اس سے پہلے ہم نے اختلافی مسائل پر کچھ عمومی گفتگو کی تھی، اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ہم اس پر گفتگو کریں گے کہ معاصر اسلامی تحریکات کا تنظیمی لحاظ سے ایک سے زیادہ ہونا شریعت کے احکام و مقاصد سے ہم آہنگ ہے یا ان کے خلاف ہے۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ اس تعدد کے اسلامی تحریک کے سفر پر کس طرح کے منفی یا مثبت اثرات واقع ہوتے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ مختلف ملکوں میں اور مختلف جماعتوں کی صورت میں اسلامی تحریک کے درمیان اعتقاد یا مرجعیت کا کوئی قابل ذکر اختلاف نہیں ہے۔ سب کا عقیدہ ایک ہے اور سب کا مرجع کتاب وسنت ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ پھر وہ کون سے اختلافات ہیں جو اسلامی تحریک کی صفوں میں پائے جاتے ہیں اور جن کا عکس یا نتیجہ تنظیمی تعدد کی صورت میں سامنے آتا ہے؟ اس تعدد کے اثرات کیا ہوتے ہیں؟ اور ان کے بارے میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے؟
پہلی صورت: ہم آہنگی کے ساتھ اختلاف
کچھ اسلامی جماعتیں ایسی ہیں کہ باہمی اختلاف اور تنظیمی تعدد کے باوجود ان کے درمیان محبت، مفاہمت، تعاون اور رابطے کے تعلقات کا دور دورہ رہتا ہے۔ تعدد کی اس شکل کے پیچھے اگر غیر صحت مند محرکات نہ ہوں اور یہ تعدد برجستہ انداز سے وجود میں آیا ہو، یا اس کی پشت پر معتبر مصالح ہوں، جیسے یہ کہ اصلاح و دعوت کے ان کے الگ الگ مخصوص میدان ہوں یا اصلاح و دعوت کے طریقوں اور وسائل میں ان کے درمیان اختلاف ہو یا ملکوں اور علاقوں کے فرق اور دوری کی وجہ سے یہ تعدد ضروری قرار پایا ہو، تو یقینًا اس طرح کا تعدد جائز ہے۔یہ تعدد خیر اور اصلاح کے کاموں کو بڑھ چڑھ کرکرنے کے جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ اقدامی جذبہ تمام اہل اسلام کے دلوں میں موج زن ہونا چاہیے۔
یہ وہ تعدد ہے جو مسلمانوں کی اخوت ووحدت کی عمارت کو ڈھاتا نہیں ہے بلکہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ کیوں کہ اس میں ایک دوسرے کو تقویت پہنچانے، ایک دوسرے کو سہارا دینے، ایک دوسرے کو سمجھنے اورباہم تعاون کرنے کا جذبہ شامل ہوتا ہے۔ اس جذبے کے ساتھ ہر ایک کا اپنا محاذ، اپنے پروگرام، اپنی کوششیں اور اپنے حالات ہوتے ہیں۔ اس کیفیت سے دل برداشتہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو تنگ نظری کا شکار ہوتے ہیں۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک عابد صاحب نے امام مالک کو خط لکھ کر نصیحت کی کہ تنہائی والی زندگی اختیار کیجیے اور لوگوں کے ساتھ مجلس سجانا کرنا ترک کردیجیے۔ امام مالک نے انھیں جواب دیا: اللہ نے اپنے بندوں کے درمیان جس طرح رزق تقسیم کیا ہے اسی طرح اعمال بھی تقسیم کردیے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کو (نفل) نمازوں کی توفیق ملتی ہو اور (نفل ) روزوں کی توفیق نہ ملتی ہو، جب کہ کسی کو روزوں کی توفیق ملے اور نمازوں کی توفیق نہ ملے، اسی طرح اور بھی چیزیں ہیں، (امام مالک نے ایسی کئی چیزوں کا ذکر کیا) پھر کہا: مجھے نہیں لگتا کہ آپ جس حال میں ہیں وہ اس حال سے بہتر ہے جس حال میں میں ہوں۔ اللہ نے چاہا تو ہم دونوں ہی خیر کے راستے پر ہیں، والسلام (المقدمات الممھدات، ابن رشد الجد)
