مسلم خواتین کی معاشی سرگرمیاں

آپ اپنی دولت کی امین ہیں

 عید کا دن تھا، اللہ کے رسولﷺ نے مردوں کو خطاب کیا اور انھیں ترغیب دی کہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں، پھر آپ نے عورتوں کو خطاب کیا اور انھیں بھی ترغیب دی کہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔(صحیح بخاری)

مسلم خاتون کو معاشی لحاظ سے مضبوط ہونا چاہیے۔ اس کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ قرآن مجید کی آیتوں میں اللہ کے مومن بندے اور بندیاں راہِ خدا میں مال لٹاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ ان کی اہم سرگرمی ہوتی ہے۔ اللہ کے دین کی سربلندی کا جذبہ رکھنے والا گروہ معاشی لحاظ سے توانا، مضبوط اور خود کفیل ہو، اس کے اندر راہِ خدا میں خرچ کرنا کا جذبہ بھی ہو اور اس کی لیاقت بھی ہو، تبھی وہ راہِ خدا میں اپنا حقیقی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کی دعوت میں اس حوالے سے روشن نمونہ ہے۔ مکہ کے سخت حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالی نے حضرت خدیجہؓ کا پیشگی انتظام فرمایا اور مدینہ کے سخت حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت کم عرصے میں تاجر صحابہ کی بڑی ٹیم تیار ہوگئی تھی۔

راہِ خدا میں خرچ کرنا مردوں اور عورتوں دونوں سے مطلوب ہے، اور اسی لیے دونوں کا مال دار ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:

إِنَّ الْمُصَّدِّقِینَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا یضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِیمٌ [الحدید: 18]

(بے شک اللہ کی راہ میں خوب خرچ کرنے والے مرد اور خوب خرچ کرنے والی عورتیں، اور جنھوں نے اللہ کو اچھا قرض دیا، اللہ ان کے لیے اسے کئی گنا بڑھادے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔)

ظاہر سی بات ہے کہ جو دولت کا مالک نہیں بنے گا وہ دولت کو اللہ کے راستے میں خرچ کیسے کرے گا۔ خرچ کی ترغیب دینے والی تمام آیتیں اور حدیثیں ضمنی طور سے اس پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ مومن مرد اور مومن عورتیں مال و دولت سے کنارہ کش نہیں رہتے ہیں بلکہ انھیں حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ البتہ دولت کمانے کا ان کا مقصد نہایت اعلی ہوتا ہے۔

خواتین دولت کما سکتی ہیں

یہ واقعہ ہے کہ بہت سی دین دار مسلم خواتین کسبِ معاش کے کام سے سے خود کو الگ تھلگ رکھنا دین داری کا تقاضا سمجھتی ہیں۔ جب کہ اسلام کی تعلیمات اور اسلامی تاریخ کے نمونے بتاتے ہیں کہ مسلم خواتین کی معاشی تگ و دو دین داری کے مطلوبہ معیار کے خلاف ہرگز نہیں ہے۔ حال اور ماضی کا موازنہ کرتے ہوئے اسلامی تاریخ کے معروف محقق یاسین مظہر صدیقی لکھتے ہیں:

‘‘آج کے مسلم معاشروں میں عورتوں کے کسبِ معاش کی مساعی کو بنظر استحسان نہیں دیکھا جاتا بالخصوص روایتی دینی حلقوں میں۔ ان کے کسبِ معاش کے حق کو یا خرید و فروخت اور دستکاری و مزدوی کے معاملات کو بعض صحیح اصول کی بے اصول دھند میں چھپا دیا جاتا ہے۔ دلیل وہی کہ عورت پر مال وکسب کی ذمہ داری ہی نہیں لہذا اسے کمانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس کے بعد اس پر تجارت و کسب اور دستکاری و حرفت اور نوکری و اجیری کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ عہد نبوی کے واقعات سے اصل اصول اور واقعات دونوں ابھر کر سامنے آتے ہیں اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو نہ صرف کسبِ معاش کا حق حاصل تھا بلکہ ان کو پورے مواقع فراہم کیے جاتے تھے کہ وہ اپنی ذاتی، خاندانی اور دوسری ضروریات کے لیے مختلف پیشے اختیار کریں۔’’ (نبی اکرم اور خواتین ایک سماجی مطالعہ، ص ۱۳۹)

دولت کی حفاظت اور اس کا بہتر انتظام

محنت و مزدوری کرکے یا تجارت وغیرہ کے ذریعے دولت کماناہر عورت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ بہت سی عورتیں مکمل طور پر اپنے شوہر کی کفالت میں رہنا پسند کرتی ہیں۔ اسی طرح بہت سی عورتیں خاندان کے کفیل مردوں کی کمائی کو اپنے لیے کافی سمجھتی ہیں اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ کمانے کی طرف سے فارغ البالی زندگی کے دوسرے اہم کاموں کی طرف متوجہ ہونے کا بڑا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس موقع کو غنیمت جاننا چاہیے۔

تاہم مال و دولت کا ایک پہلو کم و بیش ہر عورت سے متعلق ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کے خصوصی انتظام کے تحت اور سماج کی بعض روایات کے تحت انھیں مختلف جہتوں سے جو مال و دولت حاصل ہوتی ہے، اس کی اچھی طرح حفاظت کریں، اس میں ترقی اور اضافے کی جائز تدبیریں اختیار کریں اور اپنے نصب العین کے راستے میں انھیں حکمت کے ساتھ خرچ کریں۔اسلامی معاشرے کی خواتین کمانے کی مشقت اٹھائے بغیر بھی مال دار ہوتی ہیں۔ مختلف جہتوں سے انھیں وراثت میں حصہ ملتا ہے، مہر کی رقم ملتی ہے، شادی کے موقع پر رشتے داروں کی طرف سے قیمتی تحائف ملتے ہیں، اس کے علاوہ والد، شوہر اور اولاد کی طرف سے ان پر نوازشیں ہوتی ہیں۔ غرض یہ کہ جو مال و دولت انھیں ملے، وہ ادھر ادھر ضائع نہ ہوجائے، محض تجوری میں بند نہ رہے، بلکہ اس کا بہتر سے بہتر مصرف تلاش کیا جائے۔ ہر مسلم خاتون کو اس حوالے سے دانش مندی کا راستہ اپنانا چاہیے۔

تین حوصلہ افزا نمونے

معاشی سرگرمیوں کے سلسلے میں ہمیں عہد رسالت میں مختلف نمونے ملتے ہیں، مسلم خواتین کے لیے ان سب میں حوصلہ افزائی کا بڑا سامان ہے۔ ہم یہاں تین اہم نمونوں کی طرف متوجہ کریں گے:

ایک نمونہ حضرت خدیجہؓ کا ہے، انھیں وراثت میں خاصی دولت ملی تھی۔ وہ تجارت کے ماہرین کی خدمات اجرت پر حاصل کرتی تھیں اور اپنے مال کو تجارت میں لگاتی تھیں۔ اسی طرح وہ نفع میں شرکت کی بنیاد پر بھی سرمایہ کاری کرتی تھیں۔ چوں کہ قریش تجارت پیشہ لوگ تھے اس لیے انھیں تجربہ کار افراد آسانی سے مل جاتے تھے۔ جب مکہ سے تجارتی قافلہ روانہ ہوتا تو قریش کے تمام لوگوں کے جتنے اونٹ ہوتے اتنے اونٹ صرف حضرت خدیجہؓ کے ہوتے۔ اللہ کے رسول کی بعثت سے پہلے حضرت خدیجہؓ نے آپ کی خدمات بیش از بیش معاوضے پر حاصل کیں اوراپنا مال دے کر آپ کو ملک شام بھیجا۔ اللہ کے رسول نے حضرت خدیجہؓ کا مال وہاں کی منڈی میں فروخت کیا اور اس کے بدلے وہاں کا مال خرید لیا۔ جب آپ وہ مال لے کر مکہ واپس لوٹے تو حضرت خدیجہؓ نے اسے مکہ کی منڈی میں فروخت کیا۔ اس خرید و فروخت کے نتیجے میں حضرت خدیجہؓ کو دوگنا منافع ہوا۔روایت کے مطابق اس تجارتی سرگرمی کا ایک حصہ پیارے نبی نے انجام دیا یعنی مکے کا سامان شام کی منڈی میں فروخت کرکے شام کا سامان خریدنا، جب کہ دوسرا حصہ حضرت خدیجہؓ نے خود انجام دیا اور وہ تھا شام سے آئے ہوئے سامان کو مکہ کی منڈی میں فروخت کرنا۔(سیرت ابن ہشام، طبقات کبری )

غرض حضرت خدیجہؓ نے اپنی دولت کی سرمایہ کاری بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ کی اور جب وقت آیا تو اپنا تمام تر سرمایہ دین کی خدمت و نصرت کے لیے وقف کردیا۔ جب قریش نے طویل عرصے کے لیے مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کیا تو حضرت خدیجہ نے اپنے خزانوں کا منھ کھول دیا، یہاں تک کہ سارا کچھ خرچ کرڈالا۔

دوسرا نمونہ حضرت زینب بنت جحشؓ کا ہے۔ ان کے پاس سرمایہ نہیں تھا لیکن مہارت تھی۔ وہ جانوروں کی کھال کوپروسس کرنے اور پھر اسے سی کر مختلف نفع بخش چیزیں بنانے میں ماہر تھیں۔ چناں چہ آپ یہ کام کرتیں اور اس راستے سے دولت کماتیں۔(طبقات کبری )

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ جدید ٹکنالوجی کے بغیر کھال کی پروسسنگ کا کام بہت مشقت والا ہوتا ہے، حضرت زینبؓ یہ مشقت اس لیے اٹھاتی تھیں کہ اپنی محنت کی کمائی کو اللہ کے راستے میں خرچ کریں۔ صدقہ کرنے کا شوق انھیں محنت کرنے پر آمادہ رکھتا تھا۔

معاشی سرگرمی کے حوالے سے ایک تیسرا اہم نمونہ حضرت عائشہؓ کا سامنے آتا ہے۔ان کا اپنے مال کے سلسلے میں تو معاملہ یہ تھا کہ ادھر آیا اور ادھر غریبوں میں تقسیم کردیا، تاہم ان کے گھر میں کچھ یتیم بچے اور بچیاں تھے جن کی وہ دیکھ بھال کرتی تھیں۔ یتیم بچوں کا مال بھی ان کی تحویل میں ہوتا تھا۔ ان کے بھتیجے قاسم بھی انھی یتیموں میں سے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم یتیم بچے سیدہ عائشہؓ کے گھر میں رہتے تھے۔ وہ ہمارے مال کی زکات نکالا کرتی تھیں۔ وہ ہمارا مال مضاربت پر کاروبار میں لگاتی تھیں اور اس میں خوب برکت ہوتی تھی۔ ایک روایت کے مطابق وہ یہ مال سمندری تجارت میں لگاتی تھیں۔ (مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ) یہ نمونہ بھی مسلم خواتین کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اپنے زیر کفالت افراد کے مال کی بہتر سرمایہ کاری پر توجہ دیں اور اس سلسلے میں مناسب اقدامات کریں۔

کسبِ معاش کی روشن تاریخ

اللہ کے رسول ﷺ نے جو معاشرہ تشکیل دیا تھا، اس میں مسلمان عورتیں تجارت بھی کرتی تھیں، کھیتی اور باغبانی بھی دیکھتی تھیں، اور مختلف گھریلو صنعتیں بھی اختیار کرتی تھیں۔ چند مثالیں ہم یہاں پیش کریں گے:

ایک صحابیہ قیلہ انماریہؓ تجارت کرتی تھیں، انھوں نے اللہ کے رسول ﷺ سے طریقہ تجارت کے بارے میں سوال کیا، آپ نے ان کی رہ نمائی فرمائی۔ (طبقات کبری)

حضرت انس بن مالکؓ عہد رسالت کی ایک عورت کا ذکر کرتے ہیں، جس کا نام حولاء تھا اور وہ عطر کی تجارت کرتی تھی۔ (اسد الغابة)

جابر بن عبداللہؓ اپنی خالہ کا ذکر کرتے ہیں، جن کی طلاق ہوگئی تھی، اور وہ اپنے کھجور کے باغ میں جاکر کھجور توڑنا چاہتی تھیں، لوگوں نے منع کیا، تاہم اللہ کے رسول ﷺ نے اجازت دی، اور کہا کہ آپ اپنی کھجوریں توڑ لیں، امید تو یہی ہے کہ آپ صدقہ کریں گی یا بھلائی کو کوئی کام کریں گی۔(صحیح مسلم)

حضرت اسماء بنت عمیسؓ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کی بیوی تھیں۔ جس دن حضرت جعفرؓ کی شہادت کی خبر آئی، اللہ کے رسولﷺ ان کے گھر پہنچے، تو ان کے بقول اس دن انھوں نے چالیس کھالوں کو پروسس کیا تھا۔ (طبقات کبری)

جب اللہ کے رسول ﷺ خیبر فتح کرنے نکلے، تو حضرت ام سنان اسلمیہؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا: اللہ کے رسول، میں اس سفر میں آپ کے ساتھ نکلنا چاہتی ہوں تاکہ مجاہدین کے لیے مشکیزے سلوں، مریضوں کی تیمار داری کروں اور اگر کوئی زخمی ہوجائے تو اس کے زخموں کا علاج کروں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں اجازت دے دی۔ (طبقات کبری)

معاشی سرگرمی کے بہت سے پہلو

معاشی سرگرمی کا مطلب صرف کمانا نہیں ہے۔ ملت کی معاشی پسماندگی کو دور کرنے کی کوششوں میں شامل ہونا بہت اہم اور ضروری معاشی سرگرمی ہے۔ایک ماں جب اپنے بچوں کے اندر کسبِ معاش کا حوصلہ پیدا کرتی ہے، ایک بیوی جب اپنے شوہر کے لیے کمانے کے عمل کو آسان اور پر لطف بناتی ہے، ایک عورت جب کچھ عورتوں کو صنعت و حرفت کی تعلیم دیتی ہے، ایک واعظہ جب خواتین کو فضول خرچی کے راستوں سے روکنے کی کوشش کرتی ہے اور دولت کو صحیح راستوں پر خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے، تو یہ سب خواتین معاشی سرگرمی میں حصہ لے رہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح صحیح جگہ خرچ کرنا بھی عمدہ معاشی سرگرمی ہے۔ دولت کمانے کے عمل میں تمام عورتیں شامل نہیں ہوسکتی ہیں، لیکن دولت خرچ کرنے کے عمل میں تو ہر عورت شریک ہوتی ہے۔ خوبی کے ساتھ خرچ کرنا اہم معاشی سرگرمی ہے، جس میں ہر مسلم خاتون کو ممتاز ہونا چاہیے۔

خواتین کے لیے معاشی سرگرمی کے نئے مواقع

معاشی سرگرمیوں میں مسلم خواتین کی شرکت ہندوستان کے ماحول میں انوکھی بات نہیں ہے۔ جن علاقوں میں گھریلو صنعتیں رائج ہیں وہاں خواتین بھی مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ البتہ جدید زمانے نے معاشی سرگرمی کے جو نئے میدان پیدا کیے ہیں ان کے سلسلے میں جھجک اور تردد کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ان میں سے بعض میدان ایسے ہیں جہاں عورت کے لیے شرم و حیا کی حفاظت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مخلوط ماحول ہوتا ہے جہاں بیہودہ ہنسی مذاق عام بات ہوتی ہے۔ایسے میدانوں سے دور رہنا ہی پرہیزگاری ہے۔ لیکن بہت سے میدان ایسے بھی ہیں جہاں عورت اسلامی اقدار کے ساتھ رہ سکتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ بعض معاشی سرگرمیاں وہ ہیں جنھیں عورت صرف اپنی معاشی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے انجام دیتی ہے، جب کہ بعض سرگرمیاں ایسی ہیں جن سے اسے معاشی فائدہ ضرور پہنچتا ہے لیکن ان کا سماجی پہلو بھی ہوتا ہے۔ زنانہ سماج کو خاتون معالج کی ضرورت ہے، اسکولوں میں پڑھانے کے لیے معلمات کی ضرورت ہے، زندگی کے مختلف میدانوں میں خواتین کی رہ نمائی (consultancy) کے لیے ماہر اور تجربہ کار خواتین کی ضرورت ہے۔ زندگی کو درپیش بہت سی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے کونسلنگ کی ماہر خواتین درکار ہیں۔ایسی معاشی معاشرتی سرگرمیوں کے لیے خود کو تیار کرنا اور انھیں بہتر طریقے سے انجام دینا سماج کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔

سوشل میڈیا کے رابطے نے معاشی سرگرمیوں کے لیے بہت سےنئے میدان پیدا کیے ہیں۔ اب خواتین گھر بیٹھے کپڑے، اسکول اسٹیشنری، کتابیں اور دیگر سامان فروخت کرتی ہیں۔ بہت سی خواتین گھر میں کیک اور دوسرے بیکری آئٹم بناکر ان کی ترسیل کرتی ہیں۔ ٹائپنگ اور ترجمے کا کام بھی گھر بیٹھے ہورہا ہے۔ آن لائن کونسلنگ اور تعلیم بھی گھر پر رہ کر کی جارہی ہے۔غرض گھر کے اندر رہتے ہوئے خواتین کے لیے بہت سی معاشی سرگرمیوں کو انجام دینا ممکن ہوگیا ہے۔

بڑھتی ہوئیں ضروریات زندگی اور آسمان کو چھوتی مہنگائی بار بار عورتوں کو معاشی عمل میں شریک ہونے کے لیے اکساتی ہے اور اسلامی اقدار کا لحاظ کرتے ہوئے اس میں کوئی مضایقہ بھی نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس کی مثالیں ہیں کہ خواتین نے اپنے شوہروں کو بوقت ضرورت معاشی سہارا فراہم کیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ تنگ حال تھے، ان کی بیوی نے اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا وہ اپنے شوہر اور بچوں پر اپنے مال میں سے خرچ کرسکتی ہیں، کیا اس میں انھیں صدقے کا ثواب حاصل ہوگا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی ہمت افزائی فرمائی اور کہا‘‘تمھارے شوہر اور تمھارے بچے تمھارے صدقے کے زیادہ حق دار ہیں’’۔ (صحیح بخاری) یہ اسلام کا حسن ہے کہ ایک عورت جب تنگ حالی کی صورت میں اپنے شوہر اور بچوں پر خرچ کرتی ہے تو یہ محض ایک دنیوی سرگرمی نہیں ہوتی ہے بلکہ اسے صدقے کا ثواب بھی ملتا ہے۔ دور حاضر کی اسلامی تحریک میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں کہ تحریکی مصروفیات کی وجہ سے شوہر کے لیے معاشی خوش حالی کا انتظام ممکن نہیں تھا، تو بیوی نے محنت و مشقت کرکے گھر کی بہت سی ضرورتوں اور بچوں کے تعلیمی مصارف کا انتظام کیا۔

عورتوں کے بازار کا تصور دنیاکے مختلف معاشروں میں پایا جاتا ہے، جہاں سامان بیچنے والی صرف خواتین ہوتی ہیں۔ منی پور کا زنانہ بازار ایما کیتھل دنیاکا سب سے بڑا اور سب سے قدیم زنانہ بازار مانا جاتا ہے، جو پانچ سو سال پرانا ہے اور وہاں لگ بھگ ساڑھے تین ہزار عورتیں آن ریکارڈ تجارت کرتی ہیں، جب کہ ایسی ہزاروں عورتیں ہیں جو بغیر لائسنس کے بھی اپنا سامان لاکر فروخت کرتی ہیں۔

مسلمان عورتوں کی معاشی سرگرمی کی ایک خوب صورت مثال ترکی کے بارٹن شہر کا زنانہ بازار ہے۔ یہ بازار دو سو سال قبل قائم ہوا اور ابھی تک اس کی آب و تاب باقی ہے۔ یہ بہت بڑا بازار ہے اور پورے ہفتے کھلا رہتا ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تمام تاجر خواتین ہیں۔ یہ خواتین اپنے باغوں اور کھیتوں سے توڑ کر لائے ہوئے تازہ پھل اور سبزیاں یہاں فروخت کرتی ہیں۔یہ خواتین تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی بھی کرتی ہیں۔ اسی طرح کئی سو سال قدیم ایک زنانہ بازار سلطنت عمان کے شہر سناو میں ہے، جو صرف جمعرات کو کھلتا ہے اور اس میں خواتین ضرورت کے مختلف سامان فروخت کرتی ہیں۔ دیگر مسلم ممالک میں بھی زنانہ بازاروں کی مثالیں ملتی ہیں۔ غرض یہ کہ اگر خواتین چاہیں تو وہ اجتماعی طور پر چھوٹے سہی ایسے بازار بھی قائم کرسکتی ہیں، جہاں وہ اپنی معاشی سرگرمیاں اطمینان کے ساتھ انجام دے سکیں۔

اللہ نے آپ کو دولت مند بنایا ہے

اللہ تعالی نے اپنی طرف سے عورتوں کے لیے معاشی سرمایے کا انتظام کیا ہے، دنیا کا نظام یہ ہے کہ سب لوگ کماتے ہیں، کچھ نہ کچھ سرمایہ جمع کرتے ہیں اور آنے والی نسل کے حوالے کرکے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں کہ ان کے بعد ان کے وارث جو عام طور سے اگلی نسل کے ہوتے ہیں وراثت میں ملنے والےاس سرمایے سے اپنی ضرورتیں پوری کریں اور اپنی اگلی نسل کے لیے اور زیادہ سرمایہ چھوڑ کر جائیں۔ بہت سے معاشروں میں یہ سرمایہ صرف مردوں کو منتقل ہوتا ہے، عورتوں کو اس میں سے کچھ نہیں ملتا۔ اسلام کا نظامِ وراثت مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی حصہ مقرر کرتا ہے۔ وراثت کا رخ جدھر بھی ہو وہ مردوں اور عورتوں دونوں کو فیض یاب کرتا ہے۔ بیٹے کے ساتھ بیٹی، باپ کے ساتھ ماں اور بھائی کے ساتھ بہن کووراثت میں حصہ ضرور ملتا ہے۔ بیوی کی وفات کی صورت میں شوہر کو اور شوہر کی وفات کی صورت میں بیوی کو اس کے ترکے میں سے حصہ ملتا ہے۔

اللہ نے وراثت کا نظام جس طرح بنایا ہے اسی طرح اسے نافذ بھی ہونا چاہیے۔ اگر کسی سماج میں عورتیں اپنا حصہ نہ لیں اور معاف کردیں اور یہی رواج بن جائے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ رواج اللہ کے قانون کے مطابق نہیں بلکہ اس کے برخلاف ہے۔ ایسے رواج کو توڑنا ہر مسلمان مردو عورت کی ذمے داری ہے۔

اسی طرح نکاح کے وقت بیوی کے لیے مہر مقرر کرنے کا حکم اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ عام رواج مہر معاف کرنے کا نہیں بلکہ مہر ادا کرنے اور وصول کرنے کا ہونا چاہیے۔

انسانی معاشرے میں عورت کے ساتھ ظلم و اہانت کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بالکل تہی دست ہوتی ہے اور پورے طور پر کسی مرد کی کمائی پر منحصر ہوتی ہے۔ خواہ وہ شوہر ہو، بھائی ہو یا اس کی اپنی اولاد ہو۔ تہی دست عورت خود کو کم زور اور بے بس محسوس کرتی ہےجب کہ اگر عورت کے پاس دولت ہو تو وہ مضبوط پوزیشن میں ہوتی ہے اور اس کے ظلم و اہانت کا نشانہ بننے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ اسلام نے عورت کے لیے مہر اور وراثت کے ذریعے دولت کا انتظام کرکے دراصل اس کے لیے باعزت زندگی کا انتظام کیا ہے۔

مہر اور وراثت سے متعلق قرآنی تعلیمات اور عہد رسالت کی مثالیں تقاضا کرتی ہیں کہ مسلمان عورتیں سماج کی عائد کی ہوئی غلط پابندیوں سے آزاد ہوں۔ وراثت میں وہ اپنا حق وصول کریں اور مہر بھی پورا پورا وصول کریں۔ اپنا حصہ یا اپنا مہر معاف کرنے کا خیال دل میں اسی وقت لائیں جب کہ وہ خود بہت خوش حال ہوں اور جس کے حق میں معاف کرنا چاہتی ہوں وہ بہت تنگ حال ہواور ان کا دل خوشی خوشی ان کی مدد کرنے کے لیے آمادہ ہو۔ یاد رہے کہ صحابہ کرام کے زمانے میں ہر خاتون اپنا مہر بھی وصول کرتی تھی اور وراثت میں اپنا حصہ بھی حاصل کرتی تھی۔

موجودہ ماحول میں جب ایک عورت مہر اور وراثت کو اپنی ملکیت میں شامل کرتی ہے تو وہ مہر اور وراثت کے اسلامی نظام کو زندہ کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ جب کہ سماج کے دباؤ میں آکر معاف کرنے والی عورتیں جاہلیت کے اس دباؤ کو مزید مضبوط کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ مردوں کے درمیان یہ مہم چلانا جتنا ضروری ہے کہ وہ عورتوں کو ان کا مہر اور وراثت میں ان کا حصہ ادا کریں،عورتوں میں یہ مہم چلانا بھی اتنا ہی زیادہ ضروری ہے کہ وہ مہر اور وراثت میں اپنا حصہ وصول کریں۔ یہ عجیب بات ہے کہ کوئی بھائی اپنا حصہ بہن کو نہیں دیتا اور ہر بہن اپنے حصے سے بھائی کے حق میں دست بردار ہوجاتی ہے۔ یک طرفہ طور پر عورت کی طرف سے مرد کے حق میں دست بردار ہونا سماجی دباؤ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

دولت کم ہو یا زیادہ، بہرحال اس سے انسان خود کو طاقت ور محسوس کرتا ہے اور زندگی کے اپنے تصور کے مطابق اپنا رول ادا کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوتا ہے۔ مسلم خواتین کے پاس اگر زندگی کا اعلی تصور ہو اور ساتھ میں مال و دولت بھی ہو، تو وہ اپنی آخرت کے لیے زیادہ سامان کرسکیں گی، دین کی زیادہ خدمت کرسکیں گی اور اپنے سرمایہ کو بڑھانے کی بہتر تدبیریں بھی کرسکیں گی۔

چند تجاویز اور مشورے

عورت بہتر طور سے معاشی سرگرمیاں انجام دے، اس کے لیے کچھ مشورے پیش ہیں:

آپ کے پاس جو بھی دولت ہے، اس کی بہتر سے بہتر سرمایہ کاری کے بارے میں سوچیں اور کسی جھجک یا خوف کے بغیر اس کے سلسلے میں عملی قدم اٹھائیں۔ آپ کی دولت میں برکت ہوگی تو اس کا فیض آپ کے گھر خاندان اور دین وملت سب کو پہنچ سکے گا۔

گھر کی بہتر معاشی منصوبہ بندی بھی ایک طرح کی معاشی سرگرمی ہے۔ مختلف صحابہ سے یہ بات منقول ہے کہ خرچ کی بہتر منصوبہ بندی نصف روزگار ہے۔ مسلم خواتین اس پہلو سے اپنے اپنے گھروں میں مثبت کردار ادا کرسکتی ہیں۔

بچوں کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ نکمے اور کام چور بننے کے بجائے محنتی بنیں اور ان کے اندر جلداپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا ہو۔ خواتین اس طرح بھی معاشی عمل میں قابل قدر حصہ لے سکتی ہیں۔

خود بھی ہنرمند بنیں اور گھر خاندان اور محلے کی بچیوں کو مختلف ہنر سکھائیں، یا سکھانے کا انتظام کریں۔ تاکہ وہ اس کے ذریعے کسبِ معاش کے عمل میں شریک ہوسکیں۔

اپنے اندر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا شوق بڑھائیں۔ یہ شوق آپ کو کسبِ معاش کے مختلف طریقے سُجھائے گا۔ اور کچھ نہیں تو اسراف اور فضول خرچی سے محفوظ رکھے گا۔ ضروریات زندگی سے بچی ہوئی دولت کو آپ اللہ کے راستے میں خرچ کرکے زیادہ خوشی محسوس کریں گی۔

اپنے گھر کے مردوں میں حلال کمائی کا شوق بڑھائیں، ان کی خوب حوصلہ افزائی کریں، ساتھ ہی حرام کمائی کے سلسلے میں انھیں خبردار بھی کرتی رہیں۔ اسلامی تاریخ میں یہ بات درج ہے کہ جب مرد کمانے کے لیے صبح نکلتے تو عورتیں انھیں رخصت کرتیں اور کہتیں، ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، حرام مال گھر میں نہ لانا، ہم بھوک اور پیاس تو برداشت کرلیں گے لیکن جہنم کی آگ ہم سے برداشت نہیں ہوسکے گی۔

خواتین کی معاشی خوش حالی کے لیے خواتین کا گروپ بنائیں، جو مختلف منصوبوں کے ذریعےخواتین میں بیداری لائے، ان کی ٹریننگ کا انتظام کرے، اورکسبِ معاش کے کسی کام کو شروع کرنے کے لیے ابتدائی سرمایے کا انتظام بھی کرے۔

سماج کی وہ غریب خواتین جن کے اوپر گھر چلانے کی ذمے داری بھی ہوتی ہے، خصوصی توجہ کی مستحق ہیں۔ ان کے لیے اجتماعی طور پر ایسی تدبیریں کی جائیں کہ وہ آسانی سے اپنا گھر چلاسکیں۔ ان کی فوری ضروریات کی تکمیل کی بھی اہمیت ہے، لیکن وہ بہتر طریقے سے کمانے کی پوزیشن میں آجائیں اس کا انتظام سب سے زیادہ ضروری ہے۔

اپنے مال پر عائد ہونے والی زکات کو اس طرح نکالیں کہ اس کا سماج کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ دیگر خواتین کو بھی اس طرف متوجہ کریں۔

قرآن مجید میں مدین کی دونوں لڑکیوں کی رودادیہ بتاتی ہے کہ جب مرد معاشی ضرورتیں پوری کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں، یا ان کی کمائی گھر کی معاشی ضرورتیں پوری نہیں کررہی ہو، تو یہ ہرگز معیوب نہیں ہے کہ خواتین بھی شرم وحیا کا پاس رکھتے ہوئے کسبِ معاش کے عمل میں شریک ہوجائیں۔

خاندانی شرافت کا وہ تصور جو عورت کو حلال طریقوں سے مال کمانے سے روک دے صحیح تصور نہیں ہوسکتاہے۔ اگر ام المومنین زینبؓ مویشیوں کی کھالیں خود پروسس کرکے فروخت کرسکتی ہیں تو دنیا کی کوئی عورت کسبِ حلال کو اپنی یا اپنے خاندان کی شان کے خلاف کیسے سمجھ سکتی ہے۔ یہ دراصل وہ خود ساختہ سماجی زنجیریں ہیں جو عورت کی پیش قدمی کو روکتی ہیں اور اسے سماج کا بہت کم زور اور غیر مفید عنصر بناکر رکھ دیتی ہیں۔

مسلم خواتین اگر اپنے سماج میں فعال رول ادا کرنا چاہتی ہیں تو انھیں اپنے آپ کو سماج کی غیر اسلامی زنجیروں سے آزاد کرنا ہوگا اور ان تمام مادی اور روحانی قوتوں اور وسائل سے آراستہ ہونا ہوگا،جو اللہ تعالی نے انسانوں کی کام یابی کے لیے ضروری قراردیے ہیں۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2023

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223