خدمات اور کارنامے
ذیل میں چند ایک نمونے ان کتابوں سے پیش کئے جارہے ہیں تاکہ ڈاکٹر فریدی مرحوم کےافکار و خیالات سے ہم استفادہ کرسکیں۔
ڈاکٹر فریدی مرحوم خواتین کے تعلق سے باہر سے اٹھنے والے فتنوں سے جہاں اور جتنے باخبر تھے وہیں ملت اور تحریک اسلامی کے اندر ان کی حالت زار پر بھی انھوں نے بڑے پرزور اور پرسوز انداز سے اپنی بات پیش کی ہے۔ تحریک اسلامی اور خواتین کے کردار کے عنوان پر اظہار کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے:
’’خواتین کا احساس کمتری دور کرنے میں تحریک اسلامی کو قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے کہ تہذیب مغرب کی یورش سے آپ اپنے خاندان اور خواتین کو بچا سکیں۔ ادارے اورنقطہ ہائے نظر تو ایک ایک کرکے ٹوٹ رہے ہیں۔ مگر اس سیلاب میں وہ اقدار بھی بہہ رہی ہیں ، جو قرآن وسنت نے عطا کی ہیں۔ خواتین کا تاثر یہ ہے کہ مذہب اور تحریک اسلامی ،دونوں خواتین کوفروتر سمجھتے ہیں، ان پر بندشیں عائد کرتے ہیں اور ان کے جائز حقوق سے بے نیاز ہیں۔ اس لئے وہ عصری تہذیب کو لبیک کہہ رہی ہیں اور تحریک اسلامی کے متعلق وہ گوناگوں اندیشوں میں مبتلا ہیں۔ ہمیں پوری جرأت اور ایمان ویقین کے ساتھ مدینہ منورہ کی اس سوسائٹی کو زندہ کرنا چاہئے، جس نے رسول اکرم ﷺ کی قیادت میں خواتین کا مرتبہ اور مقام متعین کیا تھا۔ قرآن کریم کی تعلیمات کا رازداں آپؐ کے بعد صحابہ کرامؓ کے علاوہ اور کون ہوسکتا تھا۔ بلاخوف لومۃ لائم اس سماج کے طرز عمل اور طرز فکر کی تجدید کرنا چاہئے۔ چاہے اس کے نتیجے میں اپنی پسندیدہ چیزوں کو خیرباد کہہ کر اس طرز فکر کو بدلنا پڑے، جسے ہم نے تاریخی عمل کے تحت مذہبی جواز عطا کردیا ہے‘‘۔ (تحریک اسلامی اور خواتین کا کردار۔ ص:۱۷۔۱۶)
موجودہ زمانے میں دینی تعلیم کی حالتِ زار پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:
’’دینی تعلیم نے امت مسلمہ کی تاریخ میں درخشاں کردار ادا کیا ہے۔ اس نے فرد اور سماج کو صحتمند اور خداشناس بنایا ہے۔ تقویٰ اور اخلاق کے چشمے جاری کئے ہیں اور دنیا کی تعمیر اور تشکیل کے نقشے بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن دینی تعلیم کے انحطاط اور اس کے غلط رخ اختیار کرنے کی وجہ سے اس میں بعض اوقات فلسفہ، منطق اور کلام نے قرآن کریم اور حدیث کے گہرے مطالعے اور درس وتدریس کا مقام لے لیا ہے، جیسی کہ امام غزالی ؒ کے دور سے متصل صورتحال تھی اور وہی یا اسی سے کچھ کم وبیش صورتحال مروج درس نظامی کی بھی ہے۔ اس نے امت مسلمہ کی حرکیت اور تعمیر وتشکیل معاشرہ کے عزم و حوصلے کو کمزور کیا ہے، دینداری، معراج ترک دنیا اور ترک لذات قرار دیا ہے۔ دنیوی علوم اور فنی مہارت کو دین کے منافی قرار دیا ہے۔ اس نے تصوف کے غالی اور غیر اسلامی رخ کو تقویت بخشی ہے، یہاں تک کہ آج دینی تعلیم کے نام سے ایسی تعلیم دی جارہی ہے جو طالب علم کو ارضی حقیقتوں سے بے خبر رکھتی ہے حال سے بے نیاز کرکے ماضی میں جینے اور سانس لینے کی عادت ڈالتی ہے اور دین و دنیا کی مصنوعی تقسیم کو بالواسطہ تقویت پہنچاتی ہے۔ عبادات کے رسوم پر اتنا زور دیتی ہے کہ معاملات کی اہمیت اوجھل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ دینی مدارس سے فارغ طلبہ کی اکثریت، جامعات سے نکلنے کے بعد دنیا میں کوئی حرکی کردارادا کرنے کے قابل نہیں رہ جاتی۔ پھر مادی ضرورتو ںکے دبائو کے تحت وہ یاتو اس سیلاب میں بہہ جاتی ہے، جس پرآج کا انسان عارضی کشتیوں کے سہارے تیر رہا ہے یا وہ مسجدوں میں امام اور مؤذن بن کر تنگدستی اور فقر وفاقہ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ نہ امت مسلمہ ان کو قیادت اور رہنمائی کا منصب عطا کرتی ہے اورنہ وہ اس کے اہل ہی بن کر نکلتے ہیں۔ دینی تعلیم تو امت مسلمہ کی نظریاتی اوراخلاقی زندگی کا حصار تھی اوراس ملت کی اجتماعی زندگی کی شہ رگ تھی، مگر آج کے دینی مدارس تو اس طاغوت سے بے خبر ہیں، جس نے پوری انسانیت کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ وہ اس کےمقابلے میں جوابی سیلاب کیسے برپا کرسکتے ہیں؟(اقامت دین کا سفر۔ ص:۶۱)
معاشیات ڈاکٹر فریدی مرحوم کا خاص میدان رہا ہے۔ اس پرآپ نے بہت لکھا ہے اور خوب لکھا ہے۔ ان کی مختصر کتاب ’اسلامی معاشیات‘ اور سرمایہ دارانہ نظام۔ ایک چیلنج کا ہمارے تمام ہی نوجوانوں کو خصوصی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں موجودہ دور کے سرمایہ دارانہ نظام کا بھرپور جائزہ بھی ہے، اسلامی معاشیات اور بینکنگ کے خدوخال بھی واضح کئے گئے ہیں اورآج بھی ہمیں کرناکیا ہے اس کا واضح نقشہ بھی پیش کیا ہے۔ معاشی جدوجہد کے تعلق سے فریدی مرحوم لکھتے ہیں:
’’افلاس سے رستگاری اور معاشی استقلال دینی اقدار کو برتنے اور ایمان واخلاق کی سلامتی کے لئے بھی ضروری ہیں۔ اس کا ایک دوسرا نہایت اہم رخ یہ ہے کہ اس جدوجہد کے ذریعے دین حق کی صداقتوں پر عملی گواہی دی جاسکتی ہے۔ اس کی اقدار کا رحمت ہونا واضح کیاجاسکتا ہے۔ ان تعلیمات پر عمل کرکے انسانیت پر یہ بھی واضح کیا جاسکتا ہے کہ معاش حاصل کرنے کے وہ وسیلے کیا ہیں جن سے پیٹ بھی بھرتا ہے ۔ تن بھی ڈھانپا جاسکتا ہے ۔ چھت بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔ مرض بھی دور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن خیانت اور بددیانتی اور ظلم واستحصال کے ہمراہ نہیں بلکہ ان کا ازالہ کرکے ۔ مسلمان سرمایہ کار اور صنعت کار اگراپنے حسابات میں ذاتی نفع پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی خلقت کی منفعت کو ترجیح دیتا ہے، جب وہ ذاتی لاگت کے ساتھ ساتھ سماجی مضرتوں کو مدنظر رکھتا ہے تو وہی حق کا ایسا شاہد بنتا ہے جو ہزارہا وعظوں اور تقریروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ جب وہ اپنی آمدنی اور مصارف میں سے غریب اعزاء اورفقراء و مساکین کا لازمی حق ادا کرتا ہے تو وہ شعوری یا غیر ِشعوری طور پر حق کا داعی ہوتا ہے۔ یہ بات ہمیشہ صحیح تھی لیکن دور حاضر میں تو اس کی اہمیت حد درجہ زیادہ ہوگئی ہے‘‘۔ (اقامت دین کا سفر۔ ص: ۹۲۔۹۳)
انگریزی اور دوسری زبانوں میں کتب
ڈاکٹر فریدی مرحوم بیک وقت اردو اور انگریزی زبان میں لکھنے اور بولنے کی صلاحیت رکھتے تھے، اس کے ثبوت میں ان کی بعض انگریزی کتابیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ان کی بعض اہم تحریریں تمل اور ملیالم زبانوں میں ترجمہ کرکے شائع کی گئیں جو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی گئیں ، خاص طور پر دہشت گردی پر ان کے عالمانہ اور تجزیاتی مقالے کو نہ صرف جماعتی حلقوں میں بلکہ ملک وملت کے دوسرے حلقوں میں بھی پسند کیا گیا اور سراہا گیا۔
مرحوم ایم اے جمیل احمد صاحب (مدراس) کو شدید احساس تھا کہ تحریک اسلامی نے آزادی کے بعد پیدا ہونےوالے صورتحال کا پورے طور پر جائزہ لے کر رونما ہونےوالے مسائل کو اسلامی نقطۂ نظر سے نہیں دیکھا ہے اور نئے مسائل کے حل کے طو رپر پیش کرنے میں کوئی بڑا کام نہیں کیا ہے۔ اس خلا کو پر کئے بغیر ملک عزیز میں دعوت اسلامی اور شہادت حق کا فریضہ انجام نہیں دیا جاسکتا اس کے لئے پرانے لٹریچر کو نئے انداز سے ترتیب دینا، نئے مسائل کا معقول تجزیہ کرکے نئے اسلوب میں ڈھال کر، بہترین طباعت سے گزار کر عوام وخواص کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں وہ دنیابھر کے مشاہیر سے ربط رکھتے، ان کی تحریروں اور تقاریر اور ان کے اقتباسات کو حاصل کرکے خود مطالعہ کرتے اورتحریک اسلامی کےقائدین اور مصنفین ومقررین کو فراہم کرنے کی سعی مسلسل کرتے۔ ملک میں ان کی نگاہیں ڈاکٹر فریدی، ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اور مولانا سید جلال الدین عمری پر تھیں۔ ڈاکٹر فریدی ملک ہی میں موجود تھے ۔ انھوں نے ڈاکٹر صاحب سے مل کر منصوبہ بنایا کہ وہ تملناڈو تشریف لائیں، ان کے قیام اور دیگر ضروریات کے اہتمام کا منصوبہ ترتیب بھی دیا لیکن فریدی صاحب اپنے نجی مسائل اور خرابی صحت کی بنا پر ایسا نہیں کرسکے اور ایک بڑا نقشہ جو جمیل احمد صاحب مرحوم کے خوابوں کی تعبیر تھا وہ روبہ عمل نہ ہوسکا۔ البتہ اس کے نتیجے میں ایک نئی کتاب Living as a Muslim in a Plural Society ۔ اسلامک فائونڈیشن ٹرسٹ (IFT) نے اچھے گٹ اپ کے ساتھ شائع کرکے ملک کے مختلف دانشوروںکو روانہ کیا اور کئی ایک مؤقر جریدوں کو review کے لئے بھی بھیجا۔
ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی مرحوم نے ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک ورلڈٹریڈ سنٹر پر حملہ اور اس کے بعد رونما ہونے والی صورت حال پر شائع ہونےوالے اہم مضامین کو یکجا کرکے Operation Enduring Freedom Global Supermacy کے نام سے مرتب کیا ہے اور اسے مرکزی مکتبہ اسلامی نے شائع کیا۔ یہ کتاب بہت جامع، قیمتی اور اس حادثے کے بعض ایسے گوشوں اور پہلوئوں کی نشاندہی کرتی ہیں جو عام طور پر قارئین کے علم میں نہیں ہیں۔
ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی صاحب مرحوم ایک عرصے تک انگریزی ہفت روزہ ’ریڈئینس‘ نئی دہلی کے ایڈیٹر بھی رہے اور ملک کے مشہور علمی وتحقیقی ادارہ ’’ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ کے سکریٹری بھی۔ اس کے علاوہ ابتدائی دور میں علی گڑھ کے اسلامک ریسرچ سرکل کے تحت Islamic Thought نامی ایک سہ ماہی جریدہ بھی شائع ہوتا تھا۔ جس کے ڈائرکٹر مولانا صدرالدین اصلاحی تھے، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اسسٹنٹ ڈائرکٹر اور ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی چیف ایڈیٹر تھے۔
آخری بات
ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی مرحوم اس بات کے قائل تھے کہ علماء اوردانشوروں بشمول تحریک اسلامی کو صرف دفاع یا تحفظ کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے اسلامی نقطۂ نظر کو پوری قوت اور جرأت ایمانی کے ساتھ اقدامی انداز میں پیش کرنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ ڈاکٹرفریدی مرحوم کی خدمات کو قبول فرمائے، اس کا بھرپور اجر عطا فرمائے اور ان کا نعم البدل بھی فراہم کرے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2014