مسائل میں اختلاف اور رویے میں اعتدال

(مسائل میں اختلاف علمی زندگی کی علامت ہے تو رویے میں اعتدال اخلاقی بلندی کی علامت ہے۔مسائل میں اختلاف سے پریشان ہونے کے بجائے اختلافی مسائل میں اعتدال کے رویے کی جستجو ہونی چاہیے۔)

ابواسحاق شیرازی شافعی مسلک کے بڑے محقق تھے اور ابوعبداللہ دامغانی حنفی مسلک کے بڑے عالم تھے۔ دونوں ہم عصر تھے اور بغداد میں رہتے تھے۔ دونوں کے درمیان مختلف فقہی مسائل میں مناظرے بھی ہوئے، جن کی رودادیں کتابوں میں درج ہیں۔  مسلک ومسائل میں اختلاف کےباوجود ان کے رویے میں اعتدال کا حسن تھا۔ دونوں کی باہم ملاقاتیں ہوتی تھیں، ایک دوسرے کا احترام تھا اور اچھے کاموں میں دونوں ساتھ شرکت بھی کرتے تھے۔

علامہ انور شاہ کشمیری نے ان دونوں کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ ابواسحاق شیرازی کی مسجد تھی ۔ ابو عبداللہ دامغانی کا ایک بار وہاں سے گزر ہوا ۔ نماز کا وقت قریب تھا تو دامغانی مسجد میں داخل ہوئے۔ شیرازی نے دیکھ لیا اور مسجد کے موذن سے کہا کہ اذان میں (شافعی طریقے کے مطابق) ترجیع نہ کرے اور جب نماز کی اقامت ہوئی تو  دامغانی کو امامت کے لیے آگے بڑھادیا۔ دامغانی نے حنفی ہوتے ہوئے شافعی طریقے کے مطابق نماز پڑھائی۔مسائل میں اختلاف اور رویے میں اعتدال کی یہ ایک خوب صورت مثال ہے۔

مسائل میں اختلاف کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ یہ فکری تحریک اور اجتہادی سرگرمی کا لازمی نتیجہ ہے۔اجتہاد ہوگا تو اختلاف بھی ہوگا۔ لیکن جب رویے میں اعتدال نہیں ہوتا ہے تو چھوٹے چھوٹے اختلافات بہت خراب صورت اختیار کرلیتے ہیں۔

بعض لوگ اختلافات سے پریشان ہوتے ہیں اور یہ تمنا پالتے ہیں کہ امت کے تمام تر اختلافات ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ  اختلافات کا ہونا فطری اور اختلافات کا نہ ہونا غیر فطری بات ہے۔ اللہ نے انسانوں کو عقل دی ہے اور عقل کے استعمال کی ہر شخص کو آزادی بھی دی ہے۔ جب تک عقل کے استعمال کی آزادی رہے گی اختلافات کا امکان رہے گا۔  غور و فکر کا عمل جب بڑھے گا تو ایک طرف بہت سے اختلافات اپنے طبعی نتیجے تک پہنچیں گے اور دوسری طرف غور و فکر کے بطن سے نئے  اختلافات بھی جنم لیتے رہیں گے۔

غرض اختلافی مسائل ختم کبھی نہیں ہوسکتے ہیں  ۔ البتہ اختلافی مسائل میں اگر بہتر انداز سے بحث و مباحثہ جاری رہے تو اختلافات کی شدت میں کمی آسکتی ہے اور بہت سے اختلافات کسی نتیجے تک پہنچ کر اتفاق میں بدل سکتے ہیں۔ آرزو یہ نہیں ہونی چاہیے کہ اختلافات سرے سے نہ ہوں، آرزو یہ ہونی چاہیے کہ اختلافات کے لیے صحت مند ماحول فراہم ہو اور اختلافات کے باوجود محبت کا دور دورہ رہے۔

ایک طرف یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اختلافات اپنا علمی سفر جاری رکھیں اور دوسری طرف رویے کے اعتدال پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ خاص طور سے اہل علم کے رویے میں اعتدال رہے گا تو عوام کے لیے فضا خوش گوار اور علمی ترقی کے لیے ماحول سازگار رہے گا۔

ہم اس مضمون میں اختلافی مسائل کے تعلق سے رویے میں اعتدال کے کچھ پہلو ذکر کریں گے۔

اختلافات سے انسیت کا رشتہ استوار کریں

دین کی بنیادوں میں اختلاف پر تشویش بجا ہے، لیکن عام طور سے علمائے امت میں دین کی بنیادوں میں اختلاف نہیں پایا جاتا ہے۔ اختلاف عام طور سے اجتہادی اور فروعی مسائل میں پایا جاتا ہے، وہ فقہی مسائل ہوں یا علمی و فکری مسائل۔ ایسے اختلاف سے تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔

فروعی مسائل میں اختلافات کے سلسلے میں شدید رویہ عام طور سے وہ  لوگ اختیار کرتے ہیں جو اختلافِ رائے سے مانوس نہیں ہوتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ اگر کسی چھوٹے سے مسئلے میں بھی امت کے درمیان اختلاف رائے ہوجائے گا تو امت کی وحدت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ ایسے لوگوں کو فکری جمود زیادہ راس آتا ہے۔ اختلافات سے بچنے کے لیے وہ فکری حرکت پر بھی قدغن لگانا چاہتے ہیں۔ اختلافات کے سلسلے میں بے جا حساسیت آزادی فکر اور آزادی ِاظہار پر پابندی کا مطالبہ کرتی ہے۔

اختلافِ رائے کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ وہ فکری حرکت کا فطری نتیجہ ہے۔ اگر فروعی اختلافات کو لے کر ایک دوسرے کی شدید مخالفت نہ کی جائے تو ان اختلافات سے امت کی وحدت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے۔

خاص طور سے امت کے معتبر علما و فقہا اور مفکرین کے اختلافات کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ وہ امت کے بہترین دماغوں کے عمدہ ثمرات ہیں۔ یہ مختلف آرا ماضی میں بھی امت کے لیے مفید ثابت ہوئی ہیں اور مستقبل میں بھی ان کی افادیت باقی رہے گی۔ علامہ قرضاوی نے ایک جگہ ذکر کیا ہے کہ بعض فقہی رایوں کو دور اول کے فقہا نے قبول نہیں کیا، تاہم ان کو اپنی کتابوں میں محفوظ کرلیا۔ اور پھر عصرِ حاضر کے فقہا نے جدید زمانے کے بعض مسائل کو حل کرنے کے لیے انھی رایوں سے فائدہ اٹھایا۔گویا اختلافی آرا میں سے بعض اپنے زمانے میں مفید نہیں ہوکر بعد کے کسی زمانے میں مفید ہوسکتی ہیں۔

جب آپ اختلافی مسائل کو اس نظر سے دیکھیں گے کہ یہ امت کا علمی سرمایہ ہے تو آپ ان سے وحشت کے بجائے انسیت محسوس کریں گے اور ان کی کثرت سے ذرا پریشان نہیں ہوں گے۔

بعض لوگ اختلافات کے سلسلے میں جھنجھلاہٹ کا اظہار یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ علما نے اس پر اتفاق کرلیا ہے کہ وہ کبھی اتفاق نہیں کریں گے۔ یہ جملہ منفی سوچ کا اظہار ہے۔ مثبت سوچ یہ ہے کہ علما کے درمیان اختلاف ہونا فطری بات ہے اور ان کی فکری حرکت کی دلیل ہے۔ دراصل علمائے امت کے سلسلے میں ہم جتنا حسنِ ظن سے کام لیں گے اتنا ہی ان کے اختلافات کے سلسلے میں ہمارا رویہ اعتدال والا رہے گا۔

امت کے بڑے پوری امت کے بڑے ہیں

امام بخاری اور امام مسلم کے بارے میں یہ نہیں پوچھا جاتا کہ وہ کس مسلک کے تھے۔ امت کے سبھی افراد ان دونوں بزرگوں کی حدیث میں امامت کے قائل ہیں۔

امام غزالی اور امام نووی کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ وہ شافعی مسلک کے تھے۔ لیکن امام غزالی کی احیائے علوم الدین اور امام نووی کی شرح مسلم تمام مسلمانوں کے یہاں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔

تفسیر جلالین کے مصنفوں کا مسلک پوچھے بغیر سبھی لوگ اسے پڑھتے پڑھاتے ہیں۔

تفسیر کشاف کے مصنف زمخشری کا تعلق معتزلہ سے تھا لیکن ہر دور کے مفسرین اور طلبہ اس تفسیر سے استفادہ کرتے آئے ہیں۔

یہ اعتدال کا رویہ ہے۔ مسلکی اختلاف سے قطع نظر امت کے ہر بڑے عالم کو امت کے سبھی افراد اپنا عالم سمجھیں، اس کا احترام کریں اور اس کے چھوڑے ہوئے علمی سرمائے سے کھلے دل سے استفادہ کریں۔

قدیم علمائے کرام کے ساتھ امت کا رویہ زیادہ تر اپنائیت کا رہا ہے،اگرچہ کچھ علمائے کرام مسلکی تعصب کا نشانہ بھی بنے ہیں اور اس کا امت کو نقصان پہنچا ہے۔

عصر حاضر کے علمائے کرام کے ساتھ ہمیں اپنائیت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہمارے عہد کی بہت سی شخصیات بے اعتدالی کے رویے کا نشانہ بنی ہیں۔ شیخ محمد بن عبدالوہاب، شیخ محمد عبدہ، مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا ابوالاعلی مودودیؒ جیسی متعدد شخصیات کو مسلکی اور گروہی عینک لگاکر دیکھا گیا۔

کسی مسلک، مشرب یا جماعت سے وابستگی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرے مسلکوں، مشربوں اور جماعتوں سے کوئی رشتہ ہی نہ رہے۔ امت کا رشتہ ہرنسبت پر حاوی رہنا چاہیے اور اس رشتے کے حوالے سے امت کا ہر عالم اور اس کا علمی ترکہ سب کا مشترکہ سرمایہ ہونا چاہیے۔

اہل علم کا احترام کریں

کسی عالم کی رائے سے اگر اختلاف ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی قدر و منزلت گھٹادی جائے۔ عالم کی قدر و منزلت اس کےعلم کی بنا پر ہونی چاہیے نہ کہ اس سے اتفاق رائے کی بنا پر۔ سلف صالحین کے یہاں اس حوالے سے عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ امام طبری تفسیر کے امام مانے جاتے ہیں۔ ان کی رائے یہ تھی کہ عورت مردوں کی امامت کرسکتی ہے۔ علمائے سلف نے امام طبری کی اس رائے سے اختلاف کیا اور اسے رد کیا۔ تاہم اس رائے کی وجہ سے امام طبری کی امامت متاثر نہیں ہوئی۔ آج بھی وہ تفسیر اور اسلامی تاریخ دونوں میدانوں کے امام ہیں۔ اسی طرح اور بھی بہت سے اکابر علما ہیں جن کی ایک یا ایک سے زائد رایوں کو امت نے قبول نہیں کیا لیکن اس کے باوجود ان کی جلالت قدر میں کوئی فرق نہیں آیا۔ علمائے کرام کی کم زور رایوں کو ضرور رد کیا گیا لیکن ان کی شخصیت کو قبول عام حاصل رہا۔

دورِ حاضر میں یہ بے اعتدالی عام ہے کہ کسی عالم کی ایک یا چند رایوں سے اختلاف کی بنا پر اس کی پوری شخصیت کو ساقط  اور اس کی تمام تر دینی خدمات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

کسی عالم کی ایک یا متعدد رایوں سے اختلاف ہوسکتا ہے، اس کے علمی منہج سے بھی اختلاف ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں اپنے اختلاف کا اظہار بھی کرنا چاہیے اور صحت مند طریقے سے غلط موقف کو نشانہ تنقید بھی بنانا چاہیے، لیکن اس کی پوری شخصیت اور اس کے تمام تر علمی سرمائے کو ساقط قرار دینا اعتدال کے خلاف ہے۔

علمی رایوں کا احترام کریں

اگر کسی صاحب علم کی کسی رائے سے آپ کو اختلاف ہے تو اس رائے کو بھلے ہی آپ قبول نہ کریں، تاہم محض اختلاف کی وجہ سے اس رائے کو سرے سے بے بنیاد نہ قرار دیں۔ اس رائے کی پشت پر بھی کوئی علمی بنیاد ہوگی جو ممکن ہے آپ کی پسندیدہ رائے کے درجے کی نہ ہو مگر بہرحال کوئی بنیاد توہے ۔ اس سلسلے میں امام شافعی کے ایک قول سے بڑی رہنمائی ملتی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے: میری رائے درست ہے لیکن اس کے غلط ہونے کا امکان موجود ہے اور دوسرے کی رائے غلط ہے لیکن اس کے صحیح ہونے کا امکان موجود ہے۔ (قولی صواب یحتمل الخطأ، وقول المخالف خطأ یحتمل الصواب)

فقہ حنفی میں وضو کے دوران سر کے بجائے عمامے پر مسح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری حنفی ہوتے ہوئے بھی عمامہ پر مسح کے حوالے سے لکھتے ہیں:

میرے نزدیک حق بات یہ ہے کہ عمامہ پر مسح احادیث میں ثابت ہے۔ کیوں نہیں؟ جب کہ تینوں اماموں نے وہی رائے اختیار کی ہے۔ اگر دین میں اس کی کوئی بنیاد نہ ہوتی تو وہ ہرگز اختیار نہ کرتے۔ میں ان میں سے نہیں ہوں جو دین کو الفاظ سے اخذ کرتے ہیں، بلکہ میرے نزدیک زیادہ قابل اعتنا بات امت کا توارث اور ائمہ کرام کا اختیارہے۔ وہی تو دین کے رہنما اور گل سرسبد ہیں۔ دین تو انھی کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، اس لیے اس باب میں ان پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ لہٰذا ہم ان کے سلسلے میں بدگمانی سے کام نہ لیں اور یہ نہ کہیں کہ عمامہ پر مسح دین میں تو ثابت نہیں ہے، پھر بھی انھوں نے یہ رائے اختیار کی ۔۔۔اس لیے میں یہ کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا کہ یہ بدعت ہے جیسا کہ بعض کتابوں کی عبارتوں سے یہ بات نکلتی ہے۔ (فیض الباری)

علامہ انور شاہ کشمیری حنفی عالم تھے۔ ان کے یہاں شدت پسندی نہیں تھی۔ ان کی کتابوں میں رویے کا اعتدال جابجا نظر آتا ہے۔

فرعی اختلافی مسئلے کو دین کا بڑا مسئلہ نہ بنائیں

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک بہت ہی چھوٹے مسئلے میں اختلاف ہوتا ہے لیکن اس میں اختلاف کو اتنی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور اس میں اتنی زیادہ شدت برتی جاتی ہے کہ لگتا ہے وہ دین کا رکن ہے کہ اس کے بغیر دین کی عمارت کھڑی ہی نہیں رہ سکتی ۔

اس کی ایک مثال رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے اور نہ باندھنے کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے میں شیخ ابن باز اور شیخ البانی کا اختلاف تھا۔ شیخ ابن باز کی رائے تھی کہ رکوع کے بعد بھی ہاتھ باندھنا ہے اور شیخ البانی کی رائے تھی کہ رکوع کے بعد ہاتھ سیدھے چھوڑ دینا ہے باندھنا نہیں ہے۔ اس مسئلے کو لے کر بعض جگہوں پر بڑے جھگڑے ہوئے۔ شیخ ابن باز نے اس پر افسوس ظاہر کیا اور فرمایا:

”مجھے بہت سے مسلمانوں، خاص طور پر افریقہ اور دیگر جگہوں کے بھائیوں سے یہ بات پہنچی ہے کہ ان کے درمیان محض ہاتھ باندھنے اور ہاتھ چھوڑنے کے مسئلے پر اختلاف کی بنا پر بہت سی ناراضگیاں اور جھگڑے ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے سے قطع تعلق بھی ہو رہا ہے ۔ یقیناً یہ بات غلط ہے اور ایسا کرنا جائز نہیں۔ بلکہ سب پر فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کےخیر خواہ بنیں اور حق کو دلیل کے ساتھ پہچاننے میں ایک دوسرے کے مدد گار بنیں۔ اپنے درمیان محبت، اخوت اور ایمانی بھائی چارہ قائم رکھیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اور ان کے بعد کے علمائے کرامؒ ، مختلف مسائل میں اختلاف کرتے تھے، مگر اس سے ان کے درمیان کوئی تفرقہ یا قطع تعلق نہیں ہوتا تھا۔ سب کا مقصد حق کو دلیل سے جاننا ہوتا تھا۔ جب کسی مسئلے میں کسی کو علم حاصل ہوتا، تو سب مل کر اس پر اتفاق کرتے۔ اور جب کسی کو علم نہ ہوتا، تو ایسا نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بھائی کو گمراہ سمجھے یا اس سے قطع تعلق کرےاور اس کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دے۔

ہم سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ ہم اللہ سے ڈریں اور سلف صالحین کا راستہ اپنائیں، یعنی حق کو پکڑیں اور ایمانی بھائی چارہ قائم رکھیں۔ کسی بھی چھوٹے مسئلے میں یہ ہو سکتا ہے کہ دلیل کسی سے مخفی ہوجائے اور اس وجہ سے وہ اپنے بھائی سے اختلاف کرے۔ تاہم اس وجہ سے قطع تعلقی اور ایک دوسرے سے دوری اختیار نہ کریں۔“

واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک بہت ہی چھوٹا مسئلہ ہے۔ اتنا کہ اس سلسلے میں نہ کوئی واضح حدیث موجود ہے اور نہ کسی صحابی کا بیان ملتا ہے۔ ایسے مسئلے میں اتنا تشدد کہ مسجدوں میں جھگڑے ہوجائیں اور نمازیوں کی گروپ بندیاں ہوجائیں ، رویے کی کھلی ہوئی بے اعتدالی ہے۔

امام احمد بن حنبلؒ سے جب اس مسئلے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا: چاہیں تو ہاتھ باندھ لیں اور چاہیں تو ہاتھ چھوڑ دیں۔

اس سے بھی چھوٹا مسئلہ یہ ہے کہ جب اقامت ہو تو کب نماز کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ یہ مسئلہ نماز شروع ہونے سے بھی پہلے کا ہے اور اس کے سلسلے میں احادیث اور آثار صحابہ میں کوئی متعین رہنمائی بھی نہیں ہے۔ اسی لیے امام مالک کی رائے یہ تھی کہ لوگ اپنی سہولت کے مطابق کھڑے ہوتے رہیں اور اقامت مکمل ہونے تک سب لوگ کھڑے ہوکر صفوں میں شامل ہوجائیں۔

احناف کے نزدیک حی علی الصلوٰة سن کر کھڑا ہونا ہے۔ یہ مسئلہ اتنا چھوٹا ہے کہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب در مختار میں اس مسئلے کو فرائض و واجبات اور سنتوں میں نہیں بلکہ آداب میں ذکر کیا گیا ہے اور اس کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ اس کا اہتمام نہ کرنے میں کوئی خرابی نہیں ہے اور اہتمام نہ کرنے پر کسی کو ملامت نہیں کی جائے گی، البتہ کرلے تو بہتر ہے۔ (رد محتار)

ہم سب جانتے ہیں کہ بہت سی مسجدوں میں اس مسئلے میں کتنا تشدد برتا جاتا ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جاتا ہے گویا اس نے اسلام کے کسی رکن کی خلاف ورزی کردی۔

اختلاف کی تعداد کے بجائے اختلاف کا حجم دیکھیں

جب ہم تقابلی فقہ کی کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو ہر عبادت کے باب میں بہت بڑی تعداد میں اختلافات دیکھتے ہیں۔ اس سے پہلا تاثر یہ بنتا ہے کہ فقہائے کرام کے درمیان بہت اختلافات ہیں۔ خاص طور سے نماز تو اختلافات کا پلندہ محسوس ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم کتابوں سے باہرمختلف مسالک کے لوگوں کو اپنے اپنے طریقے پر نماز پڑھتے دیکھتے ہیں تو کوئی قابل ذکر اختلاف نظر ہی نہیں آتا۔ کہیں کہیں کچھ اختلاف نظر بھی آتا ہے تو نہایت چھوٹا اور ناقابل لحاظ۔ مختلف مسالک کی نمازوں میں اتفاق اتنا ہے کہ ایک مسلک کے امام کے پیچھے دوسرے مسلک کے مقتدی کو کوئی پریشانی پیش نہیں آتی ہے۔

دراصل کتابوں میں نظر آنے والے اختلافات کی تعداد زیادہ ہے لیکن ان کا حجم بہت تھوڑا ہے۔ اگر سارے اختلافات کو یکجا کردیں تب بھی ان کا مجموعی حجم اتفاقی حصے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔

کتابوں میں اختلافات اس لیے زیادہ نظر آتے ہیں کیوں کہ وہاں ایک چیز کے بہت سے پہلوؤں پر گفتگو ہوتی ہے جب کہ عمل کی دنیا میں وہ پہلو یا تو پیش ہی نہیں آتے یا کسی کسی کو کبھی کبھار پیش آتے ہیں، اس لیے کتابوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے عمل میں اختلاف بہت کم ہوتا ہے۔

مسائل میں اختلاف اور رویے میں اعتدال کے اصول کا تقاضا یہ ہے کہ اختلافات جو اپنے حجم میں بہت کم ہیں تو ان کو بہت کم اہمیت دینی چاہیے۔  اتفاق والا حصہ بہت زیادہ ہے تو اتفاق والے حصے کو بہت زیادہ اہمیت ملنی چاہیے۔

رویے کی بے اعتدالی یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان اختلافی امور کا چرچا زیادہ ہو اور اتفاقی امور پر بات بہت کم ہو۔لوگوں کے ذہن میں یہ نہ رہے کہ نماز میں یکسانیت بہت زیادہ ہے اور نہایت چھوٹے فرق ذہن پر حاوی ہو جائیں۔

ہمارے ملک کی بہت سی مسجدوں میں نماز کے بعد سلام پڑھنےکو بہت بڑا مسئلہ بناکر پیش کیا جاتا ہےحالاں کہ نماز میں سبھی لوگ اللہ کے رسول ﷺ پر سلام پڑھتے ہیں۔ اگر یہ دیکھنے کے بجائے کہ نماز بعد کون سلام پڑھتا ہے یہ دیکھا جاتا کہ نماز میں سب لوگ سلام پڑھتے ہیں تو نماز بعد سلام پڑھنا کوئی اہم مسئلہ ہی نہیں رہ جاتا اور سلام پڑھنے والے، اس حوالے سے سہی ایک دوسرے کے ساتھ محبت و احترام سے پیش آتے۔

اختلافی مسئلے میں اختلاف کی گنجائش تسلیم کریں

ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے مسائل میں اختلاف ہے لیکن بہت سے مسائل میں اختلاف نہیں بھی ہے۔ رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدے میں سبحان ربی الأعلی پڑھنے پر سب کا اتفاق ہے۔جب کہ التحیات کے الفاظ میں اس طرح کا اتفاق نہیں پایا جاتا ہےاور اس کی وجہ یہ ہے کہ التحیات کے سلسلے میں مختلف روایتیں ہیں جب کہ تسبیحات کے سلسلے میں ایک ہی عمل منقول ہے۔

با جماعت نماز کی صورت میں امام کو نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنی ہے، اس پر سب کا اتفاق ہے لیکن مقتدی کے بارے میں اختلاف ہے۔ اس مسئلے میں بھی اتفاق وہاں ہے جہاں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے اور جہاں اختلاف کی گنجائش ہے وہاں اختلاف ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اہل علم میں عام طور سے اختلاف وہاں ہوتا ہے جہاں اختلاف کی کچھ نہ کچھ گنجائش ہوتی ہے اور جہاں گنجائش نہیں ہوتی ہے وہاں اختلاف بھی نہیں ہوتا ہے۔

اگر یہ حقیقت سامنے رہے تو اختلافات کے سلسلے میں ہمارے رویے میں نرمی رہے گی۔

تنوع اور تضاد کے درمیان فرق کو سامنے رکھیں

اختلاف دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تضاد کا اختلاف ہوتا ہے جس میں کوئی ایک رائے صحیح اور دوسری غلط ہوتی ہے۔ دوسرا تنوع کا اختلاف ہوتا ہے، جس میں دونوں رائیں درست ہوتی ہیں۔ شراب اور دودھ میں تضاد کا فرق ہے، ایک حرام ہے تو دوسرا حلال، جب کہ دودھ اور شہد میں تنوع کا فرق ہے، دونوں یکساں طور سے حلال ہیں۔ عیسائی خنزیر کو حلال اور مسلمان خنزیر کو حرام مانتے ہیں، یہ تضاد کا اختلاف ہے۔

محققین کا ماننا ہے کہ عبادتوں کے طریقوں سے متعلق جو مختلف صورتیں پائی جاتی ہیں وہ عام طور سے تنوع کی قبیل سے ہیں۔ وہ سب یکساں طور پر سنت ہیں۔ یہ تنوع اس لیے ہے کہ لوگ اپنی پسند سے جو صورت اختیار کرنا چاہیں اختیار کرلیں۔

جو لوگ تنوع اور تضاد کے فرق سے واقف نہیں ہوتے ہیں وہ تنوع کے مسائل میں بھی تضاد والی سختی اختیار کرتے ہیں اور اس طرح دین میں تنگی اور لوگوں میں بے چینی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

محققین کا یہ ماننا ہے کہ نماز کے طریقے میں جو کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں، جیسے رفع یدین اور آمین بالجہر وغیرہ، یہ سب تنوع کی قبیل سے ہیں اور سارے ہی طریقے درست اور سنت کے مطابق ہیں۔ اس بات سے ناواقف ہونے کی وجہ سے امت میں بہت زیادہ تفرقہ نماز کے طریقوں کو لے کر ہوتا ہے۔

اعتدال کا رویہ یہ ہے کہ تنوع کے مسائل میں ہر کوئی دوسرے کی پسند کا احترام کرے اور اپنی پسند کو صحیح اور دوسرے کی پسند کو غلط ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے۔

اختلاف کی نوعیت کو سمجھیں

فقہائے کرام کے درمیان بہت سے اختلافات اصل حکم میں نہیں بلکہ احکام کے مراتب متعین کرنے میں ہوئے ہیں۔ یہ اختلافات تعداد میں بہت زیادہ ہیں لیکن عمل کی دنیا میں ان کا اثر بہت کم نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر اس میں اختلاف ہے کہ وضو میں ترتیب سنت ہے یا نہیں، لیکن ساری دنیا کے مسلمان اسی ایک ترتیب سے وضو کرتے ہیں۔

بغیر تسبیح پڑھے رکوع اور سجدے ہوجائیں گے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ لیکن دنیا بھر کے مسلمان رکوع اور سجدے میں متعین تسبیحات پڑھتے ہیں۔

اگر اصل حکم پر سب لوگ عمل پیرا ہوں تو حکم کے مراتب میں اختلاف کی روز مرہ کی عملی زندگی میں خاص اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ اعتدال کا تقاضا ہے کہ ایسے اختلافات کو اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنے کے وہ مستحق ہیں۔

اختلافات کے انبار کو دیکھ کر پریشان ہونے کے بجائے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہماری روز مرہ کی زندگی میں یہ اختلافات ہمیں درپیش ہوتے ہیں یا کبھی کبھار پیش آتے ہیں۔

مثال کے طور پر ایک مسئلہ یہ ہے کہ وضو کے لیے نیت ضروری ہے یا نہیں۔ علامہ انو رشاہ کشمیری فرماتے ہیں کہ عام حالات میں یہ مسئلہ پیش ہی نہیں آتا ہے۔ آدمی وضو کرتا ہی ہے وضو کی نیت سے۔ یہ مسئلہ اس وقت پیش آئے گا جب کہ کوئی غیر ارادی طور پر بھیگ جائے۔ مثال کے طور پر کوئی جارہا ہے اچانک بارش ہوئی جس میں وہ بھیگ گیا۔ اسی وقت نماز کا وقت ہوگیا تو اس کا بھیگ جانا اس کے لیے وضو کے درجے میں ہوگا یا نہیں۔

ایسے بے شمار اختلافی مسائل ہیں جو کتابوں میں درج ہیں مگر ہماری عملی زندگی میں وہ پیش آتے ہی نہیں ہیں یا پیش آتے بھی ہیں تو بس کبھی کبھار۔ ایسے مسائل کو روز مرہ کی بحث کا موضوع بنانا بے اعتدالی ہے۔

مسلکی عقائد اور دینی عقائد میں فرق کریں

دینی عقائد وہ ہیں جن کی بنا پر انسان دین میں داخل ہوتا ہے اور جنھیں نہ ماننے کی وجہ سے وہ دین سے خارج ہوجاتا ہے۔ مسلکی عقائد وہ نظریات ہیں جو عہد اول کے بعد مختلف مسلک والوں نے اختیار کیے ہیں۔ دین میں رہنے کے لیے مسلکی عقائد کو ماننا ضروری نہیں ہوتا ہے بلکہ جاننا بھی ضروری نہیں ہوتا ہے۔ مسلک سے نکلنے کا مطلب دین سے نکلنا نہیں ہوتا ہے بلکہ صرف مسلک سے نکلنا ہوتا ہے اور اس سے گم راہ ہونے کا الزام سر نہیں آتا ہے۔ ہر زمانے میں بہت سے علمائے کرام ایک مسلک کو چھوڑ کر دوسرے مسلک کو اختیار کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح مسلکی عقائد کی بنا پر ہدایت و گمرہی کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ کی صفات پر ایمان لانے کے بعد صفات کو سمجھنے کے سلسلے میں جو اختلافات واقع ہوئے ہیں وہ مسلکی عقائد کا حصہ ہیں دینی عقائد کا حصہ نہیں ہیں۔ اعتدال کا رویہ یہ ہے کہ ان اختلافات سے پریشان ہونے کے بجائے ان کے سلسلے میں اعتدال کا رویہ اختیار کیا جائے اور انھیں دینی عقائد کی طرح ہدایت و گمرہی کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔

بے ثمر بحثوں سے اجتناب کریں

یونانی فلسفے کے مباحث سے متاثر ہوکر مسلمانوں کے علم کلام میں ایسی بہت سی بحثیں در آئی ہیں جن کا قرآن و سنت میں کوئی ذکر نہیں ہے اور صحابہ کرام کے زمانے میں کوئی وجود نہیں تھا ۔ ان بحثوں میں شدت اس وقت پیدا ہوگئی جب انھیں عقائد کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کی سب سے افسوس ناک مثال خلق قرآن کا مسئلہ ہے۔ امت کی توجہ تو اس پر مرکوز ہونی چاہیے تھی کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل کیا ہوا ہدایت نامہ ہے۔ اس کی روشنی میں دنیا میں سرخ روئی اور آخرت کی کامیابی کی راہیں دریافت کی جاتیں۔ فرد کی ترقی، معاشرے  کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کے عمل میں رہنمائی لی جاتی۔ لیکن پورا ایک زمانہ اس بحث میں مصروف ہوگیا کہ قرآن مخلوق ہے یا مخلوق نہیں ہے۔

ایسے لاحاصل اور بے ثمر اختلافات کے سلسلے میں اعتدال کا رویہ یہ ہے کہ ان سے اجتناب کیا جائے۔

اجتہادی اختلافی مسائل میں نکیر نہ کریں۔

برائی سے روکنا (نہی عن المنکر ) ایک اہم دینی فریضہ ہے جو ہر اس مسلمان پر عائد ہوتا ہے جس کے سامنے برائی کا ارتکاب ہورہا ہو۔ لیکن برائی میں اور اختلافی مسئلے میں فرق کرنا ضروری ہے۔ برائی وہ ہے جسے صاف طور پر اللہ اور اس کے رسولﷺ نے برائی قرار دیا۔ لیکن وہ کام جن کے سلسلے میں لوگوں میں اختلاف ہے، بعض لوگ اپنے اجتہاد سے انھیں غلط سمجھتے ہیں اور بعض اپنے اجتہاد سے انھیں صحیح سمجھتے ہیں، تو غلط سمجھنے والوں کو صحیح سمجھنے والوں پر نکیر نہیں کرنی چاہیے۔ امام سفیان ثوری کا مشہور جملہ ہے: جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ ایک ایسا کام کررہا ہے جس میں اختلاف ہوگیا ہے اور تمھاری رائے اس سے مختلف ہے، تو تم اسے منع مت کرو۔ إذا رأیت الرجل یعمل بعمل قد اختُلِف فیه وأنت ترى غیره فلا تنهه.

اختلافی مسائل میں اعتدال کے رویے کا یہ سب سے اہم پہلو ہے۔ دنیا میں متفق علیہ برائیوں کا ہر طرف غلبہ ہے۔ انھیں روکنے کے بجائے اگر ہم اپنی توانائیاں اختلافی مسائل میں ایک دوسرے پر نکیر پر صرف کریں گے تو اس کے دو بڑے نقصانات ہوں گے۔ ایک نقصان تو یہ کہ ہماری توانائیاں غلط جگہ صرف ہوں گی۔ دوسرا نقصان یہ کہ ہمارے درمیان کے اختلافات نکیر اور نکیر کے رد عمل میں شدت اختیار کرتے جائیں گے۔

علم و تحقیق سے رویے میں اعتدال پیدا ہوتا ہے

اختلافی مسائل میں نکیر کرنے والے عام طور سے وہ لوگ ہوتے ہیں جو مسائل کے اختلاف سے پورے طور سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔

اختلافی مسائل میں ناواقفیت یا ادھوری واقفیت  سے رویے میں سختی اور بے اعتدالی پیدا ہوتی ہے جب کہ مکمل واقفیت سے رویے میں نرمی اور اعتدال پیدا ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص صرف ایک رائے سے واقف ہوتا ہے تو دیگر رایوں کو گم راہی سمجھ بیٹھتا ہے، لیکن جب اسے دوسری رائے اور اس کے دلائل بھی معلوم ہوجاتے ہیں تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ

  • اس مسئلے میں بہت بڑے علمائے کرام کا اختلاف موجود ہے؛
  • اس مسئلے میں دونوں طرف دلائل ہیں؛
  • اس مسئلے میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے، اس لیے اختلاف ہوا ہے؛
  • یہ اجتہادی مسئلہ ہے؛
  • اس مسئلے کا تعلق دین کے اصول سے نہیں فروع سے ہے۔

جب یہ باتیں اسے معلوم ہوتی ہیں تو اس مسئلے کو وہ حق و باطل کا مسئلہ سمجھنا چھوڑ دیتا ہے اور نرمی و رواداری کا رویہ اختیار کرتا ہے۔

مسئلہ اس وقت سنگین ہوجاتا ہے جب عوام تو کجا، علم سے وابستہ افراد بھی ناقص علم پر اکتفا کرلیتے ہیں اور عوام کی صحیح رہنمائی نہیں کرپاتے۔

قدیم ورثے کے سلسلے میں بے اعتدالی

قدیم علمی ورثے کے سلسلے میں بے اعتدالی اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ آدمی کسی ایک مسلک کو حق اور باقی مسلکوں کو باطل سمجھ لیتا ہے۔ مختلف مسلکوں کے ماننے والوں کے درمیان بے اعتدالی کی یہ صورت ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں امت کا علمی ورثہ گروہوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں مسلکِ اعتدال یہ ہے کہ دین اور امت سے تعلق کو مسلکی نسبتوں پر غالب کیا جائے اور مسلک سے زیادہ دین اور امت کو اہمیت دی جائے۔ دورِ حاضر کے ایک بزرگ مولانا محمدسالم قاسمیؒ  کی یہ بات آبِ زر سے لکھی جانے لائق ہےکہ ’’فقہی مذہب قابل تبلیغ نہیں ہوتا صرف قابل ترجیح ہوتا ہے‘‘ لیکن جب لوگوں نے دین کی تبلیغ کے بجائے مسلک کی تبلیغ شروع کردی تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ مولانا قاسمیؒ کے الفاظ میں:

’’اس انحطاط کے نتیجہ میں ایک ذہنیت یہ پیدا ہوئی کہ لوگ دین سے اتر کر مذہب پر آئے، مذہب سے اتر کر مسلک پر آئے اور آج انتہائی انحطاط علمی یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ مشرب جو محض ذوقی چیز ہے انہوں نے مسلک کا قائم مقام مشرب تک کو بنا رکھا ہے، اور اس کی تبلیغ بھی شروع کردی۔ بالفاظ دیگر مسلک سے بھی نیچے اتر کر انہوں نے اپنی ذوقی چیز کو دنیا کے سامنے بطور دین پیش کرنا شروع کردیا ہے۔‘‘

جدید رایوں کے سلسلے میں بے اعتدالی

اجتہاد کے سفر کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔ اسے ہمیشہ جاری و ساری رہنا چاہیے۔ البتہ اجتہاد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی نئی رایوں کے سلسلے میں اعتدال کا موقف اختیار کرنا چاہیے۔

اس حوالے سے ایک بے اعتدالی یہ ہے کہ ہر نئی رائے کو شجر ممنوعہ کی طرح فورًا مسترد کردیا جائے اور دوسری بے اعتدالی یہ ہے کہ ہر نئی رائے کو آنکھ بند کرکے فورًا قبول کرلیا جائے۔ اعتدال کی راہ یہ ہے کہ ردّ و قبول میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔ ہر نئی رائے پر خوب سیر حاصل گفتگو کی جائے، مختلف سطحوں پر مباحثہ کیا جائے اور ہر پہلو سے اطمینان کرلینے کے بعد اسے قبول کیا جائے یا رد کردیا جائے۔ نہ قبول کرنے میں جلد بازی دکھائی جائے اور نہ رد کرنے میں جذباتیت سے کام لیا جائے۔ نہ روایت پرستی کا غلبہ ہو کہ کسی نئی رائے کے لیے گنجائش ہی نہ رکھی جائے اور نہ جدت پرستی حاوی ہو کہ قدیم ورثے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور صدیوں پر مشتمل علمی تحقیقات کی کوئی قدر نہ رہے۔

قبول کرنے والے رد کرنے والوں کی رائے کا احترام کریں اور رد کرنے والے قبول کرنے والوں کی رائے کا احترام کریں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے ردّ و قبول کا حق تسلیم کریں۔

پرانی رایوں سے اختلاف کرنے اور نئی رائے پیش کرنے والوں کو بھی اعتدال کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ وہ علمائے سلف  کا احترام کرتے ہوئے ان کی رایوں سے اختلاف کریں۔ اپنی نئی رائے کے سلسلے میں حتمیت کالہجہ اختیار نہ کریں کہ ان کی رائے حتمی طور سے درست اور علمائے سلف کی رائے حتمی طور سے غلط ہے۔ بلکہ علمی تواضع اور خاکساری کے ساتھ اپنی رائے دلائل سے آراستہ کرکے  پیش کریں اور لوگوں کو زورِ بیان سے نہیں بلکہ دلائل کی قوت سے قائل کرنے کا سامان کریں۔

دل اپنا کام کرے دماغ اپنا کام کرے

عقل کا کام غور وفکر اور بحث وتحقیق ہے۔ عقل اپنا کام کرے گی تو کچھ نہ کچھ اختلاف رائے ضرور ہوگا۔ عقل کو اختلاف کے اندیشوں سے آزاد ہوکر اپنا کام خوب کرنا چاہیے۔ تبھی علم کا سفر آگے بڑھ سکے گا۔ البتہ دل کا کام محبت کرنا ہے ، اسے محبت میں کوئی کمی نہیں کرنی چاہیے۔ دو اہل علم میں اختلاف ہو، مگر ان کے درمیان محبت ہو اور ان دونوں کے چاہنے والوں کے درمیان بھی محبت ہو تو یہ رویے کا بہت حسین اعتدال ہے۔

زر بن حبیش اور ابو وائل شقیق بن سلمة دو جلیل القدر تابعی تھے۔ان کے شاگرد سلیمان بن مہران اعمش تھے۔ وہ بھی تابعی تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان دونوں بزرگوں کا زمانہ پایا۔ ایک کو عثمان علی سے زیادہ محبوب تھے تو دوسرے کو علی عثمان سے زیادہ محبوب تھے، اور (اس اختلاف رائے کے باوجود) وہ آپس میں بے انتہا محبت و الفت کے ساتھ رہتے تھے۔ عن الأعمش قال: ” أدركت أشیاخنا زراً وأبا وائل فمنهم من عثمان أحب إلیه من علی، ومنهم من علی أحب إلیه من عثمان، وكانوا أشد شیءٍ تحاباً وتواداً ” (سیر اعلام النبلاء)یہ تو جذباتی اختلاف کی بات تھی، علمی اختلافات کا معاملہ بھی یہی ہونا چاہیے۔

یونس صدفی امام شافعی کے ہم عصر تھے۔ وہ کہتے ہیں : میں نے شافعی سے زیادہ سمجھ دار انسان نہیں دیکھا۔ ایک دن میں نے ان کے ساتھ ایک مسئلے میں مناظرہ کیا۔ پھر ہم جدا ہوگئے۔ اس کے بعد ایک دن ہماری ملاقات ہوئی تو انھوں نے میرا ہاتھ تھاما اور کہا: ابو موسی کیا یہ اچھی بات نہیں ہوگی کہ ہم کسی ایک بھی مسئلے میں باہم متفق نہ ہوں  پھر بھی دوست بن کر رہیں۔ (سیر اعلام النبلاء)

اختلافِ رائے ہو، آپس میں خوب بحثیں بھی ہوں، اس کے بعد بھی دل میں کسی قسم کا میل نہ آئے اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی محبت فروعی مسائل میں اختلاف سے ذرا متاثر نہ ہو، یہی رویے کا اعتدال ہے جس کے ہوتے ہزاروں علمی اختلافات بھی امت کے شیرازے کو کم زور نہیں کر سکتے۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2025

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2025

Dec 25شمارہ پڑھیں

نومبر 2025

Novشمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223