افراد میں اور ان کی صلاحیتوں اور دل چسپیوں میں اس طرح کا فرق کبھی اجتماعی ہیئتوں اور اجتماعی ارادوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، خواہ یہ اہداف اور تخصصات کی سطح پر ہو یا وسائل اور راہوں کے حوالے سے ہو۔ اگر ہم اپنی موجودہ صورت حال سامنے رکھیں، تو دیکھیں گے کہ جس اسلامی تبدیلی کا ہم خواب دیکھتے ہیں، اسے حد سے زیادہ پیچیدہ حالات، بہت گہری جڑیں رکھنے والے مصائب اور معاشرے کی رگوں میں سرایت بگاڑ کی خطرناک شکلیں درپیش ہیں۔ اس پر مزید وہ دشمن اور مخالفین جن کے امکانات، منصوبوں اور سرگرمیوں کا ہم تصور تک نہیں کرپاتے۔ {وَآخَرِینَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ یعْلَمُهُمْ} [الأنفال: 60] اس صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ تمام ممکنہ راستوں کو اختیار کیا جائے، تمام موثر طریقوں کو آزمایا جائے اور تمام میسر وسائل کو کام میں لایا جائے۔ جس تبدیلی کا ہم خواب دیکھ رہے ہیں وہ کسی ایک متعین چیز کی تبدیلی، کسی ایک خرابی کی درستی، کسی ایک سماجی مصیبت کا ازالہ یا کسی ایک نفسی مرض کا علاج نہیں ہے۔ اس کے پیش نظر کسی عسکری شکست، کسی معاشی بحران یا کسی سیاسی مشکل سے نپٹنا نہیں ہے۔ تبدیلی کے اس خواب میں یہ اور ان جیسے تمام دیگر امور کا سامنا کرنا اور علاج کرنا شامل ہے۔ اسلامی تحریک ایسے بے حساب چیلنجوں کا دن رات اور خفیہ و علانیہ سامنا کرتی ہے۔ اس ماحول میں جہاں ہر طرف سے جنگ برپا اور ہر جانب مکر و فریب کی چالیں ہیں۔
پھر یہ بھی سوچیں کہ دعوت واصلاح کے جو طریقے عملًااختیار کیے گئے ہیں وہ متعدد ہیں۔ یہ ایک واقعاتی حقیقت ہے جو سدا باقی رہے گی۔ اس تعدد کا ایک سبب یہ ہے کہ ہر طریقے کے مجرب فائدے اور حاصل شدہ ثمرات ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ تبدیلی کے ان طریقوں کو اس طرح برقرار رہنے دیں کہ وہ ایک دوسرے کے لیے قوت اور کمال کا ذریعہ بنیں۔ یہ مصلحت کے خلاف ہے کہ ہم کسی ایسے طریقے کو بے فیض قرار دینے کی کوشش کریں جس کا فائدہ تجربے سے ثابت ہوچکا ہو اور جس کے ثمرات حاصل کیے جاچکے ہوں، چاہے دوسرا کوئی طریقہ اس سے زیادہ نفع بخش اور ثمر آور کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ ہر طریقے کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے جو دوسرا انجام نہیں دے سکتا اور اس لیے بھی کہ ہر شخص کا ایک کردار ہوتا ہے جس میں دوسرا ماہر نہیں ہوسکتا۔ ہمیں منع کیا گیا ہے کہ کسی نیکی کو معمولی نہ سمجھیں اور اس سے بھی روکا گیا ہے کہ لوگوں کی چیزیں کم کریں۔
اس لیے، مثال کے طور پر جو لوگ تربیتی اور تعلیمی اصلاح کا راستہ اختیار کریں اور نمونے کی تعلیم گاہیں قائم کریں اور ان کی توسیع وترقی میں خود کو جھونک دیں، یا جو لوگ اللہ کے گھروں کو علم اور وعظ و تربیت سے آباد کریں، تو اس میں شک نہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کررہے ہیں اور اصلاح و تبدیلی کے کاز میں اپنا کردار انجام دے رہے ہیں۔
اور جو لوگ ہمہ گیر کام کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور متعدد محاذوں اور میدانوں میں کام کا منصوبہ رکھتے ہیں تو وہ مفید تر اور موزوں تر ہوسکتے ہیں اگر اس راستے کا حق ادا کردیں۔
اور جو لوگ عوامی اور سرکاری اداروں اور مناصب کے راستے سے کام کرتے ہیں، ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان اداروں پر اثر انداز ہوں، ان کی اصلاح کریں اور ان سے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا کام لیں تو ان کا راستہ بھی جائز اور حکیمانہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اس راستے سے وہ کچھ حاصل کرلیں جو دوسرے کسی راستے سے حاصل نہ ہوسکے۔
جن لوگوں نے راست کشمکش کا راستہ اختیار کیا، ان کے حالات اس راستے کو ضروری قرار دے رہے تھے اور انھوں نے اس راہ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا، حالات کا صحیح تجزیہ کیا اور اس راہ کی شرطوں کو پورا کیا تو یہ بھی وہ حق ہے جس پر جم جانے اور صبر کی تلقین کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے، ایمان کی شوکت اور باطل پر ایمان کے غلبے کا ظہور اس راستے سے بھی ہوتا ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حالات وامکانات چند محدود کاموں کی اجازت ہی دیتے ہیں۔ جیسے خدمت خلق کا کام، قرآن کی تعلیم و تحفیظ کا اہتمام۔ بعض لوگ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ کسی ایک کام پر اکتفا کرنا اس کام کو بہتر طریقے سے کرنے اور اسے برقرار رکھنے اور ترقی دینے کے لیے ضروری ہے۔ اگر اس طرح کے اسباب پیش نظر ہوں تو یہ محدودیت بھی جائز ہے۔
اگر اس بنیاد پر اور اس طرح کے اعتبارات پر اختلاف اور تعدد پایا جائے تو یہ جائز ہے، شرط یہ ہے مسلمانوں کی وحدت و اخوت کے مظاہر کی حفاظت کی جائے۔ آپس میں محبت، رابطہ، تعاون اور ضرورت کے وقت سہارا بننے کی فضا ہو۔
دوسری صورت: علاحدگی کے ساتھ تعدد
میری مراد یہ ہے کہ میدان عمل میں متعدد جماعتیں سرگرم ہوں اور ہر جماعت اپنے خول میں بند رہے، اپنے کام سے کام رکھے اور دوسری مسلم جماعت یا جماعتوں سے نہ کوئی رابطہ رکھے نہ باہمی مشاورت کرے اور نہ کسی طرح کا تعاون روا رکھے۔ غرض یہ کہ ارادی یا غیر ارادی طور پر قطع تعلق کا سماں ہو۔
یہ کیفیت جائز نہیں ہے، سوائے اس کے کہ کوئی استثنائی نوعیت کی مجبوری ہو۔ کیوں کہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں تفرقہ ہوتا ہے، ان کارشتہ اخوت کم زور ہوتا ہے اور ان کی وحدت تعطل کا شکار ہوتی ہے۔ اس قطع تعلقی کا گناہ ہر اس جماعت کے سر جائے گا جو اس روش پر راضی اور اس سے وابستہ رہے۔ ایسی صورت میں فرض یہ ہے کہ تعدد کی پہلی صورت کو اختیار کرنے کی کوشش کی جائے قبل اس کے کہ یہ حالت تیسری صورت تک پہنچادے۔
تیسری صورت: دشمنی اور کشمکش کے ساتھ تعدد
یہ تعدد کی بدترین صورت ہے۔ اس صورت میں ایسی جماعتیں پائی جاتی ہیں جن کے درمیان باہمی دشمنی اور کشمکش کی فضا ہوتی ہے۔ ان پر تفرقہ اور گروہ بندی والے اختلاف کی صفت صادق آتی ہے۔ { إِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَهُمْ وَكَانُوا شِیعًا } [الأنعام: 159] اس طرح کی جماعتوں کے درمیان جو دشمنی ہوتی ہے، گراوٹ کے اعتبار سے اس کی کئی سطحیں ہوتی ہیں، اور یہ سب شرعی حرمت اور وعید کے دائرے میں آتی ہیں۔
ایک سطح یہ ہے کہ دوسروں کے کاموں کو، ان کی کوششوں کو اور ان کی شخصیات کو حقارت کی نظر سے دیکھا جائے۔
ایک سطح یہ ہے کہ بدنام کرنے کی مہم چھیڑی جائے، خامیوں کو اچھالا جائے اور پروپیگنڈا کیا جائے۔
ایک سطح یہ ہے کہ اپنی توانائیوں کو ایک دوسرے کے خلاف جھونک دیا جائے، ہر ایک کی کوشش یہ ہو کہ دوسری صف سے لوگ ٹوٹ کر اس کی صف میں شامل ہو جائیں۔ کبھی یہ یک طرفہ ہوتا ہے اور کبھی دو طرفہ۔
