اِسلامی نظامِ تصورات کا حرکی پہلو

(1)

اہل مغرب نے مذہب کو افیون قرار دیا، جس کے معنی یہ تھے کہ مذہب تعمیر وترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور وہ اپنے ماننے والے کو دنیا کے کاروبار سے الگ تھلگ کردیتا ہے۔ اہل مغرب کی مذہب کے تعلق سے اس رائے کا پس منظر اہل کلیسا کے ظالمانہ رویے ہیں، جن کی وجہ سے بجا طور پر مذہب کو ایک غیر مفید چیز سمجھا گیا۔ لیکن مذہب کے بارے میں یہی تاثر اسلام پر بھی چسپاں کرنے کی کوشش کی گئی اور دنیا کے سامنے یہ باور کرایاگیا کہ اسلام بھی دوسرے مذاہب سے مختلف نہیں ہے۔ وہ بھی اپنے ماننے والے کو کاروبار دنیا سے الگ تھلگ کردیتا ہے اور دنیا کی تعمیر وترقی میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ماضی کی صدیوں میں مسلمانوں کی سیاسی اور علمی پسپائی اور زوال پذیری نے گویا دنیا والوں پر عینی شہادت پیش کردی کہ واقعی اسلام زمانے کا ساتھ دینے کی اہلیت نہیں رکھتا اور وہ ازکار رفتہ مذہب ہے۔ رواں صدی میں نائن الیون کے بعد اسلام کی افادیت و حرکیت کے بارے میں خود مسلمانوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے ہیں ۔ اس مضمون میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے کہ اسلام میں زمانے کی تعمیر وترقی کی کتنی صلاحیت ہے اور انسانوں کی روحانی، اخلاقی اور مادی رہنمائی کی کیا اہلیت ہے۔ اور یہ بھی کہ اپنے ماننے والوں کو کس درجہ حرکی (Dynom ic) اور فعال بناتا ہے۔

اسلامی تعلیمات بنیادی طور پر چار اجزاء میں منقسم ہیں : عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاق۔

اسلام میں خدا کا تصور

دنیا کے اکثر مذاہب میں خدا اور معبود کو بے جان مجسموں، تصاویر اور یادگاروں میں تلاش کیاگیا یا بعض مرے ہوئے یا غیر موجود انسانوں کی طرف الوہیت کی نسبت کی گئی اور پھر اس کی عبادت کے لیے ایسے ہی طریقے ایجاد کیے گئے جیسے معبود اور مجسموں کے سامنے گھنٹا اورڈھول بجانا ، سیٹی اور تالی پیٹنا، اگربتی اور موم جلانا ، لوبان اور بخارات کے ذریعے معبودکو خوش کرنا وغیرہ، مگر اسلام نے ان سارے تصورات کی تردید کی اور خدائے واحد کا عقیدہ دیا، جو تمام صفات کمال و جمال سے متصف ہے، جس کااپنے بندوں سے ہروقت کا ربط وتعلق ہے اور جو خود حی وقیوم ہے جسے نیند اور اونگھ نہیں آتی۔ ہرچیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ وہ بندوں کی نگاہوں کی چوری اور دلوں کے راز سے واقف ہے۔ آسمانوں اور زمین میں ذرہ ذرہ کا اسے علم ہے۔ وہ مضطر کی دعا کوسنتا ہلے اور اس کی پریشانی دور کرتا ہے۔ وہ نفع ونقصان کا مالک ہے، اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کے خزانے ہیں وہی موت اور حیات کا مالک ہے اور اسی کی طرف سب کو پلٹ کر جانا ہے۔

اسلام نے معبود کی عبادت کے جو طریقے بتائے اس میں درمیان کے تمام واسطے ختم کردیے اور براہ راست بندے کا خدا سے تعلق قائم کیا ۔ درمیان میں نہ برہمن کی ضرورت نہ پجاری کی ، نہ کاہن کی نہ ربی کی نہ حاخام کی۔ اس کے ساتھ ہی معبود کے سامنے نہ آگ جلانے کی ضرورت ہے نہ ناقوس اور گھنٹا بجانے کی۔ نہ اگربتی اور موم بتی جلانے کی، نہ سونے چاندی کے برتنوں میں پوجا کے اشیائ کو سجانے کی ضرورت ہے ۔ ان تمام بیرونی اور درمیانی رسوم اور قیود کو اسلام نے ختم کیا اور براہ راست خدا سے بندے کا تعلق قائم کیا ۔ ہر شخص خود اپناکاہن، پجاری ، پادری اور برہمن ہے ۔ اسلام نے عبادت کے لیے مکان، مندر ، کلیسا، چرچ اور گرجا گھر کی قید بھی ختم کردی اور پوری سطح زمین کو سجدہ گاہ قرار دیا۔ بحر وبر اور سفر وحضر ہر جگہ اور ہر حالت میں معبود کی عبادت ہوسکتی ہے۔

اسلامی عقیدۂ توحید کے حرکی تصور کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ اس میں معبود کو بندہ ہر لمحے اپنی شہ رگ سے زیادہ قریب پاتا ہے اور امن وسکون اور پریشانی و مشکل میں ہر وقت وہ اس کو پکارتا ہے۔ گنہگار سے گناہگار فرد بھی رجوع الی اللہ کرسکتا ہے اور اپنی خطائوں اور لغزشوں کی توبہ و انابت کرکے آیندہ بہتر زندگی گزارنے کا عہد کرسکتا ہے۔ حدیث میں کہا گیا ہے : ’’اگر بندہ اپنے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے اور وہ ایک بالشت چلتا ہے تو خدا اس کی طرف ایک ہاتھ چلتا ہے ۔ اگر وہ ایک ہاتھ چل کر آتا ہے تو خدا ایک گز چلتا ہے۔ اگر وہ اپنے معبود کی طرف چل کر آتا ہے تو خدا اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میںذکر الٰہی کو زندگی اور خدافراموشی کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:

مثل الذی یذکر ربہ والذی لایذکر مثل الحی والمیت۔ ﴿بخاری﴾

’’اس کی مثال جو اللہ کو یاد کرتا ہے اور جو یاد نہیں کرتا مردہ اور زندہ کی ہے ﴿اللہ کو یاد کرنے والا زندہ ہے جبکہ یاد نہ کرنے والا مردہ ہے‘‘۔

انسان اپنے مصائب ومشکلات میں ایک ایسی ذات کی طرف رجوع کرنے کا محتاج اور ضرورت مند ہوتا ہے جو اس کی پریشانیوں کو دور کردے۔ اسلام نے اللہ تعالیٰ کی پکار کو مضطر کے لیے تمام مشکلات کا حل بیان کیا ہے۔ ارشاد ہے:

أَمَّن یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوئ َ۔﴿النمل:۶۲﴾

’’کون ہے جو مضطر کی دعا قبول کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان و یقین بندے کو نہ صرف جمود و تعطل سے بچاتا ہے، بل کہ اس کو فاسد اور باطل فکر وعقیدے کی کھائیوں میں گرنے اور دُنیوی مایوسیوں اور ناامیدیوں کے سمندر میں غرق ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، اس کی زندگی میں ہر وقت امید کا چراغ جلائے رکھتا ہے اوراسے دعوت عمل دیتا ہے ۔

عقیدۂ آخرت اور انسانی زندگی

دنیا میں ہزاروں افکار و نظریات ہیں جن کا اپنا ایک لائحہ عمل ہے۔ لیکن ان کے لائحہ عمل کا دائرہ اور سرگرمیوں کی سرحد اسی دنیوی زندگی تک محدود ہے ۔ اسلام نے زندگی کے دائرے کو موت کے بعد وسیع کرکے اپنے لائحہ عمل اور سرگرمیوں کا دائرہ بھی بعدالموت وسیع کردیا اور دنیا کو مزرعۃ الآخرۃ قرار دیا۔ دنیاکو فصل بونے کی جگہ قرار دینا، اس بات کی قوی دلیل ہے کہ انسان فصل کی نوعیت اور قسم کا انتخاب خود کرے۔ اور معیار و مقدار بھی اسی کے دائرۂ انتخاب میں رکھا، تاکہ وہ فصل کاٹنے کے بعد کسی دوسرے کا گلہ اور شکوہ نہ کرے۔ فصل بونے اور کاٹنے کی تمثیل میں کھیت کو ہم وار کرنے، بیج کو موافق موسم میں زمین میں ڈالنے اور پودا نکلنے کے بعد اس کی نگرانی کرنے اور اس کو آبپاشی کا مناسب انتظام کرنے جیسے سارے مفاہیم بھی پوشیدہ ہیں اوریہ سب عمل کے متقاضی ہیں۔ خواب وخیال سے نہ فصل بوئی جاتی ہے اور نہ کاٹی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی تمام سرگرمیوں کا مدار ومرکز آخرت ہی ہوتا ہے اور ہوناچاہیے۔ آخرت میں جزا وسزا پانے کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَہُ۔ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ ۔ ﴿الزلزال:۷،۸﴾

’’جس نے ذرہ برابر بھی نیک کام کیاوہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برا کام کیا وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔ ﴿ اس کا بدلہ پائے گا﴾

انسان چونکہ خیر وشر کا مجموعہ ہے، اس لیے دونوں کے انجام سے آگاہ کیاگیا اور بلاشبہ انسان اپنے اعمال کے مطابق یا خیر کا مشاہدہ کرے گا یا اسے شر لاحق ہوگا ۔ قرآن مجید میں صرف جنت کی نعمتوں کا ذکر نہیں کیاگیا ہے، بل کہ جہنم کی ہولناکیوں اور دردناک عذابوں کا بھی تذکرہ کیاگیا ہے۔ خود جہنم اور اس کے مترادف الفاظ مثلاً نار ﴿آگ﴾ جحیم اور سعیر وغیرہ سیکڑوں مرتبہ وارد ہوئے ہیں جو اپنی دردناکی اور ہولناکی پر خود دلالت کرتے ہیں۔ اور یہ تصور انسان کو آمادہ عمل کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ بے عملی اور بدعملی کی صورت میں جہنم کا ایندھن بن جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَنْ أرَادَاْلاٰخِرَۃَ وَسَعیٰ لَہَا سَعْیَہَا وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلٰئِٓکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَشْکُوْراً۔ ﴿الاسرائ:۱۹﴾

’’اور جو آخرت کاخواہش مند ہو اوراس کے لیے سعی ﴿کوشش﴾ کرے جیسا کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے اور وہ مومن ہوتو ایسے شخص کی سعی مشکور ہوگی اس کو اس کا بدلہ ملے گا‘‘۔

قرآن حکیم میں وارد ہے قیامت میں جب لوگ جہنم میں چیخ پکار مچائیں گے اور اللہ تعالیٰ سے استدعا کریں گے کہ ہمیں دوبارہ دنیامیں بھیج دیجیے تاکہ ہم نیک اعمال کرلیں اور اس عذاب سے چھٹکارا پاجائیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ انھیں کہے گا کہ کیا ہم نے تمھیں ایک مدت عمر عطا نہیں کی تھی کہ اس دوران میں تم نصیحت حاصل کرلو مزید یہ کہ ہم نے تمھیں سمجھانے ، ڈرانے والے بھی بھیجے۔ مگر تم نے نصیحت حاصل نہیں کی اور عمل کو درست نہیں کیا۔ ارشاد ہے:

أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَن تَذَکَّرَ وَجَآئ کُمُ النَّذِیْرُ ۔﴿فاطر:۳۷﴾

’’کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا؟ اور تمھارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آچکا تھا‘‘۔

یعنی تمھیں کام کرنے کا موقع دنیا ہی میں دیاگیا تھا مگرتم نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔

عقیدۂ رسالت اور زندگی کا حرکی تصور

رسولﷺ  کی موجودگی میں رسالت پر ایمان کے جو محرکات ہوتے ہیں، ان میں دو خاص طور سے اہم ہیں۔ ایک رسول ﷺ  کی سیرت وکردار جس کو دیکھ کر آدمی صدق و کذب کا فیصلہ کرتا ہے یا کرسکتا ہے اور دوسرا معجزات جن سے رسول ﷺ  کی رسالت کی تصدیق ہوتی ہے۔ آج چودہ سو تیس سال ﴿۱۴۳۳ھ﴾ کے بعد ہمارے سامنے نہ بہ ذات خود رسول موجود ہیں کہ ان کی سیرت وکردار کا ہم مشاہدہ کریں اور ان کی سچائی اور صدق کو پرکھیں اور نہ ہمارے سامنے ایسے معجزات ظاہر ہونے والے ہیں جیسے عہد رسالتﷺ  میں رسالت کا انکار کرنے والوں کے سامنے ظاہر ہوئے اور جن کو دیکھ کر انھوں نے آپﷺ  کو برحق اور صادق تصور کیا۔ اس تمہید کی روشنی میں آج امت مسلمہ کی ذمے داری دوہری ہوجاتی ہے کہ وہ نہ صرف آپﷺ  پر اور آپﷺ  کی رسالت پر ایمان لائے بل کہ ایسا کردار اور اخلاق کا نمونہ پیش کرے جو آپﷺ  کی سیرت و کردار کے مثل ہو۔ بل کہ آپﷺ  کی رسالت و نبوت کی تصدیق کرنے والا ہو۔ اگرچہ غیر رسول صاحب معجزہ نہیں ہوسکتا مگر سیرت کا نمونہ و پیش کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلق عظیم پر فائز قرار دیاگیا ہے اور آپﷺ  کی سیرت کو قیامت تک کے لیے اسوہ قرار دیاگیا ہے۔ ارشاد ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ۔ ﴿الاحزاب:۲۱﴾

’’تمھارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین اسوہ ہے‘‘۔

’’ایک حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر رسول کو معجزہ دیاگیا جس کو دیکھ کر اس کی امت ایمان لاتی تھی ، مجھے بھی معجزہ دیاگیا اور وہ قرآن مجید ہے ۔ امید ہے کہ میری امت سب سے زیادہ ایمان لانے والی ہوگی‘‘۔﴿بخاری کتاب فضائل القرآن، باب کہف نزول الوحی﴾

ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے: ’’حضرت عائشہ صدیقہ ؓ  سے دریافت کیاگیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیا تھے تو انھوں نے جواب دیا :آپﷺ  کے اخلاق قرآن تھے ’’ قرآن میںدی گئی تمام اخلاقی تعلیمات کے گویا آپﷺ  مجسم پیکر تھے۔ اس طور سے دیکھیں تو آج ہمارے سامنے رسولﷺ  بھی موجود ہیں اور رسولﷺ  کا معجزہ بھی موجود ہے۔ قرآن مجید کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بتانے والی احادیث کا مستند ذخیرہ اور سیرت پر مشتمل سیکڑوں کتب ہمیں چلتے پھرتے رسولﷺ  کا تصور دیتی ہیں ، جن سے آپﷺ  کے ایک ایک عمل، حرکت ، قول ، فعل اور آپﷺ  کی ایک ایک خواہش اور تمنا ہمارے سامنے موجود ہے۔ ضرورت صرف اس کی پیروی اختیار کرنے کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں درجنوں مرتبہ اطیعواللہ اوراطیعوالرسول سے اہل ایمان کو خطاب کیاگیا ہے کہ وہ اطاعت الٰہی کے ساتھ اطاعت رسولﷺ  اختیار کریں۔ ظاہر ہے کہ دین اسلام ایک عملی دین ہے اور اس کے تقاضے عمل ہی سے پورے ہوتے ہیں۔ مسلمان عقیدۂ رسالتﷺ  پر چاہے جتنی دلیلیں پیش کرلیں وہ قابل التفات نہیں ہوسکتیں۔ جب تک کہ وہ خود کو سیرت رسولﷺ  کا نمونہ بناکر نہ پیش کریں۔مسلم شریف کی کتاب الطہارۃ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو آپ

ﷺ  کے بعد آئیں گے اور آپﷺ  کو دیکھے بغیر ایمان لائیں گے اورآپﷺ  کی سنتوں کی پیروی کریں گے۔

تقدیر اورحرکیت

عقیدے کاایک جزو تقدیر پر ایمان لانا ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تقدیر پہلے سے طے کردی ہے جس کے مطابق اس کی زندگی اور موت، روزی روٹی اور سعادت شقاوت طے شدہ امور ہیں۔ عام طور پر تقدیر کو بے عملی اور غیر فعالیت کے لیے بہانہ بھی بنایا جاتا ہے اور اس کی مثال بھی پیش کی جاتی ہے۔ لیکن قرآن وحدیث کے نصوص سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے ۔ تقدیر کے بارے میں یہ رویہ صحیح اور مبنی برحق ہے بل کہ قرآن وحدیث میں عمل پر ابھارا گیا ہے اور عمل کو بھی تقدیر قرار دیاگیا ہے۔ سابقہ امتوں اور قوموں کے تذکرے میں ان کے انعام یاعذاب کا تذکرہ عمل اور ان کے کرتوت کے پس منظرہی میں ہوا ہے۔ مثال کے طور پر معذب قوموں کے حوالے سے کہا گیا۔

ذٰلک جزیناہم ببغیہم۔  ﴿الانعام: ۱۴۶﴾

’’یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی‘‘۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

فَکُلّآً أَخَذْنَا بِذَنبِہِ فَمِنْہُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِباً وَمِنْہُم مَّنْ أَخَذَتْہُ الصَّیْْحَۃُ وَمِنْہُم مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْأَرْضَ وَمِنْہُم مَّنْ أَغْرَقْنَا وَمَا کَانَ اللَّہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلَکِن کَانُوا أَنفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ ۔﴿العنکبوت:۴۰﴾

’’پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا اور ان میں سے بعض کو زوردار سخت آواز نے دبوچ لیا ۔ اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبودیا۔ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ ان پر ظلم کرے بل کہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے‘‘۔

اس کے برعکس نیک لوگوں کے حوالے سے ان کے اچھے اعمال پر اچھے اجر کا بھی تذکرہ کیاگیا ہے۔ چنانچہ جنت میں جانے والوں کے حوالے سے کہا گیا کہ ان کے اعمال ایسے تھے اس بنا پر ان کو جنت میں داخلہ نصیب ہوا۔ ارشاد ہے:

کُلُوا وَاشْرَبُوا ہَنِیْئآً بِمَآ أَسْلَفْتُمْ فِیْ الْأَیَّامِ الْخَالِیَۃِ۔﴿الحاقہ: ۲۴﴾

’’مزے سے کھائو پیو اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے ہیں‘‘۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ أُورِثْتُمُوہَا بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ۔ ﴿الزخرف:۷۲﴾

’’یہ وہ جنت ہے جس کا تمھیں وارث بنایا گیا ہے اس چیز کے بدلے جو تم کرتے تھے‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد میں تقدیر کے متعلق بعض اشکالات کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’عمل کرتے رہو، ہر ایک کو اس کی توفیق ملتی ہے۔ اہل سعادت کو سعادت کے باعث اعمال کو آسان بنا دیا جاتا ہے اور اہل شقاوت کو شقاوت کے باعث اعمال کو آسان بنا دیا جاتا ہے‘‘۔ ﴿مسلم کتاب القدر باب۱، حدیث نمبر ۶۷۳۱﴾

عمل صالح کا زندگی پر اثر

اسلام میں نجات وفلاح کا مدار ایمان اور عمل صالح پر رکھا گیا ہے۔ جبکہ سابقہ مذاہب میں اس بارے میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔ عیسائیت میں صرف ایمان نجات کے لیے کافی ہے جیسا کہ کتاب مقدس میں پال کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح بودھ مذہب میں صرف نیکوکاری سے نروان ﴿نجات﴾ کا درجہ ملتا ہے۔ بعض مذاہب میں محض گیان ودھیان کو نجات کے لیے کافی سمجھا گیا ہے۔ مگر اسلام نے ایمان فکر وعقیدہ اور عمل ﴿جسمانی اعمال﴾ دونوں کو ایک ساتھ نجات کے لیے ضروری قرار دیا ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید کی درجنوں آیات ہیں جہاں ایمان لانے یا ایمان والوں کی کامیابی کا تذکرہ ہوا ہے وہاں عمل صالح کرنے یا عمل صالح کرنے والوں کی کامیابی کو ایک ساتھ بیان کیاگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالْعَصْرِ انَّ الْانسَانَ لَفِیْ خُسْر الَّا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ۔ ﴿العصر:۳۔۱﴾

’’قسم ہے زمانے کی سارے انسان گھاٹے میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے‘‘۔

جنت کا حصول قومیت اور نسل پر موقوف نہیں ہے بلکہ ایمان اور عمل صالح پر ہے۔ ارشاد ہے:

انَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ وَالَّذِیْنَ ہَادُواْ وَالصَّابِؤُونَ وَالنَّصَارَی مَنْ اٰ مَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وعَمِلَ صَالِحاً فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُون۔﴿مائدہ:۶۹﴾

’’بے شک جو ایمان والے ہیں اور جو یہود ہیں اور صائبین اور نصاریٰ جو کوئی اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور اچھے کام کرلے نہ تو ان پر ڈر ہے نہ وہ غم کھائیں گے‘‘۔

اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے چیزوں کو مادی علل و اسباب کے تابع قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر روٹی بھوک کا قطعی علاج ہے۔ محض اس عقیدے سے بھوک نہیں مٹ سکتی جب تک اس کے لیے جدوجہد کرکے روٹی حاصل نہ کیا جائے اور اس کو چباکر اپنے پیٹ میں منتقل نہ کیا جائے بھوک نہیں مل سکتی۔ اسی طرح یہ تصور کہ ٹانگیں منزل تک پہنچے کا ذریعہ ہیں ہم منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی ٹانگوں کو حرکت نہ دیں اور چلنے کی زحمت گوارا نہ کریں۔

عمل صالح کی مختلف صورتیں ہیں اور اس میں کافی وسعت ہے۔ انسان کے تمام اعمال خیر کے تمام جزئیات اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ جس میں خدا کے تئیں اچھے کام بھی داخل ہیں اور بندوں کے تئیں اچھے کام بھی داخل ہیں۔ اس طور سے اس کی تین بڑی شکلیں بنتی ہیں۔ عبادات ﴿حقوق اللہ﴾ اخلاق و معاملات ﴿حقوق العباد﴾ اسلام میں ان میں سے ہر ایک کی یکساں اہمیت ہے۔ قرآن مجید میں جہاں عبادت الٰہی کی تاکید آئی ہے وہیں اعمال خیر بجا لانے کی بھی تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا ارْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ۔ ﴿الحج:۷۷﴾

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو رکوع اور سجدہ کرو ، اپنے رب کی بندگی کرو اور نیک کام کرو ۔ اسی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔

﴿جاری﴾

مشمولہ: شمارہ جولائی 2012

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau