رفیق محترم ڈاکٹر رائو عرفان احمد خاں کی علالت کی اطلاع ملتی رہی ۔ بالآخر وہ وقت آہی گیا جو ہر انسان کا مقدر ہے۔وہ ۳؍اپریل ۲۰۱۸ء کو حرکت قلب بند ہونے سے اس دنیاسے آخرت کی طرف کوچ کرگئے۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر بڑا صدمہ ہوا۔ ایک سادہ، شریف ، مہذب اور بے حد متحرک انسان ہمارے درمیان سے اٹھ گیا۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔
علی گڑھ آمد
علی گڑھ میں طلباء کا حلقہ ملک کی آزادی سے قبل سے ہی موجود تھا، جو اسلامک لائبریری شمشاد مارکیٹ کو مرکز بناکر مسلم یونی ورسٹی کے طلباء میں اسلامی دعوت کا تعارف کرارہاتھا۔عرفان صاحب علی گڑ ھ آئے توجماعتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے ساتھ طلباء کے اسی گروپ سے وابستہ ہوگئے۔اس زمانے میں اسلامک اسٹڈی سرکل کے نام سے ایک علمی حلقہ بھی جناب محمد نجات اللہ صدیقی صاحب،اور فضل الرحمن فریدی صاحب وغیرہ نے قائم کیاتھا۔ عرفان صاحب اس میں شامل تھے۔ اس کابلیٹن’ اسلامک تھاٹ‘کے نام سے دو سال تک شائع ہوتارہا۔
۱۹۷۰ء میں مسلم پرسنل لا سمینار علی گڑھ میں ہوا مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی تحریک میں یہ سیمیناربڑی اہمیت رکھتا ہے۔ عرفان صاحب نے بھی اس میں حصہ لیا۔ اس کی روداد ڈاکٹر نجات اللہ صاحب اورڈاکٹر فریدی صاحب نے ترتیب دی ہے۔ جو مکتبہ اسلامی دہلی سے شائع ہوچکی ہے۔
ثانوی درس گاہ
عرفان احمد صاحب نے مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے ۱۹۵۲ء میں گریجویشن کیا۔ وہ دور طالب علمی ہی سے جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔ (یاد نہیں کہ ان کی رکنیت کس سن کی ہے۔) ۱۹۵۳ء میں انہو ںنے رام پور میں جماعت اسلامی کی قائم کردہ ’ثانوی درس گاہ‘میں داخلہ لیا۔ثانوی درس گا ہ کا قیام ۱۹۵۱ء میں ان جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے عمل میں آیاتھا، جو اسلام کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر کے دین کی خدمت کرنے اور اُسےسربلند کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ یہ عاجز جامعہ دارالسلا م عمر آبادسے فراغت کے بعد ۱۹۵۴ء میں رام پور پہنچا۔ میرا ثانوی درس گاہ سے ضابطہ کا تعلق تو نہ تھا، لیکن مرکزکے فیصلہ اور استفادے کی غرض سے قیام ثانوی درس گاہ کے طلباء کے ساتھ تھا۔اس طرح جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہن و مزاج اور جذبات کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔عربی مدرسہ کا کوئی دوسرا فارغ میرے ساتھ نہ تھا ،لیکن ہر طرف اپنائیت کا ماحول تھا اور ہرفرد دین کی دعوت عام کرنے اور اس کی سربلندی کے لیے کوشش کے جذبہ سے سرشار تھا۔ میں نے قرآن و حدیث اور اسلامی علوم کا بطور خود مطالعہ جاری رکھا۔مضمون نویسی کا ذوق پہلے سے تھا، مضامین بھی لکھتارہا۔ ۱۹۵۶ء میں باضابطہ شعبہ تصنیف جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوگیا۔
ثانوی درس گاہ کا عربی نصاب چار سال کا تھا، جس میں عربی زبان و ادب کے علاوہ، قرآن ، حدیث اور فقہ اسلامی کی باضابطہ تعلیم ہوتی تھی۔ میں جب رام پور پہنچا تو عرفان صاحب اس کے دوسرے سال میں تھے۔ اس طرح تین سال تک ان کی رفاقت رہی۔ ان کے ہم جماعت طلباء میں، جناب فضل الرحمن فریدی اور جناب احسان اللہ خان بھی تھے۔ فریدی صاحب بعض وجوہ سے اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ دیگر اصحاب نے نصاب پوراکیا۔استاذمحترم مولانا جلیل احسن ندویؒدوسرے، تیسرے اور چوتھے سال کے طلباء کو قرآن مجید کا درس دیتے۔ جس درجہ کا بھی درس ہوتا میں اس میں شریک رہتا۔ اس طرح تین سال میں ثانوی درس گاہ کے طلباء نے جتنا نصاب پورا کیا مجھے ایک ہی سال میں اس کی تکمیل کا موقع مل گیا۔ اس کے بعد بھی مجھے الگ سے مولانا مرحوم سے قرآن مجید پڑھنے کی سعادت حاصل رہی۔مولانا سے بڑی قربت رہی۔ تفاسیر وغیرہ کی طرف رجوع کرنے میں معاونت بھی کرتارہا۔
جو طلباء ثانوی درسگاہ میں تعلیم پاتے تھے ان کے قیام اور تعلیم کا انتظام جماعت کی جانب سے تھا، لیکن ان کے طعام اور دوسرے اخراجات کے لیے کوئی اسکالرشپ یا مالی مدد جماعت نہیں فراہم کرتی تھی۔طلباء کو خود ہی اخراجات برداشت کرنے پڑتے تھے۔ بیش تر طلباء وہ تھے جن کے والدین اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ وہ کالج کی تعلیم منقطع کرکے دینی تعلیم کا رخ کریں، اس لیے انہوں نے دست تعاون کھینچ لیاتھا۔یہ طلباء ٹیوشن کے ذریعہ اپنے اخراجات پورے کرتے۔ڈاکٹر عرفان احمد خاں بھی ٹیوشن پڑھاتے تھے۔
نوجوانوں اور طلبا ء کی رہنمائی:
ثانوی درس گاہ سے فراغت کے بعد عرفان صاحب دوبارہ علی گڑھ چلے گئے اور فلسفہ میں ایم اے کیا۔۱۹۵۸ء میں مسلم یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں ان کا تقرر ہوگیا۔ مَیں رام پور سے علی گڑھ ۱۹۷۰ء میں منتقل ہوا۔ عرفان صاحب ۱۹۷۳ء میں امریکہ چلے گئے اور بعد میں وہاں کی شہریت بھی حاصل کرلی۔جب تک علی گڑھ میں ان کا قیام رہا، ان سے بے تکلف ملاقاتیں رہتی تھیں۔ جن میں وہ کوئی نہ کوئی فکری مسئلہ چھیڑ دیتے اور اس پر گفتگو ہوتی۔
عرفان صاحب کا مکان دعوت و تحریک کا مرکز تھا۔ہر وقت تحریک سے وابستہ افراد کی آمد ورفت رہتی۔وہ چائے کے شوقین تھے۔ اعلیٰ قسم کی چائے استعمال کرتے، مہمانوں کو خود ہی چائے پیش کرتے۔ نوجوانوں کو تحریک اسلامی سے جوڑنے کی ذمہ داری ان پرتھی ۔ اس کے لیے انہوں نے بڑی تگ و دو کی،قریب کی ریاستوں کے بار بار دورے بھی کرتے رہے۔علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تحریک اسلامی سے متعلق نوجوان ان سے بڑی قربت محسوس کرتے اور ان سے بے تکلف تھے۔ ان نوجوانوں کا ایک حلقہ انہوں نے تیار کیا جو آج مختلف میدانوں میں اسلام اور تحریک اسلامی کی خدمت انجام دے رہاہے۔
امریکہ منتقل ہونے کے بعد وہ تقریباً ہر سال ہندوستان آتے۔ آخری چند برس گھٹنوں کے آپریشن کے بعد وہ نہیں آسکے۔غالباً انہیں قلب کی تکلیف بھی تھی۔ وہ جب بھی آتے تو اپنے احباب اور دوستوں سے خودملاقات کرتے۔ ان کی خواہش ہوتی کہ اہل علم کے درمیان اپنے خیالات رکھیں۔اس کا انتظام بھی ہوتا ۔ وہ کبھی کسی سمینار اور مذاکرہ میں شرکت کے لیے بھی آتے۔ وہ فلسفیانہ انداز میں مسائل پر غور کرتے۔ اگر کبھی کہاجاتا کہ ان کے خیالات غیر واضح ہیں تو برا نہ مانتے، بلکہ انہیں واضح کرنے کی کوشش کرتے۔ تقریر کا ایک خاص انداز تھا۔کبھی مائک کے سامنے ہوتے،کبھی اسٹیج پر ٹہلنے لگتے۔گرمی محسوس ہوتی تو تقریر کے دوران ہی میں شیروانی اور ٹوپی اتاردیتے۔ ایک جذب کی سی کیفیت ہوتی۔