آخری سطح پر آکر باہمی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ کبھی افراد کے بیچ اتفاقی جھڑپیں ہوتی ہیں، تو کبھی تیاری کے ساتھ اجتماعی معرکے بھی ہوتے ہیں۔ اس کیفیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دل دشمنی سے کس حد تک بھر چکے ہیں۔ اسلامی تحریک کی صفوں میں اس درجے کی عداوت شاذونادر پیدا ہوتی ہے، لیکن بہرحال ایسا ہوچکا ہے، افغانستان میں ہو چکا ہے۔ اور جو ایک بار ہوسکتا ہے وہ دوسری بار یا کئی بار ہوسکتا ہے اگر عبرت نہ پکڑی جائے۔
تعدد کے منفی اثرات
مسلم معاشرے میں اور اسلامی تحریک کے اندرون میں تنظیموں کا تعدد اپنے آپ میں بری چیز نہیں ہے۔ بلکہ کبھی تو یہ افزائش اور فعالیت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اور مفید نہیں تو کم از کم بے ضرر تو ہے، جیسا کہ ہم نے تعدد کی پہلی صورت میں واضح کیا۔
لیکن تعدد کے اضرار اور مفاسد دوسری صورت سے شروع ہوتے ہیں اور تیسری صورت میں خطرناک صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ آگے ہم بتائیں گے کہ اس تیسری صورت میں تنظیمی تعدد کے اسلامی تحریک کی صفوں میں کتنے خراب اثرات واقع ہوتے ہیں۔
پہلی خرابی: اسلامی وحدت کی صفت مٹنے لگتی ہے
ہونا تو یہ چاہیے کہ اسلامی تحریک مسلم امت کے تمام طبقوں میں سب سے زیادہ اسلام سے وابستہ، اسلامی اوصاف سے متصف اور اسلامی احکام کا احترام کرنے والی ہو۔اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مسلمانوں میں وحدت کا نمونہ پیش کرنے میں وہ سب سے نمایاں ہو۔ لیکن جب اسلامی تحریک اپنے خول میں بند ہوجاتی ہے اور دوسروں سے علاحدگی اختیار کرلیتی ہے، ہر جماعت کا اپنا وجود، اپنے معاملات اور اپنی پالیسی ہوتی ہے۔ دعوت و اصلاح کی دوسری کوششوں اور جماعتوں سے ان کا کسی قسم کا رشتہ نہیں ہوتا، تو جب یہ کیفیت ہوتی ہے اور پھر برقرار رہتی ہے تو اس میں واقع ہونے والے لوگ اپنے اندر سے اسلامی وحدت کی صفت کھودیتے ہیں۔ پھر کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ یہ صفت اپنے آس پاس کے مسلمانوں میں پیدا کرسکیں گے؟؟
اسلامی تحریک جس کی جدوجہد اس لیے ہوتی ہے کہ اسلامی اصولوں، قدروں اور معانی کو افراد اور معاشروں کی سطح پر زندہ کیا جائے، اس کے لیے زیبا یہی ہے کہ پہلے خود ان کی پیکر بنے اور ان سب چیزوں کو اپنی صفوں میں، اپنی اپروچ میں اور اپنی پریکٹس میں برت کردکھائے۔ وہ اسلام کے اصولوں اور احکام کے تئیں جس قدر کوتاہی کرے گی، اپنے وجود کے جواز اور اپنے پیغام کی مصداقیت اسی قدر کھوتی جائے گی۔
دوسرے پہلو سے دیکھیں تو یہ بات بھی صاف ہے کہ وحدت کی صفت کھودینے کا مطلب قوت، قدرت اور فعالیت کے ایک اہم ترین عنصر کو کھودینا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ بے بسی کی صورت میں سامنے آئے گا اور بہت سے بڑے کام اور بڑے اقدامات کرنے کی استطاعت نہیں رہے گی۔ الگ تھلگ اور سب سے کٹی ہوئی جماعت محض اپنے خاص وسائل سے وہ بہت سے کام انجام نہیں دے سکتی جو دوسری جماعتوں کے تعاون کے ساتھ کر سکتی ہے۔
دوسری خرابی:امت کے جسم میں تفرقے کا زخم گہرا ہوتا ہے
جو جماعتیں وحدت واخوت کے اوصاف و مظاہر سے عاری ہوتی ہیں، ان کا سارا کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ امت کے جسم میں جو پہلے ہی تار تار ہے، تفرقہ کا اپنا ایک نمونہ بھی شامل کردیتی ہیں۔ پھر اپنی ’دعوتی‘ کوششوں کے ذریعے اس نمونے کو وسعت دیتی ہیں۔ اس طرح شگاف بڑھتے جاتے ہیں۔ سماج میں کئی سماج جنم لیتے ہیں۔ مسلم جماعت میں کئی جماعتیں پیدا ہوتی ہیں، ایک دائرے سے کئی دائرے منسلک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کی جماعتیں لوگوں کو خود سے جوڑنے اور اپنے اندر ضم کرنے میں جس قدر کام یاب ہوتی ہیں، اسی قدر امت کے تن ناتواں اور سماج کے بکھرتے دائرے میں تفرقے اور علاحدگی کو بڑھانے میں ’کام یاب‘ ہوتی ہیں۔
تیسری خرابی: توانائیوں کا ضیاع ہوتا ہے
علاحدگی پسند منفی تعدد کے نتیجے میں بہت سی توانائیاں، امکانات اور محنتیں رائیگاں چلی جاتی ہیں اور امت کو ان کے ثمرات اور اثرات کا فائدہ نہیں مل پاتا ہے۔
وحدت اور رابطہ و تعاون کے ذریعے سے جن توانائیوں کی بچت کی جاسکے یا انھیں کم کیا جاسکے، وہ توانائیاں رائیگاں ہیں۔
وہ توانائیاں جو ایک جماعت کے افراد کو دوسری جماعت کی طرف کھینچنے میں صرف ہوتی ہیں انھیں بھی رائیگاں سمجھنا چاہیے، خواہ وہ نتیجہ خیز ہوں یا نہ ہوں۔
وہ توانائیاں جو دوسری جماعت کو بدنام کرنے میں صرف ہوں وہ بھی رائیگاں قرار پاتی ہیں۔
وہ توانائیاں جو اپنے دفاع اور دوسرے کی تردید میں لگیں وہ بھی رائیگاں ہوتی ہیں۔
وہ توانائیاں جو تفرقے کو ختم کرنے اور تفرقے کے زخموں کو بھرنے میں صرف ہوں، وہ بھی رائیگاں ہوتی ہیں۔
یہ توانائیاں رائیگاں اس لیے ہوتی ہیں کیوں کہ اگر جماعتوں میں وحدت اور رابطہ و تعاون کی فضا ہوتی تو یہ توانائیاں امت کے بہت کام آتیں۔
جو باتیں توانائیوں کے بارے میں کہی گئی ہیں وہی دولت، اوقات اور تمام وسائل و امکانات کے بارے میں کہی جاسکتی ہیں۔
چوتھی خرابی: کام کا شور مگر نتیجہ صفر
جب جماعتوں کے درمیان کشمکش کا دائرہ بڑھ جاتا ہے اور وہ لمبے عرصے کے لیے طول پکڑ لیتی ہے تو اس کشمکش کا عمومی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر فریق دوسرے فریق کی قدرت اور پیداواریت کو شل کردینے میں ’کام یابی‘ حاصل کرتا ہے۔ جس قدر کشمکش میں شدت آتی ہے، جس قدر وہ جاری رہتی اور ایک دوسرے کے ہم پلہ رہتی ہے، اسی قدر مشلول توانائیوں کا رقبہ بڑھتا جاتا ہے۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی محنتیں کی جارہی ہیں، بڑی قربانیاں پیش کی جارہی ہیں اور نتیجہ بہت معمولی یا صفر رہتا ہے۔ حالات یا تو بدلتے نہیں، یا بدتر ہوتے ہیں، یا کبھی بہتر اور کبھی بدتر ہوتے رہتے ہیں۔ اس کا سبب زیادہ تر ایک دوسرے کو بے جان کردینے والی جنگیں ہوتی ہیں۔ایک طرف تو اسلامی جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے کو نڈھال کرنے والی کشمکشیں ہوتی ہیں اور دوسری طرف بیرون کے بہت سے دشمن انھیں بے جان کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔
مشیر طارق بشری نے کمال درجے کی مہارت سے نقشہ کھینچ کر بتایا ہے کہ تبدیلی کے لیے کوشاں تحریکات کی اندرونی کشمکشیں کس انجام تک پہنچاتی ہیں، ان کے پیش نظر اسلامی جماعتوں کی باہم کشمکش نہیں تھی، لیکن ان کا یہ نقشہ کسی حد تک اسلامی تحریک کی بعض حالتوں پر صادق آتا ہے، وہ کہتے ہیں: ’’کوئی بھی قوت جب دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے، اور دونوں ٹکڑوں کے درمیان جوڑنے کے نشان کی جگہ گھٹانے کا نشان لگادیتی ہے، تو حسابی عمل کے نتیجے میں صفر ہوجاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کوئی بھی قوت جب ٹکڑے ہوجاتی ہے اور ان ٹکڑوں کے درمیان معرکہ چھڑجاتا ہے تو وہ قوت ختم ہوجاتی ہے۔ دونوں معرکہ آرا قوتیں جتنی برابر ہوتی ہیں، اتنا ہی ایک دوسرے کو گھٹاتی جاتی ہیں، ایک دوسرے کی نفی کرنے والے اجزا برابر ی کی طرف بڑھتے جاتے ہیں اور حاصل نتیجہ صفر کی طرف بڑھتا جاتا ہے۔‘‘
کبھی کبھی یہی صورت حال اسلامی تحریک کی صفوں میں دیکھی جاتی ہے، گویا آٹے کی چکی ہے جو پیستی ہے مگر آٹا نہیں ہوتا، بلکہ کبھی تو خود کو ہی پیسنے لگتی ہے۔ اللہ حفاظت فرمائے۔
پانچویں خرابی: لوگ متنفر ہوتے ہیں
اسلامی تحریک جب افتراق اور باہم کشمکش والے تعدد سے دوچار ہوتی ہے تو ایک اور نتیجہ سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ بہت سے لوگ جب ایسے گروپوں سے قریب ہوتے ہیں، یا یہ گروپ ان سے قریب ہوتے ہیں، اور جب وہ ان کی گفتگوئیں اور پیش کشیں سنتے ہیں، تو ان میں تضاد اور ٹکراؤ پاتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ یہ تو باہم مقابلہ کرتے اور بولی لگاتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ انھی کے اوپر مقابلہ کرتے اور بولی لگاتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے پر تہمتیں لگائی جارہی ہیں اور شک کیا جارہا ہے۔ وہ حیرت میں پڑجاتے ہیں کہ کسے صحیح مانیں اور کس پر بھروسا کریں، کس کے ساتھ جڑیں اور کس کے ساتھ آگے بڑھیں، پھر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ وہ سب سے پلا جھاڑ لیتے ہیں۔
بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ جو ان باہم معرکہ آرا جماعتوں میں شامل ہوئے اور ان کے ساتھ کام کرتے رہے، ان سے باہر نکل جاتے ہیں کیوں کہ وہ اس قبیح صورت کا حصہ بننا پسند نہیں کرتے اوران تخریبی کارروائیوں میں شریک نہیں ہونا چاہتے۔ بعض افراد حیرانی کا شکار ہوکر نکل جاتے ہیں۔
مجھے یاد آتا ہے کہ کئی سال قبل میں نے ایک فاضل عالم سے ان کے ایک دوست کے بارے میں پوچھا جو تحریک میں پیش پیش تھے، میں نے پوچھا کہ وہ تحریک کو چھوڑ کر اس سے دور کیوں ہوگئے، انھوں نے اپنے اس دوست کا جملہ سنایا: ’’میں کیچڑ میں رہ کر کام نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
وہ لوگ جو دوسروں سے معرکہ آرائی کرکے اور ان کے افراد کو ان سے دور کرکے اپنی تحریک کو کام یاب کرنا اور اپنی تحریک کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں، وہ خبردار ہوجائیں کہ اس کا الٹا نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے، جس کا خود ان کی تحریک کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور پوری اسلامی دعوت کو بھی۔
ایک حیرت ناک اور افسوسناک حقیقت وہ ہے جس کا تذکرہ بہت سے افراد سے ان کے ملکوں کے بارے میں سنا کہ ان کے یہاں سب سے بڑی اسلامی جماعت ’’غیر جماعتیوں کی جماعت‘‘ ہوتی ہے۔ یعنی وہ اسلام پسند نوجوان جو مختلف جماعتوں سے نکل گئے ہیں یا جو شروع سے کسی جماعت سے نہیں جڑے۔ اس کی وجہ مختلف منفی باتیں ہوتی ہیں جن میں ایک بڑی وجہ ان کا تفرقہ اور باہم کشمکش ہے۔ ان افراد کی مجموعی تعداد کسی بھی منظم جماعت کی تعداد سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ سبھی کسی نہ کسی درجے میں ان جماعتوں سے قریب رہ چکے ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی پوشیدہ نہیں کہ اسلامی جماعتوں سے خراب اثر لینے والے بہت سے افراد صرف جماعت سے نکلنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ پھسل کر کسی بدترین سطح تک جا گرتے ہیں۔(جاری)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2025