اسلام نوعِ انسانی کی خیروفلاح كا ضامن ہے۔امن وعد ل كی تعلیم دیتاہے ، نیز فتنہ وفساد اور ظلم وجور کے سد باب کی تلقین کرتا ہے ۔ دیگرنظریات میں اس قدر واضح تعلیمات شاید نه ملیں۔
اسلام دین فطرت ہے وہ معاشرہ میں فطری حقوق کے حصول كوامن كا سبب قرار دیتا ہے جبكه فساد فی الارض دنیا وآخرت میںناکامی كا باعث ہے ۔ اسلام کا نظامِ جہاد بنی نوع انسان کے لئے فلاح وبہبود کاضامن ہے ۔ یہ نظام ظلم وعدوان ـسے معاشرہ كو بچاتا اور امن وعدل کی بحالی کے لیے راہیں ہموارکرتا ہے ۔
بعض معاندین اسلام نے انسانیت کی فلاح پر مبنی اس نظام کو طعن وتشنیع کا موضوع بنا یا ہے اور یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام کی تعلیمات خوں ریزی کی تعلیم دیتی ہیں اور دنیا میں اسلام کی اشاعت انہی انسانیت کش تعلیمات کانتیجہ ہے ، حالانکہ حقائق وشواہد اس کے برعکس ہیں ۔ اس جھوٹ کو اس قدر دھرایا گیا ہے کہ اب ایک طبقہ اسلام اور دہشت گردی کو مترادف سمجھنے لگاہے ۔
جہاد کا حقیقی مفہوم ومدعا اس دور کی تعلیم یافتہ دنیا کے لئے ناقابل فہم اور نا مانوس ساهوگیاہے۔ جہاد کا لفظ سنتے ہی چہرے بگڑنے لگتے ہیں۔
نام نهاد ترقی یافتہ قوموں کا وطیره یه ہے کہ اپنے اقتصادی و سیاسی مفادات كے لئے بندگانِ خدا پر بموںو میزائلوں کی بارش کرتے هیں۔ ڈینیل پائپسی نے بربنائے شرارت،غزوات کو جارحانہ اقدام قرار دیاهے:
’’اپنے دور اقتدار میں پیغمبر اسلام ﷺ اوسطاً سالانہ نوجنگی مہموں میں مشغول رہے یا ہر پانچ ہفتوں میں ایک جنگ کی۔ اس طرح جہاد نے ابتداء ہی سے اسلام کا تعارف کرایا اور پیغمبرِ اسلام کے جہاد کا سب سے اہم مظہر غیر مسلموں کو زیر کرنا اور ان کو ذلیل کرنا تھا۔ ‘‘۱؎
اس مقالے میں جہاد اسلامی كے بارے میں مذكوره بالا غلط فهمی كو دور كیا جائے گا:
جہاد لغوی اعتبار سے :
الجھاد وھو مصدر ھوالمشتق من الجھد بالضم ، بالفتح ۲؎
(جہاد مصدر ہے یہ جہد ( ضمہ او رفتح کے ساتھ ) سے مشتق ہے )
صاحب مفردات القرآن کے بقول : استفراغ الوسع فی مدافعۃ العدو ۳؎
( جہاد دشمن سے دفاع میں بھرپور کوشش کرنے سے عبارت ہے )
تفسیر نیشاپوری میں مرقوم ہے :
(المجاہدہ جہد سے فتح کے ساتھ اور یہ مشقت کے معنیٰ میں ہے یا ضمہ کے ساتھ طاقت کے معنیٰ میںهے اس لئے کہ یہ دشمنوں سے قتال میں بھرپور کوشش اور طاقت صرف کرنے کا نام ہے ۴
امام کسائی بدائع الصنائع تحریر کرتے ہیں :
(بہرحال جہاں تک جہاد کی لغوی تعریف کا مسئلہ ہے تو وہ یہ ہے کہ لغت میںیا تو جہاد ’’بذل الجھد ‘‘
( تمام وسعت وطاقت لگادینے ) سے عبارت ہے یاکسی کام کو انتہائی بلیغ انداز سے سرانجام دینے سے عبارت ہے ) ۔ ۵
علماء کے اقوال
علامہ بدرالدین عینی جہاد کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
( جہاد شرعاً اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے نافرمان طاقتوں کی پوری طاقت وقوت سے سرکوبی کرنے سے عبارت ہے )
امام کاسانی حنفی کے بقول
’’ عرف شرعی میں جہاد اللہ کی راہ میں جنگ کے لئے جانی ومالی اور لسانی قوتوں کو پوری طاقت سے صرف کرنے کا نام ہے‘‘۔ ۸
جہاد کی مذکورہ بالاتعریفیں اگرچہ درست ہیں اور قرآن کے فلسفہ جہاد کےمطابق هیں لیکن حقیقت جاننے كے لیے، جهاد كی جامع تر تعریف دركار هے۔وه یه هے ’’دین اسلام کی اشاعت وتبلیغ ، ترویج وسربلندی ، اعلاء کلمۃ اللہ اور رضائے اِلٰہی کے حصول کے لئے اپنی تمام لسانی ، مالی، جسمانی ، فکری اور ذہنی صلاحیتوں كا استعمال۔‘‘
جہاد کی اہمیت
حضور ﷺ نے جب اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہونچاناشروع کیا تو بتدریج یہ دعوت عام لوگوں میں پھیلتی چلی گئی ، گھٹاٹوپ اندھیرے اجالوں میں تبدیل ہونے لگے اور خدائے واحد کے پرستار تیزی سے اس پیغام حق کو قبول کرنے لگے ،کفار ومشرکین کو یہ تبدیلی گوارانہ تھی تو انہوںنے مخالفتوں او رمزاحمتوں کا طوفان کھڑا کردیا اور چراغ حق کو بجھانے کے لئے ان کی جانب سے لامتناہی کو ششوں کا سلسلہ چل پڑا ، مشرکین مکہ اہل ایمان کو ظلم وستم کا نشانہ بناتے رہے تو حضورؐ مسلمانوں کو صبر واستقامت کی تلقین کرتے کیوں کہ اللہ کی طرف سے صبرو تحمل کا درس دیا گیا تھا۔
اللہ کا ارشاد ہے:
وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَإِنَّکَ بِأَعْیُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوم ۸؎
’’اور آپ اپنے رب کی اس تجویز پر صبر سے بیٹھے رهئے کہ آپ ہماری حفاظت میں ہیں ۔ اور اٹھتے وقت اپنے رب کی تسبیح وتحمید کیجئے ‘‘۔
مشرکین مکہ کا مقصد یه تھا کہ کسی طرح اهل حق، بندگی وحدہ لاشریک سے مجتنب ہوجائیں اور اپنے آباء واجداد کے دین کےدوباره پیرو ہوجائیں هجرت كے بعد حکم جہاد نازل ہوا ۔
ارشاد ربانی ہے :
’’کفارومشرکین سے قتال کی اجازت دی گئی کیوں کہ وہ لوگ (مسلمان) مظلوم تھے ‘‘ ۔ اگر اسلام مشرکین سے جنگ کرنے كی اجازت دیتاہے تو اس کا مقصد ظلم وزیادتی کا قلع قمع کرنا اورمذہب وعقیدے کی آزادی کی بحالی ہے ۔
مولانا بدرالقادری اسلام اورامن عالم میں رقمطراز ہیں :
’’ جہاد اس لئے ضروری ہے کہ معمورۂ عالم میں عدل وانصاف الہی بنیادوں پر قائم ہوانسانوں کو خالق انسانیت کی مرضی کے مطابق حقوق ومراعات نصیب ہوں ‘‘ ۱۰؎
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ الجھاد فی الاسلام میں رقمطراز ہیں:
’’ایسی جنگ کو جوظالموںکے مقابلے میں اپنی مدافعت اور کمزوروں بے بسوں او ر مظلوموں کی حفاظت کے لئے کی جائے اللہ نے اسے خاص راہ خدا کی جنگ قراردیا ہے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ یہ جنگ بندوں کے لئے نہیں بلکہ خدا کے لئے ہے اور بندوں کے اغراض کے لئے نہیں بلکہ خاص خدا کی خوشنودی کے لئے ہے اس جنگ کو اس وقت تک جاری رہنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک خدا کے بندوں پر دست درازی اور جبرو ظلم کا سلسلہ بند نہ ہوجائے او رفساد کا نام ونشان اس طرح مٹ جائے کہ اس کے مقابلے پر جنگ کی ضرورت باقی نہ رہے ‘‘ ۱۱؎
مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب اسلام کا نظریۂ جنگ میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ جہاد حریت فکر اور آزادی حق وصداقت کو زندہ کرنا ہے دنیاوی لڑائی ا س لئے لڑی جاتی ہے کہ دنیا کا امن غارت ہوجائے او رحق وصداقت ، خیر ومعروف کو دبادیا جائے مگرجہاد اسلامی ا س لئے کیا جاتا ہے کہ دنیا میں حق پرستی وراست گوئی اور صداقت پسندی وحق کو شی پھلے اورپھولے اور کوئی طاقت حق کو روکنے والی باقی نہ رہے دنیوی لڑائی کذب وباطل او شرومنکر کے فروغ کے لئے لڑی جاتی ہے لیکن جہاد اسلامی خیر وصداقت او ر معروف وحق کے اثر ونفوذ اوراستحکام وبقا کے لئے کیا جاتا ہے ‘‘ ۱۲؎
گویا جہاد معاشرے سے ظلم و استحصال ، جورو ستم اور نا انصافی و فتنہ و فساد کو ختم کرتاهے۔ عدل و انصاف ، حریت و آزادی كا مژدہ سناتا هے۔
فضیلت جہاد
جہاد کی فضیلت کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے:
إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِہِ صَفّاً کَأَنَّہُم بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌ ۱۳؎
’’بے شک اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو ا س کی راہ میں اس طرح متحدہوکر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔
جو لوگ اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لئے اور خوشنودی رب کے لئے دشمنان اسلام کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں تو اللہ کو ان کا یہ عمل بہت پسند آتا ہے ۔
قرآن نے جہاد نہ کرنے والوں پر مجاہدین اسلام کی فضیلت کو بھی بیان کیا ہے جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت کی وجہ سے اسے بڑا درجہ دیا گیا ہے ۔
ا س کے علاوہ مختلف احادیث مبارکہ میںبھی جہاد کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے ۔
نبی ﷺ کا ارشاد ہے :
’’حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جو شخص میرے راستے میں جہاد کرتاہے میں اس کا ضامن ہوں اگر میںاس کی روح قبض کرتا ہوں تو اسے جنت کا وارث بناتا ہوں اگر واپس لوٹاتا ہوں تو ثواب او رمال غنیمت کے ساتھ لوٹاتا ہوں ‘‘۔
مجاہد فی سبیل اللہ پر انعامات خداوندی ہوتے ہیں جس کا وہ تصور نہیں کرسکتا اگر خدا کی راہ میں جان و مال کی قربانی پیش کرتا ہے تو خالق کائنات سے جنت کی ضمانت لے لیتا ہے اگر وہ غازی بن کر واپس گھر آتا ہے تو الله اسے اجر عظیم سے نوازتا ہے الغرض مجاہد دنیوی واخروی زندگی میں ہر اعتبار سے انعامات الہیہ سے بہرہ ور ہوتاہے ۔
اقسام جہاد
۱۔ جہاد بالعلم :
جہاد کی ایک قسم یه ہے کہ قرآن وسنت پر مبنی احکامات کے علم کی اشاعت كی جائے تاکہ کفر وجہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور پوری دنیا رشد وہدایت کے نورسے منور ہو۔
اللہ تعالیٰ كاارشاد ہے:
فَلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَجَاہِدْہُم بِہِ جِہَاداً کَبِیْراً ۱۵؎
’’پس آپ ان منکروں کا کہنا نہ مانیے بلکہ قرآن ہی سے ان کا مقابلہ پوری قوت کے ساتھ کیجئے ‘‘۔
قرآن رشد وہدایت کا منبع ہے وہ ذہن انسانی کو علم معرفت اور شعور وآگہی کے اجالوں سے منور کرتاہے ۔
ارشاد ہے :
وَیُخْرِجُہُم مِّنِ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ۱۶؎
’’انہیں اپنے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لیجاتا ہے ‘‘۔
جہاد بالعلم اعلیٰ درجہ کا جہاد ہے ایمان کی پختگی اور احکام خدا و رسول پر مضبوطی کے ساتھ قائم رهنے كے لیے علم كاحاصل کرنا ضروری ہے جو اشاعت دین میں کام آسکے ۔
۲۔ جہاد بالمال:
حق کی نصرت وحمایت ایمان كا تقاضا هےتاكه خدا کا دین غالب ہو اور ظلم وعدوان کاخاتمہ ہو۔ اس کیلئے مال ودولت خرچ كرنا ضروری هے ۔ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والے عند اللہ بڑی عظمت کے حامل ہیں ۔
ارشاد ربانی ہے :
الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ أَعْظَمُ دَرَجَۃً عِندَ اللّہِ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَائِزُون۱۷؎
’’جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کیا ان کے لئے اللہ کے یہاں بڑا درجہ ہے و ہی کامیاب ہیں ‘‘۔
جہاد بالمال کو بڑی اہمیت حاصل ہے تبوک کے موقع پر آپ ؐ کے ایک اعلان پر صحابہ نے اپنا مال آپؐ کے سامنے پیش کردیا ۔
۳۔ جہاد بالنفس:
یہ اپنی نفسانی خواہشات سے مسلسل او رصبر آزما جنگ ہے یہ فكر وعقیدے کی پر اگندگی کے خلاف جہادہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی پر محیط ہے ۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کیوں کہ شیطان براہِ راست انسان پر حملہ آور ہوتاہے۔ اگر نفس کا تزکیہ ہوجائے تو شیطانی وسوسوں سے بچا جاسکتاہے۔ جہاد بالمال اور جہاد بالسیف کی نوبت تو کبھی کبھی آتی ہے لیکن جہاد بالنفس ہمیشہ جاری رہتاہے تزکیہ نفس کے لئے ریاضت اور مجاہدہ کے مشکل مراحل کو عبور کرنا پڑتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ كاارشاد ہے :
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا ۔ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا ۱۸؎
( بے شک وہ شخص کامیا ب ہوگیا جس نے نفس کو پاک کرلیا او ربے شک وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے دبا دیا ۔)
۴۔ جہاد بالعمل:
جہاد بالعمل بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ عمل سے زندگی بنتی ہےجنت بھی جهنّم بھی ۔عملِ صالح، کارگہ حیات میں انسان کے لئے روشنیوں اور آسودگیوں کا سبب بنتاہے ۔بے عمل آدمی اعتبار اور اعتماد کی دولت سے محروم رہتاہے لہٰذا اسلامی معاشرت وتہذیب میں عمل پر زور دیا گیا ہے۔ عمل کے بغیر زندگی جمود کا شکار ہوجاتی ہے اگر قرآن کی تعلیمات پر عمل کیا جائے توآج پھر اهلِ ایمان دنیا کی امامت کے منصب جلیلہ پر فائز ہوسكتے هیں ۔
دہشت گردی
عصر حاضر میں دہشت گردی کا لفظ عام ہوچکا ہے لیکن اس كے صحیح معنیٰ متعین كرنے كی ضرورت ہے۔
دہشت کے لغوی معنیٰ خوف ، ڈراو رخطرہ کے ہیں ۔
دہشت گردی كو ہندی میں آتنک واد،انگریزی میں( (Terrorism) اور عربی میں ارھابیۃ کہتے ہیں ۔۱۹؎
دہشت گردی کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں :
۱۔ تشدد کا ہر وہ عمل جس کے ذریعہ کسی فرد یا جماعت کو کسی جواز کے بغیر خوف وہراس میں مبتلا کیا جائے یا اس کی جان ومال عزت وآبرو ، دین اور عقیدے کو خطرے میں ڈالا جائے دہشت گردی ہے ۔ خواہ یہ عمل فرد کی طرف سے ہو یا جماعت کی طرف سے ۔
۲۔ ہر ایسی حرکت جس سے سماج یا سماج کے کسی طبقے میں بے چینی اور خوف وہراس پید اہو دہشت گردی کہلائے گی۔
۳۔ مولانا عبدالحمید نعمانی کے بقول دہشت گردی بے قصور اور معصوم افراد کو ظلم وستم کا نشانہ بنانے کا نام ہے جس سے وہ ہراساں او رخوف زدہ ہوجائیں ایسا عمل،فرد قوم او رجماعت کی طرف سے بھی ہوتا ہے او رادارہ اور ملک کی طر ف سے بھی ۔
۴۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے حوالے سے :
” A systematic use of terror or unpredictable violence against Government, Public or individuals to attain a political objective”.
’’ دہشت گردی سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر دہشت یا تشدد کا منظم استعمال ہے خواہ وہ حکومتوں کے خلاف ہو ، عوام کے خلاف ہو یا افراد کے خلاف ہو‘‘۔
بهرحال دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف نہیں جو سب کو قبول ہو۔
دہشت گردی کی مختلف قسمیں ہیں :
۱۔ سیاسی ۲۔ فکری
۳۔ مذہبی ۴۔ ثقافتی
۵۔سرکاری ۶۔ انفرادی
دہشت گردی کے اسباب :
دہشت گردی کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں ۔
۱۔ تنگ نظری اور عدم رواداری
۲۔ اپنے مذہب او رتہذیب کو زبردستی مُسلّط کرنے کی کوشش
۳۔ حق وانصاف سے انحراف
۴۔ مذہبی تعلیمات کی غلط تفہیم
۵۔ احساس محرومی
دہشت گردی کے ازالہ کے لئے واحد صورت اسلامی تعلیمات پر عمل ہے۔اسلام كی اهم تعلیمات میں عدل وانصاف کا قیام اور انسانی حقوق کی حفاظت وپاسداری شامل هے۔ دہشت گردی کے پیدا ہونے کا ایک سبب حقوق کی پامالی ہے اس کا تدارک بھی حقوق کی ادائیگی سے ہی ہوگا ۔
جہاد اور دہشت گردی كا فرق :
آج مغربی میڈیا نے جہاد او ردہشت گردی کو خلط ملط کردیا ہے اور عوام الناس كوگمراه کیا ہے جب عوام کے سامنے لفظ جہاد بولا جاتا ہے تو ذہن میں دہشت گردی کی تصویر آجاتی ہے کیونکہ ان کی ذہن سازی ایسی ہی كی گئی ہے ۔ حالاں کہ دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے بقول شاہ ولی اللہ ؒ
’’ جہاد انسانی جان کے احترام ، امن وامان کے قیام ، ظالم کی سرکوبی او رحق کی حمایت وحفاظت کیلئے ہے ‘‘ ۲۰؎
اس كے برعكس سب جانتے هیں کہ دہشت گردی فتنہ وفسادكا نام هے اوربے قصور انسانوں کے قتل کا مجرمانہ فعل ہے ۔
اسلام میں امن وسلامتی ہے اسلام اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں هوسکتے جہاں اسلام ہوگا وہاں دہشت گردی نہ ہوگی اور جہاں دہشت گردی ہو گی وہاں اسلام نہیں ہوگا۔
حوالہ وحواشی
۱۔ ابن منظور لسان عرب ، ص ۱۳۳ (بیروت)
۲۔ مفردات القرآن ، امام راغب اصفہانی ، ص ۱۰۸ ( بیروت )
۳۔ تفسیر نیشاپوری ، ج۱۱، ص ۱۲۶
۴۔ بدائع الصنائع ، امام کا سامی ، ج۷، ص ۹۷
۵۔ بدرالدین عینی ، عمدۃ القاری ،ج ۶، ص ۵۲۵
۷۔ ابوبکر المرغینان ، فتح القدیر ، ج ۴، ص ۲۷۷
۷۔ بدائع الصنائع ، ج ۷، ص ۹۷
۸۔ سورۂ الطور: ۴۸ ۹۔ سورۂ الحج: ۳۹
۱۰۔ بدرالقادری ، اسلام او رابن عالم ، ص ۱۱۸، ۱۱۹
۱۱۔ ابوالاعلیٰ مودودی ، الجھاد فی الاسلام ، ص ۴۰۰
۱۲۔ مولانا ابوالکلام آزاد ، اسلام کا نظریہ جنگ ، ص ۹
۱۳۔ سورۂ الصف: ۴ ۱۴۔ ترمذی ، باب ماجاء فی فضل الجہاد
۱۵۔ سورۂ الفرقان: ۱۶۔ سورۂ المائدہ: ۵
۱۷۔ سورۂ التوبۃ: ۲۰ ۱۸۔ سورۂ الشمس: ۹،۱۰
۱۹۔ فرھنگ تلفظ ، شان الحق حقی ، ص ۵۳۵
۲۰۔ شاہ ولی اللہ ،حجۃ اللہ البالغۃ ، ص ۶
مشمولہ: شمارہ اگست 2019