محترم ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی صاحب کا مقالہ ’’مقصد تخلیق اور مقاصد شریعت‘‘ جو ماہنامہ ’زندگیٔ نو‘ اپریل ۲۰۱۵ء میں شائع ہوا ہے سنجیدہ غوروفکر کا مستحق ہے۔ اس بحث میں خاص طور پر تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کو ضرور حصہ لینا چاہئے اور دلچسپی کے ساتھ حصہ لینا چاہئے کہ ایسی بحثوں سے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور غوروفکر کی عادت پڑتی ہے۔
موصوف مقالہ نگار کی اس بات سے صد فی صد اتفاق کرتا ہوں کہ انسانوں کی تخلیق کا مقصد امتحان و آزمائش ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ امتحان و آزمائش کے لیے آزادیٔ اختیار ضروری ہے اوریہ تحریر بھی صد فی صد صحیح ہے کہ ’’شریعتیں بھی امتحان و آزمائش کے لیے دی جاتی ہیں‘‘ اور یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ ’’عبادت وہی معتبر ہے جو شریعت کے مطابق ہو۔
لیکن مقاصد شریعت اور مقصد تخلیق میں کیا فرق ہے اسے اچھی طرح واضح کئے بغیر مقصد تخلیق کے تقاضوں کو مقاصد شریعت کے تقاضوں پر مقدم رکھنے کی ترغیب دینا اور قرآن وسنت سے ثابت کئے بغیر اس کو اصولی حیثیت دے دینا درست نہیں ہے۔ اور کسی بات کو نصوص میں موجود نہ پاکر عقل و فطرت کی آواز کا سہارا لینے کی ہدایت دینا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا کہ آزمائش میں کامیابی کے لیے زندگی کے ہر موڑ پر وہ راستہ اختیار کرنا ہے جو خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔
عقل و فطرت کی آواز اور خواہش نفس میں تمیز ہر شخص نہیں کرسکتا یہاں غلطی کا امکان زیادہ ہے۔ جب کسی کے ذہن پر ایک ہی بات ہجوم کرکے آتی ہے تو حق وفطرت کی آواز کو دبا دیتی ہے۔ حضرت آدم ؑ کے ساتھ جنت میں ایسا ہی کچھ ہوا تھا، شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس سے ہوشیار رہنا اور اس درخت کے قریب نہ جانا اللہ تعالیٰ کی ہدایات یاد ہونے کے باوجود انہیں ابلیس کا مشورہ درست معلوم ہوا تھا، اس نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس درخت کا پھل کھانے سے تم دونوں کو اس لیے روکا ہے کہ تم پھل کھاکر یہیں کے مکین بن جائوگے اگر نہیں کھائوگے تو اللہ تعالیٰ کا منصوبہ مجھے معلوم ہے وہ تمہیں یہاں سے باہر بھیجنے والا ہے اور میں تمہارا ہمدرد ہوں۔
اور مقالہ نگار کی یہ تحریر قرآن وسنت کے متعلق تضاد فکری کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ لکھتے ہیں:
’’چونکہ قرآن وسنت میں دی گئی ہدایات محدود ہیں اور وہ مواقع لامحدود ہیں جن میں ہدایت درکار ہوتی ہے لہٰذا اجتہاد سے مفر نہیں ہر مسلمان کو کوشش کرنا چاہئے کہ پیش آمدہ مسائل میں اللہ تعالیٰ کی مرضی معلوم کرے۔ اسی کوشش کا نام اجتہاد ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے رسول ؐ نے صحابہ کرامؓ کو سختی سے ہدایت کی تھی، کہ دیکھو میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہوگے تو گمراہ نہیں ہوگے پہلی چیز قرآن ہے اور دوسری ہماری سنت ہے۔ اور یہاں قرآن وسنت کو نئے نئے مسائل کے انبار کے سامنے محدود بتایا جارہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وسنت کو چھوڑ کر بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی معلوم کرنے کے ذرائع موجود ہیں، شاید موصوف مقالہ نگار کا اشارہ عقل انسانی کی طرف ہے۔ صاف صاف کہنے سے کوئی چیز موصوف کو روک رہی ہے۔ ہدایات کو محدود بتاکر اگلے ہی صفحہ ۴۹ پر خود قرآن کی طرف پلٹتے ہیں اور سورہ بقرہ آیت: ۳۸ اور سورہ جاثیہ آیت: ۱۸ پیش کرتے ہیں جو ان کی فکر کے خلاف ہے۔ ان کی تحریر کے خلاف ہے ۔ سورہ البقرہ ،آیت: ۳۸ جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو زمین پر رخصت کرتے وقت کہا تھا:
’’ہم نے کہا تم سب یہاں سے اترجائو، پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تم تک پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں رہے گا‘‘۔
اس کے نیچے سورہ جاثیہ آیت: ۱۸ بھی درج ہے ۔ ترجمہ اس طرح ہے:
’’اس کے بعد اے نبیؐ ہم نے تم کو ایک صاف شاہ راہ (شریعت) پر قائم کیا ، لہٰذا تم اس پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے‘‘۔
دونوں سورتوں کی آیات بتا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات تمام انسانوں تک پہنچ جائیں گی ۔ سورہ جاثیہ کی آیت اور واضح ہے کہ تم ہی میں سے ایک انسان کو واضح رہنمائی کے ساتھ تمہارے درمیان قائم کردیا ہے۔ یہ آیات اس بات کی گارنٹی دے رہی ہیں کہ قرآن وسنت میں قیامت تک کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اندھیرے میںبھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا ہے…….۔
’’اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔ قرآن میں یہ بات کئی جگہ آئی ہے ۔ یہ جملہ قرآن میں جگہ جگہ یوں ہی بھرتی کے الفاظ نہیں ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس کاایک مطلب یہ بھی ہے کہ خالق کائنات نے جو کچھ تخلیق کیا ہے ان سب سے اچھی طرح واقف ہے ۔ کائنات میں اور انسانی سماج میں جو بھی تبدیلی آتی ہے اسی کے اذن سے آتی ہے غیر متوقع طور پر اس کی بادشاہت میں کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ہر تبدیلی اسی کے اشارے پر آتی ہے ۔ اگر انسانی سماج میں نئے مسائل آئیں گے تو اسی کے اذن سے آئیں گے ۔ کوئی ایسا مسئلہ آہی نہیں سکتا جس کاحل قرآن وسنت میں پہلے سے موجود نہ ہو ۔ لیکن مسئلہ پیدا ہونے سے پہلے قرآن وسنت میں حل انسان کو نظر نہیں آئے گا ۔ ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جو اس بات کو اچھی طرح واضح کردے گا۔ ایک دن حضرت عمر خانۂ کعبہ کا طواف کر رہےتھے ایک شخص نے ان سے پوچھا امیرالمؤمنین جب بے شمار انسان خانہ کعبہ کا طواف کریں گے اس وقت حجر اسود کا استلام تو مشکل ہوجائے گا اس وقت کیا کیا جائے گا؟ حضرت عمرؓ نے بڑی ناگواری کے ساتھ سائل کو جواب دیا کہ اس وقت کی اس وقت سوچیں گے ابھی جاکر استلام کرو اور حجر اسود کو بوسہ دو۔ یعنی تصوراتی مسائل کھڑے کرکے پریشان ہونا ایک سچے پکے مسلم کا شیوہ نہیں ہے وہ تو اللہ اوررسول پر بھروسا کرکے زندگی جنت کے بدلے اللہ سے بیچ کر شکر گزار بندہ بن کر زندگی کے امتحان میں منہمک رہتا ہے۔
اور یہ بات غوروفکر کی مستحق ہے کہ جب مقصد تخلیق امتحان و آزمائش ہے تو امتحان لینے والا ایک ہی طرح کے سوال کو ہر انسان کے سامنے دہراتا رہے گا؟ جبکہ اسے معلوم ہے کہ انسان تاریخی ریکارڈ رکھتا ہے تو سوچناچاہئے کہ ایک اسکول ٹیچر جب بھی سوال نامہ تیار کرتا ہے تو پرانا سوال کبھی نہیں دہرانا چاہتا اور نصاب کے دائرے کے اندر کا ہی سوال کرتا ہے ایسا کبھی نہیں کرتا کہ جو کچھ نہیں پڑھایا ہو وہاں سے سوال کرے پھر بھی یہ بات مشاہدے میں آتی رہی ہے کہ کالج کے طلبہ نے امتحان دینے سے انکار کیا ہے اور احتجاج کیا ہے کہ سوال نامہ غلط ہے یعنی جتنا بڑھایا گیا تھا اس کے اندر کا نہیں ہے بلکہ آگے کا ہے۔ اسکول اور کالج کے ٹیچر سے یہ چوک ممکن ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات تمام طرح کی کمزوریوں سے پاک ہے۔ ہدایات محدود اور ہدایت کے مواقع لامحدود کا شکوہ بجا نہیں ہے۔
مقصدتخلیق اور مقاصد شریعت میں کیا فرق ہے؟
انسان کو اللہ تعالیٰ نے عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور عبادت وہی مقبول بارگاہ ہوگی جو شریعت کے مطابق کی گئی ہوگی جس کو قرآن عمل صالح کہتا ہے اور آزمائش اس بات کی ہے کہ انسان اللہ کو بغیر دیکھے الٰہ تسلیم کرتا ہے کہ نہیں صرف زبانی اقرار کافی نہیں ہے جبکہ وہ دلوں تک کا حال جاننے والا ہے اس نے قرآن حکیم میں صاف صاف کہہ دیا ہے:
’’کیا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ا ن کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو تو ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون‘‘۔ (سورہ العنکبوت، آیت: ۲۔۳)
آخرت میں عمل کا اعتبار ہوگا جو عمل اللہ تعالیٰ کی مرضی (شریعت) کے مطابق کیا گیا ہوگا وہی عمل عمل صالح شمار ہوگا۔ تحریکی افراد کو اندازہے کہ تمام فرائض میں سب سے بھاری اور مشکل کام شہادت حق اور اقامت دین کا فریضہ ہے اس میں بڑی آزمائش ہے اور بھی بہت سارے احکام انسان کی آزمائش کے لیے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ انسان کی آزمائش کرتا ہے اور شریعت کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہے اگر یہ بات انسان کی سمجھ میں آجائے تو آزمائش سے گزرنا آسان ہوجاتا ہے اور بندہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا سچا شکر گزار بندہ بن کے رہتا ہے کسی طرح کا شکوہ زبان پر نہیں لاتا۔
فاضل مقالہ نگار نے یہ نہیں بتایا کہ تخلیق اور شریعت کے تقاضے مختلف کیسے ہوسکتے ہیں۔ فاضل مقالہ نگار کی تحریر سے صفحہ ۴۸ کاایک پیرا گراف نقل کرتا ہوں پھر اس کا تجزیہ انشاء اللہ پیش کروں گا۔ محترم تحریر فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو آزمانے کے لیے امتحان گاہ دنیا میں بھیجا تو ان کو عدل پر قائم رہنے اور عدل قائم رکھنے کی تاکید کی اور عدل کی راہ دکھانے کے لیے پیغمبروں کا سلسلہ قائم کیا۔ شریعت ان تعلیمات کا مجموعہ ہے جو عدل پر قائم رہنے اور عدل قائم رکھنے کے لیے دی گئی ہیں۔ مقصد تخلیق اور مقاصد شریعت کا باہمی تعلق اہمیت کا حامل ہے ۔ انسانوں کی فلاح اس میں ہے کہ عدل قائم ہواور قائم رہے۔ کیسے؟ اس طرح کہ انسانوں کے امتحان کا کام بھی جاری رہے ۔ نظری طور پر اس بات کا امکان پایاجاتا ہے کہ مقاصد شریعت کی تحصیل اس طرح کی جائے کہ مقصد تخلیق یعنی امتحان و آزمائش کے کام میں خلل پڑے یا یہ کام معطل ہوجائے، مثال کے طور پر اگر کسی انسان یا انسانی گروہ پر شریعت جبراً نافذ کی جائے، بعیر اس کے کہ اس نے شریعت کو قبول کیا ہو، تو ظاہر ہے کہ اسے امتحان نہیں کہا جاسکتا۔ مقصد تخلیق فوت ہوجائے گا۔
موصوف مقالہ نگار کی مندرجہ بالا تحریر مغالطہ آمیز ہے ۔ شروعات ہی قرآن کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو امتحان گاہ دنیا میں بھیجا تو یہ کہا تھا جسے موصوف نے بھی صفحہ ۴۹ پر کوٹ کیا ہے:
’’ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جائو پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تم تک پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں رہے گا‘‘۔ (سورہ بقرہ: ۳۸)
یعنی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی تاکید کی تھی اور موصوف نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ مغالطہ آمیز ہے، عدل انصاف کو عربی میں حق اور حقیقت کی جگہ نہیں استعمال کرتے ہیں عربی لغت میں عدل کے اصل معنی ہیں برابر پرتقسیم کرنا لفظ انصاف بھی نصف نصف کو کہتے ہیں۔ بہرحال ہدایت حضرت آدم ؑ کے زمین پر اترنے کے بعد اتری تھی ساتھ ساتھ نہیں آئی تھی یا ہدایت علم اشیاء کی طرح حضرت آدم ؑ کے خمیر میں موجود نہیں تھی بلکہ وہ ہدایت کے محتاج بناکر بھیجے گئے تھے اور تمام انسان بھی قیامت تک اسی طرح آتے رہیں گے۔
موصوف مقالہ نگار کے نزدیک مقصد تخلیق یعنی آزمائش کے لیے آزادی ضروری ہے۔ یہ بات صحیح ہے لیکن ناکافی ہے۔ قرآن حکیم نے خود مسلمانوں کو ہدایت کی ہے : لَااِکْرَاہَ فِی الدِّین کے معاملے میں کوئی زورزبردستی نہیں ہے ۔ انسانوں کو یہ آزادی اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور آزمائش یا امتحان آزادی دیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن کیا کسی شخص یا گروہ کو یہ آزادی ملنی چاہیے کہ وہ کسی انسانی یا گروہ کی آزادی سلب کرلیں ، ظاہر ہے کہ اس کا جواب یہی ہوگا کہ — نہیں۔ فرد ہو یا گروہ سب کو یہ آزادی برابر برابر ملنی چاہیے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق بھی عقیدہ یا مذہب یا طریقہ چاہیں اختیار کریں لیکن اس تحریر میں یہ بات نظرانداز ہوگئی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو آزادی دی ہے وہ محدود ہے مطلق آزادی نہیں دی ہے۔ اسلام کی نظر میں ایسا شخص یا گروہ مجرم ہیںجو اپنی طاقت کے بل پر انسانو ںکو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی آزادی سے محروم کرتے ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف اپنا حکم چلاتے ہیں یہ کائنات اور یہ زمین اور اس میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور یہاں بسنے والا انسان اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے کسی انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ ان پر اپنا حکم چلائے۔
ابلیس کو بھی اللہ تعالیٰ نے مشورہ دیا تھا یاہدایت نہیں دی تھی کہ تم میرے بندوں کے ساتھ زبردستی کرنے سے پرہیز کروگے نہیںبلکہ یوں کہا تھا کہ تو میرے بندوں کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکے گا اور قیامت تک کے لیے مہلت دے دی تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ ابلیس سے زبردستی کرنے کی طاقت سلب کرلی گئی تھی چھین لی گئی تھی تب ہی وہ قیامت کے بعد مجرم بندوں کو یہ جواب دیتے سنا اور دیکھا جائے گا کہ تم اپنی کرتوت کی وجہ سے اس حال کو پہنچے ہو ۔ ہمارا تم پر کوئی زور نہیں چلتا تھا کہ تم ہم پر اپنی بدبختی کاالزام رکھتے ہو۔
اب تک بزرگ محترم ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی صاحب کا کوئی مقالہ ایسا نہیں گزرا جس میں بدلتے ہوئے حالات اور نئے نئے معاملات و مسائل اور معاذ بن جبل والی حدیث اس میں نہ ہو اور اجتہادپر زور نہ دیاگیا ہو۔
ہماری سمجھ سے اس کے پیچھے یہ ذہن کارفرما ہے کہ قرآن وسنت زمانے کی تیز رفتاری کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اس سلسلے میں اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ جدہ ایئرپورٹ سے بوئنگ ۴۷۴ ایک بہت بڑے جہاز سے کلکتہ واپس آرہا تھا دن کا وقت تھا ہماری سیٹ کھڑکی کے پاس تھی۔ چند منٹوں میں جہازچھتیس ہزار فٹ کی بلندی پر محو پرواز تھا۔ فضا بالکل صاف ستھری تھی ، کھڑکی سے زمین نظر آرہی تھی سب کچھ چھوٹا چھوٹا نظر آرہا تھا اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جہاز سائیکل کی رفتار سے دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہے ۔ ٹی وی اسکرین پر خبرآرہی تھی کہ جہاز اتنی بلندی پر ہے اورجہاز عرب امارات ، ایران کراچی گوا ہوتے ہوئے احمد آباد جمشید پور کے راستے کلکتہ پانچ گھنٹوں میں پانچ ہزار کلو میٹر کا سفر کرے گا یعنی جہاز ایک ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کے حساب سے اڑ رہا تھا۔ لیکن سب سے تعجب خیز بات یہ تھی کہ جہاز سے زمین کی سطح بہت آہستگی سے گزر رہی تھی نظر بتا رہی تھی کہ جہاز پانچ کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے اڑ رہا ہے اور خبر آرہی تھی کہ جہاز ایک ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے اپنی منزل کی طرف محو پرواز ہے۔ پانچ گھنٹے بعد معلوم ہوا کہ وہ نظر کا دھوکا تھا خبر صحیح تھی اور کلکتہ پہنچ کر خبر کی تصدیق ہوگئی کہ ۵۳۰۸کلو میٹر کا سفر طے کرکے ہم پانچ گھنٹے بعد کلکتہ ایئر پورٹ پر اترچکے تھے۔
شاید کچھ ایسی ہی صورتحال سے بزرگ محترم گزر رہے ہیں جس کی وجہ سے زمانہ تیز رفتار اور مسائل بے شمار اور ہرمنٹ تبدیلی ہوتا جہاں اور مسائل کا حل منجمد اور فرسودہ دکھائی دے رہا ہو اور تازہ ہدایت کا کوئی امکان بھی محال ہو چونکہ نبوت اور وحی کا سلسلہ بھی بند ہوچکا ہے۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2015