جدید الحاد کی غالبا سب سے اہم فکری بنیاد یہ ہے کہ کائنات بشمول انسان، انسان کے رویے، اس کے جذبات، انسانوں کے باہمی رشتے، کائنات کے ساتھ اس کے رشتے، دیگر مخلوقات کے ساتھ اس کے رشتے، انسانی زندگی کا مقصد، معنی، اخلاقیات وغیرہ کی بغیر کسی الہامی کتاب یا بغیر کسی وحی یا بغیر کسی پیغمبر کے اقوال کے توجیہ کی جاسکتی ہے۔ اس کے مطابق کائنات کی خوب صورتی، اس کی بو قلمونی، انسان کے رشتوں میں موجود سینکڑوں بلکہ ہزاروں پیچیدگیاں، انسان کے جذبات، احساسات، معمولات، سماجی تعاملات وغیرہ سب کی ایک نیچری طرز فکر کے ذریعے توجیہ کی جاسکتی ہے۔ مثلًا کائنات کے حسن کی توجیہ بتدریج خوب صورت ہونے کے تصور کے ذریعے کی جاسکتی ہے، انسان کی معاشرت کو سوشل ڈاروینزم کے ذریعے قابل توجیہ بنایا جاسکتا ہے. اسی طرح سے وہ سارے سوالات جو بنیادی نوعیت کے سوالات کہے جاتے ہیں اور جن پر انسان معلوم انسانی تاریخ میں غور فکر کرتا آیا ہے، جیسے زندگی کے معنی اور مقصد کیا ہیں؟ امید اور خوف کیا چیز ہے؟ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ کیا کوئی علیم اور خبیر ہستی موجود ہے؟ ان سب سوالوں کے جوابات نیچری طرز فکر کے ذریعے دیے جا سکتے ہیں اور جن سوالات کے جوابات نہیں دیے جا سکتے وہ سوالات یا تو قابل اعتنا ہی نہیں ہیں یا غیر ضروری ہیں۔
ذیل میں ہم سب سے پہلے کائنات اور انسان کی توجیہ و تشریح بطور خاص معنی، مقصد، اخلاقیات, ماخذ اخلاقیات اور اخلاقیات کے لیے کسی الہامی ہستی کے حوالے سے جدید الحاد کے دلائل پیش کریں گے اور پھر ان کے رد میں دی جانے والی دلیلوں کا بھی جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
خدا کے بغیر کائنات کا وجود
اس حوالے سے تین نقطہ ہائے نظر کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے:
جدید الحادی توسیعی فکر (extentional ideology)معنی و مقصد کے حوالے سے
پچھلے مضمون میں ہم نے جدید الحاد کی نظریاتی بنیادوں پر بات کی تھی اسی کے ساتھ ساتھ اس کے توسیعی طرز فکر کو پیش کیا تھا۔ اس طرز فکر پر (جو اصلًا نیچری طرز فکر ہے) سب سے اہم اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ نیچری طرز فکر کے چلتے معنی اور مقصد باقی نہیں رہتے۔ یعنی انسان انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی حیثیت میں بھی اور انسان بحیثیت ایک نوع بھی کسی خاص معنی اور مقصد کے بغیر ہوجاتا ہے۔ جدید ملحدین یہ دلیل دیتے ہیں کہ زندگی میں معنی اور مقصد کسی خدائی ماخذ سےلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان اپنے معنی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ معانی دوسرے انسانوں کے ساتھ اس کے تعلقات، پیچیدہ معاشرتی رویوں، ذاتی کام یابیوں، تخلیقی کوششوں اور معاشرے کی بہتری کے لیے دوسرے انسانوں کے ساتھ جدوجہد کر کے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
وجودی نقطہ نظر(existentialist perspective)
دوسرا سب سے اہم نقطہ جو بغیر کسی الہامی منبع کے یا بغیر کسی خدا کےکائنات کی توجیہ و تشریح کے ضمن میں ہے۔ وہ یہ ہے کہ کائنات کا کوئی خاص وجودی مقصد نہیں ہے۔ عام طور پر موحدین کی طرف سے اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ کائنات بے مقصد نہیں بنائی گئی ہے اس کے جواب میں جین پال سارتر اور البرٹ کامو جیسے مفکرین سے متاثر ہو کر بہت سے ملحدین یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس بات کا کوئی براہ راست ثبوت نہیں ہے کہ کائنات کا کوئی خاص مقصد ہے۔ لیکن انسان اپنے اعمال اور انتخاب کے ذریعے مقصد پیدا کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر سارتر کی وجودیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ “وجود جوہر سے پہلے ہے” جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان پہلے وجود رکھتا ہے اور پھر اپنے فیصلوں کے ذریعے اپنا جوہر (یا مقصد) تخلیق کرتا ہے۔
انسان پرستانہ نقطہ نظر (humanist perspective)
جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ جدید الحاد اصل میں سیکولر انسان پرستی کی بیساکھیوں کا سہارا لیتا ہے۔ جدید ملحدین کے مطابق معنی اور مقصد، وجودی حیثیت، ایک بہتر اور خوش حال زندگی گزارنے کے لیے درکار اخلاقی اصول، سب کے سب سیکولر انسان پرستی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں اس کے لیے کسی دیوی دیوتا وحی یا پیغمبر یا خاص قسم کے ساختی مذاہب کی ضرورت نہیں ہے۔
خدا کے بغیر اخلاقیات
عام طور اخلاقیات کے حوالے سے یہ بات مانی جاتی ہے کہ اخلاقیات کا مصدر اعلی مقتدرہ ہستی کی طرف سے دیے گئے اصول اور ضوابط ہو سکتے ہیں اور انسان محض اپنی عقل سے اور اپنی اختراعی کوششوں سے پائیدار اخلاقی اصولوں کا حصول نہیں کرسکتا اور اس میں ناکام ہوتا ہے. تقریباً تمام ساختی مذاہب جیسے یہودیت، عیسائیت اور اسلام اخلاق کے ایک الہامی تصور پر زور دیتے ہیں جس میں یہ بات سب سے زیادہ اہم مانی جاتی ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے اخلاقیات کے لیے اپنے پیغمبروں کے ذریعے خاص طور پر ضابطہ اخلاق کو بنا کر بھیجا ہے اور پیغمبروں نے عملی طور پر اسے اپنا کر اور سماج میں رائج کر کے انسانوں کے لیے ایک نمونہ چھوڑا ہے۔
ملحدین اس خیال کو چیلنج کرتے ہیں کہ اخلاقیات کے لیے ایک خدا کی ضرورت ہوتی ہے وہ مانتے ہیں کہ سیکولر انسان پرستی کے ذریعے اور بحیثیت انسانی نوع اس کی بھلائی کے لیے اخلاقی اصول سائنسی بنیادوں پر وضع کیے جا سکتے ہیں۔
اخلاقیات کے لیے ارتقائی اور سماجی وضاحتیں
ملحدین اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ اخلاقیات ارتقا اور سماجی تعاون کی پیداوار ہے۔ انسان گروہوں میں رہنے کے لیے تیار ہوا، اور ایسے رویے جو تعاون، خلوص اور ہم دردی کو فروغ دیتے ہیں، قدرتی انتخاب کے ذریعے وقوع پذیر ہوئے اور یہ یکایک نہیں ہو گیا بلکہ اس کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار تھا جس دوران انسان بتدریج مختلف سماجی ارتقائی اخلاقی مرحلوں کو طے کرتا گیا۔ اور یہ اس لیے ممکن ہوسکا کیوں کہ اس طرح کے اخلاقی اصول انسان کو ایک گروہی سازگاری دیتے تھے۔ لہٰذا انسانوں کی حیاتیاتی اور سماجی ضروریات کے چلتے ماضی میں اخلاقیات کے ابتدائی مظاہر ظاہر ہونا شروع ہوئے جو دھیرے دھیرے پیچیدہ ہوتے گئے۔ اور اب بھی وہ ارتقا پذیر ہیں۔ اور مستقبل کے لیے بھی وہ انسانی تہذیب کی ضرورت کے اعتبار سے ارتقا پذیر ہو جائیں گے۔ اس لیے ضروری نہیں ہے کہ اخلاقیات کے لیے کسی الہامی ماخذ کی طرف دیکھا جائے۔
رچرڈ ڈاکنز نے اپنی مشہور زمانہ کتاب دی سیلفش جین میں اسی دلیل کا سہارا لیا ہے اور استدلال کیا ہے کہ انسان دوستی اور اخلاقی طرز عمل کی وضاحت ارتقائی میکانزم، جیسے گروہی سازگاری کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔
سیکولر اخلاقی فلسفے
ملحدین عام طور پر سیکولر اخلاقیت پسندی پر زور دیتے ہیں اور مختلف فلسفی جیسےایمانوئل کانٹ، جان اسٹورٹ مل اور پیٹر سنگر جیسے فلسفیوں کے سیکولر اخلاقی نظام کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اخلاقی نظام ایسے ہیں جن کے لیے خدا پر ایمان کی ضرورت نہیں ہے۔ کانٹ کی فلاسفی تجویز کرتی ہے کہ اعمال کو عقل کی بنیاد پر عالم گیر اخلاقی قوانین کے مطابق چلایا جانا چاہیے، جب کہ مل اور سنگر افادیت پسندی کو اخلاقی عمل کی بنیاد بناتے ہیں۔ ملحدین یہ کہتے ہیں کہ انسانی فلاح و بہبود کو زیادہ سے زیادہ کرنے اور مصائب کو کم سے کم کرنے والی اخلاقیات کا ارتقا سیکولر اصولوں کی بنیاد پر بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ یہ دو فلسفے خدائی حکم پر انحصار کیے بغیر معروضی اخلاقی رہ نما اصول پیش کرتے ہیں۔
معروضی اخلاقیات اور سیم ہیرس
‘مورل لینڈ اسکیپ’ میں سیم ہیرس کا کہنا ہے کہ اخلاقیات کی بنیاد انسانی فلاح و بہبود پر رکھی جاسکتی ہے اور سائنس ہمیں اس بات کا تعین کرنے میں مدد دے سکتی ہے کہ اسے کس طرح انھیں فروغ دیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ چاہے معنی اور مقصد ہو یا اخلاقیات ہوں ان تمام اعلی اخلاقی اقدار کا حصول سائنس کے ذریعے کیا جاسکتا ہے کیوں کہ عیسائیت میں موجود بعض اخلاقی اصول ایسے ہیں جو انسانی کامن سینس اور بنیادی انسانیت پسند اصولوں کے یکسر خلاف ہیں۔
مصائب (Suffering)
ملحد عام طور پر مصائب کے مسئلے کو فطری نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ مصائب کا کوئی آزمائشی، یا الٰہی مقصد ہوتا ہے۔(مختلف ساختی مذاہب میں بھی اور غیر ساختی مذہبی رویوں میں بھی اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ آزمائشیں آفتیں مصیبتیں بیماریاں ذہنی اور نفسیاتی مسائل یہ تمام کے تمام ایک الٰہی حکمت کے تحت ہیں۔ انسان کو آزمانے کے لیے خدا اسے مسائل سے دوچار کرتا ہے اور آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے، یہ بات انفرادی سطح پر بھی صحیح ہے اور اجتماعی سطح پر بھی)
ملحدین کا دعوی ہے کہ انسان اپنی عقل کا استعمال کر کے اس بات کو ممکن بنا سکتا ہے کہ مصائب کم سے کم کرسکے۔ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے بیماری، قدرتی آفات اور دیگر مصائب سے نمٹ سکتا ہے۔
فطرت پسندی اور مصائب
ملحدین کا استدلال ہے کہ درد اور مصائب و پریشانیاں زندگی کا ایک فطری حصہ ہیں۔ یہ خدا کی مداخلت کے بغیر کام کرتی ہیں۔ قدرتی عوامل جیسے بیماری، آفات اور موت صرف اٹل فطری قوانین کے تحت چلنے والی دنیا کا ایک حصہ ہیں. ملحدین مصائب، آزمائشیں، آفتیں، اور درد وغیرہ تمام کو ایک ایسے (Enterprise) کےطور پر دیکھتے ہیں جسے انسانی کوششوں کے ذریعے کم کیا جاسکتا ہے، جیسے طب، ٹکنالوجی اور معاشرتی اصلاح میں ترقی۔
خدا پرستی کے خلاف “برائی کا مسئلہ”
برائی کا مسئلہ اصل میں عیسائیت کے گنجلک پیچیدہ اور ناقابل فہم مذہبی بیانیے کی پیداوار قرار دیا جاسکتا ہے جس کے تحت یہ معنی نکالا جاتا ہے کہ خدا نے برائی کو پیدا کیا اور پھر اس برائی کے تحت ہونے والے انسانی گناہوں کو اپنے سر لیا اور اس کی پاداش میں اپنے لیے سولی کو منتخب کیا اور اس طرح انسان کے تمام گناہوں کا بوجھ دھو کر انسانوں کے لیے محبت کا ایک اعلی ترین پیغام چھوڑا۔ اس دنیا میں موجود مختلف مصائب تکلیفیں (جینیاتی بیماریوں سے جھوجھ رہے افراد بطور خاص بچے) اور مختلف قسم کی آفتیں جنھیں آفات ارض و سماوی بھی کہا جا سکتا ہے، یہ سب ایک مہربان خدا کے سلسلے میں سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں۔ ملحد مصائب کے وجود کو ایک مہربان اور قادر مطلق خدا کے وجود کے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسے “برائی کا مسئلہ” کے طور پر جانا جاتا ہے. کرسٹوفر ہچنز اور جے ایل میکی جیسے ملحدین کا استدلال ہے کہ غیر ضروری یا انتہائی مصائب کی موجودگی ایک مہربان شفیق، حلیم، رحمان اور رحیم ہمہ گیر خدا کے وجود سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اگر خدا موجود ہے اور مصائب کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ایسا نہ کرنے کا انتخاب کرتا ہے تو ملحدین کا کہنا ہے کہ اس سے خدا کی فطرت یا وجود کے بارے میں سنگین سوالات پیدا ہوجاتے ہیں۔
آزاد ارادہ اور احتساب
سیم ہیرس اور اس طرح کے قبیل کے دوسرے ملحدین یہ دلیل دیتے ہیں کہ انسان مکمل طور پر آزاد ارادہ نہیں رکھتا ہے بلکہ اس کے جین اور ماحول کے ساتھ ان جینوں کا تعامل اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ وہ کس قسم کے قدم اٹھائے گا اور اس کے رویے، احساسات، تصورات، جذبات کسی خاص مذہب سے اس کا لگاؤ، خدا پر اس کا یقین، اس کے اندر مہربانی، شفقت اور ہمدردی کے جذبات یہ سب اصل میں کچھ خاص قسم کے جینوں اور ماحول کے ساتھ ان کے ارتباط سے پیدا ہوتے ہیں اس میں کسی خدائی میکانزم کا دخل نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی ہم ماحول کے ان عناصر کو اور ان جینوں کو جو ان افعال کے لیے ذمہ دار ہیں، نہیں جانتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہم ان تمام افعال کو اور ان تمام افعال کے لیے ذمہ دار جینوں کو معلوم کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے اور اس طرح سے ان نازک جذبات احساسات اور اس قبیل کے دوسرے تصورات کے لیے ہمیں کسی خدا کی یا کسی الہامی کتاب کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اوپر سطور میں ہم نے ان دلیلوں کا جائزہ لیا ہے جو جدید ملحدین پیش کرتے ہیں یہ وہ دلیلیں ہیں جو عام طور پر روایتی مذہبی اور جدید الحادی بیانیے کے تحت عوام کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں ذیل کی سطور میں ان دلیلوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
مذہب کے بغیر معنی اور مقصد کی وضاحت میں چیلنج
معروضی معنی کا مسئلہ
جدید الحاد (بلکہ لادینیت کی تمام شکلوں) کو درپیش بنیادی چیلنجوں میں سے ایک معروضی، اعلیٰ بنیاد کی عدم موجودگی ہے جس کی اساس پر معنی و مقصد کی توجیہ کی جاسکے۔ ایک خالص فطرت پسند اور ملحدانہ عالمی نقطہ نظر (atheistic world view) میں، کائنات کو ایک بے مقصد لایعنی اور حادثاتی حیثیت میں دیکھا جاتا ہے۔انسان اور حیات کے دیگر منظم حیران کر دینے کی حد تک خوب صورت مظاہر کو ڈاروینی ارتقا کا لازمی نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔۔ اس نقطہ نظر سے، اگرچہ افراد اپنی زندگیوں میں شخصی معنی پیدا کرسکتے ہیں، لیکن زندگی کا کوئی حتمی معنی و مقصد نہیں ہے۔
ژاں پال سارتر جیسے ملحد وجود پرست نے دلیل دی کہ اگرچہ کائنات کا کوئی مقصد نہیں ہے، لیکن افراد کو اپنا مقصد خود بنانا چاہیے۔ اس سے ایک سب سے بڑی الجھن اور سب سے بڑا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ: اگر تمام معنی یکساں طور پر درست ہیں کیوں کہ وہ خود ساختہ ہیں، تو ہم کسی خاص مقصد کی قیمت کا اندازہ کیسے لگاسکتے ہیں، جیسے کہ انسان دوستی بمقابلہ ہیڈونزم؟ یا اسی طرح کے دوسرے مقاصد جو مختلف افراد اپنے اپنے تئیں تخلیق کریں گے اس میں اس بات کا فیصلہ کیسے کیا جائے گا کہ ایک مقصد دوسرے مقصد کے مقابلے بہتر ہے۔
معروضی اخلاقیات کو بنیاد بنانے میں ناکامی
اسی طرح کا مسئلہ اخلاقی اقدار کے ساتھ بھی پیدا ہوتا ہے۔ اخلاقی نظم و نسق کے اعلیٰ ماخذ کے بغیر، ملحدین یا تو اخلاقی نسبت پسندی(Moral relativism ) کو اپناتے ہیں یا انسانی عقل اور معاشرتی معاہدوں (Social contract)کو اخلاقیات کو بنیاد بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ دنیا میں ظاہر ہو چکا ہے کہ یہ دونوں بنیادیں کوئی پائے دار معروضی اخلاقیات کو پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔ اسی طرح، اخلاقیات کا سیکولر بیانیہ اس سوال کا جواب پیش کرنے میں ابھی تک مکمل طور پر ناکام ہے اور وہ سوال ہے کہ “ھے وہ کیوں کرنا چاہیے جو صحیح ہے؟”
مذہب اس طرح کے سوالوں کے لیے خدا کی رضا، جنت کا حصول اور ثواب اور اس طرح کے دیگر محرکات کو بیان کرتا ہے۔
اسی طرح اسی سے متصل ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اخلاقیات کے لیے محرک کیا ہو۔ کیوں کہ وہ محرک اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ افراد اور اقوام کو ان تمام اعمال سے روک سکے جو ذاتی مفادات اور انفرادی خوشی کے دائروں سے ٹکراتے ہوں۔ جدید ملحدین اس سوال کا جواب نہیں دے پاتے کہ اخلاقیات کے لیے ایک طاقت ور محرک کیا ہوگا۔
لہٰذا، کسی خدائی یا مابعد الطبیعیاتی بنیاد کا سہارا لیے بغیر، معروضی اخلاقیات کے ایک ایسے نظام کی وضاحت کرنا جو انسانی رائے سے بالاتر ہو اور عالم گیر سطح پر قابل عمل ہو، انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔
غایتی سوال: خالق کے بغیر مقصد؟
مذہبی گفتگو میں مقصد کا سوال علت غائی (teleology)سے گہرا تعلق رکھتا ہے مثال کے طور پر توحید پسند دین جیسے اسلام میں، انسان کو ایک الہامی مقصد کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ انسان خدا کے بندے کی حیثیت سے اس دنیا میں خدائی احکام کے تحت انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے اور اخلاقی اور روحانی ترقی کے لیے جدوجہد کرنے کا ذمہ دار ہے۔ یہ اس سوال کا ایک واضح جواب فراہم کرتا ہے کہ زندگی کا مقصد کیوں ہے۔ یہ ایک خالق کے ذریعے مقرر کردہ ایک بڑے کائناتی بیانیے میں مضبوطی کے ساتھ پیوست ہے۔
جدید لادینیت، خاص طور پر اپنی سائنسی مادیت پسند شکل میں، اس ٹیلیلوجیکل نقطہ نظر کو مسترد کرتی ہے۔ لادینیت کے لیے کائنات کا کوئی پہلے سے طے شدہ اختتام یا مقصد نہیں ہے اور انسانیت بقا اور موافقت کے علاوہ کسی عظیم مقصد کی طرف نہیں بڑھ رہی ہے۔ اس کے باوجود، اس سے ایک گہرا وجودی سوال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ اگر زندگی کا کوئی فطری مقصد نہیں ہے، تو پھر انسانی وجود کا محض بقا سے بڑھ کر کیا مطلب ہے؟ ارتقائی وضاحتیں یہ بتانے کی کوشش کرسکتی ہیں کہ زندگی کیسے وجود میں آئی، لیکن وہ اس بات کا جواب نہیں دیتی ہیں کہ زندگی کیوں موجود ہے یا یہ کیوں اہم ہے۔
معروضی معنی کے ماخذ کے طور پر مذہب
مذہبی عالمی نظریے بطور خاص اسلامی ورلڈ ویو معروضی معنی کے لیے ایک مربوط اور جامع بیانیہ پیش کرتا ہے۔ جو زندگی کو ایک مضبوط، قابل فہم اور واضح معنی فراہم کرتا ہے۔ اسلام میں زندگی کا مقصد خدا کے ساتھ تعلق، ابدی آخرت اور خدا کی مرضی کی تکمیل سے منسلک ہے. ایک اعلیٰ اور شخصی وجود کا ذکر کرتے ہوئے اسلامی مذہبی بیانیہ انسانی وجود کو ایک کائناتی فریم ورک کے اندر رکھتا ہے جہاں پر خالق بزرگ و برتر نے انسان کو آزادی رائے کے ساتھ ساتھ آزادی عمل کا اختیار دے کر اسے ایک امتحان میں ڈالا ہے جس سے اسے سرخ رو ہو کر نکلنا ہے اور ایک عظیم تر کائناتی حقیقت کی طرف بڑھناہے جس میں وہ اپنے خالق کی رضا کو حاصل کرتے ہوئے ابدی جنت کا مستحق ہو سکتا ہے۔
اس طرح کے بیانیے کے بغیر، جدید الحاد زندگی، انسان اور کائنات کے حتمی مقصد و معنی کے بارے میں سوالات کا جوابات پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اخلاقیات بذریعہ حکم الٰہی
یہ بات سر کی انکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے کہ تمام تر اضافی اخلاقیات کے باوجود ساری دنیا میں کچھ معروضی اخلاقی سچائیاں ہیں جو کلچر، مذہب اور جغرافیائی علاقے سے متاثر نہیں ہیں۔ ملحدین یہ بتانے میں ناکام ہیں کہ یہ معروضی سچائیاں جو اصلًا مذہب ہی کی دین ہیں، الحاد اس طرح کی معروضی سچائیوں کے لیے کیا بنیاد فراہم کرے گا؟ سیکولر انسان پرستی تو اپنے فائدے کے لیے آسانیاں ڈھونڈنے لگتی ہے۔ ساری دنیا میں جاری فساد اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ سیکولر انسان پرستی کی بنیاد پر ابھرنے والی نام نہاد سیکولر اخلاقیات کا جنازہ کتنی آسانی سے نکل جاتا ہے۔
معروضی اخلاقی سچائیوں کے لیے اخلاقی قانون دینے والے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اخلاقی سچائیاں معروضی ہوتی ہیں کیوں کہ ان کی بنیاد ایک اعلیٰ اور سب کچھ جاننے والی ہستی کی مرضی پر ہوتی ہے۔ اس طرح کے ماخذ کے بغیر، ملحدوں کے پاس یا تو نتیجہ پرستی کی اخلاقیات باقی رہتی ہے یا کائناتی اخلاقیات، جو آخر کار ناکافی ہیں۔
مثال کے طور پر، خدائی فریم ورک کے بغیر، اخلاقی قوانین صرف ارتقا کی پیداوار کہے جا سکتے ہیں جو اس بات کی وضاحت تو کرتے ہیں کہ ہمارے پاس اخلاقی جبلت ہے, لیکن یہ اس بات کی وضاحت کرنے میں ناکام ہیں اور اس کے لیے محرکات کی فراہمی میں بھی ناکام ہیں کہ ہمیں ان اخلاقیات کی پیروی کیوں کرنا چاہیے جب کہ ان پر عمل تکلیف دہ ہو یا ذاتی خواہشات کے خلاف ہو۔
محض بقا سے بڑھ کر مقصد
ملحدانہ فطرت پسندی انسانی طرز عمل کو بقا، موافقت اور افزائش نسل کے لحاظ سے بیان کر سکتی ہے، لیکن اس سے اس گہرے سوال کا جواب نہیں ملتا کہ ہم محض وجود سے آگے مقصد کیوں تلاش کرتے ہیں۔ انسان معنی کی گہری تلاش میں دوسرے جا نداروں سے کیوں مختلف ہے۔ انسان، دیگر انواع کے برعکس، مقصد کے سوالات سے کیوں نبرد آزما ہے؟ ہم ایسے مقاصد کی تلاش کیوں کرتے ہیں جو محض بقا اور افزائش نسل سے بالاتر ہوں؟ مذہبی مباحث روایتی طور پر ان سوالات کا ایک مربوط جواب پیش کرتے ہیں، جس میں کہا جاتا ہے کہ انسان ایک مقصد کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے (چاہے وہ خدا کی اطاعت کرنا ہو، روحانی ترقی حاصل کرنا ہو یا خدائی تعلیم کے مطابق اس دنیا کو چلانا ہو )۔ اس کے برعکس لادینیت اس بات کی کوئی تسلی بخش وضاحت پیش نہیں کرتی کہ کائنات ایسے وجود کیوں پیدا کرتی ہے جو بے مقصد کائنات میں مقصد کے بارے میں اتنی گہری فکر رکھتے ہیں۔
تجربہ پسندی اور فطرت پسندی کی حدود
جیسے کہ اس سے پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ جدید الحاد کی سب سے اہم بنیادوں میں سے فطرت پسندی ہے، جس کے تحت یہ مانا جاتا ہے کہ کائنات صرف فطری قوانین اور فطری قوتوں کے بل بوتے پر قائم ہے۔ سائنس کے نسبتًا معتدل بڑے حلقوں میں اب یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ فطرت پسندی کی اور تجربہ پسندی کی اپنی حدود ہیں۔ لیکن جدید ملحدین اس کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں حدود نہیں کہنا چاہیے بلکہ ابھی تجربہ پسندی اور فطرت پسندی کے اصول خام ہیں ابھی تجرباتی اعتبار سے اور ٹیکنالوجی کے پہلو سے ہمارے پاس ویسے وسائل مہیا نہیں ہیں۔ بہت جلد تجربہ پسندی اور فطرت پسندی کے اعلی ترین معیارات کے چلتے ہم کائنات کی توجیہ و تشریح کر لیں گے۔ لیکن وہ ان دو سوالوں کے جوابات دینے سے قاصر ہیں: پہلا یہ کہ جب تک کہ یہ معیارات قائم نہیں ہوتے تب تک کیا ہوگا؟ دوسرا یہ کہ نیچرلزم یہ تو بیان کر دے گا کہ ’’کس طرح‘‘ دنیا کام کرتی ہے (مثال کے طور پر، طبیعیات، حیاتیات اور کیمیا کے قوانین) لیکن ’’کیوں‘‘کے سوالات پھر بھی باقی رہیں گے۔ مزید یہ کہ گہرے سوالات جو معنی، مقصد اور حتمی اقدار سے متعلق ہیں ان کے سلسلے میں بھی جوابات کا حصول مشکل ہی رہے گا۔
مثال کے طور پر، فطرت پسندی انسانی وجود کو ارتقا کی پیداوار کے طور پر بیان کر سکتی ہے، لیکن یہ اس بات کا جواب نہیں دیتی ہے کہ انسان کیوں موجود ہے، یا زندگی کیوں موجود ہے. اس ضمن میں جدید ملحدین یہ کہتے ہیں کہ یہ سوالات یا تو فضول ہیں یا تجرباتی مشاہدے سے آگے کسی جواب کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس طرح کے لنگڑے لولے جوابات کے چلتے، یہ تخفیف پسندانہ نقطہ نظر انسان کی اس گہری خواہش کو نظر انداز کرتا ہے جو معنی کے لیے اس کے اندر پائی جاتی ہے۔
مابعد الطبیعاتی سوالات کی ناگزیریت
جدید لادینیت یا جدید الحادی تحریک اور نظریہ مذہبی مابعد الطبیعیات کو مسترد کر دیتا ہے۔ مثلًا “کچھ نہ ہونے کے بجائے کچھ کیوں ہے؟”یا “شعور کی نوعیت کیا ہے؟”جیسے سوالات بنیادی طور پر مابعد الطبیعیاتی نوعیت کے ہیں۔ جدید ملحدین یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ سوالات یا تو بے معنی ہیں یا سائنس کے ذریعے جلد یا بدیر معلوم کر لیے جائیں گے، لیکن کیا ان سوالات کے جوابات کی دریافت فطرت پسندی کے فریم ورک میں ہی ہوگی یا وہ کوئی اور فریم ورک ہوگا؟ یہ ایک دل چسپ سوال ہے جس کا کوئی جواب ملحدین کے پاس نہیں ہے۔
مذہبی مباحث اکثر ان مابعد الطبیعیاتی سوالات کے جوابات فراہم کرتے ہیں اور انھیں تخلیق، الہی مرضی اور کائناتی ترتیب کے بڑے بیانیوں میں تشکیل دیتے ہیں۔ اس کے برعکس لادینیت اکثر اس طرح کے سوالات کا سامنا کرنے پر ایک مردہ انجام کی طرف لے جاتی ہے، یا تو انھیں غیر متعلق قرار دے کر مسترد کر دیتی ہے یا ان کا جواب نہیں دیتی۔
شعور کا مسئلہ
لادینیت کے لیے ایک اور بڑا چیلنج شعور کی وضاحت کرنا ہے۔ اگرچہ عصبیاتی سائنس نے دماغ اور اس کے افعال کو سمجھنے میں بڑی پیش رفت کی ہے، لیکن “شعور کا مشکل مسئلہ” ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ مادیت پسند لادینیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ شعور صرف پیچیدہ اعصابی سرگرمی کا ضمنی نتیجہ ہے۔ نیورانس میں مخصوص کیمیائی تعامل اور خاص قسم کے برقیے پیدا ہونے سے خاص قسم کے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔لیکن یہ احساسات ہر فرد کے لیے مختلف کیوں ہوتے ہیں۔ان کے اندر موجود سبجیکٹیوٹی کی تشریح کیسے کی جائے گی، جس میں ہر فرد کے لیے ایک مختلف احساس ہوتا ہے اور محبت، خوب صورتی اور اخلاقی عکاسی کے انفرادی تجربات کو کیسے سمجھا جائے گا؟
مذہبی نقطہ نظر اکثر شعور کو ایک گہری روحانی حقیقت کے ثبوت کے طور پر دیکھتا ہے، جس میں دماغ اور روح ایک خالق کی بے مثال صناعی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ وضاحت شعور کو سمجھنے کے لیے ایک مربوط فریم ورک فراہم کرتی ہے۔
اوپر کی گفتگو میں معنی،مقصد، اخلاقیات، اخلاقیات کے محرکات، معنی اور مقصد کے لیے محرکات کے سلسلے میں تفصیل آئی۔کائنات کی تعبیر اور تشریح میں بطور خاص انسان کی انسان سے جڑے معنی، مقصد اور اخلاقیات کے سوالات کو اسلام کیسے دیکھتا ہے؟ اس کا تذکرہ ان شاء اللہ آگے آئے گا۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2024