اسکولوں میں دینی تعلیم کی صورتِ حال

مولانا انعام اللہ فلاحی

قوموں کی امامت و قیادت اور ان کی ترقی و تنزلی میں تعلیم و تربیت کا اہم رول ہے۔ اگر کوئی قوم منصبِ امامت پر فائز ہونا چاہتی ہے تو اسے تعلیم کے میدان میں بھی امامت کا درجہ حاصل کرنا ہوگا۔ سائنس و ٹکنالوجی اور عصری علوم سے آگہی وہ اسلحہ ہے جس سے محرومی کے ساتھ دوسری اقوام کا مقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔اس کو چھوڑ کر ترقی کے زینوں تک رسائی نہیں ہوسکتی ۔ اس سے تہی دست ہوکر ارتقا پزیر دنیا میں تسخیر کائنات کا کام نہیں کیاجاسکتااور نہ خلق خدا کی خدمت اور نفع رسائی کے خزانوں تک پہنچا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح دینی علوم میں گہرائی اور بصیرت بھی ضروری ہے۔ اس لیے کہ زندگانی عقیدہ و ایمان سے ہی عبارت ہے۔ یہی ہماری اساس ہے ۔  یہی ہماری سوچ اور تہذیب و تمدن کا مرکز بھی ہے۔ قرآن مجید جو علوم کا خزانہ اور امامت کی کنجی ہے، اس کی تعلیمات سے بے بہرہ رہ کرترقی کے منازل طے نہیں کیے جاسکتے ۔ اس کے بغیر کہیں ترقی دکھائی دیتی ہے تو وہ سراب ہے۔ وہ چھوٹے نگوں کی جادوگری ہے جس کے اندر تعفن،گندگی اورانسانیت کی ہلاکت کا سامان ہے۔تعلیم ایک اکائی ہے۔ اسے دینی اور دنیاوی خانوں میں تقسیم نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن بدقسمتی سے تعلیم کے دو دھارے بنادیے گئے:دینی اور دنیاوی۔ پھر انہیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیاگیاہے۔انہیں ایک دوسرے کا ضد سمجھ لیاگیاہے۔دینی درس گاہوں کا نصاب تعلیم اور وہاں کا ماحول اس طرح بنایاگیا کہ عصری علوم کا وہاں گزر ہی نہ ہوسکے۔بعض لوگوںنے تو یہاں تک غلو کیاکہ عصری علوم کو تقوی کے منافی سمجھنے لگے اورعصری درس گاہوں میں اس تصور کے ساتھ دینی تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کی گئی کہ یہ تنزلی اور بچھڑے پن کی علامت ہے۔ اسکولوں کا نصاب اور نظام اس طرح ترتیب دیاگیا کہ کہیں سے اس کو اسلام اور اسلامی اقدار کی ہواتک نہ لگے۔

دینی درس گاہوں میں عصری علوم کی شمولیت پربڑی بحثیں ہوئی ہیں۔ سمپوزیم ،سیمینار اور مکالمے ہوئے ہیں۔ کتابیں اور مضامین لکھے گئے ہیں۔ مختلف سطح کے سروے بھی ہوئے ہیں۔ ہماری حکومت نے بھی بعض اقدامات کیے ہیں، جن کے نتیجے میں مدارس اسلامیہ میں عصری علوم کے لیے راہیںہموار ہوئی ہیں۔مسلم تنظیموں، انجمنوں اور این جی اوز نے بھی مدارس سے نکلنے والے طلبہ کو عصری درس گاہوں کی راہ دکھانے کے لیے کئی ادارے کھولے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے بھی دینی مدارس کے علماء کے لیے برج کورس(BRIDGE COURSE)شروع کرکے عصری علوم سے ان کے لیے استفادے کی راہ ہموار کی ہے۔لیکن اسکولوں میں ’دینی تعلیم ‘کا مسئلہ اس شدت کے ساتھ موضوع بحث نہیں بن سکا، جس طرح سائنسی اور عصری علوم کا مسئلہ دینی مدارس کے لیے موضوع بحث بنا۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق دینی مدارس و مکاتب میں پڑھنے والے مسلم بچوں کی تعداد %۴ ہے۔اس میں مکاتب بھی شامل ہیں۔ اس طرح صرف مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد دو فیصد سے زیادہ نہ ہوگی۔ تاہم اگر تسلیم کرلیاجائے کہ %۴ طلبہ و طالبات مدارس میں پڑھتے ہیں ،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ %۹۶ فیصد مسلم بچے اسکولوں اور عصری درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں،جہاں دینی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں ہے ۔ اس طرح مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد دینی تعلیم سے محروم ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس سے بڑا سانحہ اور کیاہوگا کہ وہ اپنے دین و ایمان سے بے بہرہ رہ جائے۔وہ اپنے مقصد زندگی اور منزل حیات کو بھول جائے۔ یہ ملت اسلامیہ کے لیے سب سے بڑا خسارہ ہے۔ اس لیے اس مسئلے کو بھی موضوع بحث بننا چاہیے اور اس کمی کی تلافی کے لیے راہیں تجویز کی جانی چاہیے۔

اسکولی طلبہ کی دینی صورت حال

اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کی دینی معلومات ناگفتہ بہ ہے ۔ ان کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جسے اسلام، اسلامی عقائد اور اس کے تقاضوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم ہے۔ انہیں صرف اتنی بات معلوم ہے کہ وہ مسلمان ہیں،دوسری اقوام کی طرح وہ بھی ایک قوم ہیں ،جس کے دوسروں سے الگ کچھ رسوم و رواج ہیںجو شادی بیاہ اور خوشی و غم کے مواقع پر اختیار کرلیے جاتے ہیں۔اس بدتر صورت حال کا اندازہ کرنے کے لیے بعض جائزے اور سروے کا ذکر فائدے سے خالی نہیں ہوگا:

٭حیدرآباد سے مسلمانوں کی ایک تاریخ وابستہ ہے۔ اسے مسلم تہذیب و تمدن کے گہوارہ کے طور پر جانا جاتاہے۔ اس کی گواہی وہاں کی تاریخی عمارتیں، وہاں کی گلیاں،سڑکیں اور محلے بھی دیتے ہیں۔ پردے کا عام چلن ہے۔ گھروں میں دین کے چرچے ہیں۔ مسلمانوں کے زیر اہتمام کالجز اور اسکولس ہیں۔ وہاںمسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں کا ایک سروے کیاگیاتو معلوم ہوا کہ %۹ طلبہ اور طالبات قرآن مجید ناظرہ پڑھنے سے بھی محروم ہیں۔۱؎

٭صوبہ مہاراشٹر ا کے شہر ممبئی کو بڑا مقام حاصل ہے۔ تجارت وکاروبار کا مرکز ہونے کی وجہ سے پورے ملک سے افراد اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں مسلمانوں کی پوزیشن بھی اچھی ہے۔ ان کے اپنے کالجز اور اسکولس ہیں۔ ایک ادارے نے ہائی اسکول کی سطح کے مسلم طلبہ کی دینی معلومات کا سروے کیا توانکشاف ہوا کہ جدید علوم اور معلومات میں ان طلبہ اور طالبات کی سطح اچھی ہے۔ ان میں انہوں نے امتیازی نمبرات حاصل کیے ، لیکن اسلامیات کی بنیادی معلومات میں انہوں نے صرف%۱۹نمبر ملے۔۲؎٭’ہیومن ویلفیر فائونڈیشن دہلی‘ خدمت خلق کا معروف ادارہ ہے۔ اس کی کثیر الجہات سرگرمیوں میں سے طلبہ کو اسکالرشپ دینا بھی شامل ہے۔ سال رواں۱۶۔۲۰۱۵ء کی اسکالرشپ کے فیصلے کے لیے سلیم اللہ خاں صاحب نے انٹرویوپینل میں راقم کا نام بھی رکھاتھا۔ میرے گروپ میں گریجویشن کے وہ طلبہ اور طالبات تھے جو کسی LANGUAGE میں B.A کررہے ہیں۔ تقریباً ۵۵ طلبہ اور طالبات کا انٹرویو لیاگیا۔ فائونڈیشن نے سوالات کا جو پروفارما تیار کیاتھا اس کے ساتھ ساتھ ان کی دینی معلومات کی سطح جانچنے کے لیے بھی سوالات کیے گئے۔ تین طالبات ایسی تھیں جو ٹھیک سے کلمہ بھی نہیں سناسکیں۔ کئی طلبہ اور طالبات ناظرہ قرآن پڑھنا نہیں جانتے تھے۔  مدارس اسلامیہ کے طلبہ کو چھوڑ کر باقی کی اکثریت کو اسلام اور مسلمانوں کا معنی اور مطلب تک معلوم نہیں تھا۔ مذکورہ جائزے اور مشاہدے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کی ایک بڑی تعداد مبادیاتِ اسلام سے ناواقف ہے۔

اسکولوں کی نوعیت

اسکولوں کو تین گروپوںمین تقسیم کیاجاسکتاہے۔ پہلا گروپ ان اسکولوں کا ہے جو حکومت کے زیر نگرانی چلتے ہیں۔ ان اسکولوں میں دینی تعلیم کی توقع کرنا عبث ہے۔ غریب مسلمانوں کی اکثریت انہی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔دوسرا گروپ ان اسکولوں کا ہے جو پرائیویٹ ہیں اور معیاری قسم کے ہیں۔ ان میں بڑے سرمایہ داروں اور سیاست میںسرگرم لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کا نظم و نسق انتہائی معیاری ہوتاہے اور فیس بھی بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ اس طرح کے اسکولوں میں مسلم طلبہ کی تعداد برائے نام ہی ہوتی ہے۔

تیسرا گروپ ان پرائیویٹ اسکولوں کا ہے جو متوسط درجے کے ہیں۔ اقتصادی طور پر متوسط مسلمانوں کے بیش تربچے انہی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان اسکولوں کو زیادہ تر کرسچن اور ہندو مذہب کے ماننے والے افراد اور تنظیمیں چلاتی ہیں۔ ان کے اپنے مقاصد ہیں، جن کے مطابق ان کا نصاب اور نصابی سرگرمیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ اس لیے ان اسکولوں میں دینی تعلیم کی امید کرنا بے جا ہے۔حکومت کی امداد پر چلنے والے مسلم اقلیتی اداروں میں طلبہ کے سرپرستوں کو اگر اعتراض نہ ہوتو دینی تعلیم کا نظم کیاجاسکتاہے۔ عام طور پر یہ غلط فہمی ہے کہ حکومت سے امداد یافتہ اداروں میں سیکولر تعلیم ہی دی جاسکتی ہے اور دینی تعلیم کی ممانعت ہے۔اس سلسلے میں دستور ہند میں یہ دفعات موجود ہیں۔

دفعہ(۱)۳۰- تمام اقلیتوں کو چاہے وہ مذہب کی بنیاد پر ہوں، یا زبان کی بنیاد پر، اپنی پسند کے تعلیمی اداروں کو قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا۔

دفعہ(۲)۳۰-حکومت امداد دیتے وقت کسی تعلیمی ادارے کے خلاف اس بنیاد پر کہ وہ ادارہ مذہب یا زبان کی بنا پر کسی اقلیت کے زیرِانتظام ہے، امتیاز نہیں برتے گی۔

دفعہ(۱)۲۸-حکومت کی پوری امداد سے چلنے والا کوئی تعلیمی ادارہ مذہبی تعلیم نہیں دے گا۔

دفعہ(۲)۲۸-مذکورہ بالا فقرہ میں دی ہوئی بات کا اطلاق حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اس ادارے پر نہیں ہوگا جسے ایسے وقف کے تحت قائم کیاگیا ہو جواس ادارے میں مذہبی تعلیم دینا لازمی سمجھتا ہو۔

صورتِ واقعہ یہ ہے کہ تمام مسلم کالجز(امداد یافتہ) اوردوسرے کالجوں میںصرف اتنا فرق ہے کہ یہاں اردو زبان پڑھائی جاتی ہے۔ غیر امداد یافتہ یا پرائیویٹ مسلم اداروں کی اکثریت ایسی ہے جنہیں ملی و دینی جذبہ سے اسکول چلانے کے بجائے ایک نفع بخش کاروبار سمجھ کر چلایا جارہاہے۔ اگر چہ بعض اداروں اور افراد کے اندر قومی جذبہ پایاجاتاہے، تاہم ان کے یہاں بھی دینی تعلیم کا کوئی نظم نہیں ہوتاہے۔

ان پرائیویٹ اسکولوں میں وہ اسکول جو مسلم اکثریتی علاقوں میں ہیں ، ان میں طلبہ کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے اپنی ایک الگ خصوصیت کے طور پر دینیا ت کی تعلیم کو بھی اپنے نصاب میں شامل کیا جاتا ہے۔وہاں دینیات نصاب میں درج ہوتاہے اور پڑھایا بھی جاتا ہے،لیکن رزلٹ میں اس کو شمار نہیں کیا جاتاہے۔ اس لیے طلبہ اور سرپرست اس مضمون کو اہمیت نہیں دیتے۔ طلبہ بددلی کے ساتھ اس کی کلاس میں شریک ہوتے ہیں ۔ پڑھانے والے اساتذہ بھی عام طور پر غیر تربیت یافتہ اور سخت مزاج ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس مضمون سے بے رغبتی کی فضا بنی رہتی ہے۔

پچھلے دس سالوں میں بعض گروپس نے اسکولوں میں دینی تعلیم کا اچھا تجربہ کیاہے۔ وہ شعوری طور پر طلبہ کی دینی تربیت کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے تربیت یافتہ اور فنی طور پر ماہر اساتذہ کی خدمات حاصل کی ہیں ، لیکن اس طرح کے اسکولوں کی تعداد بہت کم اور ناقابل ذکر ہے۔

عصری اداروں اور اسکولوں میں دینی تعلیم کی یہ صورت حال  ریسرچ اور ڈاٹا اکٹھا کرنے کی محتاج ہے۔یہ ایک مستحسن قدم ہوگا اگر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ میںاسے طلبہ کے ریسرچ کا موضوع بنایاجائے ۔اس سے توقع ہے بہت اہم حقائق ہمارے سامنے آسکتے ہیں اور ا س کے علاج کی بہتر تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔

اسکولوں میں دینی تعلیم کی کوششیں

مسلمان بچوں کی %۹۶ تعداد اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ ان کی دینی تعلیم کے لیے جیسی کوشش ہونی چاہیے تھی ،حالات کی سنگینی کی وجہ سے نہیں ہوسکی ،تاہم علمائے کرام اور بہی خواہان ملت ، جمعیتوں اور جماعتوں کی طرف سے جو کوششیں ہوئی ہیں ان کا اجمالاً ذکر ذیل میں کیاجاتاہے۔ ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد مسلمان بہت ہی خونچکاں حالات سے گزرے۔ کتنے ایسے علاقے ہیں جہاں کی آبادی کی آبادی دین اسلام سے دور ہوگئی۔ خوف و ہراس کے ماحول میں جن مقامات پر مسلمان کم رہ گئے تھے ان کے لیے اپنا ایمان بچانا مشکل ہوگیاتھا۔ دھیرے دھیرے حالات بہتر ہوئے ۔ ہمارے علماء اور دانشوران نے اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعلیم کی فکر کی۔ اس کی ایک شکل اترپردیش میں یہ اختیار کی گئی کہ مسلمان دینی تعلیم کا انتظام خود کریں۔ اپنے کھانے میں سے روزانہ کچھ حصہ بچاکر اپنے دین و ایمان کی حفاظت کا انتظام کریں۔ چنانچہ چٹکی کا نظام شروع کیاگیا۔ راشن سے صبح و شام جمع کی ہوئی چٹکی ہفتہ میں مدرسہ میں چلی جاتی تھی۔ اس سے مدرسین کی تنخواہ کا نظم ہوتاتھا۔ اس نظام کو دینی تعلیمی کونسل اترپردیش نے عام کیا جس کے نتیجے میں گائوں گائوں بچوں کے مکاتب قائم ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۹ ہزار مکاتب ۴۶ اضلاع میں کام کرنے لگے، جس میں سات  لاکھ سے زائد طلبہ اور طالبات زیر تعلیم تھے۔۱؎ ہر مکتب کا الحاق ضلع کی انجمن تعلیمات دین سے ہوتاتھا اور انجمن کا الحاق دینی تعلیمی کونسل سے ہوتاتھا۔ اب ان مکاتب کی صورت حال بہت ہی خراب ہے۔انگلش میڈیم اسکولوں کا چلن جب سے عام ہواہے، اس سیلاب میں بہت سارے مکاتب اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔بہت سارے مکاتب بند ہوگئے ہیں۔جو باقی رہے ان میں طلبہ کی تعداد بہت کم ہوگئی ۔ کتنے ہی مکاتب ہیں جو انگلش میڈیم اسکول میںتبدیل ہوگئے ہیں۔

دوسری کوشش مراسلاتی کورسز کی ہے، دینی تعلیم کے لیے مراسلاتی کورس کا تجربہ کیاگیا۔۱۹۴۴ء میں جامعہ دینیات اردو کے نام سے ایک ادارہ سہارن پور میں قائم کیاگیا تھا جو اس وقت ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ کے طلبہ کے درمیان بہت مقبول تھا۔۳؎لیکن یہ ادارہ اپنی خدمات جاری نہیں رکھ سکا۔مراسلاتی کورس کا نہایت ہی کامیاب تجربہ جامعہ اسلامیات بھوپال کا ہے۔ اس کی اپنی ویب سائٹ  (www.jamiaislamyat.com)بھی ہے ۔ وہ دینی تعلیم کا رجسٹرڈ ادارہ ہے۔ اس کے تین سو پچہتر(۳۷۵) سنٹرس ملک کے طول وعرض میں ہیں۔ چھ سالہ کورس کو تین مرحلوں میں تقسیم کیاگیاہے:

۱۔اسلامیات ابتدائیہ ۔ اول ، دوم (دوسالہ)

۲۔اسلامیات ثانویہ ۔اول ، دوم (دو سالہ)

۳۔اسلامیات عالیہ۔اول ، دوم (دو سالہ)

وہاں سے کامیاب طلبہ اور طالبات کو اسناد دی جاتی ہیں اور ملکی سطح پر امتیازی نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کو توصیفی اسناد اور نقد انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔صوبہ کرناٹک کی سطح پر بورڈ آف اسلامک ایجوکیشن کرناٹک نے پانچ سالہ فاصلاتی کورس شروع کیاہے جس میں پندرہ ہزار پانچ سو (۵۰۰،۱۵) طلبہ اور طالبات زیر تعلیم ہیں ۔ اس میں طلبہ کے علاوہ خانہ دار خواتین اور پروفیشنل افراد بھی شریک ہوتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ برادران وطن بھی اس کو رس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔بورڈ کے تین سو سنٹرس اس کام میں تعاون کرتے ہیں۔’’بورڈ آف اسلامک ایجوکیشن کرناٹک ‘‘سنٹرس آرگنائزرس کے ٹرینگ کیمپ بھی منعقد کرتاہے۔پچھلے چند سالوں میں ملک کے الگ الگ صوبوں میں دینی تعلیم کے اور کئی مراسلاتی کورسیز کا آغاز ہواہے جو اپنی بساط بھر کام کررہے ہیں۔

تیسری کوشش صباحی اور شبینہ جز وقتی مکاتب کی شروع ہوئی۔ اس کا آغاز جنوب کی ریاستوں آندھرا، مہاراشٹرااور کرناٹک وغیرہ سے ہوا۔ مساجد، خانقاہوں اور گھروں پر جزوقتی مکاتب شروع ہوئے۔جزوقتی مکتب ان کو کہتے ہیں جہاں عصری درس گاہوں کے طلبہ ایک یا دو گھنٹہ دینی تعلیم کے لیے اکٹھاہوتے ہیں اور قرآن و دینیات کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس وقت جماعت اسلامی ہند کے زیر انتظام تقریبا۱۵۰۰ جزوقتی مکاتب چل رہے ہیں۔ جماعت کے شعبہ تعلیم نے ان کے لیے نصاب بھی مرتب کیاہے۔ اساتذہ کی تربیت کے لیے ملکی سطح پر سات روزہ              ریورس پرنسس کی تیاری کے لیے کیمپ منعقد کیاجاتاہے۔ اب ان ریورس پرنسس کے ذریعہ حلقوں کی سطح پر اساتذہ کی تربیت کا آغاز ہوچکاہے۔

جزوقتی مکاتب کے لیے ادارئہ دینیات مہاراشٹرا کی خدمات قابل قدر ہیں۔ اس ادارے نے ان مکاتب کے لیے نہ صرف نصاب اور کتاب تیار کیاہے، بلکہ ڈریس اور بیگ بھی تیار کیاہے۔ بعض مقامات پر ان مکاتب کی نگرانی کے لیے ذمہ داران کا بھی تقرر کیاہے۔ اس کی علاوہ جمعیۃ العلماء ہند، جمعیت اہل حدیث دیگر جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے جز وقتی مکاتب کی شروعات ہوئی ہے۔ دینیات کی سنڈے کلاسیز /ویکینڈ کلاسیز کا آغاز خلیجی ممالک میں ہندوستانی اور پاکستانی شہریوں نے کیاہے۔ ان میں سے بعض ملکوں میں انہوں نے اپنا نصاب تعلیم اور نظام تعلیم بھی مرتب کیا۔

صوبہ کیرلا کے ایک گروپ نے غیر مسلم طلبہ کے لیے بھی اخلاقی تعلیم  (MORAL VALUE) کا نظم کیا ہے۔وہ جزوقتی اسکول چلاتا ہے۔بعض مقامات پر طلبہ اور طالبات کے ساتھ سرپرستوں کی کلاسز بھی چلائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (SIO)کی جانب سے ہر سال گرما کی تعطیل میں ان کی یونٹس کی سطح پر ’’سمر اسلامک کلاسیز‘‘ کا اہتمام کیاجاتاہے، جس میں طلبہ اور طالبات بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ اس کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ ایک ماہ اور کم سے کم ایک ہفتہ ہوتاہے۔اس ایک ماہ کے دوران طلبہ اور طالبات کو اسلام کے بنیادی عقائد، عبادات،سیرت اور اسلامی تاریخ کی ابتدائی باتیں’’اسلام ہم سے کیا چاہتاہے‘‘ اور ’’مقصد زندگی‘‘ سے انہیں روشناس کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جزوقتی مکاتب کی حالت

اسکولی بچوں کے لیے دینی تعلیم کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں، ان میں جزوقتی مکاتب کا بھی بڑا حصہ ہے۔ ان کی اہمیت اس اعتبارسے زیادہ ہے کہ ان کے ذریعہ دینی تعلیم کے امکانات بہت روشن ہیں۔ ہماری مساجد کی وجہ سے بغیر کسی انفراسٹرکچر کے یہ کام آسانی سے ہورہاہے۔ ان کو مفید اور موثر بنانے کے لیے ان کی موجودہ صورت حال اور مسائل کو معلوم کرنا ضروری ہے۔ ذیل میں ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں۔۱۔ان جزوقتی مکاتب کی تعداد مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ اس سے پہلے ذکر آچکا ہے کہ مسلمان طلبہ کی %۹۶ تعداد عصری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ اس تناسب میں دیکھا جائے تو جزوقتی مکاتب کی تعداد بہت کم ہے۔اس کی بڑی وجہ سرپرستوں کا دینی تعلیم سے خود ناواقف ہونا ہے اور بچوں کے لیے دینی تعلیم کی اہمیت و ضرورت سے غافل ہونا ہے۔

۲۔ ان مکاتب میں طریقۂ تعلیم قدیم اور انفرادی ہے۔ ایک ایک بچے کو بلاکر اس کا سبق سنا جاتا ہے، اس کی غلطیوں کی تصحیح کی جاتی ہے۔ پھر سبق دیاجاتاہے۔ اس طرح پڑھانے میں کم از کم ایک طالب علم کے لیے پانچ(۵) سے دس(۱۰) منٹ چاہیے۔طلبہ صرف ایک دو گھنٹے کے لیے آتے ہیں ایسی صورت حال میں چند بچوں کا ہی سبق ہوسکتاہے۔ جب کہ جدید طریقہ تعلیم اور وسائل کو استعمال کرکے تھوڑے وقت میںطلبہ کی بڑی تعداد کو بہتر اسلوب میں پڑھایا جاسکتاہے۔

۳۔ کلاس میں طلبہ کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک استاد کے لیے۵۰ سے سو بچوں کو ایک ڈیڑھ گھنٹے میں پڑھانا ممکن نہیں ہوتاہے۔ نتیجۃً کچھ ہی طلبہ کی ٹھیک سے تعلیم ہوپاتی ہے۔

۴۔اساتذہ کی علمی و فکری اور فنی تربیت کا کوئی نظام نہیں ہے۔ ہر شخص اپنے استاد سے جس طرح تعلیم حاصل کی ہوتی ہے اسی کی تقلید کرکے بچوں کو تعلیم دیتاہے، اس کی غلطیوں اور کم زوریوںکی نشان دہی کا کوئی نظم نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ بچوں کی نفسیات سے بڑی حد تک ناواقف افراد ہی یہ کام انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ مارپیٹ کا بھی ماحول ان مکاتب میں دیکھاگیاہے۔

۵۔اساتذہ کی رہ نمائی اور دست گیری کا کوئی اہتمام انتظامیہ اور مسجد کمیٹی کی طرف سے نہیں ہوتاہے۔۶۔جزوقتی مکاتب کے ذمہ داران اور انتظامیہ کے افراد اس فیلڈ سے عموما ناواقف ہوتے ہیں۔ نظم و نسق اور ادارے کی تنظیم کی ضروریات کی تکمیل سے نابلد ہوتے ہیں۔ان کی رہ نمائی اور تربیت کا بھی کوئی نظم نہیں ہوتاہے۔

۷۔ناظرہ قرآن خوانی کے اس پورے مراحل میں قرآن فہمی یا اس کے مضامین سے واقفیت کا کوئی اہتمام نہیں ہوتاہے۔ اس دوران قرآن مجید کا تعارف، اس کے قصص کا تعارف اور اس سے ملنے والا سبق لکچرس اور سوال و جواب کی شکل میں ہی سہی واقف کرانا چاہیے تاکہ طلبہ کو یہ معلوم ہوسکے کہ اس کتاب میں کس طرح کی باتیں ہیں ۔ کتاب کا اصل مقصود کیاہے اور ہماری زندگی میں کتاب کا مقام کیاہے؟یہ کتاب ہم سے کیا مطالبہ کرتی ہے؟

کرنے کے کام

)۱(٭دینی تعلیم کی اہمیت اور افادیت سے عوام کو آگاہ کیاجائے۔ اس سے محرومی کے برے نتائج سے واقف کرایاجائے۔ اس کے لیے ائمہ مساجد کو آمادہ کیاجائے کہ جمعہ کے خطبات میں دینی تعلیم کی اہمیت کو موضوع بنائیں۔ جز وقتی مکاتب کے سالانہ جلسے اور تعلیمی مظاہرے کا نظم ہونا چاہیے۔ سرپرستوں کی خصوصی میٹنگوں میں بھی اس کی اہمیت و افادیت واضح کی جاسکتی ہے۔ فولڈرس، چارٹس، پوسٹرس،ہینڈبلس اور کتابچوں کی اشاعت کے ذریعہ بھی اس کی اہمیت واضح کی جاسکتی ہے۔

٭جزوقتی مکاتب کے نظم و نسق کو بہتر بنانے، معیاری تدریس اور وسائل کی فراہمی کے لیے انتظامیہ کے ممبران کی تربیت کا نظم ہونا چاہیے۔

٭اساتذہ کی فنی اور فکری تربیت کا نظم ہونا چاہیے۔ فن تعلیم، طریقۂ تعلیم ، بچوں کی نفسیات، انفرادی کے بجائے اجتماعی تدریس کے فوائد، کثیر الجماعتی تدریس کا طریقہ،معاون وسائل کا استعمال بطورخاص بلیک بورڈ، تعلیم میں ترغیب اور سزا کا مقام جیسے موضوعات سے ان کو واقف کرایاجائے ۔ ٭جزوقتی مکاتب کا نصاب ناظرہ قرآن، دینیات ، احادیث اور دعا مع ترجمہ پرمشتمل ہونا چاہیے، جس میں قرآن مجید ناظرہ ختم کرنے کا دورانیہ بھی طے ہونا چاہیے۔٭صوبائی سطح پر ان مکاتب کاجائزہ  لینے اور مشورے دینے کے لیے ایک ذمہ دار کا تقرر بھی ہونا چاہیے۔(۲)٭فاصلاتی دینی کورسز کے نظام کو بھی عام کیاجائے۔ اسکولی طلبہ میں اس کا عمومی تعارف ہو۔ ائمہ مساجد سے اس کاتعارف کرنے اور عام کرنے میں مدد لی جائے۔بہتر ہوگا کہ اس کو انگریزی ،ہندی اور علاقائی زبانوں میں چلایا جائے۔

حوالے

)۱(فن تعلیم و تربیت ۔حصہ دوم:۲۷۰

)۲(فن تعلیم و تربیت۔ حصہ دوم:۲۷۱

)۳(ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم۔ڈاکٹر سلامت اللہ:۱۸۸،۱۸۹

)۴(ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم۔ڈاکٹر سلامت اللہ:۱۸۸،۱۸۹

مشمولہ: شمارہ جولائی 2017

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau