ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کی تاریخ بہت قدیم ہے،مدارس ومکاتب نے اس ملک میں جو رول ادا کیا ہے وہ سب پر واضح ہے۔ اس میں ذرا بھی کلام نہیں کہ اس ملک میں مدارس اسلامیہ امت مسلمہ پر اللہ کا بہت بڑا احسان ہیں، اگر مدارس نہ ہوتے تو مساجد کے میناروں سے اذانیں نہ گونجتیں، منبر اماموں سے خالی ہوتے، رمضان میں قرآن سنانے والے حفاظ نہ ہوتے اور جنازہ پڑھانے والوں کے لیے لوگ دردر بھٹکنے پر مجبور ہوتے۔مگراس کے ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ آج جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں جہاں ایک طرف غیروں کی جانب سے مدارس پر یلغار ہے تو وہیں دوسری جانب ہماری کوتاہیوں اور کم عملیوں نے مدارس کی معنویت کو حد درجہ کم زور کردیا ہے۔ مدارس کی تعلیم، نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم کے سلسلے میں ہم نےحددرجہ عدم توجہی اورسردمہری کا مظاہرہ کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج عمومی مدارس باوقارتعلیمی اداروں کی حیثیت سے نہیں پہچانے جاتے اور اس میں قصورسراسر ہمارا ہی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ آج بھی بہت سے مدارس اپنی علمی سرگرمیوں میں بہت چاق وچوبند ہیں مگر سچ یہ ہے کہ وہاں بھی اس طرح کی بھرپور کوششیں نہیں کی گئی ہیں جو مدارس اسلامیہ کو بحیثیت تعلیمی ادارے کے منوا سکیں، اس کی وجوہ ایک دو نہیں بلکہ کئی ہیں، کسی ادارے اور خاص کر دینی تعلیمی ادارے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ملک و ملت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں۔ وہاں سے جو طلبہ فارغ ہوں وہ ملک وملت کی اصلاح وترقی میں نمایاں رول ادا کریں، وہ ملت کے قائد ہوں اور دینی،ملی، سیاسی، معاشی،سماجی، معاشرتی اور دیگر تمام معاملات زندگی میں انسانوں کی رہ نمائی کا فریضہ انجام دیں۔ مگر یہ خواب ابھی حقیقت بننا باقی ہے۔اس فریضے کی ادائیگی کرنے والے افراد ابھی بہت کم ہیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مدارس کو گوناگوں چیلنجوں کا بھی سامنا ہے، یہ چیلنج خارجی بھی ہیں اور داخلی بھی۔ خارجی چیلنجرمیں اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج سیاسی ہے جو قانون کی صورت میں ہمارے مقابلے پرہے۔ ظاہر ہے کہ اس چیلنج کا مقابلہ قانونی طریقے سے ہی کیا جائے گا اور اس کی کوششیں سست یا تیز، مگر ہورہی ہیں۔
مگراس وقت ہمارا موضوع داخلی چیلنج ہیں اور یہ زیادہ اہم بھی ہیں کیوں کہ اگر ان داخلی چیلنجوں پر قابو پالیاجائے تو بہت سے خارجی چیلنج خود اپنی موت مرجائیں گے۔ اور آج ہم انھی داخلی چیلنجوں کو سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔
جو چند بہت ہی نمایاں چیلنج ہمیں درپیش ہیں اور ہماری تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں وہ اس طرح ہیں
- شخصیت سازی پر عدم توجہ
- علم کی پختگی سے پہلے عالم کی سند دینا
- فقہ کو بنیاد بناکر تمام علوم کی تعلیم اور نصاب تعلیم
- طریقہ تعلیم و تدریس
- عربی اور انگریزی زبان کو بحیثیت زبان نہ پڑھانا
- معاشی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے نصاب میں کوئی گنجائش نہ ہونا
- سماجی رابطوں کا کوئی نظم نہ ہونا
- اب میں ایک ایک کرکے ان تمام مسائل پرتفصیلی گفتگو کروں گا۔
۱۔ پہلا چیلنج ہے شخصیت سازی پر عدم توجہ
شخصیت سازی اسلامی تعلیم کا ایک ایسا عنصر ہے جس کے بغیر اسلامی تعلیم کا تصور مکمل نہیں ہے۔ قرآن نے بعثت نبویؐ کا مقصد اس طرح بیان کیا ہےوَیزَكِّیهِمْ وَیعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (آل عمران164: )دراصل جب تک تزکیہ نہ ہو، تب تک تعلیم بے معنیٰ ہے اور تربیت سے خالی تعلیم سے وہ نتیجہ بھی نہیں نکلتا جو اس کا اصل مقصود ہے۔ اسلام میں تعلیم کا تصور اسی وقت تکمیل کو پہنچتا ہے جب تربیت بھی اس میں شامل ہو، تربیت کے بغیر تعلیم کا تصور ادھورا ہے اورمدارس اسلامیہ کا توامتیازہی یہ تھا کہ یہ وہ کارخانے تھے جہاں شخصیت کے نوک وپلک سنوارے جاتے تھے۔
آج شخصیت سازی (personality development) اپنے آپ میں ایک مستقل مضمون ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس پہلو کو مدارس میں مضبوط کریں، ہمارے فارغین کی شخصیت ایسی ہو کہ کوئی ان کو سماج کا کم زور ترین انسان نہ سمجھے بلکہ سماج کا بارعب طبقہ بھی ان سے مرعوب ہو، ان کی بات کو توجہ سے سنے اور اس کولائق عمل سمجھے۔ ہم رسول اللہ ﷺکے پیرو ہیں۔ اور آپؐ کی شخصیت ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ سیرت رسولؐ کو بنیاد بناکر شخصیت سازی کا ایک مکمل نصاب بنایا جائے اور ہمارے طلبہ وطالبات میں یہ اسپرٹ پیدا کی جائے کہ وہ اپنی شخصیت کو اس ماڈل کے مطابق ڈھالنے کو ہی اپنی معراج سمجھیں۔ ہمارے یہاں عام طورپر سیرت کی جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے ابواب کچھ اس طرح ہوتے ہیں، سنہ2 ہجری جنگ بدر، سنہ 3 ہجری جنگ احد، ہم نے خود ہی سیرت کے ابواب کو غزوات پر مشتمل کرکے اپنے سب سے بڑے رہ نما کی شخصیت کو محض غزوات تک محدود کردیا ہے،ہم نے سیرت کے ابواب اس طرح نہیں لکھے کہ محمد رسول اللہﷺ بحیثیت داعی، محمد رسول اللہؐ بحیثیت ٹیچر، محمد رسول اللہؐ بحیثیت مربی، محمدرسول اللہ ؐ بحیثیت والد، محمد رسول اللہؐ بحیثیت شوہر،محمد رسول اللہؐ بحیثیت خسر، محمد رسول اللہؐ بحیثیت داماد، محمد رسول اللہؐ بحیثیت پڑوسی، محمد رسول اللہؐ بحیثیت تاجر، محمد رسول اللہؐ بحیثیت ماہرنفسیات، محمد رسول اللہؐ بحیثیت سیاستداں، محمد رسول اللہؐ بحیثیت سپہ سالار، محمد رسول اللہؐ بحیثیت حکمراں۔ اگر ان کی زندگی کے ہر ہر پہلو پر ہم سیرت کے ابواب لکھیں اور پڑھائیں تو یقینا ہم وہ نمونہ پیش کرسکیں گے کہ جس کی توقع بجاطورپر ہم اس گروہ سے کرتے ہیں جو علوم دین کا حامل ہے۔
لہذاپہلی تجویز یہ ہے کہ ہمارے نصاب میں شخصیت سازی کو اہمیت دی جائے اورسیرت رسولﷺ کی بنیاد پر ایک لازمی نصاب اس طرح کا ضرور شامل کیا جائے۔اس موضوع پر الحمدللہ میں کام کررہا ہوں دعا فرمائیں کہ اللہ اس کام کوبخیروخوبی پایہ تکمیل کو پہنچائے۔آمین
۲۔ دوسرا چیلنج ہے علم کی پختگی سے پہلے عالم کی سند دینا
تقریباً دس سال پرانے ایک سروے کے مطابق 4500 طلبہ ہر سال مدارس سے فارغ ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ برسہابرس سے جاری ہے، ظاہر ہے کہ سماج کی تشکیل میں ان فارغین کا بہت بڑا ہاتھ ہے کیوں کہ آج مدارس کو جانے والوں کی تعداد بھلے ہی 2 فیصد یا 4 فیصد ہومگر یہی 2یا 4 فیصد 100 فیصد مساجد کے ممبروں پر دین کی تعلیم دے رہے ہیں اور اپنی تمام تر ناپختگی کو دین کے نام پر منتقل کررہے ہیں جس کے انتہائی منفی اثرات ہم سب پرعیاں ہیں۔
اس مسئلے کے حل کے طورپر ہم یہ تجویز پیش کرنا چاہتے ہیں کہ عالمیت کا نظام بھی اسی طرح کا ایک باقاعدہ ڈگری کا نظام ہو جس طرح دوسرے تمام ڈگری کورس ہوتے ہیں۔عالمیت کو بھی وہی وقعت اور حیثیت دی جائے جو تمام ڈگری کورسوں کو دی جاتی ہے اور اس کو بھی ایک مستقل شعبہ کے طور پر نظام کا حصہ بنایا جائے۔ اس طرح کے تجربات کیے جارہے ہیں اور الحمدللہ کام یاب ہیں۔ نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد اس نئے نظام سے قریب ہورہی ہے اور بڑی تعداد میں ایسے مدارس کا رخ کررہی ہے۔
اس کا مجوزہ طریقہ یہ ہوگا کہ بارہویں تک کی مکمل تعلیم سب طلبہ وطالبات کو باقاعدہ دی جائے اور پھر جس طرح گیارہویں کلاس میں یہ طے کیاجاتا ہے کہ کس طالب علم کو اپنی تعلیم کس جانب آگے بڑھانی ہے، اسے کیا بننا ہے، کس کو سائنس کے مضامین لینا ہیں،کسے وکیل بننا ہے،کسے ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہے،اور پھر اسی کے مطابق اس کو آگے کانصاب دیاجاتا ہے بالکل اسی طر ح یہ بھی طے کیا جائے کہ کسے علم دین میں اختصاص کرنا ہے۔ بارہویں کے بعد وہ عالمیت کے ڈگری کورس میں داخلہ لے جس کی اصلا ابتدا گیارہویں میں ہی ہوجائے۔ اس کے کئی فائدے ہیں۔جس سیاسی یا قانونی چیلنج کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا تھا،یہ اس کا جواب بھی ہے، اس طرح ملک کے تعلیمی ڈھانچے سے ہم آہنگی ہوگی، بنیادی تعلیم کا حق جوہر شہری کو حاصل ہے اس کے مطابق ہمارے تمام ادارے تعلیم کی تکمیل کرائیں گے اور ان پر کوئی قانونی پکڑ نہیں ہوگی۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے طلبہ وطالبات کے پاس ہائی اسکول اور بارہویں کے سرٹی فکیٹ ہوں گے جو ان کی آئندہ تعلیمی اور عملی زندگی دونوں کے لیے ناگزیر ہیں اور اب اس کے بغیر کام ہی نہیں چلے گا۔
اس کا تیسرا اور سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ علوم دین کا حصول ذہنی تیاری اور آمادگی کے ساتھ ہوگا، طالب علم کی اپنی مرضی اس میں شامل ہوگی، وہ ایک تھوپا ہوا نظم نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ اپنی مرضی سے اس کو اختیار کرے گا تو اس کی دل چسپی بھی اس میں بھرپور ہوگی، بہت توجہ اور بہتر تیاری کے ساتھ جب علوم دینیہ کا حصول ہوگا تو ان شاء اللہ اس کے وہ نتائج سامنے آئیں گے جو مطلوب ہیں۔
عالمیت کے بعد تخصص کے میدان بھی کھلنے چاہئیں، اختصاص (specialization) اور micro-specialization کی راہیں کھولی جائیں،کیا ہی اچھا ہو کہ علوم دینیہ میں ڈگری کورس اور تحقیقی کورس بھی شروع کیے جائیں۔
۳۔تیسرا چیلنج ہے فقہ کو نصاب کا محور بنانا
ہم مانتے ہیں کہ علوم دینیہ کا اصل منبع قرآن وسنت ہیں اور فقہ بھی اسی قرآن وسنت کی روشنی میں تیار کیا گیا ایک مضمون ہے جس کا اصل مقصود اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی بہترین طرز پر ان کی منشاء سے قریب ترین طریقے پر اطاعت کی جائے، مگر ہمارے مدارس میں نصاب کی تشکیل کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ سارا زور فقہ پر ہوگیا ہے، یہاں تک کہ فقہ کی بنیاد پر ہی مدارس کی تقسیم بھی ہوگئی ہے۔مدارس کا اصل کام تو یہ تھا کہ وہ قرآن وسنت کے علوم کی ترویج کریں اور ان کی تعلیم وتدریس کریں مگر قرآن وسنت پیچھے رہ گئے اور فقہ کو بنیاد بنالیا گیا، اس طرح دین کے اصل مآخذ پیچھے رہ گئے بلکہ ان کا استعمال اپنی اپنی فقہ کو ثابت کرنے کے لیے کیا جانے لگا۔
یہ سب سے بڑا المیہ ہے جو آج امت کی اس زبوں حالی کی اصل وجہ ہے، اگر مدارس اپنے اصل مقصد پر قائم رہتے اور قرآن وسنت کی بنیاد پر علوم کی ترویج وتعلیم کرتے تو مسالک کی بنیاد پر شدت اس قدر نہ ہوتی، امت کا شیرازہ نہ بکھرتا اور علوم دین کادریا قرآن وسنت کی بنیاد پرہر سو بہہ رہا ہوتا۔
اس کی اشد ضرورت ہے کہ نصاب کا اصل فوکس قرآن وسنت کو ٹھہرایا جائے اور فقہ کو علم مقصود کے بجائے علم مطلوب کے طورپر پڑھایا جائے۔ مسلکی بنیادوں پر بننے والے مدارس کی ہرگز ہرگز پذیرائی نہ کی جائے بلکہ امت مسلمہ کو بنیان مرصوص بنانے کی اہم ترین کوشش بلا تاخیر شروع کی جائے، کیوں کہ یہ وہ بنیادی کام ہے کہ اگر شروع کردیا گیاتو امت کو اس کے مقام بلند پر فائز کرنے کی تمام ترکوششوں کو انتہائی تقویت ملے گی۔اتحاد امت کا علَم تو مدارس کے ہی ہاتھوں میں ہونا چاہیے کہ مدارس ہی اس مہم کے اصل علم بردار ہیں۔
فقہ کے نصاب کا محوربننے کے کچھ تاریخی محرکات ہیں جن سے آپ حضرات بخوبی واقف ہیں اور جن کی تفصیلات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے، آج ہماری ضرورت یہ ہے کہ ہم اس جانب فوراً متوجہ ہوں اور اس موضوع پر غور و فکر کرکے مثبت حل کی طرف آگے بڑھیں۔
۴۔ چوتھا بڑا چیلنج ہے طریقۂ تعلیم، تدریسیات (padagogy)
مجھے معاف کیجیے گا اگر میں تلخ ہوجاؤں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے جو میں بیان کرنے جارہا ہوں۔میں اصل پہلو پر گفتگوسے پہلے چند حقائق کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں۔
علم کے معنی ہیں جانکاری (یاknowledge)، اورعلم کے معنیٰ سائنس کے بھی ہیں۔ سائنس کا اسلوب تحقیق پر مبنی ہے اس لیے دورحاضر کی لغات یہ کہتی ہیں کہ علم اس وقت تک محض (information) ہے جب تک وہ سیدھا منتقل کیا گیا ہے اوراگر وہ تحقیق کی بنیاد پرمنتقل ہو تو پھر وہ علم (science) بن جاتا ہے۔ جب ہم لفظ علوم استعمال کرتے ہیں تو اس کے معنیٰ بہت سی معلومات کے نہیں ہوتے بلکہ اس کے معنیٰ محض تحقیق پر مبنی معلومات کے ہی ہوتے ہیں یعنی اگر ہم علوم دینیہ کہیں تو اس کا مطلب ہی ہے religious sciences، یعنی دین کی وہ معلومات جس کی بنیاد تحقیق پر ہو۔ ہوسکتا ہے کہ یہاں یہ جواب دے دیا جائے کہ اسلاف کی تحقیق کے نتیجے میں ہی یہ علوم ہم تک پہنچے ہیں، تو میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ تحقیق ایک مستقل عمل ہے، ہمارے بزرگوں نے جو تحقیق کی تھی وہ ان کے حالات و کوائف کے مطابق تھی اور آج ہم کچھ مختلف حالات سے نبردآزما ہیں لہذا ہر دور نئی تحقیق کا متقاضی ہے۔
آج کا ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے مدارس کے طریقۂ تعلیم سے تحقیق نکل گئی ہے۔ معاف فرمائیں مگر سچ یہی ہے کہ مدارس کا ماحول ہی کچھ ایسا بن گیا ہے کہ وہاں کہنے کو تو ٹیچر علم منتقل کرتا ہے مگر اصلًااستاد کا تقدس منتقل ہوتا ہے۔ ٹیچر نے جو فرمایا وہی فرمان آخر ہے، اس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں، اس پر سوال ممکن نہیں،سوال کرنا احترام ٹیچر کے خلاف ہے اور ٹیچر کی بتائی ہوئی بات میں مزید کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ علم کی منتقلی کے اس طریقے نے علم کو فرسودہ بنادیا، اساتذہ کی آراء نے قرآن وحدیث کا درجہ لے لیا اور علم جو مدارج تحقیق سے آگے بڑھتا ہے، زمانے کے سوالات کا جواب دیتا ہے وہ خاموش ہوگیا،نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام ایک فرسودہ مذہب بن کر رہ گیا۔ وہ گویا ایک ایسا دین بن گیا جس کے پاس دور حاضر کے مسائل کا جواب نہیں ہے۔ اس وقت نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد روایتی علما سے متنفر ہے، ان کی طرف متوجہ ہونا ہی نہیں چاہتی کیوں کہ انھیں اپنی الجھن کا حل ہی نہیں ملتا، بلکہ ان کے جائز سوالات بھی یہ کہہ کر ٹھکرا دیے جاتے ہیں کہ یہ بے دین ہوگیا ہے، یونیورسٹی کی تعلیم نے اس کا ذہن بگاڑ دیا ہےیااسے دین سے دور کردیا ہے۔
اگر ہمارے مدارس میں تحقیق کا طریقۂ تعلیم عام ہوتا تو روز بروز اٹھنے والے سوالات کے جوابات مدارس سے ہی ملتے اور پوچھنے والوں پر بےدینی کا لیبل لگا کر انھیں ہمیشہ کے لیے دینی اداروں سے دور نہ کیاگیا ہوتا۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے جس پرفوری توجہ کی اشد ضرورت ہے۔
ایک اور حقیقت جو میں آپ کے سامنے پیش کرناچاہتا ہوں وہ یہ کہ علم دین کے مختلف درجات ہیں، پہلا درجہ تو یہ ہے کہ ماحول سے، خاندان کے بزرگوں سے اور گھروالوں سے ہمیں دین کی کچھ معلومات حاصل ہوجاتی ہیں، کچھ رسوم اور کچھ عبادات ہم بزرگوں سے سیکھ لیتے ہیں، جیسے رمضان کے روزے، جمعہ کی نماز،جب حالات اجازت دیں تو حج،ہماری امت کے 90 فیصد لوگ دین کو اسی طرح جانتے ہیں۔
علم دین کے دوسرےدرجہ میں وہ لوگ ہیں جنھوں نے کچھ کتابیں پڑھ لی ہیں اور ماحول یا خاندان سے جو علم حاصل ہوا تھا اس کی کسی قدر تصدیق انھیں کتابوں سے ہوگئی ہے۔ پھر اس کے بعد کچھ ایسے لوگ ہیں جو علما کی صحبت میں بیٹھتے ہیں اور ان کے علم میں یہ مزید اضافہ ہوجاتا ہے کہ وہ کون سا واحد نقطۂ نظر ہے جو صحیح ہے، اور باقی کون کون سے ہیں جو غلط ہیں۔ پھر وہ حضرات ہیں جو مدارس جاتے ہیں،جن کی تعداد سچر کمیشن کے مطابق 2فیصد اور 2023 ءکے ایک حالیہ سروے کے مطابق 4فیصد ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اساتذہ کے ذریعے منتقل کیے گئے علم کو آخری سمجھتے ہیں، جو عمومی طورپر مسلک کے پیرو ہیں اور اپنے سوا تمام دوسرے مسلکوں کو غلط سمجھتے ہیں اور اپنے مسلک کے لیے انتہائی شدید بھی ہیں۔
انھی میں سے ایک بہت معمولی تعداد ایسے مدارس کی ہے کہ جو دوسرے مسالک کے بارے میں پڑھا تو دیتے ہیں مگر اس انداز سے پڑھاتے ہیں کہ گویا صحیح صرف انھی کا مسلک ہے،دوسرے مسالک پڑھائے توجاتے ہیں مگر اسی پیرائے میں کہ دلائل صرف ہمارے ہی مسلک کے مضبوط ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے نامی مدارس اس بیماری کا شکار ہیں۔
اب آپ ہی بتائیں کہ تحقیق کی بنیاد پر علم کے منتقل کرنے کا سلسلہ جو دراصل مدارس کا بنیادی مقصد تھا وہ کہاں چلا گیا، تحقیق کے عنصر سے ہمارے مدارس بالکل خالی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج مدارس اپنی معنویت کھو چکے ہیں، وہ سماج کے وہ ادارے نہیں رہے جن کی طرف لوگ اپنے ہر مسئلے کے لیے نظراٹھا کر دیکھ سکیں، شاذونادر ایک دو دہائی میں اگر تحقیق کی بنیاد پر کوئی صاحب فکرکسی نئے مسئلے کا کوئی حل پیش کرتا بھی ہے تو بجائے یہ کہ اس کا جائزہ لیا جائے، قرآن وحدیث کے ترازو میں تول کر اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جائے اور یہ جانچا جائے کہ کیا واقعی وہ قرآن وسنت کے مطابق وقت کے مسائل کا جواب دے رہا ہے یا نہیں،ہوتا کچھ یوں ہے کہ اس پر یہودی ایجنٹ ہونےکا الزام لگادیا جاتا ہے، اس کو امریکی سازش کہا جاتا ہے اور امت کو پھر اسی مزاج کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے جہاں علم کے بجائے تقدس منتقل ہوتا ہے اورتحقیق کا دروازہ بند کردیا جاتا ہے، جب کہ اللہ کی کتاب جو قیامت تک پڑھی جائے گی چیخ چیخ کر مطالبہ کررہی ہے کہ اس میں تدبر کرو، اس میں تحقیق کرو،اس میں تفکر کرو۔
آج شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ طریقۂ تعلیم کو یکسر بدلا جائے، تحقیق وتفکر کی بنیاد پر تعلیم ہو، سوال وجواب کا سلسلہ پھر سے شروع ہو۔
دوسری اہم چیز جو اسی کے ذیل میں ہے وہ یہ کہ مدارس میں بھی اساتذہ کی ٹریننگ کا نظم کیا جانا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اساتذہ جو قرآن پڑھارہے ہیں، حدیث پڑھا رہے ہیں، انھیں کسی ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہے، ٹریننگ گویا ان کی توہین ہے، مگر میں عرض کروں کہ تعلیم و تربیت بھی ایک پیشہ ہے اور ہر پیشہ کچھ تربیت چاہتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے تمام ساتھیوں کی تربیت کی اور ہمیں سیرت سے یہی سبق ملتا ہے کہ ہم ہر کام جس قدر خوش اسلوبی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کرسکتے ہوں ہمیں کرنا چاہیے۔ مگر اس کے برعکس ہوا یوں کہ ہم نے اس میدان کی طرف دیکھا ہی نہیں، دور سے ہی دروازہ بند کرلیا اور اس کے فوائد سے محروم ہوگئے۔اگرہم نے بھی اس ٹریننگ کے دروازے اپنے مدارس کے اساتذہ کے لیے کھولے ہوتے تو یقینا مدارس کا ماحول مختلف ہوتا۔ تعلیم کے ساتھ تربیت کرنے کے ہنرسے بھی ہمارے اساتذہ بھرپور واقفیت رکھتے، نفسیات کی سمجھ ہوتی، طلبہ کے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرنا آتا۔ سوال کرنے والے طالب علم کا بین السطور سمجھ میں آتا اور سوال کرنے والے کی سمجھ کے مطابق قرآن وحدیث کے صحیح مطالب سمجھانے اور سکھانے کا سلیقہ آتا۔ تعلیم کا مقصد علم کودلوں میں اتاردینا ہے مگر ہمارا طریقۂ تعلیم اپنی بات کہہ دینے سے آگے کے مراحل سے سروکار ہی نہیں رکھتا۔ اگر یہ ٹریننگ دی گئی ہوتی تو یقینا دلوں میں علم کواتار دینے کا فن بھی ہمارے اساتذہ کو آگیا ہوتا اور تعلیم کی پختگی کی نوعیت ہی الگ ہوتی۔
تیسری چیزجواس ذیل میں اہم ہے وہ ہے ٹیکنا لوجی کا استعمال۔ ہم ٹیکنالوجی سے خائف ہوتے ہیں، اس کو دشمن کا ہتھیار سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف محاذ کھڑا کرتے ہیں، مگر ہوتا یوں ہے کہ یہ تمام ایجادات دبے پاؤں ہمارے گھروں میں داخل ہوجاتی ہیں اور ہماری زندگیوں کا ایسا حصہ بن جاتی ہیں کہ ان سے جان چھڑانا خود وبال جان ہوتا ہے۔ آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کی بھرمار ہے اور ہم اس دوڑ میں پچھڑتے چلے جارہے ہیں،ہم نے اس کے خطرات کو دیکھا اور اس سے کنارہ کشی کی ٹھان لی مگر سچ یہ ہے کہ ہم خود اس کا شکار بن گئے، اگر ہم نے اس ٹیکنالوجی کو مسلمان کرنے کی کوشش کرلی ہوتی تو یہی ٹیکنالوجی ہماری غلام ہوتی اور ہم اسے اپنی ضرورتوں کے مطابق استعمال کررہے ہوتے۔ یہ موقع ابھی ختم نہیں ہواہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سمت بھر پور توجہ کی جائے اور فوری طورپر اس کے مضرات سے بچتے ہوئے اس کے فائدہ مند عناصر کو استعمال میں لایا جائے اور خاص طور پرتعلیم کے میدان میں جو اس کے بے پناہ اور مسلم مفید تجربات ہیں ان کو مدارس میں بھی استعمال کیا جائے، نہ صرف یہ کہ چھوٹے درجات میں بلکہ عالم وفاضل کی کلاسوں میں بھی اس ٹیکنالوجی کا بھرپوراستعمال ہونا چاہیے۔ٹیکنالوجی کا استعمال کیسے ممکن ہے اورکیا کچھ کیا جاسکتا ہے یہ خود میں ایک مستقل موضوع ہے جس پر کسی اور موقع سے لمبی گفتگو کی جاسکتی ہے لیکن یہ حقیقت بہرحال واضح کردینا ضروری ہے کہ تعلیم کے میدان میں اس کا بھر پور فائدہ مدارس کو بھی اٹھانا چاہیے اور طریقہ ٔتعلیم میں اس کی شمولیت کو لازمی بنانا چاہیے۔
۵۔ پانچواں چیلنج ہے عربی اور انگریزی زبان کو بحیثیت زبان نہ پڑھانا
ہمارے فارغین مدارس قرآن وحدیث کے عالم تو ہوتے ہیں مگر قرآن وحدیث کی زبان عربی سے ان کی زیادہ واقفیت نہیں ہوتی۔ان کی بڑی تعداد نہ عربی لکھ سکتی ہےاور نہ ہی بول سکتی ہے۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے۔ آپ سوچئے کہ جس زبان میں قرآن حدیث ہے ہمارا اس پر عبور نہیں ہے اور ہم یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ہم قرآن و حدیث کے رموز سے واقف ہیں۔ یہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا حل یہ ہے کہ زبان کو زبان کی طرح پڑھایا جائے۔ ابتدائی برسوں میں ساری کتابیں مادری زبان میں ہوں اور ساتھ ہی عربی اور انگریزی زبان اس طرح سکھائی جائے کہ آنے والے برسوں میں براہ راست عربی زبان میں تعلیم ہوسکے۔ ایسا نہ ہو کہ پہلے عبارت پڑھی جائے پھر اس کا ترجمہ کیا جائے اور پھر بات سمجھادی جائے، بلکہ عربی زبان سے براہ راست قرآن وسنت اور دیگر علوم کو بالتحقیق پڑھایا جائے۔ کیا،کیوں اور کیسے کوتعلیم و تحقیق کی بنیاد بنایا جائے۔
اسی کے ساتھ انگریزی زبان میں لازماً مہارت پیدا کرائی جائے اور زبان سکھانے کے جدید طریقوں کا بھرپور استعمال کیا جائے، انگریزی زبان ایک بین الاقوامی زبان ہے، اس سے واقفیت ایک داعی کا لازمیفریضہ ہے۔
اسی ذیل میں چند اور سفارشات ہیں جو میں مختصراً آپ حضرات کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں،
قرآن کو پڑھاتے وقت اس بات کا پورا لحاظ رکھا جائے کہ قرآن کتاب دعوت ہے۔ قرآنی احکام کو پڑھانے میں اس بات کا پورا لحاظ رہے کہ اس کے ایک ایک حکم کا آج کے دور میں انطباق کیسےہوگا۔ یعنی قرآن کی تدریس محض ترجمہ یا معمولی تفسیر کی حد تک نہ ہو، بلکہ ایک عملی کتاب کی طرح پڑھایا جائے اور اپنے حالات و ماحول پر اس کا انطباق کیا جائے۔
حدیث کو پڑھاتے وقت محض عبارتوں پر توجہ نہ رہے بلکہ روایت کی تحقیق ضرور کرائی جائے، حدیث کا سیاق و سباق بھی ضرور پڑھایا جائے تاکہ طلبہ میں اپنے دور پر اس کے نفاذ و اطلاق (implementation) کی صلاحیت پیدا ہو اور انھیں یہ سکھایا جائے کہ یہ قرآن وحدیث دنیا کے وہماڈرنترین مضامینہیں جو قیامت تک کے لیے قابل عمل ہیں اور قیامت تک اٹھنے والےہر مسئلے کا جواب ہیں۔
فقہ کو علم مقصود نہیں بلکہ علم مطلوب کے طورپر پڑھایا جائے اور فقہ مقارن کو خصوصی جگہ دی جائے تاکہ اسلام کے عالمی وآفاقی مذہب ہونے کا احساس ہردل میں جاگزیں ہوسکے۔
فقہ کو پڑھاتے وقت مقاصد شریعت کو بھی لازما پڑھایا جائے اس لیے کہ علما کے لیے لازمی ہے کہ وہ احکام شریعت کی حقیقت اور اس کی حکمتوں سے اچھی طرح واقف ہوں، مزیداس فن کے بھی ماہر ہوں کہ بدلتے حالات میں قرآنو حدیث کے احکامات کا انطباق کس طرح کیا جاتا ہے، اگر وہ اس علم سے واقف نہ ہوئے تو پھر مدارس کو اس شکوے کا سامنا رہے گا کہ مدارس کے پاس اٹھنے والے نئے نئے سوالات یا مسائل کا کوئی تشفی بخش حل نہیں ہے۔ لہذامقاصد شریعت کو نصاب میں لازما جگہ دی جائے۔
تاریخ اسلامی اور تاریخ تہذیب اسلامی کو خصوصی توجہ کے ساتھ پڑھایا جائے، لازمی ہے کہ ہم تاریخ کا ایک مکمل نصاب بنائیں جو دور حاضر تک محیط ہو اور اس کی تقسیم اس طرح کریں کہ نصاب میں اس کو خاطر خواہ جگہ بھی ملے اور نصاب بھی بوجھل نہ ہو۔
۶۔چھٹا چیلنج ہے معاشی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے نصاب میں کوئی گنجائش نہ ہونا
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہمارا ایک بڑا مسئلہ فارغین مدارس کے معاش کا ہے۔طلبہ کو معاش سے جوڑنا بھی ہماری ذمہ داری ہے،اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہم پوری ملت کے مجرم ہوں گے۔معاش انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ فارغین مدارس کا معاشی ذمہ دار امت کو بنانا ایک کوتاہی ہے جو ہم سے ہوتی آرہی ہے مگر اب اس کی اصلاح کی اشدضرورت ہے۔ یہ دور مادیت پرستی کا دور ہے اور اس دور میں عزت کے حصول کے لیے حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ ہمارے مدارس اپنے طلبہ کومعاش سے جوڑنے کے لیے ہنر سکھانے کا نظم بھی کریں تاکہ عزت نفس کو بازار میں بیچنے کی چیز بننے سے بچایا جاسکے۔
اس کے حل کے لیےمدارس میں ایسے مختلف النوع ہنر کی تعلیم لازما دی جائے جو طلبہ کو معاش سے جوڑ سکیں، ایسا نہ ہو کہ ان کے پاس معاش کا کوئی راستہ نہ ہو اور پھر وہ سماج کا کم زور ترین طبقہ بن کردردر چندے مانگنے پر مجبور ہوں، گزر اوقات ان کے لیے ایک معمہ بن جائے اور وہ معاشی تنگی کے منفی اثرات کا شکار ہوجائیں،نتیجتا مدارس کا وقار بھی مجروح ہو اور مدارس کی تعلیم بھی بے معنی کہلائے۔
ہنر کی تعلیم کے تعلق سے چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں:
مختلف النوع ہنر کی تعلیم دی جائے اور وقتا فوقتا اس پر غور کیا جائے۔ ہرپانچ سال میں بعض ہنر اپنا وجود کھودیتے ہیں لہذا ایسے ہنر سکھائے جائیں جو وقت کی ضرورت بھی ہوں اور بہتر یافت کا ذریعہ بھی۔
ہنر سکھانے میں طلبہ کے ذوق کا لازما ًلحاظ رکھا جائے اور کوئی بھی ہنر ان پر تھوپا نہ جائے بلکہ ان کی مرضی اور دل چسپی کو ہمیشہ ملحوظ رکھا جائے۔
ہنر سکھانے کا وقت اور اس کا نصاب ایسا ہو جو اصل تعلیم کو قطعا متاثر نہ کرے، یہ ایکExtra-Curricularکے طورپر ہو مگر لازمی ہو،اور اصل مقصد سے طلبہ کوقطعاً دور نہ کرے۔
ایسے افراد کی خدمات حاصل کی جائیں جو کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سکھانے کا ہنر جانتے ہوں، ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کی جائے اور بہتر سے بہتر مواد کا سہارا لے کر اس کام کو انجام دیا جائے۔
ایسے اداروں سے رابطہ کیا جائے اور ان کے ساتھ باقاعدہMoUsسائن کیےجائیں جو اس میدان میں معروف ہوں اور سرٹی فکیٹ دینے کے مجاز ہوں تاکہ مدارس کے طلبہ کو مختلف عملی میدانوں میں معاش حاصل کرنے کے بہتر مواقع حاصل رہیں۔
مدارس کیریئر کونسلر کو بھی لازما ًرکھا جائے جو طلبہ کی مختلف معاشی اور عملی راستوں کی طرف نشان دہی کرسکیں۔ ہم ایسے علما تیار کریں جن کا اوڑھنا بچھونا تو علم دین ہو، لیکن ان کے پاس معاش کے مختلف النوع ذرائع بھی ہوں۔
۷۔ساتواں چیلنج ہے سماجی رابطوں کا کوئی نظم نہ ہونا
مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والے دونوں ہی کا سماج سے ایک مثبت اور مستقل رابطہ ضروری ہے۔ سماجی رابطہ دعوت دین کی بھی ایک اہم ضرورت ہے۔ ان سماجی رابطوں کا نظم نہ ہونے کے نتیجے میں داعی اور مدعو دونوں کے درمیان ایک اجنبیت کی کیفیت ہوتی ہے، یہ اجنبیت دعوت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ایسے مواقع بھی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو ملیں کہ وہ دوسرے اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ تعامل (interaction) کر سکیں، مدارس کے طلبہ دوسرے کالجوں میں جائیں اورکالجوں کے طلبہ مدارس میں آئیں اور ایک فضا دونوں کےدرمیان بنے تاکہ اجنبیت کا ماحول ختم ہو۔ شخصیت سازی میں بھی یہ چیز ان شاء اللہ بہت مفید ہوگی۔ مگر ضروری یہ بھی ہے کہ اس کے لیے مضبوط پیمانے بنائے جائیں تاکہ مدارس کے طلبہ کو کسی امکانی ذہنی انتشار سے بھی بچا یاجاسکے۔ ڈر کی نفسیات سے باہر نکل کر اگر عمل آوری کی نفسیات کا سہارا لیا جائے گا تو ان شاء اللہ اس میں کوئی دشواری نہیں آئے گی۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ادیان ہندی اور ادیان عالم کا مطالعہ بھی ایک مضمون کے طورپر مدارس میں لازما ہو۔ یہ ضروری ہے کہ ہمارے مدارس کے فارغین ان ادیان کو بخوبی جانتے ہوں کیوں کہ ان ادیان کو ماننے والوں میں ہی انھیں دعوت دین کا کام کرنا ہے۔ ان کے سوالات کے اصل مبنع کو جانیں تاکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں انھیں مطمئن کرسکیں۔
آخر میں اپنی بات کو اس درخواست کے ساتھ ختم کرنا چاہوں گا کہ اگر مجھ سے کہیں کچھ سہو ہوا ہو یا جذبات کے ہجوم میں میرے الفاظ کسی زیادتی کے مرتکب ہوئے ہوں تو خدارا مجھے معاف کریں، اللہ ہم سب کو سیدھا راستہ دکھائے، ان لوگوں کا راستہ جن پرتیرا انعام ہوا، نہ کہ ان کا جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ ان کا جو گم راہ ٹھہرائے گئے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2024