداری سے)یقین بھی رکھتے ہوں گے، لیکن شاید انھوں نے سونگھنا ہی چھوڑ دیا ہے یا سونگھنے کی صلاحیت مکمل طور پر گنوا چکے ہیں[17]‘‘

اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ اہم بات ہمارے سیاسی بیانیے کا اہم موضوع بنے۔ ہماری معاشی پالیسیاں اس طرح تشکیل پائیں کہ وہ گروتھ کو بھی یقینی بنائیں اور عادلانہ تقسیم کو بھی۔ ملک کی معیشت تیزی سے ترقی بھی کرے اور اس کے فائدے ملک کے ہر شہری تک پہنچیں۔ صلاحیتوں کی، انوویشن کی، انٹرپرنر شپ کی قدر بھی ہو، ان کا بھرپور معاوضہ بھی لوگوں کو ملے، ذاتی ملکیت کے حق کو بھی اہمیت دی جائے تاکہ معاشی ترقی کی امنگ اور حوصلہ، لوگوں کو محنت، سرگرمی اور ایجاد و اختراع کے لیے آمادہ رکھے، لیکن یہ حق لامحدود نہ ہو۔ اس کو اس طرح منضبط کیا جائے کہ، ملک کے غریبوں، مجبوروں، اور کم زوروں کی ضروریات بھی نظر انداز نہ ہوں۔ یہی اسلام اور اسلامی شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ بات ہے اور آج کے ہندوستان میں قوت کے ساتھ اس آواز کو بلند کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

اسلام کا نقطہ نظر

عام طور پر اسلامی معاشیات کے روایتی لٹریچر میں زیادہ زور تقسیم ِدولت پر ہوتا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اسلام کا اصل امتیاز عدل ہے۔ جس طرح کیپٹلزم کااصل نعرہ گروتھ ہے اور سوشلزم کا نعرہ مساوات یا تقسیم ہے، اسلام کا زور عدل پر ہے۔ عدل میں گروتھ بھی شامل ہے اور منصفانہ تقسیم بھی۔ معاشی عدل، اسلام کے ہمہ گیر تصور عدل کا نہایت اہم جز اور اسلام کی اجتماعی اخلاقیات کا ایک اہم حصہ ہے۔

اسلامی تعلیمات میں گروتھ اور معاشی ترقی کی صرف اجازت نہیں، بلکہ زبردست ہمت افزائی بھی ہے۔ مال کو اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل قرار دیا ہے اور اس کے لیے جستجو کی طرف بھی اشارہ کیا ہے: فَإِذَا قُضِیتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِی الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّہ(پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ الجمعہ :۱۰) دنیا سے اپنا حصہ فراموش نہ کرنے کی اور اس حصے کو آخرت کی کام یابی کے لیے استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وَابْتَغِ فِیمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِیبَكَ مِنَ الدُّنْیا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَیكَ)جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے۔ قصص :۷۷) انفاق و صدقات کی فضیلت اور زکوة کی فرضیت سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان عظیم نیکیوں کا اجر حاصل کرنے کے لیے مال بھی کمایا جائے۔

بعض نصوص میں تو گروتھ کی بڑی وضاحت کے ساتھ ہمت افزائی موجود ہے۔ امام ترمذی ؒ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ألا من ولى یتیما له مال فلیتجر فیه ولا یتركه حتى تأكله الصدقة[18] [اگرکوئی کسی یتیم کا ولی ہے اور اس کا مال اس کی تولیت میں ہے تواسے چاہیے کہ اس مال کو تجارت میں لگائے تاکہ زکوة اُس مال کو ختم نہ کردے(یعنی مال میں گروتھ نہیں ہوگی تو صرف سال بہ سال زکوة کی ادایگی کی وجہ سے وہ کم ہوتا رہے گا اور بلوغ کے بعد یتیم کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا)]اگرچہ اس حدیث کی اسناد میں محدثین کے نزدیک ضعف ہےلیکن اس کے معنوں کو انھوں نے درست قرار دیا ہے۔ اس کی تائید حضرت عمرؓ کے ایک قول سے بھی ہوتی ہے جس کی اسناد صحیح ہیں۔ (اتجروا بأموال الیتامى لا تأكلها الزكاة)[19] ان روایتوں سے مال کی گروتھ کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر بڑی وضاحت سے سامنے آتا ہے کہ یتیم کا مال جو امانت ہوتا ہے، اسے بھی گروتھ کے بغیر بے کار رکھنا پسندیدہ نہیں ہے۔ زکوة جو آمدنی پر نہیں بلکہ اثاثوں پر عائد ہوتی ہے، وہ بھی مجبور کرتی ہے کہ آدمی مال کو مصروف رکھے اور پیداواری مقاصد کے لیے استعمال کرے، ورنہ کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے مال میں جو کمی آتی ہے اس پر مستزاد، محض زکوة سے مال ہر ستائیس سال میں نصف ہوجاتا ہے۔

امام بخاری نے حضرت حکیم بن حزام ؓ سے مروی حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا تھا۔ ’’اے حکیم! یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے۔ لیکن جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کر لے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے۔ اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہیں ہو تی، اس کا حال اس شخص جیسا ہو گا جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا (یاد رکھو) اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ ‘‘[20] ہ حدیث مال کی اہمیت بھی واضح کرتی ہے۔ حصولِ مال کی جائز خواہش کو درست بھی قرار دیتی ہے لیکن ساتھ ہی حصولِ مال کے جذبے کوایک پاکیزہ رخ بھی دیتی ہے اور اس کا ایک مقصد بھی متعین کرتی ہے۔ ایک اور صحیح حدیث میں آپؐ نے اس شخص کی کیفیت کو سب سے افضل قرار دیا ہے جسے مال بھی ملا اور (مال کے درست استعمال کا) علم بھی عطا ہوا اور وہ خدا سے ڈرتے ہوئے اور صلہ رحمی و حقوق کی ادایگی کے ساتھ مال خرچ کرتا رہا۔ ( رزقَه اللَّهُ مَالا وعلماً فهوَ یتَّقِی فِیهِ رَبَّهُ وَیصِلُ رَحِمَهُ وَیعْمَلُ لِلَّهِ فِیهِ بِحَقِّهِ فَهَذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ([21]

صحابہ کرام کے اسوے سے بھی اس اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ عشرہ مبشرہ میں چار صحابہ (عبد الرحمن بن عوفؓ، زبیر بن عوامؓ، عثمان بن عفانؓ اور طلحہ بن عبیداللہؓ) انتہائی دولت مند صحابہ تھے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ زندگی بھر بے پناہ صدقہ و خیرات اورہدایا و عطیات اور کار خیر میں دولت لٹاتے رہنے کے بعد جب رحلت فرماگئے تو ترکے میں وصیت کے بعد بچے ہوئے مال کا تخمینہ تقریبا آٹھ ہزار کروڑ روپے تھاجو ایک بلین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سا مال انھوں نے چھوڑا تھا۔ حضرت زبیر بن عوامؓ، حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ اور حضرت عثمان بن عفانؓ کے صرف ترکوں کی تفصیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب صحابہ آج کی قیمتوں کے حساب سے ایک سوکروڑ روپیوں سے زیادہ دولت ترکے میں چھوڑ گئے۔ یہ تمام صحابہ ؓمکے سے ہجرت کے بعد نہایت غربت اور کسمپرسی کے عالم میں مدینہ آئے تھے اورنہایت ایمانداری کے ساتھ تجارت کرتے ہوئے اور اللہ کی راہ میں زندگی بھر مال لٹاتے ہوئے، دولت کے اس مقام کو پہنچے تھے۔[22]

یہی اسلام کی معاشی فکر کا اصل امتیاز ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ دولت ترقی کرے۔ پرائیوٹ پراپرٹی کی اور انٹرپرنر شپ کی حوصلہ افزائی بھی ہو لیکن یہ جذبہ بھی پیدا کیا جائے کہ جو مال حاصل ہورہا ہے وہ امانت ہے۔ اس میں سے کھانا پینا اورخوش حال زندگی گزارنا ممنوع نہیں ہے، لیکن مال کی بے جا حرص جسے قرآن نے تکاثر کہا ہے جائز نہیں ہے۔ یہ ضروری ہے کہ انسان مال کو اللہ کی امانت سمجھے۔ خود کو اس مال کا ٹرسٹی محسوس کرے اور مال میں اللہ کے دیگر بندوں اور سماج کے حق کو خوش دلی سے قبول کرے۔ مال کے امانت ہونے کا تصور قرآن میں کئی جگہ بڑی وضاحت سے ملتا ہے۔ آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِینَ فِیهِ ۖ فَالَّذِینَ آمَنُوا مِنكُمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِیرٌ ) ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو اس مال میں سے جس کا اس نے تم کو امین بنایا ہے۔ پس جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں اور خرچ کریں، ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ الحدید 7) یعنی پرائیویٹ پراپرٹی کے حق کا مطلب ہرگز لامحدود حق نہیں ہے۔ اپنے مال میں اپنے حق کو لامحدود سمجھنا قرآن کے مطابق اللہ کے باغیوں کی روش ہے۔ قَالُوا یا شُعَیبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا یعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِی أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ) اے شعیبؑ، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پر ستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنی منشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟۔ ہود: ۸۷)

پرائیوٹ پراپرٹی کے حق کے نتیجے میں کچھ لوگ مال دار اور کچھ نسبتاً غریب بھی ہوں گے۔ ایک حد تک یہ تفاوت فطری ہے اور اسلام نے اسے اللہ کی نشانی اور اللہ کی جانب سے امتحان کا ایک ذریعہ قرار دیا ہے۔ وَهُوَ الَّذِی جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیبْلُوَكُمْ فِی مَا آتَاكُم ) وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمھاری آزمائش کرے۔ الانعام :۱۶۵) اس تفاوت كو اللہ کی جانب سے امتحان کے علاوہ ایک تمدنی ضرورت بھی قرار دیا گیاہے۔ نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَیۡنَھُمۡ مَّعِیۡشَتَھُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ رَفَعۡنَا بَعۡضَھُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعۡضُھُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِیًّا ( دنیا کی زندگی میں ان کی معیشت کا سامان تو ہم نے تقسیم کیا ہے بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے تاکہ وہ باہم دگر ایک دوسرے سے کام لے سکیں۔ الزخرف:۳۲)لیکن اسلام ایسے انفرادی جذبات اور اجتماعی پالیسیاں فروغ دیتا ہے جن کی وجہ سے یہ فرق ایک حد سے آگے بڑھ نہیں پاتا اور ایسی صورت حال نہیں پیدا ہوتی کہ سماج میں دولت ہو اور اس کے باوجود اس کا ایک حصہ لاچاری اورغربت و محرومی کی زندگی گزارے۔

اللہ کی امانت سمجھتے ہوئے مال میں تصرف کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ خود پر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ سماج کے غریب ومجبور لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے اور زیادہ سے زیادہ انفاق کیا جائے۔ اپنے مال میں غریبوں کا باقاعدہ حق مانا جائے۔ وَفِىٓ أَمْوَٰلِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُومِ ( اور ان کے اموال میں مانگنے والوں اور محروموں کا بھی حق ہوتا ہے۔ الذاریات :۱۹)

افراد کو یہ حکم دینے کے ساتھ ساتھ اسلام نے معاشرے کو بھی اس کاپابند بنایا ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں اختیار کرے کہ دولت مرتکز نہ ہو اور امیروں سے غریبوں کی طرف اس کا بہاؤ ہو۔ (لِكَی لا یكُونَ دُولَةً بَینَ الْأَغْنِیاءِ مِنكُمْ۔ دولت صرف تمھارے امیر لوگوں کے درمیان گردش نہ کرے۔ الحشر:۷) سماج میں کوئی بھوکا نہ رہے یعنی ضروریات زندگی کی تکمیل کو اسلام، ہر انسان کا پیدائشی حق مانتا ہے اور پورے معاشرے کو اس حق کی فراہمی کا ذمے دار بناتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا لیس المؤمن بالذی یشبَعُ وجارُه جائع إلى جنبه (وہ شخص مومن نہیں جو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو)[23]

ان مقاصد کے حصول کے لیے اسلام نے ایک طرف مال داروں میں دولت کے ارتکاز کا راستہ روکا ہے۔ سود کی ممانعت بھی اسی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔[24]  اس کے علاوہ تقسیم وراثت اور زکوة، تقسیم دولت کے اہم ترین اور انتہائی موثر آلات (tools) ہیں۔ تقسیمِ وراثت کی معاشی افادیت اور خاص طور پر معاشی عدل میں اس کے کردار پر بہت کم کام ہوا ہے۔ پکیٹی نے اپنی کتاب میں اُس صورت حال کو موجودہ دنیا کا بہت بڑا معاشی مسئلہ قرار دیا ہے جسےوہ آبائی سرمایہ داری (patrimonial capitalism)کہتے ہیں۔ موروثی اثاثے کئی نسلوں تک زیادہ تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے ایسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ دنیا کے وسائل چند خاندانوں میں محدود ہوتے جارہے ہیں۔ عالمی دولت کا کم حصہ محنت اور صلاحیت سے کمایا جارہا ہے اور زیادہ حصہ موروثی طور پر حاصل ہورہا ہے۔ اس سے معیشت کو جو شدید نقصان ہورہا ہے اورارتکاز دولت سے جو تباہ کن عدم مساوات جنم لے رہی ہے، اس پر پکیٹی کی بحث بڑی بصیرت افروز ہے۔ اسلام کا قانون وراثت اس مسئلے کو بہت خوب صورتی سے حل کرتا ہے۔[25]

اسلام ضرورت پڑنے پر مذکورہ بالا ذرائع کے علاوہ بھی دیگر پالیسیاں اختیار کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے تاکہ دولت تقسیم ہو اور غریبوں کی ضرورتیں پوری ہوں۔ قادسیہ کی فتح کے بعد حضرت عمر ؓ نے جس پالیسی کا اعلان فرمایا تھا، اس میں یہ الفاظ بھی تھے۔ فاذا عجز ذٰلک عنا تأسینا فی عیشنا حتی نستوی فی الکفاف (اگر ہمارے وسائل کم ہوجائیں تو ہم اپنے وسائل کو باہم تقسیم کرلیں گے یہاں تک کہ سب کی بنیادی ضرورتیں (کفاف) مساوی طور پر پوری ہوجائیں۔ )[26] اس پالیسی کا اشارہ متعدد احادیث نبوی میں بھی ملتا ہے۔ مثلاً نبی کریم ﷺ نے فرمایا من کان معه فضل ظهر فلیعد به علی من لا ظهر له ومن کان له فضل من زاد فلیعد به علی من لا زاد له. (’’جس کے پاس زائد سواری ہے وہ اس شخص کو لوٹا دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد کھانا ہے وہ اس شخص کو لوٹا دے جس کے پاس کھانا نہیں۔ ’’)حدیث کے راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے مال کی بہت سی اقسام بیان کیں حتیٰ کہ ہم نے محسوس کیا کہ زائد مال میں سے ہمارا کوئی حق نہیں۔[27] قرآن مجید میں بھی اس اسپرٹ کی طرف اشارہ موجود ہے۔ وَیسْأَلُونَكَ مَاذَا ینفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ (پوچھتے ہیں ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو، جو کچھ تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو۔ البقرہ :۲۱۹)

ان مباحث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کم سے کم ضروری وسائل پرہر شخص کا حق ہے اور معاشرہ اس کا پابند ہے کہ وہ ہر فرد کی اس ضرورت کو پورا کرے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے زکوة کے نصاب کی علت یہ بتائی ہے کہ یہ باعزت زندگی کا کم سے کم سالانہ خرچ ہے۔ صاحبِ نصاب نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ باعزت زندگی کے لیے درکار ایک سال کے وسائل بھی اس کے پاس نہیں ہیں اس لیے وہ مفلس ہے اور مستحق زکوة ہے۔[28]  زکوة کا نصاب سونے کی موجودہ قیمتوں کے اعتبار سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے سالانہ ہے۔ ہر خاندان کی یہ کم سے کم سالانہ آمدنی ہونی چاہیے۔

دولت وثروت کا حصول، اس میں مسابقت اور اضافی جائز سہولتوں پر افراد کا حق، اس کے بعد یعنی معاشرے کے ہر فرد کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے بعد، حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو وسائل عطا فرمائے ہیں وہ تمام انسانوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے درکار مجموعی وسائل سے کافی زیادہ ہیں۔ ان وسائل سے پہلے ہر فرد کی ضرورت کی تکمیل ہونی چاہیے، اس کے بعد بچے ہوئے وسائل، محنت، سرمایہ اور صلاحیت کی بنیاد پر مسابقت کے لیے دستیاب ہونے چاہئیں۔ مقاصد شریعت میں ضروریات، حاجیات اور تحسینیات کی ترجیحی ترتیب کا بھی یہی تقاضاہے۔ یہی حکومتوں کی مالیاتی پالیسیوں کا رہ نما اصول ہونا چاہیے۔

ضرورت سے زیادہ مال کو حدسے زیادہ جمع کرکے رکھنے کی کراہیت اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ہدایت، اسلام کی انھی تعلیمات نے انفاق و غریب پروری کے عام رجحان کے ساتھ ساتھ، وقف کے عظیم الشان ادارے کو جنم دیا۔ جو یقیناً اسلامی تہذیب کا ایک نہایت قابل فخر امتیاز ہے۔ مال دار لوگ اپنے مال میں افزائش و ترقی تو چاہتے تھے لیکن اپنی عیاشی کے لیے، یا دولت کو جمع کر کے رکھنے کے لیے نہیں بلکہ سماج کی فلاح وبہبود کے لیے۔ وہ دولت کماتے تھے اور قرآن کے حکم کے مطابق ضرورت سے زیادہ چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے اور ان سے اوقاف تشکیل دیتے تھے۔ وقف کی تاریخ اور اس کی معاشی اہمیت پر حالیہ دنوں میں کئی مطالعات ہوئے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ استنبول، یروشلم اور متعدد اسلامی شہروں میں ایک زمانے میں شہر کی تقریباً تمام جائیدادیں اوقاف پر مشتمل ہوگئی تھیں۔ سلطنت عثمانیہ میں سارے رفاہی کام ان اوقاف کی آمدنی سے مکمل ہوجاتے تھے۔ اسکول، ہسپتال، مسافر خانے، غریبوں کے وظیفے، حتی کہ شہروں کی خوب صورتی کے لیے فواروں اور باغات کے اہتمام کی خاطر تک اوقاف مختص تھے۔[29]

ملک میں مطلوب اصلاحات

مندرجہ بالا اصولوں کو سامنے رکھ کر ملک میں ایسی معاشی اصلاحات کی راہیں ہم وار کرنے کی ضرورت ہے جن سے دولت کی پیداوار میں بھی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور ترقی کا سفر جاری رہے اور ترقی کے ثمرات کی منصفانہ تقسیم کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔ کچھ باتیں ذیل کی سطروں میں تجویز کی جارہی ہیں۔

1۔ سماجی خرچ

سب سے اہم اصلاح جو مطلوب ہے وہ سماجی خرچ سے متعلق ہے۔ تعلیم، صحت، غریبوں، لاچاروں اور کم زوروں کی فلاح و بہبود حکومت کی ذمے داری ہے۔ ہمارے ملک کا دستور بہت واضح الفاظ میں اسے حکومت کی ذمے داری قرار دیتا ہے۔ (دفعات 38اور39)لیکن اب عام رجحان یہ ہے کہ ان کاموں کو حکومت کی ذمے داری نہیں سمجھا جاتا اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ انھیں بھی بازار کی قوتوں کے سپرد کرکےنفع و نقصان کی بنیادوں پر انجام دیا جانا چاہیےبلکہ معاشی اصلاحات کا مطلب ہی یہ سمجھا جاتا ہے کہ سماجی زمروں میں خرچ کم سے کم کیا جائے اورسبسڈی کم کی جائیں۔

اس وقت جملہ سماجی کاموں میں ہمارے ملک کا خرچ جی ڈی پی کا 8.6فیصد ہے۔[30]یہ اضافہ بھی حال ہی میں کووڈ کی صورت حال کے پس منظر میں ہوا ہے ورنہ کئی برسوں سے یہ خرچ چھ اور سات فیصد کے درمیان رہا ہے۔ یہ دنیا کے اقل ترین تناسب میں سے ایک ہے۔ فرانس اپنے جی ڈی پی کا ایک تہائی (30%)سماجی خدمات پر خرچ کرتا ہے[31]، یہ حکومت کے جملہ خرچ کا دو تہائی (66%)ہے۔ چارٹ 2میں چند اہم ملکوں کا فلاحی و سماجی خرچ جی ڈی پی کے تناسب میں ظاہر کیا گیا ہے۔ ان میں آسٹریا، برطانیہ، ڈنمارک، فن لینڈ، بیلجیم، جاپان، اٹلی، جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔[32] جو جی ڈی پی کے دس سے پندرہ فیصد کے برابر سرکاری خرچ صرف غریبوں کے وظیفوں پر کرتے ہیں۔ امریکہ جیسا سرمایہ دار ملک بھی 19فیصد خرچ کرتا ہے۔[33]اور جنوبی افریقہ (بارہ فی صد)[34] اور برازیل ( 15فیصد )[35] جیسے ممالک بھی شامل ہیں جو بڑے بھی ہیں اور ہماری طرح متوسط آمدنی کے ممالک ہیں۔ عالمی اوسط بھی اس وقت بھی ساڑھے بارہ فیصد ہے۔ اس وقت تعلیم پر ہمارے ملک کا سرکاری خرچ جی ڈی پی کے 3.1فیصد کے لگ بھگ ہے اور صحت پر 2.1 فیصد۔[36] یہ بھی دنیا کے اقل ترین اخراجات میں سے ایک ہے۔

ہمارے ملک میں جو اسکیمیں ہیں وہ غریبوں کی ایک چھوٹی سی تعداد کو بہت معمولی راحت دے پاتی ہیں۔ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار ضمانت اسکیم (MNREGA) ایک بہت اچھی شروعات تھی۔ لیکن ضرورت اس بات کی تھی کہ اس کی مزید توسیع ہوتی، سال بھر کے روزگار کی ضمانت دی جاتی اور شہری بے روزگاری کا بھی احاطہ کیا جاتا لیکن اس کے برخلاف بتدریج اس اسکیم ہی کو غیر موثر بنایا جارہا ہے۔

ناداروں اور بزرگوں کے لیے مناسب پینشن، ہیلتھ انشورنس، مفت تعلیم، بے روزگاری بھتہ وغیرہ اب ساری دنیا میں خاتمہ غربت کے مسلمہ طریقے ہیں جن پر ہمارے ملک میں بہت کم توجہ ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ دستور ہند کے پارٹ 3میں ترمیم کرکے بنیادی ضروریات کی تکمیل کو ہر شہری کا بنیادی حق (Right to Livelihood)قرار دیا جائے۔ ہندوستان جیسے ملک میں یہ نہایت ضروری ہے۔ بنیادی ضروریات میں باعزت روزگار، اچھی اور مکمل غذا، مناسب مکان، اچھی تعلیم، علاج اور کم سے کم باعزت معیار کی زندگی کے لیے درکار دیگر وسائل شامل ہیں۔ یعنی اوپر مذکور کم سے کم آمدنی (ساڑھے تین لاکھ سالانہ فی خاندان ) ہر ایک کی ہو، اسے یقینی بنانا چاہیے۔ یہ ہدف ہمارے ملک میں بظاہر مشکل محسوس ہوتا ہے لیکن اگلے مباحث سے واضح ہوگا کہ یہ عین ممکن ہے۔ شرط مناسب پالیسی اصلاحات کی ہے۔

2۔ جاذب روزگار شعبہ جات (labour-intensive sectors)پر توجہ

اتنی بڑی آبادی کے ملک میں معاشی انصاف کے لیے ضروری ہے کہ روزگار کو ملازمین کی مجموعی آمدنی کے حوالے سے دیکھنے کے بجائے ملازمین کی تعداد کے حوالے سے دیکھا جائے۔ یعنی کچھ لوگوں کو بہت اچھی تنخواہ کے روزگار ملیں، اس سے زیادہ توجہ اس بات پر ہو کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو معقول روزگار ملے۔ ہمارے ملک میں آج بھی زراعت سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والا زمرہ ہے جو ایک چوتھائی روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس کے بعد چھوٹی دکانیں، ہوٹل وغیرہ ہیں۔ اس کے بعد مینوفیکچرنگ کا نمبر آتا ہے۔[37]

بڑی کمپنیاں، آئی ٹی، سروس سیکٹر وغیرہ بے شک ملک کی دولت میں تیزی سے اضافہ کررہے ہیں لیکن وہ خوش حال طبقے کے ایک چھوٹے سے حصے ہی کو روزگار فراہم کرسکتے ہیں۔ عام لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کی بھرپور توجہ ان زمروں کے ساتھ، جاذب روزگارزمرے، جاذب روزگارشعبوں (labour-intensive sectors) یعنی زراعت، مینوفیکچرنگ اور ریٹیل پر بھی ہو۔ ان زمروں کا جو حال ہے اور جس تیزی سے وہ گراوٹ کے شکار ہیں ، اس کا اندازہ چارٹ 3 سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس چارٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ وسیع روزگار پیدا کرنے والے زمرے (زراعت اور صنعت) تیزی سے زوال کے شکار ہیں اور ہماری معیشت تیزی سے سروس انڈسٹری پر منحصر ہوتی جارہی ہے جو اعلی تعلیم یافتہ افراد کی ایک چھوٹی سی اقلیت ہی کو روزگار دے سکتی ہے۔ یہ صورت حال ملک میں روزگار کی کمی کا ایک بڑا سبب ہے۔

 

3۔ ٹیکس اور حکومتوں کی آمدنی

سماجی خرچ بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کی آمدنی بڑھے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستان جیسے غریبوں کےملک میں جو لوگ دولت کمارہے ہیں انھیں عام لوگوں کے مسائل کے حل میں شریک بنایا جائے۔ بڑے سرمایہ دار اور کمپنیاں ملک میں ازالہ غربت، صحت، تعلیم، اور دیگر فلاحی کاموں میں حصے دار بنیں۔ یہ بالکل فطری بات ہے لیکن ملک میں جو پالیساں اختیار کی جارہی ہیں وہ اس کے بالکل برعکس ہیں۔

ہمارے ملک میں اول تو ٹیکس کی وصولی بہت کم ہے اور پھر جو ٹیکس وصول ہوتا ہے اس میں بھی بڑا حصہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا ہے۔ انکم ٹیکس، ویلتھ ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس جیسے ٹیکس ڈائریکٹ ٹیکس کہلاتے ہیں۔ ان کا بوجھ زیادہ تر امیر لوگوں پر ہوتا ہے جب کہ جی ایس ٹی ان ڈائریکٹ ٹیکس ہے۔ غریب ترین مزدور کو آٹا خریدنے کے لیے اور غریب رکشا والے کو پٹرول خریدنے کے لیے بھی جی ایس ٹی دینا پڑتا ہے۔ اس لیے معقول بات یہی ہے کہ ان ڈائریکٹ ٹیکس کم ہو اور ڈائریکٹ ٹیکس زیادہ ہو۔ ڈائریکٹ ٹیکس کے ذریعے حکومت دولت مندوں کی دولت سے ایک حصہ وصول کرتی ہے جسے حکومت کے دیگر اخراجات کے ساتھ، غریبوں کی فلاح کے لیے بھی خرچ کیا جاسکتا ہے۔ چارٹ 4میں بعض چنندہ ملکوں میں ٹیکس کی شرح ظاہر کی گئی ہے۔ ان میں یورپ کے خوش حال ممالک بھی ہیں اور برازیل و ساؤتھ افریقہ جیسے ممالک بھی ہیں جو ہم سے کافی مشابہ ہیں۔

 

اس چارٹ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جن ملکوں میں سماجی خرچ زیادہ ہے (تفصیل اوپر آچکی ہے) یعنی شمالی یورپ کے ممالک وہاں ٹیکس بھی زیادہ، یعنی جی ڈی پی کے چالیس فیصد کے لگ بھگ وصول کیا جاتا ہے۔ اس ٹیکس کا بہت بڑا حصہ، یعنی دو تہائی کے لگ بھگ، ڈائریکٹ ٹیکس پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس سے امیر لوگوں کی دولت کا ایک حصہ حکومت کے پاس آتا ہے اور حکومت کی فلاحی اسکیموں کے ذریعے غریبوں کو منتقل ہوتا ہے۔ غریبوں پر ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا بوجھ کم سے کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگی آسان تر ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایک تو محض جی ڈی پی کا دس فیصد حصہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اوراس کا بھی بڑا حصہ ان ڈائریکٹ ٹیکس ہوتا ہے جو دولت کو امیروں سے غریبوں کی طرف لے جانے کا ذریعہ نہیں ہے۔ مذکورہ ملکوں میں ویلتھ ٹیکس وغیرہ کے نام سے امیر ترین لوگوں پر اضافی بھاری ٹیکس ان کے اثاثوں کی بنیاد پر بھی عائد کیا جاتا ہے۔ اسپین ( اثاثوں کے 0.2فیصد سے سے 3.5فیصد)، نیدر لینڈ، ناروے، فرانس، اٹلی، بیلجیم وغیرہ ممالک میں یہ ٹیکس موجود ہے۔[38] ہمارے ملک میں بھی ایک فیصد ویلتھ ٹیکس زیادہ امیر لوگوں کے لیے موجود تھا جسے 2015میں ختم کردیا گیا۔

ہمارے یہاں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ دولت مندوں پر ٹیکس بڑھانے سے پیداواری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بالکل نامعقول بات ہے۔ مذکورہ تمام ممالک انتہائی ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ برسوں سے ترقی کررہے ہیں۔ بھاری ٹیکس نے وہاں پیداوار پر کوئی اثر نہیں ڈالا ہے۔ اس لیے ٹیکس کی اصلاحات ملک میں مساوات کے لیے نہایت ضروری ہیں۔

4۔ دیگر ٹیکس اصلاحات

معاشی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے ایک اہم پالیسی یہ ہوسکتی ہے کہ بجائے آمدنی کے ٹیکس اثاثوں (assets)کی بنیاد پر لگایا جائے۔ آمدنی پر ٹیکس، آمدنی بڑھانے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جب کہ اثاثوں پر ٹیکس اثاثوں کو پیداواری کاموں میں مشغول کرنے پر اور اس کے ذریعےزیادہ سے زیادہ روزگار پیدا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہی زکوة کا بھی فلسفہ ہے۔ اگردس کروڑ روپیے فاضل رکھے جائیں تو زکوة کی ادایگی کی وجہ سے وہ ستائیس سال میں پانچ کروڑ ہوجائیں گے۔ اس ڈر سے لوگ جب اسے تجارت میں اور پیداواری کاموں میں مصروف کریں گے تو یہی رقم کئی لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کا سبب بنے گی اس موضوع پر ہم نے تفصیل سے اپنے کتابچے ’اجتماعی نظام زکوة اور ہندوستان کی سماجی ترقی‘ میں بحث کی ہے۔[39]

ہمارے ملک میں بہت بھاری مقدار میں اثاثے، غیر پیداواری شکل میں محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ صرف گھروں کے اندر لوگوں نے جمع کرکے جو سونا رکھا ہوا ہے اس کا تخمینہ 24 ہزار میٹرک ٹن ہے۔[40] سونے کی موجودہ قیمت کے مطابق ان ذخائر کی مجموعی قیمت 110لاکھ کروڑ ہوتی ہے۔ اگر صرف ان اثاثوں کا پیداواری استعمال شروع ہوجائے تو اس دولت میں پانچ کروڑ سے زیادہ ملازمتیں پیدا کرنے کی صلاحیت ہے یعنی بے روزگاری کو مکمل طور پر ختم کردینے کی صلاحیت ہے۔

تھومس پکیٹی (Thomas Piketty)نے[41] اصلاً دنیا میں بڑھتی ہوئی معاشی نابرابری کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب سرمایہ پر منافع کی شرح (rate of return on capital) ملک کی معاشی ترقی کی شرح (rate of growth)سے بڑھ جاتی ہے تو دولت چند ہاتھوں میں، یعنی ایک فیصد اور دس فیصد امیر ترین لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہونے لگتی ہے۔ منافع کی شرح اور معاشی ترقی کی شرح میں یہ فرق جتنا زیادہ ہوگا، ارتکاز دولت کی رفتار اتنی ہی تیز ہوگی۔[42] اس کا حل پکیٹی نے یہ تجویز کیا ہے کہ آمدنی پر مروج ٹیکسوں کے علاوہ، جملہ اثاثوں (assets ) پر ٹیکس لگایا جائے تاکہ منافع کا کچھ حصہ کم ہو اور شرح منافع، شرح ترقی سے قریب تر اور پھر کم تر ہوجائے[43] اور دولت چند ہاتھوں میں مرکوز نہ ہوسکے۔ یہی کام زکوة کرتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی سماج میں معاشی مساوات کے لیے پکیٹی کے پیچیدہ حسابات نے اثاثوں پر ٹیکس کی جو شرح تجویز کی ہے وہ قریب قریب زکوة کی شرح ہے۔ ( پکیٹی کی تجویز کردہ شرح دو فیصد ہے۔ جب کہ زکوة ڈھائی فیصد ہے)

5۔ کالا دھن اور کرپشن کا مسئلہ

ایک بڑا مسئلہ کالا دھن اور متوازی معیشت کا ہے۔ ہمارے ملک میں اس کا تخمینہ جی ڈی پی کے ساٹھ سے ستر فیصد کا ہے، یعنی تقریباً ایک سو لاکھ کروڑ روپیے۔ اس بھاری دولت پر کوئی ٹیکس نہیں ادا ہوتا۔ اس کا بڑا حصہ فاضل پڑا رہتا ہے اس لیے پیداوار یا روزگار پیدا کرنے میں اس کا رول نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک مسئلہ کرپشن کا مسئلہ ہے۔

یہ مسائل ہندوستان کی مڈل کلاس کے پسندیدہ مسائل ہیں لیکن اس کے باوجود ان مسائل کے حل کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ نوٹ بندی کے وقت اس کی دلیل یہی دی گئی تھی کہ اس سے کالے دھن کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی لیکن عملاً اس سے صرف یہ ہوسکا کہ کالے دھن کا ایک حصہ کچھ ہاتھوں سے نکل کر کچھ دوسرے ہاتھوں میں چلاگیا۔ ڈجیٹل کرنسی اور ڈجیٹل لین دین کے فروغ کا بھی سبب یہی بتایا جارہا ہے لیکن اس کا نتیجہ بھی صرف یہی نکلنے والا ہے کہ جو کالا دھن چھوٹی چھوٹی مقدار میں متوسط کلاس کے کئی لوگوں کے پاس ہے وہ جمع ہو کر چند بڑے سرمایہ داروں کے پاس منتقل ہوجائے گا۔[44]

اس مسئلے کا اصل حل زیادہ سے زیادہ شفافیت، بیوروکریسی کی اصلاحات، اختیارات کی تقسیم اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام وغیرہ ہے۔ شفافیت کے لیے قانون حق اطلاعات بہت موثر ذریعہ تھا جس کو بے اثر کرنے کی مسلسل کوشش ہورہی ہے۔ بقیہ موضوعات پر اس سے قبل کے شماروں میں ہم تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں۔

6۔ مالیاتی بازار وں کی لوٹ کھسوٹ

اسلام نے سٹہ، جوا، اور قمار کو حرام قرار دیا ہے۔ دور جدید میں سٹے کی بہت سی ترقی یافتہ شکلیں موجود ہیں۔ تجارت و صنعت میں سرمایہ کاری کے لیے جو درمیانی واسطے  (intermediations) وجود میں لائے گئے تھے وہ خود اب تجارت کا سامان بن گئے۔ مالیاتی بازاروں کے نام پر اس وقت جس قسم کی تجارتیں ہورہی ہیں اور کرنسی ٹریڈ، ڈیریویٹیو (derivatives)، آپشن (options)، فیوچر (futures) وغیرہ کے نام پر نیز شیئر بازار میں قیاسی تجارت (speculative trade) کے نام پر جس قسم کے لین دین پر دنیا بھر کے سرمایہ داروں کا ارتکاز ہے، وہ حقیقی تجارت اور روزگار پیدا کرنے والی مفید سرمایہ کاری کو بری طرح مجروح کرتے ہیں۔ معروف ماہر معاشیات تھامس پلے نے اسے ’سٹہ سرمایہ داری‘ (casino capitalism) کا نام دیا تھا[45] اور وارن بفیٹ نے ان طریقوں کو عوامی ہلاکت کے مالیاتی ہتھیار (financial weapons of mass destruction) قرار دیا تھا۔[46] بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بے انتہا تیزی سے یہ چیزیں مقبول کی جارہی ہیں۔ موبائل اپلی کیشن اور ڈجیٹل پلیٹ فارم ان کی مقبولیت کو اور تیزی سے بڑھارہے ہیں جس کے نتیجے میں حقیقی تجارت و سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ دستیاب نہیں ہوپارہا ہے۔ غربت اور بے روزگاری بڑھنے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ کرپٹو کرنسی جیسی چیزیں بجائے لین دین کا ذریعہ بننے کے سرمایہ کاری اور قیاسی سرمایہ کاری (speculative trade) کا ذریعہ بنادی گئی ہیں۔ اسلام نے ایسی شدید نقصان دہ چیزوں کا راستہ بہت دور تک جاکر بند کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اسلامی معاشیات کے علم بردار بھی اس کو بحث کا موضوع نہیں بنا پائے ہیں۔ اس موضوع کی تکنیکی تفصیلات کا یہ مضمون متحمل نہیں ہے۔ ہم اپنے ایک کتابچے میں اسے تفصیل سے زیر بحث لائے ہیں۔ دل چسپی رکھنے والے حضرات وہاں اس بحث کو ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔[47]

7۔ سود

ایک مسئلہ جو صرف اہل اسلام ہی اٹھاسکتے ہیں وہ سود کی ممانعت اور بلاسودی معیشت کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر اسلامی معاشیات میں اچھا خاصا لٹریچر موجود ہے۔ محولہ بالا کتابچے میں ہم بھی ہندوستانی معیشت کے تازہ احوال کے حوالے سے سود کو زیر بحث لائے ہیں۔[48] ہماری طرف سےکم سے کم مطالبہ یہ ہوسکتا ہے کہ متوازی طور پر بلاسودی اور منافع میں شرکت (equity sharing) کے اصولوں پر تجربات کی اجازت دی جائے۔

آخر میں چند اہم باتیں

اوپر ہم نے ہندوستان میں مطلوب معاشی اصلاحات پر کچھ گذارشات پیش کی ہیں۔ اصلاحات کا یہ رخ اس سے بالکل مختلف ہے جو ہمارے ملک میں ریفارم کے عنوان سے عام طور پر زیر بحث آتا ہے۔ ان اصلاحات پر غور کرتے وقت درج ذیل باتیں پیش نظر رہیں:

پہلی بات یہ کہ یہ معاشی اصلاحات کا کوئی مکمل خاکہ نہیں ہے بلکہ بعض وہ باتیں جن پر ملک میں توجہ بہت کم ہے اور جو ہمارے خیال میں اہل اسلام اٹھاسکتے ہیں، ان کا ہم نے تذکرہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی اصلاح کے کئی پہلو ہیں جو ملک کے مین اسٹریم میں زیر بحث ہیں اور ہمارے نقطہ نظر اور مقاصد سے بھی ہم آہنگ ہیں۔ ان کی ضرور تائید ہونی چاہیے لیکن اوپر جن سات باتوں کی طرف اشارہ ہے وہ معاشی اصلاح کا ایک منفرد ایجنڈا اور ہمارے ڈسکورس کی امتیازی شناخت بن سکتی ہیں۔

دوسری بات یہ کہ معاشی اصلاحات، اصلاح کے مکمل پیکج کا جزو ہیں۔ ابھی تک جن اصلاحات کو ہم زیر بحث لائے ہیں، ان کے ساتھ ہی یہ معاشی اصلاحات ممکن ہیں۔ مثلاً اگرانتظامی اصلاحات پر توجہ نہ ہو تو بڑے سے بڑا معاشی فیصلہ بھی بے اثر ہوسکتا ہے۔ نوٹ بندی بے شک ایک انقلابی فیصلہ تھا اور اگر صحیح نیت کے ساتھ کیا جاتا تو اس سے کم سے کم کالا بازاری پر قابو پانے میں مدد ملتی۔ لیکن سیاست دانوں، نوکر شاہوں اور سرمایہ داروں کی ملی بھگت نے اسے صرف عوام کے کالے اور سفید دھن کو چندسرمایہ داروں کے کالے دھن میں بدل دینے کا ذریعہ بنادیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ معاشی اصلاحات کا عمل دیگر اصلاحات کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

تیسری بات یہ کہ اس وقت حکم راں جماعت جس انٹیگرل ہیومنزم کے فلسفے پر یقین کادعوی کرتی ہے(اس پر ہم جولائی 2021 میں تفصیل پیش کرچکے ہیں) اور باقاعدہ اپنے دستور میں لکھ کر اسے اپنا نظریہ قرار دیتی ہے، وہ موجودہ معاشی پالیسیوں سے شدید متصادم ہے۔ اوپر جن اصلاحات کی تجویز دی جارہی ہےاس کے مقاصد انٹگرل ہیومنزم کے معاشی فلسفے سے نسبتاً قریب تر ہیں۔ یہ بات بھی زور وشور سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔

حواشی و حوالہ جات

[1] Adam Smith (1790) The Theory of Moral Sentiments; MetaLibri; Sau Polo; (May 15, 2006) page 165

[2]  ibid

[3] Keynes, J. M. (1920). The economic consequences of the peace. United States: Harcourt, Brace ‘ Howe. Page 19

[4]  https://eands.dacnet.nic.in/

Publication12-12 2013/Agricultureat%20a%20Glance2013/ page24-89.pdf

[5] Government of India, Ministry of Finance; Economic Survey of India 2021-22 page 4

[6] Angus Maddison (2001) The World Economy a Millenial Perspective; page 263

[7] Shashi Tharoor(2016) An Era of Darkness: The British Empire in India; Aleph Book Co. New Delhi page 24

[8] Govt. Of India (2012) Economic Survey of India 2011-12; Table 14.2 page 340

[9] IMF(2021) World Economic Outlook Database April 2021;

[10] Forbes(2021)The Countries with the Most Billionaire 2021, April 6,2021

[11] World Banl (2019) at https://blogs.worldbank.org/opendata/half-world-s-poor-live-just-5-countries;  retrieved on 14-02-2022

[12] Credit Suisse International (June 2021) Global Wealth Report 2021; page 39

[13] اس گراف کی تیاری World Inequality Reportکے ڈاٹا کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں دنیا کے کئی معروف ماہرین معاشیات شامل رہے ہیں۔

[14] Lucas Chancel et. al.(2022) Word Inequality Report 2022; World Inequality Lab; UNDP; page 197

[15] Ibid

گیلر اور زیرا کے مقالے کو جدید معاشی فکر کا ایک نہایت انقلابی مقالہ مانا جاتا ہے۔ یہ مقالہ براؤن یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر موجود ہے:

https://economics.brown.edu/sites/g/files/dprerj726/files/papers/2013-12_paper.pdf

[16] Capital in the Twenty-First Century, Harvard University Press, 2014

[17] US House of Representatives (2010) Building a Science of Economics for the Real World: Hearing before the Subcommittee on Investigations and Oversight, Committee on Science and Technology, House of Representatives, One Hundred Eleventh Congress, second session, July 20, 2010. Serial No. 111-106; US Government Printing Office; Washinton DC; page 12

[18] رواه الترمذی (641) وضعفه الألبانی فی ضعیف الترمذی، وقال معناه صحیح واضح

[19] رواه الدارقطنی والبیهقی وقال الالبانی : إسناده صحیح

[20] أخرجه البخاری فی الزكاة (1472)، وفی الوصایا (2750)، وفی الخُمس (3143)، وفی الرفاق (6441)، ومسلم فی الزكاة (1035).

[21] سنن الترمذی؛ کتاب الزھد عن رسول اللہ، باب ما جاء مثل الدنیا۔۔ رواہ ابو کبشة الانماریؓ؛ صححه الالبانی فے صحیح الترمذی

[22] مذکورہ صحابہ کے متروکہ اثاثوں کو محسوب کرنے کے لیے طبقات ابن سعد میں مندرج تفصیلات سے مدد لی گئی ہے۔ اور درہم و دینار اور دیگر اثاثوں کو آج کی قیمتوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ دیے گئے صفحات پر ان حضرات کے ترکے کی تفصیلات ملاحطہ کی جاسکتی ہیں:

محمد بن سعد الزهری(تحقیق الدکتور علی محمد عمر)(2001)؛ الطبقات الکبرى؛الجزء الثالث؛ مکتبة الخانجی، القاهرہ۔

عثمان بن عفانؓ (ص: 72,72) عبد الرحمن بن عوفؓ؛ (ص127: )؛ زبیر بن العوامؓ (ص: 101-102) طلحة بن عبید اللہؓ (ص: 203)

[23] رواه الطبرانی عن ابن عباسؓ، وصححه الألبانی فی صحیح الجامع الصغیر (5382)

[24] سود کے ڈائنامکس اور کیسے وہ ارتکاز دولت کا ذریعہ بنتا ہے، اس پر ہم نے اس کتابچے میں بحث کی ہے: سید سعادت اللہ حسینی (2009)، مالیاتی استحصال اور سرمایہ دارانہ استعمار؛ مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی

[25] Thomas Piketty, Capital in the Twenty First Century (Tr. From French by ArthurGoldhammer); The Belknap Press of Harvard University Press; 2017 page 267-302

[26] ‫البدایة والنهایة 1-8 مع الفهارس ج4‎. (2015). (n.p.): ‪Dar Al Kotob Al Ilmiyah دار الكتب العلمیة‏.ص 45

[27] صحیح مسلم؛، کتاب اللقطة، باب استحباب المواساة، 3 : 1354، رقم : 1728

[28]  شاہ ولی اللہ الدھلوی؛ حجة اللہ البالغة، الجزء الثانی؛ دارالجیل، بیروت، ص: 66

[29] Shehu Usman Rano (2019) A Treatise on Socioeconomic Roles of Waqf; MPRA Paper No 91413 (Munich University Archives); Munich

[30] اس مقالے میں اس موضوع پر تفصیلی مطالعے کے لیے بہت سے قیمتی حوالے موجود ہیں

Government of India, Ministry of Finance; Economic Survey of India 2021-22 page 352

[31] Social Expenditure (SOCX) Update 2020 @OECD site https://www.oecd.org/els/soc/OECD2020-Social-Expenditure-SOCX-Update.pdf , retrieved on 14-02-2022

[32] ibid

[33] یہ اعداد و شمار او ای سی ڈی کی ویب سائٹ پر دیے گئے ڈاٹا سے محسوب کیے گئے ہیں:

https://stats.oecd.org/Index.aspx?DataSetCode=SOCX_AGG

[34] https://www.unicef.org/esa/media/2546/file/UNICEF-South-Africa-2018-2019-Social-Development-Budget-Brief.pdf

[35] Arnold, J. and M. Bueno (2021), ’’How effective are different social policies in Brazil? A simulation experiment’’, OECD Economics Department Working Papers, No. 1662, OECD Publishing, Paris, https: //doi.org/10.1787/47087376-en.

[36] Government of India, Ministry of Finance; Economic Survey of India 2021-22 page 352

[37] Government of India, Ministry of Finance; Economic Survey of India 2021-22 page 373

[38] Emmanuel Saez and Gabriel Zucman (2019) Progressive Wealth Taxation; Brookings Papers on Economic Activity, BPEA Conference Drafts (September 2019) and also Global revenue Statistics Database @ https://stats.oecd.org/Index.aspx?DataSetCode=RS_GBL

[39] سید سعادت اللہ حسینی (2018) نظام زکوة اور ہندوستان میں سماجی ترقی؛ الیکزیر پبلی کیشن؛ نئی دہلی

[40] Niti Ayog (February 2018) Report, “Transforming India’s Gold Market” page 84

[41] Thomas Piketty, Capital in the Twenty First Century (Tr. From French by ArthurGoldhammer); The Belknap Press of Harvard University Press; 2017

[42] Ibid page 382-476

[43] Ibid page 663-680

[44] کالے دھن کے موضوع پر پروفیسر انل کمار کی درج ذیل کتاب بڑی چشم کشا تفصیلات پیش کرتی ہے۔

Anil Kumar(2017) Understanding Black Economy and Black Money in India; Aleph Book Copmany; New Delhi.

[45] Thomas Palley (2013) From Financial Crisis to Stagnation: The Destruction of Shared Prosperity and the Role of Economics; Cambridge University Press; Cambridge. P218

[46] https://www.afr.com/markets/warren-buffett-still-says-derivatives-are-weapons-of-mass-destruction-20150617-ghpw0a  retrieved on 14-02-2022

[47] سید سعادت اللہ حسینی (2009) مالیاتی استحصال اور سرمایہ دارانہ استعمار؛ مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی

[48] حوالہ سابق

مشمولہ: شمارہ مارچ 2022

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223