ادھر عرصہ سے ان کا خاص موضوع قرآن مجید تھا۔وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ دین کو براہ راست قرآن مجید سے سمجھا جائے۔یہ بات اصولی طور پر درست ہے۔ جولوگ عربی زبان سے واقف ہیں ان کے لیے قرآن سے براہ راست استفادہ آسان ہے۔ اس کے باوجودان اصحاب علم کے خیالات کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے جن کی زندگیاں قرآن مجید کے مطالعہ اور اس کے معانی و منشا پر غور وفکر میں گزریں،تاکہ یہ اطمینان ہو کہ ہم سے فہم قرآن میںکوئی چوک نہیںہوئی ہے اورکوئی بات جوہم نے اخذ کی، اس کے نظام فکر و عمل سے متصادم نہیں ہے۔ جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں وہ تراجم قرآن سے استفادے پر مجبور ہیں۔ اس میں انہیں کسی نہ کسی مترجم پر اعتماد بھی کرنا پڑتاہے۔ان کے لیے یہی راستہ ہے کہ اپنی زبان میں دینی کتابوں کے ذریعہ فہم دین حاصل کریں۔اگر کوئی بات اسلام کے عمومی مزاج سے ہم آہنگ محسوس نہ ہو تو اس کی مزید تحقیق کرلیں۔
ڈاکٹر عرفان صاحب کا سارا زور اس پر ہوتا کہ آدمی دین کو کسی کے واسطہ سے نہیں، بلکہ براہ راست قرآن کے ذریعہ سمجھے۔اس سلسلے کی مشکلات اور دشواریوں سے وہ تعرض نہیں کرتے تھے۔انہوں نے سورہ فاتحہ اور سورئہ بقرہ کی انگریزی میں تفسیر بھی لکھی ۔ہندوستان کے معروف ادارےانسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹیڈیز دہلی نے اسے شائع کیاہے۔دور جدید کے مشہور مفسر قرآن علامہ حمید الدین فراہی سے وہ متاثر تھے۔ان کی رایوں کا اثر ان کی تفسیر پر بھی یقینا ہوگا ۔ عرفان صاحب کی تفسیر کا تفصیلی مطالعہ ہونا چاہیے۔انہوں نے آخری پارے کی بعض سورتوں کی مختصر تفسیر بھی لکھی جسے جناب سید منصور آغا نے ایڈیٹنگ کے بعد ہندی اور اردو میں منتقل کیا ہے۔
ڈاکٹر عرفان احمد خان نے6 شکاگو کی یونی ورسٹی University of Illinois (الی نوئی )میں تدریسی خدمات انجام دیںاور وہیں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ غالباًاسی دوران انہیں خیال آیا کہ مذاہب کےپیرووں کے مابین جو فاصلے ہیں اوران کے ماننے والوں کے درمیان جو دوریاں ہیں انہیں دور کرنے یا کم کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔
موجودہ دور میںاہلِ مذاہب کے درمیان مباحثہ اور مکالمہ سے دلچسپی کافی بڑھ گئی ہے۔ اسے وقت کا تقاضا سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی غر ض یہ بتائی جاتی ہے کہ مذاہب کےقائلین کے درمیان افہام و تفہیم ہو،کسی مذہب کو غلط نہ قرار دیا جائے۔ اختلافی امور سے زیادہ ان میں جو مشترک قدریں پائی جاتی ہیں ان پر زور دیاجائے۔عرفان احمد خاں صاحب کو اس مکالمے سے دل چسپی تھی۔ اس طرح انہوں نے مختلف مذاہب کے لوگوں کوایک دوسرے سے قریب کیا۔اس کے لیے انہوں نے World Council of Muslims For Interfaith Relations(WCMIR) (بین الاقوامی کونسل برائے رابطہ پیروان مذاہب) کے قیام میں حصہ لیا۔ اس مقصدکے لیے وہ امریکہ اور دیگر ممالک کے دورے بھی کرتے تھے۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے۔وہ یہ کہ قرآن مجید نے مشرکین اور اہل کتاب سب ہی سے ’جدال احسن‘ کی اجازت دی ہے، تاکہ احقاق حق ہو اور یہ بات کھل کر سامنے آئے کہ صحیح کیاہے اور غلط کیا؟یہ مقصد پوراہوتو مکالمے کی یہ کوششیں بڑی قابل قدر ہیں۔
امریکہ وہ اہل و عیال کے ساتھ منتقل ہوگئے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے بچوں کا حال دریافت کیا تو کہا کہ پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ سب ہی کا دین سے تعلق ہے۔ میں نے سب کی شادیاں کردی ہیں اور وہ امریکہ کے مختلف مقامات پررہتے ہیں۔ مسکراکر کہنے لگے اس کا فائدہ یہ ہے کہ امریکہ میں جہاں جاتاہوں اپنے ہی گھر میں ہوتاہوں۔حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
مشمولہ: شمارہ جون 2018