ماحولیات کا تحفظ اسلام کی نظر میں

اس وقت پوری دنیا کے لئے ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ سنگین نوعیت اختیار کرگیا ہے اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ انسان نے زندگی کے مختلف شعبوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کی بدولت ترقی کی دوڑ میں ماحولیات کو نظرانداز کردیا ہے اور تعیش پسندی میں انہماک، مال اور منافع کو کسی بھی طریقے سے کمانے اور پیداوار کو غیرفطری طورپر تیزرفتاری سے بڑھانے کی آرزو اور ذاتی خواہشات کو معاشرہ کے مفاد پر اور جلدی حاصل ہونے والے فوائد کو دیرپا فوائد پر ترجیح دینا، اس کا شیوہ بن گیا ہے۔ جس کی بنا پر ہوا، پانی اور زمین کی طبعی ، کیمیائی اور حیاتیاتی خصوصیات میں ناپسندیدہ اور نامناسب تبدیلیاں پیدا ہوگئی ہیں اور زمین کے درجۂ حرارت میں نقصان دہ حد تک اضافہ ہوگیاہے، جس کی بنا پر عالمی حدت (Global worming)کا مسئلہ پیداہوگیا ہے۔

چنانچہ ان تبدیلیوں سے انسان اور دیگر جانداروں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوگیاہے اور اس بات کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ مکمل طورپر ان کی زندگی ہی ختم ہوجائے۔ جب کہ ماحولیات (Environment)وہ سب کچھ ہے جس میں انسان یا دیگر جاندار رہتے ہیں۔ چنانچہ زمین، جنگل، پہاڑ، دریا، صحرا، مختلف النوع جاندار جیسے انسان، پرندے، حشرات الارض اور بڑے بڑے جانور اور چھوٹے جاندار یہ سب ماحولیات کے لازمی اجزا ہیں اور یہ سب اپنی فطری زندگی میں ایک دوسرے کے لئے ضروری ہیں، لیکن اب انسان نے فطرت (Nature)میں مداخلت (Interference)کو درہم برہم کردیا ہے، جس کی وجہ سے وہ فضائی (Air Pollution)، آبی (Water Pollutaion)، زمینی (land Pollution)، صوتی (Sound Pollution)، سمندری (Sea Pollution) اور شعاعی آلودگی (Radial Pollution) سے دوچار ہے، چنانچہ فضا میں انسان اور ماحول (Environment) کے لئے مضر مادوں کی بھاری تعداد موجود ہے، جس کی وجہ سے ہوا کے قدرتی اجزائے ترکیتی بگاڑ کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں اور پانی میں بھی ناپسندیدہ اشیاء کی بڑی مقدار جیسے ٹھوس کے ذرات، حل شدہ نمکیات، صنعتی ناکارہ اشیاء، گردو غبار اور حیاتیاتی اشیاء موجود ہیں، جن سے پانی آلودہ ہوکر متعدد بیماریوں کے پھیلنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اور زمین بھی اپنی طبعی، حیاتیاتی اور کیمیاوی (Chemical) ترکیب میں تبدیلی سے دوچار ہے، نیز بے ہنگم اور غیرضروری آواز کی وجہ سے صوتی آلودگی (Sound Pollution) پیدا ہوگئی ہے، جس سے انسانی صحت پر مضراثرات مرتب ہورہے ہیں۔

اسی طرح سمندر کے اندر پوشیدہ معاشی دولت (Economic wealth) جیسے تیل، سیپی، مونگا، مچھلی وغیرہ مسلسل بڑے پیمانے پر نکالنے سے سمندروں کا قدرتی توازن تیزی سے بگڑرہاہے اور ساحل سمندر پر قائم شہروں سے انسانی و صنعتی فضلہ (Industrial waste) کچرا اور گندگی کو سمندر میں بہانے کی وجہ سے وہ آلودہ ہوتے جارہے ہیں، ایسے ہی شعاعیں جو دراصل وہ توانائی ہیں جو خلا یا کسی مادے سے تیزی سے نکلتی ہے، چنانچہ یہ شعاعیں انسان کے لئے مفید ہیں، لیکن مقررہ مقدار سے ان کازیادہ استعمال انسانی صحت کے لئے مضر ہے، لیکن جوہری (Nuclear)تجربات، جوہری بجلی (Electricity) ، موبائل فون ٹکنالوجی (Technology) اور اس کے ٹاور سیٹلائٹ (Setelite)وغیرہ سے زمین پر پھیلنے والی شعاعی آلودگی کی وجہ سے نہ صرف انسانی جسم، بلکہ پانی، مٹی، ہوا، پودے (Plants) اور جانور سب کی صحت کو خطرہ لاحق ہے۔

ماحولیاتی تحفظ کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات

اسلام جو کہ دین فطرت اور اعتدال ہے، اس نے ماحولیات اور قدرتی وسائل (Natural sources) جیسے جنگلاتی وسائل (Forest Sources) ، آبی وسائل (Alimental Sources) اور زمینی وسائل (Land Sources) کی بقا اور تحفظ کی خاطر مختلف تعلیمات دی ہیں، جو درج ذیل ہیں:

زندگی میں اعتدال مطلوب ہے:

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ زندگی اعتدال سے گزاری جائے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وکُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ          (الاعراف:۳۱)

’’اور کھاؤپیو، البتہ حد سے تجاوز نہ کرو‘‘

اور ایک دوسری جگہ فرمان الٰہی ہے:

وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ              (الانعام:َ ۱۴۱)

’’اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

قرآن کی نظر میں ہر وہ چیز جو صلاح و درستگی سے دور ہوجائے اور نفع کی صلاحیت کو کھودے وہ فساد ہے، اگرچہ اس کا غالب استعمال عقیدہ اور عمل کی خرابی کے لئے ہوتا ہے، لیکن کسی چیز کے نظام توازن اور اعتدال (Moderation) کو بگاڑنے پر بھی اس کا اطلاق ہوتاہے، جس سے اس کی حقیقی افادیت آہستہ آہستہ ختم ہوجائے۔

فرمان الٰہی:

وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِیْ الأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّہُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَ              (البقرۃ:۲۰۵)

’’اور جب وہ تمہارے پاس سے دور ہوتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لئے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور کھیتی اور نسل کو تباہ کریں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت، قدرت کا ملہ اور ربوبیت کی شناخت اور ادراک کے لئے دو سے زائد آیتوں کے اندر زمین، ہوا، پانی ، زندہ اور مردہ مخلوقات ، شجر، حجر ، پہاڑ، سمندر اور دیگر عجائبات عالم میں غور کرنے کی دعوت دی ہے اور کائنات کے اس نظام توازن کی طرف اشارہ فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

صُنْعَ اللَّہِ الَّذِیْ أَتْقَنَ کُلَّ شَیْْء ٍ إِنَّہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ       (النمل:۸۸)

’’یہ اس اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہرچیزکو محکم کیا ہے۔‘‘

اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’میرے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ قابل رشک وہ مومن ہے جو معمولی حالت میں ہو، خوب نمازیں پڑھنے والا ہو، گمنام ہو، لوگوں کے اندر اس کاکوئی خاص اہتمام نہ ہو اور اس کی روزی (Live hood) بقدر حاجت ہو اور وہ اس پر صابر ہو۔‘‘(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر۴۱۱۷)

نیزآپؐ نے بقدر حاجت مال کو کامیابی کی علامت قرار دیا ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’کامیاب وہ ہے جو اسلام لے آئے اور اسے بقدرضرورت روزی مل جائے اور ملی ہوئی دولت پر اللہ تعالیٰ اسے قناعت کرنے والا بنادے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر ۱۰۵۴)

نیزآپؐ نے اسراف اور کمی کے بغیر اپنے گھر والوں پر خرچ کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے برابر قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

’’جب کوئی شخص زیادتی اور کمی کے بغیر اپنے گھر والوں پر خرچ کرتاہے، تو اس کا یہ خرچ کرنا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے درجہ میں ہوتاہے۔‘‘ (البرو لصلۃ للحسین بن حرب، ص ۱۶۱،حدیث نمبر ۳۱۴)

اور اسراف کے ناپسند ہونے کی وجہ سے آپؐ نے اپنے کنبہ کے لئے بقدر حاجت مال کی دعا فرمائی، چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ محمد کے گھرانے کی روزی بقدر حاجت کردے۔‘‘  (صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۰۵۵) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے اعمال کے اندر درستگی اختیار کرو، اورمیانہ روی اپنائو۔‘‘ (صحیح البخاری حدیث نمبر ۴۳۷۵، ۷۰۳۷)

ان احادیث پاک سے یہ روشنی ملتی ہے کہ حرص و ہوس مذموم ہے اور ہر چیز میں اعتدال مطلوب ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اگر اعتدال اور میانہ روی کے ساتھ دنیا ترقی کی راہ پر گامزن رہے تو نظام توازن بھی برقرار رہے گا اور ماحولیات کا بھی تحفظ ہوگا اور ساتھ ہی ترقی بھی حاصل ہوتی رہے گی۔

اسلام میں شجرکاری کی اہمیت:

اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ زیادہ شجرکاری کی جائے، چنانچہ فرمان الٰہی ہے:

وَہُوَ الَّذِیَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَخْرَجْنَا بِہِ نَبَاتَ کُلِّ شَیْْء ٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِراً            (الانعام: ۹۹)

’’اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھرہم نے اس سے ہرچیز کے انکھوے نکالے، پھرہم نے اس سے سرسبزشاخیں ابھاریں‘‘

یہ آیت ہمیں سبزہ کے اسباب پیدا کرنے کی طرف توجہ دلارہی ہے، نیز شجرکاری کی اہمیت کااندازہ اس حدیث سے بھی لگایاجاسکتا ہے ، جو حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جومسلمان بھی پودا لگائے گا، اور اس سے کچھ کھالیاجائے گا، وہ اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا اور جو چوری کرلیاجائے، وہ قیامت تک کے لئے اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا۔‘‘          (صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۵۵۲)

اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو مسلمان پودا لگائے گا یا کھیتی کرے گا اور اس سے کوئی پرندہ، انسان یا چوپایہ کھالے گا، وہ اس کے لئے صدقہ بن جائے گا۔‘‘(بخاری شریف حدیث نمبر ۲۳۲۰، ۶۰۱۲)

اور ایک دوسرے اسلوب (Method) سے آپؐ نے شجرکاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:

’’جو شخض پودا لگائے گا، اس کے لئے اس پودے سے نکلنے والے پھل کے بقدر ثواب لکھاجائے گا۔‘‘(مسند احمد، حدیث نمبر۲۳۵۲۰)

جلیل القدر زاہد و عابد صحابی حضرت ابوالدرداءؓ نے اپنے طرزعمل سے یہ وضاحت کی کہ شجرکاری کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے اور وہ دنیاداری اور متاع دنیا کی حرص کی تعبیر نہیں، بلکہ عین عبادت اور کارثواب ہے اور خشک اور بنجر زمین کو سرسبز و شاداب بنانا سنت ہے۔

سبزہ کے تحفظ کا تصور سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔ چنانچہ عبداللہ بن حبشیؓ سے مروی ہے کہ رسول اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جو کسی بیری کے درخت کو کاٹے گا، اللہ تعالیٰ جہنم میں اس کے سر کو اوندھا کردے گا۔‘‘ (سنن ابی دائود، حدیث نمبر ۵۲۳۹)

 جانور کا تحفظ:

اسلام کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ جانور کو بھی ناحق ہلاک نہ کیاجائے، کیونکہ ماحولیات کے لازمی عناصر میں سے ایک عنصر وہ بھی ہے۔ چنانچہ شریر بن سویدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو کسی پرندہ کو بطور تفریح قتل کرے گا، وہ کل قیامت کے دن اللہ عزوجل کے سامنے فریاد کرتے ہوئے کہے گا کہ اے رب! فلاں نے مجھے تفریح کے طورپر قتل کیا، اور کسی فائدہ کی خاطر قتل نہیں کیا۔‘‘ (سنن نسائی، حدیث نمبر ۴۴۴۶)

اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو انسان کسی گوریا یا اس سے بڑی چڑیا کو ناحق مارڈالے، تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کے بارے میں سوال کرے گا، پوچھاگیا، اے اللہ کے رسول! اس کا حق کیاہے، سو آپؐ نے جواب دیاکہ اسے ذبح کرکے کھائے، اور اس کا سر کاٹ کرکے پھینک نہ دے۔‘‘  (سنن نسائی حدیث نمبر ۴۳۴۹)

جاندار مخلوق کی نسل کشی درست نہیں:

اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ کسی بھی جاندار مخلوق کی نسل کشی نہ کی جائے ؛ کیونکہ ہر جاندار مخلوق کاایک سماجی وجود ہے اور انسان کی طرح وہ بھی ایک امت ہے، جیساکہ ارشاد باری ہے:

وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُکُم مَّا فَرَّطْنَا فِیْ الکِتَابِ مِن شَیْْٔ (الانعام:۳۸)

’’اور کوئی جانور نہیں جو زمین پر چلتاہو اور کوئی پرندہ نہیں جو فضا میں اپنے دونوں بازوئوں سے اڑتا ہو، مگر یہ سب تمہاری ہی طرح امتیں ہیں، اور ہم نے اپنی کتاب میں بھی کوئی کسر نہیںچھوڑی ہے۔‘‘

اس سے پتہ چلاکہ انسان کی طرح کائنات کی دیگر مخلوقات ہیں، جو ایک نوعیں ہیں، اور ان کی بھی اپنی اپنی خصوصیات ہیں، جو ایک نوع کو دوسری نوع سے الگ کرتی ہیں، سو ہر ایک کی ایک مخصوص جبلت ، شعور، ادراک اور جذبات ہیں، اور ہر ہر نوع کے اندر اپنے اجتماعی ہستی کاایک شعور ہے، جو انہیں آمادہ کرتاہے کہ یہ ایک وحدت (Unit)کے اجزا کی طرح اپنے اجتماعی وجود کے بقاو تحفظ کا سامان کریں اور اپنے نوعی مقصد تخلیق کی تکمیل میں ان میں کا ہر فرد اپنا کردار ادا کرے اور جب ہر جاندار مخلوق کا ایک سماجی وجود ہے تو وہ ماحولیات کا ایک اہم حصہ اور لازمی عنصر ہے، لہٰذا پوری نسل کو ختم کردینا درست نہیں ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی ایک امت ہیں تو میں انہیں قتل کرنے کا حکم دیتا، لہٰذا ان میں سے خالص سیاہ کتے کو قتل کردو۔‘‘(سنن ابی دائود حدیث نمبر ۲۸۴۵)

اور کالے کتے سے مراد کٹ کھنے اور شریر کتے ہیں جو انسانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کے کاٹنے کی وجہ سے جسم میں زہر پھیل جاتا ہے، سو اس حدیث سے پتہ چلتاہے کہ ہر مخلوق کی تخلیق کے اندر اللہ تعالیٰ کی حکمت مضمر اور پوشیدہ ، اور بہ ظاہر شر نظرآنے والی مخلوق بھی فوائد سے خالی نہیں، لہٰذا کسی جاندار مخلوق کی نسل کشی درست نہیں، اس لئے جو کتے انسانوں پر حملہ آور نہ ہوتے ہوں ان سے نگہبانی وغیرہ امور میں فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فضا کو مسموم بنانے سے پرہیزلازم:

اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ مردوں کی تدفین کی جائے، اس کا جہاں ایک مقصد یہ ہے کہ انسانوں کی تکریم ہو، وہیں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مردہ جسموں سے پیدا ہونے والی نجاست اور بدبو سے فضا مسموم نہ ہو، چنانچہ متعدد حدیثوں میں مردہ کے دفن کرنے کو واجب قرار دیاگیا ہے اور زندوں پر مردہ کا ایک حق یہ قرار دیاگیا ہے کہ نماز اور دفن کے لئے اس کے جنازہ میں شرکت کی جائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ مسلمان کا مسلمان پرپانچ حق ہیں: (۱) سلام کا جواب دینا (۲)دعوت قبول کرنا (۳)جنازہ میں شرکت کرنا (۴)مریض کی عیادت و مزاج پرسی کرنا (۵)چھینکنے والا جب الحمدللہ کہے تو اس کے جواب میں ’یرحمک اللہ‘ (اللہ تجھ پر رحم کرے) کہنا۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۱۴۳۵)

قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ابتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر کفن دفن کا طریقہ ڈال دیاتھا، چنانچہ قابیل، ہابیل کی عنداللہ مقبولیت کو نہ برداشت کرسکا اور اسے قتل کردیا تو کوّے سے اسے رہنمائی ہوئی کہ زمین کرید کر اپنے بھائی کی لاش چھپادے۔

کھلے عام گندگی پھیلانا درست نہیں:

اسلام کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ کھلے عام گندگی نہ پھیلائی جائے تاکہ فضا مکدر اور مسموم نہ ہو، چنانچہ آپؐ نے بلغم وغیرہ دفن کرنے کا حکم دیاہے، جیساکہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:

’’مسجد کے اندر بلغم جھاڑنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے دفن کردینا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۵۵۲)

اور ایک روایت میں ہے:

’’مسجد میں تھوکنا گناہ ہے، اور اس کا کفارہ اسے دفن کرنا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۵۵۲)

اور حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مجھ پر میری امت کے اچھے برے اعمال پیش کیے گئے، تو میں نے اس کے اچھے اعمال میں سے یہ عمل دیکھاکہ تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹادیاگیا ہو، اور اس کے بُرے اعمال میں سے یہ عمل دیکھاکہ مسجد میں بلغم ہو، اور اسے دفن نہ کیاجائے۔(صحیح مسلم حدیث نمبر ۵۵۲)

ان احادیث  پاک میں مسجد کی تخصیص مزید شناعت و قباحت بیان کرنے کے لئے ہے، ورنہ ہرعمومی جگہ کا یہی حکم ہے کہ قابل تنفر اشیاء کو ڈھک دیاجائے۔

پانی کی ضرورت سے زیادہ ذخیرہ اندوزی سے پرہیز:

اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ پانی کی ضرورت سے زیادہ ایسی ذخیرہ اندوزی نہ کی جائے کہ دوسرے لوگ تنگی میں پڑجائیں، چنانچہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:

’’مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں، پانی، گھاس اور آگ۔‘‘ (سنن ابی دائود، حدیث نمبر۳۴۷۷)

’’مسلمان ‘‘کی قید اتفاقی ہے، ورنہ عام لوگوں کا یہی حکم ہے، چنانچہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے:

’’لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، گھاس اور آگ‘‘(مسند الحارث حدیث نمبر ۴۴۹)

پانی ضائع کرنا درست نہیں ہے:

پانی زمین پر موجود ہرزندہ شے کی زندگی اور بقا کے لئے اولین ضرورت ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء  کُلَّ شَیْْء ٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ                           (الانبیاء:۳۰)

’’اور ہم نے پانی سے ہرجاندار چیزکو بنایا ہے، کیا پھر بھی ایمان نہیں لاتے۔‘‘

پانی کی اسی اہمیت کے پیش نظراللہ تعالیٰ نے کرۂ ارض پر تین حصّے پانی اور ایک حصہ خشکی رکھا ہے، چنانچہ کرۂ زمین پر ایک ارب چالیس کروڑ مکعب کلومیٹر پانی موجود ہے، اس کا ۱۷ فیصد حصہ سطح زمین پر ہے، لیکن ۹۷ فیصد زمین کا پانی سمندروں کی شکل میں ہے، جو زمین کے تقریباً ۷۰ء۸ فیصد رقبہ پر پھیلا ہواہے ، اور جو نمکین اور انسان کے لئے ناقابل استعمال ہے، انسان کے لئے قابل استعمال پینے اور دیگر استعمالات کے لئے صرف تین فیصد پانی ہی دستیاب ہے، جس کو ہم تازہ پانی کہتے ہیں۔ میٹھا اور قابل استعمال پانی، برفانی تودوں یا عمیق برف کی چادر کی شکل میں قطبین (Poles) پر ہے برفانی پانی عموماً کسی بھی قسم کی آلودگی سے پاک ہوتاہے، لیکن برفانی پانی کا تناسب صرف ایک فیصد ہے، اور دو فیصد میٹھا اور قابل استعمال پانی، دریائوں، ندیوں، نہروں، جھیلوں، تالابوں، کنوئوں اور کنٹوں سے حاصل ہوتاہے۔ الغرض قابل استعمال پانی کی مقدار بہت کم ہے۔ لہٰذا پانی کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے، جس کے پیشِ نظر اسلام کی تعلیم ہے کہ اسے خواہ مخواہ ضائع نہ کیاجائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اس امت میں کچھ لوگ ہوں گے جو طہارت اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے۔‘‘  (سنن ابی دائود حدیث نمبر ۹۶)

اس سے معلوم ہواکہ پانی کو بلاوجہ استعمال یا ضائع کرنا، اس عظیم نعمت کی ناقدری ہے۔

پانی کو آلودہ کرنا درست نہیں ہے:

اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ پانی کو آلودہ نہ کیاجائے، کیونکہ پانی تمام جاندار اجسام کی زندگی کا دارومدار ہے اور طبی نقطہ نظر سے زندہ جسم میں پانی کی کارکردگی کاحصہ دوسری چیزوں کے مقابلے میں ۹۰ فیصد زیادہ ہے، غذا اور ہوا بھی پانی ہی کے ذریعے جسم میں تحلیلی عمل سے گزرتی ہیں، بلکہ جسم کے ظاہر و باطن سے نقصان دہ عناصر کو دور کرنے کے لئے بھی پانی کی کارکردگی اہمیت رکھتی ہے، جب کہ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پانی ایک آفاقی محلول (Solution) ہے، جس میں کوئی بھی آلودہ ہوجاتا ہے، آج پانی کی آلودگی سب سے اہم اور بڑا مسئلہ ہے، چنانچہ فضائی آلودگی کے بعد آبی آلودگی (Water Pollution) ماحولیات کا سب سے سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔

پانی کو آلودگی سے بچانے کے لئے اسلام نے سب سے زیادہ موثر اور منصفانہ تعلیمات دی ہیں، ان ہی میں سے ایک تعلیم یہ ہے کہ ٹھہرے اور بہتے ہوئے پانی دونوں میں پیشاب اور پاخانہ کرنےسے بچاجائے، اس لئے کہ پیشاب اور پاخانہ پانی کی آلودگی کے خطرناک ترین اسباب میں سے ہیں،کیونکہ ان کے سبب سے کالرا، ٹائفاڈ اور سوزش جگر و معدہ جیسے بہت سے امراض پیدا ہوتے ہیں، چنانچہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’تین لعنت کا سبب بننے والی جگہوں سے بچو (۱) پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے (۲) راستہ میں پاخانہ کرنے سے (۳) سایہ دارجگہوں میں پاخانہ کرنے سے۔‘‘ (سنن ابی دائود حدیث نمبر ۲۶)

گھاٹ یا نہر ، نالہ اور ندی کے کنارے رفع حاجت کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ نجاست کے اثرات پانی میں پہنچ کر اسے آلودہ کردیں گے۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت فرمائی، جیساکہ ارشاد ہے:

’’تم میں سے کوئی اس پانی میں پیشاب نہ کرے جو ٹھہرا ہو، پھر اس میں غسل کرے۔‘‘(بخاری شریف حدیث نمبر ۲۳۹)

چونکہ ٹھہرے ہوئے پانی میں آلودگی پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہے، لہٰذا خاص طور سے اس کا ذکر فرمایا اور بہتے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی صریح ممانعت بھی وارد ہے جیساکہ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہتے ہوئے پانی میں پیشاب کئے جانے سے منع فرمایا۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی حدیث نمبر ۱۷۴۹)

الغرض ان احادیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ ایک عقلمند انسان ایسا کیوں کر کرسکتا ہے کہ اس پانی میں پیشاب کرے، جس پانی کا وضو اور غسل وغیرہ میں وہ محتاج ہے۔

طبی اعتبار سے پانی میں پیشاب کرنے سے ’’بلہارزیا‘‘ (Bilharzia)نامی مرض کے جراثیم پانی میں پھیل جاتے ہیں اور خاص طور سے ٹھہرے ہوئے پانی میں، پھر وہ اپنے تکوینی مراحل طے کرکے دم دار جرثومہ کی شکل میں پانی میں تیرنے لگتے ہیں اور جب اسے کوئی جسم مل جاتاہے تو وہ اس کے اندر گھس جاتے ہیں اور سوزش جگر وغیرہ مختلف بیماریوں کا سبب بن جاتے ہیں۔ (ڈاکٹر عزالدین فراج دارالسلام والوقایۃ من الامراض ص ۸۵)

حالت جنابت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل کی ممانعت:

پانی کو آلودگی سے بچانے کے لئے اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کیاجائے، بلکہ باہر رہتے ہوئے پانی لے کر غسل کرے، جیساکہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’تم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے، کسی نے پوچھا: اے ابوہریرہؓ! تو کس طرح غسل کرے تو انہوں نے جواب دیا: باہر رہتے ہوئے پانی لے کر غسل کرے۔‘‘ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۸۳)

اور اس حالت میں پانی میں داخل ہوکر غسل کرنے کی ممانعت محض اس وجہ سے ہے کہ پانی آلودہ نہ ہو، خواہ پانی کثیرہی کیوں نہ ہو۔

نیند سے بیدارہوکر برتن میں ہاتھ ڈالنے کی ممانعت:

اسلام کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ نیند سے بیداری کے وقت ہاتھ دھوئے بغیر برتن میں ہاتھ نہ ڈبوئے، کیونکہ میلے ہاتھ پانی کو آلودہ کرسکتے ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدارہو، تو وہ اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈبوئے، یہاں تک کہ اسے دھولے، کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ اس کاہاتھ جسم کے کس حصہ پر پڑا۔(‘‘صحیح البخاری حدیث نمبر ۱۶۲)

یعنی سونے کی حالت میں ہاتھ انسان کے مختلف حصوں پر پڑنے کی وجہ سے آلودہ ہوجاتا ہے۔

پانی کے برتنوں کو ڈھانکنا مطلوب ہے:

پانی کو آلودگی سے بچانے اور انسان کی سلامتی اور صحت کے تحفظ کی خاطر، اسلامی شریعت نے ہر اس بے احتیاطی پر قدغن لگایا ہے جس سے پانی کے آلودہ ہونے کا اندیشہ ہو اور ہر اس حسن تدبیر کا حکم دیاہے جو پانی کو آلودگی سے محفوظ رکھے، چنانچہ اس سلسلہ کی ایک تعلیم یہ ہے کہ پانی یا دیگر مشروب کے برتن کو ڈھانک کر رکھاجائے، جیساکہ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’برتن کو ڈھانک دو، اور مشکیزہ کے منہ کو بند کردو اور دروازہ لگادو، اور چراغ کو بجھادو، کیونکہ شیطان مشکیزہ کو نہیں کھولتا ہے، اور نہ ہی دروازہ کو وا کرتا ہے اور نہ ہی برتن کو کھولتا ہے، سو اگر تم میں سے کوئی ڈھانکنے کی کوئی چیز نہ پائے، مگر یہ کہ اپنے برتن پر چوڑائی میں لکڑی رکھ دےاور اللہ تعالیٰ کا نام لے، تو وہ ایسا ہی کرلے۔‘‘(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۰۱۲)

پانی کے برتن میں سانس لینے اور پھونک مارنے سے پرہیز لازم ہے:

پانی کو آلودگی سے بچانے کے لئے اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ پینے کے برتن میں سانس نہ لی جائے، چنانچہ حضرت قتادہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےبرتن میں سانس لینے سے منع فرمایا۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر ۱۵۳) ایک روایت میں ہے :آپؐ نے برتن میں پھونک مارنے سے منع فرمایا۔‘‘ (سنن ابی دائود حدیث نمبر ۳۷۲۷)

اور ممانعت کی وجہ ظاہر ہے اور وہ یہ کہ برتن میں سانس لینے یا پھونک مارنے کی صورت میں اندیشہ ہےکہ تھوک اور منہ کی تری سے کچھ ظاہر ہوکر پانی میں گرجائے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی پینے والے کے منہ میں بدبو ہو جو پانی کے لطیف ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ چپک کر گھل مل جائے اور اس طرح پانی آلودہ ہوکر متغیر ہوجائے اور طبیعت سلیمہ کو اس کے استعمال سے تنفر ہو۔

صوتی آلودگی:

موجودہ دور میں صوتی آلودگی بھی ماحولیات کا ایک اہم مسئلہ ہے، صوتی آلودگی پر قابو پانے کے سلسلہ میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ آواز نکالنے میں بھی اعتدال مطلوب ہے اور موقع و محل اور ضرورت سے زیادہ آواز نکالنا مذموم ہے، جیساکہ حضرت لقمانؑ کی نصیحت نقل کرتے ہوئے ارشاد باری ہے:

وَاغْضُضْ مِن صَوْتِکَ إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ    (لقمان:۱۹)

’’اور اپنی آواز کو پست رکھ، بے شک سب سے زیادہ مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘

اس آیت سے پتہ چلاکہ حلق پھاڑکر اس طرح آواز نکالنا کہ لوگوں کے کانوں پر گراں گزرے درست نہیں ہے۔ چنانچہ اسلام یہ حکم دیتاہے کہ ہر حال میں بقدر ضرورت آواز نکالی جائے، جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات گشت کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کے پاس گزرے تو دیکھاکہ وہ نہایت پست آواز کے ساتھ نماز ادا کررہے تھے، اور جب حضرت عمر بن خطابؓ کے پاس سے گزر ہوا تو دیکھاکہ خوب بلند آواز کے ساتھ قرأت کرکے نماز ادا کررہے ہیں،صبح جب دونوں حاضر خدمت ہوئے تو آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہاکہ تم رات نہایت پست آواز کے ساتھ نمازادا کررہے تھے اس پر حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا ’’اے اللہ کے رسول میںجس ہستی سے ہم کلام تھا ، اسے سنادیا‘‘ پھر حضرت عمرؓ سے دریافت کیاکہ تم رات خوب بلند آواز سے نماز ادا کررہے تھے تو حضرت عمرؓ نے جواب دیا: ’’میں ایسا اس لئے کررہاتھا کہ سوتے کو بیدار کروں اور شیطان کو دھتکاروں۔‘‘  دونوں کے جواب کو سننے کے بعد آپؐ نے اعتدال کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے ابوبکر! اپنی آواز کچھ بلند کرو، اور حضرت عمرؓ سے فرمایا: اے عمر! اپنی آواز کچھ پست کرو۔‘‘

ذکر کردہ اسلامی تعلیمات پر اگر انسانیت عمل پیرا ہوتو ماحولیات کے تحفظ اور آلودگی کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، یہ حقیقت ہے کہ اسلام نے ماحولیات کے تحفظ اور اسے آلودگی سے بچانے کی طرف اس وقت توجہ دلائی، جب کہ انسان کو ماحولیات کی اہمیت کا صحیح اندازہ بھی نہ تھا۔

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2013

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau