معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا میں آدمی کا وزن اور اعتبار اس کی صلاحیتوں کے حساب سے ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی صلاحیتوں کواَپ ڈیٹ کرنا اور اَپ گریڈ کرنا عقل مندوں اور دنیا میں کچھ کر گزرنے والوں کا شیوہ ہوتا ہے۔
ایک ٹریننگ کلاس میں میری ایک فرد سے ملاقات ہوئی اور اپنے تعارف میں اس نے اپنی وسیع صلاحیتوں کا ذکر کیا۔ میں نے پوچھا کہ ایسا کیسے ممکن ہو سکا؟ اس نے بتایا کہ وہ ہر ماہ کی تنخواہ میں سے10 فی صد اپنی صلاحیتوں کو آگے بڑھانے کے لیے مختص کردیتا ہے جس سے وہ کئی چھوٹے بڑے کورس کرتا رہتا ہے۔ صلاحیتوں کی وسعت شخصیت میں جاذبیت بھی پیدا کرتی ہے اور اعتماد بھی۔ ایک اور باصلاحیت تحریکی فرد نے مجھے بتایا کہ وہ سال میں دس سے پندرہ نئے کورس کرتا ہے، جن میں بعض دائرۂ علم کو بڑھاتے ہیں، بعض سوچ کا افق بلند کرتے ہیں، بعض عملی رویوں میں تبدیلی لاتے ہیں، تو بعض فنی مہارت پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح افراد کی صلاحیتیں چمکتی جاتی ہیں، وہ تحریک کے لیے زیادہ مفید ہوجاتے ہیں اور کام کی رفتار تیز تر ہو جاتی ہے۔
قرآن میں جا بجا انبیاے کرام علیہم السلام کی زندگی کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں، ان میں کسی جگہ ان کی دعوت نمایاں ہے تو کسی جگہ ان کی گھریلو زندگی کے کچھ پہلو سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے خدا سے جو دعائیں کیں، قرآن نے انھیں بھی ابھار کر پیش کیا ہے، مگر ایک دل چسپ بات جس کی طرف لوگوں کا ذہن کم جاتا ہے، وہ ہے کہ قرآن نے ان کی مخصوص صلاحیت کا ذکر کیا ہے، جو ان کی شناخت کا حصہ ہے، یعنی رہتی دنیا تک وہ اس صلاحیت کے حوالے سے بانی وموجد کی حیثیت سے جانے جاتے رہیں گے۔ جیسے حضرت نوحؑ بحیثیت کشتی ساز، حضرت ابراہیمؑ عالم دعوت کا نقشہ کار بنانے والے، حضرت داودؑ زرہ ساز، حضرت یوسفؑ بحیثیت ماہر پلاننگ اور مینیجمنٹ وغیرہ۔
صحابہ میں ابوبکرؓ اور عمرؓ رائے اور مشورے کے لوگ تھے۔ نبی ﷺ ان سے قبائلی سیاست، جنگی اسٹریٹجی، جنگ میں استعمال ہونے والے نئے اوزار وہتھیار کے سلسلے میں مشورہ کیا کرتے تھے، عمرو بن العاصؓ اور خالد بن ولیدؓ میدانِ جنگ کے ماہرین تھے، ان سے جنگی مہمات کی قیادت کا کام لیا کرتے تھے۔ علیؓ اسلام کے اول مفتی اور قاضی تھے، سرورِ کونین ﷺ نے اپنی نگرانی میں انھیں مقدمات کے فیصلے کی ٹریننگ دی۔ عبداللہ بن مسعودؓ اور ابی بن کعبؓ قرآن کے پہلے مفسرین تھے، اور آپ ﷺنے لوگوں سے کہہ رکھا تھا کہ انحضرات سے قرآن سیکھا کریں۔ مصعب بن عمیرؓ بہترین کمیونیکیشن کے آدمی تھے، ان سے ڈپلومیسی کا کام آپ نے لیا۔ صحابہ کی صلاحیتوں کو کیسے پروان چڑھایا گیا اور ان صلاحیتوں کو تحریکی مقاصد کے لیے کس طرح سے استعمال کیا گیا اس پر مزید باتیں آگے آ رہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو احباب اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور ان سے تحریک کی خدمات انجام دینے کی سعی کرتے ہیں وہی اصل میں تاریخ ساز ہوتے ہیں اور تاریخ میں یاد رکھے جاتے ہیں۔
باطل کی صفوں پر بھی ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ ملک کے بہترین دماغ، با صلاحیت افراد، ملٹری افسران، میڈیا پرسن،عدالت کے جج صاحبان، فلموں کے ستارے، کرکٹ کے ہیرو، معاشیات کے ماہرین، بڑی بڑی تجارت کی کمپنیاں، بڑے اخبار، بڑے ٹی وی چینل، لکھنے والے، بولنے والے، گانے والے، غرض ان صلاحیتوں کی ایک بڑی کھیپ موجود ہے۔ ہر زمانے میں بالخصوص دورِ حاضر میں حق و باطل کی کشمکش میں جہاں نظریاتی تصادم ہے، وہاں بڑا مقابلہ صلاحیتوں کے درمیان ہے۔ باطل نظریے میں عقلی دلائل کی کم زوری اور ضمیر سے متصادم ہونے والے افکار کے باوجود ایک مدت سے دنیا پر اس کا غلبہ ہے، یہاں تک کہ علم و ادب، سائنس اور ٹیکنالوجی، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور سیاست پر اس کا سکہ چل رہا ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ باطل نظریات کو پیش کرنے والے بہترین زبان و بیان، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور رائے عامہ بنانے کے تمام ذرائع کے استعمال پر حق پرستوں کے مقابلے میں بہتر قدرت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر حق کے علم بردار یہ سمجھتے رہیں کہ صرف حق سے وابستہ ہونا دنیا میں معرکہ جیتنے کے لیے کافی ہے، تو یہ رسول ﷺکی تحریک کی کامیابی کے راز سے نا واقفیت ہوگی۔
متنوع صلاحیتوں کی اہمیت
آپ نے اگر گھر بنوایا ہو یا بنتے ہوئے دیکھا ہو، تو اندازہ ہوا ہوگا کہ گھر کی تعمیر کا منصوبہ نوع بہ نوع صلاحیتیں چاہتا ہے۔ ایک صلاحیت دوسری صلاحیت کا متبادل نہیں بنتی۔ کھدائی، اینٹوں کی جڑائی، ڈھلائی، سریے کا کام، بڑھئی کا کام، پلستر، بجلی کا کام، پلمبنگ، ٹائلیں بچھانا، رنگ و روغن کرنا، یہ تمام کام الگ الگ صلاحیتیں چاہتے ہیں۔ ان کی مجموعی کوششوں سے ایک خوب صورت گھر بن پاتا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے پیشِ نظر بھی ایک ہمہ گیر معاشرے کی تعمیر ہے، جس کی پہلی اینٹ فرد ہے۔ اس کی زندگی درست بنیادوں پر استوار ہو، معاشرہ مثبت وتعمیری قدروں کا آئینہ دار ہو اور ریاست کے تمام ادارے انسانیت کی فلاح وبہبود کے کام میں لگے ہوئے ہوں، دنیا کا یہ عظیم مشن بھی متنوع صلاحیتیں چاہتا ہے، جیسے مصنفین، مترجمین، تجزیہ کار، مقررین ومدرسین، منصو بہ ساز، کاؤنسلر، شاعر، گلوکار، میڈیا مواد بنانے والے، سائنٹسٹ، سماجی علوم کے ماہرین، فنڈ جمع کرنے والے وغیرہ۔
قائدِ تحریک نے روزِ اول سے اس جانب توجہ دلائی کہ ہمارے کارکنان میدان میں کام کرتے ہوئے باصلاحیت افراد کو تلاش کریں، ان تک تحریک کی دعوت پہنچائیں اور انھیں باور کرائیں کہ عظیم تحریک کے لیے ان کی صلاحیتوں کا لگنا ان کی خوش قسمتی اور دونوں جہان کی کامیابی کا باعث ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ آج کی دنیا بہت تیز رفتار ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے نئی نسل کی اُنسیت نے اس کے اندر بہت سی صلاحیتیں پیدا کردی بیں جس کے نتیجے میں اس کی رسائی معلومات کے مآخذ تک ہے۔ حالات سے اس کی واقفیت ہر آن اپڈیٹڈ رہتی ہے۔ لکھنے، بولنے، فاسٹ ٹائپنگ کرنے، پکوان کی ریسیپی معلوم کرنے، جگہ اور مقام کو دریافت کرنے، دنیا بھر کے باصلاحیت افراد سے رابطہ پیدا کرنے، آن لائن شاپنگ کرنے اور اس طرح کے دیگر امور نے اس کی صلاحیتوں کو چار چاند لگادیے ہیں، جس سے اس کے کاموں میں تیزی آگئی ہے۔ اور اس سے گفتگو اور مباحثہ کرنے کے لیے اس سے زیادہ باصلاحیت، حالات سے واقف کار اور معاملات کا گہرا فہم والاہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر بالخصوص نئی نسل میں تحریک کا کام کرنا اور اس کی رہ نمائی کا کام انجام دینا مشکل ہوگا۔ ایسے میں بے صلاحیت لوگ رہ نمائی کرنے کے قابل نہ رہ سکیں گے، بلکہ انھیں باصلاحیت لوگوں کے لیے جگہ خالی کرنی پڑے گی۔
صلاحیتوں کے فروغ کے لیے حکمت عملی
دیکھا جاتا ہے کہ کبھی کبھی کاموں کی تقسیم اس طرح ہوتی ہے کہ ایک فرد پر کئی ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں، اس بات کا خیال رکھے بغیر کہ آیا وہ فرد اس امانت کا بوجھ اٹھا سکتا ہے یا نہیں، اور اس میں وہ مطلوبہ استعداد پائی جاتی ہے یا نہیں۔ چونکہ جب ذمہ داریاں تقسیم کی جاتی ہیں تو سہولت اور آسانی کے لیے جو لوگ نگاہوں کے سامنے موجود ہوں یا جن سے جان پہچان زیادہ ہو ان کے حوالے کردی جاتی ہیں، جبکہ بسا اوقات جنھیں ذمہ داری دی جاتی ہے، خود انھیں ندامت ہوتی ہے کہ ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے جو مطلوبہ صفات اور صلاحیتیں چاہئیں وہ ان کے اندر نہیں ہوتیں یا بہت کم ہوتی ہیں۔ جبکہ ان سے بہتر صلاحیت کے لوگ خود اپنی صفوں میں، قریب یا دور پائے جاتے ہیں، مگر ان صلاحیتوں کے استعمال کے لیے ضروری ہے کہ انھیں تسلیم کیا جائے، ان پر بھروسا کیا جائے اور کام ان کے حوالے کرنے کا رِسک لیا جائے، جو قیادت کی اہم صفات میں شامل ہے۔ کبھی میڈیا کا کام اس فرد کے حوالے ہوجاتا ہے جو میڈیا والوں سے گفتگو کے داؤں پیچ سے ناواقف ہوتا ہے، رابطہ عامہ کا کام سخت گیر اور زود رنج فرد کے حوالے ہوجاتا ہے جسے بنانے کے بجائے بگاڑنے میں مہارت ہوتی ہے۔ تجارتی امور کے اختلافات کا مقدمہ ان کے حوالے کیا جاتا ہے جنھیں معاملہ فہمی دور سے چھو کر بھی نہ گزری ہو اور جنھیں تجارت کے ابجد سے بھی واقفیت نہ ہو۔ ازدواجی زندگی کے امور کی کونسلنگ ان کے حوالے ہوتے ہوئے میں نے دیکھی ہے، جن کی خود ازدواجی زندگی کی عمارت کھنڈر نما ہوتی ہے۔ جبکہ دلوں کو جوڑنے کے مقدس کام کے لیے قرآن و سنت، سیرت اور زوجین کی نفسیات سے واقفیت ضروری ہے، نیز ان کی ذاتی زندگی بھی گواہی دیتی ہو کہ وہ اس معاملے میں قابلِ تقلید نمونہ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک کے مختلف محاذوں پر کام کرنے کے لیے وسیع تر صلاحیتیں درکار ہیں، جنھیں اپنی صفوں میں تلاش کرنے، صلاحیتوں کو تعمیر کرنے، موجود صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا ماحول ہو تاکہ صلاحیتوں کے ناتواں پودے مضبوط درختوں کی شکل اختیار کرلیں۔ اس کے علاوہ اپنے اندر سماج سے انسانی وسائل کو کھینچنے والی مقناطیسیت پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
اس خلا کو دور کرنے کے لیےBuild, Buy and Borrow کی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے: صلاحیتوں کو نشوونما دینا، سماج کے باصلاحیت افراد کو اپنے اندر شامل کرنا اور دوسروں کی بعض مخصوص صلاحیتوں سے حسبِ ضرورت استفادہ کرنا۔ اس اسٹریٹجی پر آگے سیرت کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوگی۔
یہاں یہ بات نوٹ کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ تنظیموں کو، جن کے پاس وسائل اور مہارتیں محدود ہوں، ہر چیز کا ٹیلنٹ پول بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ باہر سے’خرید‘ سکتے ہیں۔ یعنی معاشرے میں موجود صلاحیتوں کو اپنانا یا ہنر مندوں کو دینی و تحریکی کاموں میں شریکِ کار بنانا تاکہ دھیرے دھیرے وہ تحریک سے قریب تر ہوکر اس کا جز بن جائیں۔ اگر تنظیم کے پاس وسائل موجود ہیں تو وہ مہارتوں کی نشو و نما کے ذریعے اندر سے صلاحیتوں کو ’استوار‘ کرسکتے ہیں۔ خاص مہارت ( اسپیشل ٹیلنٹ) کے لیے، تنظیم ہنگامی ضرورتوں کے پیش نظر باہر سے صلاحیتیں ’قرض‘ لے کر استعمال کرسکتی ہے۔ وسائل پر توجہ دینے کے لیے کب کہاں انھیں تلاش کیا جائے یہ ذمہ داروں کی حکمتِ عملی پر منحصر ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت فروغ انسانی وسائل کے سلسلے میں چار امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(الف) صلاحیتوں کو پہچاننا، انھیں ترقی دینا اور نئی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے منصوبہ بندی کرنا۔
(ب) تنظیم کے اندر جتنے انسانی وسائل ہیں ان سب کی صلاحیتوں کے ارتقا پر نگاہ رکھنا، توجہ دینا، منصوبے بنانا اور اچھے اچھے ٹریننگ پروگراموں کا انتظام کرنا۔
(ج) آپ کے اطراف، محلے اور بستی میں جتنے باصلاحیت افراد ہیں ان سب تک وہ پیغام پہنچانا، جس کے لیے تنظیم تگ و دو کر رہی ہے۔ ان کی صلاحیتوں کے شایانِ شان ان سے بات کرنا اور انھیں کام بھی دینا تاکہ ان کی صلاحیتیں دعوت، خدمت، امت کی سرخ روئی اور ملک میں امن و سلامتی کے قیام کی کوششوں میں لگ سکیں۔
(د) خصوصی صلاحیت یعنی اسپیشل ٹیلینٹ کے حامل کچھ ہی لوگ ہوا کرتے ہیں، جیسے جج، جرنلسٹ، مصنفین، صلح کرانے والے، کونسلنگ کرنے والے وغیرہ۔ ان کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادے کے لیے امت میں مزاج کو پروان چڑھانا اور ان سے قربت بڑھانا تاکہ ان کی صلاحیتوں سے تنظیم اور امت کو فائدہ پہنچے۔
جہاں تک اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے کی بات ہے اس کے کئی طریقے ہیں:
ایک یہ ہے کہ آپ خود تنہائی میں بیٹھیں اور نوٹ کریں کہ کیا صلاحیتیں ہیں جن کا بنیادی خمیر آپ اپنے اندر پاتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ آپ اپنے والدین سے، دوستوں سے، بیوی سے، اور بچوں سے پوچھیں کہ آپ کے اندر کیا صلاحیتیں وہ پاتے ہیں اور اگر آپ کو پتہ نہ ہو تو ان سے دریافت کریں اور اسے پروان چڑھائیں۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ صلاحیتوں کو پہچاننے کی چیک لسٹ سامنے رکھیں اور اس میں ٹِک کریں کہ آپ کے پاس کون کون سی صلاحیتیں ہیں اور کون کون سی صلاحیتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔
چوتھا طریقہ یہ ہے کہ آپ ماہرین نفسیات سے شخصیت، رجحان اور صلاحیتوں کی پہچان کا سائیکو میٹرک ٹیسٹ حاصل کریں اور اسے انجام دیں۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ کا بنیادی رجحان کیا ہے۔
سیکھنے کا نفسیاتی عمل
انسانی سلوک سیکھنے اور تجربے کرنے کا جامع ہے۔ یعنی ہم آج جو کچھ ہیں وہ ہمارے کل کے مشاہدے اور تجربے کا مجموعہ ہے کہ ہم نے مخصوص حالات میں کسی فرد (مثال کے طور پر والدین، اساتذہ، سماج کے اکابر) کو دیکھا کہ وہ کس طرح برتاؤ اور رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ مشاہدے اور تجربے سے کوئی رویہ اور سلوک سیکھنا اس بات پر منحصر ہے کہ اس وقت کس نقطۂ نظر پر اس کا ذہن کام کررہا تھا۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آج ملک بھر میں احتجاج ہو رہے ہیں، جس کا ذہن یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ان میں تمام قوموں کے لوگ شامل ہیں اس کے سامنے ایسی ہی تصویریں ابھر کر آتی ہیں، جنھیں نعروں سے دل چسپی ہے، انھیں احتجاجوں میں جذباتی سلوگن ہی سنائی دیتے ہیں اور جو یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ یہ صرف داڑھی ٹوپی والوں کا غم وغصہ ہے، انھیں صرف وہی نظر آتا ہے اور اس میں انھیں ملک دشمنی کی بو آنے لگتی ہے۔ سیکھنے کے اس طریقہ کوlearning by association کہا جاتا ہے۔ صلاحیتوں کی دریافت کی شروعات اسی طرح ہوتی ہے کہ پہلے آپ یہ جانیں کہ آپ کا فطری ذہنی رجحان کس جانب ہے اور اس میدان میں آپ نے اب تک کیا اور کتنا سیکھا ہے؟ کسی میدان کی قابلیت وصلاحیت کو جانچنے کا یہ ایک فطری طریقہ ہے، اس راہ سے صلاحیتیں آہستہ آہستہ تجربوں کے ساتھ بڑھتی رہتی ہیں۔ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے جو ایک مکمل مضمون کا طالب ہے۔
صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا ماحول
جدید تنظیموں میں HRM کی بڑے پیمانے پر ابتدا ایک مغربی رجحان ہے۔ شروع میں کمپنیوں اور تنظیموں میں خدمت انجام دینے والے اہل کاروں کے انتظام کا کام چھوٹے پیمانے پر ہوا کرتا تھا، جسے personnel management کہا جاتا تھا۔ جیسے جیسے افراد بڑھتے گئے، متنوع صلاحیتوں کی ضرورت پڑی، حکومت کے قوانین اس میدان میں منظم و منضبط ہونے لگے اور انسانی برتاؤ پر جدید تحقیقات ہونے لگیں، جس کا اثر کمپنی، تنظیموں اور ادارے کے کاموں پر پڑنے لگا تو عملے کے انتظام کے طریقوں کی باقاعدہ ایک شاخ وجود میں آگئی، جس کا نام HRM ہے۔ ان دونوں کے درمیان بتدریج علیحدگی کا اختتام اس وقت ہوا جب ایک مخصوص نظم وضبط کے طور پر، HRM کو ’ہارورڈ اسکول‘ اور ’مشی گن/کولمبیا گروپ‘ کے ذریعہ ان کے ایم بی اے کے نصاب میں متعارف کرایا گیا۔ یہ 1980 کی دہائی کے اوائل کی بات ہے۔
تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ انسانی وسائل کسی بھی تنظیم کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ یہ سرمایہ ہر سامان سے زیادہ قیمتی ہے۔ بدقسمتی سے سب سے زیادہ ضائع بھی یہی ہوتا ہے۔ افراد تنظیم کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں اور ہماری سب سے بڑی ذمہ داری بھی یہی ہے کہ ان کی صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہو اور انھیں مزید ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ تمام تنظیموں میں آج اس کی حیثیت مسلم ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت باطل پوری آب وتاب کے ساتھ حق کے پرستاروں پر یلغار کررہا ہے، اور اس کام میں اس کے پاس انسانی وسائل کا بے پناہ ذخیرہ موجود ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حق کے علم برداروں کی صفوں میں اس موضوع کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، جتنا تحریکی کاموں کو فروغ دینے، باطل کو چلینج کرنے اور باطل کی یلغار کی روک تھام کے لیے ضروری تھا۔ مقامی یونٹ کے سربراہوں اور دیگر تحریکیں رہ نماؤں کے درمیان، اس کی اہمیت اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار اور دائرہ اثر میں صلاحیتوں کو تلاش کرنے، اپنے ماتحت افراد کی صلاحیتوں کی پرورش کرنے اور ٹیموں کی کارکردگی کے نظم و نسق کو بہتر کرنے کی جانب بہت زیادہ توجہ دیں۔ سیدھے الفاظ میں، قائدین اپنی تنظیموں میں صلاحیتوں کو فروغ دینے کے ذمہ دار ہیں، لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی وہ صلاحیتوں کے فروغ کے لیے اپنے یہاں کے اجتماعی ماحول کو سازگار نہیں بنا پاتے۔
حال ہی میں، PDI 9th House (ایک عالمی لیڈر شپ ٹریننگ کمپنی) نے سینئرسطح کے رہ نماؤں کی اپنے ماتحت کارکنان کی صلاحیتوں کو ترقی دینے کی اہلیت کے بارے میں اپنی تحقیق شائع کی۔ اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جیسے ہی لیڈر تنظیم کی آگے کی صفوں میں بڑھتے ہیں، دوسروں کی نشوونما کرنے کی ان کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے- حالانکہ وہ ہر سطح پر اس کی ضرورت کو تسلیم کرتے رہے ہیں۔ گو کہ کوچنگ اور ٹیلنٹ کو ترقی دینے کی ذمہ داری برقرار رہتی ہے،لیکن ان کی توقعات، حالات، عہدے، مناصب اور سیاق وسباق میں تبدیلی آ جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ صلاحیتوں کے فروغ پر توجہ نہیں دے پاتے۔ اس تحقیق میں ایک خاص بات پر روشنی ڈالی گئی ہے وہ یہ کہ ہر شخص تسلیم کرتا ہے کہ قائدین کی سب سے اہم مطلوبہ قابلیت یہ ہے کہ صلاحیتوں کو فروغ دینے کی ان کے اندر صلاحیت ہو، مگر خواہش اور کارکردگی میں ایک واضح خلا رہ جاتا ہے۔
صلاحیتوں کے فروغ دینے کے ماحول کا فقدان
اس تحقیق کے بہت دل چسپ انکشافات میں سے ایک یہ ہے کہ نچلے درجے کے رہ نما بھی، جنھوں نے ہنر مندی اور انسانی وسائل کی ترقی کو ترجیح دی، سینئر صفوں میں داخل ہونے پر اس ضرورت سے غفلت برتنا شروع کردیتے ہیں۔ ذاتی طور پر وہ مربی کا رول ادا کرلیتے ہیں جو وقت طلب ہوتا ہے، لیکن بڑے ذمہ داران سب سے زیادہ اثر اس وقت پیدا کرتے ہیں جب وہ انفرادی کوچنگ اور تنظیم میں ہمت افزائی اور قدر دانی کے ماحول میں فرق کرتے ہیں جس میں زیادہ کمی پائی جاتی ہے۔ اسے ترقی کی ثقافت (culture of talent development) یا صلاحیتوں کا ماحول (culture of talents) بھی کہہ سکتے ہیں جسے فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
ہنر مندی اور صلاحیتوں کی ترقی کی ثقافت تشکیل دینے کے لیے سینئر قائدین کے لیے یہ تجاویز ہیں:
٭ بطور رول ماڈل کام کریں۔ آپ سیکھنے اور ترقی کرنے کی اپنی ضرورت کے بارے میں شفاف ہوں، اور اپنے ذاتی ارتقا کے لیے مستقل کوشاں ہوں اور اپنے کیڈر کو بھی یہ بتائیں کہ آپ یہ کیسے کر پاتے ہیں۔ اور جو میدان آپ کا نہیں ہے وہاں آپ صاف بتائیں کہ یہ میری کم زوری ہے۔ قائدین کو جب سیکھتے ہوئے دیکھا جاتا ہے تو یہ بات بھی انھیں طاقت ور بناتی ہے۔
٭ سیکھنے کی قدر کو مضبوط بنائیں۔ اہداف کے بارے میں بنیادی سطح کی بات چیت سے آگے بڑھیں۔ ماتحتوں کے بارے میں پوچھیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اور ان کے مفوضہ کام اور صلاحیتوں میں کہاں خلیج رہ جاتی ہے؟ اور اس کمی کے بارے میں وہ خود کیا محسوس کرتے ہیں؟ جب آپ کے رفقا میں کوئی اسائنمنٹ مکمل کرتا ہے تو کام بخوبی تکمیل پانے اور کام سیکھنے دونوں کا جشن منائیں، خاص طور پر اگر اسائنمنٹ آسانی سے پورا ہونے والانہیں ہو۔
٭ صلاحیتوں کے ارتقا کو یقینی بنانے کے لیے پائیدار طریقہ کار تیار کریں۔ ذمہ داروں سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے لوگوں کی کوچنگ کریں اور ترقی دیں۔ کم سے کم، ہر کوئی جانتا ہے کہ انھیں کن شعبوں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، اور ان لوگوں کے لیے جو خاص طور پر اعلی صلاحیت رکھتے ہیں، صلاحیتوں کے فروغ کا ایسا ماحول بنائیں کہ ہر فرد کے اندر اپنی شخصیت کے ارتقا کا جذبہ موجزن ہو، انھیں محسوس ہو کہ آپ کی صفوں میں صلاحیتوں کی قدر دانی ہوتی ہے اور انھیں یہ احساس بھی ہو کہ دین کی خدمت کے لیے اعلی سے اعلی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے، کیوں کہ انھیں دنیا میں ان سے بہتر صلاحیتوں کے لوگوں کے درمیان کام کرنا ہے، اور تحریک کے کارکن کو یہ بھی محسوس ہو کہ صلاحیتیں ہی وہ بنیاد ہیں، جن پر سماجی انصاف کی پوری تحریک کھڑی کی جاسکتی ہے۔ تحریک کے اعلی مناصب تک صلاحیتیں ہی کسی فرد کو اٹھا کر لے جا سکتی ہیں۔
مشاہدے میں یہ بات بھی آتی ہے کہ تحریکی صفوں میں باصلاحیت نوجوانوں کی بہت بڑی ٹیم موجود ہے جو جدید زمانے کی تعلیم سے آراستہ، اونچی صلاحیتوں کے مالک، حالات کے نبض شناس، اور جدید دنیا میں اپنی صلاحیتوں سے ترقی کے زینے طے کرنے والے ہیں۔ وہیں صلاحیتوں سے آراستہ انسانی وسائل کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے جو ہماری یونیورسٹیوں میں پروان چڑھ رہا ہے، مگر کسی کی نگاہ اس جانب نہیں جاتی، یہاں تک کہ حالات نے خود بتا دیا کہ انسانی وسائل کا توانائی سے بھرپور بہت بڑا تازہ دم ذخیرہ ہے، جو ملت کی آنکھ کا تارا ہے۔ امت کے تن نیم مردہ میں جب جبر و استبداد کے نظام نے پورے وجود خوف طاری کر رکھا تھا، اس نے نئی روح پھونکی، جس سے نہ صرف امت پھر سے کھڑی ہوگئی بلکہ انسانی وحدت کی قوت نے دوبارہ زندگی سے بھرپور انگڑائی لی۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات کشمکشِ انقلاب
صلاحیتوں کی ناقدری سے بچیں
صلاحیتوں کی ناقدری کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔ جب تحریک کا کام اسلام کی نشاۃثانیہ کی جدوجہد کے بجائے ایک روٹین ڈگر پر چلنے والا تنظیمی کام بن جائے، تو پھر نظام اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے جتنے کاموں کی ضرورت محسوس کرتا ہے، بس اس پر قناعت کر بیٹھتا ہے۔ پھر صلاحیتوں سے بے نیازی شروع ہوتی ہے۔ کبھی بہتر صلاحیتوں سے ایک قسم کی الرجی پیدا ہوجاتی ہے اور اپنی سیٹ کو بچائے رکھنے کے لیے اعلٰی صلاحیتوں کے انسانی وسائل سے دور رہنے ہی میں عافیت سمجھی جاتی ہے۔ جو تحریکیں مردہ ہوگئیں، یا اپنے تضادات میں پھنس کر امت کا اعتماد کھوچکی ہیں ان میں اس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
انسانی وسائل سے عدم استفادے کی دوسری وجہ نئی نسل سے دوری اور بے نیازی بھی ہے۔ یہ خیال بے بنیاد ہے کہ صرف عمر اور تجربہ ہی سے آدمی صلاحیت مند ہوتا ہے، اس کے برعکس شیر خواری سے بلوغت تک کی عمر کی نشوونما اور طرز عمل کا مطالعہ (developmental psychology) بتاتا ہے کہ عام طور پر عمر کے بڑھنے کے ساتھ قوت فکر وعمل میں کہنگی بھی آتی ہےاور سیکھنے کی استعداد کم ہوجاتی ہے الایہ کہ شعوری طور پر تادم حیات سیکھنے کا جذبہ جواں رہے اور اپنے آپ کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھے۔
صلاحیتوں کی ناقدری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ باہر کی دنیا میں وسیع ترین صلاحیتوں کی خوب صورت نمائش لگی ہوئی ہوتی ہے، مگر جن کا مزاج دنیا سے گوشہ عافیت میں رہنے اور دنیا سے کنارہ کشی کرنے کا ہوتا ہے وہ ان خوب صورت صلاحیتوں کی جاذبیت کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود آج بھی تحریک اسلامی میں کسی نہ کسی درجے میں انسانی وسائل کی قدردانی ہوتی ہے اور انھیں بروئے کار لانے کے لیے حریص رہتی ہے۔ جان ای ایل ایسپوزیٹو نے اپنی ایک سے زائد کتابوں میں اس کا تذکرہ کیا ہے کہ اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی وہ تحریکات ہیں جن کے انسانی وسائل کا ذخیرہ وسیع اور عمیق ہے اور انھوں نے اپنی تحریکات کو انجینئر، ڈاکٹر، وکلا، پروفیسر، آرٹسٹ، مصنفین، شعرا اور ادبا وغیرہ جیسی صلاحیتوں سے مزین کیا ہے۔
صلاحیتوں کے فقدان سے معرکہ آرائی کی روح مدھم پڑ جاتی ہے اور کسی بڑے معرکے کو قبول کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ صلاحیتوں کے سلسلے میں یہ سمجھ لینا کہ وہ آپ سے آپ ہمارے اندر ابل پڑیں گی یا باصلاحیت انسانی وسائل کا بہاؤ آپ سے آپ تحریک کی طرف مڑ جائے گا، چاہے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں تو یہ خوش فہمی اور خام خیالی ہوگی۔ ہمیں اس کے لیے مناسب تدبیریں اختیار کرنی پڑیں گی۔ اس سلسلے میں ہمیں وہی رویہ اختیار کرنا پڑے گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا، جب آپ کی تحریک باطل سے صف آرا تھی، اس وقت آپ نے نئی نسل کی صلاحیتوں کی قدر دانی کی، اسے آمادہ کیا کہ وہ تحریک سے نہ صرف وابستہ ہوجائے، بلکہ مختلف ذمہ داریاں، محاذ اور مورچے سنبھالے اور وہاں قیادت کرے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2020