کیرلا میں جماعتِ اسلامی ہند کے گیارہ ریاستی اجتماع عام ہوئے۔ پہلے اجتماع میں سو سے بھی کم لوگ شریک ہوئے جب کہ آخری اجتماع میں شریک ہونے والوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ تھی۔
ہر اجتماع عام نے جماعتِ اسلامی ہند کیرلا کی رفتارکو تیز تر کیا اور اس کی سرگرمی کو ایک نئی جہت بھی عطا کی۔ ہر اجتماع عام کے موقع پر کوئی بڑا فیصلہ ہوتا اور نیا محاذ کھل جاتا۔
مثال کے طور پر ۱۹۴۸ کے آغاز میں جماعت المسترشدین کے نام سے پہلا اجتماع ہوا اور اس میں کیرلا کے اندر جماعتِ اسلامی ہند قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دوسرے اجتماع میں ہفت روزہ پربودھنم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
طے کیا گیا تھا کہ اگست ۱۹۴۸ میں کالی کٹ ضلع کے وانیمینل نامی مقام پر ایک اجتماع کیا جائے گا۔ لیکن کچھ مسلمان کرم فرماؤں نے اس کی مخالفت میں شدید مہم چلائی ، آخر کار پولیس نے اجتماع پر روک لگادی۔ ریاست کے مختلف حصوں سے لوگ قریب کے وڈاگرا ریلوے اسٹیشن پر پہنچ رہے تھے اور وہیں انھیں یہ اطلاع مل رہی تھی کہ اجتماع پر پابندی لگادی گئی ہے۔ سچے شوق کو کون سی پابندی روک سکی ہے، اسٹیشن پر جمع لوگوں نے مشورے کے بعد فیصلہ کیا کہ کالی کٹ شہر کے اندر ایک مقام پر اجتماع کیا جائے گا۔ سب لوگ وہاں پہنچے اور دو دن کا اجتماع کیا۔ اسی اجتماع میں ہفت روزہ پربودھنم نکالنے کا فیصلہ کیا گیا اور ایک سال کی تیاری کے بعد اگست ۱۹۴۹ میں پربودھنم منظر عام پر آگیا۔ تحریک کے لیے ذہن سازی کرنے اور رائے عامہ بنانے میں اس رسالے کا بہت زبردست کردار رہا ہے۔
ملیا کرشی نامی گاؤں میں اجتماع عام ہوا تو اس میں اسی مقام پر شانتاپورم میں اسلامیہ کالج شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے اگلے اجتماع میں پربودھنم کے لیے پریس قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اللہ کے فضل سے ایک سال میں یہ خواب بھی پورا ہوا۔
غرض پہلے اجتماع سے آخری اجتماع تک ہر اجتماع نے امکانات کے نئے افق روشن کیے اور پیش قدمی کے نئے محاذ کھولے۔
کیرلا میں سیاسی جلسوں میں اردو تقریریں ہوتی تھیں، لیکن مذہبی جلسوں اور اجتماعات میں اس کا بالکل رواج نہیں تھا۔ جماعت کے اجتماعات میں اس روایت کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ہر اجتماع عام میں ایک دو اردو مقرر بھی ہوتے تھے۔ اب یہ عام رواج بن گیا۔ مرحوم ٹی کے عبداللہ صاحب اردو تقریروں کے ملیالم ترجمے کے لیے معروف تھے۔ مرحوم سید حامد حسین صاحب اکثر اجتماعات میں آتے تھے۔ وہ زبردست مقرر تھے اور ان کاترجمہ ٹی کے عبداللہ صاحب کیا کرتے تھے۔ حامد حسین صاحب کی تقریر اور ٹی کے صاحب کے ترجمے کے بارے میں لوگ کہا کرتے تھے کہ ناریل کے پانی میں شہدگھول کر پینے کا لطف آتا ہے۔
ناریل کے ذکر سے خیال آیا کہ ۱۹۶۲ کے اجتماع عام سے ۱۹۹۸ کی حرا نگر کانفرنس تک پنڈال کی چھت ناریل کے چھپر کی ہوا کرتی تھی۔ چھپر بنانے کے لیے ناریل کے پتوں کو تین دن تک پانی میں ڈبویا جاتا پھر ان سے چھپر تیار کرکے سکھایا جاتا۔
ہوتا یہ تھا کہ اجتماع عام سے تین ماہ پہلے سے ہر گاؤں اور قصبے میں جہاں مقامی جماعت ہوتی، چھپر بنانے کی سرگرمی شروع ہو جاتی تھی۔ بہت سی خواتین مل کر چھپر بناتیں اور اس طرح سے گاؤں گاؤں ایک تقریب کا سماں ہوتا۔ تین ماہ پہلے سے ہر طرف اجتماع عام کی تیاریوں کا ماحول بن جاتا۔ پھر لاری پر رکھ کر یہ چھپر اجتماع گاہ لے جائے جاتے اور وہاں انھیں جوڑ جوڑ کر پنڈال کی چھت تیار ہوتی۔اجتماع عام کی کامیابی میں چھپر سازی کی اس سرگرمی کا اہم رول ہوتا۔
پنڈال کی چھت کو بانس کے ڈھانچے پر لادا جاتا۔ اس کے لیے بڑی تعداد میں بانس حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی۔ میرے گاؤں میں ایک مسلمان ٹھیکے دار تھے، انھیں حکومت کی طرف سے بانس کاٹنے کا ٹھیکہ ملا ہوا تھا۔ وہ مسلم لیگ اور سنّی جماعت کے تھے۔ دعوت نگر کانفرس کے موقع پر جماعت کے لوگ ان سے ملے ۔ اس وقت بلیک سے بانس کافی کم قیمت پر مل سکتا تھا۔ لیکن جماعت کے لوگوں نے ان سے کہا کہ ہمیں قانونی ضوابط کے مطابق بانس چاہیے، خواہ زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے۔ اس سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ اجتماع سے ایک ہفتہ قبل مقامی جماعت کے افراد ان کو اجتماع میں شرکت کی دعوت دینے گئے۔ انھوں نے کہا جماعت کے لوگوں کا اخلاقی معیار بہت بلند ہے۔ مجھے اس کا تجربہ ہوا ہے۔ میں آپ کے اجتماع میں بیٹھنے کے لائق نہیں ہوں۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ بیٹھوں گا تو آپ کا اجتماع خراب ہوجائے گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ جماعت سے اس وجہ سے بھی دور رہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھتے۔ ایسے لوگوں کو سمجھنے اور ان کی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے سمجھانے کی ضرورت ہے۔
۱۹۸۳ میں دعوت نگر کانفرنس ہوئی۔ اس میں ملیالم زبان کے مشہور زمانہ مقرر سگمار ازیکوڈ شریک ہوئے۔ انھیں ترشور سے ملاپورم تک لانے کے لیے ایک والنٹیر کو کار کے ساتھ بھیجا گیا۔ وہ کیرلا روڈ ویز کا ڈرائیور تھا۔ راستے بھر دونوں باتیں کرتے رہے۔ بعد میں سگمار نے ذمے داران جماعت سے کہا: آپ کا ہر فرد سمجھ دار ہے۔ وہ دنیا کے ہر معاملے پر نظر اور موقف رکھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جماعت کا عام کارکن بھی اتنا مطالعہ کرتا تھا کہ بڑے علمی مناصب والوں سے بنا جھجھک کسی بھی موضوع پر گفتگو کرسکتا تھا۔
اجتماع کی بڑی تعداد اور اس سے زیادہ نظم و ڈسپلن سے سگمار متاثر ہوئے اور انھوں نے کہا:
اجتماع کو دیکھتے ہوئے میری زبان گنگ ہورہی ہے۔ یہ ایک سمندر ہے مگر اس میں موجیں نہیں اٹھتی ہیں، یہ انسانوں کا پرسکون سمندر ہے۔
نظم کی پابندی پر یاد آیا کہ ایک کانفرنس میں ٹی کے عبداللہ صاحب کی تقریر جاری تھی۔پنڈال کے ایک کونے میں کچھ بھگدڑ سی ہوئی۔ ٹی کے عبداللہ صاحب کی تقریر عروج پر تھی۔ وہ ذرا سی دیر کے لیے خاموش ہوئے اور پھر تقریر شروع کردی۔ کسی نے آکر بتایا کہ خواتین کے حصے میں ایک سانپ نکل آیا تھا جس سے وہ ہراساں ہوگئی تھیں۔ ٹی کے عبداللہ صاحب نے تقریر میں کہا: آپ اگر ایک سانپ کو دیکھ کر ڈر جائیں گے تو تحریک کو درپیش بڑے چیلنجوں کا سامنا کس طرح کریں گے؟
حرا نگر اجتماع میں بہت سی عالمی مسلم شخصیات شریک ہوئی تھیں۔ ان میں سید قطب کے بھائی محمد قطب بھی تھے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا: اگر مجھے کسی نے یہ خبر دی ہوتی کہ اتنی زیادہ خواتین نے اجتماع میں شرکت کی ہے تو مجھے یقین نہ آتا۔ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی بنا پر میں یقین کررہا ہوں۔
حرا نگر اجتماع سے ایک اور یاد وابستہ ہے۔ اجتماع گاہ کے قریب ایک ندی تھی۔ میں نے خطبہ استقبالیہ میں تاکید کی تھی کہ کوئی اس ندی کے قریب نہ جائے، حادثہ ہوسکتا ہے۔ اجتماع کے دوسرے دن معلوم ہوا کہ ایک لڑکا ندی میں گر گیا۔ دس بارہ تیراک والنٹیر ندی میں کود پڑے اور لڑکے کی تلاش شروع کی۔ اسی دوران انھیں ایک دوسری لاش ملی۔ میں معاون ناظمِ اجتماع تھا۔ جیسے ہی مجھے اطلاع ملی میرے اوسان خطا ہوگئے۔ میں دو دن سے بالکل سویا نہیں تھا۔ اس پر سے یہ اندوہناک خبر ۔ مجھے خیال آیا کہ اس کا مطلب اور بھی کچھ لوگ ڈوبے ہوں گے جن کی ہمیں خبر نہیں ہے۔ یکایک مجھے غشی آئی اور میں گرپڑا۔ اتنے میں امیر حلقہ مرحوم صدیق حسن صاحب میرے پاس آئے اور میرے کندھے پر زور سے تھپڑ مارا اور کہا عارف علی اگر تم گرگئے تو اس مجمع کی قیادت کون کرے گا؟ ان کے اس عمل سے مجھے بہت حوصلہ ملا۔
حرا نگر اجتماع کے موقع پر نمائش کا اہتمام ہوا تھا۔ یہ نمائش اجتماع سے چند روز پہلے شروع ہوگئی تھی۔ اس وقت کچھ ایسا ہوا کہ اخبارات نے نمائش کا بہت زیادہ چرچا کیا۔ اس کی وجہ سے لوگ جوق در جوق نمائش دیکھنے آنے لگے۔ روز پانچ دس ہزار لوگ آتے۔ اس کے نتیجے میں منتظمین کے لیے ایک بڑی آزمائش ہوگئی۔ وہ یہ کہ اجتماع کے لیے جو پانی کا ذخیرہ جمع کیا گیا تھا وہ اجتماع شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔ بہرحال بڑی دقتوں کے ساتھ اجتماع کے دوران پانی فراہم کیا گیا۔
اس اجتماع سے جڑی ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ وہ یہ کہ اجتماع گاہ سے قریب ایک درگاہ ہے ممبورم درگاہ۔ اس کے بارے میں لوگوں میں یہ اعتقاد پایا جاتا ہے کہ جب بارش کم ہوتی ہے تو وہاں کے مجاور درگاہ کا جھنڈا لے کر جن بستیوں میں گھومتے ہیں وہاں ایک دو دن میں بارش ہوجاتی ہے۔ اس اجتماع کو مصیبت سے دوچار کرنے کے لیے درگاہ کے مجاور جھنڈا لے کر نکلے اور اجتماع گاہ کے آس پاس گھومتے رہے لیکن اللہ کی مشیت اس طرح شامل حال رہی کہ اجتماع ختم ہونے تک اس علاقے میں بارش نہیں ہوئی اور انھی دنوں وہاں سے کچھ دوری پر خوب بارش ہوتی رہی۔ مزید یہ کہ اجتماع ختم ہونے کے دو دن بعد اجتماع کے مقام پر دو تین گھنٹے خوب موسلا دھار بارش ہوئی۔
بارش سے یاد آیا کہ ایس آئی او آف انڈیا کی ساؤتھ کیرلا کانفرنس کے موقع پر میں ناظم علاقہ اور جماعت کی طرف سے اس کانفرنس کی سرپرستی پر مامور تھا۔ تمام تیاریاں ایک دن پہلے مکمل ہوگئیں اور ہم اطمینا ن سے بیٹھے تھے۔ لیکن خدا کا کرنا کہ رات میں دھواں دھار بارش شروع ہوئی اور اجتماع گاہ میں پانی بھر گیا۔ صورت حال کو دیکھ کر کچھ لوگ کہنے لگے کہ حسب پروگرام آنے والی صبح کو کانفرنس کرنا ممکن نہیں ہے ، اسے منسوخ کردیا جائے۔ لیکن وہیں کچھ لوگوں نے ایس آئی او آف انڈیا کی بنگلور کانفرنس کا حوالہ دیا کہ شدید بارش کے باوجود اسے تکمیل تک پہنچایا گیا تھا۔ وہ ایک طاقت ور نظیر قائم ہوئی تھی اب اگر یہ کانفرنس منسوخ کی گئی تو ایک کم زور مثال قائم ہوجائے گی، اس لیے کانفرنس بہر صورت کی جائے۔ غرض یہ کہ رات بارہ بجے کے قریب بارش تھمی تو موقع پر موجود تمام والنٹیر دوڑ پڑے۔ جس کے ہاتھ میں جو آیا، بالٹی، ٹب، جگ کوئی اور برتن اس سے پانی بھر بھر کر قریب کی ندی میں بہانے لگے۔ کچھ لوگوں نے اپنے شرٹ اتار کر پانی میں بھگوتے اور برتن میں نچوڑتے۔ نوجوانوں کی جی توڑ محنت کام آئی، اللہ کی مدد شامل حال رہی اور سارا پانی نکال دیا گیا۔ اگلے دن صبح دس بجے کے بجائے ساڑھے دس بجے کانفرنس شروع ہوگئی۔
کیرلا میں ایک یاد گار کانفرنس جماعت کے شعبہ خواتین کی طرف سے ہوئی۔ ۲۴اگست ۲۰۱۰ میں ہونے والی یہ مکمل طور پر خواتین کی کانفرنس تھی۔ اس میں ایک لاکھ خواتین نے شرکت کی۔ اس کا سارا انتظام خواتین نے خود سنبھالا۔ صرف سڑک پر ٹریفک کنٹرول کا کام مرد والنٹیروں کے ذمے تھا۔ امیر حلقہ نے جاکر افتتاحی گفتگو کی اور چلا آیا۔ باقی تمام تقریریں اور پروگرام خواتین نے خود کیے۔ کیرلا میں اتنا بڑا خواتین کا اجتماع اب تک کسی کا نہیں ہوا۔ کیرلا میں خواتین کے درمیان تحریک کے فروغ کے لیے یہ کانفرنس ایک بڑا سنگ میل تھی۔
اس سے بارہ سال پہلے حرا نگر کانفرنس میں صرف ایک خاتون ای سی عائشہ نے مرکزی اسٹیج پر کھڑے ہوکر تقریر کی تھی۔ کیرلا میں یہ ایک بڑا واقعہ تھا۔ مختلف مذہبی گروہوں نے اس کے خلاف بہت زیادہ پروپیگنڈا کیا۔ لیکن تحریک کی خواتین پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ اپنا کام کرتی رہیں یہاں تک کہ عظیم الشان خواتین کانفرنس کی جس میں مرکزی اسٹیج سے تمام تقریریں خواتین نے کیں۔
حرا نگر کانفرنس میں ایک اور قابل ذکر واقعہ اجتماعی شادیوں کا ہوا۔ ۱۷۳ جوڑوں کی اجتماعی شادی ہوئی ۔ اخبار میں سب کا نام چھپا، ان میں ایک دولہا کا نام گوپال کرشن تھا۔ اس کو لے کر بڑا ہنگامہ ہوا کہ غیر مسلم لڑکے کی شادی مسلمان لڑکی سے کردی گئی۔ حالاں کہ وہ گوپال کرشن مسلمان تھے ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے اپنا نام نہیں بدلا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نام میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ اسے بدلا جائے۔ ایک صحابی کا نام الاسودالراعی تھا جو خیبر کے موقع پر ایمان لائے تھے۔ کرشن کی عربی اسود ہے اور گوپال کی عربی راعی ہے۔ بہرحال انھوں نے اجتماع کے بعد قریب سو شہروں اور قصبوں میں جاکر تقریر کی کہ مسلم کون ہوتا ہے،ان کے نام کا مطلب کیا ہے اور نام کب بدلنا ضروری ہے۔ چوں کہ ان کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر تشہیر ہوئی تھی اس لیے ہر شہر میں ان کی تقریر سننے ہزاروں لوگ جمع ہوتے۔آج وہ کیرلا کے بڑے داعی ہیں اور کیرلا اسلامک مشن کے سربراہ ہیں۔ البتہ اب ان کا نام غیاث قطب ہے۔ پہلے بھی جی کے (GK)سے پکارے جاتے تھے اور اب بھی اسی سے معروف ہیں۔
جماعتِ اسلامی ہند کیرلا میں شروع میں پوری ریاست کے اجتماع عام زیادہ تسلسل کے ساتھ ہوتے تھے پھر طے کیا گیا کہ اجتماع عام نہ کیا جائے۔ لیکن ایمرجنسی کے بعد عام تصویر یہ بن گئی تھی کہ جماعت بہت کم زور ہوگئی ہے اس کیفیت کو بدلنے اور کارکنوں کو نیا حوصلہ دینے کے لیے دعوت نگر اجتماع ہوا جس نے جماعت کی قوت کو بہت نمایاں کیا۔ اس اجتماع میں ٹی کے عبداللہ صاحب نے تقریر کی اور کہا اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔
اسی طرح ۱۹۹۲ میں جماعت پر دو سال تک پابندی لگی رہی ۔ جماعت کو دوبارہ طاقت اور تازگی دینے کے لیے ۱۹۹۸ میں حرا نگر کانفرنس ہوئی جس نے جماعت کی امیج کو بحال کیا۔ غرض ہر اجتماع نے جماعت کی قوت ، تازگی اور پیش قدمی میں غیر معمولی اضافہ کیا۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2024