پچھلے موسمِ گرما کی بات ہے، میں فرانس کے شمالی علاقے میں بحرِ اوقیانوس کے ساحل پر واقع ایک گاؤں میں اپنی اہلیہ کے ساتھ چھٹیاں گزار رہا تھا۔ ایک دن میں نے اخبار میں پڑھا کہ پئیر روزنوالون (Pierre Rosanvallon) کی ایک نئی کتاب ‘‘عوامیت پسندی (Populism) کی صدی’’ (Le siècle du populisme) شائع ہوئی ہے۔ میں نے اپنی اہلیہ سے کہا میں یہ کتاب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے یہ کہہ کر میری بات ٹالنے کی کوشش کی کہ اس گاؤں میں کوئی بک اسٹال نہیں ہے، قریب ترین بک اسٹال 250 کیلومیٹر دور نانت شہر میں ہے۔ میں نے کہا اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ ہم سورج غروب ہونے سے پہلے واپس آ جائیں گے۔ وہ ہنستے ہوئے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوگئی۔ یقیناً میں اپنی بیوی کو تنہا 500 کیلومیٹر کی ڈرائیونگ کی مشقت میں نہ ڈالتا (میری بینائی کی حالت دیگر ہے) اگر یہ میرے برسوں پرانے من پسند مصنف کی کتاب نہ ہوتی، جس کی کتابیں جمہوریت کی تاریخ سے متعلق میری معلومات کا واحد ماخذ ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ انسان اس وقت تک کسی موضوع کا ماہر نہیں ہوسکتا جب تک اس کی تاریخ سے واقف نہ ہو۔
اس کتاب کے آخری حصہ تک پہونچنے سے پہلے ہی میرے اندر انتہائی تشویش کی کیفیت پیدا ہوچکی تھی کیوں کہ مصنف نے اس میں واضح کیا تھا کہ کس طرح عوامیت پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر نے ہنگری، پولینڈ، وینزویلا اور برازیل میں جمہوریت کو تباہ کیا اور کس طرح یہ امریکہ، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ جیسے جمہوریت کے قدیم ترین اور مضبوط ترین قلعوں کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ یہ طوفان ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لے کر ہماری بگڑی حالت کو اور بھی بگاڑٖ کر دے۔ جب کہ ہماری موجودہ حالت اب مزید غلطیوں کو برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہے۔
آخر یہ خوف کیوں سوار ہے؟ کیوں کہ ایک ہی وقت میں معاشی مشکلات، ماحولیاتی خطرات اور کورونا اور اس کے اثرات نے مل کر بیشتر اقوام کو ایک عظیم کرب اور مسلسل درد میں مبتلا کر دیا ہے اور اس کا سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔ اس کے نتیجے میں بہت سی قومیں ہر طرح کے دجالوں اور مکاروں کے دامِ فریب کا شکار ہوں گی جو خوف اور ناراضگی جیسے جذبات سے کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے مکر و فریب سے انھیں یہ بھی باور کرائیں گے کہ ان کے پاس ان کی مشکلات کا جادوئی حل موجود ہے۔ جب کہ حکمراں اشرافیہ اقوام کے اضطراب کو دیکھیں گے تو سہی، مگر یہ نہیں سمجھ سکیں گے کہ مجوزہ دوا ان کی بیماری سے بھی زیادہ کڑوی ہوسکتی ہے۔
اس کتاب کو پڑھ کر مجھے اس بات پر بڑی ہنسی بھی آئی کہ آج عوامیت پسند اور آمریت پسند نمائندہ جمہوریت پر اعتراضات کررہے ہیں اور اس کی خرابیاں گنا رہے ہیں حالانکہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ ہزاروں لوگوں نے، ہزاروں محفلوں میں 1830، 1870، 1934 اور 1948 میں یعنی خاص طور پر فرانس اور عام طور سے یورپ کے تمام بحرانوں میں انھی خرابیوں کو انھیں اصطلاحوں کے ساتھ دوہرایا تھا۔
اگر کوئی مجھ سے یہ کہے کہ تین الفاظ میں جمہوریت کے مفہوم کا خلاصہ بیان کرو تو میں کہوں گا کہ یہ تو ممکن نہیں ہے لیکن میں تین جملوں میں اسے بیان کرسکتا ہوں:
– فطری طور پر بنے ایک تکثیری سماج کے اندر معرکہ آرائیوں کو پر امن شکل دے دینا، تاکہ اس کی وحدت اور استحکام محفوظ رہے۔
– قانون کی ایسی حکمرانی جس کے سائے میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر میں مذکور تمام حقوق حق داروں کو پہونچ جائیں، نہ تو کوئی محروم کیا جائے اور نہ ہی کسی کو تنگ کیا جائے۔
– جہاں ایسے مستقل، پائیدار اور با اختیار اداروں کی حکومت ہو جن میں آزادانہ اور شفاف نظامِ انتخاب رائج ہو، اور جو منتخب افراد سے کام لیں نہ کہ ان کے کام آئیں۔
اس کے برخلاف آمریت پسند اور عوامیت پسند سماج کو تقسیم کرتے ہیں، کبھی ’’وہ‘‘ اور ’’ہم‘‘ میں تو کبھی غداروں اور وطن پرستوں میں۔ شاید کچھ لوگوں کو اس نغمے کا گھناؤنا پن یاد ہو جسے مصر میں 2013ء کی منحوس گرمی میں جمہوریت کا خون کرتے وقت گایا گیا تھا، اس کے الفاظ تھے، ترجمہ: ‘‘تم ایک قوم ہو اور ہم ایک قوم ہیں’’۔
کارروائی کے طور پر یہ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سب سے پہلے پارلیمنٹ کو سرنگوں یا تحلیل کرتے ہیں کیوں کہ پارلیمنٹ نمائندہ جمہوریت کا اہم ترین ادارہ ہے۔ یہ اسی وقت وجود میں آتا ہے جب نمائندگی کے مقصد سے وجود میں آنے والی پارٹیاں اور انتخابی نظام بھی موجود ہو۔ اس طرح پارلیمنٹ نظام حکومت کا دل ہوتی ہے، اس لیے اسی مقام پر چھری رکھی جاتی ہے۔
نمائندہ جمہوریت سے نفرت میں آمریت پسند اور عوامیت پسند ایک نظر آتے ہیں، لیکن ان کی نفرت کے اسباب الگ الگ ہوتے ہیں۔
عوامیت پسند افراد کے نزدیک پارلیمنٹ اور اس جیسے دوسرے اداروں کے توسط سے جمہور کی نمائندگی کے نام پر جمہوریت ان کی خود مختاری کو ختم کرتی ہے، وہ صرف بدعنوان اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ عوام کی ’’حقیقی‘‘ بالادستی کی بحالی کے لیے بلا واسطہ جمہوریت (Directi Democracy) ضروری ہے جس میں تمام فیصلہ ساز اداروں میں عوام کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔
آمریت پسندوں کی فکر میں جمہوریت کے لیے ذرا بھی جگہ نہیں ہوتی ہے، خواہ وہ نمائندہ جمہوریت ہو یا راست جمہوریت۔ وہ جمہوریت کو سربراہ اور اس کے ٹولے کی حکمرانی کے لیے بطور پردہ استعمال کرتے ہیں، کیوں کہ عوام تو ان کی نگاہ میں قابل حقارت ہوتے ہیں، کجا کہ وہ ان کی بالادستی کو مانیں۔
آمریت پسندوں کی پارلیمنٹ بے زاری کی وجہ سمجھنا بہت آسان ہے، کیوں کہ جب سے یورپ میں پارلیمنٹ نامی یہ ادارہ وجود میں آیا اس نے بے شمارلڑائیوں، معرکوں اور انقلابی تحریکوں کے راستے جن میں 1642 کا برطانوی انقلاب اور 1789 کا فرانسیسی انقلاب ہے، صاحبِ اقتدار، خواہ وہ شاہ ہو یا صدر یا وزیر اعظم، کے اختیارات کو محدود سے محدود تر ہی کیا ہے، اور آخر کار اس کے ہاتھ سے سب سے خطرناک فائل بھی چھین لی، یعنی ٹیکس لگانے اور ملک کے بجٹ میں تصرف کرنے کا اختیار۔
عوامیت پسندوں کی پارلیمنٹ بے زاری کی وجہ کو سمجھنا کسی قدر پیچیدہ ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ براہِ راست جمہوریت یا سماجی جمہوریت ہی جمہوریت کی سب سے ترقی یافتہ شکل ہے کیوں کہ نمائندہ جمہوریت ایک فریب ہے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ نمائندہ جمہوریت مجالس پر مبنی جمہوریت تو ہے، مگر وہ آئینی اور پائیدار ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ سب سے بڑی مجلس ہوتی ہے، اس کے علاوہ دوسری ہزاروں مجلسوں کا بھی کردار ہوتا ہے جیسے بلدیاتی مجالس یا سول سوسائٹی کو چلانے والی انتظامی مجالس اور یونِیَن وغیرہ۔ یہ تمام مجالس سماج کے بیشتر افراد کو ذمہ داریاں اٹھانے کے عمل میں فعال شرکت کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔
جہاں تک نمائندگی کا معاملہ ہے تو عوامیت پسند اسے اپنے لیے قبول کرتے ہیں اور دوسروں کے لیے مسترد کرتے ہیں۔ کیا وہ یہ نہیں کہتے کہ ان کا سربراہ عوام کا نمائندہ ہے۔ یہ ضمناً اس بات کا اعتراف ہے کہ مجموعی طور پر عوام کے لیے یہ ممکن نہیں کہ بیرونی ممالک کے ساتھ وہ مذاکرات کریں۔ لازماً یہ ذمہ داری کسی نہ کسی نمائندے یا دوسرے الفاظ میں صدرِ جمہوریہ کے سپرد کی جائے گی۔ بیرونی ممالک میں وزیرِ خارجہ یا دیگر سفارت کار اس کی نمائندگی کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس دلیل سے اصل وجہ کو چھپانا چاہتے ہیں۔
روزنوالون عوامیت پسند لیڈر کا خاکہ کھینچتا ہے کہ وہ انسان کے پیکر میں قوم ہے، یعنی ایسا شخص ہے جو اس کے فالوورز کی نگاہ میں اپنی حسِ لطیف سے عوام کی امیدوں اور دکھوں سے نکلنے والے تمام اشارات کا ادراک کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اب وہ ان کے درد کے علاج اور امیدوں کی تکمیل کے لیے اپنی زندگی تج دینے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اور ایسی صلاحیتوں والے شخص کو صرف مریدوں اور اطاعت گزاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ تعجب کی بات نہیں ہے اگر وہ پارلیمنٹ کو ایسے محبوب لیڈر اور اس کی بے حد تقدیس کار عوام کے درمیان اسی طرح کی ایک دیوار تصور کریں جس طرح رب اور اس کے بندوں کے درمیان کلیسا رکاوٹ بن کر کھڑا ہے۔ حالانکہ کسی طفیلی وسیلہ کی ضرورت نہ تو قائد کو ہوتی ہے اور نہ ہی خالق کو۔
آمریت کا سب سے بہترین سلوگن فرانسیسی بادشاہ لویس چہاردہم کا یہ اعلان تھا کہ ’’میں ہی ریاست ہوں‘‘۔ عوامیت پسند لیڈر اس سے کچھ آگے بڑھ کر یہ سلوگن دیتا ہے کہ ’’میں ہی قوم ہوں‘‘۔
نوٹ کیجیے کہ یہ ’’میں‘‘ جو کبھی ریاست اور کبھی قوم کو اپنے پیکر میں ضم کرنا چاہتا ہے، طرح طرح کے ناموں میں خود کو چھپاتا ہے، جنھیں سن کر ہنسی بھی آئے اور رونا بھی، جیسے تیونس میں ’’مجاہدِ اکبر‘‘اور بیشتر عرب استبدادی ملکوں میں ’’عظیم قائد‘‘، اسپین میں جنرل فرانکو اپنے لیے ’’کودیلو‘‘ کا لقب منتخب کرتا ہے تو رومانیا میں نیکولائی چاؤشیسکو خود کو ’’کوندوکاتور‘‘ کہلانا پسند کرتا ہے، اسٹالین کے زیرِاقتدار سوویت یونین میں ’’بابائے قوم خورد‘‘ کہلاتا ہے تو ماؤزے تنگ کے چین میں ’’ملاحِ اعظم‘‘۔
یہ ان کے دعویٰ کے مطابق ایسا منفرد نوعیت کا فرد ہوتا ہے جسے’’یکتائے زمانہ‘‘ سے موسوم کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ شخص اپنے اور اپنے پیروکاروں کی نظر میں ایسا نابغہء روزگار شخص ہوتا ہے کہ پوری قوم میں کوئی بھی اس کی برابری نہیں کرسکتا اور وہ عام انسانوں کے برعکس ایسی کرشماتی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے کہ ریاست کی تمام گتھیوں یا قوم میں موجود تمام نیرنگیوں اور تضادات کو تنہا سمجھ سکتا ہے۔
چلیں، ہذیان اور جنون کے بجائے ہم اسے سادہ لوحی اور ناپختگی کہہ لیں۔ اور چونکہ یہ پوری کہانی’’میں‘‘ اور اداروں کے درمیان کشمکش میں سمٹ جاتی ہے، لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ ’’میں‘‘ جو کبھی ریاست اور کبھی قوم بن جانے کا خواب دیکھتی ہے، ایک ساتھ دونوں بن جانے کا بھی دیکھ لے تو کیا غلط ہے، اس ‘‘میں’’ پر مزید روشنی ڈالی جائے۔
اس خیال کی تشریح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ فکری فریم بھی پیش کروں جس میں وہ فٹ ہوتا ہے۔
گھریلو تربیت کا مقصد ہوتا ہے کہ بچے کو اس کی انانیت، تشدد، اور ظلم سے پاک کیا جائے۔ اسے باہم شراکت، بھائی چارہ اور دوسروں کو قبول کرنا سکھایا جائے۔ سماجی سطح پر دین، قانون اور ثقافت کی یہی ذمہ داری ہے۔
انفرادی اور اجتماعی سطح پر تربیت کی کامیابی ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے۔ نسلیں پے در پے آتی ہیں، اور ہرنئی نسل کے لیے تربیت کا آغاز بالکل صفر سے ہوتا ہے۔ اس عمل میں کامیابی کے مختلف درجات ہوتے ہیں، آپ کے سامنے بہت سے امکانات رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ہر بچے کی عمر بڑھتی ہے لیکن کچھ لوگوں کی ذہنی نشوونما عمر کے ایک مرحلہ میں آ کر رک جاتی ہے۔ اس طرح آپ کا سابقہ تیس سال یا پچاس سال حتیٰ کہ ستر سال کے بچے سے پڑسکتا ہے اس لیے کہ ان کے اندر بچوں کی اہم خصوصیات جیسے نرگسیت، انانیت، ظلم، تشدد اور لا متناہی مطالبات ہنوز باقی رہتی ہیں۔
کہنا یہ ہے کہ آئیڈیولوجی کے اعتبار سے آمریت پسند بھی -عوامیت پسند کی طرح- وہ بچے ہیں جو عمر میں بڑے ہو گئے لیکن بالغ نہ ہوئے۔ ہر مقام اور زمانے میں اس نظام کے اندر ایک ہی ساخت پائیں گے: ایک طرف عمر رسیدہ بچہ (حکمراں) ہے جو چاہتا ہے کہ پوری کی پوری قوم اس پر ماں کی طرح مہربان رہے، اسے فیض پہونچاتی رہے، تعریف اور چاہت لٹاتی رہے، دن رات اس کے قصیدے پڑھے، اس کی ہر خواہش پوری کرے اور اسے آنکھوں کا تارا بنا کر رکھے۔ اور دوسری طرف وہ عمر رسیدہ بچے (عوام) ہیں جو ایسا باپ چاہتے ہیں جو ان کی حفاظت کرے، ان کی چاہتیں پوری کرے، بلکہ بسا اوقات وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ اس بایولوجیکل باپ کی بھی کمی پوری کر دے جو ان کی کم عمری اور پڑھنے کھیلنے کے زمانے میں ان کے خوابوں پر پورا نہیں اترتا تھا۔
اس کے برعکس، جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس کی مثال بڑی عمر والے ایسے افراد کی ہے جن کے اندر پوری پختگی پیدا ہو چکی ہو اور اگر وہ اپنی طفولت –یعنی بچے کی جبلی صفات—سے کم وبیش چھٹکارا نہ پاسکے ہوں توبھی اس پر قابو پاچکے ہوتے ہیں۔ اس طرح آپ دیکھیں گے کہ جمہوریت کے اندر حکام اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ راہ گیر ہیں، ان کا کام ادارے چلانا ہے اور بس۔ ان کی پہلی خصوصیت انکسار ہوتی ہے کیوں کہ انھیں اپنی حد بھی معلوم ہے اور ان کے کاندھوں پر جو بوجھ ہے اس کی بے پناہ پیچیدگیوں کا بھی انھیں اندازہ ہوتا ہے۔ وہیں عوام کے لیے صرف یہ بات قابلِ قبول ہوتی ہے کہ انھیں باشعور اور ذمہ دار شہری سمجھا جائے۔ لہٰذا اگر ان کے ساتھ رعیت اور مریدوں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے تو وہ حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
آمریت پسندوں اور عوامیت پسندوں سے اس بات کا مطالبہ عبث ہے کہ وہ اپنے موقف پر نظرِ ثانی کریں اور اس بات پر غور کریں کہ آٰخر گذشتہ دو صدیوں میں آمریت اور عوامیت پر قائم نظام کیوں تباہ ہو گئے جب کہ پوری دنیا پر جمہوریت چھا گئی، حتیٰ کہ اس نے آمروں اور عوامیت پسندوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ بھی اسی کے میکانزم کو استعمال کریں خواہ جعل سازی اور فریب کے ساتھ۔
اس کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت میں بہت سے عیوب ہیں۔ آمریت پسندوں اور عوامیت پسندوں کے جمہوریت پر اعتراضات کے پیچھے بدنیتی کیوں نہ رہی ہو، لیکن کیا یہ جمہوریت پسندوں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ صحیح باتوں پر غور کریں، اور بدنیتی کو نظر انداز کریں۔
ہم انقلاب کے بعد تیونس میں پارلیمنٹ کی نو سالہ کار کردگی کی وکالت کیسے کریں جب کہ اس نے اہلِ وطن کے سامنے اپنی بدترین صورت پیش کی ہے؟ ان برسوں میں شفاف سیاست کے دائرے میں ایسی کتنی سخت تکراروں کو ٹی وی چینلوں نے براہِ راست نشر کیا ہے جنھیں دیکھ کر اکثر لوگوں کے اندر، جن میں راقم بھی شامل ہے، ابکائی آنے لگتی ہے۔
تیونس کی پارلیمنٹ کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے وہی باتیں قدیم ترین جمہوری ممالک کے بارے میں بھی ہم سنتے ہیں۔ لہذا تیونس، عراق یا کسی اور ملک کو مخصوص کرنے کے بجائے ہم چند عمومی سوالات اٹھائیں گے۔
کیا یہ صحیح نہیں کہ محض سیاسی جمہوریت، جس کے ساتھ آبادی کی غریب اکثریت کو معاشی حقوق کی ضمانت دینے والی سماجی جمہوریت نہ ہو، سمندر میں ہل چلانے کے مترادف ہے؟
کیا یہ درست نہیں کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے اندر کرپشن گھر کر چکا ہے؟ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرپٹ پارٹیاں آخر کرپشن کا خاتمہ کیسے کر سکتی ہیں؟ اس سوال کے اندر یہ سوال بھی ہے کہ وہ کون سے میکانزم ہیں -بطورِ خاص فائننس کے- جن پر نظرِ ثانی ضروری ہے تاکہ بہتر جمہوریت کے لیے سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ ان ضروری سسٹموں میں دیانت داری کو ممکنہ حد تک یقینی بنایا جا سکے۔
کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ، کرپشن کے سرمائے پر انحصار کرنے کی وجہ سے، اس جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے، جس نے اسے وجود بخشا ہے۔ آج شعور، ثقافت اور قدروں کو تاراج کرنے میں اس کا سب سے بڑا کردار ہے۔ یہ عوام کو گمراہ کرنے اور اپنے مفادات کے خلاف موقف اختیار کرنے کی راہ دکھاتا ہے جو عوامی مفادات کے لیے تباہ کن اور خفیہ لابیوں کے ایجنڈے کو پورا کرنے والے ہوں۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہم حریتِ رائے اور آزادیء اظہار پر قدغن لگائے بغیر عوام کو گمراہ ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں؟
کیا یہ بھی درست نہیں ہے کہ موجودہ صورت میں ہونے والے انتخابات صرف اور صرف پارٹیوں کے لیے فائدہ مند ہیں؟ کیا یہ باہم دست وگریباں گروہوں حتیٰ کہ مشکوک افراد کو اقتدار کی کرسیوں تک نہیں پہونچاتے؟ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاست دانوں سے اپنے مسائل کے حل کی امید لگا کر بیٹھنے والی عوام ٹی وی اسکرینوں پر خود سیاست دانوں کے مسائل دیکھنے میں سارا وقت گزارتے ہیں؟
ہم انتخابی قوانین کو نئے سرے سے کیسے تیار کریں کہ ایوانوں تک اچھے لوگ ہی پہونچ سکیں اور ہمیشہ ایسی اکثریت کو ہی حکومت چلانے کا موقع ملے جسے حکومت سازی کے لیے مشکوک اور ناکام سودے بازیوں کی ضرورت نہ پیش آئے؟ ہم آہنگ اکثریتی حکومتوں کے درمیان اقتدار کا تبادلہ ہی اچھے افراد کو سامنے لاسکتا ہے۔
کیا یہ صحیح نہیں کہ جمہوریت کے اندر شہریوں کی ذمہ داری صرف انتخابات میں ووٹ دے دینے سے پوری نہیں ہو جاتی۔ سوال یہ ہے کہ شہریوں کی شراکت اور رائے دہندوں اور منتخب لوگوں کے درمیان روابط کے دائرے کو کیسے وسیع کیا جائے تاکہ جمہوری نظام کے بڑے اہداف حاصل ہوں اور تکثیریت، حریت اور امن وامان کے سائے میں عادلانہ قوانین اور صاف شفاف ادارے عوامی معاملات کو انجام دیں۔
ان کے علاوہ دوسرے بہت سے سوالات ہیں لیکن یہاں انھیں بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔ ان سب پر غور، مرض کی تشخیص اور ان کا فوری علاج خواہ وہ تکلیف دہ ہو بہت ضروری ہے۔
ایک طرف جمہوریت ہے اور دوسری طرف آمریت اور عوامیت پسندی، ان دونوں میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ جمہوریت کو مزید فروغ دے کر جمہوریت اپنے امراض کا علاج کرسکتی ہے، مطلب یہ کہ مزید گفتگو، تبادلہء خیال، قوانین کی اصلاح، اور حاصل تجربہ کی روشنی میں اداروں کی از سرِ نو تعمیروغیرہ سے یہ ممکن ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف آمریت ہے جو ظلم، بدعنوانی اور فریب دہی کو بڑھاکر یعنی اپنی آمریت میں اضافہ کرکے ذرا بھی شفایاب نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی طرح عوامیت پسندی نعروں، اشتہار بازیوں اور ہنگامہ آرائیوں میں اضافہ کرکے یعنی عوامیت پسندی کو مزید بڑھا کر خود کو دیوالیہ ہونے سے بچا نہیں سکتی ہے۔
لہٰذا آج تیونس اور تمام عرب ممالک کے جمہوریت پسندوں سے خواہ وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں، مطلوب ہے کہ اپنی صفوں میں یکجہتی پیدا کریں، اپنی بہت سی غلطیوں پر نظرِ ثانی کریں اور آمریت پسندی اور عوامیت پسندی کی اس وبا سے مقابلہ کے لیے تیار ہوجائیں جو ہم سے بہت بھاری قیمت وصول کر رہی ہے۔ اور اس کی قیمت اس مسکین امت نے دوسری تمام اقوام سے زیادہ چکائی ہے۔
ثقافتی اعتبار سے قوتِ مدافعت کی کمی کی وجہ سے بھی ہمیں یہ قیمت چکانی پڑی ہے۔ اس کمی کی وجہ سے یہ دونوں امراض دوسری قوموں سے زیادہ ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ کیا کسی شاعر/عمر رسیدہ بچہ کے اس قول پر ہم نہیں جھومتے کہ ’’عاجز ہے وہ جو آمر نہیں‘‘۔ حالانکہ حقیقتِ واقعہ اس کے برعکس ہے۔ کیا یہ درست نہیں کہ بہت سے لوگ وقار اور گھمنڈ، اور قوت اور تشدد کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟ کیا گاندھی اور منڈیلا کمزور تھے اور زین العابدین بن علی اور بشار الاسد طاقت ور ہیں؟ ہم اس وقت طاقت ور ہوں گے جب ہمارے دل ودماغ میں یہ احساس گھر کر جائے کہ سیاسی اعتبار سے اس سماج اور سیاسی نظام سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں جو بہترین اداروں اور عادلانہ قوانین پر قائم ہو، اوراس سماج اور سیاسی نظام سے زیادہ کوئی کمزور نہیں جہاں فوج کی بندوقوں اور پولیس کے کوڑوں کی حکمرانی ہو، اور جہاں ایسے عمر رسیدہ لوگوں کی قیادت ہو جن کے اندر کا بچہ بڑا اور باشعور ہونے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2020